بعد از وفات قرآن کریم کا میت کی حفاظت کرنا(تحقیق)
خادم الحدیث سید محمد عاقب حسینجب میت کو غسل دیا جاتا ہے تو قرآن مجید اس کے سرہانے کھڑا رہتا ہے اور جب میت کو قبر میں داخل کیا جاتا ہے تو قرآن مجید منکر نکیر اور میت کے درمیان حائل ہو جاتا ہے حدیث کی مکمل تحقیق۔
مکمل روایت اصل متن کے ساتھ درج ذیل ہے:
حضرت عبادة بن الصامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تم میں سے جب کوئی شخص رات كو بيدار ہو تو بلند آواز سے قرأت کرے کیونکہ وہ اپنى تلاوت سے سرکش شیاطین اور فاسق جنات بھگا رہا ہوتا ہے فضاء اور گھر میں رہنے والے فرشتے اس کی نماز کے ساتھ نماز پڑھتے اور اس کی قرأت کو غور سے سنتے ہیں اور گزرنے والى رات آئندہ آنے والى رات کو یہ کہتے ہوئے وصیت کر کے جاتى ہے کہ تو بھى اس قرآن پڑھنے والے کو رات کى اسى گھڑى میں بیدار کرنا اور اس پر ہلکى رہنا چنانچہ جب اس کی وفات کا وقت ہوتا ہے تو قرآنِ کریم آتا ہے اور جب تک اس کے گھر والے اسے غسل دے رہے ہوتے ہیں قرآنِ کریم اس شخص کے سرہانے کھڑا رہتا ہے جیسے ہی گھر والے اس کے غسل و کفن سے فارغ ہوتے ہیں تو قرآنِ کریم آتا ہے اور اس شخص کے کفن اور سینے كے درمیان جاگزیں ہوجاتا ہے پھر جب اسے دفن کیا جاتا ہے اور منکر نکیر دو خاص فرشتوں کے نام اس کے پاس آتے ہیں تو قرآنِ کریم نکل کر میت اور ان فرشتوں کے درمیان حائل ہو جاتا ہے وہ فرشتے قرآنِ كريم سے کہتے ہیں ہمارے سامنے سے ہٹ جاؤ تاکہ ہم اس سے سوال و جواب کر سکیں تو قرآنِ کریم جواب میں کہتا ہے نہیں بخدا میں اس سے اس وقت تک نہیں ہٹوں گا جب تک ميں اسے جنت میں نہ داخل کرا دوں اور اگر تمہیں اس شخص کے بارے میں اللہ تعالىٰ کى طرف سے کوئی حکم دیا گیا ہے تو تم اس حکم کو پورا کر گزرو پھر قرآنِ كريم اس میت کی طرف دیکھ کر کہتا ہے کیا تم مجھے پہچانتے ہو تو وہ کہتا ہے نہیں تب وہ قرآن اس سے کہتا ہے میں وہى قرآن تو ہوں جو تجھے رات كو جگائے رکھتا تھا تہجد میں بیدار ہو کر تم میرى تلاوت کیا کرتے تھے اور تمہیں دن بھر پیاسا رکھتا تھا اور تجھے تیرى شہوت سے روکے رکھتا تھا اور تیرے کانوں اور تیری آنکھوں کو غلط کاموں سے روکتا تھا سو تو مجھے دوستوں میں سچا دوست اور بھائیوں میں سچا بھائی پائے گا تجھے خوشخبرى ہو کہ منکر نکیر کے سوال و جواب کے بعد تمہیں کوئى غم اور پریشانى نہیں ہوگى پھر قرآنِ کریم اوپر اللہ تعالیٰ كى طرف جائے گا اور اللہ تعالیٰ سے اس کے لیے بستر اور چادر مانگے گا تو الله تعالیٰ اس کے لیے بستر چادر جنت کے نور کا ايک چراغ اور جنت کی یاسمین چنبیلی عنايت كيے جانے کا فرشتوں كو حكم فرمائیں گے چنانچہ حکم کى تعمیل میں ایک ہزار آسمانی مقرب فرشتے ان چیزوں کو اٹھا کر لائیں گے ایسے میں قرآنِ کریم ان فرشتوں سے پہلے اس ميت كے پاس پہنچ جائے گا اور اس سے کہے گا تجھے میرے یہاں سے جانے کے بعد كوئى گھبراہٹ تو نہیں ہوئی میں یہاں سے جانے کے بعد مسلسل اللہ تعالیٰ سے تیرے بارے میں سفارش کرتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے بستر چادر اور جنت کے نور کا چراغ اور جنت کی یاسمین چنبیلی عنايت كيے جانے کا حکم دے دیا پھر فرشتے اس ميت کو اوپر اٹھاتے ہیں اور اس كے لیے بستر بچھاتے ہیں اور اوڑھنى چادر میت کی پاؤں کی جانب رکھ دیتے ہیں اور یاسمین چنبیلی اس کے سینے کے پاس رکھ دیتے ہیں پھر اس ميت کو دائیں کروٹ پر لٹاتے ہیں اور وہ فرشتے اس کے پاس سے چلے جاتے ہیں یہ مردہ ان فرشتوں کو جاتا ہوا برابر دیکھتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ آسمان میں گم ہو جاتے ہیں پھر قرآنِ کریم میت کے لیے اوپر جاتا ہے تو قبر کے قبلہ کى جانب کو پانچ سو سال کی مسافت کے برابر کشادہ کر دیا جاتا ہے یا جتنا اللہ تعالیٰ کشادہ فرمانا چاہیں اتنى کشادہ کر دى جاتى ہے پھر قرآنِ کریم اس یاسمین چنبیلی كو اٹھا کر اس میت کے ناک کے نتھنوں کے پاس رکھ دیتا ہے تاکہ مسلسل وہ یاسمین کى خوشبو سے محظوظ ہوتا رہے پھر وہ قرآنِ کریم اس میت کے گھر والوں کے پاس ہر روز ایک یا دو دفعہ جاتا ہے اور ان کی خیر خبر اس میت کے پاس لاتا ہے اور اس کے گھر والوں کے لیے بھلائی کی دعا کرتا رہتا ہے اگر اس میت کى اولاد میں کوئى قرآنِ کریم سیکھ ليتا ہے تو قرآنِ كريم آ كر اس ميت كو اس بات کی خوشخبری سناتا ہے اور اگر اس میت کے پسماندگان برے ہوں تب بھى روزانہ ایک یا دو مرتبہ قرآنِ کریم ان کے پاس آ کر ان کے حال پر کڑھتا اور روتا رہتا ہے اور یہ سلسلہ قیامت کے صور پھونکے جانے تک جارى رہتا ہے۔
اس اثر کو باسند درج ذیل کتب میں روایت کیا گیا:
1: التهجد وقيام الليل لابن أبی الدنيا رقم الحدیث: 30
2: كتاب المتفق والمفترق رقم الحدیث: 1513
3: كتاب مسند الحارث رقم الحدیث: 730
4: كتاب أخلاق أهل القرآن رقم الحدیث: 90
5: كتاب فضائل القرآن لابن الضريس رقم الحدیث: 115
گزشتہ کتب میں یہ روایت جن اسناد کے ساتھ نقل کی گئی ہے ان کی تحقیق:
1:حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ قَالَ حَدَّثَنَا دَاوُدُ أَبُو بَحْرٍ عَنْ صِهْرٍ لَهُ يُقَالُ لَهُ مُسْلِمُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ مُوَرِّقٍ الْعِجْلِی عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالا۔
یہ سند ضعیف ہے کیونکہ سند میں أبو بحر داؤد بن راشد الطفاوی لين الحدیث ہے اس سند کے بقیہ رجال ثقہ صدوق ہیں۔
(التقريب التهذيب: رقم الحدیث، 1789)
2: أخبرنا بسر بن عبد الله الفاتنی والقاضی أبو العلاء الواسطی قالا أخبرنا أحمد بن جعفر بن حمدان بن مالك القطيعی حدثنا بشر بن موسیٰ حدثنا أبو عبد الرحمٰن المقری حدثنا رجل من أهل كرمان يقال له داؤد أبو بحر ح وقال أبو العلاء داؤد أبو يحيیٰ والصواب أبو بحر وأخبرنا علی بن محمد بن علی الإيادی أخبرنا أحمد بن يوسف بن خلاد العطار حدثنا الحارث بن محمد التميمی حدثنا أبو عبد الرحمٰن المقری حدثنا داؤد أبو بحر عن صهر له يقال له مسلم بن أبی مسلم عن مورق العجلی عن عبيد ابن عمير الليثی قال قال عبادة بن الصامت رضی الله عنه۔
ان دونوں اسناد میں بھی أبو بحر داؤد بن راشد الطفاوی کا ضعف موجود ہے۔
3: حدثنا أبو عبد الرحمٰن المقری ثنا داؤد أبو بحر عن صهر له يقال له مسلم بن مسلم عن مورق العجلی عن عبيد بن عمير الليثی قال قال عبادة بن الصامت۔
اس سند میں بھی داؤد موجود ہے لہٰذا یہ بھی ضعیف ہے۔
4: أخبرنا أبو علی بن مسلمة حدثكم أبو الحسن الحمامی إملاء من لفظه نا أبو القاسم عبد الله بن الحسن النحاس أنا أبو بكر محمد بن القاسم بن بشار النحوی نا محمد بن يونس الكديمی نا يونس بن عبيد الله العنبری نا داود بن يحيىٰ الكرمانی عن مسلم بن شداد عن عبيد الله بن عمير عن عبادة بن الصامت صاحب رسول اللهﷺ قال۔
یہ سند تو ضعیف جداً ہے کسی کھاتے میں نہیں اس میں سب سے بڑا ضعف محمد بن يونس الكديمی ہے جس پر احادیث گھڑنے کا الزام ہے نیز سند مقلوب بھی ہے مثلاً داؤد بن راشد کی جگہ راوی کی غلطی سے داؤد بن یحییٰ آگیا اسی طرح ایک دو اور مقامات پر بھی سند مقلوب ہے۔
(ميزان الاعتدال: رقم الحدیث، 8353 )
5: أخبرنا أحمد قال حدثنا محمد قال أخبرنا عمرو بن مرزوق أخبرنا داؤد أبو بحر الكرمانی عن مسلم بن أبی مسلم عن مورق العجلی أنه كان يحدث عن عبيد بن عمير الليثی أنه سمع عبادة بن الصامت يقول۔
اس سند میں بھی داؤد متفرد ہے جس کا ضعف بیان کیا جاچکا ہے۔
ان تمام اسناد کی تحقیق کے بعد یہ بات معلوم ہوگئی کہ اس روایت کو بیان کرنے میں أبو بحر داؤد بن راشد الطفاوی متفرد ہے اس کا کوئی متابع ہماری تحقیق میں نہیں اور راوی لین الحدیث ہے اور ایسے راوی کا تفرد آئمہ قبول نہیں کرتے جب تک اس کا کوئی متابع نہ ہو۔
البتہ اس روایت کا ایک ضعیف مرفوع شاہد موجود ہے ملاحظہ ہو:
حدثنا سلمة بن شبيب قال أخبرنا بسطام بن خالد الحرانی قال أخبرنا نصر بن عبد الله أبو الفتح عن ثور بن يزيد عن خالد بن معدان عن معاذ بن جبل رضی الله عنه قال قال رسول اللهﷺ من صلى منكم من الليل فليجهر بقراءته فإن الملائكة تصلی بصلاته وتسمع لقراءته وإن مؤمنی الجن الذين يكونون فی الهواء، وجيرانه معه فی مسكنه يصلون بصلاته ويستمعون قراءته وإنه ليطرد بجهر قراءته عن داره وعن الدور التی حوله فساق الجن ومردة الشياطين وإن البيت الذی يقرأ فيه القرآن عليه خيمة من نور يقتدی بها أهل السماء كما يقتدون بالكوكب الدری فی لجج البحار، وفی الأرض القفر فإذا مات صاحب القرآن رفعت تلك الخيمة فينظر الملائكة من السماء فلا يرون ذلك النور فتنعاه الملائكة من السماء إلى السماء فتصلی الملائكة على روحه فی الأرواح ثم تستقبل الملائكة الحافظين اللذين كانا معه ثم تستغفر له الملائكة إلى يوم يبعث وما من رجل تعلم كتاب اللہ ثم صلى ساعة من الليل إلا أوصت به تلك الليلة الماضية الليلة المستقبلة أن تنبهه لساعته وأن تكون عليه خفيفة وإذا مات وكان أهله فی جهازه يجئی القرآن فی صورة حسنة جميلة واقفا عند رأسه حتىٰ يدرج فی أكفانه فيكون القرآن على صدره دون الكفن فإذا وضع فی قبره وسوی عليه وتفرق عنه أصحابه أتاه منكر ونكير فيجلسانه فی قبره يجئی القرآن حتىٰ يكون بينه وبينهما فيقولان له إليك حتىٰ نسأله فيقول لا ورب الكعبة إنه لصاحبی، وخليلی ولست أخذله على حال فإن كنتما أمرتما بشئی فامضيا لما أمرتما ودعانی مكانی فإنی لست أفارقه حتىٰ أدخله الجنة إن شاء الله ثم ينظر القرآن إلى صاحبه فيقول له اسكن فإنك ستجدنی من الجيران جار صدق ومن الأخلاء خليل صدق ومن الأصحاب صاحب صدق فيقول له من أنت؟ فيقول أنا القرآن الذی كنت تجهر بی، وتخفينی، وكنت تحبنی فأنا حبيبك فمنأحببته أحبه الله ليس عليك بعد مسألة منكر ونكير من غم، ولا هم ولا حزن فيسأله منكر ونكير ويصعدان ويبقى هو والقرآن فيقول لأفرشنك فراشا لينا ولأدثرنك دثارا حسنا جميلا جزاء لك بما أسهرت ليلك وأنصبت نهارك قال فيصعد القرآن إلى السماء أسرع من الطرف فيسأل الله ذلك له فيعطيه الله ذلك فينزل به ألف ألف من مقربی السماء السادسة فيجيئه القرآن ويقول هل استوحشت؟ ما زلت مذ فارقتك أن كلمت الله تبارك وتعالى حتىٰ أخرجت لك منه فراشا ودثارا ومصباحا وقد جئتك به فقم حتىٰ تفرشك الملائكة قال فتنهضه الملائكة إنهاضا لطيفا ثم يفسح له فی قبره مسيرة أربع مائة عام ثم يوضع له فراش بطانته من حرير أخضر حشوه المسك الأذخر ويوضع له مرافق عند رجليه ورأسه من السندس والإستبرق ويسرج له سراجان من نور الجنة عند رأسه ورجليه يزهران إلى يوم القيامة ثم تضجعه الملائكة على شقه الأيمن مستقبل القبلة ثم يؤتى بياسمين من ياسمين الجنة ويصعد عنه ويبقى هو والقرآن فيأخذ القرآن الياسمين فيضعه على أنفه غضا فيستنشقه حتىٰ يبعث ويرجع القرآن إلى أهله فيخبره بخبرهم كل يوم وليلة ويتعاهده كما يتعاهد الوالد الشفيق ولده بالخبر فإن تعلم أحد من ولده القرآن بشره بذلك وإن كان عقبه عقب السوء دعا لهم بالصلاح والإقبال۔
ترجمہ: حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا جس گھر میں قرآنِ مجید کی تلاوت کی جاتی ہے اس گھر پر نور کا ایک خیمہ ہوتا ہے جس سے آسمان والے رہنمائی حاصل کرتے ہیں جس طرح ٹھاٹھیں مارتے سمندر اور چٹیل میدانوں میں موتی جیسے تارے سے راہنمائی کی جاتی ہے جب تلاوت کرنے والا فوت ہو جاتا ہے تو وہ نوری خیمہ اٹھا لیا جا تا ہے چنانچہ فرشتے آسمان سے دیکھتے ہیں تو انہیں وہ نور نظر نہیں آتا پھر فرشتے اسے ایک آسمان سے دوسرے آسمان پر لے جاتے اور اس کی روح پر درود بھیجتے ہیں پھر قیامت تک اس کے لیے استغفار کرتے ہیں اور جو بھی مؤمن کتاب اللہ سیکھتا ہے اور پھر رات کی کسی گھڑی میں نماز پڑھتا ہے تو وہ رات اگلی رات کو وصیت کرتی ہے کہ اس مؤمن کو وقت مقررہ پر بیدار کر دینا اور اس کے لیے آسان ہو جانا جب وہ فوت ہو جاتا ہے تو اس کے گھر والے اس کے کفن کی تیاری میں مشغول ہوتے ہیں جب کہ قرآنِ کریم انتہائی حسین صورت میں اس کے سر کے پاس آ کر ٹھہر جاتا ہے پھر کفن کے نیچے اور سینے کے اوپر آ جاتا ہے اور جب اسے قبر میں رکھ کر اس پر مٹی برابر کر دی جاتی اور دوست احباب واپس چلے جاتے ہیں تو نکیرین آ کر اسے قبر میں بٹھا دیتے ہیں اتنے میں قرآنِ مجید مؤمن اور فرشتوں کے درمیان حائل ہو جاتا ہے فرشتے کہتے ہیں ایک طرف ہو جاؤ تا کہ ہم اس سے سوال کریں وہ کہتا ہے ربِ کعبہ کی قسم ایسا ہر گز نہ ہو گا کیونکہ یہ میرا مصاحب اور میرا دوست ہے میں اسے کسی حال میں اکیلا نہ چھوڑوں گا البتہ اگر تمہیں کسی بات کا حکم ہے تو تم اس پر عمل کرو اور مجھے میری جگہ پر رہنے دو کیونکہ میں اسے جنت میں پہنچانے سے پہلے اس سے جدا نہیں ہوں گا پھر قرآن پاک اپنے دوست کی طرف دیکھ کر کہتا ہے میں وہی قرآن ہوں جسے تو کبھی بلند آواز سے اور کبھی آہستہ پڑھتا تھا اور مجھ سے محبت رکھتا تھا پس مجھے تجھ سے محبت ہے اور جس سے میں محبت کرتا ہوں اللہ عزوجل بھی اسے محبوب بنا لیتا ہے نکیرین کے سوالات کے بعد تجھ پر کوئی خوف ہے نہ کوئی غم نکیرین سوالات کرنے کے بعد تشریف لے جاتے ہیں اب مؤمن ہوتا ہے اور قرآنِ کریم کلامِ مجید فرماتا ہے میں تیرے لیے نرم و آرام وہ بستر بچھاؤں گا اور حسین و جمیل چادر عطا کروں گا کیونکہ تو رات بھر میرے لیے جاگتا اور دن بھر میرے لیے مشقت اٹھاتا تھا پھر قرآنِ پاک پلک جھپکنے سے بھی جلدی آسمان کی طرف پرواز کر جاتا ہے اور ربِ ذوالجلال سے بستر اور چادر کا سوال کرتا ہے تو وہ اسے عطا کر دیے جاتے ہیں پھر چھٹے آسمان کے ایک ہزار مقرب فرشتے اس کے ساتھ اترتے ہیں اور قرآنِ کریم مؤمن سے دریافت فرماتا ہے کہ تو میری عدمِ موجودگی میں وحشت زدہ تو نہیں ہوا میں ربِ ذوالجلال کے پاس تیرے لیے بستر اور چادر لینے گیا تھا اور وہ لے بھی آیا ہوں لہٰذا کھڑا ہوجا تاکہ فرشتے بستر بچھادیں پھر فرشتے اسے انتہائی نرمی سے اٹھاتے ہیں اور اس کی قبر 400 سال کی مسافت تک وسیع کر دی جاتی ہے پھر اس کے لیے اذفر خوشبو لگا سبز ریشم بچھایا جاتا ہے اور اس کے سر اور پاؤں کی جانب باریک اور موٹے ریشم کے تکیے لگائے جاتے ہیں اس کے سر اور قدموں کی طرف جنتی نور کے دو چراغ جلائے جاتے ہیں جو قیامت تک جلتے رہیں گے پھر فرشتے اسے دائیں پہلو پر قبلہ رخ کرکے اور اسے جنتی یاسمین دے کر پرواز کر جاتے ہیں اور پھر قیامت تک وہ اور قرآن رہ جاتے ہیں قرآنِ مجید شب و روز اس کی خبر اس کے گھر والوں کو دیتا ہے اور اس کے ساتھ اس طرح رہتا ہے جس طرح مہربان باپ اپنے بچے کے ساتھ رہتا ہے اگر اس کی اولاد میں سے کسی نے قرآنِ پاک پڑھ لیا تو قرآنِ کریم اس کو خوشخبری سناتا ہے اور اگر اس کے پیچھے اس کی اولاد میں سے کوئی برا ہو تو قرآنِ مجید اس کی اصلاح اور بہتری کے لیے دعا کرتا ہے۔
(كتاب مسند البزار: رقم الحدیث، 27655 و سندہ ضعیف)
اس حدیث کے ضعف کی وجہ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ نے بیان فرمائی:
هذا حديث غريب فی إسناده جهالة وإنقطاع۔
ترجمہ: یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند میں مجہول راوی بھی ہے اور انقطاع بھی ہے۔
(كتاب شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور: صفحہ، 132)
شیخ الاسلام حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ نے فرمایا:
قلت وفيه مع انقطاعه نصر بن عبد الله ما عرفته وبقية رجاله ثقات۔
ترجمہ: میں کہتا ہوں اس کی سند میں انقطاع کے ساتھ ساتھ نصر بن عبداللہ ہے جسے میں نہیں جانتا اور باقی راوی ثقہ ہیں۔
(نتائج الافکار: جلد، 2 صفحہ، 20)
امام نور الدین ہیثمی رحمۃ اللہ نے فرمایا:
رواه البزار وقال خالد ابن معدان لم يسمع من معاذ قلت وفيه من لم أجد من ترجمه۔
ترجمہ: اس کو امام بزار نے روایت کیا اور کہا خالد بن معدان نے حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے سماع نہیں کیا اور میں ہیثمی کہتا ہوں اس کی سند میں ایسا راوی ہے جس کا ترجمہ مجھے نہیں ملا۔
(كتاب مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: جلد، 2 صفحہ، 254)
لہٰذا مکمل تحقیق کے بعد خلاصہ کلام یہ ہوا کہ اثر حضرت عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ ضعیف ہے کیونکہ اس کو بیان کرنے میں أبو بحر داؤد بن راشد الطفاوی کا تفرد ہے اور یہ لین الحدیث ہے جیسا کہ پیچھے بیان کیا گیا اور اس اثر کا مرفوع شاہد جو کہ حدیث حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہے وہ بھی ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں نصر بن عبدالله مجہول الحال ہے اور ابنِ معدان اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے۔
لہٰذا یہ روایت مرفوعاً و موقوفاً ضعیف ہے اس کو دونوں طرح فضائل کے باب میں بیان و عمل کرنا درست ہے۔
فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کیا جائے گا درج ذیل شرائط کے ساتھ:
1: أَنْ يَكُونَ الضَّعْفُ غَيْرَ شَدِيدٍ، فَيَخْرُجُ مَنِ انْفَرَدَ مِنَ الْكَذَّابِينَ وَالْمُتَّهَمِينَ بِالْكَذِبِ، وَمَنْ فَحُشَ غَلَطُهُ، نَقَلَ الْعَلَائِی الِاتِّفَاقَ عَلَيْهِ۔
اس حدیث کا ضعف شدید نہ ہو یعنی اس میں منفرد کاذبین متھم بالکذب متروک اور فحش غلطیاں کرنے والے منکر الحدیث راوی نہ ہوں امام صلاح الدین علائی رحمۃ اللہ نے اس شرط پر محدثین کا اتفاق لکھا ہے۔
2: أَنْ يَنْدَرِجَ تَحْتَ أَصْلٍ مَعْمُولٍ بِهِ۔
ترجمہ: اس حدیث کی اصل شریعت میں موجود ہو۔
3: أَنْ لَا يُعْتَقَدَ عِنْدَ الْعَمَلِ بِهِ ثُبُوتُهُ بَلْ يُعْتَقَدُ الِاحْتِيَاطُ۔
ترجمہ: اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے اس حدیث کے ثابت ہونے کا اعتقاد نہ رکھا جائے بلکہ احتیاطاً عمل کیا جائے۔
یہ تینوں شرائط امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ نے شیخ الاسلام و المسلمین امیر المؤمنین فی الحدیث حافظ الدنیا ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ سے نقل کرکے لکھیں ہیں یہی مذہب ہے علامہ علاؤ الدین حصکفی ابنِ عابدین شامی ابنِ دقیق العید امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ امام ابن ہمام رحمۃ اللہ علامہ عبد الحئی لکھنوی رحمۃ اللہ وغیرہ کا۔
(كتاب تدريب الراوی فی شرح تقريب النواوی: صفحہ، 351)
(كتاب الجواهر والدرر فی ترجمة شيخ الإسلام ابنِ حجر: جلد، 2 صفحہ، 954)
اور شیخ الاسلام حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ نے شرائط مقررہ کی رعایت کرتے ہوئے ضعیف حدیث پر عمل کرنے والے کے لئے ایک نہایت اہم اور قابلِ لحاظ بات یہ بھی بیان کی:
وأن لا يشهر بذلك لئلا يعمل المرء بحديث ضعيف فيشرع ما ليس بشرع أو يراه بعض الجهال فيظن أنه سنة صحيحة۔
ترجمہ: ضعیف حدیث پر عمل کرنے والا شخص اس ضعیف حدیث کی تشہیر نہ کرتا پھرے تاکہ کوئی دوسرا انسان ضعیف حدیث پر عمل نہ کرے یا اس چیز کو شریعت سمجھ نہ بیٹھے جو فی الواقع شریعت نہیں ہے یا اس طرح اس کو عمل کرتا دیکھ کر بعض جاہل لوگ یہ نہ گمان کر لیں کہ وہ صحیح سنت ہے۔
(تبيين العجب بما ورد فی فضل رجب: صفحہ، 23)
نوٹ: ضعیف حدیث کو فضائل کے باب میں قبول کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں ائمہ کرام کے 4 مختلف بڑے مذاہب ہیں ہمیں ان چاروں میں سے جو أصح معلوم ہوا ہم نے اس کو اختیار کیا کسی کو بھی دلائل کے ساتھ ہمارے مؤقف سے اختلاف کرنے کا حق حاصل ہے۔
ضعیف حدیث کو بیان کرنے کی شرط:
امام ابو عمرو تقی الدین ابنِ صلاح م643ھ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:
إذا أردْتَ رِوَايةَ الحديثِ الضعيفِ بغَيْرِ إسْنادٍ فَلاَ تَقُلْ فيهِ قَالَ رسُولُ اللهِﷺ كَذا وكَذا وما أشْبَهَ هَذا مِنَ الألفَاظِ الجازِمةِ بأنَّهُ صلى الله عليه وسلم قَالَ ذَلِكَ وإنَّمَا تَقُولُ فيهِ رُوِی عَنْ رَسُولِ اللهِﷺ كَذَا وكَذَا، أوْ بَلَغَنا عَنْهُ كَذا وكَذا أوْ وَرَدَ عَنهُ أوْ جَاءَ عَنهُ أوْ رَوَى بَعْضُهُمْ ومَا أشْبَهَ ذَلِكَ وهَكَذا الْحُكْمُ فيما تَشُكُّ فی صِحَّتِهِ وضَعْفِهِ وإنَّمَا تَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللهِﷺ فيما ظَهَرَ لَكَ صِحَّتُهُ بطريقِهِ الذی أوْضَحْنَاهُ أوَّلاً واللهُ أعلمُ۔
ترجمہ: جب تم کوئی ضعیف حدیث بغیر سند کے بیان کرنا چاہو تو اس میں یوں مت کہو قال رسول اللہﷺ كذا وكذا کہ رسول اللہﷺ نے ایسا ایسا فرمایا ہے یا اس کے مشابہ ایسی تعبیر جس میں اس بات کا جزم ہو کہ رسول اللہﷺ نے اس کو فرمایا ہے اور تم تو اس میں صرف یہ کہو گے کہ روی عن رسول اللهﷺ كذا وكذا کہ رسول اللہﷺ سے یوں یوں منقول ہے یا بلغنا عنه كذا وكذا کہ رسول اللہﷺ سے ہمیں اس اس طرح کی بات پہونچی ہے یا ورد عنه يا جاء عنه کہ آپﷺ سے یہ بات وارد ہے یا روی بعضھم کہ بعض لوگوں نے رسول اللہﷺ سے یہ بات روایت کی ہے اور اس کے مشابہ الفاظ اور یہی حکم ہے ان احادیث کے متعلق کہ جن کی صحت و ضعف میں آپ کو شک ہو اور قال رسول اللہﷺ جیسی جزم کی تعبیر تو صرف اس صورت میں آپ کہیں گے جب کہ حدیث کی صحت آپ پر اس طریقے سے واضح ہو جاۓ جس کو ہم نے پہلے بیان کیا ہے واللہ اعلم۔
(كتاب مقدمة ابن الصلاح معرفة أنواع علم الحديث ت الفحل والهميم: صفحہ، 211)
(كتاب تدريب الراوی فی شرح تقريب النواوی: صفحہ، 350)
اس اصول کو امام نووی رحمۃ اللہ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ امام سراج الدین بلقینی رحمۃ اللہ امام زین الدین عراقی رحمۃ اللہ امام ابن کثیر رحمۃ اللہ امام ابنِ ملقن رحمۃ اللہ امام بدرالدین زرکشی رحمۃ اللہ جیسے جلیل القدر محدثین کرام نے بھی بیان کیا ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ ضعیف حدیث پر عمل کرتے وقت اوپر بیان کردہ شرائط کو ملحوظ خاطر رکھا جائے اور ضعیف حدیث کو بیان کرتے وقت بھی اوپر بیان کردہ شرط کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔
فقط واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
خادم الحدیث النبویﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی۔
(مؤرخہ 17 ذو الحجہ 1443ھ)