Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

صلح سیدنا حسنؓ کی شرائط کا افسانہ

  محمد ذوالقرنين

صلح سیدنا حسنؓ کی شرائط کا افسانہ

شیعہ کے ایک مخصوص گروہ کی طرف سے صلح سیدنا حسنؓ کی شرائط کا افسانہ بیان کیا جاتا ہے کہ سیدنا حسنؓ نے جن 5 شرائط کی بنیاد پر سیدنا امیر معاویہؓ سے صلح کر کے ان کی بیعت کی سیدنا امیر معاویہؓ نے وہ شرائط پوری نہیں کیں اس مخصوص گروہ کے سرغنہ کی طرف سے ایک پمفلٹ بھی شائع کیا گیا ہے جس کے اندر اس نے یہ شرائط بیان کی ہیں لکھتا ہے سیدنا حسنؓ نے جن شرائط کی بنیاد پر سیدنا امیر معاویہؓ کو حکومت سپرد کی تھی اُن کی پوری تفصیل شروح احادیث اور کُتب تاریخ میں ہیں مثلاً۔

(1)۔ سیدنا معاویہؓ کی کتاب رسول اللہﷺ کی سنت اور خلفاءِ راشدین کے طریقے کے مطابق نظام حکومت چلائیں گے۔

(2)۔ سیدنا امیر معاویہؓ اپنے بعد کسی کو جانشین مقرر نہیں کریں گے بلکہ امت کو خلیفہ کے انتخاب کے لئے شوریٰ پر چھوڑیں گے۔

(3)۔ سیدنا علیؓ کی جماعت کے لوگ جو صلح کے بعد ہتھیار ڈال چکے ہیں اسکے خلاف کسی قسم کی انتظامی کاروائی نہیں کی جائے گی۔

(4)۔ آلِ محمد ﷺ کیلئے خمس (مال غنیمت کا پانچواں حصہ) جو اللہ نے قرآن میں مقرر کیا ہے بد دستور بنو عبدالمطلب کو ملے گا جیسا کہ خلفاءِ راشدین کے ادوار سے ملتا آرہا ہے۔

(5)۔ سیدنا علیؓ پر بنوامیہ کے منبروں سے ہونے والا سبِّ شتم کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا جائے گا وغیرہ وغیرہ مگر افسوس ان شرائط کی پابندی ویسے نہ کی گئی جیسے ان کا حق تھا۔

(پمفلٹ واقعہ کربلا کا حقیقی پس منظر رسرچ پیپر 5 بی صحفه 24)۔

شرائط صلح کے افسانہ کی حقیقت:

اس پمفلٹ والے موصوف نے ان شرائط کا کوئی مکمل حوالہ نہیں دیا صرف شرائط بیان کر کے نیچے حوالے کے طور پر چار کتب کا آدھا ادھورا نام لکھ دیا۔

الاستيعاب لابنِ عبدالبر الاصابة لابنِ حجر البدايه والنہاية لابنِ كثير فتح الباری لابنِ حجر تحت الحديث البخاری 7190۔

موصوف نے ان شرائط کے حوالہ کے طور ان چار کتب کا نام لکھا ہے جبکہ ان کتب میں بھی یہ 5 شرائط کسی سند کے ساتھ موجود نہیں یہ سب بلاسند ہیں ان کی کوئی سند موجود نہیں۔

اپنے چوتھے حوالہ میں موصوف نے فتح الباری تحت الحدیث 7109 کا ذکر کیا ہے اور اس جگہ سے موصوف نے پہلی شرط کو اخذ کیا ہے ملاحظہ فرمائیں امام ابنِ حجرؒ نے فتح الباری میں بخاری کی حدیث 7109 کے تحت کیا لکھا ہے فرماتے ہیں۔

ابنِ بطال کہتے ہیں سیدنا حسنؓ نے اقتدار سیدنا امیر معاویہؓ کے حوالے کیا اور ان کی بیعت اس شرط پر کی کہ وہ کتابُ اللہ اور سنتِ رسولﷺ کو قائم کریں گے اور سیدنا امیر معاویہؓ کوفہ داخل ہوئے اور لوگوں سے بیعت لی اور سیدنا امیر معاویہؓ نے سیدنا حسنؓ کے لئے کے تین لاکھ درہم اور ایک ہزار کپڑے تیس غلام اور سو اونٹ مقرر کیے۔

( فتح الباری بشرح صحیح البخاری (عربی) جلد 13 صحفه 68)۔

فتح الباری میں ابنِ حجرؒ نے یہ ابن بطالؒ المتوفی 449 ھ کا قول نقل فرمایا ہے جو کہ پانچویں صدی ہجری کے عالم ہیں اور صلح سنہ 41 ہجری میں ہوئی یعنی ان کے درمیان 400 سال کا فرق ہے لیکن امام ابنِ بطالؒ نے بھی کوئی سند ذکر نہیں کی اور ابنِ بطالؒ کا ہی قول ہے کہ سیدنا حسنؓ کے لئے سیدنا امیر معاویہؓ نے تین لاکھ درہم اور باقی سب مال مقرر کیا تو کیا کوئی شیعہ یہ کہہ سکتا ہے کہ سیدنا حسنؓ نے اتنے مال کے عوض صلح کی؟

اگر ابنِ بطالؒ کی اس بات کی بنیاد پر سیدنا حسنؓ کے لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انہوں نے اتنا مال لے کر صلح کی تو پھر ایسے بے سند اقوال کو اپنا موقف ثابت کرنے کے لئے کیسے دلیل بنایا جاسکتا ہے؟۔

صلح کی دوسری شرط کی حقیقت:

موصوف نے اپنے پمفلٹ میں دوسری شرط یہ لکھی ہے کہ سیدنا امیر معاویہؓ اپنے بعد کسی کو جانشین مقرر نہیں کریں گے بلکہ امت کو خلیفہ کے انتخاب کے لئے شوریٰ پر چھوڑیں گے۔

لیکن ابنِ حجرؒ نے اسی روایت کے تحت آگے اس شرط کے برعکس روایت نقل کی ہے کہ:

محمد بن قدامہ نے کتاب الخوارج میں قوی سند کے ساتھ ابی بصرہ کا قول نقل کیا ہے کہ (ابی بصرہ کہتا ہے) میں نے سیدنا حسن بن علیؓ کو سنا وہ (صلح کے وقت) سیدنا امیر معاویہؓ کے پاس کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ میں نے سیدنا معاویہؓ سے اس شرط پر صلح کی ہے کہ سیدنا امیر معاویہؓ کے بعد خلافت مجھے ملے گی۔

(فتح الباری بشرح صحیح البخاری (عربی) جلد 13 صحفہ 70)۔

یہاں پر ابنِ حجرؒ تو ابنِ قدامہ کے حوالے سے یہ شرط بیان کر رہے ہیں (اور ہمارے نزدیک یہ روایت بھی صحیح نہیں) کہ سیدنا حسنؓ نے فرمایا سیدنا امیر معاویہؓ کے بعد خلافت مجھ کو ملے گی لیکن موصوف کے پمفلٹ میں دوسری شرط اس کے برعکس لکھی ہوئی ہے۔

اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ موصوف کی بیان کردہ شرائط کی حقیقت کیا ہے۔

اور ہم بیان کر چکے کہ موصوف نے اپنی جو من پسند شرائط مختلف کتب سے چن چن کر بیان کی ہیں یہ کسی صحیح سند سے ثابت نہیں سبھی شرائط بلاسند ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں۔

لیکن موصوف کا اپنے پمفلٹ کے بارے میں دعویٰ ہے کہ اس میں ہر بات صحیح السند روایت سے بیان کی گئی ہے اور یہ بات موصوف نے پمفلٹ کے ہر صحفہ پر سب سے اوپر لکھی ہے کہ۔

فرقہ واریت سے بچ کر صرف قرآن اور صحیح الاسناد احادیث کو حُجت و دلیل ماننے اور جھوٹی بےسند اور ضعیف الاسناد تاریخی روایات کے فتنوں سے بچنے والوں کے لئے۔

یعنی موصوف کا پمفلٹ ہر اس شخص کے لئے ہے جو جھوٹی اور بے سند اور ضعیف الاسناد تاریخی روایات کے فتنے سے بچ کر صرف صحیح احادیث سے علم حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن موصوف نے اپنے اسی پمفلٹ میں بیان کردہ صلح سیدنا حسنؓ کی پانچ شرائط کی کوئی سند پیش نہیں کی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ موصوف کے اپنے دعویٰ کے مطابق (کہ ضعیف الاسناد اور بے سند روایات فتنہ ہیں) اس کا اپنا پمفلٹ ایک فتنہ ثابت ہوگیا ہے۔

ہمارے نزدیک سند دین کا حصہ ہے اور کوئی روایت سند کے بغیر قابلِ قبول نہیں۔

امام مسلمؒ نے تو سند کی اہمیت بیان کرتے ہوئے صحیح مسلم کے مقدمہ میں پورا باب قائم کیا ہے کہ۔

اسناد دین میں سے ہے روایت صرف ثقہ راویوں سے ہوسکتی ہے۔

(صحیح مسلم (اردو) جلد 1 مقدمه باب 5)۔

اور امام ابنِ حبانؒ نے امام عبداللہ بن مبارکؒ کا قول نقل کیا ہے ابنِ مبارکؒ فرماتے ہیں اسناد دین میں سے ہیں اگر سند نہ ہوتی تو جس کا جو من چاہتا وہی کہتا۔

(كتاب المجروحين من المحدثین (عربی) جلد 1 صحفه 30)۔

اور امام ابنِ حبانؒ نے امام سفیان ثوریؒ کا قول بھی نقل کیا ہے ثوریؒ فرماتے ہیں اسناد مومن کا ہتھیار ہیں اگر اس کے پاس ہتھیار نہ ہو تو کس چیز سے لڑے گا؟۔

(كتاب المجروحين من المحدثین (عربی) جلد 1 صحفه 31)۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سند دین کا ضروری حصہ ہے اس کے بغیر کوئی بات حُجت نہیں اس لئے ایسی بلاسند روایات سے کسی صورت استدلال جائز نہیں ایسی باطل روایات سے استدلال کرتے ہوئے صرف وہی شخص صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف زبان درازی کرنے کی ہمت کرے گا جو دین کا دشمن ہو۔