بچپن اور ماتم کی صدائیں (آپ بیتی نائلہ نقوی)
نائلہ نقویمیری آپ بیتی نائلہ نقوی
بچپن اور ماتم کی صدائیں
میرا نام نائلہ نقوی ہے میں جب پیدا ہوئی تو میرے کانوں نے اللہ اکبر کی بجائے یا علی مدد کے نعرے اور سینہ کوبی کی آوازیں سنیں پھر ذرا بڑی ہوئی تو خود اپنے اور تمام رشتہ داروں کے گھروں میں سال میں سے بیشتر دن ماتم ہی ماتم، رونا دھونا اور بے ہنگم آوازوں کا شور سنائی دینے لگا مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ابو مجھے بازو پر اٹھا کر ماتمی جلوس میں لے جاتے اور میں بڑوں کی دیکھا دیکھی اپنے ننے ننے ہاتھوں سے سینہ پیتی تھی۔
خطابت
ہائی سکول تک پہنچتے پہنچتے میں تمام شیعہ عقائد و تعلیمات اور رسومات سے آگاہ ہو چکی تھی چونکہ میری بڑی باجی اکثر امام باڑوں میں جا کر بیان کرتی تھیں مرثیے اور منقبت کہتی تھیں اسی لیے مجھے بھی شاعری اور خطابت کا شوق چڑھا اور یہ سلسلہ خطابت شروع ہو گیا۔
ذہنی پاکیزگی بامحبت کا اثر
میں یونہی دسویں میں اپنی سن بلوغت بھی ظاہر ہو گیا اور انھیں کلاسوں میں مجھے سنی (اہلسنّت) لڑکیوں سے دوستی کا شرف حاصل ہوا چونکہ یہ شیعہ لڑکیاں ملکی سطح پر مٹھی بھر اقلیت کی طرح کلاس میں بھی اقلیت میں تھیں اس لئے سُنی لڑکیوں سے گہرے رابطے ہوئے چونکہ جہاں لڑکیاں سہیلیاں بھی ہوں وہاں دیگر موضوعات کے علاوہ راز و نیاز کی باتیں بھی ہوتی ہیں اسی طرح ایک مجلس میں شادی بیاہ اور مذہبی رسومات کا ذکر چل رہا تھا مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ سُنی
لڑکیاں شادی تک اپنا آپ نازک آبگینہ کی طرح سنبھال کر رکھتی ہیں۔
قریبی رشتہ داروں، چچازاد، ماموں زاد، خالہ زاد، پھوپھی زاد وغیرہ جو غیر محرم ہیں ان سے بھی کوئی بات یا بےتکلفی نہیں کرتیں سوائے ضروری بات کے سنی ہم جماعتوں نے بھی بتایا کہ
زیادہ ترلڑکیوں کو اپنے منگیتر تک دیکھنے کی اجازت نہیں ہوتی اور سہاگ رات کو ہی انھیں اپنا جیون ساتھی پہلی مرتب دیکھنے کو موقع ملتا ہے یہ جان کر مجھے بہت حیرت ہوئی اور میں سوچنے لگی کہ "اتنی خوش نصیب ہیں یہ لڑکیاں جنہیں اپنی عصمتوں کی حفاظت کا موقع ملتا ہے اور ان کے والدین بھی پاکیزگی اور شرافت کا درس دیتے ہیں"
اور ایک ہم شیعہ لڑکیاں ہیں جنھیں بالغ ہوتے ہی عبادت گاہوں میں خود اپنے والدین اور ذاکرین شیعہ لڑکوں سے راز و نیاز اور دوستی کی ترغیب دیتے ہیں اور پھر متعہ (زنا) جیسی لعنت اور بے غیرتی سے آشنا کراتے ہیں پتا نہیں یہ میری ذہنی پاکیزگی تھی یا سُنی لڑکیوں کی صحبت کا اثر کہ "متعہ جیسی لعنتی رسم بلکہ عبادت سے شروع دن سے ہی نفرت ہوگئی تھی" باجی اور دیگر کزن کی ترغیب و تحریض اور بڑوں کی حوصلہ افزائی کے باجود میں متعہ کی طرف راغب نہ ہو سکی۔
مثلاً شیعہ مذہب کی ایک روایت ان المؤمن لایكمل حتى یتمت (من لاتحضره الفقیه ج٣ص١۵١)
(بیشک مومن اس وقت تک پورا ایمان دار نہیں ہوسکتا جب تک کہ متعہ (زنا) نہ کرے
شیعہ مذہب کی ایک اور روایت میں ہے۔ ایک مرتبہ متعہ کرنے سے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے برابر دو مرتبہ متعہ کرنے سے حضرت حسین رضی عنہ کے برابر اور تین مرتبہ متعہ کرنے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور چار بار متعہ کرنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر ہو جاتا ہے
(تفسیر منہاج الصادقین ص ۳۵۹)
نعوذباللہ استغفراللہ
باجی کی تنبیہ
چونکہ الله تعالیٰ نے مجھے بہت زیادہ خوبصورتی سے نوازا ہے اس لئے بہت سے مقتدر، امیر، اور تیز طرار قسم کے شیعہ مرد میرے پچھے دن رات پڑے رہے مگر میں بہت زیادہ محتاط رہی اور اپنا آپ سنبھال کر رکھا حالانکہ باجی نے مجھے تنبیہ کی کہ تم اس مقدس عبادت سے اغماض کر رہی ہو اور منہ سے گریز بہت بڑا گناہ ہے۔
مگر میری سمجھ میں نہ آیا کہ کھلے عام زنا کو متعہ کا نام دے کر عبادت کیوں کہا جا رہا ہے اخبارات میں آئے روز زنا اور بدکاری کی خبریں جرائم کارنر میں چھپتی رہتی ہیں اور انھیں منی، اخلاقی، قانونی جرم کے طور پر پیش اور سزاوار کیا جاتا ہے۔
مگر ہم شیعہ عورتیں، مرد خواہ باہمی رضامندی سے ہی سہی ناجائز ملاپ کرتے ہیں تو اسے زنا کی بجائے متعہ کیوں کہا جاتا ہے۔
میرا مذہبی مطالعہ گو کہ بہت ہی زیادہ وسیع نہیں تاہم میری ایک دوست نے مجھے ترجمہ او تفسیر والا قرآن مجید لاکر دیا تھا جس کا مطالعہ میں ہر روز کرتی ہوں قرآن میں جہاں کہیں زنا کا ذکر آیا ہے اسے بہت بڑا اور نا قابل معافی گناہ قرار دیا گیا ہے اور اسلام و شریعت میں اس کی بھاری سزا مقرر کی گئی ہے اور اگلے جہاں بھی اس کو سخت سزا دی جائے گی۔
میں سوچتی ہوں کہ الله پاک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اترنے والی اور ہمیشہ رہنے والی پاک کتاب میں جب زنا کو بہت بڑا جرم قرار دیا گیا ہے تو اہل تشیع اس کو متعہ کا نام دے کر مقدس عبادت کیوں قرار دے رہے ہیں؟؟
آنکھیں کھل گئیں
میں نے جب کالج میں داخلہ لیا تو ایف اے کے مضامین میں ایک سُنی دوست کی دیکھا دیکھی تاریخ اسلام اور اسلامیات اختیاری کے مضامین بھی مُنتخب کیے گھر والوں نے بہت اصرار کیا کہ اکنامکس سوکس‘‘ وغیرہ لے لو مگر میں نہ مانی جب میں نے تاریخ اسلام کا مطالعہ کیا تو میری آنکھیں کھل گئیں کیونکہ خلافت راشدہ کا دور ایک زریں دور کی حیثیت سے نظر آیا۔
میں حیران رہ گئی کہ جس ابوبکر رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کو میرے آباء و اجداد تعصب کے مارے نہ جانے کیا کچھ کہتے ہیں، اور ان کی کردار کشی کرتے ہیں دراصل وہ کیسے لوگ تھے۔
میں خلفاء راشدین اور خاص کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مثالی دور کی تو قائل ہی ہوگئی۔
خلفاء راشدین کا دور سنی نقط نظر سے سُنی مذہب یہ کہتا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد تمام صحابہ نے مل کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ بنایا پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اور ان تینوں حضرات کی جہاں دیگر صحابہ نے بیعت کی وہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ وغیرہ نے بھی بیعت کی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے دور خلافت میں ان کے مشیر ہے اور عہدہ قضاء پر فائز تھے ان تین حضرات کی آپس میں بہت گہری محبت تھی صحابہ و اہل بیت جتنے آپس میں رحم دل اور بھائی بھائی تھے اتنے ہی کُفار کے خلاف بہت سخت تھے چنانچہ روم ایران میں جو قیصر و کسریٰ کی حکومت تھی اور اس وقت کی یہ دونوں حکومتیں سپر پاور سمجھی جاتی تھی ان دونوں کو نفی حضرات کے دور خلافت میں نیست و نابود کیا گیا اور ان کے دور میں اسلام نصرف پورے جزیرہ عرب میں پھیلا بلکہ جزیرہ عرب سے نکال کر روم و ایران کے لوگ بھی حلقہ بگوش اسلام ہوئے ان کے دور میں اسلام کو خوب تقویت ملی قرآن کریم کو یکجا کر کے ہمیشہ کیلئے محفوظ کر دیا گیا ہزاروں مساجد ومدارس کی تعمیر کی گئی
..... عدل وانصاف ، امانت و دیانت ، مساوات و برابری، امن و امان اور غلبہ اسلام کے حوالہ سے ان کا دور خلافت اپنی مثال آپ تھا جس کی مثال دنیا آج تک پیش نہیں کرسکی۔ ان کے دور خلافت میں اسلام غالب تھا کفر مغلوب تھا۔ خلفاء راشدین کا دور شیعہ نقط نظر سے.............
مگر خلفاء ثلاثہ کو نعوذباللہ شیعہ کے نزدیک کافر ومرتد تھے رسول اللہ کے دنیا سے جاتے ہی ان کی حکومت آ گئی ...
انھوں نے غاصبانہ طور پر خلافت پر قبضہ کر لیا ... رسول اکرم صلی اللہ علیہ السلام مال کی میراث پر ناجائز طور پر قابض ہو گئے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پرظلم وستم کے پہاڑ توڑ دیے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حسنین کریمین نے تقیہ کر لیا اور ان کافروں اور مرتدوں کی حمایت کرنے لگے۔
اسلامی احکام کی خلاف ورزیاں کی گئیں قرآن میں ردو بدل کر دیا گیا قرآن کریم میں کفر کے ستون کھڑے کر دیے گئے۔
اپنی طرف سے اسلام میں نے احکام کی زیادتیاں کر دیں، جن کو حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی دور نہ کر سکے اور نہ ان کے خلاف آواز اٹھائی اور نہ اپنے دور خلافت میں ان کے ختم کرنے کا اعلان کیا ......
ان کے دور میں کُفر غالب آ گیا اسلام مغلوب ہو گیا
انقلابی نوجوان
پھر اس دوران میری زندگی میں ایک انقلابی نوجوان داخل ہوا اور میری ذہنی اور روحانی دنیا ہی بدل گئی ان دنوں میں فورتھ ائیر میں پڑھتی تھی ہوا ہوں کہ ایک ادبی تنظیم نے مقامی ہوٹل میں نوجوان نسل کیلئے ایک مباحثہ کا انتظام کیا جس میں طلباء و طالبات اور نوجوانوں کو دعوت عام دی گئی، چونکہ میں سکول کے زمانے ہی سے ایک مقررہ چلی آرہی تھی اس لیے مذکورہ مباحثہ میں شرکت کی۔
پندرہ سولہ مقررین لڑکے لڑکیوں اور سامعین کی کثیر تعداد ہال میں موجود تھی جب میری باری آئی تو میں نے موضوع کے حق میں بھر پور دلائل کے ساتھ پورا زور خطابت صَرف کیا اور سامعین کی داد و منصفین کی توجہ سے یہ بھی سوچ بیٹھی کے ہمیشہ کی طرح اب کے بار بھی پہلا انعام مجھے ملے گا۔
مگر اس وقت مجھے یہ خیال غلط نظر آنے لگا جب اسٹیج سیکرٹری نے ایک دبلے پتلے واجبی شکل وصورت والے نوجوان کو خطاب کی دعوت دی بالکل فقیرانہ سے انداز میں وہ نوجوان کھدر کے کپڑوں میں ملبوں جب اسٹیج پر آیا تو میری پیشانی خشکی کیونکہ اس کے کوٹ کے کالر پر سرخ و سبز رنگ اور سیاه و سفید دھاریوں سے مزین هلالی پرچم والا سپاہ صحابہ کان لگا ہوا تھا۔
اور اہل تشیع کے ذہن میں یہ پرچم اور سپاہ صحابہ کا نام ایک خطرے کا سائرن بن کر ہر وقت بجتا رہتا تھا۔
میں دیکھ رہی تھی کہ میرے ابو جی باجی کے چہرے پر اس نوجوان کو دیکھ کر بل پڑ گئے تھے اور وہ پہلو بدل بدل کر اسے دیکھ رہے تھے۔
اس نوجوان(جسے آپ شعبان کہہ سکتے ہیں) نے تقریر کی ابتداء میں خدا کی وحدانیت ختم نبوت اور شان صحابہ پر بیان کیا اور پھر مباحثہ کے موضوع کی مخالفت میں جب بولنا شروع کیا تو میرا فن تقریر کا سارا مان ،غرور اور اعتماد برف کی طرح پگھلتا چلا گیا، پورے ہال میں سناٹا چھا گیا اگر کوئی آواز تھی تو صرف شعبان کی گرج دار آواز تھی انتہائی منطقی انداز میں رواں ہی خوبصورت تلفظ اور انداز بیان ایسا کہ ہیں اور نہ سنا، نہ دیکھا پتہ نہیں کیوں مجھے اس نوجوان سے حسد کی بجائے رشک آنے گا، ایک ایک فقرے پر ایک ایک دلیل پر سامعین کی تالیاں اور داد کے ڈونگرے برستے رہے اور بے پناہ داد اور حوصلہ افزائی کے ساتھ وہ نوجوان آندھی کی طرح آیا اور بگولے کی طرح اسٹیج سے چلا گیا اور پھر عین سامعین کی توقع کے مطابق شعبان نے پہلا انعام حاصل کر لیا اور زندگی میں پہلی بار مجھے سیکنڈ پرائز لینا پڑا۔
پہلی ملاقات
مباحثہ کے بعد پر تکلف چائے کا انتظام تھا مگر میرے ابو باجی، ضروری کام کا بہانہ کر کے مجھے وہیں چھوڑ کر چلتے بنے۔
چائے کے دوران میری نظر میں نہ چاہنے کے باوجود بس شعبان کا طواف کرتی رہیں میں نے اپنے آپ کو ڈانٹا کہ میں خواہ خواہ اس سے متاثر ہوتی جارہی ہوں مگر شاید مجھے اپنے آپ پر اختیار نہ رہا تھا میں نے محسوس کیا کہ شعبان میں کسی قسم کا غرور یا مقابلہ جیتنے کا تفاخر نہیں پایا جاتا تھا وہ چُپ چاپ میزوں کے درمیان کھڑا چائے پی رہا کسی کی بات کرنے پر ایک آدھ فقرہ کی ادائیگی پر ہی اکتفاء کرتا رہا پورا ہال مجھے خواہاں نظر آتا تھا مگر شعبان مجھ سے بے نیاز کھڑا رہا آخرکار میں نے ہی پہل کی اور اس سے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا
"ماشاء آپ بہت اچھے مقرر ہیں
شکریہ ............اس نے بہت مختصر جواب دیا
کیا کرتے ہیں آپ۔۔۔۔۔۔۔۔؟
میں نے دوسرا سوال کیا بی اے کے بعد صرف مطالعہ کر رہا ہوں۔ پھر اس نے مختصر جواب دیا
کہاں رہتے ہیں آپ۔۔۔۔۔۔۔۔؟
میں نے پھر سوال کیا تو اس نے خوبصورت شعر کی صورت میں جواب دیا
کہاں تلاش کرے گی ہمیں بہار، کہ ہم بھی کبھی قفس میں بھی آشیاں میں رہتے ہیں،
کوئی پتا تو ہوگا جہاں آپ مل سکتے ہوں؟............ میں نے پھر سوال کیا تو اس نے جواب دیا۔
کسی بھی چمن سے جھانک کر کسی گلی میں دیکھ لیں، میں نظر آجاؤں گا۔
عجیب طرز گفتگو تھا، الجھا الجھا انداز کھویا کھویا سالب و لہجہ مدہم اور قدرے مبہم آواز بھی یہ تھی میری شعبان سے پہلی ملاقات۔
دوبارہ ملاقات اور پر چار پانچ ماہ کہیں نظر نہ آیا ایک دن اچانک بازار جاتے ہوئے اس سے سامنا ہو گیا تو میں نے سلام میں پہل کی اور وہ رک گیا تب ذرا کھل کر گفتگو ہوئی میں نے اسے گھر آنے کی دعوت بھی دے ڈالی پھر ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ میرے والدین اور باجی نے پہلے تو ناک منہ چڑھایا اور مجھے سمجھایا کہ آگ اور پانی کا ملاپ بھی نہیں ہو سکتا یعنی شیعہ اور سنی نکاح نہیں ہوسکتا مگر میں نے واضح کر دیا کہ میرا ایسا کوئی پروگرام نہیں ہے شعبان تو صرف ایک اچھا ساتھی ہے اور بس وہ قابل آدی ہے اس لیے میں اس کی قدر کرتی ہوں۔
مکروہ عزائم
پھر آہستہ آہستہ میرے والدین نے مجھے سمجھانا شروع کر دیا کہ اس لڑکے کو شیشے میں اتارو انھوں نے کہا اتنا اچھا مقرر اور قابل و صاحب علم جوان ہم نے اہل تشیع میں بھی نہیں دیکھا اگر یہ نوجوان شیعیت کی طرف راغب ہوجائے تو نائلہ تمہارا بہت بڑا کارنامہ ہوگا۔
مجھے ان کے مکروہ عزائم سے الجھن سی ہوئی مگر اچھا جی کہ کر خاموش ہوگئی۔ اب میرے والدین شعبان کے آنے جانے پر برا نہیں مانتے اور خوش ہو کر میں گھر میں اور باہر ملنے کے مواقع دانستہ دینے لگے۔
میرے ابا، امی، اور باجی جب بھی مجھ سے پوچھے کیا پوزیشن ہے؟‘‘ تو میں جواب رٹے رٹائے فقرے کہہ دی ’’ذرا بنیاد پرست ہے آہستہ آہستہ راغب ہوجائے گا شیشے میں اتر جائے گا مگر دیر سے اور وہ مطمئن ہو جاتے لیکن کسی کو کیا خبر کہ جو پہلے شیعیت سے متنفر شعبان کی رفاقت میسر آتے ہی کشاں کشاں سنیت کی طرف کھنچی چلی جائے گی۔
جھنگوی رحمہ اللہ کی خطابت
ایک دن میں نے شعبان سے پوچھا کہ فن خطابت تم نے کہاں سے سیکھا ؟ تو اس نے کہا‘‘ شوق تو مجھے شروع سے ہی تھا مگر علامه جھنگوی رحمہ اللہ سے میں
نے روحانی فیض حاصل کیا۔ جھنگوی، جھنگوی، جھنگوی، میرے ذہن میں اس نام کی بازگشت ہونے گی۔
ایک دفع اٹک میں عظمت صحابہ کانفرنس ہو رہی تھی جب ہم پیڈ لائن سے گزرے تو ایک دھاڑی سنائی دی بلا کا پرجوش مقرر بول رہا تھا۔
مباحثہ کی چونکہ میں رسیا ہوں اس لیے توجہ سے اس انجانی خطابت کو سننے لگی مگر زیادہ دیر سنے کا موقع نہ ملا باجی نے گاڑی کے شیشے چڑھا دیے اور ذیلی سڑک پر گئیں۔
میں نے دیکھا کہ باجی کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں میری تشویش پر صرف اتنا کہا کہ غضب کا بولتا ہے یہ شخص، اسے سنتی ہوں تو (شیعیت سے) گمراہ ہونے گئی ہوں ۔ جادوگر ہے یہ اسے کبھی سننا مت نائلہ ورنہ............... اور پھر بات آئی گئی ہوگی ۔ شعبان سے جھنگوی کا نام سن کر میرا اور تجسس بڑھ گیا اور شعبان نے جیسے میرے دل کی بات جان لی ہو کہنے لگا کبھی مولانا حقنواز رحمہ الله کی کیسٹ لاؤں گا اختلاف مسلک سے قطع نظر ذرا ان کی خطابت کے جوہر دیکھنا شاید روئے زمین پر ایسا آپ نے نہ سنا ہو۔
حق نواز کی مرید بن گئی
پھر ایک دفعہ جھنگوی کو سنے کا موقع مل گیا ہوا ہوں کہ باجی اسلام آباد کے ایک ہسپتال میں زیر علاج تھیں ابو امی ان کی عیادت کیلئے چلے گئے میں گھر میں اکیلی تھی شعبان دو کیسٹیں ”عابدہ کا آپریشن، اور سیرت عائشہ ‘‘ لے آیا میں نے بہت توجہ اور انہماک سے حقنواز جھنگوی کو سنا اور جھوم جھوم گی۔
خدایا تو نے اس درویش کو کیا ملکہ عطا کیا ہے کہ بولتا ہے تو آگ لگاتا چلا جاتا بے ساختہ بی الفاظ میرے ہونٹوں سے نکل گئے اور مجھے ذاکرین علامہ جھنگوی رحمہ اللہ کے مقابلے میں حقیر سی چیونٹیاں نظر آنے لگے جن کا کام تو صرف عورتوں کی طرح بیان کرنا اور مگر مچھ کی طرح آنسو بہانا اور بے سرے سے انداز میں اشعار پڑھنا ہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی بھی سمجھ گئی کہ عابدہ حسین اندر سے کیا ہے اور پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جنھیں ہم شیعہ ہمیشہ سے لعن طعن کرتے اور اس کی کردار کشی کرتے چلے آرہے ہیں وہ اتنی پاکیزه اور عظیم ہستی ہیں کہ قرآن ان کی پاکیزگی و عفت پر طب السان ہے تو پھر شیعہ مصنفین کون ہوتے ہیں ان کے بارے میں نازیبا الفاظ کہنے والے۔
پھر یکے بعد دیگرے مختلف سنہری موقعوں پر مجھے شعبان نے علامہ حقنواز جھنگوی رحمہ اللہ کی بیسیوں کیسٹیں سنوائیں اور میں خلافت راشدہ خلفاء راشدین صحابہ کرام و سپاہ صحابہ اور علامه حقنواز کے مشن کی نہ صرف قائل ہوگئی بلکہ روحانی طور پر سپاہ صحابہ کی رکن اور علامه حقنواز رحمہ اللہ کی مرید بن گئی اس کے ساتھ ساتھ مجھے امام خمینی کی ذات سے بھی سخت نفرت ہوگئی اور پھر مجھے انکشاف بھی ہوا کہ ایرانی حکام اور پاکستان کے سر کردہ شیعہ کس قدر متعصب اور اسلام دشمن ہیں، مجھے اپنے آپ سے نفرت ہونے لگی کہ میری رگوں میں شیعہ باپ کا خون دوڑ رہا ہے اور میں نے شیعہ ماں کے بطن سے جنم لیا ہے بلکہ مجھے شک ہونے لگا کہ میں متعہ کی پیداوار تو نہیں؟ لیکن شعبان کی حوصلہ افزائی اور توجہ نے مجھے ان باتوں پر زیادہ توجہ نہ دینے دی۔ شعبان نے کہا’’ اب بھی وقت ہے تم نے اپنی اصلاح کر لیا اور راہ راست پر آ گئی ہوتو یہی کافی ہے۔ دل دہل گیا پھر ایک دن ریڈیو پر یہ خبر سن کر دل ہل گیا کہ علامہ حقنواز جھنگوی کو شہید کر دیا گیا ہے خبر سنتے ہی مجھے اپنا کلیجہ پھٹتا ہوا محسوس ہوا میں نے سمجھ لیا تھا کہ حق نواز جھنگوی کو ایرانی حکام نے ایرانی کمانڈوز کے ذریے شہید کروایا ہوگا یا مقامی غنڈوں نے ایرانی حکومت کی شہہ پر یہ مذموم حرکت کی ہوگی۔
خبر سنتے ہی میں نے شعبان سے رابط کیا تو پتا چلا کہ وہ سخت بیمار ہے اور چار پانی سے اٹھ ہی نہیں سکا میں جب اس کے پاس گئی تو اندھیرے میں پڑا ہوا تھا
فرش پر جا بجا سینکڑوں سگریٹ کے ٹکڑے بھرے پڑے تھے۔ میرے مخاطب کرنے پر اس نے آنکھیں کھولیں تو یوں لگا جیسے اس کی آنکھوں سے خون برس رہا ہو، اس کے ہونٹ کانپے اور وہ کچھ کہہ نہ سکا اس پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا زندگی میں پہلی بار مجھے بھی رونا آیا اور میں دل کھول کر روئی کتنی دیر شعبان کو دلاسہ دلاتی رہی، اسے زبردستی اٹھایا اور ڈاکٹر کے پاس لے گئی ،کئی ہفتے شعبان نیم پاگل سا دیوانگی کی حالت میں پھرتا رہا۔ میں خود بھی علامہ حقنواز جھنگوی رحمتہ اللہ کی موت سے ٹوٹ پھوٹ کر رہ گئی۔
میں کتنی بدنصیب تھی کہ میں اپنے پیر و مرشد کی ایک جھلک بھی نہ دیکھ سکی وہ میرے شہر میں کئی بار آئے اور میں صرف اتنا ہی کر سکی کہ ایک ہی شہر میں رہ کر جن کر اذن دیدنہ ہو، کاش: یہی بہت ہے کہ ایک ہوا میں سانس تو لیتے ہیں
جب کئی دنوں کے بعد شعبان کی حالت سنبھلی تو میں نے اس نا مرادی کا اظہار کیا کہ میں مولانا کو نہ دیکھ پائی اور وہ ہم سے جدا ہو گئے ۔ ”شعبان نے کہا فکر نہ کرو میں مولانا کی ویڈیو کیسٹ لاوں گا دیکھ لینا‘‘ پھر مجھے ان کی ویڈیو دیکھنے کی سعادت نصیب ہوئی اور میں اس مرد درویش کی سحر بیانی کی اسیر ہوتی چلی گئی کاش کہ میں حقنواز کی ماں ہوتی، بہن ہوتی، بیٹی ہوتی ، یا پھر بیوی ہوتی ، خدا گواہ ہے کہ یہ الفاظ میرے منہ سے بے ساختہ نکل گئے۔
اہل جھنگ خوش نصیب.
قارئین : بالعموم پورے پاکستان اور بالخصوص اہل جھنگ بڑے ہی خوش نصیب ہیں کہ علامہ حقنواز جھنگوی رحمہ اللہ نے جہاں انھیں سنیت کا شعور بخشا وہاں سر زمین جھنگ کو ایک فرسوده شقی قصے کی ہیروئین ’’‘‘ کی نسبت سے نجات دلائی کچھ عرصہ پہلے سالہا سال سے جھنگ ہیر کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اور اب جھنگ کا ذکر آتے ہی جھنگوی کا تصور بھر آتا ہے اور جھنگ کو جھنگوی کی نسبت سے پہچانا جاتا ہے۔
قبر شریف پر حاضری کا ارادہ
میں نے ارادہ کر رکھا ہے کہ زندگی میں موقع ملتے ہی ایک دفعہ ضرور اس شہید ناموس صحابہ کی قبر پر حاضری دوں گی اور شکوہ کروں گی کہ آپ ہمیں تنہا کیوں چھوڑ گئے ؟ ابھی تو ہمیں آپ کی بہت سخت ضرورت تھی۔ پھر ان کی قبر کی مٹی مٹھی بھر میں اٹھا کر یہ عہد کروں گی کہ۔
" حق نواز تیرا مشن مجھے مقدم ہے اور مرتے دم تک تیرے نقش قدم پر چلوں گی تیرے روحانی مرید شعبان کا ساتھ دوں گی پر تیرے مشن پر نہیں آنے دوں گی
شیعوں کی پالیسی
جب بھی شعبان ملتا ہے اس سے یہی کہتی ہوں کہ زندگی کا کچھ پہ نہیں میرے گھر والوں کو جونہی احساس ہوگا کہ میں شیعیت سے تائب ہو کر سنیت کی قائل ہوگئی ہوں تو وہ مجھے اس طرح سے قتل کردیں گے کہ میری موت طبعی موت معلوم ہوگی اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہو سکے گی۔
کیونکہ شیعوں کی یہ پالیسی ہے کہ سنی لڑکیوں کو کسی نہ کسی طرح سے ورغلا کر شیعہ بتا دیا جاتا ہے آپ نے دیکھا ہوگا کہ اکثر شیعہ کی برتن دھونے والی کسی کے گھر کام کرنے والی مجبور و بے بس غریب عورتوں کی بچیوں کو اپنے گھر میں رکھ لیتے ہیں اور انھیں روٹی کپڑا اور واجبی تعلیم بھی دلواتے ہیں اور ان بچیوں کو جوان ہوتے ہی ان کی شادی متوسط یا تھرڈ کلاس شیعوں سے کروا دیتے ہیں۔ ہر ایک کہتا ہے سید بادشاہ اپنے لوگ ہیں کتنے غریب پرور ہیں فلاں کپڑے دھونے والی فلاں عمر قید کاٹنے والے کی بچی کو پال کر جوان کیا اور اب اس کی شادی بھی کر دی‘‘ مگر کوئی یہ نہیں جان سکتا کہ سید بادشاه دراصل ایک بھولی بھالی معصوم سی لڑکی کو پال کر جوان کر کے ایک شیعہ ملیچھ کے حوالے کر چکے ہیں اور اب وہ عمر بر شیعہ بچے پیدا کرتی رہے گی اور اس طرح ایک سنی لڑکی دس بارہ شیعہ پیدا کر دیتی ہے اور خود نہ سنیوں میں رہتی ہے نہ شیعوں میں‘‘ کیا آپ نے بھی کبھی سنا ہے کہ کسی سید بادشاہ نے کسی سنی بچے کو پال پوس کر جوان کیا ہو تعلیم دلوائی ہو یا پھر شادی کروائی ہو ایسا اس لیے نہیں ہوتا کہ یہ نہیں چاہتے کہ سنی کا بچہ شیعہ بچے پیدا کرے اس کے برعکس شیعہ حضرات اپنی لڑکیوں پر کڑی نگاه رکھتے ہیں کہ کہیں کوئی شیعہ لڑکی سنی کے ساتھ بھاگ نہ جائے اس کے باجود ہر سال بیسیوں شیعہ لڑکیاں سنی لڑکوں کو زندگی بھر کا جیون ساتھی بنا کر بھاگ جاتی ہیں۔
میرے اباء و اجداد چچا، ماموں، اور دیگر رشتہ دار بھی نہیں چاہیں گے کہ میں شیعیت سے تائب ہوکر سن لڑکے کو اپنا لوں کیونکہ اگر وہ ایک ان پڑھ گنوار سے سنی لڑکی کو ورغلا کر اس کی برین واشنگ کر کے شیعہ بنا دیتے ہیں تو وہ خود بھی بھی نہیں
چاہیں گے کہ ان کی میری جیسی خوبصورت ، امیر ترین، اعلی تعلیم یافت ، اور باشعور کی کسی سنی کی کے عقد میں آجائے وہ اس بات کو شیعیت کیلئے نقصان عظیم جھیں گے اور جان سے مارنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے لیکن مجھے اس کی پروا نہیں ۔شعبان اس قدر میری اخلاقی مدد کر رہا ہے کہ اب میں شیعیت کی جانب واپس لوٹ ہی نہیں سکتی میرے قدم سنی قوم کی طرف بڑھتے چلے جارہے ہیں۔
علامہ حق نواز رحمہ کا ثانی نہیں
میں نے مولانا حقنواز جھنگوی رحمہ اللہ کے حالات زندگی پڑھے ہیں اور ہر ماہ خلافت راشدہ کا مطالعہ بھی کرتی ہوں اس لیے اب میرے ذہن میں شیعیت کیلئے کوئی نرم گوشہ باقی نہیں رہا شعبان نے مجھے حق نواز جھنگوی رحمہ اللہ کی کی 15 یادگار تقریر لا کر دیں ہیں اور میں نے وہ تقریریں حرف برف پڑھی ہیں ۔
خدا کی قسم لاکھ شیعہ مل کر بھی ایک حقنواز نہیں بن سکتا حقنواز کا ثانی کوئی نہیں۔
گزارش
میری ان تمام سنی بھائیو سے گزارش ہے جن کی بیٹیاں، بہنیں کالجوں میں پڑھتی ہیں ان کو آمادہ کریں کہ طالبات کی سپاہ صحابہ تنظیمیں بنائیں ایسا کرنے سے علامہ حقنواز جھنگوی رحمہ اللہ کا برپا کردہ سنی انقلاب بہت جلد نتیجہ خیز ثابت ہوگا۔ کیونکہ ایک مرد ایک فرد کی تعلیم کا سبب بنتا ہے جبکہ ایک عورت ایک خاندان کو تعلیم یافتہ بناتی ہے اس لیے سنی طالبات کو بھی باقاعدہ طور پر سپاہ صحابہ کے لئے کام کرنا چاہیے۔
(آمین ثم آمین )