غیر مسلم کا مسجد میں عبادت کرنے کا حکم
غیر مسلم کا مسجد میں عبادت کرنے کا حکم
سوال: اگر کسی مسجد میں عیسائیوں کا پادری آکر عبادت کر لے تو یہ جائز ہے یا نہیں؟ اور اسکی اجازت دی جائے گی یا نہیں؟ جن روایات میں وفد نجران کا مسجد میں آنا اور عبادت کرنا مذکور ہے اسکی کیا حیثیت ہے؟
جواب: کفار کا مساجد میں داخل ہونے کے بارے میں مجتہدینؒ کا اختلاف ہے لیکن مساجد میں عبادت کرنے کی اجازت کسی کے ہاں مروی نہیں، بلکہ انکی عبادت، عبادت ہی نہیں حقیقت میں شرک اور خرافات ہے۔ عبادت کے لئے نیت ضروری ہے جبکہ کفار میں نیت کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔
اور جو روایت اس سلسلے میں مروی ہے وہ متکلم فیہ ہے۔ ایک تو محمد بن اسحاق پر کلام ہے، دوسرے انکے استاذ محمد بن جعفر کی روایت متصل ہے، کیونکہ اس میں تابعیؒ اور صحابیؓ کا ذکر نہیں ہے، احناف کے ہاں اگرچہ خیر القرون میں انقطاع مضر نہیں ہے لیکن یہ روایت (اصولِ قرآن کریم کی آیات) کے خلاف ہے۔ ملا علی قاریؒ نے فرمایا ومنھا مخالفة الحديث لصريح القرأن كحديث مقدار الدنيا۔
یعنی جو حدیث قرآن کریم کے مخالف ہو اور سند میں بھی کلام ہو، وہ حدیث قبول نہیں ہو گی، بلکہ اسکے موضوعی ہونے کی علامت ہے، اس حدیث میں یہ حصہ کے نصاریٰ نے مسجد میں عبادت کی قابلِ قبول نہیں، نیز یہ حدیث اصول کے بھی خلاف ہے۔
ملا علی قاریؒ فرماتے ہیں ومنها أن یکون الحدیث مما تقوم الشواهد الصحيحة علي بطلانه كحديث عرج بن عنق۔
اس حدیث کے صحیح نہ ہونے پر بھی صحیح شواہد دلالت کرتے ہیں۔ لہٰذا اس روایت کا اتنا حصہ کہ انہوں نے مشرق کی طرف مسجد میں نماز پڑھی واجب الرد ہے یا تاویل کی جائے گی کہ مسجد سے مسجد کا وہ ملحقہ حصہ مراد ہے جو حقیقت میں مسجد نہیں بلکہ وہ حصہ ہے جس میں حبشی کھیلتے تھے، اور بعض لوگ اس میں کبھی کبھی اونٹ بھی باندھتے تھے، اور مسجد سے ملحقہ میدان پر بکثرت مسجد کا اطلاق ہوتا ہے۔
(فتاویٰ دارالعلوم زکریا جلد 4، صفحہ 724)