رفض و شیعت کا موجد ابنِ سباء ایک یہودی
دارالتحقیق و دفاعِ صحابہؓرفض و شیعت کا موجد ابنِ سباء ایک یہودی
شیعہ مذہب شروع سے لیکر حاضر تک اسلام اور مسلمانوں کے لئے مشکلات پیدا کرتا آرہا ہے کبھی شیعانِ علی کے نام پر کبھی قصاصِ حسینؓ کے نام پر، کبھی منگول حکمرانوں سے ملکر تو کبھی صلیبیوں سے مل کر۔ اس تحریر کا مقصد شیعہ مذہب کے مؤجد انکے محسنِ اعظم ابنِ سباء کے بارے میں آپ تک معلومات پہنچانا ہے اور یہ تحریر اسلامک فورم پر ہمارے بھائی ابنِ حسین کی تحریر کا ترجمہ ہے جو انہوں نے گفٹ ٹو شیعہ بلاگ پر اپلوڈ کی تھی اس میں کچھ ہماری محنت بھی شامل حال رہے گی۔اگر کسی بھی قسم کی خلاف توقع بات ملے تو براہِ کرم اصل آرٹیکل کی طرف رجوع کریں ہوسکتا ہے ترجمہ میں غلطی ہوئی ہو۔
اصل آرٹیکل یہاں پر ہے لنک پر کلک کریں:
Ibn Saba the spiritual Father of Rafida
شیعوں کے ویسے تو بہت ہی فرقے ہیں لیکن تاریخ میں ان کی تقسیم صرف 3 گروہوں میں کی گئی ہے جو کہ ان کے عقائد کی بنیاد پر ہے ۔ جس میں تفضیلی شیعہ ، امامیہ شیعہ اور غالی رافضی(جو کہ سیدنا علیؓ کے بارے میں الوہیت کا دعویٰ رکھتے ہیں شامی دکٹیٹر بشار الاسد اسی گروپ سے تعلق رکھتا ہے)
عبداللہ ابنِ سباء کے بارے میں شیعہ و سنی تواریخ میں بہت کچھ پایا جاتا ہے جو کہ ایک تواتر کی حد سے بھی زیادہ ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ شخص واقعی میں حقیقت ہے نہ افسانہ جیسے آج کل کے شیعہ اسے افسانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں پر اس سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس شخص کو ہی آخر شیعہ عقائد کا مؤجد کیوں کہا جاتا ہے۔
ملا مجلسی بحار الانوار میں لکھتا ہے:
علامہ مجلسی لکھتے ہیں:
وذكر بعض أهل العلم أن عبد الله بن سبا كان يهوديا فأسلم ووالى عليا عليه السلام وكان يقول وهو على يهوديته في يوشع بن نون وصي موسى بالغلو فقال في إسلامه بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وآله في علي عليه السلام مثل ذلك. وكان أول من أشهر بالقول بفرض إمامة علي عليه السلام وأظهر البراءة من أعدائه وكاشف مخالفيه وأكفرهم۔
بعض اہلِ علم نے ذکر کیا ہے کہ عبداللہ ابنِ سباء یہودی تھا اسلام لے آیا اور پھر سیدنا علیؓ کی ولایت کا قائل ہوا۔ اس پہلے جب یہ یہودی تھا تو حضرت یوشع کے بارے میں غلو کرتا تھا کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وصی ہیں۔ اسلام لانے کے بعد اسی قسم کی بات سیدنا علیؓ کے بارے میں کی یہ سب سے پہلا شخص ہے جس نے سیدنا علیؓ کی امامت کا قائل ہونا فرض قرار دیا اور ان کی دشمنوں پر اعلانیہ تبراء کیا اور مخالفوں کو کافر کہا۔
(بحارالنوار جلد 25 صفحہ 287 )
سیدنا صادقؓ اس کے بارے میں فرماتے ہیں:
رجال الكشي: محمد بن قولويه عن سعد عن ابن يزيد ومحمد بن عيسى عن علي بن مهزيار عن فضالة بن أيوب الأزدي عن أبان بن عثمان قال: سمعت أبا عبد الله عليه السلام يقول: لعن الله عبد الله بن سبا إنه ادعى الربوبية في أمير المؤمنين،
عبداللہ ابنِ سباء پر اللہ کی لعنت ہو اس نے امیر المؤمنین کے بارے میں ربوبیت کا دعویٰ کیا۔
(بحارالانوار جلد 25 صفحہ 287)
ان روایات سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ شیعوں کے تینوں ہی فرقوں کی بنیاد اسی ایک شخص کے عقائد پر ہے تفضیلیوں نے اس کے افضلیت علیؓ کا عقیدہ اپنایا ، امامی شیعوں نے افضلیت علیؓ، امامت،تبراء بازی کے عقائد کو ملا کر اپنایا پھر غالیوں نے اس کے الوہیت علی کے عقیدہ کو اپنایا چناچہ مجموعی طور پر سب شیعہ عقائد کا مؤجد یہی ہے۔
عبداللہ ابنِ سباء ایک یہودی جو کہ شیعوں کا روحانی باپ ہے
یہ مضمون تین حصوں میں تقسیم شدہ ہے جو کہ یہ ہیں:
¹-ایک یہ نئی بات ابنِ سباء کے ہونے کا مکمل انکار جو کہ آج کل کے شیعہ علماء زور و شور سے پروپیگینڈہ کرتے ہیں۔
²-ابنِ سباء یہودی شیعہ کتب میں ایسی حقیقت جس کا بہت سے شیعوں کو علم نہیں۔
³-شیعوں کا اعتراض کہ ابنِ سباء تو ہے لیکن مذہب امامیہ کا مؤجد یہ نہیں ہے۔
تمام شیعہ و سنی عبداللہ ابنِ سباء کے ہونے پر متفق ہیں (البتہ شیعہ اس بات کا انکار کرنے کی کوشش کرتے آرہے ہیں کہ رافضی مذہب کی بنیاد ایک یہودی کے عقائد پر ہے) یہاں تک کہ مستشرقین جن میں برنارڈ لیوس ، جولیس ویلحاسن ، فرائیڈلینڈر ، اور کیٹانی لیون شامل ہیں جنہوں نے ابنِ سباء کے ہونے پر اعتراضات کرنے شروع کر دیے جن کی بنیاد طحہ حسین ، کامل حسین ، عدنان ابراہیم جیسے جاہلوں کے کام پر ہیں چنانچہ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ شیعوں نے اپنے آباؤ اجداد سے اختلاف کرتے ہوئے اس کو اپنا لیا کہ ابنِ سباء ایک افسانہ ہے جس کی بنیاد بنی امیہ کے حکمرانوں کی کارستانی ہے جس کا مقصد شیعیت کو نقصان پہنچانا تھا اس کی تائید کرنے والوں میں مرتضیٰ عسکری اور کشف الغیتا وغیرہ شامل ہیں حالانکہ 1300 ہجری 1900 سے پہلے اس پر کوئی جھگڑا نہیں تھا کہ ابنِ سباء نہیں ہے۔ اس کے بعد کے شیعوں نے جب مستشرقین کو دیکھا کہ وہ ابنِ سباء پر اعتراض کر رہے ہیں تو انہوں نے یہ کہنا شرو ع کردیا کہ ابنِ سباء ایک افسانہ ہے یہ ایک ہی حل تھا (جو انہوں نے عیسائیوں اور یہودیوں سے لیا اور ثابت کیا کہ وہ یہودیوں کے مرید ہیں) جو کہ ان کے جھوٹے مذہب کو تنقید سے بچا سکتا تھا۔
جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ آج کل کے رافضی یہ بات مکمل رد کرتے ہیں کہ عبدا للہ ابنِ سباء یمنی یہودی کے نام سے کوئی آدمی ہے وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ افسانہ بنو امیہ کا گھڑا ہوا ہے جس کا مطلب شیعیت کو نقصان پہنچانا اور صحابہؓ کے جرائم کی پردہ پوشی کرنا تھا انہوں نے اس پر کتب بھی لکھیں ہیں ان سب میں مشہور مرتضیٰ عسکری کی کتاب ہے جس کا نام عبداللہ ابنِ سباء ہے اس کی کتاب کے بہت زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے اور اس کا مکمل رد کیا گیا ہے اب ہم اپنے ٹاپک کے پہلے حصہ کی طرف چلتے ہیں۔
حصہ اول: ایک نئی بات ابنِ سباء کے ہونے کا مکمل انکار جو کہ آج کل کے شیعہ علماء زور و شور سے پروپیگینڈہ کرتے ہیں۔
شیعوں کا اعتراض: ابنِ سباء ایک افسانہ ہے جو کہ بنی امیہ کا گھڑا ہوا ہے جس کے راوی صرف ایک ہے سیف بن عمر التمیمی جو کہ خود اہلِ سنت کے ہاں بھی جھوٹا ہے۔
ہم اللہ تعالیٰ کی مدد سے یہ بات ثابت کریں گے کہ سنی روایات میں صرف سیف بن عمر سے اس کے بارے میں روایات نہیں دوسری سندوں سے بھی ہیں۔
حقیقت میں یہ ایک افسانہ ہے جو کہ آج کل کے شیعوں نے گھڑا ہے مثال کے طور پر انٹرنیٹ پر شیعوں کی مشہور ویب اسلام ڈاٹ او آرجی میں لکھا ہے۔
عبداللہ ابنِ سباء کی کہانی ایک شیطان کے پیروکار سیف بن عمر تمیمی کی گھڑی ہوئی ہے ابنِ سباء وقت نہ تو تھا اور نہ ہی سیف بن عمر کے وہم و گمان میں تھا۔
جہاں تک کچھ روایات میں اس کے ہونے کی بات ہے تو اس میں بلکل ہی مختلف کہانی بتائی گئی ہے جو کہ سیف بن عمر کے ہر الزام سے مختلف ہے جس میں ایک ایسی آدمی کی تصویر دکھائی دیتی ہے جس سے اہلِ بیت نے برأت کا اظہار کیا اور اس سے بھی جو وہ امام علی کے نام پر کرتا تھا ہمارے امام ، ہمارے علماء اور شیعہ اس پر لعنت بھیجتے ہیں اگر وہ ہے تو وہ بدمذہب تھا اس کے او ر ہمارے بیچ میں کوئی بات ایک جیسی نہیں ہے سوائے اس کے کہ ہم اس کو لعنت کرتے ہیں اور ہر اس کو بھی جو اہلِ بیت کو دیوتا مانتا ہے۔
اب ہم ان شیعوں کے مخلتف دعویٰ کو دیکھتے ہیں جس کے بنیاد پر وہ ابنِ سباء کے ہونے کا انکار کرتے ہیں
اول: ایسی روایات جو کہ سیف بن عمر کے علاوہ مروی ہیں ان میں ابنِ سباء کی مختلف تصویر ہے جو کہ سیف بن عمر سے مختلف ہے اور اس میں اور شیعوں میں کوئی چیز یکساں نہیں۔
دوم: سیف بن عمر نے ہی اس کو ایجاد کیا جس کو سنی محدیثین نے بھی ضعیف کہا ہے۔
اول: ایسی روایات جو کہ سیف بن عمر کے علاوہ مروی ہیں
پہلی روایت
جاءفی (طوق الحمامة)ليحي بن حمزة الزبيدي عن سويد بن غفلةالجعفي الكوفي المتوفي عام(80ه/699م)أنه دخل على عليؓ في امارته،فقال:إنى مررت بنفر يذكرون أبا بكر و عمر بسوء،ويروون أنك تضمر لهما مثل ذلك، منهم عبدالله بن سباء، فقال علي:مالي ولهذا الخبىث الأسود ،ثم قال:معاذالله أن أضمر لهما إلاالحسن الجميل،ثم أرسل إلى ابن سبأفسيره ألى ألمداىٔن، ونهض ألى المنبر، حتى اجتمع الناس أثنى عليهما خير، ثم قال:أذا بلغنى عن أحد أنه يفضلني عليهما جلدته حد المفتري
الهي ظهير،إحسان السنة والشىيعه،نشر إدارة ترجمه السنه-الهور.
ترجمہ: یحییٰ بن حمزہ زبیدی سوید بن غفلہ ال جعفی سے روایت کرتا ہے کہ وہ سیدنا علیؓ کے پاس داخل ہوا اور انہیں کہا کہ میں کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا جس میں عبداللہ بن سباء بھی تھا وہ سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کے بارے میں منفی باتیں کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ آپ کے دل میں ان کے خلاف احساس پایا جاتا ہے تو آپ نے کہا کہ خبیث کالا آدمی مجھ سے کیا چاہتا ہے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ان کے خلاف دل میں بات رکھنے سے اور دونوں کے لیے ادب رکھتا ہوں اور آپ نے اس کو مدین کی طرف جلا وطن کر دیا اور منبر پر تشریف لائے یہاں تک کہ لوگ جمع ہو گئے آپ نے سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کی تعریف کی اور کہا کہ اگر یہ بات مجھے پہنچی کہ مجھے ان دونوں پر فضیلت دی جاتی ہے تو میں اس کو کوڑے لگاؤں گا جیسے کہ جھوٹوں کو لگائے جاتے تھےـ
حقیقت میں یہ روایت مختلف سندوں سے بیان کی گئی ہے جو کہ صحیح ہیں جیسے ابو اسحاق الفرازی سیرہ میں یہ بیان نقل کرتے ہیں شعبہ سے سلمہ بن خیل سے وہ ابو الزراہ سے وہ زید بن ھباب سےـ خطیب نے اس روایت کی تخریب الکفایہ صفحہ376 پر کی ہے اور کہا ہے کہ ابو عبداللہ البوشانجی نے اسے صحیح کہا ہے،ابو نصر محمد بن عبداللہ الامام نے اپنی شرح میں کہا ہے یہ روایت دوسری سندوں سے بھی ثبت ہے اور اس کا آخری حصہ سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ امت کے میں سے سب سے بہترین ہیں جو کہ خود سیدنا علیؓ نے کہا ہے یہ متواتر ہےـ
اور اہلِ بیت کے مشہور افراد سے بھی ایسا ہی روایت کیا گیا ہے سیدنا علیؓ سے زید بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب جو کہ علویوں کے رہنماء تھے ہشام کے دور میں، کوفیوں نے ان سے ان کے دادا حسین کی طرح دھوکہ کیا جب انہوں نے سیدنا ابوبکرؓ اورسیدنا عمرؓ کے خلاف شہادت دینے سے انکار کر دیا اس کے بعد وہ بنی امیہ کے لشکر کے ہاتھوں شہید ہوئے۔
طلبةالرافضة من زيد ابن علي التبرؤ من ابو بكر وعمر فقال: انهما وزيرا جدي،فقالوا له: اذا نرفضك،فقال لهم: اذهبوا فانتم الرافضة
رافضیوں نے زید بن علی جب وہ خروج کیے ہوئے تھے سے کہا کہ ان کو ابوبکر و عمر سے جو محبت ہے وہ ترک کرنی پڑے گی تو انہوں نے کہا وہ میرے نانا جان کے ساتھی تھے تو پھر ان شیعوں نے کہا ہم آپ کا انکار کرتے ہیں انہوں نے کہا جاؤ تم سب آزاد اے رافضیوں ہوـ
طلعان رافضة في اصحابةالرسول صفحہ17 ابو نصرمحمد بن عبد الله الامام اور انہوں نے اسے صحیح کہا)
یہی روایت شیعہ کتاب میں بھی ملتی ہے
زید بن علی بن حسین جو کہ شیعوں میں معزز سمجھے جاتے تھے ان سے سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا میں ہمیشہ ان کو اچھے الفاظ سے یاد کرتا ہوں اور میں رسولﷺ کے اہلِ بیت میں سے کسی کو بھی ان کی برائی کرتے نہیں سنا نہ تو انہوں نے ہمارا حق چھینا اور نہ ہی کسی شہری پر ظلم کیا وہ دونوں (سیدنا ابوبکرؓ وسیدنا عمرؓ ) قرآن و سنت کے سختی سے پیروکار تھے یہ سن کر ان لوگوں شیعہ (شیعوں) نے کہا آپ پھر ہمارے ساتھ ہی نہیں ہو سکتے تو انہوں نے کہا کہ تم لوگوں نے اس دن سے ہمیں چھوڑ دیا ہے اور آج کے بعد تم رافضی کہلاؤ گےـ
(ناسخ التواریخ جلد2صفحہ590 یہ کتاب شیعوں کے ہاں مشہور ہے اور مستند مانی جاتی ہے جیسا کہ اعیان الشیعہ جلد2 صفحہ132 پر اس کی توثیق ہے)
جعفر بن محمد الصادق اپنے والد سے وہ عبداللہ بن جعفر سے روایت کرتے ہیں کہ ابوبکر صدیقؓ اللہ کی ان پر رحمت ہو ہمارے خلیفہ بنے اور وہ اللہ کے بہترین خلیفہ تھے وہ ہم پر بہت مہربان اور ہمارا خیال رکھنے والے تھےـ
(فضائل صحابہ الدار قطنی،الااصابہ ابن حجر،المستدرک الحاکم)
الحاکم اور زہبی اور ان کے ساتھ بن حجر اتفاق کرتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے
ابو عبداللہ جعفر بن محمد الصادق فرماتے ہیں کہ اللہ ان سے خود کو الگ کر لیتا ہے جو خود کو سیدنا
ابوبکرؓ وسیدنا عمرؓ سے الگ کرتے ہیں ـ
قال الذهبي: قلت: هذا القول متواتر عن جعفر الصادق،اشهد بالله انه لبار في قوله غير منافق لأحد فاقبح الله الرافضه
امام زہبیؒ کہتے ہیں کہ یہ قول سیدنا جعفرؒ سے متواتر ہے اور میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ اس میں سچے ہیں تقیہ نہیں کر رہے خدا رافضیوں کی بد شکلی اور بڑھائے(سیار الاعلام النبلاجلد6صفحہ260)
دوسری روایت
اخرج ابني عساكر عن زيد بن وهب الجهني الكوفي المتوفي عام(90ھ709م) قال(قال علي بن ابي طالب: مالي ولهذا الخبيث الأسود -يعني عبد الله بن سبا-وكان يقع في أبو بكر وعمر
(ابنِ عساکر مختصر تاریخ دمشق،مرجع سابق م12صفحہ222)
زید بن وہب کہتے ہیں کہ علی ابن ابی طالبؓ نے کہا کہ مجھے اس کالے خبیث کے ساتھ کیا کرنا چاہیے ان کا مطلب عبداللہ بن سباء تھا جو کہ سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کی برائی کرتا تھاـ
یہ روایت تاریخ ابنِ ابی خثیمہ میں بھی پائی جاتی ہے صحیح سند کے ساتھ
تیسری روایت
أخبرنا أبو محمد بن طاوس وأبو يعلى حمزة بن الاحسن بن المفرج،قالا: أنا أبو قاسم بن أبي العلاء نا أبو محمد بن أبي نصر،اناخيسمةبن سليمان, نااحمد بن زهيربن حرب،نا عمر بن مرزوق أناشعبة،عن سلمة بن كهيل عن زيد قال: قال علي بن ابي طالب: مالي ولهذا الحميت الأسود ؟يعني عبد الله ابن سباوكان يقول في أبى بكر وعمر
زید کہتے ہیں کہ علی ابن ابی طالبؓ نے کہا کہ مجھے اس کالے خبیث کے ساتھ کیا کرنا چاہئے ان کا مطلب عبداللہ بن سباء تھا جو کہ سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کی برائی کرتا تھا
اس حدیث کی سند اچھی ہے جو کہ ثقہ راویون سے آئی ہے
چوتھی روایت
اخبرنا أبو ألمظفر القشيري،انا ابو سعد الجنزروزي،انا ابو عمر أبن حمدان،واخبرنا ابو سهل محمد بن ابراهيم بن سعوديه،انا ابويعلي الموصلي،نا ابو كريب محمد بن العلاء الهمداني،نا محمد ابن الحسن الاسدي،نا هارون بن صالح الهمداني،عن الحارث أبن عبد الرحمن عن ابي الجلاس،قال: سمعت عليا يقول لعبد الله السبئي،ويلك والله ما افضي الى بشيء كتمه احدا من الناس،ولقد سمعته يقول: ان بين يدي الساعة ثلاثين كذابا وانك لاحدهم،قالا: وانا ابويعلي،نا ابو بكر بن ابي شيبه،نا محمد ابن الحسن،زاد ابن المقرئ الأسدي باسناده مثله.
سیدنا علیؓ نے ابنِ سباء سے کہا کہ تم پر افسوس ہے رسولﷺ نے مجھے ایسا کچھ نہیں بتایا جو کہ انہوں نے دوسروں سے مخفی رکھا ہو میں نے آپﷺ سے سنا ہے کہ آج سے قیامت تک 30 جھوٹے ہوں گے اور ان میں سے ایک تو ہے
اس روایت کے کچھ راویوں پر تنقید پائی جاتی ہے پر یہ روایت اور بھی بہت سندوں سے آئی ہے جو کہ مضبوط ہیں
پانچویں روایت
أخبرنا أبو بكر أحمد بن المظفر بن الحسين بن سوسن التمار في كتابة ، وأخبرني أبو طاهر محمد بن محمد بن عبد الله السبخي بمرو ، عنه ، أنا أبو علي بن شاذان ، نا أبو بكر محمد بن عبد الله بن يونس أبو الأحوص عن مغيرة عن سماك قال : بلغ عليا أن ابن السواد ينتقض أبا بكر وعمر ، فدعا به ودعا بالسيف أو قال فهم بقتله فكلم فيه فقال : لايساكني ببلد أنا فيه ، قال : فسير إلى المدائن۔
ابنِ سماک کہتے ہیں کہ سیدنا علیؓ تک یہ بات پہنچی کہ ابنِ اسود (ابنِ سباء کا نک نیم اسود معنی کالا کی ہیں وہ رنگ کا کالا تھا) سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کے خلاف باتیں کرتا ہے تو انہوں نے اس کو بلایا اور پھر تلوار بھی منگوائی پھر لوگوں نے ان سے بات کی اس کے قتل کے بارے میں تو انہوں نے کہا یہ اور میں ایک جگہ پر نہیں رہ سکتے پھر اس کو مدین جلا وطن کردیا۔
اس روایت کے سارے راوی ثقہ ہیں لیکن ابنِ سماک نے یہ روایت سیدھی سیدنا علیؓ سے نہیں سنی۔
چھٹی روایت
8 – أنبأنا أبو بكر محمد بن طرخان بن بلتكين بن يحكم ، أنا أبو الفضائل محمد أبن أحمد بن عبد الباقي بن طوق ، قال : قرىء على أبي القاسم عبيدالله ابن علي أبن عبيد الله الرقي ، نا أبو أحمد عبيد الله بن محمد أبن أبى مسلم ، أنا أبو عمر محمد بن عبد الواحد ، أخبرني الغطافي ، عن رجاله ، عن الصادق عن آبائه الطاهرين عن جابر قال : لما بويع علي خطب الناس فقام إليه عبد الله بن سبأ فقال له : أنت دابة الأرض ، قال فقال له : اتق الله ، فقال له : أنت الملك ، فقال له : اتق الله ، فقال له : أنت خلقت الخلق ، وبسطت الرزق ، فأمر بقتله ، فاجتمعت الرافضة فقالت : دعه وانفه إلى ساباط المدائن فإنك إن قتلته بالمدينة خرجت أصحابه علينا وشيعته ، فنفاه إلي ساباط المدائن فثم القرامطة والرافضة ، قال : ثم قامت إليه طائفة وهم السبئية وكانوا أحد عشر رجلا فقال أرجعوا فإني علي بن أبي طالب أبي مشهور وأمي مشهورة ، وانا أبن عم محمد صلي الله عليه وسلم فقالوا لا نرجع ، دع داعيك فأحرقهم بالنار ، وقبورهم في صحراء أحد عشر مشهورة فقال من بقي ممن لم يكشف رأسه منهم علينا : أنه إله ، واحتجوا بقول ابن عباس : ” لا يعذب بالنار إلا خالقها ” . قال ثعلب : وقد عذب بالنار قبل علي أبو بكر الصديق شيخ الإسلام رضي الله عنه وذاك أنه رفع إليه رجل يقال له : الفجأة وقالوا إنه شتم النبي صلي الله عليه وسلم بعد وفاته ، فأخرجه إلى الصحراء فأحرقه بالنار . قال فقال ابن عباس : قد عذب أبو بكر بالنار فاعبدوه أيضا
سیدنا علیؓ خطبہ دینے کے واسطے کھڑے ہوئے بیعت کے بعد عبداللہ بن سباء ان کے پاس آیا اور کہا کہ آپ دابتہ الارض ہیں، آپؓ نے کہا اللہ سے ڈرو پھر ابنِ سباء نے کہا کہ تم مالک ہو آپ نے کہا اللہ سے ڈرو اس کے بعد ابنِ سبا نے کہا کہ آپ ہی مخلوقِ خالق ہے اور اس کو رزق دیا ہے آپؓ نے حکم دیا کہ اس کو قتل کیا جائے تو رافضیو ں نے کہا کہ بہتر ہے آپ اسے مدین کی طرف جلاوطن کردیں نہیں تو اس کے لوگ ہمارے خلاف بغاوت کریں گے۔
سنیوں کی کتب میں چھ روایات ہیں جو کہ ایسی ہیں جو کہ سیف بن عمر کے علاوہ ہیں شیخ سلیمان بن الحماد نے ان روایات کی تخریج کی ہے اپنی کتاب عبد الله بن سبأ و أثره في أحداث الفتنة في صدر الإسلام انہوں نے کل 8 روایات نقل کیں ہیں جو کہ سیف بن عمر کی روایات کو مضبوط کرتی ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سبائیوں کے عقائد اہلِ بیت سے منسوب کئے گئے ہیں۔
ہم یہاں اب آپ کو سمری پیش کرتے ہیں:
سبائیت: سیدنا علیؓ سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کے خلاف دلی دشمنی رکھتے تھے اس نے (ابنِ سباء) نے یہ عقائد سیدنا علیؓ کے بارے میں گھڑے اور کہا کہ وہ یہ
اہلِ بیت کی محبت میں کر رہا ہے اور ان کے دشمنوں کے خلاف نفرت کرنے کے لیے۔
شیعیت و رافضیت: رافضیوں کے اکثر فرقے خاص طور پر امامیہ اثناء عشریہ وہی سبائیوں والا عقیدہ رکھتے ہیں کہ سیدنا علیؓ کے دل میں سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ اور دوسرے صحابہؓ سے دشمنی تھی سیدنا علیؓ ان سے نفرت کرتے تھے اور وہ اہلِ بیت کے دشمن ہیں اور ان سے نفرت کرنا محبت کی نشانی ہے کیونکہ سیدنا علیؓ نے ان سے نفرت کی تھی
حقیقت (اسلام) : سیدنا علیؓ نہ صرف ایسے عقائد سے بری تھے بلکہ آپؓ ایسے عقائد سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے تھے آپ ابنِ سباء کو قتل کرنے والے تھے اس کے ان عقائد کی وجہ سے جو وہ محبتِ اہلِ بیت کے نام پر کرتا تھا آپؓ نے ابنِ سباء کا منہ بند کیا اور ہر اس شخص کو وارننگ دی جو ان کو سیدناابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ سے افضل جانے۔
آپ نے دیکھ لیا کہ اس میں کوئی سچ نہیں کہ ابنِ سباء اور شیعہ کے عقائد مختلف ہیں رافضی ہر دور میں ابنِ سباء کے ان عقائد کو اپناتے رہے ہیں اور اس کی تشریع کرتے رہے ہین سو ابنِ سباء اور رافضیوں کا ایک مضبوط رشتہ ہے ایک سنی عالم نے بجا فرمایا تھا:
رفض کی بنیاد یہود کے عقائد پر ہے۔
ہمیں اپنے الفاظ ٹھیک ٹھیک ادا کرنے کی ضرورت ہے جب ہم کہتے ہیں کہ شیعیت کا نعرہ ایک یہودی کا ایجاد کردہ ہے پر اصل میں ایسا نہیں شیعیت ہر کسی کی دعویداری نہیں ہے اصل میں لفظ شیعیت تاریخِ اسلام میں مخلتف معنیٰ کے ساتھ استعمال ہوتا رہا ہے
امام ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ غالی شیعہ اسلاف (مسلمانوں کی پہلے تین نسلیں) کے دور میں انہیں کہا جاتا تھا جو کہ سیدنا عثمانؓ ، سیدنا زبیرؓ ، سیدنا طلحہؓ ، سیدنا معاویہؓ کے خلاف زبان درازی کرتے تھے اور ان کے خلاف بھی جو کہ سیدنا علیؓ سے لڑے تھے یا ان پر حملہ کیا تھا۔
(المیزان جلد 1صفحہ 118)
حافظ ابنِ حجرؒ اپنے کتاب الھدیٰ الساری کے مقدمے میں فرماتے ہیں
والتشيع محبة علي وتقديمه على الصحابة فمن قدمه على أبي بكر وعمر فهو غال في تشيعه
شیعیت میں سیدنا علیؓ کی محبت اور ان کی صحابہؓ پر افضلیت ہے پر جو ان کو سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ سے افضل جانے وہ غالی شیعیت ہے
مزید ہمارا یہ آرٹیکل پڑھیں:
Shias of the past differed from modern shias
اس سے بہت سے شکوک دور ہوتے ہیں جیسے شیعہ کہتے ہیں سنیوں کی کتب میں شیعوں کی روایات پائی جاتی ہیں تو جو شیعہ اس دور میں تھے وہ آج کے اثناء عشری شیعوں جیسے نہیں تھے اور نہ ہی وہ شیعت میں انتہاء پسند تھے اس وقت کے شیعہ سیدنا علیؓ کو سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ سے افضل مانتے تھے حالانکہ خود سیدنا علیؓ ان دونوں کو خود سے افضل کہتے تھے ۔ شیعت ارتقاء سے گذرتی رہی ہے اور آج کل یہ اپنی اونچائی پر جا کھڑی ہے (جہاں سے سوائے جہالت اور کچھ حاصل نہیں ہونے والا) جسیا کہ آج کل شیعہ مشہور کرتے رہتے ہیں کہ سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ سیدنا علیؓ کے دشمان تھے اور صحابہؓ بھی ان کے دشمن تھے وہ بھی ان کے دشمن ہیں جو ان کو شیعوں کے عقیدہ کے مطابق نہیں مانتے ۔ شیعیت آج کل وہی مشہور کر رہی ہے جو کہ ابنِ سباء نے کبھی دعویٰ کیا تھا اور جس کا سیدنا علیؓ نے سختی سے رد کیا تھا اس لیے ابنِ سباء کو رافضیت کا روحانی باپ ہی کہا جائے
ہمارے الفاظ میں وہ نرمی یا مدافعانہ انداز شاید نہ ہو جیسے اہلِ سنت کے دشمن سے ہو سکتا ہے کہ جس سے فائدہ لیں لیکن ایک سمجھ رکھنے والا انسان یہ سمجھ سکتا ہے کہ میری اوپر والی بات یا اس آرٹیکل کا پیغام کہ شیعیت کی بنیاد سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کی تکفیر یہ اہلِ بیت کا عقیدہ نہیں ہے یہ ایک یہودی عقیدہ ہے جو کہ اہلِ بیت کے نام پر گھڑا گیا ہے جس کا گھڑنے والا ایک یمنی یہودی ہے
اب جبکہ شیعوں کی داستان کا پول کھل گیا ہے تو کہتے ہیں ایک شخصیت ابنِ سباء جو کہ امویوں اور سیف بن عمر کی ایجاد ہے ۔ ہم آپ کو اس پر کچھ مزید آگاہ کرنا چاہتے ہیں
شیعہ ویب السلام ڈاٹ او آر جی العسکری کے کتاب سے نقل کرتی ہے
اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ الطبری (ابوجعفر ابنِ جریر طبری) پہلا شخض ہے جس نے ابنِ سباء کی کہانی سیف سے بیان کی ہے اور دوسرے تاریخ نویسوں نے اس کو پھر طبری سے نقل کیا ہے۔
العسکری اور اس کے شیعہ حواری یہاں غلط بیانی
کر رہے ہیں طبری سے 50 سال پہلے الثقفی نے الغارات لکھی جس میں اس نے ابنِ سباء کیا زکر کیا ہے
دخل عمرو بن الحمد وحجر بن عدي وحبة العوفي والحارث الاعور وعبد الله بن سباء على أمير المؤمنين الغارات صفحہ30
عمرو بن العمد و حجر بن عدی ، حبہ العوفی و عبداللہ بن سباء امیر المومنین کے پاس تھے
اس کے علاوہ ایک اور قدیمی حوالہ لفظ سبائی کا دیوان اشی حمدان صفحہ 147 میں ملتا ہے اشی حمدان کی وفات 83 ھجری ابنِ جریر طبری تو 310 ہجری میں وفات پائی ان کے بیچ میں 230 سال ہوتی ہیں۔ وہ دیوان مختار الثقفی (شیعوں کا کافر بزرگ) اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں لکھتا ہے:
شهدت عليكم أنكم سبئية وأني بكم يا شرطة الكفر عارف
میں شہادت دیتا ہوں کہ تم سبائی ہو اے کفر کے سپاہیوں میں تمہیں اچھی طرح جانتا ہوں۔
الاسلام ڈاٹ او آر جی لکھتی ہے
جہاں تک سیف بن عمر کے کذاب و ضعیف ہونے کی بات جو کہ سُنّی محدیثین نے کہا ہے تو میں آپ کو بہت سے مایہ ناز سُنّی علماء کے اقوال حوالے دیتا ہوں جنہوں نے سیف بن عمر کو ضعیف کہا ہے اور اس کی روایات کو لینے سے منع کیا ہے۔
یہ بات انتہائی غور طلب ہے کہ امام ذہبیؒ نے اسکی تاریخ کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے پر انہوں نے اپنے دوسرے کتب میں کہا ہے کہ سیف ضعیف ہے مغنی الضعفاء میں امام ذہبیؒ لکھتے ہیں
سیف کے پاس دو کتابیں تھیں جس کو علماء نے چھوڑ دیا ہے۔
(المغنی صفحہ 292)
یہ نہیں کہ وہ صرف کذاب ہے بلکہ کچھ روایات میں (جیسا امام ذہبیؒ نے اس کی روایات نقل کی ہیں) وہ صحیح بھی ہے پر وہ صحیح واقعات بیان کرنے سے زیادہ کہانی نویس ہے یہاں کچھ مزید مثال بیان کر دیتے ہیں۔
امام نسائیؒ کہتے ہیں کہ سیف کی روایات ضعیف ہیں اور وہ چھوڑ دینی چاہیئے کیونکہ وہ قابلِ اعتماد و ثقہ نہیں ہے
ابو حاتمؒ کہتے ہیں کہ سیف کی حدیث کو رد کیا جائے۔
یہ تھے چند امثال جو کہ العسکری بہت زیادہ نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے پر وہ کیوں نہیں کرتا جو کہ سُنّی محدیثین کہا ہے جیسا کہ
ابنِ ابی حاتم لکھتے ہیں علماء نے سیف کی روایات کو ترک کیا ہے امام سیوطیؒ کہتے ہیں کہ سیف کی صرف حدیث ضعیف ہے باقی تاریخ میں اس کی روایات قابل اعتماد ہیں جو وہ کہتا ہے اسے نقل کیا جا سکتا ہے ایسا بلکل بھی نہیں ہے جیسے شیعہ دعویٰ کرتے ہیں
ابنِ حجر عسقلانی تقریب تہذیب جلد1،صفحہ344 میں کہتے ہیں تاریخ میں سیف عمدہ ہے
امام ذھبی میزان الاعتدال جلد 2 ،صفحہ255 میں کہتے ہیں کہ وہ تاریخ میں عالم ہے
اسی سبب کے بنیاد پر علماء جن میں محمد صوبی حسن حلاق ، محمد بن طاہر البرزنجی ،شیخ یحییٰ ابراہیم الیحییٰ ، ڈاکٹر خالد الغایب شامل ہیں کچھ شرائط رکھی ہے جس کی بنیاد پر سیف بن عمر کی روایات کو لیا جائے (دیکھئیے تاریخ طبری صحیح وضعیف)
¹-سیف جو کہے اس کی بنیاد کسی حدیث کی مستند کتاب میں پائی جاتی ہو اور وہ روایات کسی مستند تاریخ کی کتاب سے لی گئی ہوں۔
²-اس کی روایات عقیدہ کے بارے میں یا حلال و حرام کے بارے میں نہ ہوں۔
³-اس کی روایات صحابہؓ کے خلاف نہ ہوں۔
⁴-اس کی روایات خلفاء راشدینؓ کے خلاف نہ ہوں۔
آپ نے دیکھا کہ العسکری اور اس کے حواری بڑی جہالت کا مظاہرہ کرتے ہیں جب وہ سیف بن عمر کو ایک محدث کے طور پر پیش کرتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ حدیث میں ضعیف ہے پر تاریخ میں اس کی روایات قابلِ قبول ہیں خاص طور ایسی روایات جس کے دوسری سندوں کے ساتھ آئے ہیں اور ہم نے 8 ایسی روایات پیش کی جو کہ سیف بن عمر کے علاوہ کسی دوسری صحیح سندوں سے آئیں ہیں ۔تو ثابت ہوا کہ شیعوں کا دعویٰ کہ ابنِ سباء کے بارے میں صرف سیف بن عمر سے روایات آئی ہیں یہ ایک کھلا جھوٹ ہے۔
حصہ دوم
ابنِ سباء یہودی شیعہ کتب میں ایسی حقیقت جس کا بہت سے شیعوں کو علم نہیں۔
ابولحسن محمد بن موسیٰ النوبختی (متوفی 310 ھجری) یہ تیسری صدی میں شیعوں کے مایہ ناز علماء میں سے ہیں اس نے شیعوں کے فرقہ اور ان کے عقائد کے بارے میں لکھا ہے کتاب فرق الشیعہ صفحہ 31 میں یہ الفاظ درج ہیں
اور فرقہ جو کہتا ہے کہ سیدنا علیؓ قتل نہیں ہوئے اور نہ ہی ان کی وفات ہوئی ہے وہ تب تک نہیں مر سکتے جب تک وہ عربوں کو اپنی چھڑی سے نہ چلائیں اور جب تک زمین انصاف و برابری سے بھر نہ جائے جیسا کہ اب وہ جبر و طاغوت سے بھری ہے ۔ یہ امت کا پہلا فرقہ ہے جس نے وقف پہ بات کی بعد نبیﷺ اور پہلا جس نے غلو کیا اس فرقہ کو سبائیہ کہتے ہیں یہ عبداللہ بن سباء کے ساتھی تھے یہ سیدنا ابوبکرؓ ، سیدنا عمرؓ و سیدنا عثمانؓ اور صحابہؓ پر الزام بازی و تبراء کرتا تھا وہ کہتا تھا کہ سیدنا علیؓ نے اسے ایسا کرنے کو کہا ہے ، سیدنا علیؓ نے اسی گرفتار کروایا اور اس کے بارے میں پوچھا تو اس نے اقرار کیا تب سیدنا علیؓ نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا لیکن لوگوں نے احتجاج کیا اور کہا اے امیر المؤمنین کیا آپ ایسے آدمی کو قتل کرتے ہیں جو کہتا ہے کہ وہ اہلِ بیت سے محبت کرتا ہے اور ان کے دشمنوں سے بیزاری کرتا ہے تب سیدنا علیؓ نے اسے مدین کی طرف جلا وطن کردیا سیدنا علیؓ کے اصحاب میں اہلِ علم کا کہنا ہے کہ عبداللہ بن سباء پہلے یہودی تھا پھر مسلمان ہوا سیدنا علیؓ کا طرف دار ہوگیا۔ جب یہودی تھا تو یہ وہی چیز یوشع بن نون کے بارے میں کہتا تھا موسیٰ علیہ السلام کے بعد ، رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد سیدنا علیؓ کے بارے میں بھی یہی پہلا شخص تھا جس نے کہا کہ امامت علی کا ماننا فرض ہے اس نے کھلے عام سیدنا علیؓ کے دشمنوں کے خلاف بات کی اور سب کو کافر قرار دیا۔یہی بات ہے جس کی وجہ سے مخالفین کہتے ہیں کہ رفض کی بنیاد یہودیوں سے لی گئی ہے
اب یہ بلکل ہی صاف اقرار ہے شیعوں کے علماء کی طرف سے نوبختی کا تنہاء یہ قول ہی شیعوں کی پول کھول دیتا ہے جو وہ کہتے ہیں اموی ہی ابنِ سباء کے مؤجد ہیں صرف شیعوں کا پروپیگینڈہ ہے
الکشی اپنی رجال کی کتاب میں (ابنِ سباء شیعوں کی رجال کی کتب میں بھی ہے اب بھی یہ اس کا انکار کرسکتے ہیں) وہی اقرار کرتا ہے۔
بعض اہلِ علم نے ذکر کیا ہے کہ عبداللہ ابنِ سباء یہودی تھا اسلام لے آیا اور پھر سیدنا علیؓ کی ولایت کا قائل ہوا۔ اس پہلے جب یہ یہودی تھا تو حضرت یوشع کے بارے میں غلو کرتا تھا کہ وہ موسیٰ کے وصی ہیں۔ اسلام لانے کے بعد اس قسم کی بات سیدنا علیؓ کے بارے میں کی۔ یہ سب سے پہلا شخص ہے جس نے سیدنا علیؓ کی امامت کا قائل ہونا فرض ہے اور ان کی دشمنوں پر اعلانیہ تبراء کیا۔اور مخالفوں کو کافر کہا یہی بات ہے جس کی وجہ سے مخالفین کہتے ہیں کہ رفض کی بنیاد یہودیوں سے لی گئی ہے۔
اب ہم بلکل سادہ الفاظ میں الکشی اور نوبختی نے جو کہا ہے بیان کرتے ہیں
¹-پہلا فرقہ جس نے غلو کیا اہلِ بیت کے بارے میں وہ سبائی ہیں۔سیدناعلیؓ ابنِ سباء کو جلادینا چاہتے تھے لیکن پھر اس کو انہوں نے جلا وطن کردیا اس کے بعد جب اس کے کچھ ساتھیوں نے کفر (علی خود خدا ہیں وغیرہ) کو بار بار زکر کیا تو انہوں ان کو جلا دیا (یہ جلادینے کی روایت سنی و شیعہ کتب میں ملتی ہیں)
²-یہ پہلا شخص ہے جس نے سیدنا ابوبکرؓ ،سیدنا عمرؓ و سیدنا عثمانؓ اور دوسرے صحابہؓ پر تبراء کیا اور ان سے بیزاری کا اعلان کیا (جیسے آج کے رافضی کرتے ہیں) اور کہا کہ اس کو ایسا کرنے کے لئے سیدنا علیؓ نے کہا ہے (جیسے آج کے رافضی کہتے ہیں) سیدنا علیؓ اسے قتل کرنا چاہتے تھے پر صرف لوگوں کے احتجاج کے بناء پر آپ نے اسے جلا وطن کردیا
³-نوبختی کہتے ہیں کہ سیدنا علیؓ کے اصحاب میں سے اہلِ علم سمجھتے ہیں کہ عبداللہ بن سباء یہودی تھا (اصحاب علی کے الفاظ بعد کے شیعہ علماء نے نکال دیے)
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کچھ رافضیوں کی طرح شیعہ علماء سنی روایات شیعوں کے لئے نقل نہیں کرتے بلکہ وہ اقرار کرتے ہیں کہ سیدنا علیؓ کی پیروی کرنے والوں میں سے ایک گروہ یہ اقرار کرتا تھا کہ عبداللہ بن سباء کا وجود ہے اور وہ یہودی تھا جو کہ ہم نے نوبختی کی قول سے ثابت کیا ۔ ہم نے آپ سے پہلے وعدہ کیا تھا نہ ہم شیعوں کا پول کھول دیں گے جب وہ ابنِ سباء کا انکار کریں گے۔
بعد کے رافضی جانتے تھے کہ یہ قول (من أهل العلم من أصحاب علي عليه السلام أن عبد الله بن سبأ كان يهودي) ان کے لئے ایک بم کی طرح ہے اس لئے انہوں نے اس میں ترمیم کردی اور اس کا ضروری حصہ غائب کردیا تاکہ لوگ سمجھیں کہ اہلِ بیت یا اصحابِ علی میں سے کسی نے نہیں کہا کہ ابنِ سباء کا وجود ہے۔
رافضیوں کے اس فراڈ کی مثال یہاں پر ہے جو ان کے علماء نے سچ کو چھپانے کے لئے کیا۔
نوبختی متوفی 310 ہجری لکھتا ہے
حکی جماعۃ من اہل العلم من اصحاب علی علیہ السلام ان عبداللہ بن سبا کان یہودیا فاسلم و والی علیا علیہ السلام و کان یقول و ہو علی یہودیتہ فی یوشع بن نون بعد موسی علیہ السلام بھذہ المقالۃ فقال فی اسلام
سیدنا علیؓ کے اصحاب میں اہلِ علم کا کہنا ہے کہ عبداللہ بن سباء پہلے یہودی تھا پھر مسلمان ہوا سیدنا علیؓ کا طرف دار ہوگیا جب یہودی تھا تو یہ وہی چیز یوشع بن نون کے بارے میں کہتا تھا، موسیٰ علیہ السلام کے بعد ، جب مسلمان ہوا رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد سیدنا علیؓ کے بارے میں بھی یہی کہتا تھا۔
الکشی متوفی 340 نے اس میں ترمیم کرتے ہوئے من اصحاب علی علیہ السلام کے الفاظ نکال دیے اور لکھا کہ
حکی جماعۃ من اہل العلم ان عبداللہ بن سباء کان یہودیا
الخوئی نے پھر اور ترمیم کرتے ہوئے اہلِ علم کے الفاظ بھی نکال دیے اور لکھا کہ
معجم رجال الحديث السيد الخوئي جلد 11صفحہ 206 – 207
وقال الكشي : ذكر بعض أن عبد الله بن سبأ كان يهوديا
الخوئی نے الکشی کی عبارت نقل کی ہے کہ کچھ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن سباء یہودی تھا
اس فراڈ کی ایک اور مثال ملاحظہ کریں:
یہاں الخوئی نے خیانت کرتے ہوئے الکشی کے الفاظ حذف کردیے جو یہ تھے و زکر بعض اہل العلم ان
الفاظ کو الخوئی نے بعض سے تبدیل کردیا ۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح کا اختلاف پیدا کیا گیا ہے بعد والا (الخوئی ) کہتا ہے کہ یہ انجان لوگوں کا خیال ہے کہ ابنِ سباء یہودی تھا پہلے والا (الکشی) کہتا ہے کہ یہ اہلِ علم تھے جو کہتے ہیں ابنِ سباء کا وجود ہے جو یہودی تھا حقیقیت میں پہلے والوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ پہلا تھا جو سیدنا ابوبکرؓ سیدنا عمرؓ و سیدنا عثمانؓ پر تبراء کرتا تھا یہ پہلا تھا جس نے امیر المؤمنین کی امامت کے بارے میں بات کی یہ پہلا تھا جس نے کہا کہ سیدنا علیؓ رسولﷺ کے وصی ہیں اس نے یہ بھی کہا کہ وہ یہ صرف اس لیے کہتا ہےکہ وہ اہلِ بیت سے محبت کرتا ہے (جیسے آج کے رافضی کہتے ہیں) وہ ان کی تابعداری اور ان کی دشمنوں سے بیزاری کی بات کرتا ہے اور دشمن سے اس کی مراد صحابہؓ ہے۔
تو ہم نے دو شیعہ علماء نوبختی اور کشی کا اقرار دیکھ لیا اس میں اور بھی ہیں۔
المامقانی ( یہ وہی کافر شیعہ عالم ہے جس نے اقرار کیا کہ شیعہ مذہب میں سوائے تین سب صحابہؓ مرتد ہوگئے ) اپنی کتاب تنقیح المقال فی علم الرجال جلد 2 صفحہ 183-184 پر کہتا ہے
عبد الله بن سبأ الذي رجع إلى الكفر وأظهر الغلو … غال ملعون، حرقه أمير المؤمنين عليه السلام بالنار، وكان يزعم أن علياً إله، وأنه نبي
عبداللہ بن سباء جو کہ کفر کی طرف پلٹ گیا اور مشہور غلو باز تھا اور لعنتیوں میں سے تھا امیر المؤمنین نے اسے آگ میں جلا دیا تھا وہ کہتا تھا کہ سیدنا علیؓ خدا ہیں وہ یعنی عبداللہ بن سباء پیغمبر ہے۔
سعد بن عبداللہ العشری القمی المقالات الفراق صفحہ 20پر کہتا ہے
السبئية أصحاب عبد الله بن سبأ، وهو عبد الله بن وهب الراسبي الهمداني، وساعده على ذلك عبد الله بن خرسي وابن اسود وهما من أجل أصحابه، وكان أول من أظهر الطعن على أبي بكر وعمر وعثمان والصحابة وتبرأ منهم۔
السبائیہ جو کہ عبداللہ بن سباء کے اصحاب تھے اور وہ عبداللہ بن وہب الھمدانی ہے اور جو کہ عبداللہ بن خرسی اور ابنِ اسود اس کی امداد کرتے تھے وہ اس کے ساتھیوں میں سے شاندار تھے یہ پہلا تھا جس نے اعلانیہ سیدنا ابوبکرؓ سیدنا عمرؓ و سیدنا عثمانؓ اور صحابہؓ پر تبراء کیا اور ان سے بیزاری کا اعلان کیا۔
کیکڑے کی طرح دکھنے والا نعمت اللہ الجزائری لکھتا ہے
قال عبد الله بن سبأ لعلي عليه السلام: أنت الإله حقاً، فنفاه علي عليه السلام إلى المدائن، وقيل أنه كان يهودياً فأسلم، وكان في اليهودية يقول في يوشع بن نون وفي موسى مثل ما قال في علي
عبداللہ بن سباء نے علی کو کہا کہ آپ رب ہیں تب سیدنا علیؓ نے اس کو مدین کی طرف جلا وطن کردیا کہا جاتا ہے کہ وہ یہودی تھا اسلام لے آیا جب یہودی تھا تو یوشع بن نون کے بارے میں وہی کہتا تھا جو سیدنا علیؓ کے بارے میں کہتا تھا
سب شیعہ علماء نے ابنِ سباء کے عقائد اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں زکر کیا ہے سید قومی جو کہ 301 ہجری میں وفات پاگئے ، شیخ طائفہ الطوسی ، تستری نے قاموس رجال مین ، عباس قمی نے تحفہ الاحباب ، انصاری نے روضات الجنات ، ناسخ تاریخ اور روضات الصفا کے مصنفین نے بھی اس کا زکر کیا اس ساری بحث سے ہم نے یہ ثابت کردیا کہ عبداللہ بن سباء کا وجود ہے جو کہ یہودی تھا اور اس کی جس نے مدد کی یا اس کے عقائد اپنائے ان کو سبائی کہا جاتا ہے علماء شیعہ اس حقیقت سے بلکل واقف ہیں کہ وہ ہر ثبوت کو رد نہیں کر سکتے جو کہ ہم نے یہاں نقل کی ہیں اس کی وجہ یہ ہےکہ الکاشی مین امام ابنِ سباء کو لعنت کرتے دکھائی دیتے ہیں کیا امام ایک فرضی شخص لعنت کر سکتے ہیں ۔ اور وہ لوگ جو ابنِ سباء کے وجود کا انکار کرتے ہیں جن میں یاسر الخبیس ، العسکری ،الوائلی اور دوسرے رافضی ہیں لیکن آپ نے دیکھا کہ ہم نے ان کے خیال کا رد پیش کیا اب ان کے پاس اس پر کھڑے رہنے کے لئے ٹانگ نہیں ہے کیونکہ وہ ان کے اماموں نے ابنِ سباء کو لعنت کر کے کھینچ لی ہے۔
حصہ سوم
شیعہ اعتراض ابنِ سباء کا وجود ہے لیکن شیعیت کا بانی یہ نہیں ہے۔
جو شیعہ یہ بات مانتے ہیں کہ ابنِ سباء کا وجود ہے تو وہ یہ نہیں مانتے کہ شیعیت کا مؤجد یہ ہے ہم سنی جب یہ کہتے ہیں کہ ابنِ شیعیت کا بانی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم ایسی جماعت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جو کہ اہلِ بیت سے محبت کرتی ہے بلکہ ہم اس کی نشاندہی کر رہے ہیں جو رافضی ہیں اور منافقانہ عقائد رکھتے ہیں یعنی سیدنا ابوبکرؓ وسیدنا عمرؓ کو کافر کہنا ، قیامت سے پہلے امام کا واپس آنا اور ولایت تقوینیہ پر ایمان رکھنا وغیرہ۔
شیعوں کا یہ ٹولہ کم سے کم اس حد تک اپنے بڑوں کی عزت کرتا ہے کہ وہ اپنی کتب میں موجود ابنِ سباء یہودی کا انکار نہیں کرتا پر وہ اس بات کو رد کرتے ہیں کہ شیعیت کا ابنِ سبا یا سبائی گروہ سے کوئی تعلق ہے وہ اس کے ثبوت میں آپ کو محمد بن حسن طوسی (رافضیوں کا مشہور عالم متوفی 460) کا حوالہ دیتے ہیں کہ وہ خود ابنِ سباء یہودی کو کافر مانتے ہیں
رجال طوسی صفحہ 75 نمبر 718
طوسی کہتا ہے ابنِ سباء کافر ہوگیا تھا اور وہ غلت میں پڑ گیا تھا
یہ رافضی الکاشی کی صحیح روایات بھی پیش کرتے ہیں حوالہ کے طور پر جس میں اماموں نے ابنِ سباء یہودی پر لعنت کی ہے وہ اسی بناء پر ہی مانتے ہیں کہ ابنِ سباء یہودی کا وجود تھا لیکن شیعہ مذہب سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ابنِ سباء یہودی ایسا آدمی ہے جس کو لعنت کی گئی ہے اماموں کی طرف سے کیونکہ اس نے امیر المؤمنین سیدنا علیؓ کی امامت کے بجائے ان کے رب ہونے کا پرچار شروع کردی۔
یہ لوگ اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ حقیقت کو مسخ کیا جائے لیکن یہ حقیقت ہے کہ شیعہ علماء اس بات کو نہ صرف تسلیم کرتے ہیں کہ ابنِ سباء نے سیدنا علیؓ کے رب ہونے کا پرچار کیا اس کے ساتھ یہ پہلا شخص ہے جس نے شیعوں کے دو بنیادی عقائد کی پرچار بھی کیا جو کہ صرف شیعوں کے ٹولہ میں پائے جاتے ہیں
¹-ابنِ سباء یہودی وہ پہلا شخص ہے جس نے اعلانیہ سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ ، سیدنا عثمانؓ اور صحابہؓ پر کھلا تبراء کیا بلکہ ان سے بیزاری کا اعلان کیا اور یہ بکواس بھی کی اسے ایسا کرنے کو سیدنا علیؓ نے کہا ہے (جیسے آجکے رافضی دعویٰ کرتے ہیں) سیدنا علیؓ اسے قتل کرنے والے تھے لیکن لوگوں کے احتجاج کی وجہ سے اسے جلا وطن کردیا اس بات کو نوبختی ، الکشی ، سعد بن عبداللہ القمی نے قبول کیا ہے
²- ابنِ سباء وہ پہلا شخص ہے جس نے شہادت دی کہ امامت علی کا ماننا فرض ہے اوراس نے اعلانیہ ان کے دشمنوں سے بیزاری کی اور انہیں کافر قرار دیا (جو آج کے رافضیوں کے ایمان کا حصہ ہے) یہ شیعہ علماء کی طرف سے ایک اور اقرار ہے جسے آسانی سے رد نہیں کیا جا سکتا۔
اسی کی بنیاد ہر جس نے شیعوں کی مخالت کی تو بلا جھجک کہا کہ رفض کی بنیاد یہود کے عقائد پر ہے اور یہی بات جو کہ جس کو مسلمان مانتے ہیں اور اہلِ سنت کہتے ہیں شیعہ عقائد کی بنیاد ابنِ سباء یہودی کے عقائد پر ہے اور پھر رافضیوں کے بے تکے سوالوں کے جواب میں یہی کہتے ہیں مثال کے طور پر رافضی کہتے ہیں
شیعہ کا کون سا اصول ابنِ سباء سے لیا گیا ہے ، شیعہ کی کس فقہی مسلے کو لیا گیا ہے ،کیا ہمارے امام ابنِ سباء کی تعریف کرتے تھے ، ہم نے ابنِ سباء سے کتنے احادیث لیں ہیں۔
کیا شیعہ پاگل یا جاہل ہیں کہ 1400 سالوں میں یہ نہیں جان سکے کہ ان کے عقائد کی بنیاد جھوٹی روایات پر ہے جو عبداللہ بن سباء کی طرف سے آئیں ہیں
اگر ابنِ سبا یہودی شیعوں کے لئے اتنا اہم ہے تو شیعوں نے اماموں کی طرح اس کی روایات کو کیوں نہیں نقل کیا یقیناً اگر ابنِ سباء ان کا آقا ہوتا تو وہ ضرور اس کی روایات نقل کرتے اور اس پر فخر کرتے
اس قسم کے سوالات کرنے والے العسکری ، یاسر الخبیث ،عمار نخوانی ، الوائلی وغیرہ ہیں اور ان کا سادہ سا جواب یہ ہے
کسی بھی مسلم سنی عالم نے کبھی بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ابنِ سباء کی تقلید کے لائق ہے یا اس کی تقلید رافضیوں کے لئے ضروری ہے وہ صرف یہ لکھتے آئے ہیں کہ رافضی صرف اس کے یہودی خیالات کی پیروی کر رہے ہیں مثال کے طور پر آج کے عیسائی کبھی یہ نہیں مانتے کہ وہ ان کے مذہب کی بنیاد مسیح علیہ السلام کی عقائد پر نہیں ہے بلکہ پاگل جاہل کے عقائد پر ہے وہ سمجھتے ہیں کہ وہ سیدنا مسیح علیہ السلام کے شیعہ (پیروکار) ہیں اسی طرح شیعیت ایک ایسی جماعت ہے جس کی بنیاد رکھنے والا ایک یہودی ہے خاص طور پر صحابہؓ کی تکفیر اور امامت علی کا فرض ہونے کے عقائد اہلِ بیت کے نہیں ہیں بلکہ یہ عقائد ابنِ سباء یہودی کے ہیں جس نے ان عقائد کی بنیاد رکھی اور وہی بقول شیعہ علماء کے پہلا شخص ہے جس سے ان عقائد کا لوگوں میں پرچار اسی لئے کہا جاتا ہے اور تا قیامت کہا جائے گا۔
ابنِ سبا رافضیوں کا روحانی باپ ہے اور ایسے عقائد کی بنیاد رکھنے والا ہے جو کسی بھی فرقے میں نہیں ملتے سوائے رافضیوں کے (خاص اثناء عشریوں میں)
جو بھی کہتے ہیں کہ ابنِ سباء نے شیعیت کی بنیاد رکھی اس کی وجہ اس کے عقائد ہیں خاص کر صحابہؓ کی تکفیر ، ،سیدنا علیؓ کے بارے میں غلو اور وہ ان عقائد کی وجہ سے ہی مشہور ہے شاید کوئی کوشش کرے کہ ایسے عقائد ابنِ سباء سے پہلے بھی تھے لیکن وہ اس کے لئے کوئی بھی چیز نہیں ڈھونڈ سکتا ۔ اگر کوئی کہے کہ ابنِ سبا نے شیعیت کی بنیاد رکھی جس میں شیعیت کے سب کے سب عقائد بشمول امامت کے آتے ہیں تو اس بات کا کسی نے بھی دعویٰ نہیں کیا اور نہ ہی ایسی چیز لکھی ہے مقصد کی بات یہ ہے ابنِ سباء یہودی نے رفض کی بنیاد رکھی جو کہ اہلِ بیت کے نام پر کی گئی اور آج تک اثناء عشری فرقہ اس کی تقلید میں صحابہ کرامؓ خاص کر سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کی تکفیر کرتا آرہا ہے۔
نتیجہ:
مسلم علماء اور شیعہ علماء حقیقت میں اس بات کے قائل ہیں کہ ابنِ سباء یہودی کے ہی خیالات ہیں جو شیعیت کی بنیاد کے زمہ دار ہیں کیوں کہ رافضیت صدیوں کی ارتقاء سے گزری ہے ۔ آپ تاریخ دمشق میں دیکھیں کہ وہاں کچھ روایات ہیں ابنِ سبا کے بارے میں جو سیدنا علیؓ کو خالقِ کائنات کہ رہا ہے ۔ الجوزنجانی متوفی 259 ہجری اپنی کتاب رجال میں ابنِ سباء کا زکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ابنِ سباء نے کہا کہ ہمارے پاس صرف 9/1 قرآن باقی ہے پورا قرآن علی کے پاس ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس بات نے یہ عقیدہ بنا لیا ہوگا کہ قرآن تحریف شدہ ہے۔آخری بات یہ کہ ابنِ سباء نے اہلِ بیت کے نام پر اپنے یہودی عقائد کا پرچار کیا اور آج کی شیعہ بھی اہلِ بیت کے نام پر غلیظ شیعیت کا پرچار کرتے ہیں۔