سیدنا امیر معاویہؓ کامال کی خاطر سیدنا حکم بن عمروؓ کو قید کرنا
محمد ذوالقرنينسیدنا امیر معاویہؓ کامال کی خاطر سیدنا حکم بن عمروؓ کو قید کرنا
بعض شیعہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سیدنا امیر معاویہؓ جو مال کے لالچی تھے اور انہوں نے سیدنا حکم بن عمرو غفاریؓ کو حکم دیا کہ مالِ غنیمت میرے پاس لے آؤ لیکن انہوں نے اس پر عمل نہ کیا تو سیدنا امیر معاویہؓ نے ان کو قید کر دیا اور وہ وہیں فوت ہوگئے۔
اس روایت کی 3 اسناد ہیں روایت کچھ یوں ہے۔
پہلی سند:
حدثنی ابوبكر بن بالوية ثنا محمد بن احمد بن النضر ثنا معاويه بن عمرو ثنا ابواسحاق الفزاري عن هشام عن الحسن
متن: حسن کہتے ہیں کہ زیاد نے سیدنا حکم بن عمروؓ کو خراسان کا والی مقرر کیا ان لوگوں کے ہاتھ بہت سارا مالِ غنیمت لگا سیدنا امیر معاویہؓ نے ان کی جانب (زیاد کے ذریعہ) پیغام بھیجوایا کہ پورا مال امیر المؤمنین (یعنی سیدنا امیر معاویہؓ) کے لئے رکھ لیا جائے اور اس میں سے سونا اور چاندی اور کچھ بھی مسلمانوں میں تقسیم نہ کیا جائے اس خط کے جواب میں سیدنا حکمؓ نے زیاد کو خط لکھا اما بعد تم نے خط میں لکھا ہے اور اس میں امیر المؤمنین کا تذکرہ کیا ہے جبکہ میرے پاس امیر المؤمنین کے خط سے پہلے اللّٰہ کی کتاب موجود ہے میں اللّٰہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر کسی انسان پر زمین اور آسمان ڈال دیے جائیں لیکن وہ آدمی اللّٰه سے تقویٰ اختیار کرئے تو اللّٰہ اس کے لئے کوئی نہ کوئی راہ نجات بنا دیتا ہے والسلام اس کے بعد سیدنا حکمؓ منادی کو حکم دیا کہ پورے شہر میں اعلان کر دو کہ کل صبح تمام لوگ اپنے مالِ غنیمت لینے میرے پاس آئیں اگلے دن سیدنا حکمؓ نے پورا مال لوگوں میں تقسیم کر دیا سیدنا حکم بن عمروؓ کے اس عمل پر ناراض ہو کر سیدنا امیر معاویہؓ نے ان کو معزول کر دیا اور قید میں ڈال دیا اور وہ قید میں ہی فوت ہوگئے۔
(مستدرک الحاکم (اردو) جلد 5 روایت 5869)
اسناد کا تعاقب: اس روایت کا راوی ہشام بن حسان قردوسی ثقہ ہے پر تدلیس کرتا تھا اور اس روایت میں بھی تدلیس کر رہا ہے ہشام عن الحسن اور یہ تیسرے طبقہ کا مدلس ہے جب تک سماع کی تصریح نہ کرئے اس درجہ کے راوی کی روایت قبول نہیں کی جاتی۔
امام ابنِ حجرؒ نے ہشام بن حسان کو اپنے مدلسین کے تیسرے طبقہ میں شامل کیا ہے۔
(تعریف اہل التقديس بمراتب الموصوفين بالتدليس (عربی) صحفہ 47)۔
اور تیسرے طبقہ کے مدلسین کے بارے میں فرماتے ہیں۔
یہ وہ مدلسین ہیں جن کی (معنن) حدیث سے آئمہ نے احتجاج نہیں کیا جب تک سماع کی تصریح نہ کریں ان کی (معنن) احادیث مطلقاً رد کی جاتی ہیں۔
(تعریف اہل التقديس بمراتب الموصوفين بالتدلیس (عربی) صحفه 13)۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہشام کی یہ روایت قابلِ قبول نہیں کیونکہ یہ تدلیس کر رہا ہے اور ایسا مدلس راوی جو درجہ دوم کا مدلس نہ ہو اور سماع کی تصریح نہ کرئے اس کی معنن مطلقاً رد ہوتی ہے اس سے احتجاج جائز نہیں۔
یہ روایت مختلف الفاظ کے ساتھ مختلف کتب میں موجود ہے۔
(مصنف ابنِ ابی شیبہ (اردو) جلد 9 روایت 31303)۔
(بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث (عربی)، صحفہ 689 روایت 673)۔
(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (عربی) جلد 1 صحفه 357،358)۔
ان کُتب میں بھی یہ روایت ہشام کی سند سے ہی ہے اور ان میں بھی تدلیس کر رہا ہے ہشام عن الحسن اور ہشام عن ابنِ سیرین اور سماع کی تصریح موجود نہیں اس لئے اس روایت سے استدلال جائز نہیں۔
دوسری سند:
اخبرنا محمد بن حسين بن حفص الاشنانى ثنا حسين بن حريث ثنا اوس بن عبداللّٰه بن بريده حدثنی سهل عن ابيه عبداللّٰه۔
(الكامل في ضعفاء الرجال (عربی) جلد 2 صحفہ 329)۔
اسناد کا تعاقب: اس سند میں دو علتیں ہیں۔
پہلی علت:
اس روایت کی سند میں اوس بن عبد اللہ بن بریدہ ہے یہ راوی متروک الحدیث ہے اس کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔
امام ذھبیؒ اس کے بارے میں نقل کرتے ہیں:
امام بخاریؒ کہتے ہیں فیہ نظر امام دار قطنیؒ کہتے ہیں یہ متروک ہے امام احمد بن حنبلؒ نے اس کی روایت کو منکر کہا ہے۔
(میزان الاعتدال (اردو) جلد 1 صحفه 375)۔
امام بخاریؒ اپنی الضعفاء میں اس کے بارے میں کہتے ہیں۔
اوس بن عبد اللہ بن بریدہ فیہ نظر۔
(كتاب الضعفاء للبخاری (عربی) صحفه 132)
اور امام بخاریؒ جب کسی راوی کے بارے میں فیہ نظر کہیں تو اس سے مراد راوی پر متروک و مہتم کی جرح ہوتی ہے۔
جیسا کہ امام ابنِ حجرؒ عسقلانی فرماتے ہیں:
امام بخاریؒ اس کے بارے میں فیہ نظر کہتے ہیں جو راوی متروک ہوا۔
(القول المسدد (عربی)، صحفه 17)۔
اور امام ذھبیؒ فرماتے ہیں۔
امام بخاریؒ جب کسی راوی کو فیہ نظر کہیں اس سے مراد ان کے نزدیک اس راوی کا متہم ہونا ہوتا ہے۔
(الكاشف للذهبی (عربی) جلد 1 صحفه 68)۔
امام جلال الدین سیوطیؒ فرماتے ہیں۔
امام بخاریؒ اس راوی کے بارے میں فیہ نظر کہتے ہیں جو متروک ہوا۔
(تدریب الراوی (عربی) جلد 1 صحفہ 188)۔
ان دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ اوس بن عبداللّٰہ بن بریدہ متروک الحدیث روای ہے اور اس کی روایت سے استدلال جائز نہیں۔
دوسری علت:
اوس بن عبداللّٰہ کا بھائی اسہل بن عبداللہ بن بریدہ منکر الحدیث ہے اس کے حالات ملاحظہ فرمائیں۔
امام ذھبیؒ اس کے بارے میں فرماتے ہیں:
امام ابنِ حبانؒ کہتے ہیں یہ منکر الحدیث ہے اس کے حوالے سے اس کے بھائی اوس نے ایک منکر روایت نقل کی ہے (امام ذھبیؒ کہتے ہیں) میں کہتا ہوں وہ روایت جھوٹی ہے جو اس نے اپنے بھائی اور باپ کے حوالے سے نقل کی ہے۔
(میزان الاعتدال (ارود) جلد 3 صحفه 328)
امام ابنِ جوزیؒ اس کو الضعفاء میں شامل کر کے کہتے ہیں:
امام ابنِ حبانؒ کہتے ہیں یہ منکر الحدیث ہے۔
(كتاب الضعفاء والمتروکین (عربی) جلد 2 صحفہ 28)
ان دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ اوس بن عبداللّٰہ بن بریدہ متروک الحدیث اور اس کا بھائی سہل بن عبد اللّٰہ بن بریدہ منکر الحدیث راوی ہے اور ان کی روایات سے استدلال جائز نہیں۔
تیسری سند:
اخبرنا محمد بن ناصر قال اخبرنا ابو الحسين بن مبارك بن عبد الجبار قال اخبرنا ابو الحسن احمد بن عبد اللّٰه الانماطى قال اخبرنا ابو حامد بن حسين قال اخبرنا احمد بن حارث بن محمد بن عبد الكريم المروزي قال حدثنى جدى محمد بن عبد الكريم قال اخبرنا الهيثم بن عدى قال اخبرنا بشام بن حسان الفردوسی قال حدثنا محمد بن سيرين قال۔
(المنتظم في تاریخ الملوک والامم (عربی) جلد 5 صحفہ 229)۔
اسناد کا تعاقب: اس روایت کا راوی ہیثم بن عدی کذاب و متروک الحدیث ہے اس کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔
امام ذھبیؒ اس کے ترجمہ میں فرماتے ہیں:
امام بخاریؒ کہتے ہیں یہ ثقہ نہیں ہے یہ جھوٹ بولتا تھا یحییٰ بن معینؒ کہتے ہیں یہ ثقہ نہیں ہے جھوٹ بولتا تھا امام ابوداؤدؒ کہتے ہیں یہ کذاب ہے امام نسائیؒ اور دیگر حضرات نے کہا ہے یہ متروک الحدیث ہے عباس دوری کہتے ہیں ہمارے اصحاب نے ہمیں یہ بات بتائی کہ ہیثم کی کنیز نے ہمیں یہ بتایا کہ میرا آقا رات کے زیادہ تر حصہ میں نماز ادا کرتا رہتا تھا اور جب صبح ہوتی تو وہ بیٹھ کر جھوٹ بولنا شروع کر دیتا تھا۔
(میزان الاعتدال (اردو) جلد 7 صحفہ 130،131)
امام ابنِ حجرؒ اس کے بارے میں فرماتے ہیں؛
امام بخاریؒ اور یحییٰؒ کہتے ہیں یہ کذاب ہے امام ابوداؤدؒ اور امام نسائیؒ کہتے ہیں یہ متروک ہے ، امام نسائیؒ مزید کہتے ہیں یہ منکر الحدیث ہے امام ابوحاتمؒ کہتے ہیں یہ متروک الحدیث ہے امام عجلیؒ کہتے ہیں یہ کذاب ہے امام ساجیؒ کہتے ہیں یہ کذاب ہے امام حاکمؒ کہتے ہیں یہ ثقہ راوی سے منکر احادیث بیان کرتا ہے۔
(لسان المیزان (عربی) جلد 8 صحفه 361 تا 363)۔
ان جروحات سے ثابت ہوتا ہے کہ ہیثم بن عدی کذاب اور متروک الحدیث راوی ہے اور اس کی روایت کو دلیل بنانا جائز نہیں۔
اور اس واقعہ کے برعکس جو واقعہ صحیح سند سے منقول ہے وہ امام ابنِ عساکرؒ نے نقل کیا۔
قتادہ کہتے ہیں جب سیدنا حکم بن عمرو غفاریؓ کا جوابی خط زیاد کے پاس پہنچا تو اس نے جوابی خط اور اپنے مکتوب کو سیدنا امیر معاویہؓ کے پاس بھیجا جب یہ مکتوب اور خط سیدنا امیر معاویہؓ کے پاس پہنچا تو انہوں نے سب کے سامنے زیاد کے خط کا تذکرہ کیا اور سیدنا حکم بن عمرو غفاریؓ کے جواب کو بیان کیا کہ سیدنا حکمؓ نے مرکز کی طرف سے دی گئی ہدایات کے بر عکس اموالِ غنائم میں سے خمس کو الگ کر کے باقی مال مجاہدین میں اس وقت تقسیم کر دیا سیدنا امیر معاویہؓ نے فرمایا تم لوگوں کی کیا رائے ہے؟ اس پر بعض نے کہا کہ سیدنا حکمؓ کو اس عمل کی وجہ سے صلیب پر چڑھایا جائے بعض نے کہا ان کے اعضاء کاٹ دیے جائیں بعض نے کہا جتنا مال انہوں نے تقسیم کیا ہے اس کا تاوان وصول کیا جائے ان آراء کے بعد سیدنا امیر معاویہؓ نے فرمایا تم لوگ کتنے بڑے وزیر ہو تم سے تو فرعون کے وزیر اچھے تھے تم مجھے کہتے ہو کہ ایسے شخص کو سزادوں اور اس کے اعضاء کاٹ دوں جس نے اللّٰہ کے فرمان کو میرے حکم پر ترجیح دی اور رسول اللّٰہﷺ کی سنت کو میری بات پر مقدم رکھا اس شخص (سیدنا حکمؓ) نے بہت اچھا اور عمدہ کردار ادا کیا اور اچھے عمل کا مظاہرہ کیا (پھر قتادہ کہتے ہیں) یہ واقعہ سیدنا امیر معاویہؓ کے عمدہ مناقب میں شمار ہوتا ہے۔
(تاریخِ مدینہ دمشق لابنِ عساکر (عربی) جلد 59 صحفہ 170)۔
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا امیر معاویہؓ کے پاس جب سیدنا حکم بن عمرو غفاریؓ کا جوابی خط پہنچا تو انہوں نے ان کو سزا دینے کی بجائے ان کی تعریف و مداح کی اور جن وزیروں نے ان کو سزا دینے کا مشورہ دیا تو ان کی تذلیل کی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا امیر معاویہؓ کو مال کا کوئی لالچ نہیں تھا اور نہ ہی وہ ظالم تھے اور نہ ہی انہوں نے سیدنا حکمؓ کو قید کر وایا اور جن روایات میں ایسا کچھ ملتا ہے وہ سب روایات باطل ہیں۔