Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شیعہ مذہب اختیار کرنے والے سے تعلقات وغیرہ کا حکم


سوال: ہمارے بڑے بھائی پہلے اہلِ سنت والجماعت یعنی دیوبندی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے تھے، لیکن فی الحال انہوں نے مجھے ایک خط کے ذریعہ اطلاع دی ہے کہ اب انہوں نے شیعیت اختیار کر لی ہے، اور ایران میں آیت اللہ خمینی ملعون والے اثناء عشری جعفری فرقے میں شامل ہو گئے ہیں اور اسی فرقے کے داعی بن چکے ہیں۔ ان کی اس حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں۔

  1. ایسے شخص کا معاشرتی بائیکاٹ کرنا ضروری ہے یا نہیں؟
  2.  اگر ایسا شخص بیمار ہو جائے تو عیادت کے لئے، یا مر جانئے تو غم خواری کے طور پر اس کے گھر جا سکتے ہیں یا نہیں؟ 
  3.  ایسے شخص کے ساتھ مکمل قطع تعلق ضروری ہے؟
  4.  ایسا شخص مر جائے اور اس نے وصیت کی ہو کہ مجھے اہلِ سنت والجماعت کے قبرستان میں دفنایا جائے، تو کیا اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا؟ اگر اس نے تدفین کے بارے میں کوئی وصیت نہ کی ہو، تو کیا کیا جائے؟

جواب: جو شخص اہلِ سنت والجماعت کا مذہب چھوڑ کر اثناء عشری بن چکا ہو، وہ سخت گنہگار ہے، اور اس کے کفر کا اندیشہ ہے۔ اگر یہ شخص صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا بھلا کہتا ہو یا سیدنا عائشہ صدیقہؓ کی شان میں گستاخی کرتا ہو، ان کی عفت و پاک دامنی کا قائل نہ ہو تو وہ خارج از اسلام ہے، ایسے شخص سے قطع تعلق کرنا اور اس کا معاشرتی بائیکاٹ کرنا جائز ہے۔

اگر ایسا شخص بیمار ہو تو، اس کی عیادت کیلئے جانا جائز ہے، اسلام عمدہ اخلاق کی تعلیم دیتا ہے، حسنِ معاشرت کی ترغیب دیتا ہے لیکن ۔۔۔ کسی دینی مقتدیٰ کو اس کی عیادت کیلئے نہیں جانا چاہئے، کیونکہ اس میں فاسق کی تعظیم ہے، اور اندیشہ ہے کہ عوام کا عقیدہ خراب نہ ہو جائے، عوام اس گمان میں رہیں گے کہ اس آدمی کے عقائد درست ہیں، تب ہی تو اتنے بڑے عالم کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں، لہٰذا اس سے پرہیز اولیٰ ہے۔

ایسے شخص کا مکمل معاشرتی بائیکاٹ جائز ہے۔

 ایسے شخص نے اگر مرنے کے بعد شیعہ کے قبرستان میں دفن ہونے کی وصیت کی ہو تو اس ہی کے سپرد کر دیا جائے، اور اگر کوئی وصیت نہ کی ہو تو پھر اس کے احوال دیکھے جائیں کہ اگر آخیری دم تک وہ اپنے غالی تشیع پر قائم رہا تھا اور توبہ نہیں کی تھی تو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کیا جائے۔

(فتاویٰ فلاحیہ: جلد، 1 صفحہ، 257)