Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

مسئلہ ختم نبوت کے لیے علماء متفقہ کی جدوجہد

  ابو ریحان فاروقی

مسئلہ ختمِ نبوت کے لیے علماء متفقہ کی جدوجہد

حضرت امیر شریعت سید عطااللہ شاہ بخاریؒ سید مولانا ابو الحسنات قادریؒ قاضی احسان احمد شجاع بادی نے قادیانیت کے اسلامی دعوؤں کی قلعی کھلی تو ایک طویل عرصہ تک جدید تعلیمی یافتہ طبقہ ان کے استدلال کو ماننے کے لیے تیار نہ ہوا قادیانیوں کے پراپیگینڈا اقرار ختمِ نبوت تائید شعائرِ اسلام کے ایسے اثرات حکمرانوں کے دلوں میں سرائیت کرچکے تھے کہ وہ ایک لمحہ بھی ان کے کفریہ عقائد دجل و فریب سے آلودہ نظریات کی بنا پر انہیں کافر یا غیر مسلم ماننے پر تیار نہ ہوئے۔

بالاخر علماء کی 90 سالہ کاوش اور سعی پیہم رنگ لائی اور 1974ء کی قومی اسمبلی میں ایک تحریک کے نتیجے میں مولانا مفتی محمودؒ نے ان کے عقائد و نظریات ان کی کتابوں سے اشکار کر دیے مفتی محمودؒ کی تائید حمایت میں مولانا شاہ احمد نورانیؒ مولانا معین الدین لکھنویؒ کے علاوہ 16 اراکین کی ایک بڑی تعداد نے ہاتھ اٹھائے مفتی محمودؒ کا طرزِ استدلال اندازِ تقریر قوتِ بیان اس قدر پُر اثر اور دل میں اتر جانے والا تھا کہ قادیانیوں کا اس وقت کا سربراہ مرزا ناصر بھی ان کے سامنے لاجواب ہوگیا بالاخر انگریزی خوانوں اور دین کے کماحقہ واقفیت نہ رکھنے والی اکثریت نے بھی اس کفر کو تسلیم کر کے انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔ قادیانیوں کے کھلے کفر کا یہ وہ اقرار تھا جس کی جدوجہد میں ہزاروں علماء اور مسلمان جامِ شہادت نوش کرچکے تھے جس کے اعلان کہ جرم میں سینکڑوں علماء سالہا سال تک میانوالی مچھ لاہور ملتان ڈیرہ غازی خان فیصل آباد کی جیلوں میں عمروں کی کئی کئی منزلیں گزار چکے تھے۔

آپ حضرات ہی میں بہت سے افسران اور ممبران نے قادیانیوں کے اقلیتی حقوق کے تحفظ کے بہانے علماء کا راستہ روکا تھا ان پر پابندیاں عائد کی تھیں ان کے داخلے بند کئے تھے انہیں کافر کہنا تو درکنار ان کے عقائد سے آگاہ کرنے پر بھی مقدمات قائم کئے تھے علمائے حق نے اپنی شرعی ذمہ داری کے تحت کسی مداہنت کا اظہار نہ کیا تھا انہوں نے تمام مشکلات اور عواقب کو بصد خوشی قبول کرکے اسلام کے عقیدہ ختمِ نبوت کے تحفظ کے لیے اسلاف کی سنت تازہ کر دی عقیدہ ختمِ نبوت کا تحفظ اسلام کا بنیادی مسئلہ تھا لیکن پاکستان کے دین سے بے بہرہ اکثر حکمرانوں کو نظریہ پاکستان کی روشنی میں بھی اس کا قطعی احساس نہ تھا انہیں اپنے عہدہ اور افسری کے باب میں مذہب اور عقیدہ کی سوچ سے بالکل تہی ہو کر سوچنے کا حکم دیا گیا تھا ان کے سامنے دنیاوی عہدہ کا احترام اسلام کی شرعی اور ایک مسلمان ہونے کے ناطے پیدا ہونے والی ذمہ داری سے کہیں زیادہ تھا۔