Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فصل:....تقدیر اور انبیاء کرام کی تصدیق کا مسئلہ اور رافضی شبہ پر رد ّ

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....تقدیر اور انبیاء کرام کی تصدیق کا مسئلہ اور رافضی شبہ پر رد ّ

[اشکال ۳]:....شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’اہل سنت کے نظریہ کے مطابق کوئی شخص نبی کی تصدیق نہ کر سکے گا، اس کی وجہ ہے کہ نبی کی تصدیق دو مقدمات پر مبنی ہے: 

۱۔ پہلا مقدمہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کے ہاتھوں پر معجزہ کا اظہار اس لیے کیا کہ اس کی تصدیق کی جا سکے۔‘‘

۲۔ دوسرا مقدمہ یہ ہے کہ جس کی تصدیق کی جاتی ہے وہ صادق ہوتا ہے۔‘‘

اہل سنت کیعقیدہ کے مطابق یہ دونوں مقدمات تشنہ تکمیل ہیں ، اس لئے کہ جب اللہ تعالیٰ کے افعال اغراض کے تابع نہیں ہوتے، تو نبی کی تصدیق کے لیے معجزات کا ظہور پذیر ہونا بھی محال ہوگا،بقول اہل سنت جب اللہ تعالیٰ افعال قبیحہ، معاصی، کذب اور ضلال کا مرتکب ہوسکتا ہے تو یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹے نبی کی تصدیق کر دے (نعوذ باللّٰہ من ہذہ الخرافات) بنا بریں معجزات کے ظہور سے کسی نبی یا منذرین [ڈرانے والوں ]کی صداقت؛ یا شریعت و ادیان پر استدلال نہیں کیا جا سکتا۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]

[جواب] : اس کا جواب کئی وجوہ پر مشتمل ہے :

پہلی وجہ :....اس سے پہلے اس بات کا بیان گزر چکا ہے کہ خلفاء ثلاثہ کی خلافت کے قائلین اکثر حضرات اورتقدیر کا اثبات کرنے والے اکثر اہل سنت کے نزدیک افعال الٰہی حکمت و مصلحت کے آئینہ دار ہوتے ہیں ، لہٰذا یہ قول اور اس کی ضد اہل سنت کے اقوال سے باہر نہیں ۔ہر دو تقدیر کی بنا پر حق اہل سنت والجماعت سے خارج نہیں ہوسکتا۔ بلکہ مذاہب اربعہ میں سے ہر ایک مذہب کے ماننے والوں میں کچھ اصحاب ایسے ہیں جن میں اس اصول میں اختلاف و نزاع پایا جاتا ہے۔ حالانکہ ان سب کا خلفاء ثلاثہ کی خلافت اورتقدیر کے اثبات اور اللہ تعالیٰ کے خالق افعال العباد ہونے پر اتفاق ہے۔ اس اصول میں امام احمد کے اصحاب کے مابین نزاع بڑا ہی معروف ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ کے اصحاب میں سے کئی ایک اور ان کے علاوہ دیگر لوگ بھی جیسے کہ : ابن عقیل؛ قاضی ابوخازم ؛اور دیگر لوگ معجزات کو ثابت مانتے ہیں ۔اس لیے کہ وہ کہتے ہیں : رب تعالیٰ حکیم ہے۔ اور اس کی حکمت میں یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ جھوٹے کے ہاتھوں پر معجزات ظاہر کرے۔ ابو خطاب کا بھی یہی ہے۔ان کے علاوہ امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ کے اصحاب اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہکے اکثر اصحاب اللہ تعالیٰ کے افعال میں حکمت کے قائل ہیں ۔

دوسری وجہ : ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ انبیائے کرام اورمرسلین کی صداقت صرف معجزات ہی کے ذریعہ ظاہر کی جا سکتی ہے ۔ بلکہ اس کی صداقت کا اظہارمعجزات کے علاوہ دیگر مختلف طرق ووجوہ سے ممکن ہے ۔جیسا کہ دوسرے مواقع پر ہم تفصیل سے بیان کرچکے ہیں ۔ پس جس شخص کے نزدیک صرف معجزات ہی سے نبی کی صداقت کا اظہار ہوسکتا ہے اس پر لازم ہے کہ وہ اس کی دلیل پیش کرے۔اس لیے کہ کسی چیز کا انکار کرنے والے پر بھی ایسے ہی دلیل پیش کرنا لازم ہوتا ہے جیسے کسی چیز کا اثبات کرنے والے پر دلیل پیش کرنا لازم ہے۔مگر شیعہ مصنف نے اس نفی پر کوئی دلیل پیش نہیں کی۔

تیسري وجہ: یہ کہا جائے کہ ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ معجزہ کی صدق پر دلالت اس بات پر موقوف ہے کہ یہ جائز نہیں کہ وہ اسے کرے جو ذکر کرے۔اس پر مزید یہ کہ کسی نبی کے صادق ہونے پر معجزات کی دلالت ایک بد یہی امر ہے جو محتاج فکر و نظر نہیں ، اس لیے کہ دعویٰ نبوت کے ساتھ معجزہ کا پایا جانا اس امر کی لازمی اور بدیہی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وہ معجزہ نبی کی صداقت کے لیے ظاہر کیاہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کوئی شخص جب بادشاہ سے کہے کہ اگر آپ نے مجھے فلاں جانب ایلچی بنا کر بھیجا ہے تو خلاف معمول تین مرتبہ اٹھیے بیٹھئے اور بادشاہ اس کی تعمیل کر دے تو بادشاہ کا یہ فعل اس امر کی دلیل ہوگا کہ قاصد کی تصدیق کے لیے اس نے یہ فعل انجام دیا۔

چوتھي وجہ: قائل کا یہ قول کہ: اگر معجزہ صدق پر دلالت نہ کرے تو باری تعالیٰ کا تصدیقِ رسول سے عاجز آنا لازم آتا ہے اور اللہ میں عجز ممتنع ہے۔ کیونکہ تصدیق کا طریق صرف معجزہ ہے۔ یہ اکثر اصحاب اشعری اور ان کے ہم نواؤں کا طریق ہے، اور یہی قاضی ابو بکر اور قاضی ابو یعلی وغیرہ کا بھی طریق ہے۔

پہلا طریق بھی ان میں سے اکثر کا ہے، اور وہ ابو المعالی اور ان کے پیروکاروں کا طریق ہے، اور یہ دونوں اشعری کے طریق ہیں ، اور اس بناء پر کیا جھوٹے مدعی نبوت پر معجزہ کا اظہار ممکن و مقدور ہوگا یا نہیں ؟ اس بارے دو اقوال ہیں ۔

پانچویں صورت: یہ کہا جائے کہ معجزہ اس بات پر موقوف ہے کہ اللہ نے جس کی بھی تصدیق کر دی وہ صادق ہے۔ یہ قول اس وقت صحیح ہے کہ جب معجزہ بمنزلہ تصدیق بالقول کے ہو۔ اس میں اختلاف ہے۔

بعض کا قول ہے کہ معجزہ بمنزلہ انشاء رسالت کے ہے، اور انشاء میں تصدیق یا تکذیب کا احتمال نہیں ہوتا۔ لہٰذا قائل کو دوسرے کو یہ قول کہ میں نے تجھے بھیجا یا میں نے تجھے وکیل بنایا وغیرہ، یہ انشاء ہے۔ تو جب معجزہ کی انشائے رسالت پر دلالت اس بات پر موقوف نہیں کہ وہ اللہ کسی غرض کے لیے فعل نہیں کرتا، اور نہ اس بات پر موقوف ہے کہ وہ قبائح کا فعل نہیں کرتا تو انشاء بھی امر و نہی جیسا ہوا۔

چھٹي وجہ: یہ کہا جائے کہ چونکہ یہ محال ہے کہ وہ کسی غرض کے لیے فعل کرے تو یہ بھی محال ہوا کہ وہ معجزہ کو تصدیق کے لیے ظاہر کرے۔ اس کی طرف وہ جو اس بات کا قائل ہے کہ وہ اللہ ایک شے کو دوسرے شے کے لیے کرتا ہے، یہ جواب دیتا ہے کہ کبھی وہ دو متلازم باتوں کو بھی کرتا ہے۔ جیسا کہ وہ جملہ دلائل کو ان کے مدلولات کے لیے کرتاہے۔ سو وہ مخلوقات کو کرتا ہے جو اس کے وجود، قدرت، علم اور مشیئت پر دلالت کرتے ہیں ۔ اس نے ان کے پیدا کرنے کا ارادہ کیا اور اور ارادہ کیا ہے کہ یہ مخلوقات اپنے اس مدلول کو مستلزم ہوں جو اس کی ذات پر اس کے لیے دلالت کرتا ہو جو ان مخلوقات میں نگاہِ غور ڈالتا ہو۔

اسی طرح اس نے اس مقام پر معجزہ کو بھی پیدا کیا ہے۔ پس اس نے معجزہ کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا اور اس بات کا ارادہ کیا کہ یہ معجزہ اپنے اس مدلول کو مستلزم ہو جو رسول کی صداقت ہے، اور اس شخص کے لیے مدلول پر دال ہے جو اس میں غور کرتا ہو۔

جب اس نے معجزہ کے پیدا کرنے کا ارادہ کیا اور اس تلازم کا بھی ارادہ کیا تو مقصود حاصل ہو گیا جو معجزہ کا صدق پر دلالت کرنا ہے۔ اگرچہ اس نے دو مرادوں میں سے ایک کو دوسرے کے لیے نہیں بنایا۔ کیونکہ مقصود دونوں کے ارادہ کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔

اگر یہ کہا جائے کہ معجزہ بذاتِ خود دلالت نہیں کرتا۔ بلکہ اس بات کے علم پر دلالت کرتا ہے۔ معجزہ کے فاعل نے اس کے ذریعے تصدیق کا ارادہ کیا ہے۔

تو اس کا یہ جواب ہے کہ: یہ جائے اختلاف ہے، اور ہمارا مقصود اس شخص کے قول کی تائید نہیں جو اس کا قائل ہے کہ اللہ فعل کرتا ہے لیکن کسی حکمت کے لیے نہیں ۔ بلکہ ہمارے نزدیک یہ قول مرجوع ہے۔ ہمارا مقصود دوسرے قول کے قائلین کی دلیل بیان کرنا ہے اور اس قول والے ان معتزلہ اور شیعہ سے بہتر ہیں ۔

باری تعالیٰ اور افعال قبیحہ کا صدور؟

[شبہ ]: باقی رہا شیعہ مصنف کا یہ دعویٰ کہ اہل سنت کے نزدیک جب اللہ تعالیٰ افعال قبیحہ کا مرتکب ہو سکتا ہے، تو وہ جھوٹے نبی کی تصدیق بھی کرسکتا ہے۔‘‘یہ اس کی دوسری دلیل ہے۔ 

[اس کا جواب] یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے کوئی بھی اللہ تعالیٰ کو قبائح کا مرتکب قرار نہیں دیتا، اس کی حدیہ ہے کہ جو لوگ باری تعالیٰ کو افعال العباد کا خالق مانتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ: افعال قبیحہ کی قباحت کی ذمہ داری بندوں پر عائد ہوتی ہے، اللہ پر نہیں ، اسی طرح ان کا ضرر بھی بندوں کو لاحق ہوتا ہے، نہ کہ اللہ تعالیٰ کو۔پھر ان میں سے بعض کا یہ قول ہے کہ وہ اس فعل کا فاعل ہے، اور اکثر کا یہ قول ہے کہ یہ فعل اس کا مفعول لہ ہے ، اور وہ فعل بندے کا ہے۔ جبکہ خرقِ عادت[یا معجزہ] بندے کا فعل نہیں ہوتا؛ کہ یہ کہا جائے کہ یہ بندوں سے قبیح ہے، اور اگر فرض کیا کہ یہ کہا جائے کہ وہ فعل اللہ سے قبیح ہے ناکہ بندے سے۔ حالانکہ رب تعالیٰ فعلِ قبیح سے منزہ ہے۔

دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ:فعل کا خالق اللہتعالیٰ ہے تاہم بندہ اس کاکاسب ہے ‘اللہ کا سب نہیں ۔ جہاں تک معجزات کا تعلق ہے، یہ بندوں کے اختیارمیں نہیں ہوتے کہ ان کو بندوں کے افعال میں شمار کیا جائے۔

باقی رہا کذاب کی تصدیق کرنا تو اس کی صورت یہ ہے کہ اس کے صادق ہونے کی خبر دی جائے خواہ قول کے ذریعہہویا ایسے فعل سے جو قول کا قائم مقام ہو؛ ظاہر ہے کہ ذات باری سے اس کا صدور محال ہے؛ کیونکہ (کذب بیانی) ایک مذموم و صف ہے، اورعقلی طور پر اللہ سبحانہ تعالیٰ تمام نقائص اور عیوب سے منزہ ہے؛ اس پر تمام اہل خرد و دانش کا اتفاق ہے۔

جو یہ کہتا ہے کہ: اللہ سے فعلِ قبیح متصور نہیں ، بلکہ اس کا ہر ممکن فعل حسن ہے جب وہ اسے کرے۔

وہ کہتا ہے: جو فعل صفاتِ کمال کے سلب کو اور نقص کے اثبات کو مستلزم ہو، وہ اس پر ممتنع ہے۔ جیسے عجز، جہل وغیرہ، اور کذب ایک صفتِ نقص ہے۔ جبکہ صدق صفتِ کمال ہے، اور کذاب کی تصدیق بھی ایک طرح کا کذب ہے۔ جیسا کہ صادق کی تکذیب بھی ایک قسم کا کذب ہے۔ تو جب کذب ایک صفتِ نقص ہے تو یہ اللہ کے حق میں ممتنع ہے۔

ہم نے یہ بات ایک دوسرے مقام پر تفصیل سے بیان کر دی ہے، اور ہمارا مقصد یہ نہیں کہ جو بھی اہلِ سنت کی طرف ہے اس کی تصدیق کرتے جائیں ۔ بلکہ ہم حق بیان کریں گے، اور حق یہ ہے کہ اہل سنت خطا پر کبھی متفق نہیں ہوتے، اور شیعہ جہاں بھی اہلِ سنت سے جدا ہوئے ہیں ، خطا پر رہے ہیں ۔ بلکہ جس امر میں بھی شیعہ نے جمیع اہلِ سنت کی مخالفت کی ہے اس میں خطا پر ہیں ۔ جیسا کہ یہود و نصاریٰ نے جس امر میں بھی سب مسلمانوں کی مخالفت کی ہے، اس میں وہ گمراہ ہیں ۔ چاہے بے شمار مسلمان خود بھی خطا پر رہے ہیں ۔

جہم بن صفوان نے قدر کے جن مثبتین کی اس بات میں موافقت کی ہے کہ اللہ کا کوئی فعل حکمت و سبب کی بناء نہیں ہوتا، اور اللہ کی طرف نسبت کے اعتبار سے مامور اور محظوظ میں کوئی فرق نہیں ، اور نہ اس کے نزدیک کوئی فعل محبوب یا کوئی مبغوض ہے۔ بے شک یہ قول فاسد اور کتاب و سنت اور اتفاقِ اسلاف کے خلاف ہے۔ یہ لوگ بے شمار نقائص کے رب تعالیٰ پر ممتنع ہونے کو بیان کرنے سے عاجز رہ جاتے ہیں ۔ بالخصوص جب ان میں سے ایک یہ کہتا ہے: رب تعالیٰ کی نقص سے تنزیہ عقل سے نہیں بلکہ سمع سے معلوم ہوتی ہے۔

[رب سبحانہ و تعالیٰ اور امتناع کذب]

پھر جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ: تم لوگوں نے یہ کیوں کہا کہ: رب تعالیٰ پر کذب ممتنع ہے؟

تو کہتے ہیں : کیونکہ یہ نقص ہے اور اس پر نقص محال ہے۔

جب ان سے کہے کہ: تمہارے نزدیک یہ نقص سے تنزیہ اجماع سے معلوم ہوئی ہے، اور یہ بات معلوم ہے کہ رب تعالیٰ کے کذب سے منزہ ہونے پر اجماع منعقد ہے، تو جب اس بات پر اجماع کے ذریعہ دلیل لانا صحیح ٹھہرا تب پھر اس دوراز کار گفتگو کی حاجت نہ رہی۔ دوسرے کلام معنی پر دلالت کرنے والی عبارت میں ہے، جیسا کہ بعض کا قول ہے کہ: یہ بات جائز نہیں کہ اللہ کوئی لا یعنی بات کرے بخلاف حشویہ کے۔

بلاشبہ یہ کسی مسلمان کا قول نہیں ۔ نزاع اس میں ہے کہ کیا وہ کوئی ایسا کلام اتار سکتا ہے۔ جس کا معنی بندے نہ جانتے ہوں ناکہ یہ وہ کلام فی نفسہ لا یعنی ہے۔ پھر فرض کیا کہ اس میں نزاع ہے تو قائل نے اس کے عبث ہونے پر استدلال کیا ہے اور اللہ پر عبث محال ہے۔ یہ شخص اللہ پر ہر فعل کو جائز سمجھتاہے، اور اسے عبث اور لا یعنی فعل سے منزہ قرار نہیں دیتا۔جہمیہ اور قدریہ کے قول کے موافق ان لوگوں کے کلام میں اس قسم کے تناقضات بے شمار ہیں ۔ البتہ یہ جمہور اہلِ سنت کا قول نہیں واللہ اعلم۔

بعض صفات باری تعالیٰ اور رافضی اعتراض پر رد:

[اعتراض]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’اہل سنت کے بقول یہ لازم آتا ہے، کہ ذات حق کو غفور و حلیم اور عفو کے صفات سے متصف نہ کیا جائے‘‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان صفات سے اس صورت میں موصوف ہو سکتا ہے، جب وہ فساق و فجار کو سزا دینے کا مستحق ہو اور جب وہ یہ سزا معاف کر دے تو اسے غفور و حلیم کے اسماء حسنیٰ سے ملقب کیا جائے، ظاہر ہے کہ وہ فساق کو سزا دینے کا مستحق جبھی ہوگا کہ گناہ بندے سے سرزد ہوں نہ کہ اللہ تعالیٰ سے۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]

[جواب]:اس کا جواب کئی طریق سے ممکن ہے:

پہلا جواب:بہت سے اہل سنت کہتے ہیں ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ غفور و حلیم کے القاب سے اللہ تعالیٰ کو اسی وقت ملقب کیا جا سکتا ہے جب وہ فساق کو سزا دینے کا استحقاق رکھتا ہو۔ استحقاق سے قطع نظر۔ کیونکہ ان امور کے ذریعے استحقاق کو خاص کرنا اس بات کو مقتضی ہے کہ وہ کسی شے کا تو مستحق ہے اور کسی شے کا نہیں ، اور یہ بات خود ان کے نزدیک ممنوع ہے۔ بلکہ وہ جو چاہے کر سکتا ہے، اور جو چاہے حکم دے سکتا ہے۔ جب وہ سزا دینے کی قدرت رکھتا ہو اس لیے کہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، اور جو حکم دینا چاہتا ہے دیتا ہے۔ تو اس سے مغفرت، رحمت اور حلم و عفو وغیرہ درست ہوا۔ 

دوسرا جواب: قائل کا یہ قول کہ ’’ اللہ تعالیٰ انسان کو سزا دینے کا استحقاق رکھتا ہو۔‘‘ اس سے اس کی مراد یا تو یہ ہے کہ گناہ گاروں کو سزا دینا اس کا عدل ہے یا یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کا محتاج ہے۔ پہلی بات پر سب کا اتفاق ہے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ عفو و مغفرت اس کے فضل و احسان کی آئینہ دار ہے۔جو لوگ اللہ تعالیٰ کو افعال العباد کا خالق قرار دیتے ہیں ، ان کا یہی زاویہ نگاہ ہے جو لوگ افعال العباد کے متعلق یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ یہ اللہ کی مخلوق ہیں اور بندہ صرف ان کاکا سب ہے، وہ بھی اس بات میں متحد الخیال ہیں کہ سزا اس کے عدل پر مبنی ہے۔اور اگر اس سے باری تعالیٰ کا محتاج ہونا مراد لیا جائے تو پھر اس کے باطل ہونے پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ 

تیسرا جواب:یہ کہا جائے گا کہ: اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت کے متعلق دو صورتیں ممکن ہیں :

۱۔ پہلی صورت: اللہ تعالیٰ رحمت و مغفرت کے ساتھ موصوف ہے اور سزا دینا اس کے لیے قبیح ہے۔

۲۔ دوسری صورت: اللہ تعالیٰ رحمت و مغفرت سے تب ہی موصوف ہوسکتا ہے، جب سزا دینا اس کیلئے جائز ہو۔

پہلی صورت کے مطابق لازم آئے گا کہ وہ اہل ایمان اور نیک اعمال انجام دینے والوں کے لیے غفار نہیں ، اس لیے کہ ان کو سزا دینا قبیح ہے اور ان کی مغفرت واجب ہے۔ مزید برآں اس سے یہ بھی لازم آئے گا کہ ذات باری تعالیٰ انبیاء علیہم السلام کے لیے غفور و رحیم نہیں اور ان لوگوں کے لیے بھی رحیم و کریم نہیں جو گناہ کر کے ان سے تائب ہو جائیں اور نیک کام کرنے لگیں ۔کیونکہ اب ان کو سزا دینا ایک قبیح فعل ہوگا۔اور ان کے لیے رحمت اور مغفرت اس عقیدہ والوں کےنزدیک واجب ہوجاتی ہے۔ اور انبیائے کرام علیہم السلام وغیرہ میں سے جو رحمت کے مستحق ہیں ، ان کے حق میں رحیم نہ ہوگا، اور اس ظالم کے حق میں بھی غفور ورحیم نہ ہوگا۔ جس نے ظلم کے بعد نیکی کر لی، اور جب قرآن سے یہ بات ثابت ہے کہ وہ توبہ تائب ہونے والوں کے لیے غفار اور مومنوں پر رحیم ہے تو معلوم ہو گیا کہ وہ مغفرت رحمت کے ساتھ متصف ہے، اور اگر اس سے اس کے ساتھ عذاب ممتنع ہے کہ وہ عقاب کا مستحق ہو تو بھی اسے مغفرت و رحمت کے ساتھ متصف کرنا ممتنع نہ ہوگا۔ جیسا کہ اسے بخشنا اور رحم کرنا وغیرہ۔ جسے ان کے نزدیک عقاب دینا مستحسن نہیں ۔

بندہ معصیت کا فاعل ہے یا کاسب؟

چوتھا جواب : بندے سے جو معصیت صادر ہوتی ہے اکثر علماء کے نزدیک وہ اس کا فاعل ہے اور بعض کے نزدیک کاسب۔ اس قول کی روشنی میں یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ آدمی ظالم کو سزا دینے کا استحقاق رکھتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ ظالموں کو سزا دینے کا اس سے بھی زیادہ مستحق ہے، جہاں تک اللہ تعالیٰ کے معصیت کو پیدا کرنے کا تعلق ہے، وہ اس کی حکمت و مصلحت پر مبنی ہے، یہ جمہور کا نظریہ ہے جو افعال الٰہی کو مبنی بر حکمت قرار دیتے ہیں ، یا معصیت کی تخلیق اس کی مشیت کے تابع ہے، یہ ان لوگوں کا نقطۂ نظر ہے جو افعال باری تعالیٰ کو معلل بالحکمت نہیں سمجھتے۔