عقیدہ امامت ہی فساد کی اصل جڑ ہے
دارالتحقیق و دفاعِ صحابہؓعقیدہ امامت ہی فساد کی اصل جڑ ہے
سابق شیعہ مجتہد امیر رضا شاہ قمی کی کھری کھری باتیں
جب سے خداوند کریم نے ایمان کی روشنی نصیب فرمائی ہے ایسی قلبی سکون کی دولت سے بہرہ ور ہو رہا ہوں کہ بیان نہیں کر سکتا۔ میری سابقہ زندگی اصحابِ رسولﷺ خصوصاً خلفائے راشدینؓ اصحابِ ثلاثہؓ اور امہات المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ، سیدہ حفصہؓ کے ساتھ بُغض عداوت و نفرت سے بھرپور تھی۔ اہلِ بیتِؓ رسولﷺ کی محبت بھی ایسی تھی جس کے متعلق خود میرا ضمیر کبھی مطمئن نہ ہو سکا ۔کیونکہ ایک طرف ہم اہلِ بیتؓ کی محبت کا دم بھرتے تھے تو دوسری طرف ان کی تعلیمات کو کوئی اہمیت نہ دیتے تھے۔ جس قدر میں نے اپنے سابقہ مذہب شیعہ اثناء عشری پر غور کیا مجھے یقین ہوتا چلا گیا کہ اہلِ بیتؓ کی محبت اور شیعہ مذہب میں بڑا بُعد ہے بعض اوقات تو یہ فاصلہ واضح ترین تضاد کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اس وقت صاف نظر آنے لگتا ہے کہ شیعہ مذہب اہلِ بیتؓ کی محبت سے الگ کوئی دوسری چیز ہے۔ ایسے میں بنظرِ عمیق مطالعہ کرنے سے مجھ پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ شیعہ مذہب کے اپنی پیدائش پروان چڑھنے اور بامِ عروج تک پہنچنے کے تین زمانے ہیں۔ میرے نقطہ نظر کے مطابق شیعیت کی ابتداء اُسی وقت ہو گئی تھی جب آنحضورﷺ نے اعلانِ نبوت فرمایا۔ لیکن اس وقت کی شیعیت ابوجہل اور مشرکین مکہ کی شکل میں تھی اور مدینہ کے منافقین ان کے آلہ کار کے طور پر کام کرتے رہے میرے خیال میں یہ شیعیت کا پہلا دور تھا ۔ یہ دور فتح مکہ تک رہا۔
اسلام دشمنی کا جو بیج محبت اہلِ بیتؓ کے نام پر بویا گیا تھا وہ تناور درخت بنے بغیر نہ رہ سکا
جب مکہ فتح ہو گیا اور آنحضورﷺ نے حِجاز میں اپنی حکومت کا اعلان فرما دیا تو شیعیت نے بھی پینترا بدل لیا۔ اس وقت شیعیت دوسرے دور میں داخل ہوئی۔ اس دور میں شیعیت نے خفیہ طور پر سازشوں کا آغاز کر دیا۔ آنحضورﷺ کی رحلت کے فوری بعد فتنوں کا آغاز ہوا تھا جن میں منکرینِ زکٰوۃ ، ارتداد اور مدعیانِ نبوت شیعیت کی انہی خفیہ سازشوں کی شاخسانے ہیں ۔سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے کمال حکمت، بصیرت اور جرآت و بہادری کے ساتھ نہ صرف ان فتنوں کا خاتمہ کیا بلکہ فتوحات کا جو سلسلہ آنحضورﷺ کے دور میں شروع ہو چکا تھا اس کو بھی جاری رکھا ۔سیدنا عمر فاروقؓ کے دور میں شیعیت کی سازشیں سر نہ اٹھا سکیں لیکن اس عرصے کے دور میں انہوں نے سیدنا عمر فاروقؓ کی شہادت کی صورت بڑی کامیابی ضرور حاصل کر لی تھی۔ امیرالمؤمنین سیدنا عثمان غنیؓ کی خلافت کے آخری دور میں شیعیت تیسرے اور آخری دور میں داخل ہو کر شیعانِ علیؓ کے عنوان سے اسلام دشمن جدوجہد کا آغاز کر دیا ۔
اس طرح شیعیت کا پہلا دور کھلے عام اسلام اور پیغمبرِ اسلام کی مخالفت و مزاحمت کا دَور تھا۔ شیعیت کے دوسرے دَور میں اس نے اپنی خفیہ سرگرمیاں شروع کیں اس دوران شیعیت ایک ایسی شخصیت کی تلاش میں رہی۔ جس کو آڑ بنا کر اسلام کو بامِ عروج تک پہنچانے کی جدوجہد کرنے والی شخصیات کو من گھڑت الزام تراشیوں کے ذریعے ناقابلِ اعتبار اور اہلِ بیتِ رسولﷺ کا دشمن ثابت کر دیا جائے۔
شیعیت نے اپنے تیسرے دور کے ساتھ ہی سکھ کا سانس لیا تھا کیونکہ اس وقت انہیں مکمل اطمینان ہو چکا تھا کہ اسلام دشمنی کا جو بیج اس نے محبتِ اہلِ بیتؓ کے نام پر دیا ہے تناور درخت بنے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ اسی دور میں شیعیت ایک الگ مذہب اور اپنی خاص پہچان کی صورت میں ظاہر ہو گئی۔
جہاں تک میں نے شیعیت کی پوری تاریخ اور اس کے نظریے کی چھان پھٹک کی ہے تو اس کا تیسرا دور جو ایک الگ مذہب وخاص نظریہ کے قیام کا دور ہے اس کی بنیاد ہی صرف اور صرف نظریہ امامت ہے۔
یہاں میں شیعہ کا نظریہ امامت ان کی اپنی کتابوں کے حوالے سے بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ کیونکہ آپ کے سامنے نظر یہ امامت کی وضاحت کے بغیر اس کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا اندھیرے میں ہاتھ پاؤں مرنے کے مترادف ہے۔
میرے نقطہ نظر کے مطابق شیعیت کو اپنے تیسرے دور کے آغاز میں ایک ایسا شخص مل گیا تھا جو بہت ہی مکار ،دجل و فریب کا ماسٹر مائنڈ و نسلاً یہودی تھا ۔اس نے اسلام کے ابتدائی دنوں میں مسلمانوں کے دلوں میں پیغمبرِ اسلامﷺ اور آپﷺ کے اہل و عیال کی فطری محبت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک خاص نظریہ اور اس نظریے کو چند شخصیات تک محدود کرنے کی بنیاد رکھ دی۔ تاریخ میں اس شخص کو عبداللہ بن سباء کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ سیدنا علی المرتضٰیؓ نے چونکہ آنحضورﷺ کے گھر میں تربیت پائی تھی اور آپﷺ کے داماد تھے۔ آپﷺ کے بہت ہی محبوب صحابی تھے ۔اس لیے عبداللہ بن سباء نے نئے مذہب اور نظریہ کا بنیادی محور سیدنا علی المرتضٰیؓ کی ذات کو قرار دیا ۔ آگے چل کر یہ نظریہ مختلف شکل اختیار کرتا چلا گیا ۔
عبداللہ بن سباء کے بارے میں شیعہ مذہب کے مامور مجتہدین کی رائے کیا ہے ملاحظہ فرمائیں ۔
ترجمہ: "بعض اہلِ علم نے ذکر کیا کہ عبداللہ بن سباء یہودی تھا پھر اسلام لے آیا اور حضرت علیؓ کی ولایت کا قائل ہوا۔ یہ(شخص) اپنی یہودیت کے زمانے میں یوشع بن نون علیہ السلام کے بارے میں غلو کرتے ہوئے کہتا تھا کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وصی ہیں ۔ پس اسلام لانے کے بعد اس قسم کی بات سیدنا علیؓ کے بارے میں کہنے لگا کہ وہ آنحضورﷺ کی وفات کے بعد آپﷺ کے وصی ہیں۔"
(از کتاب تنقیح المقال مصنف علامہ مقالی و بحار الانوار جلد 25 صفحہ 287 مصنف ملا باقر مجلسی)
اس سے اگے بحار الانوار کا مصنف لکھتا ہے ۔
ترجمہ: "یہ سب سے پہلا شخص ہے جس نے مشہور کیا کہ حضرت علیؓ کی امامت کا قائل ہونا فرض ہے۔ اور اس نے حضرت علیؓ کے دشمنوں پر اعلانیہ تبرا کیا اور ان کے مخالفین کو واشگاف کر کے کافر کہا ۔ یہیں سے شیعہ کے مخالف لوگ شیعیت اور رافضیت کو یہودیت کا چربہ کہتے ہیں۔"
بحار الانوار کا مصنف آگے چل کر لکھتا ہے:
ترجمہ :"عبداللہ بن سباء نبوت کا دعویٰ رکھتا تھا اور کہتا تھا کہ امیر المؤمنین علیؓ "اللّٰہ" ہیں۔امیر المؤمنین کو اس کی یہ بات پہنچی تو اس کو بلوایا اس نے اقرار کیا اور کہا کہ ہاں آپ وہی ہیں میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی ہے کہ آپ اللّٰہ ہیں اور میں نبی ۔"
مذکورہ بالا تحریر پڑھ کر آپ سوچتے ہوں گے کہ کوئی سمجھدار آدمی ان باتوں کو کیسے تسلیم کر سکتا ہے تو میں وہی بات دہراتا ہوں جو میں نے خلافتِ راشدہ کے پچھلے شمارہ میں کہی تھی کہ"اللّٰہ نے ان کی آنکھوں، دلوں اور کانوں پر مُہر لگا دی ہے۔" یہ بات شیعہ مذہب چھوڑنے کے بعد مجھے سمجھ آئی تھی مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اللّٰہ پاک نے یہ آیتیں صرف شیعہ مجتہدین اور ذاکرین کے بارے میں ہی نازل فرمائی ہیں۔
شیعہ مذہب کے بانیوں کے پیشِ نظر تو صرف اسلام دشمنی ہی تھی انہوں نے اپنے قائم کیے ہوئے نظریات میں تضادات کو کبھی مدِنظر نہ رکھا اسی نقطہ پر انہوں نے نظریہ امامت کی بنیاد رکھی تھی۔
امامت کا تصور کیوں پیش کیا گیا؟ اس کی بھی ایک وجہ تھی وہ لوگ اپنی گھڑی ہوئی چیز کو سب سے آگے کر کے پیش کرنا چاہتے تھے چاہے اس کا نتیجہ کچھ بھی ہوتا۔
شیعہ نے اسلام کے تصورِ خلافت کے مقابلے میں امامت کا نظریہ پیش کیا۔ خلافت کا مطلب بے نیابت یعنی پیچھے ہونا اور امامت کا مطلب ہے قیادت یعنی آگے ہونا ۔ امامت کا تصور پیش کر کے اس نظریے کو چلانے کے لیے اس کے اتنے فضائل بیان کیے گئے کہ امامت کو قرآن ،سنت ،صحابہ رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین، ساری کائنات، تمام انبیاء،خود حضورﷺ بلکہ خداوند کریم سے بالاتر قرار دینے سے بھی دریغ نہیں کیا۔
آپ شیعہ مذہب کی بنیادی کتابوں کا مطالعہ فرمائیں گے تو آپ کو یہ سب باتیں روزِ روشن کی طرح نظر آئیں گی۔ اسی طرح شیعہ مذہب کے بانیوں میں ایک شخص محمد بن یعقوب کلینی ہے۔ اس نے اپنی کتاب اصولِ کافی میں ایک باب قائم کیا ہے کہ ان للارض کلها للامام علیہ السلام "ساری کائنات کا مالک امام ہوتا ہے"۔ آگے لکھتا ہے۔
ترجمہ: "ابو بصیر کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق سے سوال کیا کہ امام پر زکوٰۃ ہوتی ہے تو آپ نے فرمایا: اے ابومحمد ! تو نے محل بات کی تجھے معلوم نہیں دنیا اور آخرت امام کی ملکیت ہوتی ہے جہاں چاہے امام اس کو رکھے جس کو چاہے دے دے۔" شیعہ مذہب کے بانیوں نے سیدنا علیؓ کی طرف یہ باتیں منسوب کی ہیں۔
- "سیدنا علیؓ نے فرمایا:
میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں۔"
بحار الانوار صفحہ 347 جلد 39
- "جناب امیر المؤمنین نے فرمایا: مومن، منافق، کافر، مشرک، بدعتی کوئی آدمی نہیں مرتا جب تک اس کے سرہانے جا کر حکم نہ دوں۔"
- "سیدنا علیؓ نے فرمایا: میں صاحب مدین ہوں فرعون کو میں نے ہلاک کیا موسیٰ علیہ السلام کو میں نے نجات دی۔"( لصبائر الدرجات صفحہ 23' مصنف محمد شریف رسولوی)
- "سیدنا علیؓ نے اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا: میں وہ ہوں جس کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں بعد رسول میرے سوا کوئی نہیں جانتا"
(جلاءالعیون جلد دوم صفحہ 60' از ملا باقر مجلسی)
- سیدنا علیؓ جنت اور دوزخ میں تقسیم کے اختیارات رکھتے ہیں ۔
(بحار الانوار جلد 39 صفحہ 193)
یہ تو چند نمونے ہیں اسی طرح بے شمار من گھڑت روایات قصے اور کہانیاں بیان کر کے بانیانِ شیعہ مذہب نے نظریہ امامت کو باقاعدہ ایک عقیدہ اور مذہب کی شکل میں پیش کیا۔ پھر اس عقیدے کے تحفظ کے لیے قرآن کی تحریف کا نظریہ پیش کیا۔ خلفائے ثلاثہؓ اور امہات المؤمنینؓ پہ تبرا کی مہم شروع کی۔ تقیہ کا عقیدہ بھی اسی عقیدہ امامت کے تحفظ کا مظہر ہے ۔اسی عقیدہ امامت کی رؤسا، امراء، راجوں ، مہاراجوں اور بادشاہوں میں ترغیب کے لیے متعہ جیسا قبیح فعل ایجاد کیا گیا۔ میرے خیال میں یہ عقیدہ امامت ہی فساد کی اصل جڑ ہے۔ امامت کے بارے میں شیعہ اثناء عشری کا متفقہ عقیدہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ کے بعد بارہ امام ایسے پیدا ہوئے ہیں جو :
1. انبیاء کی طرح معصوم ہیں۔
2. ان کادرجہ تمام انبیا سے بڑھ کر ہے۔
3. تمام امام آنحضورﷺ کے درجہ کے برابر ہیں۔
4. ان اماموں کو شریعت میں حرام کو حلال اور حلال کو حرام کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے۔
5. ان اماموں پر ہر سال شبِ قدر کو سال بھر کے احکام نازل ہوتے ہیں ـ
6. یہ امام وما كان وما يكون کا علم رکھتے ہیں ۔
7. اپنی مرضی سے مرتے اور اپنی مرضی سے جیتے ہیں۔
8. یہ تمام امام اللہ کی طرف سے نامزد اور مقرر کردہ ہیں۔
9. ان اماموں کی اطاعت انبیاء کی طرف فرض ہوتی ہے۔
10. عقیدہ امامت پر ایمان لانا عقیدہ توحید اور رسالت کی طرح ضروری ہوتا ہے۔
اماموں کے مذکورہ بالا اہم فضائل میں نے بیان کر دیے ہیں جن کا تذکرہ بانیانِ شیعہ کی کتب میں تکرار کے ساتھ موجود ہے۔ اس کے علاوہ وہ لوگ اماموں کے اور بہت سے فضائل و اختیارات بیان کرتے رہتے ہیں۔ میں نے کئی شیعہ سے ایسے سوال کیا کہ سیدنا علیؓ کی امامت کے بارے میں خداوند کریم کا کوئی حکم موجود ہوتا تو خلفائے راشدینؓ حتیٰ کہ کوئی بھی صحابیؓ اس کی قطعاً مخالفت نہ کرتا۔ بلکہ سیدنا علیؓ خود بھی اس حکم کے مطابق اپنی امامت کا علی الاعلان اظہار کرتے نہ کہ خود خلفائے ثلاثہؓ کے ہاتھ پر بیعت کر کے 23 سال تک ان کی اقتدا میں نمازیں پڑھتے رہے۔ بانیانِ شیعہ مذہب نے سوال پر غور کرنے کی بجائے تقیہ کا عقیدہ ایجاد کر کے سیدنا علیؓ کے اس عمل کی خود ہی تردید کر دی تھی۔ اگرچہ عقیدہ امامت کی رُو سے تو سیدنا علیؓ کا ہر حکم اور عمل دین ٹھہرنا تھا تو پھر خلفائے ثلاثہؓ کی امامت کو تسلیم کرنا بھی خدائی حکم کے مطابق ہی تھا۔ اسی لیے تو میں کہتا ہوں کہ شیعہ نے پہلے ایک جھوٹ بول لیا پھر اس جھوٹ کا دفاع کرنے کے لیے انہیں 100 سے زیادہ جھوٹ گھڑنے پڑے ہیں۔ آخر میں ذلالت و گمراہی میں ڈوبے ہوئے شیعہ مذہب کے پیروکاروں کو انتہائی دردمندانہ انداز میں دعوتِ فکر دینا چاہتا ہوں کہ اپنے عقائد پر غور و فکر کریں۔ محبتِ اہلِ بیتؓ کی جو چاشنی اہلِ سنت کے مذہب میں موجود ہے آپ کے ہاں تو اس کا تصور بھی نہیں ہے ۔