مسئلہ امامت میں مختلف مذاہب
امام ابنِ تیمیہؒفصل اوّل:
مسئلہ امامت میں مختلف مذاہب
شیعہ مصنف ابن المطہر مسئلہ امامت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’پہلی فصل:.... مسئلہ امامت میں لوگوں کے مذاہب ۔
’’امامیہ کا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عادل و حکیم ہیں [ظالم نہیں ]۔ وہ افعال قبیحہ کا ارتکاب نہیں کرتااور نہ ہی واجب میں خلل ڈالتا ہے۔بلکہ اللہ تعالیٰ کے افعال بنا بر حکمت صحیح غرض کے لیے واقع ہوتے ہیں ۔اوروہ ظلم نہیں کرتا۔اورنہ ہی کوئی بیکار کام کرتا ہے۔ وہ بندوں پر بڑا مہربان ہے اور وہی کام کرتا ہے جو ان کے لیے سود مند اور بہتر ہو ۔اور اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو بغیر سختی کے اختیار دیاہے۔اور اپنے انبیاء کرام و معصوم رسولوں کی زبانی انہیں ثواب دینے کا وعدہ کیا ہے اور عذاب سے انہیں ڈرایا ہے۔ ان انبیاء کرام علیہم السلام سے خطاء یا بھول یا گناہ کا سرزد ہونا جائز نہیں ۔ورنہ ان کے اقوال و افعال کا اعتبار نہ رہتا؛ اور ان کی بعثت کا فائدہ حاصل نہ ہوتا۔ ‘‘
سلسلہ تحریر کو جاری رکھتے ہوئے لکھتا ہے:
’’سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد امامت کا سلسلہ جاری کیا اور معصوم اولیاء مقرر کیے تاکہ لوگ غلطی ؛سہو و خطا سے مامون رہیں ۔ اوران اماموں کی اطاعت کرتے رہیں تاکہ یہ عالم ارضی لطف و عنایت ربانی سے خالی نہ رہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت سے سرفراز فرمایا تو آپ رسالت کی ذمہ داریوں کو نبھاتے رہے۔ اور اس امر کی تصریح کر دی کہ آپ کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوں گے۔ پھر حسب ذیل خلفاء علی الترتیب ظہور پذیر ہوں گے:
۱۔حسن بن علی ۲۔حسین بن علی ۳۔علی بن حسین
۴۔محمد (باقر) ۵۔جعفر (صادق) ۶۔موسیٰ بن جعفر
۷۔علی بن موسیٰ ۸۔محمد بن علی جواد ۹۔علی بن محمد ھادی
۱۰۔حسن بن علی عسکری ۱۱۔محمد بن حسن ۔
سالار انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم امامت کی وصیت کرنے کے بعد فوت ہوئے۔‘‘
بخلاف ازیں اہل سنت ان جملہ امور کے قائل نہیں ۔وہ اللہ کے لیے عدل و حکمت کا اثبات نہیں کرتے۔ ان کی رائے میں اللہ تعالیٰ افعال قبیحہ اور اخلال بالواجب کا مرتکب ہو سکتا ہے۔ اہل سنت کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے افعال معلل بالاغراض نہیں ، بلکہ حکمت و مصلحت سے یکسر خالی ہیں ۔ بقول ان کے اللہ تعالیٰ ظلم و عبث کا مرتکب ہوتا ہے، اور وہ کام نہیں کرتا جو بندوں کے لیے زیادہ مناسب ہوں ؛ بلکہ ایسے کام کرتا ہے جو حقیقت میں فساد ہیں ؛ اس لیے کہ وہ گناہ کے کام ہیں ۔ اورکفر و ظلم کی انواع و اقسام اور معاصی و کفریات بھی انجام دیتا ہے۔ کرۂ ارضی پر جس قدر فسادات رونما ہوتے ہیں وہ سب اس کی طرف منسوب ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان چیزوں سے بہت بلند ہے۔
بقول اہل سنت اطاعت کنندہ ثواب کا مستحق نہیں اور عاصی عذاب کا استحقاق نہیں رکھتا۔بلکہ بعض اوقات ساری عمر اس کی اطاعت کرنے والوں اور اس کے احکام بجالانے والوں کو بھی عذاب میں مبتلا کرتاہے؛ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔ اورساری زندگی ہر قسم کی نافرمانی کرنے والوں کو ثواب و جزاء دیتا ہے؛جیسے ابلیس و فرعون کو۔ انبیاء علیہم السلام معصوم نہیں بلکہ ان سے خطا اور فسق و کذب کا صدور ممکن ہے۔
اور بیشک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے لیے امامت کی وصیت نہیں کی بلکہ بلاوصیت فوت ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بقول اہل سنت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ اول ہوئے۔ کیونکہ عمر رضی اللہ عنہ اور چار دیگر صحابہ یعنی ابو عبیدہ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ، اسید بن حضیر اور بشیر بن سعد نے آپ کی بیعت کر لی تھی۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ ثانی مقرر کیا۔ بعد ازاں عمر رضی اللہ عنہ نے چھ اشخاص کو خلافت کیلئے منتخب کیا ان میں سے بعض نے عثمان رضی اللہ عنہ کو خلافت کے لیے چن لیا۔پھر لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی اور آپ خلیفہ قرار پائے۔[اس سے معلوم ہوا کہ کسی نے آپ کو خلیفہ مقرر نہیں کیا تھا،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے چھٹے روزحضرت علی رضی اللہ عنہ نے منبر پر جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ’’ لوگو! میں تمہاری اجازت سے یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ یہ (امامت و خلافت) تمہارا ذاتی معاملہ ہے اس میں کسی کو مداخلت کا حق حاصل نہیں بجز اس کے کہ تم کسی کو امیر مقرر کر دو، قبل ازیں اس ضمن میں ہمارے مابین اختلاف رونما ہو چکا ہے، اگر تمہیں (میرا خلیفہ ہونا) پسند ہے تو میں (مسند خلافت پر) بیٹھ جاؤں گا، ورنہ میں کسی پر اظہار ناراضگی نہیں کرتا، اس واقعہ کی تفصیلات تاریخ طبری (۵؍ ۱۵۶، ۱۵۷) پر ملاحظہ فرمائیے،حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد : ’’ کہ کسی کو مداخلت کا حق نہیں ۔‘‘ اس پوری عمارت کو منہدم کر دیتا ہے، جو شیعہ نے ۱۳ صدیوں سے آج تک تعمیر کر رکھی ہے، دیکھئے (العواصم من القواصم: ۱۴۲،۱۴۳)] اس کے بعد اہل سنت کے یہاں اختلاف پایا جاتا ہے، بعض حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی امامت کے قائل ہیں اور بعض معاویہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ تسلیم کرتے ہیں ، اہل سنت کے نزدیک خلیفہ سفاح عباسی کے ظہور تک خلافت بنو امیہ میں ہی رہی۔پھر اس کے بعد خلافت اس کے بھائی منصور کے پاس چلی گئی۔ اور پھر اس کے بعد مستعصم تک خلافت کو بنی عباس میں تسلیم کرتے ہیں ۔ ‘‘[انتہی کلام الرافضی]
شیعہ مصنف کے اشکالات کا جواب:
شیعہ مصنف نے اہل سنت اور شیعہ کے جو افکار و معتقدات بیان کیے ہیں وہ تحریف و کذب سے خالی نہیں ، چنانچہ ہم اس پر روشی ڈالتے ہیں ۔
پہلی بات یہ ہے کہ اہل سنت اور شیعہ کے عقاید بیان کرتے ہوئے انکار تقدیر اور عدل کا ذکر بے سود ہے۔ اس لیے کہ فریقین [شیعہ اور اہل سنت ]کے بعض گروہ ان دونوں کے قائل ہیں ۔ مثلاً شیعہ کے بعض فرقے قدر کو تسلیم کرتے اور عدل وجور کا انکار کرتے ہیں ۔حضرات ابو بکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم کی خلافت کے قائلین میں سے بعض لوگ مثلاً معتزلہ عدل و جور کے قائل ہیں ۔یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ اس عقیدہ کی اصل بنیاد معتزلہ کے مذہب سے چلی ہے۔ چنانچہ اکابر شیعہ مثلاً شیخ مفید، موسوی، طوسی اور کراجکی نے یہ عقیدہ معتزلہ سے اخذ کیاہے۔، قدیم شیعہ اس کے قائل نہ تھے۔ اس سے واضح ہوا کہ مسائل امامت بیان کرتے ہوئے تقدیر کا ذکر و بیان قطعی طور سے غیر متعلق ہے۔بلکہ بسااوقات مسئلہ امامت میں ایسے لوگ بھی ان کا ساتھ دیتے ہیں ؛ جو مسائل قدر میں ان سے اختلاف کرتے ہیں ۔ اور بسا اوقات مسائل قدر میں ہم آہنگ لوگ مسائل امامت میں اختلاف کرتے ہیں ۔ان مسائل کا مسئلہ امامت میں ذکر کرنا دیگر ان تمام مسائل کی طرح ہے جس میں کچھ مسلمان گروہوں نے ان کی مخالفت کی ہے [اور کچھ نے موافقت ]۔جیسا کہ فتنہ قبر؛ منکر نکیر ؛ حوض ؛ میزان ؛ شفاعت؛ اور اہل کبائر کا جہنم سے نکالاجانا؛ اور اس طرح کے دیگر وہ مسائل جن کا امامت سے کوئی تعلق ہی نہیں ۔بلکہ یہ بذات خود مستقل علیحدہ ایسے مسائل ہیں جس طرح کے کئی ایک دیگر علمی مسائل ہوتے ہیں ۔جیسے وہ اختلاف جن کے بارے میں موسوی اور دیگر مشائخ امامیہ نے کتابیں لکھی ہیں ۔اس سے واضح ہوا کا مسئلہ امامت میں ان مسائل کو داخل کرنا یا تو جہالت کا کرشمہ ہے ‘ یا پھر جان بوجھ کر اس جہالت کا مظاہرہ کیا گیا ہے ۔
دوسری بات : ان سے کہا جائے گا کہ جو کچھ اس نے امامیہ سے نقل کیا ہے ‘ وہ درست طور پر نقل نہیں کیا [بلکہ اس میں ڈنڈی ماری ہے ]اس لیے کہ امامیہ کے وہ اقوال جو اس نے نقل کیے ہیں ‘یہ تو حقیقت میں معتزلہ کے اقوال و عقائد ہیں جن میں متاخرین شیعہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
شیعہ کے عقائد:
نیز امامیہ سے جو بیان نقل کیا ہے، وہ بھی تشنہ تکمیل ہے ان کے افکار و عقائد کا خلاصہ حسب ذیل ہے:شیعہ کہتے ہیں :
۱۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء‘ملائکہ اور حیوانات اور دیگر اشیاء کے افعال کو پیدا نہیں کیا بلکہ حوادث اس کی خلق و قدرت کے بغیر رونما ہوتے رہتے ہیں ۔
۲۔ اللہ تعالیٰ کسی گمراہ کو راہ راست پر نہیں لا سکتا اور نہ ہی ہدایت یافتہ کو گمراہ کرنے پر قادر ہے۔
۳۔ کوئی انسان ہدایت ربانی کا محتاج نہیں ،[ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز و اشگاف الفاظ میں بیان کر دی ہے، اس سے ہدایت یاب ہونا بندے کا اپنا کام ہے، اللہ کی مدد سے ہدایت نصیب نہیں ہوتی]۔
۴۔ ہدایت ربانی مومن و کافر سب کیلئے یکساں ہے۔اللہ تعالیٰ نے جس طرح مومنین کو دین کی نعمت سے بہرہ ور کیا ہے اسی طرح کفار کو بھی اس نعمت سے محروم نہیں کیا۔ جس طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہدایت یافتہ بنایا اسی طرح ابو جہل کو بھی ہدایت سے نوازا۔یوں سمجھئے کہ ایک والد دو بیٹوں کو یکساں رقم دیتا ہے، ایک اسے اطاعت الٰہی میں صرف کرتا ہے اور دوسرا معصیت میں ۔ ان دونوں میں سے کسی ایک پر بھی باپ کی طرف سے انعام کے ہونے میں کوئی فرق نہیں ۔
۵۔ مشیت ایزدی ایسے امور میں متعلق ہوتی ہے، جو ظہور پذیر نہیں ہوتے اور بعض امور اس کی مشیت کے بغیر وجود میں آتے ہیں ۔اگر یہ کہا جائے کہ ان میں بعض ایسے بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ ان میں سے بعض ایسے لوگوں کو خاص کردیتا ہے جن کے بارے میں وہ جانتا ہے کہ اگر انہیں اپنی مہربانی کے لیے خاص کیا تو وہ اس وجہ سے مزید ہدایت پائیں گے۔ ورنہ نہیں ۔
جواب: ان سے کہا جائے گا کہ : ’’ حقیقت میں یہ اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے جو تقدیر کو ثابت کرتے ہیں ۔ اس لیے کہ وہ کہتے ہیں :’’ ہر وہ انسان جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت کے لیے خاص کردیا ہو ‘ وہ ہدایت پاکر رہے گا۔اور جس کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کیساتھ خاص نہیں کیا‘ وہ ہدایت نہیں پاسکتا۔تخصیص اور ہدایت اہل سنت والجماعت کے نزدیک آپس میں متلازم ہیں ۔‘‘ اگر یہ کہا جائے: بلکہ کبھی اللہ تعالیٰ کسی کو ایسے امور کے لیے خاص کرتا ہے جس سے ہدایت یافتہ ہونا واجب ہوتا ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ لَوْ عَلِمَ اللّٰہُ فِیْہِمْ خَیْرًا لَّاَسْمَعَہُمْ وَ لَوْ اَسْمَعَہُمْ لَتَوَلَّوْا وَّ ہُمْ مُّعْرِضُوْنَ ﴾
[الانفال۲۳]
’’ اور اگر اللہ ان میں کوئی بھلائی جانتا تو انھیں ضرور سنوا دیتا اور اگر وہ انھیں سنوا دیتا تو بھی وہ منہ پھیر جاتے، اس حال میں کہ وہ بے رخی کرنے والے ہوتے۔‘‘
ان سے کہا جائے گا : ’’ یہ تخصیص حق ہے ۔مگر یہ دعوی کرنا کہ اس کے علاوہ کوئی اور تخصیص نہیں ہے ‘ غلط ہے؛ بلکہ ہر وہ چیز جو ہدایت پانے کے لیے لازمی ہے ؛ وہ ہدایت ہے ۔
اجمالی طور پر وہ[شیعہ ] ذات الٰہی کے لیے مشیت عامہ و قدرت تامہ کا اثبات نہیں کرتے، شیعہ کی رائے میں اللہ تعالیٰ کی صفت خلق جملہ حوادث کو شامل نہیں ، بعینہ معتزلہ بھی یہی کہتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اس میں شیعہ کے دو قول ہیں ۔
[امامت اور لطف ربانی ؟]
تیسری بات : باقی رہا شیعہ کا یہ عقیدہ کہ: ’’ اللہ تعالیٰ نے ائمہ معصومین کو اس لیے پیدا کیا ہے تاکہ یہ عالم ارضی اس کی عنایات سے خالی نہ رہے۔‘‘
جواب : اگراس عقیدہ سے کہ: ’’ اللہ تعالیٰ نے ائمہ معصومین کو اس لیے پیدا کیا ہے ‘‘ مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں قوت اور قدرت دی ہے کہ وہ لوگوں کے سیاسی امور نبھائیں تاکہ ان کی سیاست سے لوگوں کو فائدہ حاصل ہو۔ یہ ایک کھلا ہوا جھوٹ ہے۔اس لیے کہ شیعہ اس بات کا عقیدہ نہیں رکھتے۔بلکہ بقول شیعہ ائمہ معصومین مجبور و مظلوم اور حد درجہ بے بس ہیں ۔ انہیں کوئی قدرت و اختیار حاصل نہیں ۔شیعہ اس بات کے معترف ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ائمہ معصومین کو ( تصرفات و اختیارات) کا مالک نہیں بنایا،اور نہ ہی انہیں حکومت سے نوازا۔ان ائمہ کو کوئی ایسی حکومت و ولایت بھی حاصل نہیں تھی جیسے ان کے دوسرے مؤمن بھائیوں کو حاصل ہوئی تھی۔ اور نہ ہی کفار و فجار جیسی حکومت و سلطنت ملی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء میں سے کئی ایک کو حکومت سے نوازا تھا۔ جیسا کہ حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں فرمان الٰہی ہے:
﴿ وَ قَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ وَ اٰتٰہُ اللّٰہُ الْمُلْکَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ عَلَّمَہٗ مِمَّا یَشَآئُ﴾ [البقرۃ ۲۵۱]
’’ اور داؤد نے جالوت کو قتل کیا ‘ اور اللہ تعالیٰ نے اسے ملک اور حکمت سے نوازا ‘ اور جس چیز کے متعلق چاہا تعلیم دی ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کافرمان ہے :
﴿اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰی مَآ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ فَقَدْ اٰتَیْنَآ اٰلَ اِبْرٰہِیْمَ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ اٰتَیْنٰہُمْ مُّلْکًا عَظِیْمًا﴾ (النساء:۵۴)
’’یا وہ لوگوں سے اس پر حسد کرتے ہیں جو اللہ نے انھیں اپنے فضل سے دیا ہے، تو ہم نے تو آل ابراہیم کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی اور ہم نے انھیں بہت بڑی سلطنت عطا فرمائی۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وقال الملِکُ ائتونِی بِہِ﴾ [یوسف 54]
’’ بادشاہ نے کہا : اسے میرے پاس لے آؤ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ وَ کَانَ وَرَآئَ ہُمْ مَّلِکٌ یَّاْخُذُ کُلَّ سَفِیْنَۃٍ غَصْبًا﴾ (الکہف ۷۹)
’’ اور ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر کشتی چھین کر لے لیتا تھا۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْ حَآجَّ اِبْرٰھٖمَ فِیْ رَبِّہٖٓ اَنْ اٰتٰہُ اللّٰہُ الْمُلْکَ ﴾ [البقرۃ ۲۵۸]
’’کیا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراہیم سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑا کیا، اس لیے کہ اللہ نے اسے حکومت دی تھی۔‘‘
تو اللہ تعالیٰ نے بعض کفار کو بھی بادشاہی نصیب کی تھی جیسا کہ بعض انبیائے کرام علیہم السلام کو اس نعمت سے نوازا گیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد ان ائمہ میں سے کسی ایک کو اللہ تعالیٰ نے حکومت نہ ایسے عطا کی تھی جیسے انبیاء کرام علیہم السلام اوردوسرے نیک لوگوں کو دی تھی۔اور نہ ہی ایسے عطا فرمائی جیسے دوسرے بادشاہوں کو عطا کی تھی۔تو پھر یہ قول باطل ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان ائمہ کو اس لیے مقرر فرمایا تھا کہ یہ لوگوں کے سیاسی امور کو نبھائیں ۔
اگریہ کہا جائے کہ:’’ تقرر ائمہ کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں پر ان کی اطاعت ضروری قرار دی جائے۔ جو ان کا اطاعت شعار ہوتا ہے وہ اسے ہدایت سے بہرہ اندوز کرتے ہیں ‘مگر لوگ ان کی نافرمانی کرتے تھے۔‘‘
اس کے جواب میں کہا جائے گاکہ :’’تو پھر اس سے عالم ارضی میں کوئی عنایت اور رحمت حاصل نہیں ہوئی؛ بلکہ الٹاان کی معصیت اور تکذیب حاصل ہوئی ہے‘‘۔
باقی رہا امام منتظرکا مسئلہ ! تو اس امام پر ایمان رکھنے والے بھی اس سے کوئی نفع اندوز نہیں ہوئے اور نہ ہی انہیں کوئی لطف و مہربانی حاصل ہوئی۔حالانکہ وہ اس سے محبت ودوستی رکھتے ہیں ۔تو معلوم ہوا کہ اس عقیدہ سے نہ ہی کوئی لطف و مہربانی حاصل ہوئی اور نہ ہی کوئی فائدہ ؛ نہ اس امام کے ماننے والے کے لیے اور نہ انکار کرنے والے کے لیے۔‘‘
اس سے ان کے عقیدہ کا بطلان ثابت ہوگیاکہ کائنات میں لطف و مہربانی اور رحمت امام معصوم کی وجہ سے حاصل ہوتے ہیں ۔اور یہ بات ضرورت کے تحت معلوم ہے کہ اس امام کی وجہ سے کائنات میں کوئی لطف و مہربانی حاصل نہ ہوسکی ؛ نہ ہی اس امام پر ایمان رکھنے والوں کو کچھ ملا اور نہ ہی اس کا انکار کرنے والوں کا کوئی نقصان ہوا۔ بخلاف اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے رسول کے ؛ کہ جب کوئی قوم کسی رسول کو جھٹلاتی ہے[توانہیں نقصان ہوتا ہے] ۔ بیشک رسولوں سے ان لوگوں کو فائدہ حاصل ہوتا ہے جو ان پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی اطاعت کرتے ہیں ۔ تواس لحاظ سے نبی کاوجوداس پر ایمان لانے والوں اور اطاعت گزاروں کے حق میں رحمت ہوا کرتا تھا۔ جب کہ نافرمان حد سے گزرا ہوا سرکش ہوتا ہے[اسے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا ]۔
جب کہ اس امام سے نہ ہی کسی مؤمن کو کوئی فائدہ حاصل ہوا اورنہ ہی کسی کافر کو۔
جہاں تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ باقی [بارہ ائمہ]ائمہ اثنا عشر کا تعلق ہے ان سے لوگ اسی طرح مستفید ہوتے رہے جیسے ان جیسے دیگر علماء و فضلاء کی تعلیم و علم ‘بیان حدیث؛ اور افتاء سے ۔البتہ اولی الامر ذوسلطان سے جو منفعت مطلوب ہوتی ہے وہ ان ائمہ میں سے کسی ایک سے بھی حاصل نہ ہو سکی۔ اس سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ابن المطہر نے جس عنایت ربانی کا ذکر کیا ہے، وہ دجل و فریب کی کرشمہ سازی ہے اور بس۔