Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فصل:....مسئلہ قدراور رافضی الزام کا رد

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....مسئلہ قدراور رافضی الزام کا رد

[ اعتراض]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’اہل سنت کا یہ قول چند قبائح پر مشتمل ہے۔ ایک قباحت یہ ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کا سب ظالموں سے بڑا ظالم ہونا لازم آتا ہے۔ اس لیے کہ وہ کافر کو کفر کے جرم کی سزا دیتا ہے، حالانکہ اس نے خود ہی اسے کفر کی قدرت عطا کی، اور ایمان کی قدرت سے محروم رکھا، جس طرح کسی کواس کے رنگ یا طویل القامت یا قصیر القامت ہونے پر سزا دینا ظلم ہے، اسی طرح اس معصیت کی سزا دینا بھی ظلم ہے جو خود اللہ تعالیٰ نے اس میں پیدا کی۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]

[جواب]:اس کا جواب اس سے پہلے بھی گزر چکا ہے کہ ظلم کی تفسیر میں تقدیر کو ثابت ماننے والے جمہور کے دو قول ہیں :

پہلا قول یہ ہے کہ: ظلم ممتنع لذاتہٖ ہے اور اللہ تعالیٰ ظلم کرنے پر قادر نہیں ۔ امام اشعری، قاضی ابوبکر، ابوالمعالی، قاضی ابو یعلیٰ اور ابن الزاغونی رحمہم اللہ کی یہی رائے ہے۔ ان کا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ ذات باری تعالیٰ دروغ گوئی ، ظلم اور افعال قبیحہ پر قادر نہیں اور نہ اسے ان کے ساتھ موصوف کیا جا سکتا ہے۔ ذات باری سے ان افعال کا صدور اس لیے محال ہے کہ ظلم و قبح کا فاعل شرعاً مذموم ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت میں ظلم اور قباحت کی مذمت کو واجب کیا ہے۔ اور قابل مذمت وہی فاعل ہوتا ہے، جو ناروا کام کرے اور ایسے فعل کا مرتکب ہو جس کا حق اسے حاصل نہ ہو۔یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب فاعل اس چیز میں تصرف کرے جس میں تصرف کرنے کا حق اس کی نسبت کسی اور کو حاصل ہو۔ بنا بریں ظلم کا صدور اللہ سے محال ہے، کیوں کہ اس کے تصرفات کا مالک کوئی دوسرا شخص نہیں ہو سکتا، اس تقریر سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے، کہ اللہ کے حق میں ظلم کا تصور بھی محال ہے۔

مذکورہ بالا قول کی حقیقت یہ ہے کہ قابل مذمت وہ فاعل ہے، جو غیر کی مملوکہ چیز میں دست درازی کا ارتکاب کرتاہو اوراپنے سے اوپر والے کے حکم کی نافرمانی کرتا ہو۔ ظاہر ہے کہ کوئی شخص اللہ کو اپنے احکام کا مامور و مکلف نہیں بنا سکتا اور نہ ہی اللہتعالیٰ غیر کی ملکیت میں تصرف کرتا ہے، اس لیے کہ وہ سب چیزوں کا مالک ہے۔

یہ قول ایاس بن معاویہ رحمہ اللہ سے منقول ہے، فرماتے ہیں :

’’ میں نے اپنی پوری عقل سے کام لے کر قدریہ فرقہ سے مناظرہ کیا اور دریافت کیا کہ ظلم کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے کہا کسی دوسرے کی ملکیت میں تصرف کرنے کو ظلم کہتے ہیں ۔ میں نے کہا :’’جب ہرچیز اللہ کی مملوک ہے تو وہ غیر کی ملکیت میں تصرف کیسے کرے گا؟‘‘

مگر یہ لوگ تو کسی جرم کا ارتکاب کیے بغیر بھی سزا دینے کو جائز تصور کرتے ہیں ، لہٰذا قصیر القامت کو چھوٹے ہونے؛ یا طویل القامت کو طویل ہونے اور سیاہ فام کو سیاہ ہونے کی بنا پر سزا دینے سے ان پر معارضہ نہیں کیا جا سکتا ۔ان کا خیال ہے کہ سزا دینا مشیت ایزدی کے تابع ہے۔

ظلم سے اللہ تعالیٰ کی تنزیہ:

دوسرا قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ظلم پر قادر مگر اس سے منزہ ہے؛ یہ قدر کو ثابت ماننے والے جمہور علماء کا قول ہے۔ اور بہت سے متکلمین و مناظرین قائلین قدر کا عقیدہ ہے۔جیسا کہ کرامیہ ؛ اور امام ابو حنیفہ؛ امام مالک؛ امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ کے بہت سارے اصحاب کا قول ہے۔اور قاضی ابو حازم نے بھی اس قول کو اختیار کیا ہے۔ جیسے کسی انسان کو کسی دوسرے شخص کے جرم کی سزا دینا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا یَخَافُ ظُلْمًا وَّلَا ہَضْمًا﴾ (طہ:۱۱۲)

’’جو ایمان دار ہواور پھر نیک اعمال انجام دے تو وہ کسی ظلم یا کمی سے نہیں ڈرے گا۔‘‘

ان لوگوں کا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ انسان کو اختیاری یا غیر اختیاری افعال کی بنا پر سزا دینے کا فرق انسانی فطرت میں جا گزیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بلاشبہ جب کسی انسان کا ایک بیٹا ہو؛ اور اس کے جسم میں یا کوئی تخلیقی عیب ہو تو اس پر اس کی مذمت کرنا یا سزا دینا غیر مستحسن ہے۔لیکن اس کا یہی بیٹا اگر کسی پر ظلم کرے تو اسے سزا دینا مستحسن ہوگا۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ:’’ تقدیر سے گناہوں پر استدلال کرنا عقلاً باطل ہے۔ اس لئے کہ دوسروں پر ظلم و ستم ڈھانے والا اگر تقدیر سے استدلال کرے گا (کہ میری تقدیر میں یوں ہی لکھا تھا) تو جو شخص اس کو ظلم کا نشانہ بناتا ہے، وہ بھی یہ دلیل پیش کر سکتا ہے۔اگر تقدیر حجت ہے تو دونوں کے حق میں حجت ہے؛ اور اگرحجت نہیں تو پھر کسی ایک کے بھی حق میں حجت نہیں ۔ اس سے یہ حقیقت ابھر کر سامنے آتی ہے کہ معاصی کے ارتکاب پر تقدیر سے استدلال کرنا باتفاق ادیان و عقلاء باطل ہے۔ اور اس سے وہی شخص احتجاج کرتا ہے، جو اپنے اقوال میں تناقض کا شکار اور اپنی خواہش کا پیروکار ہو۔ جیسے یہ مقولہ مشہور ہے کہ: ’’ تم اطاعت کے وقت قدری اور معصیت کے وقت جبری بن جاتے ہو۔‘‘ مقولہ کا مطلب یہ ہے کہ تم ہوائے نفس کی پیروی کرتے ہو جو مذہب اپنی خواہش کے موافق ہوا بس اسی کے ہو جاتے ہو۔‘‘

اگرظلم و قبائح کے مرتکب کے لیے تقدیر حجت ہوتی تو کوئی شخص دوسرے کو ملامت نہ کر سکتا اور نہ اسے سزا دے سکتا (کیونکہ مجرم آسانی سے کہہ سکتا تھا کہ میری تقدیر میں یونہی لکھا تھا)۔تو ظلم و فحاشی کا کرنے والا دوسرے کے اہل و مال اورخون میں جیسے چاہتا اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق ظلم و فحش کا ارتکاب کرتا اور پھر اس پر تقدیر سے دلیل پیش کرتا کہ یہ تو اس کے مقدر میں لکھا جا چکا تھا۔

جو لوگ شیعہ اورمعتزلہ اور دوسرے گروہوں میں سے تقدیر کا انکار کرنے والے امر و نہی اور وعد و وعید کی تعظیم کرتے ہیں ؛ وہ ان لوگوں سے بہتر ہیں جو ترک مامور اور فعل محظور پر تقدیر سے حجت پیش کرتے ہیں ۔ حقیقت کے بلند بانگ دعاوی کرنے والوں مثلاً فقراء اور صوفیہ کو اکثر اس سے سابقہ پڑتا ہے وہ تقدیر کا بہانہ کر کے اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی سے انحراف کرتے ہیں ۔ یہ کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ تقدیر کے بل بوتے پر کوئی شخص اوامر کو ترک کر سکتا ہے نہ محرمات کا ارتکاب کر سکتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر حجت تمام کر دی ہے۔ اوروہ قدریہ جو تقدیر سے معاصی کے ارتکاب کے جواز پر استدلال کرتے ہیں وہ فرقہ قدریہ سے بھی بدتر ہیں جو سرے سے تقدیر کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔

یہی وجہ ہے کہ بعض لوگوں کو قدریہ کہا گیا حالانکہ وہ تقدیر کے منکر نہ تھے۔ قدریہ کے نام سے موسوم کرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ تقدیر سے معاصی کے جواز پر احتجاج نہیں کرتے تھے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے جب کہا گیا کہ:’’ ابن ابی ذئب منکر تقدیر تھے۔‘‘[وابن أبِی ذِؤئب مِن أہلِ المدِینۃِ، وہو محمد بن عبدِ الرحمنِ بنِ المغِیرۃِ ابنِ الحارِثِ بنِ أبِی ذؤِئب القرشِی العامِرِی، توفِی سن ۱۵۸، قال مالِک بن أنس: لو بریِء ابن أبِی ذِئب مِن القدرِ، ما کان علی وجہِ الأرضِ خیر مِنہ، انظر ترجمتہ فِی فضلِ الِاعتِزالِ وطبقاتِ المعتزِلۃِ، ص۹۸، ۳۳۵، تہذِیب التہذِیبِ ۹؍۳۰۷۔۳۰۳۔ العلام: ۷؍ ۶۱۔]

تو انہوں نے فرمایا:جو شخص بھی معاصی کی بنا پر لوگوں کو تنگ کرتا تو لوگ اسے قدری کہہ کر پکارتے تھے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ قائلین تقدیر فواحش و منکرات پر تنقید کرنے والے کو نفرت و حقارت کی نگاہ سے دیکھتے اور کہتے ہیں یہ بات ان کی تقدیر میں لکھی تھی۔ اس کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ منکرات پر رد و قدح بھی تقدیر الٰہی کے عین موافق ہے۔ گویا اس نے اپنے قول سے ہی اپنی دلیل کو توڑ دیا، بعض جاہل مشائخ کا قول ہے ’’ میں اس رب کو ماننے کے لیے تیار نہیں جس کی نافرمانی کی جاتی ہو اور اگر میں ستر انبیاء کو قتل کردوں تو میں گناہ گار نہ ہوں گا۔‘‘ ایک اور جاہل شیخ کا قول ہے:

’’میں وہی کام کرتا ہوں جو وہ مجھ سے کروانا چاہتا ہے، لہٰذا میرے سب کام عبادت میں داخل ہیں ۔‘‘

مسئلہ تقدیر میں احتجاج آدم علیہ السلام و موسیٰ علیہ السلام :

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کا حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تقدیر کی بنا پر احتجاج اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ یہ کھلی ہوئی جہالت ہے۔ اس لیے کہ انبیاء سب لوگوں سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کی اطاعت کرتے ہیں ۔ اور جس چیز کی اللہ تعالیٰ نے مذمت کی ہے؛ اس کی مذمت کرتے ہیں ۔ بیشک انہیں اطاعت الٰہی کا حکم دینے اور اس کی نافرمانی سے منع کرنے کے احکام کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے؛ پھر تقدیر کی بنا پر وہ اس کی نافرمانی کیوں کرسکتے ہیں ؟

مزید برآں حضرت آدم علیہ السلام نے بارگاہ ازدی میں اپنے گناہ سے توبہ کر لی تھی اور ان کی توبہ قبول کر لی گئی تھی۔ گناہسے توبہ کرنے والا ایسے ہی ہوتا ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو۔

اگر تقدیر سے احتجاج کرنا درست ہوتا تو ابلیس، فرعون اور ان کے ہم نوا اس سے ضرور استدلال کرتے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت آدم علیہ السلام پر جو تنقید کی تھی، اس کی وجہ وہ مصیبت تھی جو حضرت آدم علیہ السلام کے شجرہ ممنوعہ کا پھل کھانے کی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پہنچی؛ اسی لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت آدم علیہ السلام کو مخاطب کر کے فرمایا:

’’آپ نے ہمیں اور اپنے بیٹوں کو جنت سے کیوں نکالا؟‘‘[صحیح بخاری،کتاب احادیث الانبیاء، باب وفاۃ موسیٰ و ذکرہ بعد (ح: ۳۴۰۹، ۷۵۱۵) صحیح مسلم، کتاب القدر، باب حجاج آدم و موسیٰ صلی اللہ علیہما وسلم (ح:۲۶۵۲)۔]

حقیقت یہ ہے کہ بندہ عیب و گناہ کی بجائے مصائب و آلام کے وقت تقدیر کی جانب رجوع کرنے کیلئے مامور ہے۔ لہٰذا چاہیے کہ وہ مصائب و آلام میں صبر و سکون کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے اور گناہوں سے توبہ کرتا رہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿ فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ﴾ (غافر:۵۵)

’’صبر کیجئے، بے شک اللہ کاوعدہ سچا ہے اور اپنے گناہ کی مغفرت طلب کیجئے۔‘‘

اوراللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِیبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ اِِلَّا فِیْ کِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَہَا ﴾

(الحدِیدِ:۲۲)

’’ کوئی مصیبت نہ زمین پر پہنچتی ہے اور نہ تمھاری جانوں پر مگر وہ ایک کتاب میں ہے، اس سے پہلے کہ ہم اسے پیدا کریں ۔‘‘

اوراللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِیبَۃٍ اِِلَّا بِاِِذْنِ اللّٰہِ وَمَنْ یُّؤْمِنْ بِاللّٰہِ یَہْدِ قَلْبَہُ ﴾ (التغابن۱۱)

’’ کوئی مصیبت نہیں پہنچی مگر اللہ کے اذن سے اور جو اللہ پر ایمان لے آئے وہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے۔‘‘

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اس سے مراد وہ آدمی ہے جسے کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ یقین رکھتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے؛ پس وہ اس پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے راضی رہتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سلف صالحین صحابہ کرام اور تابعین رضی اللہ عنہم میں سے کئی حضرات نے ارشاد فرمایا ہے کہ:

’’کوئی انسان اس وقت ایمان کی حقیقت کو نہیں پاسکتا جب تک وہ یقینی طور پر نہ جان لے کہ جو مصیبت اس پر آئی ہے وہ ٹلنے والی نہ تھی؛ اور جو ٹل گئی ہے؛ وہ اس پر آنے والی نہ تھی۔‘‘

پس تقدیر پر ایمان ؛ اور جو کچھ مصائب و آلام اللہ تعالیٰ نے مقدر میں لکھ دیے ہیں ؛ ان پر رضامندی اور تسلیم ؛ ایمان کی اصل حقیقت ہے اور جہاں تک گناہوں کا تعلق ہے تو کسی ایک کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے حجت پیش کرے۔بلکہ انسان کو چاہیے کہ وہ گناہوں کے ارتکاب سے بچ کر رہے۔ اور اگر اس سے کوئی گناہ صادر ہوجائے تو وہ فوراً اس سے توبہ کرے۔ جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام نے کیا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ بعض مشائخ نے فرمایا ہے :’’ دو سے گناہ ہوا؛ حضرت آدم علیہ السلام اور ابلیس؛ پس حضرت آدم علیہ السلام نے توبہ کی ؛ تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما لی؛ اورانہیں چن لیااور ہدایت سے نوازا۔ اور ابلیس نے تقدیر سے حجت پکڑتے ہوئے گناہ پر اصرار کیا۔ پس جو کوئی گناہ سے توبہ کرتا ہے تو وہ اپنے باپ حضرت آدم علیہ السلام سے مشابہت رکھتا ہے۔ اور جو کوئی مصر رہتا ہے اور تقدیر کو حجت بناتا ہے تووہ شیطان کے مشابہ ہے۔

عقول میں بدیہی طور پر فاعل مختار اور دیگر کے مابین فرق کو استقرار حاصل ہے۔ اس سے مقصود حاصل ہوگیا ۔اور ایسے ہی عقول میں بدیہی طورپر اس بات کوبھی استقرار حاصل ہے کہ افعال اختیاریہ نفس کا کسب ہیں ۔یہ بات محتاج بیان نہیں کہ افعال اختیاریہ کی بنا پر انسان صفات محمودہ اور صفات مذمومہ دونوں حاصل کر سکتا ہے۔ بخلاف ازیں قصیر القامت ہونے یا کالے گورے ہونے کی بنا پر ان کا حصول ممکن نہیں ۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

’’نیکی دل کا نور، چہرے کی رونق، وسعت رزق، قوت بدن اور مخلوقات کے دلوں میں محبت کی باعث ہے اور بیشک بدی کی وجہ سے چہرے پر ایک سیاہی چھا جاتی ہے؛ اور دل میں اندھیرا پیدا ہوتا ہے؛ اور بدن کمزور ہو جاتا ہے؛ اور رزق میں کمی آتی ہے؛اور مخلوق کے دلوں میں نفرت پیدا ہوتی ہے۔‘‘

پس نیکی کا کام کرنے کے اچھے اثرات انسان کی ذات پر بھی مرتب ہوتے ہیں ؛ اور باہر بھی۔ یہی حال گناہوں کے ارتکاب کا بھی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے نیکی کو ایسی چیزوں کا سبب بنایا ہے۔ اور برائیوں کو دوسری قسم کی چیزوں کا سبب بنایا ہے۔ جس طرح زہر کھانے کو بیماری اور موت کا سبب قرار دیا ہے، تاہم تریاق سے اس کا ازالہ ممکن ہے، جس طرح برائیوں کو توبہ، اعمال صالحہ اور گناہ کو دور کرنے والے مصائب و آلام کے ذریعہ دور کیا جاتا ہے۔اور دنیا میں پیش آنے والے مصائب گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں ۔جیسا کہ کبھی کبھار زہر کے اثرات کو دواء کے ذریعہ سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ اور کبھی اس کے نتیجہ میں ہلکا سا مرض لاحق ہوتا ہے اور پھر صحت و عافیت مل جاتی ہیں ۔

باقی رہی یہ بات کہ فعل کو پیدا کر کے خود ہی اس پر سزا دینا ظلم ہے۔ تو یہ اسی طرح ہے جیسے کہا جائے زہر کو پیدا کر کے اسے موجب ہلاکت بنانا ظلم ہے۔اور یہ ہے کہ کسی چیز کو اس کے اصل مقام سے ہٹا کر دوسرے مقام پر رکھ دینا۔ اس انسان کا اپنے ظلم کے اثرات کا مستحق ہونا؛ جو کہ حقیقت میں اللہ کی نافرمانی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کسی دوسرے پر ظلم کرکے اس کے اثرات کا مستحق ہوجائے۔

مسئلہ تحسین و تقبیح

اب رہا تحسین و تقبیح کا مسئلہ تو لوگوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایک فعل جہاں بندے کی منفعت اور اس کے مناسب امر کے حصول کا سبب ہوتا ہے، وہیں ایک دوسرا فعل بندے کی مضرت کے حصول کا اور اس کے غیر مناسب امر کے حصول کا سبب بھی ہوتا ہے۔ کبھی اس بات کا علم عقل سے ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک فعل کبھی صفت کمال ہوتا ہے تو کبھی دوسرا فعل صفت نقص بھی ہوتا ہے۔ اختلاف اگر ہے تو اس بات میں ہے کہ کبھی فعل عقاب اور ذم کا سبب بھی ہوتا ہے، اور اس بارے دو اقوال مشہور ہیں ۔

اس باب میں امام احمد، امام مالک اور امام شافعی رحمہم اللہ کے اصحاب میں اختلاف ہے۔

رہے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب تو وہ تحسین و تقبیح دونوں کا قول کرتے ہیں ، اور یہی مسلمانوں کا جمہور جماعتوں کا قول بھی ہے، اور درحقیقت یہ اختلاف لوٹتا ہے۔ ملائمت، منافرت، منفعت اور مضرت کی طرف۔ پس عقاب اور مذمت بندے کے غیر مناسب اور اس کے لیے مضر ہے۔ لہٰذا حسن و قبح محبوب و مکروہ کے حصول سے باہر نہ نکلے گا۔ پس حسن وہ ہے جو محبوب، مطلوب اور بالذات مراد کی تحصیل کا سبب ہے، اور قبیح وہ ہے جو مبغوض و مکروہ کی تحصیل کی سبب بنے۔ جب حسن محبوب کی طرف اور قبیح مکروہ کی طرف لوٹتا ہے اور یہ دونوں نافع اور ضار اور طیب اور خبیث کے بمنزلہ ہیں ، لہٰذا یہ بھی احوال کے تنوع پر متنوع ہوں گے۔ پس جیسے ایک شے ضرورت کے وقت نافع ہوتی ہے تو کسی دوسرے وقت مضر ہوتی ہے۔ اسی طرح فعل بھی ہے جیسے مینہ کا کھانا کبھی قبیح تو کبھی دوسرے موقع پر (جب مرنے کا خطرہ ہو تو) حسن ہوتا ہے۔

جب بات یہ ہے تو یہ امر اختلافی نہیں ۔ جیسے بندہ اس کا فاعل ہو بغیر اس کے کہ اللہ نے اس کے لیے قدرت اور ارادہ کو پیدا کیا ہے، یا اس بات کے ساتھ کہ اللہ نے اس کے لیے قدرت ارادہ کو پیدا کیا۔ جیسا کہ ان جملہ امور میں ہے جو نافع و ضار اور محبوب و مکروہ ہیں ۔

یقینی دلائل کی بنا پر یہ حقیقت ثابت ہوچکی ہے کہ جو چیز بھی حادث ہے وہ اللہ کی پیدا کردہ ہے۔اور ہر ممکن جو کہ وجود اور عدم کو قبول کرتا ہو ؛ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ہو جاتا ہے اور اگر نہ چاہے تو نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے کہ بندے کے افعال بھی حوادث کے زمرہ میں شامل ہیں ۔ اور اس کی ایک وجہ یہ بھی کہ خود انسان کا فعل جب وہ اسے سر انجام دیتا ہے؛ وہ بھی حادث ہے اور عدم سے وجود میں آیا ہے؛ اس کے لیے سبب کا ہونا ضروری ہے۔

جب یہ کہا جاتا ہے کہ:’’ فعل بندے کے ارادہ سے حادث ہوا ۔‘‘تو ہم کہیں گے کہ:’’ ارادہ بھی حادث ہے، لہٰذا اس کے لیے بھی کسی سبب کی ضرورت ہے۔ اور یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ فعل ممکن ہے، (یعنی اس کا وجود و عدم برابر ہے) لہٰذا اس کے وجود کو عدم پر ترجیح دینے کے لیے کسی مرجح کی ضرورت ہے، اسی طرح بندے کا فاعل ہونا بھی ممکن ہے۔ لہٰذا اس کے لیے بھی کسی محدث و مرجح کا وجود ناگزیر ہے۔ اس میں سب حوادث مساوی ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا۔ممکن کے وجود کو مرجح کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ تام اور ممکن کے وجود کو مستلزم ہو، وگرنہ اگر مرجح کے وجود کے ساتھ کبھی تو فعل کا وجود ممکن ہو اور کبھی عدم تو وہ مرجح کے حصول کے بعد ممکن ہوگا، اور اس کا عدم و وجود دونوں ممکن ہوگا۔ اس صورت میں وجود تب ہی عدم پر راجح ہوگا جب کوئی مرجح بھی ہو۔ اب یہ مرجح یا تو تامی اور فعل کے وجود کو مستلزم ہوگا، اور رہا اس کے ساتھ فعل کا عدم اور وجود دونوں ممکن ہوں گے۔ اگر تو دوسری بات ہے تو فعل کسی حال میں بھی موجود نہ ہوگا اور تسلسل باطل لازم آئے گا۔

پس معلوم ہوا کہ فعل تب ہی پایا جائے گا جب ایسا مرجح پایا جائے جو تام اور فعل کے وجود کو مستلزم ہو، اور ایسا مرجح تام الداعی التام اور قدرت ہے، اور یہ بات معتزلہ کی ایک جماعت کو تسلیم ہے۔ جیسے ابو الحسن بصری وغیرہ کہ وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ جب داعی تام اور قدرت تام دونوں پائے جائیں تو فعل کا وجود لازم ہوتا ہے، اور داعی اور قدرت دونوں رب تعالیٰ کی مخلوق ہیں ، اور یہی اہل سنت کے قبول کی حقیقت ہے جو یہ کہتے ہیں : رب تعالیٰ بندوں کے افعال کا خالق ہے۔ جیسا کہ رب تعالیٰ ہر شے کا خالق ہے۔ آئمہ ذہل سنت کا قول ہے: رب تعالیٰ اسباب کے ذریعے اشیاء کا خالق ہے، اور حقیقت میں بندہ اپنے فعل کا فاعل ہے ناکہ خالق۔ پس اپنے ارادہ و قدرت کے ذریعے بندے کے فعل کا پیدا کرنے کی بابت ان کا قول و سیاہی ہے۔ جیسا کہ ان کا قول جملہ حوادث کو ان کے اسباب کے ذریعے پیدا کرنے کا ہے۔ لیکن یہ اس کا قول نہیں جو اجسام میں پائے جانے والے اسباب و قوی کا منکر ہے، اور بندے کی اس قدرت کی تاثیر کا منکر ہے، جس کے ذریعے وہ فعل کو پیدا کرتا ہے، اور یہ کہتا ہے کہ: بندے کی قدرت کا اس کے فعل میں سرے سے کوئی اثر ہی نہیں ۔ جیسا کہ جھم، اس کے پیروکاروں ، اشعری رحمہ اللہ اور ہم نواؤں کا قول ہے۔

ان لوگوں کا قول آئمہ اہل سنت اور جمہور رحمہم اللہ کا قول نہیں ۔ بلکہ اس کی اصل جھم بن صفوان کا قول ہے کہ وہ رب تعالیٰ کی مشیئت کو تو ثابت کرتا تھا پر اس کے لیے حکمت و رحمت کی نفی کرتا تھا، اور وہ بندے کے لیے فعل یا قدرتِ مؤثر کا منکر ہے۔ کہتے ہیں کہ جھم کوڑھیوں کے پاس جا کر یہ کہا کرتا تھا کہ کیا تمہارے ساتھ یہ ارحم الراحمین نے کیا ہے؟ تاکہ رب تعالیٰ کے صفتِ رحمت کے ساتھ متصف ہونے کا انکار کر سکے، اور اس کا خیال تھا کہ اس کی صرف مشیتِ محضہ ہے۔ جس کا حکمت کیساتھ کوئی تعلق نہیں ۔بلکہ وہ دو متماثل میں سے ایک کو دوسرے پر بلا مرجح کے ترجیح دینے کا قائل تھا۔

یہ متاخرین کی ایک جماعت کا قول ہے، اور یہ کہتے ہیں : اللہ کی تخلیق کی حکمت پر مبنی نہیں ، اور نہ اس نے کسی حکمت کے تمت کوئی امر کیا ہے، اور یہ کہ پورے قرآن میں کہیں بھی ’’لام کی‘‘ نہیں ہے نہ اس کی تخلیق میں اور نہ اس کے امر میں ۔ اب یہ جھمیہ مجبرہ اور وہ معتزلہ قدریہ دونوں ایک دوسرے کے قابل ہیں ۔

جبکہ امت کے اسلاف، آئمہ سنت اور جمہور علماء نہ تو اِن کے قائل ہیں اور نہ اُن کے۔ اگرچہ قدر کو ثابت کرنے والے اکثر جھم کا قول کرتے ہیں ۔ پس کلام تو ان اہلِ سنت کے بارے میں ہے جو خلفائے ثلاثہ کی امامت کو اور قدر کو دونوں کو ثابت کرتے ہیں ۔ اس نام میں حضرات صحابہ، تابعین عظام اور حدیث، تفسیر، فقہ اور تصوف کے آئمہ، جمہورمسلمین اور ان کے جمہور فرقے شامل ہیں ۔ اس سے بعض شیعہ خارج ہیں ۔ ان کے آئمہ اور جمہور کا قولِ وسط ہے جو نہ تو جھم اور ان کے پیروکار جبریہ کا قول ہے اور نہ معتزلہ ہے۔ پس جو یہ کہتا ہے کہ بعض حوادث ملائکہ جن اور انس کا فعل ہیں ، اور ان کو اللہ نے پیدا کیا تو وہ کتاب و سنت، اسلاف کے اجماع اور دلائلِ عقلیہ سب کا مخالف ہے۔ اسی لیے بعض اسلاف کا قول ہے: آدمیوں کا کلام اور بندوں کے افعال غیر مخلوق ہیں ، اور یہ اس شخص کے قول کی منزلت پر ہے جو یہ کہتا ہے کہ اللہ کی زمین اور اس کا آسمان غیر مخلوق ہے، اور اللہ جو بھی پیدا کرتا ہے کسی حکمت کے بغیر پیدا کرتا ہے۔ جیسا کہ گزشتہ میں ذکر ہوا۔

بارگاہ ایزدی میں تقدیر کا عذر مسموع نہیں

مخلوقات میں سے بعض چیزیں ایسی بھی ہیں جو بعض لوگوں کے لیے موجب ضرر ہیں ، جیسے بیماریاں اور مصائب و آلام، یہ حکمت ایزدی کا تقاضا ہے۔ پس ان صفات اور افعال کو پیدا کرنا ان جملہ اسباب میں سے ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی نہ کوئی حکمت ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ افعال حکمت کے تحت پیدا کئے ہیں تو پھر ان کو لغو اور سفاہت نہیں کہا جاسکتا۔ جب بندے کو اس کے افعال اختیاری پر سزا دینا ظلم نہیں تو حوادث کو بارگاہ ربانی کی جانب منسوب کرنے میں بھی ایک ایسی حکمت مضمر ہے، جس کی بنا پر وہ حوادث مستحسن ٹھہرتے ہیں ۔ جب بندے کی جانب اس کی نسبت کی جائے تو یہ عدل ہے، کیونکہ اسے جو سزا ملی ہے وہ اس کے جرم کی بنا پر ملی ہے۔ اللہ نے اس پر ظلم نہیں کیا بلکہ اس نے خود ہی اپنی جان پر ستم ڈھایاہے۔اس کی مثال کو یوں سمجھیں کہ یہ سزا دینے والا اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی دیگر ہے۔ مثلاً جب کوئی حاکم چور کو سزا دے، اس کا ہاتھ کاٹ ڈالے اور مسروقہ مال اس کے اصلی مالک کو واپس کر دے تو وہ منصف حاکم کہلائے گا۔اور حاکم کے اس کے مامور بہ ہونے سے واضح ہوجاتا ہے کہ وہ عادل ہے۔

یہاں پر یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ لوگوں کی فطرت اور عقلوں میں یہ بات راسخ ہوچکی ہی کہ جب والی غصہ میں آئے اور غصب شدہ مال اس کے اصل مالک کو واپس دلوائے اور نقصان شدہ چیز کا تاوان ادا کرے؛ تو وہ والی یا حاکم اپنی اس حکم میں عادل ہوگا۔ اور عدل ہمیشہ سے لوگوں کے دلوں اور ذہنوں میں معروف رہا ہے۔ اور اگر چور اسے کہے کہ میری تقدیر میں یونہی لکھا تھا، پھرتم مجھے سزا کیوں دیتے ہو....؟ تو یہ بات چور کے حق میں مفید نہ ہوگی؛ اور حاکم اسے سزا دئیے بغیر نہیں رہے گا۔

اسی طرح جب روز قیامت اللہ تعالیٰ ظالم سے قصاص لے گا تو اس کا یہ فعل عدل و انصاف کا آئینہ دار ہوگا اور اگر ظالم یوں کہے کہ:’’ تونے میری تقدیر میں اسی طرح لکھا تھا تو یہ بات اس کے حق میں کچھ بھی مفید نہ ہوگی اور تقدیر کا عذر درست نہیں مانا جائے گا، چونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے، لہٰذا اس کی تخلیق خالی از حکمت نہیں اور اس حکمت و مصلحت کے اعتبار سے تخلیق فعل اس کی نسبت سے مستحسن ہے۔اور قبیح مخلوق فعل کی قباحت اس کے فاعل کے اعتبار سے ہے چونکہ اس میں ضرر پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ کسی ظالم کو سزا دینے کا حکم والی کو خوش کرتا ہے؛ اس لیے کہ اس میں حکمت ہے؛ اور یہ حاکم عادل ہے؛ اس نے عدل پر مبنی حکم دیا ہے۔ اور اس میں ظالم کے لیے ضرر بھی ہے؛ کیونکہ اس سے اسے تکلیف پہنچتی ہے۔

اور اگر فرض کیا کہ یہ حاکم اس ظلم کے حصول کا سبب ہے۔ اس طور پر کہ قابلِ ملامت نہیں ۔ تو بھی ظالم کے لیے عذر نہیں ۔ جیسے وہ حاکم جس کے سامنے گواہوں نے عزیم کے مال کی شہادت دی، اور اس نے قید یا سزا کا حکم سنا دیا، اور اس نے ناحق دوسرے کو مال دلوا دیا، تو رب تعالیٰ اس فیصلہ میں حاکم کو بھی سزا دے گا، اور اس نے کہا: تو نے مجھے قید میں ڈلاا اور تو ادا سے عاجز تھا، اور میرے خلاصی کی اور کوئی صورت نہ تھی سوائے اس مال کے لینے کے۔ تو یہ پہلی قید اس کے حق میں ضرور ہوگی، اور دوسرے کا مال ناحق لینے پر اسے عقوبت ہوگی، اور والی کہے گا: میں نے عادل کی شہادت پر حکم دیا۔ اس میں مجھ پر کوئی گناہ نہیں ۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہ میں نے خطا کی ہے، اور حاکم کو خطا میں بھی اجر ہے۔ اب دونوں میں سے ہر ایک نے دوسرے کے حق میں ایسا ضرر کیا ہے جس میں وہ معذور ہے، اور دوسرا قابلِ سزا ہے۔ بلکہ مظلوم ہے البتہ تاویل کے ساتھ ہے۔

یہ مثالیں اللہ کے فعل جیسی نہیں ہیں ۔ کہ اس کے جیسی کوئی شے نہیں ہے، ذات میں ، نہ صفات میں اور نہ افعال میں ۔ کہ وہ مختار میں اختیار پیدا کرتا ہے، اور راضی میں رضا اور محب میں محبت۔ اس پر سوائے اللہ کے اور کوئی قادر نہیں ۔

جو شخص یہ کہتا ہے کہ: ’’ جَبَرَ اللّٰہُ الْعِبَادَ‘‘ (اللہ نے بندوں کو مجبور محض بنایا ہے)۔ ائمہ حدیث مثلاً امام ثوری، اوزاعی، زبیدی، اور احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس پر بڑی جرح قدح کی ہے۔ ان کاعقیدہ ہے کہ جبر کرنا، عاجز کا کام ہے۔ جیسے والد اپنی بیٹی کو اس کی مرضی کے خلاف مجبور کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارادہ اور مراد دونوں کا خالق ہے، البتہ حدیث نبوی کے اتباع میں ’’ جَبَلَ اللّٰہُ الْعِبَادَ ‘‘(اللہ نے بندوں کو پیدا کیا) کہہ سکتے ہیں ، مگر ’’ جَبَلَ ‘‘کی بجائے ’’ جَبَرَ ‘‘کا لفظ نہیں بولا جا سکتا۔

وہی ارادہ اور مراد دونوں کا خالق ہے۔ لہٰذا جیسا کہ سنت میں آتا ہے یہ کہا جائے گا کہ اس نے جبلت پر پیدا کیا اور یہ نہ کہا جائے کہ اس نے جبر کیا۔ جیسا کہ ایک صحیح حدیث میں آتا ہے۔[نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشج عبدالقیس سے فرمایا: تم میں دو خصلتیں ایسی ہیں جن کو رب تعالیٰ پسند فرماتے ہیں ۔ ایک بردباری اور دوسرے وقار۔ اس نے عرض کیا کہ: کیا ان دونوں خصلتوں کو میں نے اپنایا ہے یا میں ان پر پیدا کیا گیا ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں تمہاری اس پر جبلت ہے۔ تو اس نے عرض کیا: سب تعریف اس اللہ کی ہے جس نے مجھے ایسی خصلتوں پر پیدا کیا ہو اسے محبوب ہیں ۔‘‘ صحیح مسلم: ۱؍ ۴۸ ۔ ۴۹۔ کتاب الایمان، باب الامر بالایمان باللّٰہ تعالی۔]

خلاصہ کلام یہ ہے کہ خلق و تقدیر اور امر و تشریع کی جہتیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں ، شرعی اوامر و احکام کا مقصد اس چیز کا اظہار و بیان ہے جو بندوں کے لیے نفع یا ضرر کی موجب ہو، جس طرح طبیب مریض کو فائدہ مند چیزوں کے استعمال کا حکم دیتا اور ضرر رساں اشیاء سے پرہیز کرنے کی ہدایت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے ذریعہ صلحاء و اشقیاء دونوں کے انجام سے آگاہ کر دیا، سعادت کی موجب اشیاء کا حکم دیا اور شقاوت کے موجبات سے روک دیا۔

باقی رہا اللہ کے خلق و تقدیر کا معاملہ تو اس کا تعلق ذات باری اور جملہ مخلوقات کے ساتھ ہے۔ چنانچہ جس چیز میںعام مخلوقات کا فائدہ ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ وہ کام کرتے ہیں ،ا گرچہ اس سے بعض کو نقصان پہنچنے کا بھی احتمال ہو۔ مثال کے طور پر بارش کو لیجئے کہ اس کا نزول رحمت و حکمت کے پیش نظر ہوتا ہے، تاہم بعض اوقات اس سے نقصان بھی پہنچ جاتا ہے، مثلاً کسی کا مکان گر جاتا ہے، کوئی سفر سے رک جاتا ہے اور کسی کا کاروبار معطل ہو کر رہ جاتا ہے۔ اسی طرح رسل و انبیاء کی بعثت بھی عین عنایت ربانی ہے، اگرچہ بعض قوموں کو اس سے الم ورنج پہنچتا ہے، اور ان کی قیادت و سیادت روبزوال ہوجاتی ہے۔

افعال اللہ و افعال العباد کے مابین فرق و امتیاز

پس جب کسی شخص کو اللہ تعالیٰ کے علم میں کافر مقدر کیا جاتا ہے تو یہ گہری مصلحت پر مبنی ہوتا ہے۔ اور کافر کو اس کے افعال اختیاری کی بنا پر سزا دی جاتی ہے، یہ سزا بھی حکمت و مصلحت سے خالی نہیں ہوتی۔

اللہ تعالیٰ کے افعال کو افعال العباد پر قیاس کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔ اس لیے کہ آقا جب غلام کو کسی بات کا حکم دیتا ہے تو وہ غلام کا محتاج ہوتا ہے، اور وہ کسی غرض کے تحت ایسا کرتا ہے۔ جب آقا غلام کو اس محنت و کاوش کا بدل عطا کرتا ہے تو یہ اس کا معاوضہ کہلاتا ہے۔ اندریں صورت آقا کو فعل مامور کا خالق نہیں کہہ سکتے۔ اور اگر فرض کیا کہ آقا غلام کو حکم بجا لانے کا معاوضہ نہیں دیتا یا غلام کا حق ادا نہیں کرتا تو ظالم ٹھہرے گا۔ جیسے کوئی سودا تو خریدے پر اس کی قیمت نہ دے۔ یا مزدوری سے مزدوری تو لے پر اسی اجرت نہ دے۔

اللہ تعالیٰ بندوں سے بے نیاز ہے اس نے بندوں کو انہی باتوں کا حکم دیا ہے جو ان کے لیے نفع رساں ہیں اور انہی باتوں سے روکا ہے جو ان کے لیے موجب ضرر ہیں ۔ وہ حکم دیکر بندوں پر احسان کرتاہے اور طاعت پر ان کی معاونت کر کے بھی ان کا محسن ہے۔ اوراگرفرض کیا ایک نیک عالم لوگوں کو ایک نیک کام کا حکم دیتا ہے۔ پھر وہ بعض کی اس نیکی پر معاونت کرتا ہے، اور بعض کی نہیں ۔ تو جن کی معاونت کرتا ہے ان پر احسانِ تام کرتا ہے اور جن کی معاونت نہیں کرتا ان کے حق میں ظالم نہیں ۔ اور اگر وہ گنہگار کو عدل و حکمت کے مقتضی کے تحت سزا دیتا ہے تو بھی محمود ہے۔ بلکہ دونوں صورتوں میں محمود ہے۔ تو جب بندہ دونوں صورتوں میں محمود ہے تو کہاں ارحم الراحمین اور احکم الحاکمین کی حکمت!!!

پس اللہ تعالیٰ کے یہ احکام ارشاد و تعلیم کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اگر اللہ تعالیٰ مامور کے بجالانے میں انسان کی مدد کرے تو اس کا احسان عظیم ہے اور اگر مدد نہ کرے اور بندے کو تنہا چھوڑ دے یہاں تک کہ وہ گناہ کا مرتکب ہو تویہ کسی اور حکمت پر مبنی ہوگا۔ اور اگر وہ افعال بندے کے لیے موجب الم و رنج ہوں تو وہ ان افعال کی وجہ سے دکھ پائے گا، جو آرام و راحت کے موجب ہوتے ہیں اور سبب الم ورنج بھی، یہ سب کچھ تقدیر ربانی کے تحت ہوگا، اور ان دونوں میں کوئی منافات بھی نہیں پائی جاتی۔ اگرچہ اس نعمت یا الم کے دلوانے میں رب تعالیٰ کی قدرت و قضا شامل ہے۔ اس نے اپنی کمال قدرت اور حکمت سے اسے مختار بنایا ہے؛ اور اس اختیار پر مرتب ہونے والے اثرات اس کی حکمت اور قدرت کے اتمام میں سے ہیں ۔

حکمت کلی پر کلام

اب یہ بات باقی رہی کہ آخر وہ کلی حکمت کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس حکمت کی معرفت حاصل کرنا بنی نوع انسان کے لیے ضروری نہیں ، ان کے لیے تسلیم و رضا ہی کافی ہے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اللہ ہر شے کو جانتا ہے اور ہر چیز پر قادر ہے اور وہ بندوں پر ان کی ماؤں سے بھی زیادہ اور بے حد رحیم ہے، اور یہ بات بھی معلوم ہے کہ اگر اکثر لوگ اس بات کو جان لیں تو انہیں اس علم سے ضرر پہنچے، اور ہم ایسے علم سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں جو نافع نہ ہو، اور لوگوں کا ہر بات میں اللہ کی حکمت پر مطلع ہونا ان کے حق میں نافع نہیں ۔ بلکہ کبھی مضر بھی ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ لَا تَسْئَلُوْا عَنْ اَشْیَآئَ اِنْ تُبْدَلَکُمْ تَسُؤکُمْ﴾ (المائدہ:۱۰۱)

’’ایسے امور کے متعلق مت پوچھو کہ اگر ان کا اظہار کر دیا جائے تو تم پر ناگوار گزرے۔‘‘

یہ مسئلہ افعال الٰہی کی غایات و مقاصد کے نام سے موسوم ہے۔ اور غالباً حکمت الہیہ کے تمام مسائل سے عظیم تر ہے۔ہم نے متعدد مواقع میں اس کی اور قدر کے مسئلہ کی تفصیل بیان کی ہے، اور ہم نے اس بات پر نہایت لطیف تنبیہ کی ہے کہ فعل کی تخلیق کا ظلم ہونا ممتنع ہے۔ چاہے یہ کہا جائے کہ اللہ سے ظلم کا صدور ممتنع ہے۔ یا یہ کہا جائے کہ یہ مقدور ہے۔ کیونکہ وہ ظلم جو ظلم ہے وہ بندے کو اس کے ناکردہ فعل پر سزا دینا ہے۔ البتہ اس کے فعلِ اختیاری پر اسے سزا دینا اور ظالموں سے مظلوموں کو انصاف دلوانا، یہ اللہ کے عدل کے کمال میں سے ہے۔

تعدیل اور تجویر کے باب میں یہ تفصیل ان قدریہ کے مذہب کے درمیان، جو اللہ کی صفتِ خلق کو بندوں میں عدل اور ظلم پر قیاس کرتے ہیں اور ان جبریہ کے مذہب کے درمیان ہے جو رب تعالیٰ کے افعال کے لیے حکمت کو نہیں مانتے، اور نہ اسے ظلم سے منزہ مانتے ہیں ان کے نزدیک اس میں کوئی فرق نہیں کہ اسے عدل و احسان کہا جائے یا پھر اسے ظلم کہا جائے۔

ان لوگوں کا یہی قول[عقیدہ ] قدریہ کی شناعتوں کو اور زیادہ قوی کرنے کا ایک سبب بنا۔ حتیٰ کہ ان لوگوں نے دوسری جانب بے حد غلو کیا، اور سب سے بہتر امر ہے جو میانہ ہو، اور اللہ کا دین اس میں غلو کرنے والے اور اس سے منہ موڑنے والے کے درمیان سراپا عدل ہے، اور رب تعالیٰ کے کفر و معاصی پر سزا دینے میں اور رنگ اور لمبائی پر سزا دینے میں فرق ظاہر ہو چکا ہے۔ جیسا کہ یہ فرق اس وقت ظاہر ہو جاتا ہے کہ جب بعض لوگوں کو سزا دی جائے۔ کیونکہ کفر چاہیے اس میں رب تعالیٰ کا ارادہ اور اس کی اس پر قدرت پیدا ہوئی ہے۔ لیکن بہرحال بندے نے وہ فعل اپنے اختیار سے کیا ہے۔ اگرچہ یہ سب مخلوق ہے۔ جیسا کہ رب کے سوا دوسرا ان افعال پر ایسے سزا دیتا ہے چاہے یہ سب مخلوق ہے۔

[کافر میں ایمان کی قدرت کا مسئلہ اور اس کا جواب]

شیعہ مصنف کا اہل سنت کی طرف یہ عقیدہ منسوب کرنا کہ ’’ اس میں ایمان کی قدرت پیدا نہ کی ۔‘‘ یہ اس شخص کا قول ہے جو قدرت مع الفعل کا قائل ہے، اس کی رائے میں جو شخص کوئی فعل انجام نہیں دیتا تو وہ اس پر قادر نہیں تاہم اسے عاجز بھی نہیں کہہ سکتے۔ یہ جمہور اہل سنت کا قول نہیں ۔ بخلاف ازیں اہل سنت انسان کے لیے اس قدرت کوثابت مانتے ہیںجس پر امر و نہی کا مدار و انحصار ہے اور وہ قدرت مقارن للفعل نہیں ہوتی، بلکہ فعل سے پہلے پائی جاتی ہیجو ضروری نہیں فعل کے ساتھ بھی ہو۔ جمہور اہل سنت کا یہ بھی قول ہے کہ جس قدرت کے ساتھ فعل واقع ہوتا ہے اس کا فعل کے ساتھ ہونا لازم ہے۔ جمہور اہل سنت کے نزدیک قدرت معرومہ کے ساتھ فعل جائز نہیں ، اور نہ ارادۂ معرومہ کے ساتھ ہی جائز تھا۔ جیسا کہ فعل فاعل معدوم کے ساتھ نہیں پایا جاتا۔

جبکہ قدریہ اس بات کے قائل ہیں کہ قدرت فعل سے پہلے ہی ہوتی ہے۔ جبکہ ان کے بالمقابل مشبہ کا قول ہے کہ قدرت فعل کے ساتھ ہی ہوتی ہے۔ جبکہ جمہور امت اور آئمہ کا قول معتدل ہے کہ: قدرت کا فعل کے ساتھ ہونا لازم ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کبھی فعل سے پہلے بھی ہوتی ہے۔ جیسے گنہگار مامور کی قدرت کہ وہ فعل پر متقدم ہوتی ہے کہ وہ نافرمان کے لیے ہوتی ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: 

﴿وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا﴾ (آل عمران: ۹۷) 

’’اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج (فرض) ہے، جو اس کی طرف راستے کی طاقت رکھے۔‘‘

اس آیت میں صاحب استطاعت پر حج کو فرض قرار دیا گیا ہے، اگر صرف حج سے فارغ ہونے والے کو صاحب استطاعت تصور کیا جائے تو حج اسی شخص پر فرض سمجھا جائے گا جو فریضہ حج ادا کر لے، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ترک حج کے جرم میں کسی کو بھی سزا نہیں دی جائے گی۔اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾ (التغابن: ۱۶) 

’’جس قدر ہو سکے تم اللہ سے ڈرو۔‘‘

اس میں حسب استطاعت تقویٰ کو واجب قرار دیاگیا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ سے نہ ڈرنے والا تقویٰ کی استطاعت سے محروم ہوتا تو تقویٰ اسی شخص پر واجب ہوتا جواس صفت سے بہرہ ور ہوتا۔اور غیر متقی قابل عتاب و عقاب نہ ہوتا، اور یہ بات معلوم شدہ ضروریاتِ دین کے بالکل خلاف ہے۔

ان لوگوں نے یہ عقیدہ اس لیے اختیارکیا ہے کیونکہ قدریہ، معتزلہ اور شیعہ وغیرہ کا یہ قول ہے کہ قدرت فعل سے قبل ہوتی ہے تاکہ ضدین کے قابل ہو سکے۔ یعنی فعل کے بھی اور ترک کے بھی۔ سو فعل کے وقت تو فعل ہوگا اور یہ گمان کرتے ہیں اس وقت وہ قادر نہ ہوگا۔ کیونکہ قادر کا فعل اور ترکِ دونوں پر قادر ہونا لازم ہے۔ جبکہ فعل کے وقت وہ ترک پر قادر نہیں ۔ لہٰذا یہ قادر نہیں ۔

رہے اہل سنت تو وہ یہ کہتے ہیں کہ اس کا فعل کے وقت قادر ہونا ضروری ہے۔ پھر ائمہ اہل سنت کے نزدیک وہ فعل سے قبل بھی قادر ہے۔ البتہ ایک جماعت کا یہ قول بھی ہے کہ وہ فعل کے وقت ہی قادر ہوگا۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ قدرت ضدین کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ کیونکہ فعل سے متصل و مقارن قدرت اسی فعل کے لیے ہے اور وہ اس فعل کو مستلزم ہے۔ اس کے بغیر نہیں پائی جاتی۔ کیونکہ اگر یہ قدرت علی سبیل البدلیت ضدین کے لیے ہوتی تو دو ضدوں میں ایک عدم کے ساتھاس کا وجود ممکن تھا، اور ایک شے سے مقارن شے اسے مستلزم ہوتی ہے، اور اس کے عدم کے ساتھ نہیں پائی جاتی۔ کیونکہ ملزوم کا وجود لازم کے بغیر ممتنع ہے۔

جو قدریہ نے کہا ہے وہ ان کی فاسد اصل پر مبنی ہے، اور وہ یہ کہ رب تعالیٰ کا مومن و کافر اور نیک و فاجر کو قدرت دینا برابر ہے۔ یہ لوگ اس بات کا قول نہیں کرتے کہ رب تعالیٰ نے مطیع مومن کو اعانت کے ساتھ خاص کیا ہے جس کے ذریعے وہ ایمان حاصل کرتا ہے، بلکہ یہ لوگ یہ کہتے ہیں : رب تعالیٰ کی مطیع و عاصی کو اعانت یکساں ہے۔ لیکن خود بندے نے طاعت کو ترجیح دی ہے، اور دوسرے نے خود معصیت کو ترجیح دی ہے۔ جیسے ایک والد جو اپنے ہر بیٹے کو ایک تلوار دے تو ایک تو مجاہد فی سبیل بنا اور دوسرا ڈاکو یا اس نے دونوں کو مال دیا تو ایک نے راہِ خدا میں خرچ کیا اور دوسرے نے وہ مال شیطان کی راہ میں لگا دیا۔

لیکن اس قول کے فاسد ہونے پر قدر کو ثابت کرنے والے اہل سنت کا اجماع ہے۔ ان کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ کی مومن مطیع پر نعمت دینیہ ہے جو اس کے ساتھ خاص ہے نہ کہ کافر کے ساتھ۔ اور یہ کہ اس نے مومن کی وہ اعانت کی ہے جو کافر کی نہیں کی۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلَکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِِلَیْکُمُ الْاِِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّہَ اِِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْیَانَ اُوْلٰٓئِکَ ہُمْ الرَّاشِدُوْنَ ﴾ (الحجرات: ۷) 

’’اور لیکن اللہ نے تمھارے لیے ایمان کو محبوب بنا دیا اور اسے تمھارے دلوں میں مزین کر دیا اور اس نے کفر اور گناہ اور نافرمانی کو تمھارے لیے ناپسندیدہ بنا دیا، یہی لوگ ہدایت والے ہیں ۔‘‘

رب تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ اس نے ایمان کو ان کے لیے محبوب و مزین فرمایا۔

قدریہ کہتے ہیں : یہ محبوب بنانا؛ اور مزین کرنا ساری مخلوق کے لیے عام ہے۔ یا یہ دلائل حق کے بیان و اظہار کی قبیل میں سے ہے۔ لیکن آیت کا مقتضی یہ ہے کہ یہ اہل ایمان کے ساتھ خاص ہے۔ اسی لیے فرمایا: ﴿ اُوْلٰٓئِکَ ہُمْ الرَّاشِدُوْنَ﴾ ’’اور وہی لوگ ہدایت والے ہیں ۔‘‘جبکہ کافر راشدین [ہدایت والے]نہیں ہیں ، اور فرمایا: 

﴿فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّہْدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ وَمَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہٗ یَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَیِّقًا حَرَجًا کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآئِ﴾ (الانعام: ۱۲۵) 

’’ جسے اللہ ہدایت دینا چاہتا ہے، اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہ کرنا چاہتا ہے اس کا سینہ تنگ، نہایت گھٹا ہوا کر دیتا ہے، گویا آسمان میں چڑھ رہا ہے۔‘‘ اور ارشاد فرمایا:

﴿اَوَ مَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰہُ وَ جَعَلْنَا لَہٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِہٖ فِی النَّاسِ کَمنْ مَّثَلُہٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْہَا کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْکٰفِرِیْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ (الانعام: ۱۲۲) 

’’اور کیا وہ شخص جو مردہ تھا، پھر ہم نے اسے زندہ کیا اور اس کے لیے ایسی روشنی بنا دی جس کی مدد سے وہلوگوں میں چلتا پھرتا ہے، اس شخص کی طرح ہے جو اندھیروں میں ہے، ان سے کسی صورت نکلنے والا نہیں ۔ اسی طرح کافروں کے لیے وہ عمل خوشنما بنا دیے گئے جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘

﴿وَ کَذٰلِکَ فَتَنَّا بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لِّیَقُوْلُوْٓا اَہٰٓؤُلَآئِ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنْ بَیْنِنَا اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَعْلَمَ بِالشّٰکِرِیْنَ ﴾ (الانعام: ۵۳) 

’’اور اسی طرح ہم نے ان میں سے بعض کی بعض کے ساتھ آزمائش کی ہے، تاکہ وہ کہیں کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے ہمارے درمیان میں سے احسان فرمایا ہے؟ کیا اللہ شکر کرنے والوں کو زیادہ جاننے والا نہیں ؟‘‘

﴿یَمُنُّونَ عَلَیْکَ اَنْ اَسْلَمُوْا قُلْ لَا تَمُنُّوا عَلَیَّ اِِسْلَامَکُمْ بَلْ اللّٰہُ یَمُنُّ عَلَیْکُمْ اَنْ ہَدَاکُمْ لِلْاِِیْمَانِ اِِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ ﴾ (الحجرات: ۱۷) 

’’وہ تجھ پر احسان رکھتے ہیں کہ وہ اسلام لے آئے، کہہ دے مجھ پر اپنے اسلام کا احسان نہ رکھو، بلکہ اللہ تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمھیں ایمان کے لیے ہدایت دی، اگر تم سچے ہو۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ دعا کرنے کی ہدایت فرمائی ہے:

﴿ اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ﴾ (الفاتحہ)

’’ ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔ ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام کیا۔‘‘

دعا سے زمانہ مستقبل میں ایسی چیز کا حصول مقصود ہوتا ہے جو قبل ازیں حاصل نہ ہو، اس دعا میں جس ہدایت کا ذکر کیا گیا ہے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت و تبلیغ سے ایک جداگانہ چیز ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔

﴿یَّہْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلٰامِ﴾ (المائدۃ: ۱۶) 

’’جس کے ساتھ اللہ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے پیچھے چلیں ، سلامتی کے راہ پر ہدایت دیتا ہے۔‘‘

﴿وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ مَا زَکَا مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا وَّلٰکِنَّ اللّٰہَ یُزَکِّی مَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ﴾ (النور: ۲۱) 

’’اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی کبھی پاک نہ ہوتااور لیکن اللہ جسے چاہتا ہے پاک کرتا ہے اور اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘

﴿رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمِیْنِ لَکَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ وَ اَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَ تُبْ عَلَیْنَا﴾ (البقرۃ: ۱۲۸)

’’اے ہمارے رب! اور ہمیں اپنے لیے فرماں بردار بنا اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک امت اپنے لیے فرماں بردار بنا اور ہمیں ہمارے عبادت کے طریقے دکھا اور ہماری توبہ قبول فرما۔‘‘اور فرمایا:

﴿وَ جَعَلْنَا مِنْہُمْ اَئِمَّۃً یَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا وَ کَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یُوْقِنُوْنَ﴾ (السجدہ: ۲۳) 

’’اور ہم نے ان میں سے کئی پیشوا بنائے، جو ہمارے حکم سے ہدایت دیتے تھے، جب انھوں نے صبر کیا اور وہ ہماری آیات پر یقین کیا کرتے تھے۔‘‘

﴿وَ جَعَلْنٰہُمْ اَئِمَّۃً یَّدْعُوْنَ اِلَی النَّارِ﴾ (القصص: ۳۱) 

’’اور ہم نے انھیں ایسے پیشوا بنایا جو آگ کی طرف بلاتے تھے۔‘‘

کتاب و سنت میں اس کی بے شمار مثالیں ہیں جو بیان کرتی ہیں کہ مومن بندے ہدایت، ایمان، عمل صالح اور نیکی کی طرف لے جانے والی عقل کے ساتھ خاص ہیں ، اور عقل بھی یہی کہتی ہے۔پس بیشک جب یہ فرض کیا کہ فاعل سے فعل کے صدور کے جملہ اسباب [سے بہرہ ور ہے]جیسا کہ وہ تارک سے بھی ہیں کہ اس میں فاعل کے فعل کے ساتھ اختصاص دو متماثلین میں سے ایک کو دوسرے پر بلا مرجح ترجیح دینے کے ساتھ ہے تو یہ بالضرور فاسد ہے، اور یہ وہ اصل ہے جس پر انہوں نے صانع کے اثبات کی بنا رکھی ہے۔ اگر ان کا یہ قول فاسد ہو تو ان کے پاس صانع کے اثبات کا کوئی طریق نہیں رہ جاتا۔

ان کے قول کی غایت سے ہے کہ قادرِ مختار دو مقدور میں سے ایک کو دوسرے پر بلا مرجح کے ترجیح دیتا ہے۔ جیسے بھوکا اور خوف زدہ، اور یہ قول فاسد ہے۔ کیونکہ برابری کی موجب اسباب کے ہوتے ہوئے ترجیح ممتنع ہے۔

پھر اگر تو بلا مرجح کے قول میں ترجیح وجود فعل سے ایک زائد معنی ہے تو یہ بھی سببِ مرجح ہے، اور اگر میں کوئی زائد معنی نہیں ۔ تو فعل کے وجود سے پہلے فعل کا حال، فعل کے وقت کے حال جیسا ہوگا۔

پھر فعل دو میں سے ایک حالت میں ۔ دوسری حالت کو بلا مرجح چھوڑنے کے ساتھ حاصل ہوگا۔ بلاشبہ یہ عقل کے ساتھ مکابرہ ہے۔ پھر جب قدریہ کے قول کی اصل یہ ہے کہ طاعات کا فاعل اور ان کا تارک دونوں اعانت و اِقدار میں برابر ہیں ، تو ان کی اس اصل پر یہ بات ممتنع ہوگئی کہ فعل کے ساتھ قدرتِ مخصصہ ہو۔ کیونکہ وہ قدرت جو فعل کو خاص کرتی ہے وہ تارکِ فعل کے ساتھ نہ ہوگی۔ وہ تو فاعل کے ساتھ ہوگی، اور قدرت صرف اللہ ہی کی طرف سے ہوگی، اور جو اللہ کی طرف سے ہو وہ فعل کے وجود کے ساتھ مختص نہ ہوگی۔

پھر جب انہوں نے دیکھا کہ قدرت کا فعل سے پہلے ہونا لازم ہے تو یہ قول کیا: قدرت فعل کے ساتھ نہ ہوگی کیونکہ قدرت وہ ہوتی ہے جس کے ساتھ فعل اور ترک دونوں ہوں ، اور فعل کے وجود کے وقت ترکِ ممتنع ہے۔ اسی لیے ان لوگوں نے کہا: قدرت فعل سے قبل ہوگی۔ لیکن یہ قول قطعاً باطل ہے۔ کیونکہ اثر کا وجود اس کی بعض شروطِ وجودیہ کے ساتھ ممتنع ہے۔ بلکہ لازم ہے کہ امور وجودیہ میں سے جن جن پر فعل موقوف ہے وہ فعل کے وقت موجود ہوں ۔ پس ان کے قول کی نقیض حق ہے، اور وہ نقیض یہ ہے کہ فعل کے ساتھ قدرت ہونا لازم ہے۔

لیکن یہاں اہلِ اثبات کی بھی دو جماعتیں ہو گئیں ۔ ایک جماعت کا یہ قول تھا کہ قدرت صرف فعل کے ساتھ ہوگی۔ان کے گمان میں قدرت نوعِ واحد سے جو ضدین کے مناسب نہیں ، اور ان میں سے بعض کا گمان یہ ہے کہ قدرت عرض ہے۔ لہٰذا یہ دو زمانوں میں باقی نہ رہے گی۔ لہٰذا فعل سے قبل اس کا وجود ممتنع ہوگا۔

لیکن درست وہ قول ہے جو آئمہ فقہ و اہل سنت کا ہے کہ قدرت کی دو انواع ہیں ۔ ایک نوع وہ ہے جو فعل کی تصحیح کرنے والی ہے۔ اس کے فعل اور ترک دونوں جائز ہیں ۔ یہی وہ قدرت ہے جس کے متعلق امر و نہی ہوتا ہے۔ یہ مطیع اور عاصی دونوں کو حاصل ہوتی ہے، اور یہ فعل سے قبل ہوتی ہے۔ یہ قدرت فعل تک باقی رہتی ہے۔ چاہے عرض بن کر جیسا کہ اس کے نزدیک جو قدرت کو عرض مانتا ہے اور چاہے قدرت کے امثال کے تجدد کے ساتھ اس کے نزدیک جس کا یہ قول ہے کہ اعراض باقی نہیں رہتے، اور یہ قدرت ضدین کے مناسب ہے۔

استطاعت کی تعریف:

اور اللہ کا بندوں کو امر اس طاقت کے ساتھ مشروط ہے۔ جس میں یہ طاقت نہ ہو اللہ اسے مکلف نہیں بناتا، اور اس کی ضد عاجزی و درماندگی ہے۔ اس کا ذکر اس ارشادِ باری تعالیٰ میں ہے:

﴿وَ مَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوْلًا اَنْ یَّنْکِحِ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ﴾ (النساء: ۲۵) 

’’اور تم میں سے جو مالی لحاظ سے طاقت نہ رکھے کہ آزاد مومن عورتوں سے نکاح کرے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَ سَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰہِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَکُمْ یُہْلِکُوْنَ اَنْفُسَہُمْ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ اِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْنَ ﴾ (التوبۃ: ۳۲) 

’’اور عنقریب وہ اللہ کی قسم کھائیں گے کہ اگر ہم طاقت رکھتے تو تمھارے ساتھ ضرور نکلتے۔ وہ اپنے آپ کو ہلاک کر رہے ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ بے شک وہ ضرور جھوٹے ہیں ۔‘‘

﴿فَصِیَامُ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَاسَّا فَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَاِِطْعَامُ سِتِّینَ مِسْکِیْنًا﴾ (المجادلہ: ۳) 

’’تو دو پے درپے مہینوں کا روزہ رکھنا ہے، اس سے پہلے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں ، پھر جو اس کی (بھی) طاقت نہ رکھے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔‘‘

اس میں اس کی استطاعت کی نفی کا بیان ہے، جس نے فعل نہیں کیا لہٰذا یہ فعل کے ساتھ نہ ہوگی اور اسی معنی میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے فرمایا:

’’کھڑے ہو کر نماز پڑھئے، اگر کھڑا ہونا ممکن نہ ہو تو بیٹھ کر اور اگر بیٹھنے پر قادر نہ ہو تو پہلو کے بل لیٹ کر پڑھو۔‘‘[صحیح بخاری کتاب تقصیر الصلاۃ ، باب اذا لم یطق قاعداً صلی علی جنب (ح: ۱۱۱۷)]اس حدیث میں آپ نے ایسی استطاعت کی نفی فرمائی جس کے ساتھ فعل نہ پایا جاتا ہو۔ اس سے یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ شریعت میں جو استطاعت مشروط ہے، وہ اس استطاعت سے خاص تر ہے جو عقل سے معلوم کی جاتی ہے۔ اس لیے کہ شار ع کا مقصد دین میں آسانی پیدا کرنا ہے، مثلاً مریض جو کھڑا ہونے پر قادر ہو مگر یہ خطرہ دامن گیر ہو کر کھڑا ہونے سے وہ بتا خیر صحت یاب ہوگا، ایسے شخص کو حصول ضرر کی بنا پر شرعاً غیر مستطیع تصور کیا جائے گا، اگرچہ لوگوں میں اسے مستطیع کے نام سے موسوم کیا جائے۔

خلاصہ کلام! یہ کہ شارع کی نگاہ شرعی استطاعت میں صرف امکان ہی پر نہیں ہوتی بلکہ وہ اس کے لوازم کو بھی ملحوظ خاطر رکھتا ہے۔ جب شارع کی نظر میں راجح مفسدہ کے ساتھ فعل کا امکان موجود ہو ؛ تویہ شرعی استطاعت نہ ہوگی۔

جیسے وہ شخص جو ایسے ضرر کے ساتھ حج کی قدرت رکھتا ہو جو اس کے دین یا مال کو لاحق ہوتی ہو۔ یا کوئی زیادہ مرض کے ہوتے ہوئے بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھے۔ یا کوئی اپنی معیشت سے منقطع ہو کر دو ماہ کے لگا تار روزے رکھے، وغیرہ۔ تو جب شارع نے قدرت میں مفسدۂ راجحہ کے نہ ہونے کو شرط رکھا ہے؛ تو وہ کسی عاجز کو کیوں کر مکلف و مامور کر سکتا ہے۔ تاہم یہ استطاعت و جود فعل تک باقی رہنے کے باوصف فعل کے پائے جانے کے لیے کافی نہیں ، اگر ایسی استطاعت کافی ہوتی تو تارک و فاعل مساوی ہو کر رہ جاتے، اور دونوں میں فرق و امتیاز مشکل ہوجاتا۔ بخلاف ازیں مذکورہ استطاعت کے ساتھ ایک دوسری اعانت کا وجود ناگزیر ہے۔ جو اس کے مقارن ہو، مثلاً فاعل کا با ارادہ ہونا اس لیے کہ قدرت و ارادہ کے بغیر فعل کا تکمیل پذیر ہونا ممکن نہیں ۔ وہ ارادہ جس میں عزم و استقلال پایا جاتا ہو استطاعت مقارنہ للفعل میں داخل ہے، البتہ جو استطاعت احکام کا مکلف بنانے کے لیے شرط ہے اس میں ارادہ کا پایا جانا ضروری نہیں ۔اور فعل سے مقارن استطاعت میں ارادۂ جازمہ داخل ہے۔ بخلاف تکلیف میں مشروط استطاعت کے؛ اس میں ارادۂ شرط نہیں ۔مذکورہ بالا بیان سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ارادہ نہ کرنے والے کو کسی فعل کا مامور و مکلف تو بناتے ہیں البتہ جو شخص کسی فعل کو انجام دینے سے عاجز ہو اس کو مامور نہیں کرتے۔ جیسے آقا اپنے غلام کو ایسے کام کا حکم تو دیتا ہے، جس کو انجام دینے کا وہ ارادہ نہیں رکھتا البتہ اسے ایسے کام تفویض نہیں کرتا جن سے وہ عاجز ہو۔ جب عزم راسخ اور قوت تامہ دونوں یک جا ہوتے ہیں ، تو فعل کا وجود پذیر ہونا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ اور فعل کو مستلزم یہ ارادۂ و قوت ضروری نہیں کہ فعل کو مقارن بھی ہو، اور اگر وہ فعل کے مقارن نہیں تو اس کا تقدم کافی نہیں ۔ کیونکہ وہ فعل کی علتِ نامہ ہے اور علتِ نامہ معلول کے مقارن ہوا کرتی ہے نہ کہ اس سے مقدم ہوتی ہے۔

دوسرے قدرت فعل کے وجود میں شرط ہے اور فاعل کا قادر ہونا بھی شرط ہے، اور اس شے کے وجود میں شرط جو قادر کے قادر ہونے کا ذریعہ ہو تو وہ شے اس کے عدم کے ساتھ نہیں ۔ بلکہ اس کے وجود کے ساتھ ہوگی۔ وگرنہ فاعل قادر نہ ہونے کے وقت بھی قادر ہوگا، یا غیر قادر بھی قادر ہوگا۔

اہلِ اثبات کے اس قول کا یہی مطلب ہے جسے قاضی ابو بکر اور قاضی ابو یعلی وغیرہ نے ذکر کیا ہے کہ: ’’ہمارے اورمعتزلہ کے درمیان اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ فاعل کو فاعل بنانے والا امر یہ اس کا قادر ہونا ہے اور ہم نے جملہ امور کو درست کرنے والے میں دیکھا ہے کہ اس امر کا اور حکم کا ثبوت اس کے درست کرنے والے کے عدم کے بغیر مستحیل ہے۔

کیا تو نے نہیں دیکھا کہ جب یہ بات ثابت ہوگی کہ عالم اور قادر کو درست بنانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ زندہ بھی ہو تو حیات کے بغیر کسی کا عالم و وقار ہونا نا ممکن ٹھہرا۔ اسی طرح کوئی رنگ والا رنگین اور متحرک جب ہی متحرک ہوگا کہ جب وہ جو مصر بھی ہو لہٰذا غیر جو ہر کا متلون و متحرک ہونا مستحیل ٹھہرے گا۔ لہٰذا کسی فاعل کا غیر قادر ہونے کے وقت فاعل ہونا بھی مستحیل ہوگا۔

اہلِ اثبات کہتے ہیں : یہ معتبر دلائل میں سے ہے، اور یہ دلیل اس بات کو مقتضی ہے کہ فعل پر قدرت کا ہونا لازم ہے۔ البتہ حکام سے قبل قدرت کے وجود کی نفی نہ کی جائے گی۔ کیونکہ درست کرنے والے امر کا وجود مشروط سے قبل بھی درست ہے اور اس کے بغیر بھی۔ جیسا کہ حیات کا علم کے بغیر اور جوہر کا حرکت کے بغیر وجود صحیح ہے۔

حدوث عالم اور فلاسفہ پر رد :

یہ وہ دلیل ہے جو حدوثِ عالم کے باب میں فلاسفہ کے خلاف پیش کی جاتی ہے۔ کیونکہ جب یہ فلاسفہ یہ کہتے ہیں کہ علتِ قدیمہ پہلے دورہ کے ختم ہونے کی شرط کے ساتھ دوسرا دورہ پیدا کرتی ہے۔

اسی کا جواب یہ ہے کہ محدث کے وجود کے وقت علتِ تامہ کا ہونا اور فاعل کا قادرِ تام ہونا اور مرید کا لازم ہے، اور اِحداث پر مقدم شے کا نرا وجود کافی نہیں ۔ بلکہ اِحداث کے وقت مؤثر تام ہونا لازم ہے۔اسی طرح مؤثر تام کے حدوث کے وقت مؤثر تام کا ہونا بھی لازم ہے، اور جب صرف ازلی علتِ تامہ ہو جو معلول کے مقارم ہو تو لازم آئے گا کہ حوادث کسی محدث کے بغیر ہی وجود میں آ گئے ہیں ۔ اور یہ اس بات پر دلیل ہے کہ رب تعالیٰ اس چیز کے ساتھ متصف ہے جس کے ذریعے وہ حوادثِ مخلوقہ کو کرتا ہے جیسے وہ اقوال جو اس کے ساتھ قائم اور اس کی قدرت و مشیئت سے حاصل ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ یہ موضوع اپنے مقام پر تفصیل سے بیان ہو چکا ہے۔

ارادہ و قدرت میں بیان کردہ یہ تفصیل اور دو قسموں میں اس کی تقسیم اس باب میں حاصل ہونے والے اشتباہ و اضطراب کو ختم کر دیتی ہے۔

اسی پر مالایطاق امر کی تکلیف مبنی ہے۔ کیونکہ جس کا یہ قول ہے کہ قدرت فعل کے ساتھ ہی ہوگی، وہ یہ کہہ اٹھے گا کہ کافر و فاسق کو مالایطاق امر کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے۔ لیکن یہ جمہور اہل سنت اور ان کے آئمہ کا قول نہیں ۔ بلکہ وہ تو یہ کہتے ہیں کہ: اللہ نے حج کو مستطیع پر واجب کیا ہے۔ بھلے وہ حج کرے یا نہ کرے۔ اسی طرح کفارہ میں مستطیع کو دو ماہ کے لگا تار روزوں کا حکم ہے؛ بھلے وہ روزے رکھے یا نہ رکھے۔ اور اللہ نے قادر پر عبادت کو واجب کیا ہے ناکہ عاجز پر۔ اب قادر عبادت بجا لائے یا نہ لائے اس کی مرضی۔رہا ’’مالا یطاق‘‘ تو علماء نے اس کی دو تفسیریں بیان کی ہیں ۔ یا تو وہ امر اُس سے عاجز ہونے کی وجہ سے ’’لا یطاق‘‘کہلائے گا۔ تو ایسے کسی کام کا رب تعالیٰ نے بندوں کو سرے سے حکم ہی نہیں دیا۔ یا اس امر کی ضد میں استغال کا نام ’’لا یطاق‘‘ہے۔ تکلیف ایسے امر میں دی جاتی ہے۔ جیسا کہ بندوں کا ایک دوسرے کو امر دینا۔ اہلِ سنت ان دونوں قسموں میں فرق کرتے ہیں ۔ لہٰذا کوئی اپنے نابینا غلام کو عبادت پر نقطے لگانے کو نہ کہے گا۔ البتہ مثلاً بیٹھے ہوئے کو کھڑے ہونے کا امر ضرور کر دیا کرتا ہے۔ ان دونوں باتوں میں فرق کو سمجھنا بے حد ضروری ہے۔ ان کی تفصیل بیان کی جا چکی ہے، اور حسبِ موقع اس کے نکتے بھی بیان کر دیے ہیں ۔

اسی طرح یہ قول کہ: ’’اللہ نے کافر میں ایمان کی قدرت پیدا نہیں کی۔‘‘ یہ جمہور اہلِ سنت کا قول نہیں ۔ بلکہ وہ تو یہ کہتے ہیں : اللہ نے اس میں تکلیف میں مشروط اس قدرت کو پیدا کر دیا ہوا ہے۔ بو امر و نہی کو درست کرنے والی ہے۔ جیسا کہ بندوں میں ہے کہ جب وہ ایک دوسرے کو حکم دیتے ہیں ۔ اس بارے جو قدرت پائی جاتی ہے، وہ اللہ کے بندوں کو امر دینے میں پائی جاتی ہے۔ بلکہ اللہ کا تکلیف دینا زیادہ آسانی والا ہے اور حرج کی وجہ سے ’’تکلیف کا رفع زیادہ بڑا ہے، اور لوگ ایک دوسرے اس سے بھی بڑی بات کی تکلیف دیتے ہیں ، جس بات کی اللہ اور رسول نے لوگوں کو تکلیف دی ہے۔ اس پر بھی لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ تکلیفِ بالا یطاق ہے۔

جو بھی ملوک و سلاطین کے خدام کے احوال میں غور کرتا ہے جو ان کی خدمت و طاعت میں لگے رہتے ہیں ، تو وہ انہیں رب کی عبادت میں لگے بندوں سے بھی زیادہ محنت و مشقت کرتا پائے گا۔