Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فصل: رافضیوں کا جھوٹ اور علم سے تہی دامنی

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:

رافضیوں کا جھوٹ اور علم سے تہی دامنی 

ہم ان شاء اللہ تعالیٰ ۔اللہ کے فضل و کرم اور اس کی توفیق سے ۔ اس کتاب’’ منہاج الندامۃ ‘‘ کے تعارف میں راہ استقامت پر گامزن رہتے ہوئے اس کی وضاحت کریں گے۔

[اس کتاب کا مصنف ]ابن المطہر بھی اپنے پیش روؤں مثلاً ابن نعمان[اس کا نام و نسب محمد بن محمد بن نعمان بن عبدالسلام بغدادی (المتوفی ۳۳۶۔۴۱۳ھ) ہے،یہ حلہ نامی شہر کا شیخ المشائخ تھا، کہا جاتا ہے کہ یہ چھوٹی بڑی دو صد سے زائد کتب کا مصنف ہے۔] المفید، کراجکی[محمد بن علی بن عثمان الکراجکی (المتوفی ۴۴۹ھ)۔ یہ شیخ ابن نعمان المفید کے تلامذہ میں سے تھا، کراجک ایک گاؤں کا نام ہے۔]و ابو القاسم[محمد بن علی بن عثمان الکراجکی (المتوفی ۴۴۹ھ)۔ یہ شیخ ابن نعمان المفید کے تلامذہ میں سے تھا، کراجک ایک گاؤں کا نام ہے۔] موسوی، اور نصیر الدین طوسی [محمد بن محمد بن حسن خواجہ نصیر الدین طوسی المتوفی (۵۹۷۔۶۷۲)ہے، مشہور ظالم و سفاک ہلاکو نے ۶۵۵ھ میں بغداد میں قتل عام کا جو بازار گرم کیا تھا اس کی براہ راست ذمہ داری نصیر الدین طوسی ابن علقمی اور اس کے مشیر ابن ابی الحدید پر عائد ہوتی ہے۔ طوسی ایک ملحد فلسفی تھا اور زوال بغداد کا اولیں محرک تھا۔ زوال بغداد سے قبل یہ بلاد الجبل اور قلعہ الموت میں سکونت پذیر تھا اور فرقہ اسماعیلیہ کا طرف دار تھا۔ طوسی نے اپنی مشہور تصنیف اخلاق ناصری اسماعیلی سلطان علاؤالدین محمد بن جلال حسن کے وزیر ناصرالدین کے لیے تحریر کی تھی۔ ناصر الدین بلاد الجبل (کوہستان) کا حاکم تھا اور بڑا بدباطن شخص تھا طوسی کے نفاق اور خبث باطن کی واضح دلیل یہ ہے کہ اس نے بنی عباس کے آخری خلیفہ المستعصم المتوفی (۵۸۸۔ ۶۵۶ھ) کی شان میں مدحیہ قصیدہ لکھا تھا۔ حالانکہ زوال بغداد کا محرک یہی طوسی تھا۔ شیعہ طوسی کی اس رسوا کن خیانت اور خبث باطن کو اس کے انتہائی کمالات میں سے شمار کرتے ہیں ۔ (دیکھئے شیعہ کی کتاب روضات الجنات طبع ثانی: ۵۷۸) طوسی ملحد کی یہ خیانت اتنی بڑی تھی کہ اس سے بڑی خباثت و خیانت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ طوسی اس قدر خیانت کار تھاکہ یہ ہلاکو کے خلاف سازش کرنے سے بھی باز نہ رہا۔ ہلاکو کو اس سازش کا پتہ چل گیا تھا وہ اس کی پاداش میں طوسی کو جہنم رسید کرنا چاہتا تھا۔ مگر قتل کرنے سے یہ امر مانع ہوا کہ طوسی سیاروں کی حرکات معلوم کرنے کے لیے ایک زائچہ تیار کر رہا تھا، اس نے چاہا کہ وہ تکمیل پذیر ہو جائے، ہلاکو نے جب طوسی کو بلا کر برا بھلا کہا اور اس کی خیانت کی قلعی کھول کر اسے قتل کی دھمکی دی تو طوسی کا شاگرد قطب الدین شیرازی موقع کو غنیمت جان کر اس زائچہ کی تکمیل کے لیے تیار ہوگیا اور ہلاکو سے کہا:’’اگر آپ کی رائے مبارک اس شخص (طوسی) کو قتل کرنے کے حق میں ہے تو زائچہ کی تکمیل کے لیے میری خدمات حاضر ہیں ۔‘‘ مقام افسوس ہے کہ علم و فضل کے یہ مدعی شرم و حیا کے کسی احساس کے بغیر اخلاقی گرواٹ کی اس حد تک پہنچ جاتے تھے۔]کی راہ پر گامزن رہا۔ شیعہ دراصل طریق بحث و مناظرہ؛ معرفت دلائل اور اصطلاحات مناظرہ مثلاً :منع و معارضہ سے بالکل ناآشنا ہیں ، اسی طرح منقولات سے بھی وہ قطعی طور پر تہی دامن ہیں ۔اور اس کے ساتھ ہی منقولات ؛ احادیث اور آثار کی معرفت میں لوگوں میں سب سے بڑے جاہل ہیں ۔

صحیح اور ضعیف کے درمیان تمیز کرنے کی صلاحیت سے بے بہرہ ہیں ۔

شیعہ سے متعلق ائمہ دین کی رائے:

تاریخ کے بارے میں شیعہ کا اعتمادان منقولات پر ہے جن کی اسناد منقطع ہیں ۔[سند میں انقطاع کے معنی یہ ہیں کہ اس کا تسلسل ٹوٹ جائے اور ایک یا دو راوی محذوف ہوں ، مثلاً ایک شخص ایسے شخص سے روایت کرے جو اس سے پہلے ہوا ہے اور اس نے اس کا زمانہ نہیں پایا، تاہم وہ جھوٹ موٹ اس سے روایت کرنے کا مدعی ہے، یا اس نے کسی اور شخص کے واسطہ سے روایت کی اور چونکہ وہ شخص معروف بالکذب تھا اس لئے اس کا نام دانستہ سلسلہ سند سے حذف کر دیا تاکہ اس روایت کا جھوٹا ہونا عوام میں مشہور نہ ہو۔]جن میں سے اکثر مشہور جھوٹے اور ملحد لوگوں کی وضع کردہ ہوتی ہیں ۔

مثلاً شیعہ علماء کے یہاں ابو محنف[ابو محنف شیعہ رواۃ میں سے مقابلتاً کم درجہ کا ضعیف راوی ہے، اور اس میں ضعف کم پایا جاتا ہے۔ محدث ابن عدی اسکے بارے میں فرماتے ہیں : ’’ یہ کٹر شیعہ اور اخباری راوی ہے۔‘‘ حافظ ذہبی میزان الاعتدال میں فرماتے ہیں : ’’ یہ ایک قصہ گو شخص ہے جس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا، ابو حاتم نے اس کی روایت قبول نہیں کی۔‘‘ فیروز آبادی نے بھی اپنی کتاب ’’ القاموس المحیط ‘‘ میں یونہی لکھا ہے: کہا جاتا ہے، کہ لوط بن یحییٰ ابو محنف ۱۵۷ھ میں فوت ہوا۔] لُوط بن یحییٰ اور ہشام بن محمد بن سائب کلبی [ہشام کا نام و نسب ابو المنذر ہشام بن محمد بن سائب المتوفی ۲۰۴ھ ہے،یہ قصہ گو اور ماہر انساب تھا اس کے بارے میں امام احمد رحمہ اللہ کا قول سب سے زیادہ سچا ہے، فرماتے ہیں :’’ یہ قصہ گو او ماہر انساب ہے، میں یہ نہیں خیال کرتا کہ کوئی اس سے حدیث روایت کرتا ہو، یہ ان اخبار و انساب کا مرجع ہے، جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں ، جہاں تک حدیث رسول کا تعلق ہے، مسلمان اس سے زیادہ دانش مند ہیں ، کہ وہ اس کے دھوکہ میں آئیں ۔‘‘ کلبی کے بارے میں محدث ابن عساکر نے حسب ذیل رائے کا اظہار کیا ہے:’’کلبی شیعہ ہے اور اعتماد کے قابل نہیں ۔‘‘] اوران جیسے دیگر لوگوں کی روایات بھی قابل اعتماد ہیں حالانکہ اہل علم کے ہاں یہ لوگ جھوٹ میں مشہور و معروف ہیں ۔اور اس قابل نہیں ہیں کہ ان کی روایات پر اعتماد کیا جاسکے۔ اس لیے کہ یہ لوگ انتہائی درجہ کی جہالت اورگمراہی کا شکار ہیں ۔ اہل علم اپنی کتابوں میں ان لوگوں سے روایات نقل کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔علماء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سب سے بڑھ کر جھوٹا فرقہ رافضیوں کا ہے ۔ابو حاتم یونس بن عبدالاعلی[یہ اپنے زمانہ میں امام مصر اور وہاں کے جید فاضل تھے ۲۶۴ھ میں وفات پائی۔]روایت کرتے ہیں ، کہ اشہب [اشہب بن عبدالعزیز قیسی المتوفی (۱۴۰۔ ۲۰۴) یہ ائمہ مصر میں سے تھے اور امام مالک اور لیث بن سعد کے شاگرد تھے۔ ]بن عبدالعزیز کہتے ہیں : امام مالک رحمہ اللہ سے جب روافض کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا:

’’ لَا تُکَلِّمْہُمْ وَلَا تَرْوِعَنْہُمْ فَاِنَّہُمْ یَکْذِبُوْنَ ۔‘‘

’’شیعہ سے بات کیجئے نہ ہی ان سے روایت کیجئے، اس لیے کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں ۔‘‘

ابو حاتم فرماتے ہیں : ہم سے حرملہ [حرملہ بن یحییٰ نجیبی المتوفی ۲۴۳ یہ امام شافعی کے تلمیذ خاص اور مصر کے یکتائے روز گار فاضل تھے، انہوں نے امام مالک کے تلمیذ خاص ابن وہب سے تقریباً ایک لاکھ روایات اخذ کیں ۔]نے بیان کیا کہ میں نے امام شافعی رحمہ اللہ کو یہ فرماتے سنا:

’’ لَمْ اَرَاَحَدًا اَشْہَدَ بِالزُّوْرِ مِنَ الرَّافِضَۃِ ۔‘‘

’’میں نے شیعہ سے زیادہ جھوٹی گواہی دینے والا کوئی نہیں دیکھا۔‘‘

مؤمل بن اہاب[مؤمل بن اہاب ربعی المتوفی ۲۵۴ھ ان سے ابو داؤد اور نسائی نے روایت کی ہے۔] کہتے ہیں ، میں نے یزید بن ہارون[یزید بن ہارون واسطی مشہور حافظ حدیث اور امام احمد کے استاد تھے، ان کی مجلس درس میں ستر ہزار طلبہ ہوا کرتے تھے، ۲۰۶ ھ میں فوت ہوئے۔] کو سنا آپ فرماتے تھے:’’ ہر بدعتی کی روایت قبول کی جا سکتی ہے، بشرطیکہ وہ بدعت کا داعی نہ ہو البتہ شیعہ کی روایت مقبول نہیں کیونکہ وہ جھوٹ بولتے ہیں ۔‘‘

محمد بن سعید[محمد بن سعید اصفہانی مشہور محدث شریک کے تلامذہ میں سے تھے، امام بخاری نے ان سے روایت کی ہے، یہ ۲۲۰ھ میں فوت ہوئے۔]اصفہانی فرماتے ہیں : میں نے شریک [شریک بن عبداﷲ نخعی المتوفی (۹۵۔۱۷۷) کوفہ کے قاضی اور عبداﷲ بن مبارک کے شیوخ میں سے ہیں ، یہ محدث ثوری اور امام ابو حنیفہ کے معاصر اور رفیق تھے۔آپ شیعہ میں سے تھے ‘ اور خود اپنی زبان سے کہا کرتے تھے: میں شیعہ ہوں ۔ اور یہ ان کی گواہی اپنے ہی لوگوں کے متعلق ہے ۔] کو یہ کہتے سنا:’’میں جس آدمی سے بھی ملوں اس سے علم حاصل کر لیتا ہوں البتہ شیعہ سے علم حاصل نہیں کرتا؛ اس لیے کہ وہ حدیثیں گھڑ لیتے ہیں اور پھر انہیں دین بنا لیتے ہیں ۔‘‘

یہ شریک بن عبداللہ القاضی ؛ کوفہ کے جج تھے۔ امام ابو حنیفہ اور امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کے ہم پلہ اور ہم مثل لوگوں میں سے ایک تھے۔ یہ خود شیعہ تھے؛ اور اپنی زبان سے اپنے شیعہ ہونے کا اقرار کرتے تھے۔ اور اپنے ہی لوگوں کے بارے میں یہ ن کی گواہی ہے جو حقیقت پر مبنی ہے۔

ابو معاویہ کا قول ہے کہ میں نے سنا اعمش رحمہ اللہ فرماتے تھے:

’’لوگ اصحاب مغیرہ بن سعید کو کذاب کا نام دیتے ہیں اور کذاب کی شہادت بالاتفاق مردود ہے۔‘‘

حضرت اعمش رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’ تمہارے لیے یہ ضروری ہے کہ تم ان چیزوں کو یاد رکھو۔ اس لیے کہ میں خود کو اس بات سے مامون نہیں سمجھتا کہ یہ لوگ کہیں کہ : ’’ ہم نے اعمش کو ایک عورت کے ساتھ پایا ۔‘‘

یہ روایات تاریخ میں ثابت ہیں ۔ انہیں امام ابو عبد اللہ بن بطہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’ الابانہ الکبری‘‘ میں ؛اور دوسرے لوگوں نے اپنی تصنیفات میں نقل کیا ہے ۔ ابو القاسم الطبری نے روایت کیا ہے : امام شافعی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:

’’ میں نے گمراہ فرقوں میں سے رافضیوں سے بڑھ کر جھوٹی گواہی دینے والا کوئی نہیں دیکھا۔‘‘

یہ روایت حرملہ رحمہ اللہ نے بھی نقل کی ہے ؛ اس میں یہ الفاظ زیادہ ہیں کہ :

’’ میں نے رافضیوں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ پر جھوٹی گواہی دینے والا کوئی نہیں دیکھا۔‘‘

یہ معنی اگرچہ صحیح ہے؛ لیکن امام شافعی رحمہ اللہ سے پہلے الفاظ ثابت ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے بھی وہی اصول بیان کیا ہے جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے ساتھیوں نے بیان کیا ہے کہ جو لوگ جھوٹ بولنے میں مشہور ہوں ان کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی ؛ جیسا کہ خطابیہ ۔ [خطابیہ غالی شیعہ کا ایک گروہ ہے؛ جو کہ ابو الخطاب محمد بن ابو زینب مقلاس اسدی الکوفی الاجدع (مقتول ۱۴۳ہجری ) کے پیروکار ہیں ۔ نوبختی نے فرق الشیعۃ ص ۳۷۔ ۳۸ پر کہا ہے: ’’’ ابو الخطاب کا دعوی تھا کہ ابو عبداللہ جعفر بن محمد (الصادق) نے اسے اپنے بعد اپنا وصی اور قیم بنایا تھا۔ اور اسے اللہ تعالیٰ کے اسم اعظم کی تعلیم دی تھی۔ پھر اس نے ایک قدم آگے بڑھ کرنبوت کا دعوی کیا۔ پھر اور ترقی کرتے ہوئے رسالت کا دعوی کیا۔ پھر دعوی کیا کہ وہ اصل میں فرشتوں میں سے ہے جو اہل زمین کی طرف اللہ تعالیٰ کا فرستادہ پیغمبر ہے۔ اور اہل زمین پر اللہ تعالیٰ کی حجت ہے۔ اشعری نے بتایا ہے کہ خطابیہ کے بھی پانچ فرقے ہیں ۔ [مقالات الاسلامیین ۱؍۱۷۵۔ الملل و النحل ۱؍ ۳۸۰۔ الفرق بین الفرق ص ۱۵۰۔ التبصیر فے الدین ص ۷۳۔فرق الشیعۃ ص ۶۳۔ الخطط للمقریزی ۲؍ ۳۵۲۔ رجال الکشی ص ۲۴۶۔ ]]

جھوٹ میں معروف لوگوں کی گواہی رد کرنااہل فقہ علمائے کرام کے مابین متفق علیہ مسئلہ ہے۔ جب کہ باقی تمام اہل بدعت گمراہ خواہشات کے پجاری فرقوں کی گواہی قبول کرنے کے متعلق اختلاف ہے۔ ان میں سے بعض کہتے ہیں : ان کی گواہی مطلق طور پر قبول کی جائے گی۔ اور بعض کہتے ہیں : مطلقاً رد کی جائے گی۔ اور بعض کہتے ہیں : جب ایسی گواہی ہو جس میں ان کی بدعت کی طرف دعوت ہو تو رد کی جائے گی؛ ورنہ قبول کر لی جائے گی۔ محدثین کے ہاں یہی تیسرا قول غالب طور پر مقبول ہے۔ وہ ایسی روایت نقل نہیں کرتے جس میں بدعت کی طرف دعوت ؛ یا اس پر شہادت ہو۔یہی وجہ ہے کہ ان کی امہات کتب جیسے صحاح ؛ مسانید ؛ سنن میں کوئی ایسی روایت نہیں ہے جو ایسے راوی سے ہو جو اپنی بدعت کی طرف دعوت دینے میں مشہور ہو۔ اگرچہ ان میں ایسے راوی ضرورپائے جاتے ہیں جن میں کسی نہ کسی حد تک بدعت کا عنصر شامل ہوتا ہے۔ جیسے خوارج ؛ مرجئہ ؛ شیعہ؛ قدریہ وغیرہ۔ اس لیے کہ ان سے کوئی ایسی روایت منقول نہیں ہے جو ان کے فسق کی طرف دعوت دیتی ہو۔ جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔ لیکن جو کوئی اپنی بدعت کا اظہار کرے اس کا انکار کرنا واجب ہو جاتا ہے۔ بخلاف اس کے جو کوئی اپنی بدعت کو چھپاتا ہو اور اسے خفیہ رکھتا ہو۔ جب انکار کرنا واجب ہے تو پھر یہ بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ اس سے قطع تعلقی کی جائے حتیٰ کہ وہ اپنی بدعت کے اظہار سے باز آجائے۔ اور قطع تعلقی میں سے یہ بھی ہے کہ اس سے علم حاصل نہ کیا جائے؛ اور نہ ہی اس کے کلام سے دلیل پیش کی جائے۔

ایسے ہی اہل فجور اور اہل بدعت کے پیچھے نماز پڑھنے کے بارے میں بھی فقہائے کرام رحمہم اللہ کا اختلاف ہے۔ان میں سے بعض مطلق طور پر اس کی اجازت دیتے ہیں ؛ اور بعض مطلق طور پر منع کرتے ہیں ۔اور اس مسئلہ کی تحقیق یہ ہے کہ ان کے پیچھے نماز اس وجہ سے منع نہیں ہے کہ ان کی اپنی نماز نہیں ہوتی۔لیکن اس کی وجہ یہ ہے

کہ جب وہ لوگ برائی کا پرچار کرتے ہیں تو اس بات کے مستحق قرار پاتے ہیں کہ ان سے قطع تعلقی کی جائے؛ اور انہیں مسلمانوں کو نماز پڑھانے کے لیے آگے نہ بڑہایا جائے۔اور اسی باب سے یہ مسئلہ بھی تعلق رکھتا ہے کہ اگر وہ بیمار ہوجائیں تو ان کی عیادت نہ کی جائے؛ اور اگر مر جائیں تو ان پر نماز جنازہ نہ پڑھا جائے۔ ان تمام امور کا تعلق اس مشروع قطع تعلقی سے ہے جس کا مقصد انہیں برائی سے روکنا ہوتا ہے۔‘‘

جب یہ بات معلوم ہوگئی یہ مسئلہ شرعی عقوبات سے تعلق رکھتا ہے ؛ تو یہ بھی پتہ چل گیا کہ اس میں بدعت کی قلت و کثرت کے اختلاف احوال اور سنت کے ظہور و خفاء کے لحاظ سے اس کی نوعیت بھی مختلف ہوتی ہے۔ اور یہ کہ کبھی تو تألیف قلب مشروع ہوتی ہے؛اور کبھی قطع تعلقی۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھار مشرکین میں سے نو مسلم لوگوں کی تالیف قلب کرتے تھے؛ جن کے بارے میں آپ کو فتنہ کا اندیشہ ہوتا تھا۔تو پھر مؤلفۃ القلوب کو وہ کچھ عطا فرماتے جو دوسروں کو نہیں دیا کرتے تھے۔

جیسا کہ صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’ میں بعض لوگوں کو دیتا ہوں اور بعض کو نہیں دیتا؛ لیکن میں جس کو نہیں دیتا وہ میرے نزدیک ان سے زیادہ محبوب ہیں جن کو میں دیتا ہوں ۔ میں تو ان لوگوں کو دیتا ہوں جن کے دلوں میں بے صبری اور لالچ پاتا ہوں ۔ لیکن جن کے دل اللہ تعالیٰ نے خیر اور بے نیاز بنائے ہیں ، میں ان پر بھروسہ کرتا ہوں ۔ عمرو بن تغلب بھی ان ہی لوگوں میں سے ہیں ۔‘‘[رواہ البخاری ۲؍۱۰؛ کتاب الجمعۃ باب من قال في الخطبۃ بعد الثناء....مسند أحمد ۵؍۶۹]

ایک دوسری حدیث میں ہے آپ نے ارشاد فرمایا:

’’ میں کسی دوسرے آدمی کو صرف اس ڈر کی وجہ سے دیتا ہوں کہ کہیں اللہ تعالیٰ اسے چہرہ کے بل جہنم کی آگ میں نہ گرا دیں ۔‘‘ [البخاری ۱؍۱۰؛ کتاب الإیمان ؛ باب إذا لم یکن الإسلام علی الحقیقۃ....]

اور کبھی کبھار آپ بعض مسلمانوں سے لاتعلقی بھی اختیار کر لیتے تھے؛ جیسے ان تین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا قصہ ہے جو غزوہ تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے۔ کیونکہ اس سے مقصود اچھے طریقہ سے مخلوق کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت گزاری کی طرف دعوت دینا ہوتا ہے۔ پس جہاں پر مناسب ہو وہاں ترغیب کا اسلوب استعمال کیا جاتاہے۔ اور جہاں پر مناسب ہو وہاں ترہیب کا اسلوب بروئے کار لایا جاتا ہے۔

جس انسان کو ان امور کا علم حاصل ہوگیا؛ اس پر واضح ہو جاتا ہے کہ جن لوگوں نے تأویل کی بنا پر اہل بدعت کی شہادت اور روایت کو مطلق طور پر رد کیاہے؛ ان کا قول ضعیف ہے۔ کیونکہ سلف اس تأویل کی بنا پر بہت بڑی آزمائشوں میں مبتلا ہوئے تھے۔

اور ایسے ہی جو لوگ بدعت کا اظہار کرنے والوں کو علم و شہادت کا امام بنائے پھرتے ہیں ؛ اور ان کی اس برائی کا انکار نہ ہی قطعی تعلقی سے کیا جائے اور نہ ہی کسی دیگر ذریعہ سے ؛ تو ان کا یہ قول بھی ضعیف ہے۔ ایسے جو لوگ بدعت کا اظہار کرنے والوں کے پیچھے نماز پڑھ لیتے ہیں ؛ نہ ہی ان پر انکار کرتے ہیں ؛ اور نہ ہی قدرت ہونے کے باوجود اس کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں ؛اور انہیں اس سے بہتر گردانتے ہیں ؛ ان کا قول بھی ضعیف ہے۔اس انسان پر لازم آتا ہے کہ جس برائی کو اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم نا پسند کرتے؛ اگر یہ قدرت رکھتا ہے تو اس برائی کا انکار کرے۔ مگر یہ انسان تو ایسا کرنے کو جائز نہیں سمجھتا۔ اور ایسے ہی جو کوئی ان لوگوں کے نماز دوبارہ پڑھنے کو واجب کہتے ہیں جنہوں نے اہل بدعت یا فسق و فجور میں مبتلا لوگوں کے پیچھے نماز پڑھ لی ہو؛ تو ان کا قول بھی ضعیف ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ سلف صالحین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور دوسرے حضرات نے ان میں سے ہر ایک گروہ کے پیچھے نمازیں پڑھی ہیں ؛ جب یہ لوگ ان پر حاکم بن گئے تھے۔ [ابو معاویہ محمد بن حازم المتوفی ۱۹۵ یہ نابینا ہونے کے باوصف بہت بڑے فاضل تھے، یہ اعمش کے تلامذہ میں سے تھے۔]یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کے ہاں طے شدہ اصول ہے : جو نمازیں حکمران پڑھائیں ؛ ان کے پیچھے پڑھ لی جائیں بھلے وہ کسی بھی حال میں ہوں ۔ جیسا کہ ان کے ساتھ حج اور جہاد کیا جاتا ہے ۔ [اعمش کا اصلی نام سلیمان بن مہران ہے، ان کی تاریخ وفات (۶۴۔۱۴۸) ہے، یہ بہت بڑے حافظ اور قاری تھے سفیان بن عیینہ اعمش کے بارے میں فرماتے ہیں : ’’یہ بہت بڑے حافظ قاری اور عالم تھے، صداقت بیانی کی وجہ سے ان کو المصحف کہا جاتا تھا۔‘]یہ مسائل کئی مقام پر تفصیل سے بیان ہوئے ہیں ۔ 

یہاں پر اتنا بیان کرنا مقصود ہے کہ اہل علم [علماء کرام ] کا اتفاق ہے کہ اہل قبلہ کے فرقوں میں رافضیوں سے بڑھ کر جھوٹا فرقہ کوئی بھی نہیں ۔‘‘جو شخص کتب جرح و تعدیل ؛ اور راویوں کے حالات زندگی کو بغور پڑھنے کا عادی ہے ؛ جیساکہ یحییٰ بن سعید القطان ‘ علی المدینی ؛ یحی بن معین‘ امام بخاری‘ ابو زرعہ ؛ ابو حاتم الرازی‘ امام نسائی ‘ ابو حاتم بن حبان ‘ ابو احمد بن عدی ‘ دار قطنی ؛ ابراہیم بن یعقوب جوزجانی؛ یعقوب بن سفیان الفسوی؛ احمد بن عبد اللہ بن صالح العجلی ؛العقیلی ؛ محمد بن عبد اللہ بن عمار الموصلی ؛حاکم نیشاپوری ؛ حافظ عبد الغنی بن سعید المصری اور ان جیسے معروف اہل علم ‘مصنفین اور ماہرین تنقید نگار رحمہم اللہ ؛ اور اسناد کے احوال کے جانکار سبھی لوگ یہ کہتے ہیں کہ:

’’ اہل علم کے نزدیک لوگوں کے ہر طبقہ میں شیعہ زیادہ ترجھوٹ میں معروف ہوتے ہیں ۔‘‘[مغیرہ بن سعید کوفی مشہور رافضی اور کذاب تھا، اسے ۱۱۹ھ میں خالد بن عبداﷲ قَسری کے عہد امارت میں سولی دیا گیا تھا، یہ آیت: ﴿ اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ ﴾ کی تحریف کر کے اسے غلط معانی پہنایا کرتا تھا۔ یہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی الوہیت کا عقیدہ رکھتا تھا۔ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے رفقاء کے سوا ابوبکر و عمر اور جملہ صحابہ کی تکفیر کرتا تھا۔ یہ ایک یہودی عورت سے کچھ پڑھا کرتا تھا، جب دریافت کیا گیا کہ تم کیا پڑھتے ہو؟ توکہنے لگا ’’ میں جادو سیکھتا ہوں ۔‘‘ ائمہ اہل بیت اس کی دروغ بیانی اور دین اسلام میں کفر والحاد کے ارتکاب کی بنا پر اس سے اظہار براء ت کیا کرتے تھے۔]

یہاں تک کہ امام بخاری رحمہ اللہ جیسے لوگوں نے پرانے شیعہ ‘جیسا کہ عاصم بن ضمرہ ‘ حارث الاعور؛ عبد اللہ  بن سلمہ رحمہم اللہ اور ان جیسے دیگر لوگوں سے ایک روایت بھی نقل نہیں کی؛حالانکہ یہ شیعہ فرقہ میں سب سے بہتر لوگ تھے۔ بلکہ یہ لوگ اہل بیت سے روایت کرتے ہیں جیسے کہ : حضرات حسن ‘ حسین ‘ رضی اللہ عنہمامحمدبن حنفیہ ؛ ان کے آزاد کردہ غلام عبیداللہ بن ابی رافع ۔اور ابن مسعود کے ساتھیوں سے بھی روایت کرتے ہیں ؛ جیسے کہ : عبیدہ السلمانی ؛ حارث بن قیس رحمہ اللہ اور ان جیسے دوسرے لوگ ۔ یہ لوگ نقل ِ روایات کے امام اورنقاد ہیں ‘اور لوگوں میں سب سے بڑھ کر خواہشات سے دور رہنے والے؛ اور لوگوں کے احوال سے خوب باخبراور حق بات کہنے والے ہیں جنہیں اللہ کے دین کے بارے میں کسی ملامت گر کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔

بدعات مختلف اقسام کی ہوتی ہیں ۔ خوارج دینی حدود سے تجاوز کر جاتے ہیں ‘وہ دین اسلام سے ایسے نکل جاتے ہیں ‘ جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے جنگ کرنے کا حکم بھی دیا ہے ۔ اور صحابہ کرام اور اہل اسلام علماء کرام رحمہم اللہ کا ان کے ساتھ جنگ کرنے پر اتفاق ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دس اسناد کے ساتھ صحیح احادیث ثابت ہیں ۔جنہیں امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ۔ان میں سے تین روایات امام بخاری نے نقل کی ہیں ۔یہ ایسے لوگ نہیں ہیں جو جان بوجھ کر جھوٹ بولتے ہوں ‘ بلکہ یہ اپنی سچائی میں سب سے بڑھ کر معروف ہیں ۔ اس کی حدیہ ہے کہ ان کی نقل کردہ روایت کو اصح الحدیث کہاجاتا ہے۔ [خوارج کے نزدیک جھوٹ بولنے والا گناہ کبیرہ کا مرتکب اور ابدی جہنمی ہے، یہی وجہ ہے کہ خوارج ظالم ہونے کے باوجود جھوٹ نہ بولتے تھے]مگر یہ لوگ اپنی بدعت کی وجہ سے گمراہی اور جہالت کا شکار ہوگئے۔ ان کی بدعت زندیقیت یا الحاد کی وجہ سے نہیں تھی؛ بلکہ کتاب اللہ کے معانی و مفاہیم سے جہالت اورگمراہی کی وجہ سے تھی۔ 

جب کہ رافضیوں کے دین کی بنیاد ہی زندیقیت اورالحاد پر مبنی ہے۔ شیعہ میں جان بوجھ کر جھوٹ بولنے کی بیماری بہت زیادہ ہے ۔ شیعہ یہ کہہ کر خود اپنی دروغ گوئی کا اعتراف کرتے ہیں کہ ’’ہمارا دین تقیہ ہے۔‘‘[حافظ ابن عساکر تاریخ دمشق میں رقم طراز ہیں ، کہ حسن بن مثنیٰ بن حسن سبط بن علی بن ابی طالب نے ایک رافضی سے کہا: ’’ اگر ہمارا بس چلا تو ہم تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹ دیں گے اور تمہاری توبہ قبول نہیں کریں گے، یہ سن کر ایک شخص بولا۔ آپ ان کی توبہ کیوں کر قبول نہ کریں گے۔‘‘ حسن مثنیٰ نے فرمایا: ’’ ہم ان سے تمہاری نسبت زیادہ واقف ہیں ، اگر چاہیں تمہاری تصدیق کر دیں اور اگر چاہیں تکذیب کر دیں ، ان (شیعہ) کا خیال ہے کہ تقیہ میں ان سب باتوں کی گنجائش ہے۔ مقام افسوس ہے کہ تقیہ کی رخصت مسلمان کو اضطراری صورت میں حاصل ہوتی ہے، مثلاً وہ سلطان سے ڈرتا ہو تو اپنے ضمیر کے خلاف بات کہہ کر اپنی جان بچائے۔ تقیہ میں عظمت و فضیلت کا کوئی پہلو موجود نہیں ، فضیلت کا موجب یہ امر ہے کہ ہر قیمت پر آدمی حق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے اور سچی بات کہہ دے۔ اﷲ کی قسم!تقیہ کی بنا پر اﷲکے کسی بندے کو یہ حق حاصل نہیں کہ اﷲ کے بندوں کو گمراہ کرتا پھرے۔‘‘(تاریخ دمشق از ابن عساکر:۴؍۱۶۵)]تقیہ سے مراد یہ ہے کہ کوئی ایک اپنی زبان سے وہ بات کہے جو اس کے دل میں نہ ہو۔ اسی کا نام جھوٹ اور نفاق ہے۔ اس کے باوصف وہ باقی اہل ملت کو چھوڑ کر صرف خود مومن ہونے کے دعویدار ہیں ؛ اور سابقین اولین صحابہ کو ارتداد و نفاق [ اہل سنت کے ایک عالم سید ابراہیم نے ایک شیعہ مجتہد محمد مہدی سبزواری کو بتاریخ ۱۴ صفر ۱۳۴۷ھ ایک خط لکھا؛ سید ابراہیم نے اپنے خط میں ایک شیعہ عالم بہاؤ الدین عاملی کا شکوہ کیا تھا کہ اس نے تفسیر بیضادی کے حاشیہ میں آیت : ’’ یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰہِ مَا قَالُوْا وَلَقَدْ قَالُوْا کَلِمَۃَ الْکُفْرِ وَکَفَرُوْا بَعْدَ اِسْلَامِہِمْ ‘‘کی تفسیرمیں لکھا ہے کہ یہ آیت سیدنا ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ کے بارے میں نازل ہوئی، سید ابراہیم نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا : اگر سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ جن کی تعداد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت ایک لاکھ سے بھی زائد تھی، پانچ چھ یا سات کے سوا سب کافر منافق اور مرتد ہوئے، تو وہ دین جاہلیت کا اعلان کرتے اور وہ مرتدین کے خلاف نبرد آزمانہ ہوتے۔ مقام حیرت ہے کہ ۲۳ سال تک کافر آپ کے مصاحب رہے اسی طرح طویل مدت تک ایک کافرہ بیوی آپ کی زوجیت میں رہی، اور آپ کو پتہ نہ چل سکا، حالانکہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو اولین و آخرین کا علم عطا کر رکھا تھا۔‘‘ مہدی سبز واری نے ۴ ربیع الآخر کو اس کا حسب ذیل جواب دیا:’’ آپ نے شیعہ کا قول نقل فرمایا ہے، جواباً عرض ہے کہ سیدنا ابوبکر کا کفر ( معاذ اﷲ) بت پرستوں کی طرح حقیقی و واقعی نہیں ، بلکہ حکمی کفر ہے، مزید برآں شیعہ اس بات کے قائل نہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور صحابہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کافر ہوگئے تھے، بلکہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ آپ کی وفات کے بعد مرتد ہوگئے تھے۔ (العیاذ باللّٰہ) مذکورہ بالا بیان سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ بہاؤ الدین آملی کا یہ قول دروغ گوئی پر مبنی ہے، کہ مذکورۃ الصدر آیت سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ کے بارے میں نازل ہوئی، تاہم عاملی اور سبز واری اس امر میں باقی شیعہ کے ہم نوا ہیں کہ صحابہ اگر آپ کی وفات سے قبل نہیں تو بعد میں ضرور مرتد ہوگئے تھے، ہم کہتے ہیں کہ اگر شیعہ کے افکار و معتقدات کا انکار کفر ہے، تو بلاشبہ اس اعتبار سے صحابہ رضی اللہ عنہم کو کافر کہنا درست ہے، سید ابراہیم اور مجتہد سبز واری کی مراسلت کے لئے دیکھئے، مجلہ الفتح ’’ جمادی الآخرہ ۱۳۶۶ھ] سے متہم کرتے ہیں ۔گویا وہ اس مثل کے مصداق ہیں : ’’ رَمَتْنِیْ بِدَائِہَا وَانْسَلَّتْ ‘‘ ۔’’وہ اپنی بیماری مجھ پر پھینک کر کھسک گئی۔‘‘

اسلام کا اظہار کرنے والوں میں رافضیوں سے بڑھ کرکوئی بھی فرقہ نفاق اور الحاد سے قریب تر نہیں ۔ اور کسی فرقہ میں اس فرقہ سے بڑھ کر مرتد اور منافق نہیں پائے جاتے ۔اس بارے میں غالی اور نصیری بہت ہی مشہور ہیں ۔

ملاحدہ کی قربت میں اسماعیلیہ شیعہ اور ان کے ہم مثل لوگ ہیں ۔شرعی امور میں ان کے لیے اصل یہ ہے کہ اہل بیت سے بعض روایات نقل کردی جائیں ۔ ان روایات میں سے کچھ سچی بھی ہوتی ہیں ‘اور اکثر روایات جھوٹی ہوتی ہیں ؛ بلکہ جان بوجھ کر یہ جھوٹ گھڑا جاتا ہے۔ چونکہ ان لوگوں میں صحیح اور کمزور و غریب روایات کی معرفت کا علم نام کی کوئی چیز نہیں ‘ جیسا کہ محدثین کے پاس علم ہوتا ہے ‘ اس لیے خطا ئے عمد کے مرتکب ہوتے ہیں ۔

پھر اگر اہل بیت سے روایت صحیح ثابت بھی ہوجائے ؛تو پھر بھی ان کے ہاں خبر کی قبولیت کا وجوب تین میں سے ایک اصول پر مبنی ہوتا ہے :

۱۔ ان میں سے کوئی ایک ایسے معصوم ہوگا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معصوم تھے۔

۲۔ ان میں سے کوئی ایک جب کوئی بات کہتا ہے تووہ اس بات کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کررہا ہوتا ہے ۔ اور اس منقول کے بارے میں عصمت کے دعویدار ہوتے ہیں ۔

۳۔ کہتے ہیں : اہل بیت کا اجماع حجت ہے ۔ پھر کہتے ہیں کہ:’’ ان اہل بیت کی تعداد ان کے ہاں بارہ ہے 

اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں : ان بارہ میں سے کسی ایک سے جو بات نقل کی جائے ‘ ان سب کا اس بات پر اتفاق ہوتا ہے ۔

یہ ان کے ہاں شرعی امور کے اصول ہیں ۔ جوکہ سب فاسد اصول ہیں ۔ ہم ان شاء اللہ اس مسئلہ کو اپنے موقع پر بیان کریں گے۔ان لوگوں کاقرآن و حدیث اور اجماع پر کوئی اعتماد نہیں ہوتا۔ سوائے ان معصوموں پر اعتماد کے۔ اور نہ ہی قیاس کو مانتے خواہ وہ کتنا ہی صاف اور واضح کیوں نہ ہو۔

جب منقولات اور عقلیات میں شیعہ کا اعتماد آج کل(یعنی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے دور میں ) معتزلہ کی تصانیف پر ہے۔ معتزلہ ان سے بڑھ کر عقلمند اور سچے ہوتے ہیں ۔ انکار تقدیر اور سلب صفات میں شیعہ معتزلہ کے ہم نوا ہیں ۔ بخلاف ازیں کوئی معتزلی حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت سے منکر نہیں ۔ بلکہ جمہور معتزلہ ان کی عزت و عظمت کے قائل ہیں ۔جب کہ تفضیل کے مسئلہ میں ان کے جمہور ائمہ متقدمین حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکی فضیلت کے قائل تھے۔ جب کہ متأخرین میں ایسے لوگ بھی ہوئے ہیں جو فضیلت کے بارے میں توقف کرتے تھے۔ اور بعض حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کے قائل تھے۔ اس بنا پر ان کے اور زیدیہ کے درمیان ایک گونا تعلق قائم ہوگیا؛ اور یہ لوگ توحید ‘ عدل ‘ امامت اور تفضیل میں مشترک ہوگئے۔

قدیم معتزلی ائمہ جیسے : عمرو بن عبید[عمرو بن عبید بن باب أبو عثمان ؛ معتزلہ کا امام تھا۔۱۴۴ھ میں فوت ہوا۔ [المنیۃ و الأمل لابن المرتضی ص ۲۲۔ شذرات الذہب ۱؍۲۱۰۔تاریخ بغداد ۱۲؍۱۶۶۔مروج الذہب للمسعودی ۳؍۳۱۳۔ ]] ؛ واصل بن عطاء[واصل بن عطا الغزال حسن بصری رحمہ اللہ کا شاگرد تھا؛ پھر آپ سے علیحدگی اختیار کر لی؛ اور اس کے اتباع کاروں کو معتزلہ کہا جانے لگا۔ یہ معتزلہ کا بڑا سرغنہ شمار ہوتاہے۔ اس کی وفات ۱۳۱ھ میں ہوئی۔[الملل والنحل ۱؍۵۰۔الفرق بین الفرق ص ۷۰۔ شذرات الذہب ۱؍۱۸۲۔]]؛اور دوسرے لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عدالت کے بارے میں توقف کیا کرتے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو یہ کہا کرتے تھے : 

’’حضرت علی اور حضرات طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم کے دو گروہوں میں سے کوئی ایک فاسق ہے ۔ مگر اس فاسق کو متعین نہیں کرتے تھے۔اگر ان دو میں سے کوئی ایک گواہی دے ‘تو اس کے فسق و فجور کی وجہ سے ان دو میں کسی ایک کے فاسق ہونے کی وجہ سے اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔ مگر اس فاسق کی تعین نہیں۔اور اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کسی دوسرے عادل انسان کے ساتھ مل کر گواہی دیں تو پھر ان کے ہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گواہی قبول کرنے کے بارے میں اختلاف ہے ۔ ‘‘

شیعہ متکلمین مثلاً ہشام[ہشام بن حکم مشہور زندیق ابو شاکر دیصانی کا غلام اور اس کا تربیت یافتہ تھا، ابو شاکر ہی سے اس نے الحاد و زندقہ اور تجسیم کی تعلیم پائی۔ جب ابو شاکر مر گیا تو یہ کسی اور ملحد استاد کی تلاش میں سر گرداں رہنے لگا، اتفاقاً اس کی ملاقات ایک جہمی العقیدہ شخص سے ہو گئی۔ ہشام تجسیم کا عقیدہ رکھتا تھا اس کے عین بر خلاف جہم نفی صفات کا قائل تھا۔ تاہم الحاد و زندقہ اور غلوفی البدعت میں دونوں ایک دوسرے کے ہم نوا تھے۔ برا مکہ مجوس کے آتشکدہ کے متولی چلے آتے تھے۔ جب انہیں ہشام کا پتہ چلا تو وہ اسے بے حد چاہنے لگے۔ روپیہ پیسہ سے اس کی مدد کی اور اس کی ذہانت کو اپنی اغراض کے لیے استعمال کرنے لگے۔ شاید برامکہ کی وجہ ہی سے ہشام شیعہ سے وابستہ ہو گیا۔ جس سے برا مکہ کا مقصد یہ تھا کہ اس طرح غالی شیعہ کو اس کا تعاون حاصل رہے گا۔ اور وہ نو عمر لوگوں کو تشیع کے جال میں پھنسا سکیں گے۔ علاوہ ازیں وہ اکابر شیعہ سے مل کر برا مکہ کے بڑے بڑے کام نکالے گا، شیعہ مذہب میں مختلف عنصر کے لوگ پائے جاتے تھے۔ ہشام کے عہد اقتدار ہی میں خلیفہ ہارون رشید اپنی خواب غفلت سے چونکا اور برا مکہ شعوبیہ اور زنا دقہ کو سزا دینے کے درپے ہوا۔ نتیجہ کے طور پر برا مکہ زوال پذیر ہو گئے۔ ان واقعات کے دوران ہشام کہیں چھپ گیا اور لوگوں سے مکمل علیحدگی اختیار کر لی۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی موت ۱۹۹ ھ میں واقع ہوئی۔ ہشام کے عقاید کے لیے دیکھئے ۔ (مختصر تحفہ اثنا عشریہ ،ص:۶۳)] بن حکم، ہشام جوالیقی [ہشام بن سالم جوالیقی اس کا لقب علاف ہے، یہ کہا کرتا تھا کہ اﷲ کی ایک صورت ہے، اور اس نے جناب آدم علیہ السلام کو اپنی صورت کے مطابق پیدا کیا تھا، اس کا قول ہے کہ اﷲ تعالیٰ سر سے لے کر ناف تک کھوکھلا ہے اور ناف سے قدم تک ٹھوس ہے، جرح و تعدیل کے شیعہ علماء اسے ثقہ قرار دیتے ہیں ، یہ سابق الذکر ہشام بن حکم کا معاصر تھا]اوریونس بن عبدالرحمن قمی [یونس بن عبدالرحمن القمی علی بن یقطین کا موالی تھا، یہ ہشام بن عبدالملک کے عہد خلافت میں پیدا ہوا، امام موسیٰ رضا اور خلیفہ مامون کا معاصر تھا، اور فاسد عقائد رکھتا تھا، شیعہ روایت کرتے ہیں کہ محمد بن دادویہ نے موسیٰ رضا کو بلا کر یونس کے بارے میں دریافت کیا تھا، امام موسیٰ نے جواباً تحریر فرمایا: ’’ اﷲ اس پر اور اس کے اصحاب پر لعنت کرے اﷲ تعالیٰ اس سے اور اس کے اصحاب سے بیزار ہے۔‘‘ ایک مرتبہ امام موسیٰ رضا نے یونس کی تالیف کردہ کتاب زمین پر دے ماری اور فرمایا: ’’ یہ زانی اور زانیہ کے بیٹے کی تصنیف ہے، یہ زندیق کی کتاب ہے۔‘‘ جب امام موسیٰ رضا خلیفہ مامون کی دعوت پر خراسان تشریف لے گئے تو یونس نے ان کے بارے میں کہا: ’’اگر وہ اس معاملہ میں بخوشی یا ناخوشی داخل ہوگئے تو وہ باغی ہیں ۔‘‘ بایں ہمہ وہ شیعہ کے نزدیک ثقہ اور ان کے لیے سرمایہ افتخار ہے اور وہ اس کی بریت ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں ۔] اور ان جیسے دیگر لوگ صفات الٰہی کا اثبات میں اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ رکھتے تھے ۔ اور وہی بات کہتے تھے جو اہل سنت والجماعت کہتے ہیں ۔عقیدہ خلق قرآن کا انکار کرتے تھے اوریہ کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا۔اور ان کے علاوہ بھی اہل سنت والجماعت کے عقائد ان کے ہاں پائے جاتے تھے۔یہاں تک کہ بعض لوگ اپنے غلو کی وجہ سے بدعت کا شکار ہوگئے تھے اور تجسیم اور تبعیض اور تمثیل کا عقیدہ رکھتے تھے۔جیسا کہ مقالات نگاروں نے ان کے عقائد بیان کیے ہیں ۔ تیسری صدی ہجری کے آخر میں کچھ شیعہ لوگوں نے معتزلہ کے اقوال اختیار کیے۔جیساکہ کتاب ’’ الآراء و الدیانات ‘‘ کا مصنف ابن نوبختی؛اور اس جیسے دیگر لوگ ۔ ان کے بعد مفید ابن نعمان اور اس کے پیروکاران آئے۔

اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ فرق و مذاہب پر کتابیں لکھنے والے مصنفین جیسا کہ ابو الحسن اشعری اور دوسرے لوگوں میں سے کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ شیعہ لوگ توحید یا عدل کے عقیدہ میں معتزلہ سے موافقت رکھتے ہیں ۔ بس یہ عقیدہ بعد میں آنے والے کچھ لوگوں سے منقول ہے۔ بلکہ ان کے پرانے لوگوں سے تجسیم اور اثبات قدر کا عقیدہ نقل کیا جاتا رہا ہے ۔ اسلام میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے بارے میں جسم کا عقیدہ رکھنے والا ہشام بن حکم ہے ۔ اس کے لیے ابن راوندی جیسے مشہور و معروف زندیقوں اور ملحدوں نے کتاب لکھی تھی ؛اس کتاب کی اساس ان کے اصولوں پر رکھی گئی تھی۔