Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

ُُاُمّ المؤمنین سیدہ زینب بنت خزیمہؓ

  جعفر صادق

نام زینب

لقب ام المساکین

والد خزیمہ بن حارث

والدہ ہند بنت عوف

سن پیدائش بعثت نبوی سے 13 سال قبل

قبیلہ بنو ہلال

زوجیت رسول 3 ہجری

سن وفات 4ہجری

مقامِ تدفین جنت البقیع مدینہ منورہ

کل عمر 30 سال تقریباً

          نام و نسب

آپ کا نام زینب ہے، سلسلہ نسب اس طرح ہے زینب بنت خزیمہ بن حارث بن عبداللہ بن عمرو بن عبدمناف بن ہلال بن عامر بن صعصعہ بن معاویہ بن بکر بن ہوازن منصور بن عکرمہ بن خصفہ بن خنیس بن عیلاں الہلالیہ۔

سیدہ زینب بنت خزیمہؓ کا سلسلہ نسب نبی کریمﷺ  کے نسب میں اکیسویں (21)پشت میں جا کر معد بن عدنان سے مل جاتا ہے

                ولادت

آپ رضی اللہ عنہا کی ولادت نبی کریمﷺ کے اعلانِ نبوت سے تقریباً 13سال پہلے ہوئی ہے۔

       خاندانی پس منظر

حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک بڑا قبیلہ بنو عامر تھا اس کی ایک شاخ بنو ہلال تھی، یہ بنو ہلال یمن میں آ کر آباد ہوئے۔ یمنی لوگ خوشحال تھے لیکن اللہ کے نافرمان بھی تھے۔ مذہبی اعتبار سےپکے مشرک تھے سورج اور چاند کے علاوہ بھی کئی خودساختہ معبودوں کی پوجا کرتے تھے۔ شمالی یمن کے علاقہ تبالہ میں ذوالخامہ نامی ایک بڑا بت تھا۔ یہ لوگ اس بت کی پوجا بطور خاص کیا کرتے تھے۔اس قوم پر کئی بار سیلاب آیا، انہوں نے سیلاب سے بچنے کے لیے مآرب کے نام پر ایک مضبوط ترین بند باندھا۔ یہ قوم سبا کا دارالحکومت تھا۔

یہ قوم شرک اور معاشرتی گناہوں کے نشے میں مست تھی، تو اللہ تعالی نے ان پر ایسا زور آور سیلاب بھیجا جس نے اس مضبوط بند کو توڑ دیا، کھیتاں اجاڑ ڈالیں، پھر اس میں سوائے جھاؤ اور بیری جیسی جھاڑیوں کے کچھ بھی نہیں اگتا تھا۔ قوم سبا پر عذاب کا تذکرہ قرآن کریم کی سورۃ السبا میں موجود ہے۔ سیلاب کے عذاب سے جب ان کے مکانات اور بستیاں کھنڈرات اور ویرانے کی صورت اختیار کر گئیں تو وہ لوگ وہاں سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے انہی لوگوں میں سیدہ زینب بنت خزیمہؓ کا قبیلہ بنو ہلال بھی شامل تھا جو یمن سے حجاز میں آ کر آباد ہوا۔

                    بچپن

آپؓ کے والد خزیمہؓ کا شمار عرب کے روساء میں ہوتا ہے، اس لیے سیدہ زینبؓ کا بچپن بڑے ناز و نعم میں گذرا۔ اس کے باوجود بعض انفرادی خصوصیات ایسی تھیں جو آپ کو اپنی ہم جولیوں سے ممتاز کرتی ہیں۔

       اُم المساکین کا لقب

آپؓ میں غریب پروری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، مساکین کو کھانا کھلانا اور ان کی دیگر معاشی ضروریات کو پورا کرنا آپ کے اخلاقِ عالیہ کا عکاس تھا اسی وجہ سے زمانہ جاہلیت سے ہی لوگ آپ کو’’اُم المساکین" کہا کرتے تھے۔

غریب پروری او رمساکین کی دیکھ بھال کرنا ایسے عمدہ اوصاف ہیں کہ قرآن کریم نے بطورِ خاص ان کی تعریف کی ہے۔ چنانچہ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں قرآن کریم کی سورۃ الدھرآیت 8 تا 10میں ہے:

وَ یُطعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّ یَتِیمًا وَّ اَسِیْرًا۔اِنَّمَا نُطعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللٰہِ لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآءً وَّ لَا شُکُوْرًا۔ اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًا۔

ترجمہ: اور اللہ کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں (اور ان سے کہتے ہیں کہ) ہم تمہیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں۔ ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔ ہمیں تو اپنے رب سے اس دن کے عذاب کا خوف لاحق ہے جو سخت مصیبت کاطویل ترین دن ہو گا۔

              قبول اسلام

چونکہ آپ کی ولادت بعثتِ نبوی سے 13 سال قبل ہوئی تھی، اس لیے آپﷺ کے اعلانِ نبوت کے کچھ عرصہ بعد جو لوگ مسلمان ہوئے انہیں میں سیدہ زینب بنت خزیمہؓ  بھی ہیں۔

                  پہلا نکاح

سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ آپؓ کا پہلا نکاح طفیل بن الحارث سے ہوا۔ ان کے ساتھ آپؓ  کچھ عرصہ ہی ازدواجی زندگی کی بہاریں دیکھ پائی تھیں کہ انہوں نے آپؓ کو کسی وجہ سے طلاق دے دی۔

               دوسرا نکاح

سیدہ زینب بنت خزیمہؓ کو طفیل بن الحارث بن مطلب نے طلاق دی اس کے بعد آپؓ کا نکاح طفیل کے بھائی حضرت عبیدہ بن حارثؓ  سے ہوا۔

                ہجرت مدینہ

مشرکین مکہ نے جب اسلام کو پھلتا پھولتا دیکھا تو ظلم و تشدد پر اتر آئے۔ سیدہ زینب بنت خزیمہؓ اور آپ کے شوہر حضرت عبیدہ بن حارثؓ  پر بھی طرح طرح کے مصائب و مشکلات آئیں۔ اسی دوران ہجرت کا حکم نازل ہوا۔ آپﷺ نے صحابہ کرامؓ کو جمع فرمایا اور ہجرت کے بارے میں حکم خدا سنایا۔ شام ڈھلےحضرت عبیدہؓ گھر کو لوٹے، آپؓ نے  سیدنا زینب بنت خزیمہؓ کو سارا ماجرا بتایا۔چنانچہ دونوں میاں بیوی نے ہجرت کی تیاریاں شروع کر دیں۔

بالآخر ایک دن سیدہ زینب بنت خزیمہؓ کے گھرانے کے چار فرد سیدہ زینبؓ، آپ کے شوہر حضرت عبیدہ بن حارثؓ اور ان کے دونوں بھائی حضرت طفیل اور حصین بن حارثؓ  یہ سب حضرت مسطح بن اثاثہؓ کے ہمراہ مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے۔ اس قافلے کا استقبال حضرت عبد الرحمٰن بن سلمہ عجلانیؓ  نے کیا۔

کچھ دنوں بعد نبی کریمﷺ بھی مدینہ منورہ تشریف لے گئے یہاں آپ نے مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات قائم فرمائی۔ حضرت عبیدہ بن حارثؓ کو حضرت عمیر بن حمام انصاریؓ  کا بھائی قرار دیا۔

حضرت عمیرؓ  نے حضرت عبیدہؓ اور ان کے خاندان کے لیے ایک مکان اور کافی ساری زمین وقف کر دی۔ مہاجرین و انصار آپؓ کو” شیخ المہاجرین“ کے لقب سے یاد کرتے تھے۔ مکہ مکرمہ کی طرح مدینہ طیبہ میں بھی سیدہ زینبؓ حسبِ معمول غرباء اور مساکین پر خرچ کرتی رہیں۔

            غزوہ بدر میں

اسی دوران غزوہ بدر کا واقعہ پیش آیا۔ مدینہ منورہ سے میدانِ بدر کا فاصلہ تقریباً اٹھانوے(98) میل کا تھا۔ نبیِ کریمﷺ اپنے جاں نثار اصحاب رضی اللہ عنہم کے ساتھ جمعہ کی رات 17 رمضان المبارک 2ھ کو بدر کے قریب اترے۔ یہ اسلامی تاریخ کا حق و باطل کے درمیان پہلا باضابطہ معرکہ تھا۔ دونوں لشکروں میں صف آرائی ہونے کے بعد دشمنانِ اسلام کی طرف سے کفارِ مکہ کے سردار عتبہ، شیبہ اور ولید میدانِ جنگ میں اترے اور انفرادی لڑائی کے لیے آواز لگائی۔ جس کے جواب میں نبی کریمﷺ نے اپنے تین جاں نثار اصحاب’’ علی، حمزہ اور عبیدہ‘‘(رضی اللہ عنہم)کو بھیجا۔ سیدنا علی اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہما دونوں نے جلد ہی اپنے مدمقابل کو قتل کر کے ڈھیر کر دیا۔

جبکہ حضرت عبیدہ بن حارثؓ اور ولید میں کافی دیر تک لڑائی جاری رہی اور دونوں ہی زخمی ہو گئے۔ سیدنا علی اور حمزہ رضی اللہ عنہم نے آگے بڑھ کر ولید کو بھی قتل کیا۔ اس معرکے میں حضرت عبیدہ بن حارثؓ کا ایک پاؤں زخمی ہو گیا تھا یہ زخم بڑا کاری تھا۔ جنگ کے خاتمے کے بعد جب لشکر مدینے کی طرف واپس ہونے لگا تو مقام صفرا ء پر آپؓ نے داعیِ اجل کو لبیک کہ گئے اور انہیں مقام صفراء پر ہی دفن کر دیا گیا۔

             تیسرا نکاح

بعض روایات کے مطابق آپؓ  کا تیسرا نکاح حضرت عبد اللہ بن جحشؓ  سے ہوا۔ جو اُم المٔومنین سیدہ زینب بنتِ جحشؓ کے بھائی ہیں، وہ بھی جنگِ اُحد میں وہ شہید ہوگئے۔

  سیدہ زینب اُم المؤمنین بنتی ہیں

حضرت عبداللہ بن جحشؓ غزوہ احد شوال 3 ہجری میں شہید ہوئے۔ ان کی شہادت کےکچھ ہی دنوں کے بعد حضرت زینبؓ کے ہاں ناتمام بچہ پیدا ہوا جس سے ان کی عدت ختم ہو گئی اور ذوالحج 3 ہجری میں رسول اللہﷺ  نے حضرت زینب بنت خزیمہؓ سے نکاح کر لیا۔ بعض مورخین نے یہاں پر 400 درہم حق مہر کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

  معیت رسول کا مختصر زمانہ

آپؓ کو رسول اللهﷺ  کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کو نہیں ملا۔ بلکہ نکاح کے کچھ ہی عرصہ بعد آپ وفات پا گئیں۔ اس بارے مورخین نے 2 ماہ، 3 ماہ، 5 ماہ، 6 ماہ، 8 ماہ اور بعض نے اس سے کچھ زیادہ زمانہ معیت رسول کا لکھا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ آپؓ کا زیادہ زمانہ آپﷺ کے ساتھ نہیں گزار پائی تھیں۔

                  وفات

شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے لکھا ہے کہ سیدہ زینبؓ نے 4 ہجری ماہ ربیع الثانی میں وفات پائی۔ آپؓ کا جنازہ خود نبی کریمﷺ  نے پڑھایا اور آپ کو مدینہ منورہ جنت البقیع نامی قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔

امہات المؤمنینؓ میں سے صرف سیدہ زینب بنت خزیمہؓ کا یہ اعزاز ہے کہ آپؓ کا جنازہ خود نبی کریمﷺ نے پڑھایا۔

نوٹ: اگرچہ سیدہ خدیجہؓ کی وفات بھی نبی کریمﷺ  کے عہدِ مبارک میں ہوئی لیکن اس وقت تک جنازہ کا حکم نازل نہیں ہوا تھا۔