اہل باطل کی مجالس میں بیٹھنے سے پرہیز کرنا
سورۂ انعام کی آیت شریفہ نمبر 68 وَاِذَا رَاَيۡتَ الَّذِيۡنَ يَخُوۡضُوۡنَ فِىۡۤ اٰيٰتِنَا اہلِ باطل کی مجلس سے رُخ پھیرنے کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ اُس مجلس سے اُٹھ جائیں۔ دوسرے یہ کہ وہاں رہتے ہوئے کسی دوسرے شغل میں لگ جائیں، ان کی طرف التفات نہ کریں۔ لیکن آخر آیت میں بتلا دیا گیا کہ مراد پہلی ہی صورت ہے کہ ان کی مجلس میں بیٹھے نہ رہیں، وہاں سے اُٹھ جائیں۔
آخر آیت میں فرمایا کہ اگر تم کو شیطان بھلا دے، یعنی بھول کر ان کی مجلس میں شریک ہو گئے خواہ اس طرح کہ ایسی مجلس میں شریک ہونے کی ممانعت یاد نہ رہی، یا اس طرح کہ یہ یاد نہ رہا کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات اور حضور اکرمﷺ کے خلاف تذکرے اپنی مجلس میں کیا کرتے ہیں تو اس صورت میں جس وقت بھی یاد آ جائے اسی وقت اس مجلس سے اٹھ جانا چاہئے یاد آجانے کے بعد وہاں بیٹھا رہنا گناہ ہے۔ دوسری ایک آیت میں بھی یہی مضمون ارشاد ہوا ہے، اور اس کے اخیر میں یہ فرمایا ہے کہ اگر تم وہاں بیٹھے رہے تو تم بھی انہیں جیسے ہو۔
امام رازیؒ تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں کہ اس آیت کا اصل منشا گناہ کی مجلس اور مجلس والوں سے اعراض اور کنارہ کشی ہے، جس کی بہتر صورت تو یہی ہے کہ وہاں سے اٹھ جائے لیکن اگر وہاں سے اٹھنے میں اپنی جان یا مال یا آبرو کا خطرہ ہو تو عوام کے لئے یہ بھی جائز ہے کہ کنارہ کشی کی کوئی دوسری صورت اختیار کر لیں مثلاً کسی دوسرے شغل میں لگ جائیں اور ان لوگوں کی طرف التفات نہ کریں مگر خواص جن کی دین میں اقتداء کی جاتی ہے اُن کے لئے وہاں سے بہرحال اُٹھ جانا ہی مناسب ہے۔
آگے تحریر فرماتے ہیں امام جصاصؒ نے احکام القرآن میں فرمایا کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو ہر ایسی مجلس سے کنارہ کشی اختیار کرنا چاہئے جس میں اللہ تعالیٰ یا اس کے رسولﷺ یا شریعت اسلام کے خلاف باتیں ہو رہی ہوں، اور اس کو بند کرنا یا بند کرانا یا کم از کم حق بات کا اظہار کرنا اس کے قبضہ واختیار میں نہ ہو، ہاں اگر ایسی مجلس میں بہ نیت اصلاح شریک ہوں اور ان لوگوں کو حق بات کی تلقین کریں تو مضائقہ نہیں۔
اور آخر آیت میں جو یہ ارشاد ہے کہ یاد آجانے کے بعد ظالم قوم کے ساتھ نہ بیٹھو، اس سے امام جصاصؒ نے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ ایسے ظالم ، بے دین اور دریدہ دہن لوگوں کی مجلس میں شرکت کرنا مطلقاً گناہ ہے، خواہ وہ اُس وقت کسی ناجائز گفتگو میں مشغول ہوں یا نہ ہوں، کیونکہ ایسے لوگوں کو ایسی بے ہودہ گفتگو شروع کرتے ہوئے دیر کیا لگتی ہے۔
وجہ استدلال کی یہ ہے کہ اس میں مطلقاً ظالموں کے ساتھ بیٹھنے کو منع فرمایا گیا ہے، اس میں یہ شرط نہیں کہ وہ اُس وقت بھی ظلم کرنے میں مشغول ہوں ۔
قرآن مجید کی ایک دوسری آیت میں بھی یہی مضمون واضح طور پر بیان ہوا ہے ، فرمایا وَلَا تَرۡكَنُوۡۤا اِلَى الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ (سورۃ ھود: آیت نمبر، 113) یعنی ظالم لوگوں کے ساتھ میل جول اور میلان نہ رکھو، ورنہ تمہیں بھی جہنم کی آگ سے پالا پڑے گا ۔
(محمود الفتاوىٰ: جلد، 8 صفحہ، 472)