حکمرانوں اور ارکان دولت کے فرائض
ابو ریحان فاروقیحکمرانوں اور ارکانِ دولت کے فرائض
اسلامی مملکت میں حکمرانوں کی سوچ اور فکر بلاشبہ مساوات کی آئینہ دار ہوتی ہیں لیکن ایسا تو کسی حکومت میں نہیں ہوا کہ خود انہی کی مملکت کی بنیاد جس نظریہ پر رکھی گئی ہے اس کی بنیادیں کھودی جارہی ہیں ان کے عقائد پر کلہاڑا چلایا جارہا ہے ان کی نئی نسل کو ان کے اسلامی عقائد سے بزگشتہ کیا جارہا ہے ان کے سامنے ان کے دین کی اصل شکل مسخ کی جارہی ہے ان کے سامنے ایک نئے مذہب نئی تہذیب اور نئی تمدن اور نئی معاشرت کا درس دیا جارہا ہو اور وہ روا داری اور اعتدال و مصلحت اور ملکی حالات کا بہانہ بنا کر آسودہ خواب رہیں۔
خود اپنی موجودگی میں کفر کو اسلام کے لبادے میں پروان چڑھنے دیں اگر یہ سب کچھ درست ہے تو پھر آپ کو ہندوؤں سے علیحدگی اختیار کرنے کے کیوں ضرورت پیش آئی پھر دو قومی نظریہ کو کیوں سینے سے لگایا گیا تھا اگر ہندو علیحدہ مذہب اور الگ معاشرت کا علمبردار ہے تو اس طرح کوئی اور گروہ اسی طرح الگ مذہب معاشرت اور الگ عقائد و نظریات اپنائے اور پھر یہ سب کچھ ہندوؤں سے بھی آگے بڑھ کر اسلام کے نام پر کر رہا ہو تو ایسے موقع پر آپ کی خاموشی اس بات کا ثبوت نہیں کہ خود اسلام کی 14 سالہ تصویر کو بدلنے میں ان کے معاونت کر رہے ہیں آپ صرف ایڈمنسٹریشن کے آڑ میں غیر اسلامی افکار کو پنپنے کا موقع دے رہے ہیں کیا آپ نے نظریہ پاکستان سے وفاداری کا حلف نہیں دیا؟ کیا آپ کفر کو پھیلتا ہوا دیکھ کر بھی اس عہد کے ایفاء کے لیے کچھ نہیں کرسکتے اگر اس کفر کے بھی مقابل کوئی جماعت نبرد آزما ہو یا اسلام کے اس فریضہ پر عمل پیرا ہو تو آپ حسبِ سابق پھر ان کا راستہ روکتے ہیں ان کی خالص اسلامی جدوجہد کو فرقہ واریت تخریب کاری فساد قرار دیتے ہیں۔
تاریخِ اسلام کے دریچے میں جھانکنے والا ہر شخص جانتا ہے 16 ہجری میں امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروقؓ کی فوجیں سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ کی قیادت میں ہزاروں کی تعداد ایران پر حملہ آور ہوئیں ایرانی حکومت کا سرکاری مذہب زرتشت کے مطابق مجوسیت تھا ایرانی حکومت کے ظلم و تشدد اور بربریت سے انسانیت ہار چکی تھی سرمایہ داروں کے تکبر اور انانیت نے پورے ملک کے غریب عوام کو چکی کے دو پاٹوں کی طرح پیس کر رکھ دیا تھا استبداد و جور کی سیاہ اندھیری میں سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے عدل و انصاف اور رعایہ پروری کا دیپ جلایا دیکھتے ہی دیکھتے پورا ایران اسلام کے ظل عاطفت میں آگیا۔
امیر المؤمنین سیدنا فاروقِ اعظمؓ کے فتح کیے ہوئے ایران میں آج سے 300 سال پہلے اسماعیل صفوی جیسے حکمرانوں کی غداری کی وجہ سے شیعہ مذہب کے جرثومے میں پھوٹنا شروع ہوئے ایران کے سُنی علماء مجتہد مشائخ سکالر دانشور ارکان رواداری اور مصلحت کی لمبی لمبی چادریں تان کر آسودہ خواب تھے 95 فیصد سُنی اکثریت طاقت کے ذریعے اقلیت میں تبدیل کر دی گئی ایک ہزار سال کی اسلامی مملکت کے بعد ایران کی سیاسی ہیت تبدیل ہوگئی امیر المؤمنین سیدنا فاروقِ اعظمؓ کے فتح کئے ہوئے ملک میں خود انہی کو کافر قرار دینے والے مسلط ہوگئے سُنیت کو سینکڑوں برس میں ایسا کاری زخم پہلے کبھی نہ لگا تھا جیسا یہ زخم تھا یوں تو سانحہ بغداد ابنِ علقمی نامی شیعہ کا سیاہ کارنامہ بھی کوئی اس صدمے سے کم نہ تھا لیکن پورے کا پورا ملک مسلم قومیت سے نکل کر شیعیت کے تصور میں گم ہو جائے کفر طاقت کے ذریعے اسلام بن جائے ظلم کو انصاف شمار کیا جائے ساری سلطنتِ صحابہؓ دشمنوں کے آغوش میں چلی جائے تاریخِ اسلام کا یہ پہلا واقعہ تھا۔
شیعہ مذہب دنیا عالم کا وہ خطرناک اور زہر افشاں فتنہ ہے جس نے اسلام کے نام پر اسلام کی جڑیں کھودی ہیں اپنا تشخص اسلام ہی کے نام پر قائم کر کے اسلامی حکمرانوں کی سادگی، لاعلمی کم مائیگی فروتنی مصلحت براری کا مذاق اڑایا ہے جس قوم کا تصور توحید و رسالت تصور قیامت و بعثت تصور قرآنُ و سنت تصور عقائد احکام تصور معاشرت و تمدن اسلام سے بالکل جدا اور محمدی شریعت سے کوسوں دور ہو اس کی عیاری وار فتنہ پروری بہرحال داد دینی پڑتی ہے کہ وہ کیوں کر 1400 سال کے امت محمدیہ کے ایک طبقے اور دیگر غیر مسلم اقوام میں خود کو بطورِ مسلمان متعارف کرانے میں کامیاب ہوچکا ہے۔
وہ گروہ تحریفِ قرآن اور تکفیرِ صحابہؓ کے علاوہ اسپین میں الزغل کے ذریعے اسلامی حکومت کو پارہ پارہ کرنے سانحہ بغداد برپا کرنے صلاح الدین ایوبیؒ کے قتل کا منصوبہ بنانے سلجوقی اور فاطمی حکومتوں کو زیر و زبر کرنے میر صادق کے ذریعے سلطان ٹیپوؒ کو قتل کرنے میر جعفر کے ذریعے نواب سراج الدین دولہ کو راستے سے ہٹانے کے باوجود اپنے تئیں اسلام کا یہی خواہ قرار دینے میں شرم محسوس نہیں کرتا۔