فصل:....تکلیف ما لایطاق پر اہل سنت کا عقیدہ اورشبہ کا ردّ
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....تکلیف ما لایطاق پر اہل سنت کا عقیدہ اورشبہ کا ردّ
[اعتراض]:شیعہ مصنف کا قول ہے: ’’اس سے تکلیف ما لا یطاق لازم آتی ہے۔ اس لیے کہ اس میں کافر ایمان لانے کے لیے مکلف و مامور ہے حالانکہ بقول ان کے اس میں یہ قدرت ہی موجود نہیں ،یہ بات عقلاً قبیح ہے اور شرعاً ممنوع ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ لَا یُکِلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا﴾ (البقرۃ:۲۸۶)
’’اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے۔‘‘ [انتہیٰ کلام الرافضی]
[جواب]:اس کا جواب یہ ہے کہ قائلین تقدیر کے بندہ کی قدرت کے بارے میں دو قول ہیں :
پہلا قول: یہ ہے کہ قدرت مع الفعل ہوتی ہے بنا بریں جس کافر کے متعلق علم الٰہی میں لکھا ہے کہ وہ ایمان نہیں لائے گا وہ کبھی ایمان لانے پر قادر نہیں ہوگا۔مصنف نے جو کچھ ذکر کیا ہے؛ وہ اسی پر وارد ہوتا ہے۔
دوسرا قول:قدرت کی دو اقسا م ہیں ۔ جو قدرت احکام کے مکلف بنانے میں شرط ہے وہ قبل از فعل اور تا وقوع فعل ہوتی ہے اور جو قدرت فعل کو مستلزم ہوتی ہے وہ لازماً مع الفعل ہوتی ہے۔ ان کے قول کی اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومن پر اپنا فضل خصوصی فرمایا ہے جس کی بنا پر وہ راہ ہدایت اختیار کرتا ہے، جبکہ کافر اطاعت نہ کرکے اس سے محروم رہتا ہے۔ نیز یہ کہ عند الفعل بندے کا قادر ہونا ضروری ہے۔ اس کے بر خلاف بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بندہ صرف قبل الفعل قدرت سے بہرہ ور ہوتا ہے، علاوہ ازیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مورد فضل و عنایت ربانی ہونے کے اعتبار سے مومن و کافر مساویہیں ۔جب فعل بجالانے کے وقت قدرت کا ہونا ضروری تھا۔ پس جب فعل سے پہلے وہ اس پر قادر تھا؛ اوریہ قدرت فعل کے انجام تک باقی رہی ؛ تو اس سے ان کا اصول نہیں ٹوٹتا۔ لیکن دو ضدین کے لیے کارگر اور مؤثر قوت کا ہونا؛ اس میں کافر اور مؤمن دونوں مشترک ہیں ۔ پس مؤمن کے لیے ان اسباب کا ہونا ضروری ہوجاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ خاص کئے ہیں ؛ تاکہ وہ ایمان والا ہوسکے۔اس چیز میں مکلف کا ایمان لانے کا ارادہ بھی داخل ہو جاتا ہے۔ اور اس ارادہ کو وہ لوگ جملہ طور پر اس قدرت میں داخل کرتے ہیں جو فعل کے مقارن ہوتی ہے۔ یہ ایک لفظی نزاع ہے جس کے بارے دوسرے مقامات پر اس سے پہلے تفصیل گزرچکی ہے ۔
پس اس صورت میں جمہور اہل سنت جن کا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ کافر ایمان لانے کی قدرت سے بہرہ ور ہے ان کے نزدیک سابقہ اعتراض قطعی طور سے بے بنیاد ہے، یہ اعتراض صرف دوسرے لوگوں کے اقوال کے پیش نظر وارد ہوتا ہے،جو کہ اس کا التزام کرتے ہیں ۔ سابقہ ذکر کردہ دونوں اقوال میں سے جو قول بھی قرین صدق و صواب ہو وہ قول اہل سنت سے خارج نہ ہوگا۔والحمد للہ ۔
دوسري وجہ: یہ کہا جائے: تکلیف مالا یطاق کی دو قسمیں ہیں :
۱۔ عجز کی وجہ سے، جیسے اپاہج کو چلنے کے لیے کہنا، یا انسان کو اڑنے کے لیے کہنا وغیرہ۔ تو جمہور اہلِ سنت مثبتین للقدر کے نزدیک شریعت میں ایسا کوئی حکم نہیں ، اور نہ اس کی ذکر کردہ بات اس کے وقع کو مستلزم ہے۔
۲۔ امر کی ضد میں اشتغال کی وجہ سے: جیسے کافر کفر میں لگا ہو، کہ اس کفر نے اسے ایمان لانے سے روک رکھا ہے۔ جیسے کہ بیٹھنے کی حالت والا کہ اس کے بیٹھنے نے اسے کھڑے ہونے سے روک رکھا ہے۔
دو ضدین میں سے ایک کا ارادۂ جازمہ دوسری ضد کے ارادہ کے منافی ہوتا ہے۔ کافر کو ایمان لانے کا مکلف بنانا اسی باب میں سے ہے، اور یہ بات کسی عاقل کے نزدیک قبیح نہیں ۔ بلکہ اہلِ عقل کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ضد میں اشتغال کے وقت دوسری بات کے امر و نہی کا مکلف بنانا درست ہے۔ بشرطیکہ اس ضد کا ترک ممکن ہو اور دوسری مامور بہ ضد کو بجا بھی لا سکے۔
نزاع اس میں ہے کہ اسے تکلیف مالا یطاق کا نام دیا جائے یا نہیں ۔ کیونکہ فی الحال اس میں فعل کے مقارن قدرت منتفی ہے۔ اب بعض مثبتین قدر اسے تکلیف مالایطاق میں داخل مانتے ہیں ۔ جیسا کہ قاضی ابو بکر اور قاضی ابو یعلی وغیرہ کا قول ہے کہ مالا یطاق کی دو قسمیں ہیں :
(۱)....عجز کی وجہ سے۔ (۲)....ضد میں اشتغال کی وجہ سے۔
بعض نے اسے مالا یطاق میں داخل نہیں مانا، اور یہ کتاب و سنت اور کلام سلف کے زیادہ مشابہ ہے۔ کیونکہ مستطیع مامورِ حج جب وہ حج نہ کرے یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ مالا یطاق کا مکلف ہے۔ ایس طرح سستی کی وجہ سے نماز وضو وغیرہ کے تارک کو بھی مالایطاق کا مکلف کہنا درست نہ ہوگا۔ان لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ تحسین و تقبیح میں عقل کو مجال نہیں ۔ اور اگر ان لوازم کے بارے میں اس بحث کو مکمل نہ کیا گیا تو جو کچھ وہ بیان کر رہے ہیں ؛ ان پر حجت نہ ہوگا؛ چہ جائے کہ وہ ان کے علاوہ تقدیر کے قائلین پر حجت ہو ۔یا پھر حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کو ماننے والوں پر حجت ہو۔