فصل:....تقدیر کے بارے میں اہل سنت کے عقیدہ پر رافضی کا کلام اور اس پر ردّ
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....تقدیر کے بارے میں اہل سنت کے عقیدہ پر رافضی کا کلام اور اس پر ردّ
تقدیر کے بارے میں اہلِ سنت کے عقیدہ پر رافضی کا کلام، حضرات انبیاء کرام علیہ السلام کا لا جواب ہونا اور ان کی دلیل کا ختم ہونا، اور اس باب میں اور رافضی کا رد۔
[شبہ ] رافضی کہتا ہے: ’’اور ان میں سے ایک انبیاء کا لا جواب ہونا، اور ان کی حجت نہ رہنا بھی ہے۔ کیونکہ نبی علیہ السلام جب کسی کافر کو یہ کہتا ہے کہ مجھ پر ایمان لے آ اور میری تصدیق کر، اور وہ جواب میں یہ کہتا ہے: اسی سے جس نے تجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے، یہ کہہ کہ وہ مجھ میں ایمان پیدا کر دے یا مجھ میں ایمان لانے کی قدرتِ مؤثرہ پیدا کر دے تاکہ میں ایمان پر قدرت پا سکوں اور تجھ پر ایمان لے آؤں ۔ وگرنہ تو مجھے ایک ایسی بات کا مکلف کیونکر بناتا ہے جس پر میری قدرت ہی نہیں ؟ بلکہ اس نے مجھ میں کفر کو پیدا کیا ہے، اور میں رب تعالیٰ پر قاصر آنے پر قادر نہیں تب پھر یقیناً وہ نبی دلیل سے خالی ہو جائے اور جواب نہ دے پائے گا۔‘‘
[جواب:] رافضی کی اس بات کا جواب یہ ہے کہ: اس مقام میں اکثر لوگوں نے دخل اندازی کی ہے۔ چنانچہ جب کسی کو اس کے ذمے واجب امر کا حکم دیا جاتا ہے تو وہ کنی کترانے کے لیے تقدیر کو آڑ بناتا ہے اور کہتا ہے کہ: تب کروں گاجب اللہ مجھے قدرت دے گا۔ یا اللہ مجھے اس پر قدرت دے گا یا جب اللہ اس کا میرے حق میں فیصلہ کر دے گا، اور جب اسے کسی شرعاً ممنوع بات سے روکا جاتا ہے تو وہ اسی طرح کہتا ہے: یہ تو اللہ نے میرے حق میں خود فیصلہ کیا ہے۔ اب میں کیا کروں ؟ وغیرہ وغیرہ۔
اس بات پر دنیا بھر کے اہل دین و عقل کا اتفاق ہے کہ قدرت سے دلیل پکڑنا حجت باطلہ ہے، اور المیہ یہ ہے کہ اس قول کے قائل پر جب کوئی ظلم کرے یا اس کے کسی حق واجب کو ادا نہ کرے اور ظالم ظلم کی دلیل میں قدرت کو پیش کرے تو یہ خود اس دلیل کو قبول کرنے پر ہر گز تیار نہ ہوگا۔ بلکہ وہ ہر صورت میں اپنا حق اس سے مانگے گا، اور عدم ادائیگی کی صورت میں اس پر عقاب و عتاب بھی کرے گا۔
بلاشبہ یہ اس سو فسطائیہ[دھوکہ بازی] میں سے ہے جو علوم میں پیش کی جاتی ہے، اور چاہے یہ سوفسطائیت اکثر لوگوں کو پیش بھی آتی ہے۔ حتیٰ کہ بسا اوقات آدمی کو خود اپنے آپ کے وجود میں بھی شبہ پیش آ جایا کرتا ہے۔ پر آپ اس کے فاسد ہونے کو ضرور جانتے ہیں ۔ پھر اسی طرح یہ سو فسطائیت اعمال میں بھی عارض ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ یہ ایک ایسا شبہ ہے جو صدق اور عدلِ واجب وغیرہ کے اسقاط میں اور کذاب و ظلم وغیرہ کی اباحت میں پیش آتا ہے۔ لیکن دلوں کو پھر بھی اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ یہ شبہ باطل ہے، اور تحقیق کے وقت یہ شبہ کوئی بھی دوسرے سے قبول نہیں کرتا، اور نہ کوئی اس سے دلیل پکڑتا ہے۔ ہاں اگر فعل کی حجت معلوم نہ ہو تو اور بات ہے۔
جب آدمی کو اس بات کا علم ہو کہ اس نے جو کیا ہے وہ مصلحت اور مامور بہ ہے اور یہ کرنا مناسب تھا تو وہ کبھی بھی قدرت اور تقدیر کو آڑ نہیں بناتا۔ اسی طرح اگر اسے یہ علوم ہو کہ جو کام اس نے نہیں کیا وہ اس کے ذمہ ہی نہ تھا، یا وہ مصلحت یا مامور بہ ہی نہیں ۔ تب بھی وہ تقدیر کو دلیل نہیں بناتا۔ بلکہ تقدیر کو حجت وہ بناتا ہے جو ہوائے نفس کا غلام اور علم سے کورا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب مشرکوں نے یہ کہا کہ:
﴿لَوْشَآئَ اللّٰہُ مَآ اَشْرَکْنَا وَلَآ اٰبَآؤُنَا وَ لَا حَرَّمْنَا مِنْ شَیْئٍ﴾ (الانعام: ۱۳۸)
’’اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شریک بناتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کوئی چیز حرام ٹھہراتے۔‘‘
تو رب تعالیٰ نے انہیں اس کا یہ جواب دیا:
﴿قُلْ ہَلْ عِنْدَکُمْ مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوْہُ لَنَا اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَخْرُصُوْنَo قُلْ فَلِلّٰہِ الْحُجَّۃُ الْبَالِغَۃُ فَلَوْشَآئَ لَہَدٰیکُمْ اَجْمَعِیْنَ﴾ (الانعام: ۱۳۸ ۔۱۳۹)
’’کہہ کیا تمھارے پاس کوئی علم ہے کہ تم اسے ہمارے لیے نکالو، تم تو گمان کے سوا کسی چیز کی پیروی نہیں کر رہے اور تم اس کے سوا کچھ نہیں کہ اٹکل دوڑاتے ہو۔ کہہ دے پھر کامل دلیل تو اللہ ہی کی ہے، سو اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ضرور ہدایت دے دیتا۔‘‘
کیونکہ یہ مشرک اپنی عقل و فطرت دونوں سے جانتے تھے کہ ان کو پیش کردہ یہ دلیل باطل ہے۔ کیونکہ اگر کوئی ان کامال چھین لیتا یا عزت لوٹ لیتا یا اس کی اولاد کو قتل کر دیتا، یہ اس پر ظلم کرنے پر اڑا رہتا اور لوگ اسے ایسا کرنے سے منع کرتا اور وہ جواب میں یہ کہتا کہ اگر اللہ چاہتا تو میں ایسا نہ کرتا۔ تو یہ مظلوم کسی بھی صورت میں اس ظالم و فاجر کی یہ دلیل قبول نہ کرے، اور نہ دوسرے لوگ ہی اس دلیل کو مانیں ۔ یہ تو اس ظالم نے ملامت ہٹانے کے لیے دلیل بنائی ہے جس کی کوئی وجہ نہیں ۔ اسی لیے رب تعالیٰ نے ان مشرکوں سے فرمایا: کیا تمہارے پاس اس بات کی کوئی دلیل ہے تو پیش کرو کہ یہ شرک و تحریم اللہ نے کرنے کو کہا ہے اور اس کا فعل مناسب ہے۔ تم تو اپنے گمانوں کے پیرو کار ہو۔ تمہارے پاس اس کا کوئی علم نہیں ۔ تم بس اٹکل کے تیر چلاتے اور افتراء پردازی ہی کرتے ہو۔ تمہاری سب سے عمدہ دلیل صرف تمہارا گمان اور ظن ہے۔ ناکہ رب تعالیٰ کی مشیئت اور قدرت۔ کیونکہ صرف قدرت اور مشیئت نہ دلیل ہے اور نہ کسی کی کسی پر حجت ہے، اور کسی کا کسی کے سامنے عذر ہے۔ کیونکہ قدر و تقدیر میں سب لوگ ایک ہیں ۔ اگر قدرت و مشیئت دلیل بنے تو ظالم اور مظلوم، صادق اور کاذب، عالم اور جاہل اور نیک اور بد میں سرے سے کوئی فرق ہی نہ رہے، اور نہ اس بات میں ہی کوئی فرق رہے کہ لوگوں کے لیے کیا صالح اور کیا مفسد ہے، اور کیا نافع اور کیا ضار ہے۔ یہ مشرک جو توحید و ایمان کو اور اللہ اور اس کے رسول کو ترک کرنے کے لیے تقدیر کو حجت بناتے ہیں ، خود اپنے حقوق سے اس دلیل کو سن کر دست بردار ہونے کے لیے ہر گز بھی تیار نہیں ، اور نہ اس دلیل کی رو سے کسی کا ظلم سہنے کو ہی تیار ہیں ۔ بلکہ ظلم کے خلاف اور اپنے حق کے لیے لڑنے تک کے لیے تیار رہتے ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں اس بات کی دعوت دی کہ وہ اللہ کے اس حق کو ادا کریں جو بندوں پر واجب ہے اور وہ اللہ کے امر کو بجا لائیں تو ان لوگوں نے بھی تقدیر کو آڑ بنایا اور اللہ کے حق کے ترک پر اور اس کے امر کی مخالفت پر تقدیر کو حجت بنایا اور جو بات پسند نہ تھی اسے تقدیر کی آڑ میں قبول نہ کیا۔
صحیحین میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ارشاد فرمایا:
’’اے معاذ! کیا تو جانتا ہے کہ اللہ کا بندوں پر کیا حق ہے؟ اس کا بندوں پر یہ حق ہے کہ بندے اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں ۔اور کیا تو جانتا ہے کہ جب بندے یہ کر لیں تو اللہ پر ان کا حق کیا ہے؟ بندوں کا اس پر یہ حق ہے کہ وہ انہیں عذاب نہ دے۔‘‘[صحیح البخاری: ۸؍۱۰۵۔ کتاب الرقاق، باب من جاہد نفسہ فی طاعۃ اللّٰہ۔]
تقدیر کو حجت و جاہل لوگ پکڑا کرتے تھے جن کے پاس اس بات کا کوئی علم نہ ہوا کرتا تھا کہ کرنا کیا ہے اور کیا ترک کرنا ہے۔ وہ صرف ظن کے پیروکار تھے۔ اٹکل کے تیر چلاتے تھے۔ وہ تقدیر کو صرف اللہ کے حق کے ترک میں اور اس کی نافرمانی پر جسارت میں حجرت بناتے تھے، ناکہ اپنے حق کے ترک میں اور دوسرے کا ظلم سہنے میں ، اور نہ اپنے امر کی مخالفت میں ۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ نام نہاد درویش، صوفیاء، عوام، مجاہد اور فقہاء وغیرہ ظن کی پیروی اور خواہش نفس کی اتباع کے وقت تقدیر کی طرف دوڑتے تھے۔ اگر ان کے پاس علم و ہدایت ہوتی تو کبھی بھی تقدیر کو حجت نہ بناتے۔ ہاں علم وہدایت نہ ہونے کے وقت کے وقت وہ اسی تقدیر پر اعتماد کرتے ہیں ۔
یہ بڑی بزرگ اور اہم اصل ہے جو بھی اس پر توجہ دے گا وہ جان لے گا کہ اکثر لوگوں کی ضلالت و غوایت کا منشا یہی ہے۔ اسی لیے ہم کتاب و سنت اور امر و نہی کے پیروکار مشائخ کو کثرت کے ساتھ علم و شرع کی اتباع کرنے کی وصیت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔ کیونکہ انہیں متعدد اشیاء میں اِرادات اور ان کی محبت عارض ہوتی ہے، اور وہ اپنی خواہشات کو اللہ کا دین سمجھ کر، ان کی پیروی کرنے میں لگ رہے ہوتے ہیں ۔ ان کے پاس سوائے ظن، ذوق اور وجد کے اور کچھ نہیں ہوتا جس کا مرجع نفس کی محبت و ارادت ہوتا ہے۔ چنانچہ کبھی تو وہ تقدیر کو حجت بناتے ہیں اور کبھی ظن اور اٹکل کو۔ لیکن درحقیقت وہ خواہش نفس کے پیروکار ہوتے ہیں ۔ اگر وہ علم کی پیروی کریں جو شارع کی شریعت ہے تو وہ ظن اور خواہشاتِ نفس کے دام تزویر سے باہر آ جائیں ، اور اپنے رب کے حکم کے پیروکار بن جائیں ، جو سراسر ہدایت ہے۔ جیسا کہ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ہُدًی فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَ لَا یَشْقٰی﴾ (طٰہ: ۱۲۳)
’’پھر اگر کبھی واقعی تمھارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کے پیچھے چلا تو نہ وہ گمراہ ہوگا اور نہ مصیبت میں پڑے گا۔‘‘
رب تعالیٰ نے سورۂ انعام، سورۂ نحل اور سورۂ زخرف وغیرہ میں مشرکین کی طرف سے اس معنی کو ذکر کیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:
﴿وَقَالُوْا لَوْ شَآئَ الرَّحْمٰنُ مَا عَبَدْنَاہُمْ مَا لَہُمْ بِذٰلِکَ مِنْ عِلْمٍ اِِنْ ہُمْ اِِلَّا یَخْرُصُونَ﴾ (الزخرف: ۲۰)
’’اور انھوں نے کہا اگر رحمان چاہتا تو ہم ان کی عبادت نہ کرتے۔ انھیں اس کے بارے میں کچھ علم نہیں ، وہ تو صرف اٹکلیں دوڑا رہے ہیں ۔‘‘
رب تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ اس بارے ان کے پاس کوئی علم نہیں ، وہ صرف اٹکل کرتے ہیں ، اور سورۂ انعام میں ارشاد ہے:
﴿قُلْ فَلِلّٰہِ الْحُجَّۃُ الْبَالِغَۃُ﴾ (الانعام: ۱۳۹)
’’کہہ دے پھر کامل دلیل تو اللہ ہی کی ہے۔‘‘
یعنی رسولوں کو بھیجنے اور کتابوں کو اتارنے کے ذریعے۔
اور فرمایا:
﴿لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرُّسُلِ﴾ (النساء: ۱۶۵)
’’تاکہ لوگوں کے پاس رسولوں کے بعد اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت نہ رہ جائے۔‘‘پھر رب تعالیٰ نے یہ فرما کر قدر کو ثابت کیا ہے:
﴿فَلَوْشَآئَ لَہَدٰیکُمْ اَجْمَعِیْنَo﴾ (الانعام: ۱۳۹)
’’سو اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ضرور ہدایت دے دیتا۔‘‘
رب تعالیٰ نے حجت شرعیہ کو ثابت کیا اور مشیئت قدریہ کو بیان کیا، اور یہ دونوں حق ہیں ، ارشادربانی ہے:
﴿وَ قَالَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا لَوْ شَآئَ اللّٰہُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُوْنِہٖ مِنْ شَیْئٍ نَّحْنُ وَ لَآ اٰبَآؤُنَا وَ لَا حَرَّمْنَا مِنْ دُوْنِہٖ مِنْ شَیْئٍ کَذٰلِکَ فَعَلَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَہَلْ عَلَی الرُّسُلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ﴾ (النحل: ۳۵)
’’اور جن لوگوں نے شریک بنائے انھوں نے کہا اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم اس کے سوا کسی بھی چیز کی عبادت کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم اس کے بغیر کسی بھی چیز کو حرام ٹھہراتے۔ اسی طرح ان لوگوں نے کیا جو ان سے پہلے تھے تو رسولوں کے ذمے صاف پیغام پہنچا دینے کے سوا اور کیا ہے؟‘‘
رب تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ یہ کلام دراصل پیغمبروں کی لائی تعلیمات کی تکذیب ہے۔ جو ان کے حق میں کوئی دلیل نہیں ، اور اگر یہ کلام محبت ہوتا تو ہر سچے کو جھٹلانے اور ہر ظلم کو سراہنے کی قوی دلیل ہوتا۔ بنی آدم کی فطرت میں یہ بات ہے کہ یہ کلام صحیح دلیل نہیں ۔ بلکہ اسے وہ دلیل بناتا ہے جو علم سے تہی دامن اور ظن کا پیروکار ہو۔ جیسے ان لوگوں نے کیا جنہوں نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔ بلکہ اللہ نے رسولوں کو بھیج کر اور کتابیں اتار کر حجت تمام کر دی ہے۔ جیسا کہ ایک صحیح حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’اللہ سے بڑھ کر کسی کو یہ محبوب نہیں کہ اس کے حضور عذر پیش کیا جائے۔ (یعنی اللہ کو بندہ کی اس کی جناب میں عذر خود ہی بے حد محبوب ہے) اور اسی لیے اس نے اپنی تعریف بیان کی ہے، اور اللہ سے بڑھ کر کوئی غیرت والا نہیں ۔ اسی وجہ سے اس نے بے حیائیوں کو حرام قرار دیا ہے۔ ظاہری بے حیائیوں کو بھی اور باطنی بے حیائیوں کو بھی۔‘‘ [صحیح البخاری: ۶؍ ۵۷۔ کتاب التفسیر سورۃ الانعام: باب: ﴿ولا تقربوا الفواحش﴾ عن عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مع اختلاف الالفاظ۔]
رب تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ اسے یہ بات محبوب ہے کہ اس کی مدح بیان کی جائے۔ اس کے حضور عذر و معذرت کی جائے، اور اس نے بے حیائیوں کو حرام قرار دیا ہے، اور اسے عدل و احسان پر مدح کیا جانا پسند ہے، اور یہ کہ اس کی ظلم کے ساتھ تعریف نہ بیان کی جائے۔
یہ بات معلوم ہے کہ اس نے امر و نہی کو بیان کر دیا۔ پھر جو ان کو بجا لایا تو اس نے ان کی پریشانیوں اور تکلیفوں کو دور کر دیا۔ لیکن پھر جنہوں نے اس کے امر و نہی کی حد سے تجاوز کیا اس نے انہیں عذاب دیا اور ان سے انتقام لیا۔ پھر جبانہوں نے کہا کہ کیا یہ اللہ نے ہم پر مقدر نہ کیا تھا؟ اگر وہ چاہتا تو ہم نہ کرتے۔
تو ان کو یہ جواب ہے کہ تمہاری کوئی حجت نہیں اور نہ تمہارے کوئی عذر ہی بتلائے کہ جو تم نے کیا وہ نیکی اور خوبی تھا۔ یا یہ کہ تم اس میں معذور تھے۔ لہٰذا تمہارا یہ کلام غیر مقبول ہے، اور جو بیان اور اعذار گزرے ان کی رو سے تم پر حجت تمام ہو چکی۔ اگر حاکم کچھ لوگوں کو ایک رقم دے کر دوسرے شہر بھیجے اور وہ اسے رستے میں کسی ویرانے میں پھینک دیں جہاں کوئی نہ ہو، ادھر حاکم ہی کا ایک دستہ سفر جہاد میں ادھر آ نکلے اور وہ اس مال کو نقطہ سمجھ کر اٹھا لیں اور سنبھال لیں تو حاکم کو پہلے لوگوں کو اس بات پر سزا دینا روا ہوگا کہ انہوں نے حکم میں کوتاہی کی اور مال کی حفاظت نہ کرتے ہوئے اسے ضائع کر دیا۔
پھر اگر وہ یہ عذر کریں کہ آپ ہمیں بتا دیتے کہ آپ پیچھے ایک دستہ بھی روانہ کر رہے ہیں تو اس مال کی خاطر خواہ حفاظت کرتے اور حاکم انہیں یہ جواب دیں کہ یہ بات مجھ پر لازم نہ تھی۔ ہاں اگر میں ایسا کر دیتا تو یہ ایک گو نہ تمہاری امتثالِ امر میں اعانت ہوتی۔ لیکن مال کی حفاظت پھر بھی تم لوگوں کے ذمے تھی۔ جیسے امانتوں کی حفاظت ذمہ ہوا کرتی ہے تو اس ساری گفتگو حجت حاکم کی ہوتی اور وہ انہیں سزا دینے کی صورت میں ظالم بھی ٹھہرے گا۔ چاہے اس نے انہیں آگاہ نہ کر کے ان کی اعانت نہ بھی کی ہو تب بھی۔ البتہ مصلحت دونوں کے بھیجنے میں تھی۔
بلند مثال اللہ کے لیے ہے۔ وہ اپنے ہر فعل حکیم اور عادل ہے۔ اس کی قدرت و مشیئت سے کچھ خارج نہیں ۔ لہٰذا جب وہ بندوں کو خود انہی کی مصلحت کے لیے حدود کی حفاظت اور فرائض قائم کرنے کا حکم دیتا ہے تو یہ اس کا بندوں پر احسان ہے اور انہیں ان کی نفع رساں باتوں کا علم دینا ہے، اور جب اس نے دوسرے امور کو پیدا کیا اور بندوں نے ان دوسرے امور کی وجہ سے اس کے حدود و فرائض میں تفریط و اعتداء سے کام لیا جن کی وجہ سے انہیں ضرر بھی حاصل ہوا اور اس دوسری مخلوق کی پیدائش اس کی حکمت و مصلحت تھی تو وہ ان دونوں تخلیقوں میں عادل و حکیم ہے۔ چاہے اس نے پہلی مخلوق کی ایسی زیادتی کے ساتھ مدد نہ بھی کی ہو جس کی وجہ سے وہ تفریط و عدوان سے محفوظ رہ سکیں ۔ بالخصوص جب وہ جانتا بھی ہے اگر وہ اس زیادتی کو پیدا کرتا ہے تو اس سے زیادہ راجح مصلحت کا فوت ہونا لازم آتا ہے۔ کیونکہ ضدین یکجا نہیں ہوا کرتیں ۔
غرض یہاں یہ بتلانا مقصود ہے کہ تقدیر کو دلیل بنانا ایک بیمار دلیل ہے۔ کیونکہ اس میں علم کی رو سے بیان کردہ حق کی عدم اتباع ہے۔ کیونکہ انسان زندہ، حساس اور متحرک بالارادہ ہے۔
اسی لیے ارشاد نبوی ہے کہ: ’’سب سے سچے نام حارث اور ہمام ہیں ۔‘‘ [سنن ابی داؤد: ۶؍ ۳۹۴۔ کتاب الادب، باب فی تعبیر الاسماء۔]
حارث یہ کا سب و عامل کو کہتے ہیں اور ہمام بہت زیادہ ارادہ کرنے والے کو، اور ہم یہ قصد و ارادہ کے بالکل آغاز کو کہتے ہیں ۔ لہٰذا ہر انسان حارث بھی ہے اور ہمام بھی، اور متحرک بالارادہ بھی ہے، اور یہ حس و شعور کے بعد ہوتا ہے۔ کیونکہ ارادہ مراد کے شعور پر سبوق ہوتا ہے۔ لہٰذا محبت، شوق، طلب، اختیار اور ارادہ وغیرہ کا تصور شعور کے بعد ہی ہوتا ہے، اوریہی حکم ان امور کا بھی ہے جو شعور کی جنس میں سے ہیں ۔ جیسے حسل، علم، سمع، بصر، شم، ذوق اور لمسن وغیرہ۔ پس یہ شعور و ادراک یہ ارادہ محبت اور طلب پر سابق ہوتے ہیں ۔
ہر زندہ اس فطرت پر پیدا کیا گیا ہے کہ وہ مناسب و مفید کی محبت رکھتا ہے اور مکروہ و مضر سے بعض رکھتا ہے۔ لہٰذا جب وہ جب مناسب و نافع چیز کا تصور کرتا ہے تو اس کا ارادہ بھی کرتا ہے اور اسے سے محبت بھی کرتا ہے، اور جب وہ کسی مضر شے کا تصور کرتا ہے تو اس سے بھاگتا ہے اور اس سے نفرت کرتا ہے۔ لیکن یہ تصور کبھی علم تو کبھی ظن و تخمین ہوتا ہے۔ لہٰذا جب اسے معلوم ہو جائے کہ اس کی مراد نافع ہے، مصلحت ہے اور مناسب ہے تو وہ حق و ہدایت پر ہوتا ہے، اور جب اسے اس بات کا علم نہیں ہوتا تو وہ ظن اور خواہش نفس کا پیروکار ہوتا ہے، اور جب ان کے پاس یہ علم آ جاتا ہے کہ اس میں تو کوئی مصلحت نہیں تو وہ حق سے منہ موڑنے کے لیے کسی ضد کی طرح تقدیر کو حجت بناتا ہے۔ ناکہ حق پر اعتماد کرنے کے لیے۔ لہٰذا اپنے ظاہر و باطن میں تقدیر کو وہی حجت بناتا ہے جسے اس بات کا علم نہ ہو کہ وہ حق پر ہے۔
تو جب بات یہی ہے تو پھر رسولوں کے خلاف تقدیر کو حجت بنانے والا اس بات کا مضر ہوگا کہ اس کے پاس اپنے موقف کی کوئی دلیل نہیں ، اور وہ بغیر علم کے کلام کر رہا ہے، اور ایسا آدمی اپنی بات میں باطل پر ہوتا ہے، اور جو بغیر علم کے حجت لائے اس کی حجت مردود ہوتی ہے۔ پھر یا تو وہ جاہل ہوتا ہے تو ایسا آدمی علم سے آراستہ ہو، اور وہ حق جاننے کے باوجود و خواہش نفس کا پیرو ہوتا ہے تو اس کے ذمہ ہے کہ حق پر چلے اور خواہش ترک کر دے۔ پس واضح ہو گیا کہ تقدیر کو حجت بنانے والا بے علم اور خواہشِ نفس کا پیرو ہوتا ہے، اور بھلا اس سے بڑھ کر بے راہ کون ہوگا جو اللہ کی ہدایت کے بغیر خواہش کا پیرو ہو۔
اب اس مقام پر جواب کی کوئی صورتیں ہیں :
۱۔ ایک یہ کہ یہ انقطاع ہے۔ اگر تقدیر کو حجت بنانا روا ہو۔ البتہ جب تقدیر کو دلیل بنانا باطل اور ایسا باطل ہے جو سب فطرتوں اور عقلوں میں لازم جاگزیں ہے تو سرے سے یہ سوال کرنا ہی لائقِ التفات نہیں ، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بات لوگوں کی عقل و فطرت میں راسخ ہے کہ جس سے کسی فعل اختیاری کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو اسے ایسی دلیل لانا روا نہیں ہوتا، اور جو دوسرے سے اپنا قرض مانگے تو اسے جواب میں یہ کہنا جائز نہ ہوگا کہ جب تک اللہ مجھ میں دینے کا داعیہ پیدا نہ کرے گا میں قرض نہ دوں گا۔ اس طرح سے کا خریدا ثمن کے مطالبہ پر یہ نہیں کہہ سکتا کہ جب تک اللہ مجھ میں قدرت اور ادا کا داعیہ وغیرہ پیدا نہ کرے گا میں ثمن نہ دوں گا۔
یہ وہ امر ہے جس پر رب تعالیٰ نے ہر کافر و مسلم کو پیدا کیا ہے۔ چاہے وہ تقدیر کو مانتا ہو یا اس کا منکر ہو۔ تو جب عقل بدیہہ کے نزدیک اس اعتراض کا فاسد ہونا معروف ہے تو کسی کو روا نہیں کہ وہ اس بات کو پیغمبروں کے خلاف پیش کرے۔
۲۔ دوسرا یہ کہ: رسول ایسے کافر سے یہ کہے گا: میں تمہیں ڈرانے والا ہوں ۔ اگر تو نے میرے امر کا امتثال کیا تو سعادت نجات پا جائے گا، اور نہ کرنے کی صورت میں سزا دیا جائے گا۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا پہاڑی پر چڑھ کر یہفرمایا تھا: ’’میں تمہیں صبح کو ہونے والے حملے سے آگاہ کرتا ہوں ! لوگوں نے کہا ٹھیک ہے (ہم سننے اور ماننے کو تیار ہیں ) پھر فرمایا: بھلا بتاؤ تو کہ اگر تمہیں یہ خبر دوں کہ صبح کو تم لوگوں پر حملہ ہونے والا ہے تو کیا تم لوگ میری تصدیق کرو گے؟ لوگوں نے کہا: ہم نے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں پرکھا۔ (کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمیشہ سچ بولتے ہیں )۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تمہیں آگے آنے والے ایک شدید عذاب سے ڈراتا ہوں ۔‘‘ [صحیح البخاری: ۶؍ ۱۱۱۔ کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ الشعراء، عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ مع اختلافِ الفاظ۔] اور یہ بھی فرمایا: ’’میں تو کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں ۔‘‘ [صحیح البخاری: ۸؍ ۱۰۱ ۔ ۱۰۲۔ کتاب الرقاق، باب الانتہاء عن المعاصی عن ابی موسٰی الاشعری رضی اللّٰہ عنہ ۔]
یہ بات معلوم ہو کہ دشمن سے ڈرائے جانے والا کبھی ڈرانے والے کو یہ نہیں کہتا کہ: تو دعا کر کہ اللہ مجھ میں ایسی قدرت پیدا کر دے کہ میں بھاگ نکلوں ۔ بلکہ وہ فرار ہو جانے کی حتیٰ الامکان کوشش کرتا ہے۔ البتہ اللہ فرار میں اس کی اعانت کرتا ہے۔ پس ایسا کلام صرف وہی کرتا ہے جو رسولوں کا مکذب ہو۔ کیونکہ نذیر کو سچا سمجھتے ہوئے کوئی بھی فطرت یہ عذر نہ پیش کرے گی اور جب یہ کلام مکذبین کا ہے تو جو ان پر آفت آئے گی وہی اس پر بھی آئے گی۔
۳۔ جو رب کی تیسری صورت یہ ہے کہ ایسے شخص سے پیغمبر یہ کہے گا کہ اللہ سے ایسی بات کرنا میرے شایاں نہیں ۔ بلکہ میرے ذمے تو صرف اس کی رسالت کا پہنچانا ہے۔ میرے ذمے وہ ہے جو لگایا گیا اور تیرے ذمے وہ ہے جو لگایا گیا۔ میرے ذمہ ابلاغ رسالت ہے، سو وہ میں نے کر دی۔
۳۔ چوتھا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ پیغمبر یہ کہے: نہ مجھے اور نہ کسی اور کو یہ زیبا ہے کہ وہ رب تعالیٰ سے یہ کہے کہ تو نے میرے اندر یہ کیوں نہ پیدا کیا اور وہ کیوں نہ پیدا کیا۔ کیونکہ لوگوں کے اقوال دو قسم پر ہیں ۔ ایک یہ کہ: حکمت کوئی نہیں ، بس نری مشیئت ہے۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور جو چاہتا ہے حکم دے دیتا ہے۔ دوسرا یہ کہ: اللہ کے حکم میں حکمت ہے۔ لہٰذا وہ جو کرتا ہے مبنی پر حکمت ہونا ہے اور وہی ترک کرتا ہے جس میں حکمت نہیں ہوتی۔
تو جب بات یہ ہے تو بندے کو اللہ کے سامنے ایسی بات کہنا روا نہیں ۔ اسی لیے رب تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَ ہُمْ یُسْئَلُوْنَo﴾ (الانبیاء: ۲۳)
’’اس سے نہیں پوچھا جاتا اس کے متعلق جو وہ کرے اور ان سے پوچھاجاتا ہے۔‘‘
۵۔ پانچواں جواب یہ ہے کہ: وہ پیغمبر یہ کہے گا کہ: کسی فعل پر تیری اعانت کرنا، یہ اس کا فعل ہے، اور وہ جو فعل بھی کرتا ہے کسی حکمت پر مبنی ہوتا ہے، اور جو نہیں کرتا وہ حکمت نہ ہونے کی وجہ سے نہیں کرتا، اور رہی نفسِ طاعت تو وہ تیرا فعل ہے جس کی مصلحت تجھے ہی ملے گی، اور اگر وہ اس باب میں تیری اعانت کرتا ہے تو یہ اس کا تجھ پر فضل ہوگا، اور اگر وہ نہیں کرتا تو یہ اس کا تیرے ساتھ عدل ہوگا۔ پس اس کا تجھے مکلف اس کی کسی حاجت کی وجہ سے نہیں ۔ جو وہ تیری اعانت کا محتاج بھی ہو۔ جیسا کہ آقا اپنے غلام کو اپنی مصلحت کے لیے امر دیتا ہے۔پھر اگر غلام غیر قادر ہو تو آقا اس کی اعانت کرتا ہے تاکہ امر کی مراد کی مصلحت اسے ملے۔ بلکہ اللہ کا امر ارشاد، ہدایت اور بندوں کو ان کی دنیا و آخرت کے حق میں مفید باتوں کی رہنمائی ہے۔ پس جو نفع و نقصان والے فعل کو جان لیتا ہے اور یہ کہ اسے نافع فعل کی احتیاج ہے۔ وہ ایسی بات کبھی نہیں کرتا کہ مجھے اس امر کی احتیاج تو ہے، پر کروں گا تب جب مجھ میں اس کا فعل تخلیق ہوگا۔ بلکہ ایسا آدمی تو امرِ الٰہی کے سامنے سراپا تسلیم و رضا ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ اللہ اس کی اس فعل پر اعانت فرماتا ہے۔
جیسے اگر کسی کو یہ کہا جائے کہ وہ دشمن تجھ پر حملہ کرنے والا ہے، یا یہ درندہ تجھے پھاڑ کھائے گا، یا سیلابی ریلا تیر اگھر ڈوبنے والا ہے، تو وہ ہر گز یہ نہ کہے گا کہ میں اس وقت بھاگوں یا بچوں گا نہیں ۔ جب تک اللہ مجھ میں بھاگنا پیدا نہ کرے گا، بلکہ وہ اسی وقت بھاگ کھڑا ہوگا اور اللہ سے اس پر اعانت مانگے گا۔ اسی طرح کھانے پینے کی اور لباس پوشاک کی ضرورت کے وقت بھی وہ یہ نہیں کہتا کہ جب تک اللہ مجھ میں یہ چیزیں پیدا نہ کرے گا۔ میں نہ کھاؤں پیوں گا اور نہ کچھ پہنوں گا۔ بلکہ وہ ان باتوں کا ارادہ اور کوشش کرے گا، اور اللہ سے اس کی تیسیر کا سوال کرے گا۔
پس انسانی فطرت اس بات پر بنائی گئی ہے کہ وہ قابلِ احتیاج چیزوں کو پسند کرتی ہے اور مضر اشیاء کو دفع کرتی ہے، اور اس پر رب تعالیٰ سے استعانت کرتی ہے۔ یہ اس فطرت کا موجب ہے جس پر اللہ نے بندوں کو پیدا کیا ہے۔ اسی لیے اللہ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ مامورات کی بجا آوری میں اس سے اعانت کا سوال کریں۔
۶۔ چھٹا جواب یہ ہے کہ: یہ کہا جائے کہ یا تو ایسی بات طاعت کا مرید ہی کرے گا جو جانتا ہے کہ یہ اس کے لیے نافع ہے یا وہ کرے گا جو اس کے نافع ہونے کو نہیں جانتا، اور دونوں سے ہی ایسی بات کا ہونا ممتنع ہے۔ وہ یوں کہ جو طاعت کو اور اس کے نافع ہونے کو جانت اہے وہ عاجزی کی صورت کے سوا ہر صورت میں اطاعت کرے گا۔ کیونکہ قدرت کے ساتھ طاعت کا ارادۂ جازمہ طاعت کو واجب کرتا ہے۔ کیونکہ طاعت، قدرت، اور داعی تام کے وجود کے ساتھ مقدور کے وجود کو واجب کرتی ہے۔ لہٰذا جب طاعت شہادتین کا تکلم ہے تو جس میں اس کا ارادۂ جازمہ ہوگا وہ شہادتین ضرور پڑھے گا۔ کیونکہ قدرت اور داعی تام موجود ہے، اور جو ایسا نہ کرے گا تو معلوم ہو جائے گا کہ وہ ایسا کرنا ہی نہیں چاہتا۔
اگر وہ طاعت چاہنا ہی نہیں تو رسول سے اس کا یہ مطالبہ ہی ممتنع ہوگا کہ اللہ اس میں طاعت کو پیدا کرے۔ کیونکہ اگر وہ رسول سے اس کے اپنے اندر پیدا کیے جانے کا مطالبہ کرے گا تو وہ طاعت کا مرید ٹھہرے گا، اور سوائے مرید کے کوئی ایسی بات کر نہیں سکتا۔ طاعتِ مقدورہ کا مرید وہی ہوگا جو اسے کر گزرے گا۔
اس کی مزید تفصیل ساتویں جواب میں ملاحظہ ہو:
۷۔ ساتواں جواب یہ ہے کہ: اسے یہ کہا جائے گا کہ تو ایمان لا سکتا ہے اور اس پر قادر ہے۔ اگر تو نے اس کا ارادہ کیا تو کرے گا، اور اگر تم ایمان نہیں لاتے تو یہ تمہارا ارادہ نہ ہونے کی وجہ سے ہے ناکہ عدم قدرت اور عجزہ کی وجہ سےہے۔ یہ بات بیان کی جا چکی ہے کہ امر میں شرط قدرت فعل سے قبل عاصی اور مطیع دونوں میں ہوتی ہے۔ البتہ مع الامر یہ صرف مطیع میں ہوتی ہے۔ بخلاف مطیع کے مختص کے۔ کہ وہ صرف عل کے ساتھ پائی جاتی ہے۔
ہم بیان کر چکے ہیں کہ جس نے قدرت کو ایک ہی نوع قرار دیا ہے، جو یا تو فعل کے مقارن ہوگی یا فعل پر سابق ہوگی اس نے خطا کی ہے۔ یہ اس وقت ہے جب دو میں سے ایک نوع سے مراد فعل کو مستلزم امر کا مجموعہ ہو۔ جیسا کہ اکثر اہل کلام کی اصطلاح میں ہے۔ قدرت سے صرف مصحح ہی مراد ہو تو تب یہ قدرت ایک ہی نوع ٹھہرے گی۔ کیونکہ قدرت کی بابت کہ آیا وہ فعل کے ساتھ ہوتی ہے یا اس سے قبل؟ لوگوں کے متعدد اقوال ہیں :
(۱)....ایک یہ کہ قدرت صرف فعل کے ساتھ ہوگی۔ اس کا مبنی یہ امر ہے کہ قدرت فعل کو مستلزم ہے، اور وہ فعل کے ساتھ ہی ہوگی۔ پھر ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ قدرت عرض ہے اور عرض دو زمانوں میں باقی نہیں رہتا۔
(۲)....دوسرا یہ کہ قدرت صرف فعل سے قبل ہوتی ہے۔ اس قول کا مبنی یہ ہے کہ قدرت صرف مصحح ہے، اور وہ فعل کے مقارن نہیں ہوتی۔
(۳)....تیسرا یہ کہ قدرت فعل سے قبل اور فعل کے ساتھ دونوں میں ہوتی ہے، اور یہ اصح قول ہے۔ پھر ان میں سے کوئی یہ کہتا ہے کہ قدرت کی دو انواع ہیں : مصححہ اور مستلزمہ۔ مصححہ فعل سے قبل ہوتی ہے اور مستلزمہ فعل کے ساتھ ہوتی ہے۔
کسی کا یہ قول ہے کہ قدرت صرف مصححہ ہی ہوتی ہے، اور وہ فعل سے قبل اور ساتھ دونوں زمانوں میں ہوتی ہے، اور رہا استلزام تو وہ ارادہ مع قدرت کے وجود کے ذریعے حاصل ہوتی ہے، ناکہ نفسِ قدرت و ارادہ سے جو قدرت کے مسمی کا جز ہے، اور یہ قول لغتِ قرآن کے موافق ہے۔ بلکہ یہ سب امتوں کی لغات میں ہے، اور یہ اصح قول ہے۔
اب ہم یہ کہیں گے: تو قادرِ متمکن ہے۔ اس اللہ نے تم میں ایمان لانے پر قدرت پیدا کی ہے۔ لیکن تو خود ایمان نہیں لانا چاہتا، اور اگر وہ پیغمبر سے یہ کہے کہ تو اللہ سے یہ کہہ کہ وہ مجھے ایمان لانے والا بنا دے۔ تو وہ پیغمبر اسے کہے گا: اگر تو تو اللہ سے ایمان مانگتا ہے تو تو ایمان کا ارادہ کرنے والا ہے، اور اگر تو نہیں مانگتا تو تو اپنی اس بات میں جھوٹا ہے کہ وہ مجھے ایمان لانے کا ارادہ کرنے والا بنا دے۔
اگر وہ نبی سے یہ کہے کہ تو مجھے ایک ہی ایسی بات کا امر کیسے کرتا ہے جس کا اس نے مجھے ارادہ کرنے والا بنایا ہی نہیں ۔ تو یہ ارادہ کی طلب نہیں بلکہ مخاصمہ ہوگا، اور اس کا جواب دینا رسول کے ذمے نہیں ۔ بلکہ اس بات کا جواب نہ دینا انقطاع نہیں ۔ کیونکہ کسی کو بھی اجازت نہیں کہ وہ تقدیر کو آڑ بنائے۔
۸۔ آٹھواں جواب یہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ جسے بھی کوئی دوسرا کسی فعل کی طرف بلاتا اور اس کا امر دیتا ہے یا تو وہ اس بات کا مضر ہوگا کہ اللہ بندے کے ارادہ و افعال کا خالق ہے اور بندے وہی کرتے ہیں جو وہ چاہتا ہے۔ یا پھر وہ اس بات کا مضر نہ ہوگا، اور اس بات کا قائل ہوگا کہ بندے وہ بھی کرتے ہیں جو اس نے نہیں چاہا، اور وہ رب کےارادہ کے بغیر اپنے جیوں کے ارادات کو پیدا کرتے ہیں ۔
پھر اگر تو وہ شخص پہلی قسم میں داخل ہے تو وہ اس بات کا مضر ہے کہ اس پر یا کسی دوسرے پر ظلم کرنے والے ہر ظالم کے ارادۂ ظلم کو پیدا کیا گیا سو اس نے ظلم کیا، اور وہ ظالم کو اس بارے معذور نہیں سمجھتا، اور اسے کہا جائے گا کہ تو اس بات کا مضر ہے کہ مامور کی مخالفت کرنے والے کے لیے یہ بات حجت نہیں چاہے وہ جو کوئی بھی ہو۔
پس ثابت ہوا کہ تقدیر کو آڑ بنا کر پیغمبروں کو لاجواب کرنے کی کوشش دونوں میں سے کسی کے لیے ہم روا نہیں چاہے وہ مضر ہو یا منکر ہو۔
اگر کوئی یہ کہے: مدعی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک کورا کاغذ ہوتا ہے۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ: یہی معاملہ ’’امر‘‘ کا بھی ہے کہ نفس امر میں حق یا تو اِن کا قول ہوگا یا اُن کا۔ دونوں صورتوں میں تقدیر کو حجت بنانا باطل ہے۔ پس مثبتین اور نفاۃ دونوں کا اس بات کے باطل ہونے پر اتفاق ہوا۔
۹۔ نواں جواب : یہ کہا جائے کہ رسالت کا مقصود مکذب اور عاصی کو عذاب کی خبر دینا ہے۔ جیسا کہ سیّدنا موسیٰ علیہ السلام و ہارون علیہ السلام نے فرعون سے یہ کہا تھا:
﴿اِنَّا قَدْ اُوْحِیَ اِلَیْنَآ اَنَّ الْعَذَابَ عَلٰی مَنْ کَذَّبَ وَ تَوَلّٰیo﴾ (طٰہ: ۳۸)
’’بے شک ہم، یقیناً ہماری طرف وحی کی گئی ہے کہ بے شک عذاب اس پر ہے جس نے جھٹلایا اور منہ پھیرا۔‘‘
اب اگر تو یہ شخص یہ کہتا ہے کہ یہ کفر میں پیدا ہوا تھا اور ایمان کے ارادہ میں پیدا نہ ہوا تھا تو اسے یہ جواب دیا جائے گا کہ یہ بات مکذب و متولی کے عذاب دیے جانے کے متناقض نہیں ۔ پس اگر اس نے تجھ میں ایمان کو پیدا نہیں کیا تو تو ان لوگوں میں سے ہے جن کو وہ عذاب دے گا، اور اگر اس نے تجھے مومن بنایا ہے تو تو ان لوگوں میں سے جن کو اس نے سعید بنایا ہے، اور ہم اس کے رسول ہیں جو تجھے پیغام پہنچاتے اور تجھے ڈر سناتے ہیں ، اور رسول کا مقصود حاصل ہو گیا اور بلاغ مبین بھی ہو گیا۔ اب یہ مکلف صرف اپنے رب سے جھگڑنے میں لگا ہے۔ کیونکہ اس نے اسے اس بات کا حکم دیا ہے جس پر وہ اس کی اعانت نہیں کر رہا، اور یہ بات نہ رسول سے متعلق ہے اور نہ اس کے حق میں مضر ہے۔ اللہ کسی کو جوابدہ نہیں اور سب اسے جوابدہ ہیں ۔
۱۰۔ دسواں جواب یہ ہے کہ یہی سوال خود اس امامی مصنف پر بھی وارد ہوتا ہے اور دیگر معتزلہ اور ان رافضہ پر بھی وارد ہوتا ہے جو ابو الحسین بصریٰ [اس کا تعارف گزر چکا ہے۔] کے پیروکار ہیں ۔ کیونکہ اس کا قول ہے کہ داعی اور قدرت کے ہوتے ہوئے مقدور کا وجود واجب ہوتا ہے، اور یہ کہ اللہ نے بندے میں داعی کو پیدا کر دیا ہوا ہے، اور ابو الحسین اور تقدیر کے باب میں اس کے پیروکاروں کا قول ہے اور یہی محققین اہل سنت کا بھی قول ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے بندے کی قدرت و ارادہ کو پیدا کیا ہے، اور یہ اللہ کے بندے کے فعل کی تخلیق کو مستلزم ہے، اور ان کا قول ہے کہ بندے حقیقت میں اپنے فعل کا فاعل اور اس کا محدث ہے۔ اسے فعل کا فاعل و محدث اللہ نے بنایا ہے۔
یہ اہل سنت کی جمہور جماعتوں کا اور اکثر اصحاب اشعری کا قول ہے۔ جیسے ابو اسحاق اسفرائینی، ابو المصالی امام الحرمین الجوینی وغیرہ۔
تو جب معتزلہ اور شیعہ کے محققین کا یہ قول تھا اور یہی جمہور اہلِ سنت اور ان کے آئمہ کا بھی قول ہے تو اختلاف قدریہ اور جہمیہ میں باقی رہ گیا کہ قدریہ کا یہ قول ہے کہ: داعی بندے کے قلب میں اللہ کی مشیئت و قدرت کے بغیر حاصل ہوتا ہے اور جہمیہ کا یہ قول ہے کہ بندے کی قدرت کی اس کے فعل میں کسی بھی اعتبار سے تاثیر نہیں ہے، اور بندہ اپنے فعل کا فاعل نہیں ۔ جو جہم اور اس کے پیروکاروں کا قول ہے۔ اگرچہ ان میں سے ایک کسبِ غیر معقول کو بھی ثابت کرتا ہے۔ جیسا کہ اشعری اور ان کے ہم نواؤں نے ثابت کیا ہے۔
جب اصل میں یہ نزاع صرف قدریہ اور جہمیہ میں رہ گیا کہ قدریہ اس بات کی نفی کرتے ہیں ۔ اللہ طاعات میں بندوں کا معین ہے اور وہ ان میں طاعات کا داعیہ پیدا کرتا ہے، اور اس کے ساتھ مومنوں کو خاص کرتا ہے۔ ناکہ کافروں کو، اور غالی جہمیہ جبریہ یہ کہتے ہیں کہ بندے کچھ بھی نہیں کرتے اور ان کی کسی بات پر قدرت ہے۔ یا یہ کہ ان کے پاس اگر قدرت ہے تو وہ اس کے ذریعے کچھ بھی نہیں کرتے، اور نہ اس قدرت کی کسی شے میں تاثیر ہے۔ تو یہ دونوں اقوال ہی باطل ہیں ۔
مزید یہ کہ اکثر شیعہ جہمیہ مجبرہ کا قول کرتے ہیں ۔
رہے اسلاف جو خلفائے اربعہ کی امامت کے قائل ہیں ۔ ان کے نزدیک یہ دونوں اقوال ہی باطل ہیں ۔ پس معلوم ہوا کہ درست قول اہلِ سنت کا ہی ہے۔ پھر اگر ان میں سے کسی سے خطا ہوئی بھی ہے تو ان کی خطا شیعہ کی خطا سے بھی بڑی ہے۔
یہ سوال اس پر بھی وارد ہوتا ہے جو تقدیر کو دلیل بنانا جائز سمجھتا ہے، اور نافرمانی ہو جانے پر اپنے اور دوسرے کے لیے یہ عذر پیش کرتا ہے کہ یہ میرے مقدر میں لکھا تھا، اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کے مشہود، حقیقت کونیہ کے شہود میں ہیں ۔ ایسے لوگ بہت ہیں ۔ ان میں سے کوئی تو اس بات کا مدعی ہے کہ وہ اہل تونیہ کے ان خواص عارفین میں سے ہے جو توحیدِ ربوبیت میں فنا ہو گئے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ عارف جب شہودِ توحید ربوبیت میں فنا ہو جاتا ہے تو اس کے نزدیک اچھائی اور برائی ایک ہو جاتی ہے، اور کسی کا یہ قول ہے کہ جسے ارادۂ کا شہود ہو جاتا ہے اس سے امر ساقط ہو جاتا ہے، اور کوئی کہتا ہے: خضر نے تکلیف ساقط ہے کیونکہ انہیں ارادہ کا شہود ہو گیا تھا۔ یہ بات متعدد متاخرین شیوخ، عبادت گزار، صوفیہ، فقراء میں بلکہ متعدد فقہاء، امراء اور عوام میں پائی جاتی ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ لوگ ان معتزلہ اور شیعہ سے زیادہ بدتر ہیں جو امر و نہی کے قائل ہیں ، اور تقدیر کا انکار کرتے ہیں ۔ انہیں جیسے لوگوں کی بابت یہ معتزلہ اور شیعہ نام نہاد اہلِ سنت کی بابت زبانِ طن دراز کرتے ہیں ۔ کہ جو امر و نہی، وعدہ و وعید، ادائے واجبات اور ترکِ محرمات کا قائل ہو، اور یہ نہیں کہتا کہ اللہ بندوں کے فعل کا خالق ہے اور وہاس پر قادر نہیں ، اور نہ اس نے معاصی کو چاہا۔ اس نے امر کی تعظیم، ظلم سے اللہ کی تنزیہ اور اپنے اوپر اللہ کی حجت قائم کرنے کا ارادہ کیا۔ لیکن اس سے دلیل نہیں بن پڑی اور وہ اللہ کی قدرتِ تامہ، مشیئت عامہ اور خلق شاملہ میں اور اس کے عدل و حکمت، امر و نہی اور وعدہ و وعید میں جمع کی صورت پیدا نہیں کر سکا۔ پس اس نے اللہ کے حمد کو تو ٹھہرایا لیکن اس کے حکومتِ کاملہ کو نہ ٹھہرایا، اور جو لوگ اللہ کے لیے قدرت و مشیئت اور خلق کو ثابت کرتے ہیں اور اس کے ذریعے اس کے امر و نہی اور وعدہ و وعید سے معارضہ کرتے ہیں ، وہ یہود و نصاریٰ سے بھی بدتر ہیں ۔ جیسا کہ اس امامی مصنف نے کہا ہے:
رہا حق تو وہ جو بھی کہے گا ہم اسے ضرور قبول کریں گے، اور کسی کو بھی حق نہیں کہ وہ بدعت کا رد بدعت سے کرے، اور باطل کا مقابلہ باطل سے کرے۔ اب اگرچہ تقدیر کے منکر بدعتی ہیں ۔ لیکن تقدیر کے ذریعے امر کے خلاف دلیل بنانے والے ان سے بھی بدتر بدعتی ہیں ۔ اگر وہ مجوسیوں کے مشابہ ہیں ، تو یہ مشرکوں اور مکذبین رسول کے مشابہ ہیں جو یہ کہتے تھے: اگر اللہ چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ دادا شرک نہ کرتے اور نہ ہم کسی شے کو حرام قرار دیتے۔
دورِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے اواخر میں قدریہ کا یہ جماعت پیدا ہو گئی تھی۔ لیکن تقدیر کی آڑ میں اوامر کو رد کرنے والے تو متقدمین مسلمانوں میں ان کی کوئی قابلِ ذکر جماعت نہیں تھی۔ ان کی کثرت متاخرین میں ہوئی۔ انہوں اس عقیدہ کو حقیقت کا نام دیا۔ پھر اس حقیقت کو شریعت کے معارض ٹھہرایا، اور یہ نہ سمجھا کہ حقیقت دینیہ شرعیہ میں جو قلوب کے احوال کو متضمن ہے۔ جیسے اخلاص، صبر، شکر، توکل اور اللہ کی محبت، اور حقیقت کونیہ قدریہ میں فرق ہے۔ جس پر ایمان تو لایا جاتا ہے لیکن اسے دلیل نہیں بنایا جاتا۔ البتہ مصائب کے وقت اس کی طرف تسلیم و رضا کے ساتھ رجوع کیا جاتا ہے۔
پس عارف مصائب میں تقدیر کا مشاہدہ کرتا ہے اور اس پر تسلیم و رضا کے ساتھ ایمان لاتے ہوئے گناہوں سے توبہ و استغفار کرتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَاصْبِرْ اِِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ﴾ (غافر: ۵۵)
’’پس صبر کر، یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے اور اپنے گناہ کے لیے بخشش مانگ۔‘‘
پس بندہ اس بات کا مامور ہے کہ وہ مصائب پر صبر کرے اور مصائب میں استغفار کرے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام و حضرت آدم علیہ السلام کے درمیان بحث والی حدیث:
یہ حدیث بھی اسی باب سے ہے جسے صحیحین وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا گیا ہے، اور ایک جید سند کے ساتھ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’آدم علیہ السلام و موسیٰ علیہ السلام میں جھگڑا ہو گیا۔‘‘
ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں :
’’حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: ’’مجھے آدم دکھلائیے جنہوں نے اپنی خطا کی وجہ سے ہمیں جنت سے نکلوایا۔ پس موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اے آدم! آپ ابو البشر ہیں ۔ اللہ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، اور اپنی روحسے آپ میں پھونکا اور فرشتوں سے آپ کو سجدہ کروایا۔ تو آپ نے خود کو اور ہمیں جنت سے کیوں نکلوایا؟‘‘ تو آدم علیہ السلام نے فرمایا: تو وہ موسیٰ ہے جسے اللہ نے اپنے کلام کے ساتھ چنا، اور اپنے ہاتھ سے تیرے لیے تورات لکھی۔ سو تو نے اس میں لکھا دیکھا ہوگا: ’’اور آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور بہک گیا۔‘‘ (یہ) میری پیدائش سے کتنا پہلے (لکھا ہوا تھا)؟ انہوں نے کہا: چالیس برس پہلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب آدم موسیٰ علیہ السلام پر دلیل میں غالب آ گئے۔ پس آدم موسیٰ پر دلیل میں غالب آ گئے۔‘‘ [صحیح البخاری: ۹؍ ۱۴۸۔ کتاب التوحید: باب وکلم اللّٰہ موسٰی تکلیما‘‘ عن ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ۔]
متعدد جماعتوں کا اس حدیث کے بارے میں یہ گمان ہے کہ آدم نے اپنے گناہ پر تقدیر کو دلیل بنایا ہے، اور اسی دلیل سے وہ موسیٰ علیہ السلام پر غالب آ گئے، اور ان میں سے تحقیق و عرفان کی مدعی ایک جماعت اس حدیث کو دلیل بنا کر گناہوں پر تقدیر کو آڑ بناتی ہے، اور ایک جماعت کا یہ قول ہے کہ: اس حدیث سے آخرت میں استدلال تو درست ہے۔ البتہ دنیا میں نہیں ، اور ایک جماعت یہ قول کرتی ہے کہ: یہ حدیث ان خواص کی تو حجت ہے جو قدر کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔ البتہ عوام کی دلیل نہیں ، اور جبائی وغیرہ ایک جماعت نے اس حدیث کا ہی انکار کر دیا ہے، اور کسی نے تاویلاتِ فاسدہ کا انبار لگا دیا ہے۔ مثلاً:
٭ آدم اس لیے دلیل میں غالب آئے کیونکہ انہوں نے توبہ کر لی تھی۔
٭ آدم موسیٰ علیہ السلام کے باپ تھے اور بیٹے کو حق نہیں کہ وہ باپ کو ملامت کرے۔
٭ ایک شریعت میں یہ فعل گناہ تھا جبکہ دوسری میں نہیں ۔
غرض یہ سب اقوال اس حدیث کے مقصود سے ہٹے ہوئے ہیں ۔ کیونکہ حدیث تو صرف اس بات کو متضمن ہے کہ مصائب میں تقدیر کے آگے تسلیم ہے۔ کیونکہ آدم کو موسیٰ نے اس بات پر ملامت نہ کی تھی جو گناہ میں اللہ کا حق تھا۔ بلکہ ذریتِ آدم کو لاحق ہونے والی مصیبت پر ملامت کی تھی۔ اس لیے موسیٰ نے یہ عرض کیا تھا کہ مجھے وہ آدم تو دکھلائیے جنہوں نے خود کو اور ہمیں جنت سے نکلوایا، اور یہ بات بھی اس حدیث کے ایک طریق میں مروی ہے ناکہ جملہ طرق میں ۔
اور یہ حق بات ہے۔ کیونکہ آدم نے گناہ سے توبہ کر لی تھی، اور موسیٰ جانتے تھے کے تائب کو ملامت نہیں ، اور خود انہوں نے بھی تو توبہ کی تھی جب انہوں نے یہ کہا تھا:
﴿رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلِیْ﴾ (القصص: ۱۶)
’’اے میرے رب! یقیناً میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا، سو مجھے بخش دے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿سُبْحٰنَکَ تُبْتُ اِلَیْکَ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَo﴾ (الاعراف: ۱۳۳)
’’تو پاک ہے، میں نے تیری طرف توبہ کی اور میں ایمان لانے والوں میں سب سے پہلا ہوں ۔‘‘اور فرمایا:
﴿فَاغْفِرْلَنَا وَ ارْحَمْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الْغٰفِرِیْنَo وَ اکْتُبْ لَنَا فِیْ ہٰذِہِ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ اِنَّا ہُدْنَآ اِلَیْکَ﴾ (الاعراف: ۱۵۵ ۔ ۱۵۶)
’’سو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر اور تو بخشنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔ اور ہمارے لیے اس دنیا میں بھلائی لکھ دے اور آخرت میں بھی، بے شک ہم نے تیری طرف رجوع کیا۔‘‘
پھر یہ کہ گنہگار بندے تو بے شمار ہیں ۔ تو لوگوں کو چھوڑ کر صرف آدم کو ملامت کرنا بلا وجہ ہے۔
پھر یہ کہ اگر یہ دلیل مقبول ہو تو اسے ابلیس بھی حجت بناتا، اور قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود اور قوم فرعون بھی اس کو دلیل بناتیں ۔ اگر موسیٰ پر آدم نے گناہ کی دلیل میں قدر کو پیش کیا ہوتا تو فرعون بھی قدر کو آپ پر پیش کرتا، اور اگر تقدیر گنہگار سے ملامت کے رفع کی دلیل ہوتی تو ابلیس فرشتوں کو سجدہ سے انکار کے گناہ پر تقدیر کو پیش کرتا۔ درحقیقت یہ اللہ کے خلاف سند پیش کرنا ہے۔
اللہ کے یہ دشمن قدریہ روزِ قیامت جہنم کی طرف کھینچ کر لے جائے جائیں گے۔ ان کی دلیل ان کے رب کے حضور باطل ٹھہرے گی۔ ان پر اللہ کا غضب ہوگا اور انہیں دردناک عذاب ملے گا۔
قدریہ کی مذمت میں مروی آثار جو ان کو شامل ہیں ، وہ قدر کے ان منکرین سے زیادہ شامل ہیں جو امر کی تعظیم کرتے ہیں اور ظلم سے رب تعالیٰ کو منزہ قرار دیتے ہیں ۔ اسی لیے علماء قدریہ کو مرجئہ سے ملاتے ہیں ۔ کیونکہ مرجئہ ایمان اور وعید کے امر کو دوگنا کر کے بیان کرتے ہیں ۔ اسی طرح یہ قدریہ اللہ پر ایمان، تقویٰ اور وعید کے امر کو بڑھاتے ہیں اور جو ایسا کرتا ہے وہ ہر شریعت میں ملعون ہے۔ جیسا کہ مروی ہے کہ قدریہ اور مرجئہ پر ستر پیغمبروں کی زبانی لعنت کی گئی ہے۔
اب تقدیر میں باطل طور پر گھسنے والے لوگ تین قسم کے ہیں :
(۱)....تقدیر کے جھٹلانے والے۔
(۲)....امر و نہی کو تقدیر کی آڑ میں دفع کرنے والے۔
(۳)....اور امر و قدر کو یکجا کرنے پر اللہ تعالیٰ پر طعن کرنے والے، اور یہ سب سے بدتر ہیں ۔ اس باب میں ابلیس سے ایک مناظرہ بھی منقول ہے۔ پھر ان کے بعد ان کا اثر ہے جو تقدیر کی آڑ لے کر امر و نہی کو دفع کرنے والے ہیں ، اور ان کے بعد اس شر میں تقدیر کے انکاریوں کی جگہ ہے۔
جب آپ اسلاف کو دیکھتے ہیں کہ وہ تقدیر کے جھٹلانے والوں پر زیادہ سختی کرتے ہیں ، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ امر و نہی کو دفع کرنے والے اس بات کو زیادہ ظاہر نہیں کرتے اور نہ ان کی وجودی تعداد زیادہ ہیں ۔ وگرنہ یہ زیادہ بدتر ہیں ۔
جیسا کہ روافض کے عقائد خوارج سے زیادہ بدتر ہیں ۔ لیکن خوارج تلوار اٹھانے اور قتال کرنے میں روافض سے زیادہ جری ہیں ۔ چونکہ ان لوگوں نے اپنا قول زیادہ ظاہر کیا، اور مسلمانوں سے مقاتلہ کیا تو ان کے بارے میں وہ باتیںمروی ہوئیں جو ان منافقوں کے بارے میں مروی نہ ہوئیں ۔ جو زبان سے کچھ کہتے ہیں اور دل میں کچھ اور رکھتے ہیں ۔
غرض یہ بات ظاہر ہو گئی کہ آدم نے موسیٰ کے سامنے تقدیر کو مصائب اعتبار سے حجت پکڑا جو انہیں اور ان کی ذریت کو لاحق ہوئے، اور مصیبت ایک قسم کی جزع فزع لاتی ہے جو مصیبت کا سبب بننے والے کی ملامت کو مقتضی ہوتی ہے۔ سو ان کے سامنے یہ ظاہر ہو گیا کہ یہ مصیبت اور اس کا سبب مقدور اور مکتوب تھا، اور بندہ امرِ الٰہی پر صبر کرنے کا مامور ہے، اور اسے تسلیم و رضا کا حکم ہے کہ یہ بھی رب تعالیٰ کے اوامر میں سے ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے:
﴿مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِیبَۃٍ اِِلَّا بِاِِذْنِ اللّٰہِ وَمَنْ یُّؤْمِنْ بِاللّٰہِ یَہْدِ قَلْبَہُ﴾ (التغابن: ۱۱)
’’کوئی مصیبت نہیں پہنچی مگر اللہ کے اذن سے اور جو اللہ پر ایمان لے آئے وہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے۔‘‘
اسلاف اکابر جیسے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: یہ وہ شخص ہے جسے مصیبت پہنچتی ہے اور وہ جانتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور وہ تسلیم و رضا سے رہتا ہے۔
اس مصنف نے جو یہ کلام کہا ہے اور اس کلام اسے کہا جاتا ہے جو تقدیر کو گناہوں پر آڑ بناتا ہے اور پھر یہ بھی جانتا ہے کہ یہ دلیل صریح عقل کی رو سے ایمان بالقدر کے ساتھ ہر ایک کے نزدیک باطل ہے۔
اس دلیل کا بطلان تکذیب بالقدر کو لازم نہیں ۔ کیونکہ نبی کی جبلت میں جلبِ منفعت اور دفع مضرت شامل ہے۔ ان کی زندگی اور دین و دنیا کی صلاح و فلاح اسی میں ہے۔ وہ اسی بات کا امتثال کریں گے جس میں ان کی منفعت کا حصول اور مضرت کا فعیہ ہو۔ چاہے کوئی رسول ان کی طرف مبعوث ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔ لیکن نفع و ضرر کا علم ان کے مقاصد اور عقول کے بقدر ہوتا ہے، اور رسولوں کی بعثت مصالح کی تکمیل اور مفاسد کی تقلیل و تعطیل کے لیے ہوتی ہے۔ یوں رسولوں کے پیروکار اس باب میں سب سے کامل ترین انسان ہوتے ہیں ۔ جبکہ رسولوں کے جھٹلانے والے اس کے برعکس سب سے نکمے ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ مفاسد کے پیچھے چل کر اپنی مصالح کو برباد کر بیٹھتے ہیں ۔ یہ بدترین لوگ ہوتے ہیں ۔ پھر اس کے ساتھ متعدد امور انہیں لازم ہوتے ہیں جن کو یہ لیتے ہیں اور متعدد امور ایسے ہوتے ہیں جن سے اجتناب کرتے ہیں ، او ریہ سب ان امور کو دفع کرتے ہیں جو ان ضرر پہنچاتے ہیں ۔ جیسے ظلم اور فواحش وغیرہ۔
لہٰذا اگر ان میں سے ایک دوسرے کی جان، مال، عزت و آبرو پر کوئی ظلم ڈھائے تو وہ اس سے قصاص کا مطالبہ کرتا ہے، اور اسے سزا دیے جانے کا خواہاں ہوتا ہے، اور کوئی عقل والا اس باب میں دوسرے سے قدر کے عذر کو قبول نہیں کرتا۔ لہٰذا اگر کوئی ظالم یہ کہے کہ یہ میرے مقدر میں تھا جو میں نے کہا۔ میرے عذر قبول کرو۔ تو دوسرے اسے یہ کہتے ہیں کہ اگر تیرے ساتھ ایسا ہو اور ظالم تقدیر کا عذر کرے تو خود تو اس کے عذر کو نہ مانے گا۔
اس دلیل کو ماننا وہ فساد لاتا جس کے ہوتے ہوئے صلاح ممکن نہیں ۔ تو جب تقدیر کو حجب بنانا سب لوگوں اور ان کی عقلوں کے نزدیک مردود ہے۔ حالانکہ سب لوگ تقدیر کے قائل بھی ہیں تو معلوم ہوا کہ تقدیر کو ماننا یہ تقدیر کو دلیل بنانے کو دفع کرنے کے مناض نہیں ۔ بلکہ اس پر ایمان لازم ہے۔ البتہ اس کو دلیل بنانے کو رد کرنا بھی لازم ہے۔ سو جب جدل حقو باطل میں تقسیم ہوتا ہے، اور کلام بھی حق و باطل میں منقسم ہوتا ہے اور لغتِ عرب میں یہ قاعدہ ہے کہ جب ایک جنس کی دو انواع ہوں ، اور ایک جنس دوسرے سے اخص اور اشرف ہو تو دونوں میں سے خاص نام اشرف کا اور غیر اشرف کا عام ہونا ہوتا ہے۔ جیسے جائز عام اور جائز خاص کا لفظ، مباح خاص اور مباح عام کا لفظ، ذوی الارحامِ عام اور ذوی الارحام خاص کا لفظ۔ حیوانِ عام اور خاص کا لفظ کہ اہل کلام حیوان کا اطلاق غیر ناطق پر کرتے ہیں ۔ کیونکہ ناطق کا لفظ انسان کے ساتھ خاص ہے گو وہ حیوان بھی ہے۔ ایسا ہی انہوں نے جدل اور کلام کے الفاظ کے ساتھ کیا ہے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں : فلاں صاحبِ کلام اور متکلم ہے۔ جبکہ وہ بغیر علم کے کلام کرتا ہو۔ اسی لیے اسلاف نے اہلِ کلام کی مذمت کی ہے۔ ایس طرح جدل ہے کہ جب کلام حجتِ صحیحہ کے ساتھ نہ ہو تو وہ جدل محض ہوتا ہے، اور تقدیر کو دلیل بنانا بھی اسی باب میں سے ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں :
’’ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے آئے اور ارشاد فرمایا: کیا تم دونوں اٹھ کر نماز نہیں پڑھتے؟ تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہماری جانیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں ۔ اگر اس نے چاہا کہ وہ ہمیں اٹھا دے تو ہم اٹھ جائیں گے۔‘‘ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیت تلاوت فرماتے ہوئے لوٹ گئے:
﴿وَ کَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَیْئٍ جَدَلًاo﴾ (الکہف: ۵۳)
’’اور انسان ہمیشہ سے سب چیزوں سے زیادہ جھگڑنے والا ہے۔‘‘[البخارِیِ:۶؍۸۸، ِ کتاب التفسِیرِ، سورۃ الکہف:۲؍۵۰ ِکتاب التہجدِ، باب تحرِیضِ النبِیِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی صلاِۃ اللیلِ....، المسند ط المعارِف: ۲؍ ۸۹، ۱۷۲۔]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں تہجد کے لیے اٹھنے کو فرمایا تو جنابِ علی رضی اللہ عنہ نے تقدیر کو آڑ بنایا کہ اللہ نے چاہا تو وہ ہمیں اٹھا دے گا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا آیات تلاوت فرمائی۔
[اہل سنت پر تقدیر کے متعلق ایک اور الزام اور اس پر ردّ]
[اشکال ۲]: شیعہ مصنف رقم طراز ہے: ’’ اہل سنت کے بیان کے مطابق اللہ تعالیٰ سید الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کو اطاعت شعاری کے باوصف عذاب دے سکتے ہیں ، اور ابلیس اپنی معصیت کاری کے باوجود اجر و ثواب حاصل کر سکتا ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کسی مقصد کے پیش نظر کوئی فعل انجام نہیں دیتا۔‘‘در ایں صورت اطاعات و عبادات کو انجام دینے والا حد درجہ احمق ہوگا، اس لیے کہ وہ یونہی عبادت میں منہمک رہ کر اپنے آپ کو محنت و مشقت میں ڈالتاہے، مسجدیں اور مہمان خانے بنانے کے لیے اپنا مال پانی کی طرح بہاتا ہے، مگر اس سے اسے کچھ فائدہ حاصل نہیں ہوتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ بایں ہمہ بعض اوقات اسے عذاب میں مبتلا کرتا ہے۔ اس کے عین برعکس اگر وہ انواع و اقسام کے گناہوں کا ارتکاب کرے اور لذت گیر ہوتارہے، تاہم اللہ تعالیٰ اسے اجر و ثواب عطا کر سکتا ہے۔پس پہلے نظریہ کا اختیار کرناہر عقل مند کے نزدیک سراسر حماقتپر مبنی ہوگا۔ ظاہر ہے کہ ان نظریات و افکار کا نتیجہ دنیا کی ہلاکت و بربادی اور دین و شریعت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں تخریب اور ہلچل پیدا ہونے کی صورت میں ظہور پذیر سکتا ہے۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]
[جواب]: اس کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے:
اولاً:....شیعہ مصنف کا یہ قول قطعی طور پر بے بنیادہے اور اس کے باطل ہونے پرمسلمانوں کا اتفاق ہے۔ اہل سنت میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ اللہ تعالیٰ انبیاء کو عذاب میں مبتلا کرتا ہے۔ بخلاف ازیں وہ لامحالہ طور پر ان کے اجر و ثواب پانے کے بارے میں سب ہم نوا ویک زبان ہیں ؛ اس کے خلاف بالکل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اس بات کا وعدہ کر چکا ہے اور وہ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا،یہ بات ضرورت کے تحت معلوم شدہ ہے۔
٭ پھر مثبتین قدر اہل سنت میں سے بعض علماء کے نزدیک انبیاء کرام علیہم السلام کا حامل اجر و ثواب ہونا خبر صادق کی بنا پر معلوم ہے۔ اسے مجرد دلیل سمعی کہتے ہیں ۔ اور ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ:خیر صادق کے علاوہ دوسرے ذرائع سے بھی یہ معلوم ہوسکتا ہے۔عقلی دلیل سے یہ چیز جانی جاسکتی ہے۔اگرچہ اس کی طرف شارع علیہ السلام نے بھی رہنمائی کی ہے اور اس سے آگاہ فرمادیا ہے۔ جیسا کہ جب اس کی حکمت و رحمت اور عدل کا علم ہو جاتا ہے تو اس سے یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ جو ان صفات سے موصوف ہو وہ اس کے مناسب اکرام کا مستحق ہے۔ جیسا کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کی نبوت کے بارے میں جاننے سے قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا تھا:
’’ہر گز نہیں ؛ اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا؛ بیشک آپ صلہ رحمی کرو ۔ اور کمزور کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور نادار کے لیے کماتے ہیں ؛ اور مہمان نوازی کرتے ہیں ؛ اور مشکل میں لوگوں کے کام آتے ہیں ‘‘[البخارِیِ:۱؍۳، کتاب بدئِ الوحیِ، باب کیف کان بدء الوحیِ، وتکرر الحدِیث فِی البخارِیِ فِی مواضِع کثِیرۃ، انظر فتح البارِی ط السلفِیِ: الرقام:۳۳۹۲، ۴۹۵۳، ۴۹۵۵، ۴۹۵۶،۴۹۵۷،۶۹۸۲، والحدِیث عن عائِشۃ رضِی اللّٰہ عنہا فِی مسلم:۱۳۹؍۱، کتاب الإِیمانِ باب بدئِ الوحیِ ِإلی رسولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہِ وسلم ، المسند ط الحلبِیِ۶؍۲۲۳، ۲۳۳]
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوْا السَّیِّٔاتِ اَنْ نَّجْعَلَہُمْ کَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَوَائً مَحْیَاہُمْ وَمَمَاتُہُمْ سَائَ مَا یَحْکُمُوْنَ ﴾ (الجاثیہ:۲۱)
’’یا وہ لوگ جنھوں نے برائیوں کا ارتکاب کیا، انھوں نے گمان کر لیا ہے کہ ہم انھیں ان لوگوں کی طرح کر دیں گے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے؟ ان کا جینا اور ان کا مرنا برابر ہو گا؟ برا ہے جو وہ فیصلہ کر رہے ہیں ۔‘‘
یہ استفہام انکاری ہے؛ اور اس سے ان لوگوں کی تردید مقصود ہے جو اس زعم فاسد میں مبتلا تھے۔یہ ان لوگوں پر انکار ہے جو اس زعم فاسد میں مبتلا تھے؛یا جو ایسے خیالات کا شکار تھے جن کا باطل ہونا ان کے لیے صاف ظاہر تھا؛ یہ ان لوگوں پر ردّنہیں جو کسی ایسے گمان میں مبتلا تھے جو کہ باطل اور غلط نہیں ۔ اس سے واضح ہواکہ اہل طاعت اور اہل کفرو معصیت کی مساوات کا نظریہ بالکل باطل ہے اور اللہ تعالیٰ ایسا برا حکم صادر کرنے سے منزہ ہے۔مثلاً ارشادالٰہی ہے:
﴿ اَمْ نَجْعَلُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ کَالْمُفْسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِیْنَ کَالْفُجَّارِ ﴾ (ص:۲۸)
’’کیا ہم اہل ایمان اور نیک اعمال انجام دینے والوں کوزمین میں فساد بپا کرنے والوں کی طرح کر دیں اور اہل تقویٰ کو فاسق و فاجر لوگوں کی طرح بنا دیں ؟‘‘
نیز ارشاد فرمایا:
﴿ اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ کَالْمُجْرِمِیْنَo مَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُوْنَ ﴾ (القلم:۳۵۔۳۶)
’’کیا ہم مسلمانوں کو مجرموں کی طرح بنا دیں ؟کیا ہے تمھیں ، تم کیسے فیصلے کرتے ہو؟‘‘
خلاصہ کلام ! یہ کہنا کہ رب تعالیٰ نے ابرار نیکو کار اور سیہ کار فجار؛ محسنین اور ظالمین اور اہلِ طاعت و معاصی برابر بنایا ہے، یہ باطل حکم ہے، رب تعالیٰ کو اس سے منزہ قرار دینا واجب ہے۔ کیونکہ یہ اس کی حکمت و عدل کے منافی امر ہے۔ اللہ تعالیٰ مختلف اشیاء میں تسویہ و برابری کا انکار فرماتا ہے۔ سو وہ متماثلات میں برابری کرتا ہے ۔ جیسا کہ ارشاد ہے:
﴿اَکُفَّارُکُمْ خَیْرٌ مِّنْ اُوْلٰٓئِکُمْ اَمْ لَکُمْ بَرَائَۃٌ فِی الزُّبُرِo﴾ (القمر: ۳۳)
’’کیا تمھارے کفار ان لوگوں سے بہتر ہیں ، یا تمھارے لیے (پہلی) کتابوں میں کوئی چھٹکارا ہے؟‘‘
اور فرمایا:
﴿کَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ﴾ (آل عمران: ۱۱)
’’(ان کاحال) فرعون کی قوم اور ان لوگوں کے حال کی طرح ہے جو ان سے پہلے تھے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿لَقَدْ کَانَ فِیْ قَصَصِہِمْ عِبْرَۃٌ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ﴾ (یوسف: ۱۱۱)
’’بلاشبہ یقیناً ان کے بیان میں عقلوں والوں کے لیے ہمیشہ سے ایک عبرت ہے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿فَاعْتَبِرُوْا یَااُولِی الْاَبْصَارِo﴾ (الحشر: ۲)
’’پس عبرت حاصل کرو اے آنکھوں والو۔‘‘
اور فرمایا:
﴿وَلَقَدْ اَنزَلْنَا اِِلَیْکُمْ اٰیٰتٍ مُبَیِّنَاتٍ وَّمَثَلًا مِنْ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْ﴾ (النور: ۳۳)
’’اور بلاشبہ یقیناً ہم نے تمھاری طرف کھول کر بیان کرنے والی آیات اور ان لوگوںپہلے گزرے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿وَتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ﴾ (العنکبوت: ۳۳)
’’اور یہ مثالیں ہیں جو ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں ۔‘‘
دوسري وجہ: امامی کا یہ قول کہ: اللہ کو یہ جائز ہے کہ وہ پیغمبروں کو عذاب دے اور شیطانوں کو ثواب دے۔ اگر تو اس قول سے ان کی مراد یہ ہے کہ اللہ اس پر قادر ہے تو اللہ کی قدرت میں کوئی نزاع نہیں ، اور اگر اس کی یہ مراد ہے کہ آیا ہمیں اس میں شک ہے یا نہیں کہ اللہ ایسا کرے گا یا نہیں ؟ تو یہ بات معلوم ہے کہ ہمیں اس باب میں کوئی شک نہیں بلکہ ہم جانتے ہیں کہ اللہ ایسا نہ کرے گا۔
اگر اس کی مراد یہ ہے کہ جو یہ کہتا ہے کہ اللہ کسی حکمت سے فعل نہیں کرتا تو اسے یہ لازم ہے کہ وہ رب تعالیٰ سے اس بات کے وقوع کو جائز قرار دے، اور یہ کہ اس سے اس بات کے وقوع کا امکان ہے۔ لیکن اکثر اہل سنت اس بات کے قائل نہیں ۔ بلکہ وہ اللہ کو اس سے منزہ اور مقدس سمجھتے ہیں ۔ لیکن یہ اس بات کو لازم نہیں کہ طاعت نادانی ہے۔ طاعت تب نادانی ہے۔ جب اس کا عدم اور وجود دونوں ایک ہوں ، حالانکہ مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ طاعت کا وجود نافع اور عدم مضر ہے۔ اگرچہ ان کا اس بارے نزاع ہے کہ کیا یہ جائز ہے کہ رب اس کے برخلاف کرے۔ کہ ان کا اختلاف جواز میں ہے ناکہ وقوع میں ۔
تیسري وجہ: یہ کہا جائے کہ فرض کیا کہ اس کا وقوع جائز ہے۔ تب بھی طاعت حماقت نہیں ۔ کیونکہ اس باب میں امامیہ کا اہلِ سنت کے ساتھ اتفاق ہے کہ اہلِ کبائر کی مغفرت ہو سکتی ہے، اور معتزلہ اس قول میں اہلِ سنت کے ساتھ ہیں کہ کبائر کے اجتناب کے ساتھ صغائر معاف ہو سکتے ہیں ، اور اس کے ساتھ کبائر و صغائر دونوں سے اجتناب حماقت نہ ہوگا۔ بلکہ یہ اجتناب بالاتفاق واجب ہے۔
چوتھي وجہ: یہ کہا جائے کہ نوافل پڑھنا بالاتفاق نادانی نہیں ۔ اگرچہ یہ جائز ہے کہ اللہ بندے کو اس کے بغیر بعض دوسرے اسباب کی وجہ سے ثواب دے دے۔ پس جس کا نافع ہونا معلوم ہونا اس کو بجا لانا حکمتِ محمودہ ہے۔
اور اگر وکئی اس بات کو جائز قرار دے کہ اس کے بغیر بھی نفع حاصل ہوتا ہے۔ جیسے اموال وغیرہ۔ مطلوبہ اشیاء کا ان اسباب کے ذریعے حاصل کرنا جو عادۃً اس کی تحصیل کو مقتضی ہوں کہ یہ نادانی نہیں ۔ اگرچہ یہ ممکن ہے کہ مال بغیر کوشش کے مل جائے جیسے میراث۔
پانچو یں وجہ: مصنف کا قول: کیونکہ اللہ کا فعل کسی غرض کے بغیر ہوتا ہے۔ اس کا تفصیلی جواب گزر چکا ہے۔اور ہم نے یہ واضح کیا ہے کہ اکثر اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے افعال حکمت پر مبنی ہوتے ہیں ؛ اور غرض سے یہی مراد ہے۔ اور بعض اہل سنت والجماعت نے ان اغراض کی بھی تصریح کی ہے۔تقدیر کے قائلین میں سے جو لوگاس بات کے قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے افعال حکمت پر مبنی نہیں ہوتے؛ اوراگرچہ اللہ تعالیٰ جو چاہیں کر گزرتے ہیں ؛ تاہم اس کی مشئیت اور عدم مشئیت معلوم کی جاسکتی ہے؛ خواہ ایسا عادت سے معلوم کرنا ممکن ہو یا پھر کسی صادق ؍سچے کے خبر دینے سے ؛ یا پھر علم ضروری اس کا القاء ہمارے دل میں کردیتا ہے؛ یا پھر اس کے علاوہ بھی اس علم کا کوئی وسیلہ ہوسکتا ہے۔
کا کچھ حال جو تم سے