سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اپنا عقیدہ قائم کرنے سے پہلے یہ ضرور پڑھیں
مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبندسیدنا امیر معاویہؓ کے بارے میں اپنا عقیدہ قائم کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، ترمذی، مسند احمد، سنن سعید بن منصور ، مصنف ابن ابی شیبہ اور البدایہ والنہایہ جیسی کتب میں موجود حضرت امیر معاویہؓ کے فضائل کو فراموش نہ کیا جائے۔
نبی کریمﷺ نے حضرت امیر معاویہؓ اور ان کی جماعت کو بغاوت کے باوجود مسلمانوں کی عظیم جماعت قرار دیا ہے۔ (صحیح بخاری)
سیدنا علیؓ نے سیدنا معاویہؓ کو بغاوت کے باوجود بالکل اپنے جیسا مسلمان تسلیم کیا ہے۔ (نہج البلاغہ)
سیدنا حسنؓ نے سیدنا امیر معاویہ کو بغاوت اور جنگوں کے بعد پوری اسلامی ریاست کی خلافت سونپ کر واضح فرما دیا ہے کہ وہ ایک سچے مسلمان اور مؤمن تھے، ورنہ لازم آئے گا کہ حسنین کریمینؓ نے معاذاللہ ایک کافر اور جہنمی کو خلافت سونپی اور اس کے ہاتھ پر بیعت کی۔
یاد رہے کہ قرآن پاک اور صحیح احادیث کے مطابق ظالم، فاسق یا مرتد کو حکمران تسلیم کرنا یا اس کی بیعت کرنا اور اطاعت کرنا جائز نہیں ہے۔
حضرت ابنِ عباسؓ نے حضرت امیر معاویہؓ کو بغاوت کے بعد امیر المؤمنین بھی تسلیم کیا اور صحابی ماننے کے علاوہ فقیہ بھی قرار دیا ہے ، جبکہ حضرت ابنِ عباسؓ اہلِ بیتؓ کے عظیم فرد تھے۔ (صحیح بخاری)
مسلمانوں کی اکثریت جو اہلِ سنت ہے ، ان کا عقیدہ حضرت امیر معاویہ رض کے متعلق واضح ہے کہ وہ صحابی رسول، مسلمان ، مؤمن اور جنتی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ میری امت کی اکثریت گمراہ نہیں ہوسکتی۔ ( ترمذی، ابنِ ماجہ)