غزوہ حنین اور شیعوں کا دجل
جعفر صادقشیعہ ہمیشہ آدھی بات، آدھا فقرہ یا کسی آیت کے دو تین الفاظ سے اپنی پسند کا مفہوم بیان کر کے عوام الناس کو گمراہ کرتے ہیں۔
♦️ پہلے غزوہ حنین کا واقعہ سورت توبہ آیت 25 اور 26 کی مدد سے سمجھتے ہیں۔
فتح مکہ کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر ملی کہ ہوازن وثقیف کے کفار مسلمانوں سے جنگ کے لیے حنین کے مقام پر جمع ہوئے ہیں آپ بارہ ہزار کی جمعیت لے کر ان کے مقابلے کے لیے روانہ ہوئے ۔ ان بارہ ہزار میں دس ہزار تو وہ مہاجرین وانصار تھے جو مدینے منورہ سے آپ کے ساتھ آئے تھے اور دو ہزار مکہ کے نومسلم تھے ، ادھر کافروں کی تعداد چار ہزار اور بعض روایتوں کے مطابق 22، 24، یا 28 ہزار تھی ۔
اس وقت بعض مسلمانوں کی زبان سے یہ نکلا کہ آج ہم تعداد کی قلت کی وجہ سے مغلوب نہیں ہوں گے اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہ آئی کہ مسلمانوں نے اس کی نصرت واعانت پر بھروسہ کرنے کی بجائے اپنی کثرت پر نظر کی ۔ حالانکہ فتح تو اللہ ہی کی نصرت واعانت سے حاصل ہوتی ہے نہ کہ جنگی سازوسامان اور فوج کی کثرت سے ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو متنبہ کرنے کے لیے پہلے تو ان کو شکست سے دوچار کیا تاکہ ان کو احسان ہوجائے کہ فتح کا دارومدار قوت و کثرت پر نہیں بلکہ اللہ کی تائید وحمایت پر ہے پھر جب ان کو اپنی لغزش کا احساس ہوگیا تو اللہ نے تائید غیبی سے شکست کو فتح سے بدل دیا ۔
یہاں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ جس طرح اس نے دوسرے بہت سے مواقع پر ان کی مدد واعانت کی تھی اسی طرح اس نے حنین کے دن بھی مسلمانوں کی غیبی امداد کی جبکہ ان کی عددی کثرت جس پر انہیں فخر وناز تھا ، ان کے ذرا بھی کام نہ آئی ، اور وہ دشمن کے حملے کی تاب نہ لاکر بھاگ کھڑے ہوئے اور فراخی کے باوجود ان پر زمین تنگ ہوگئی ، پھر جب ان کو اپنی لغزش اور خطاء کا احساس ہوگیا اور ان کا غرور زائل ہوگیا ، اور انہوں نے اپنی کثرت کی بجائے اللہ تعالیٰ کی نصرت وعانت پر نظر کی تو اللہ نے اپنے رسول اور مومنوں پر اپنی خاص رحمت وسکینت نازل فرمائی ۔ جس سے ان کے دلوں کو اطمینان و سکون نصیب ہوا اور ان کے اکھڑے ہوئے قدم جم گئے اور مسلمانوں کی مدد کے لیے آسمان سے ایسے لشکر اتارے جن کی وہ اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے تھے مگر ان کے آثار کو محسوس کرتے تھے ۔ اس تائید غیبی کی وجہ سے مومنوں کو غلبہ حاصل ہوا اور کافروں کو سزا ملی کہ وہ قتل بھی ہوئے اور گرفتار بھی ، دنیا میں کافروں کی یہی سزا ہے ۔
پھر فرمایا کہ اس سزا کے بعد اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا اپنی رحمت سے اسلام کی توفیق بخش دے گا ، کیونکہ وہ بہت بخشنے والا مہربان ہے ، چنانچہ ہوازن وثقیف کے بہت سے لوگ تائب ہوکر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مشرف باسلام ہوئے ۔ (ابن کثیر 343۔ 346۔ 2)
سورہ التوبہ : آیت 26,25
لَقَدۡ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ فِیۡ مَوَاطِنَ کَثِیۡرَۃٍ ۙ وَّ یَوۡمَ حُنَیۡنٍ ۙ اِذۡ اَعۡجَبَتۡکُمۡ کَثۡرَتُکُمۡ فَلَمۡ تُغۡنِ عَنۡکُمۡ شَیۡئًا وَّ ضَاقَتۡ عَلَیۡکُمُ الۡاَرۡضُ بِمَا رَحُبَتۡ ثُمَّ وَلَّیۡتُمۡ مُّدۡبِرِیۡنَ ﴿25﴾
♦️یقیناً اللہ تعالیٰ نے بہت سے میدانوں میں تمہیں فتح دی ہے اور حنین کی لڑائی والے دن بھی جب کہ تمہیں کوئی فائدہ نہ دیا بلکہ زمین باوجود اپنی کشادگی کے تم پر تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ پھیر کر مڑ گئے۔
ثُمَّ اَنۡزَلَ اللّٰہُ سَکِیۡنَتَہٗ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ اَنۡزَلَ جُنُوۡدًا لَّمۡ تَرَوۡہَا وَ عَذَّبَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ وَ ذٰلِکَ جَزَآءُ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿26﴾
♦️ پھر اللہ نے اپنی طرف کی تسکین اپنے نبی پر اور مومنوں پر اتاری اور اپنے لشکر بھیجے جنہیں تم دیکھ نہیں رہے تھے اور کافروں کو پوری سزا دی۔ ان کفار کا یہی بدلہ تھا۔۔
اب خود فیصلہ کریں کہ شیعہ کتنے منحوس اور خیانتکار ہیں کہ اللہ عزوجل اور نبی کریم کی معافی کو بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے اور صحابہ کرام کے بغض میں اندھے بہرے ہوکر دن رات زبان درزی کرتے رہتے ہیں۔ اللہ پاک ہمیں ایسے عقائد و نظریات سے پناہ میں رکھے۔ آمین۔