فصل:....اہل سنت کے نزدیک افعالِ اختیاریہ پر رافضی کا کلام اور اس پر ردّ
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....اہل سنت کے نزدیک افعالِ اختیاریہ پر رافضی کا کلام اور اس پر ردّ
جب تکلیف مالایطاق کی تفسیر بایں طور کی جائے کہ وہ ایسا فعل ہے جس کو انجام دینے پر فاعل کو قدرت حاصل نہ ہو تو اس تفسیر کے مطابق امتناع کا دعویٰ مورد نزاع ہوگا اور اس کی نفی محتاج دلیل ہوگی۔
[اعتراض]:شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’ اہل سنت کے نقطۂ نگاہ کے مطابق یہ لازم آتا ہے کہ ہمارے وہ افعال اختیاری جو قصد و ارادہ کے تحت ہم سے صادر ہوتے ہیں ، جیسے دائیں بائیں حرکت کرنا؛ ہاتھ سے پکڑنا اور پاؤں سے چلنا وغیرہ وغیرہ؛وہ ان اضطراری افعال کی مانند ہو کر رہ جائیں جو بلا ارادہ ظہور پذیر ہوتے ہیں ، مثلاً نبض کی حرکت یا کسی اونچی جگہ سے گرنے والا جو حرکت کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ افعال اختیاری و اضطراری کے مابین فرق و امتیاز ضروری ہے۔کیونکہ ہر عاقل اس بات کا حکم لگاتا ہے کہ ہم حرکت ِ اختیاریہ پر تو قادر ہیں لیکن آسمان میں اڑنے جیسی حرکت ِ غیر اختیاریہ پر قادر نہیں ۔ ابو الہذیل علاف کا قول ہے کہ: بشر کا گدھا بشر سے زیادہ عقل مند ہے۔ وہ یوں کہ اگر تو ایسے چھوٹی ندی عبور کرنے کو کہا تو وہ ندی میں داخل ہو کر اسے عبور کرلے گا۔ لیکن اگر تو اسے گہری ندی کے کنارے لائے تو وہ اس میں داخل نہ ہوگا۔ کیونکہ گدھا بھی یہ فرق جانتا ہے کہ میں کس ندی کو عبور کر سکتا ہوں اور کس کو نہیں ۔ لیکن بشر مقدور اور غیر مقدور میں فرق کرنے سے قاصر ہے۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]
[جواب]:ہم کہتے ہیں یہ اس شخص کے نزدیک لازم آتا ہے، جس کا قول ہے کہ بندے کو اپنے افعال اختیاری پر قدرت حاصل نہیں ۔یہ کسی معروف امام کا قول نہیں اور تقدیر کے قائلین اہل سنت میں سے کوئی بھی یہ عقیدہ نہیں رکھتا۔ البتہ جہم بن صفوان اور اس کے غالی ہم نوا کہتے ہیں کہ: بندہ ہر گز قدرت سے بہرہ ور نہیں [وہ بندے سے قدرت کو سلب شدہ مانتے ہیں ]۔ وہ کہتے ہیں : بندہ اسی طرح حرکت کرتا ہے، جیسے درخت ہلانے سے ہلنے لگے۔ اسلامی فرقوں میں سے امام اشعری رحمہ اللہ اور ان کے ہم نوا فقہاء امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ کے اصحاب ہیں ؛کا نقطۂ نظر ان سے قریب تر ہے، تاہم وہ بندہ کے لیے قدرت محدثہ کا اثبات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فعل بندے کا کسب ہے، مگر اس کے پہلو بہ پہلو وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ بندے کی قدرت کو ایجاد مقدور سے کوئی واسطہ نہیں ۔ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وہ بندے میں جس کسب کا اثبات کرتے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے۔
٭ اسی لیے کہنے والا یہ کہتا ہے: ’’وہ کسب جو اشعری ثابت کرتا ہے وہ غیر معقول ہے، اور جمہور اہلِ اثبات اس بات پر ہیں کہ بندہ اپنے فعل کا فاعلِ حقیقی ہے۔ اسے قدرت اور اختیار حاصل ہے، اور اس کی قدرت مقدور میں مؤثر ہے۔جیسا کہ قوی اور طبائع شروط و اسباب میں سے مؤثر ہوتے ہیں ۔اشعری کا قول جمہور اہلِ سنت پر لازم نہیں آتا۔ ہم بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ ہم اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ اہل سنت سے بعض اوقات خطا سرزد ہوتی ہے مگر سب اہل سنت خطاکاری کے مرتکب نہیں ہوتے۔ بخلاف ازیں امامیہ خطا کے ارتکاب میں ایک دوسرے سے ہم نوا ہوتے ہیں اور اجماعی حیثیت سے اس کا ارتکاب کرتے ہیں ، یہ ایک مسلمہ حقیقت وصداقت ہے کہ جن جن مسائل میں امامیہ نے اہل سنت سے اختلاف کیا ہے، ان میں اہل سنت کا مسلک قرین ِ حق و صواب ہے،اور وہ مسائل جن میں اہلِ سنت اور امامیہ دونوں نے اختلاف کیا ہے۔ اس میں دونوں میں سے کسی کا بھی کوئی اختصاص نہیں ۔
خلاصہ کلام ! سلف و خلف کے جمہور اہلِ سنت کا مسئلہ زیرِ نظر میں زاویہ نگاہ یہ ہے کہ بندہ میں حقیقی قدرت پائی جاتی ہے، لہٰذا وہ فاعل حقیقی ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے افعال کا خالق ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:
﴿ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ ﴾ ’’ وہ ہر چیز کا خالق ہے۔‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
﴿رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمِیْنِ لَکَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَکَ ﴾ (البقرۃ: ۱۲۸)
’’اے ہمارے رب! اور ہمیں اپنے لیے فرماں بردار بنا اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک امت اپنے لیے فرماں بردار بنا۔‘‘
نیز فرمایا:﴿ رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ﴾ (ابرہیم:۳۰)
’’اے میرے رب مجھے نماز کا پابند بنا لے اور میری اولاد کو بھی۔‘‘
نیز ارشاد فرمایا:﴿وَ جَعَلْنَا مِنْہُمْ اَئِمَّۃً یَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا﴾ (السجدہ: ۲۳)
’’اور ہم نے ان میں پیشوا بنائے، جو ہمارے حکم سے ہدایت دیتے تھے، جب انھوں نے صبر کیا۔‘‘
اور فرمایا:
﴿وَ جَعَلْنٰہُمْ اَئِمَّۃً یَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْہِمْ فِعْلَ الْخَیْرٰتِ وَ اِقَامَ الصَّلٰوۃِ وَ اِیْتَآئَ الزَّکٰوۃِ وَ کَانُوْا لَنَا عٰبِدِیْنَo﴾ (الانبیاء: ۷۳)
’’اور ہم نے انھیں ایسے پیشوا بنایا جو ہمارے حکم کے ساتھ رہنمائی کرتے تھے اور ہم نے ان کی طرف نیکیاں کرنے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی وحی بھیجی اور وہ صرف ہماری عبادت کرنے والے تھے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿اِِنَّ الْاِِنسَانَ خُلِقَ ہَلُوْعًاo اِِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًاo وَاِِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا﴾ (المعارج: ۱۹ ۔ ۲۱)
’’بلاشبہ انسان تھڑدلا بنایا گیا ہے۔ جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو بہت گھبرا جانے والا
ہے۔ اور جب اسےبھلائی ملتی ہے تو بہت روکنے والا ہے۔‘‘
سو رب سبحانہ و تعالیٰ نے اس بات کی خبر دی ہے کہ وہی مسلم کو مسلم، مقیم صلوٰۃ کو مقیم الصلوٰۃ اور امام ہادی کو امامِ ہادی بناتا ہے، اور حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
﴿وَّجَعَلَنِیْ مُبٰرَکًا اَیْنَ مَا کُنْتُ وَاَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ مَا دُمْتُ حَیًّاo وَّبَرًّ ا بِوَالِدَتِیْ وَلَمْ یَجْعَلْنِِیْ جَبَّارًا شَقِیًّاo﴾ (مریم: ۳۱ ۔ ۳۲)
’’اور مجھے بابرکت بنایا جہاں بھی میں ہوں اور مجھے نماز اور زکوٰۃ کی وصیت کی، جب تک میں زندہ رہوں ۔ اور اپنی والدہ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والا (بنایا) اور مجھے سرکش، بدبخت نہیں بنایا۔‘‘
ان آیات میں رب تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ اس نے جنابِ عیسیٰ علیہ السلام کو والدہ کے حسنِ سلوک کرنے والا بنایا، اور شقی سرکش نہیں بنایا۔ یہ اس باب میں اہلِ سنت کا صریح قول ہے کہ رب تعالیٰ بندوں کے فعل کا خالق ہے، اور فرعون اور اس کی قوم کے بارے میں ارشاد فرمایا:
﴿وَ جَعَلْنٰہُمْ اَئِمَّۃً یَّدْعُوْنَ اِلَی النَّارِ﴾ (القصص: ۳۱)
’’اور ہم نے انھیں ایسے پیشوا بنایا جو آگ کی طرف بلاتے تھے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿لِمَنْ شَآئَ مِنْکُمْ اَنْ یَّسْتَقِیْمَo وَمَا تَشَآؤُوْنَ اِِلَّا اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَo﴾
(التکویر: ۲۸ ۔ ۲۹)
’’اس کے لیے جو تم میں سے چاہے کہ سیدھا چلے۔ اور تم نہیں چاہتے مگر یہ کہ اللہ چاہے ، جو سب جہانوں کا رب ہے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿اِِنَّ ہٰذِہٖ تَذْکِرَۃٌ فَمَنْ شَآئَ اتَّخَذَ اِِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلًاo وَمَا تَشَآؤُوْنَ اِِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ اِِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًاo﴾ (الانسان: ۲۹ ۔ ۳۰)
’’یقیناً یہ ایک نصیحت ہے، تو جو چاہے اپنے رب کی طرف (جانے والا) راستہ اختیار کرلے۔ اور تم نہیں چاہتے مگر یہ کہ اللہ چاہے، یقیناً اللہ ہمیشہ سے سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿کَلَّآ اِِنَّہٗ تَذْکِرَۃٌo فَمَنْ شَآئَ ذَکَرَہٗo﴾ (المدثر: ۵۳ ۔ ۵۵)
’’ہرگز نہیں ! یقیناً یہ ایک یاد دہانی ہے۔ تو جو چاہے اس سے نصیحت حاصل کرے۔‘‘
اس آیت سے بندے کی مشیت ثابت ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ہر
کام اللہ کی مشیتکے تابع ہے۔ اور یہی واضح طور پر اہلِ سنت کا عقیدہ ہے۔
قرآن کریم کے متعدد مقامات میں بتایا گیا ہے کہ بندے مختلف کام انجام دیتے، ایمان لاتے، کفر کرتے، سچ بولتے اور دروغ گوئی کے مرتکب ہوتے ہیں ، نیز یہ کہ وہ قوت و استطاعت سے بہرہ ور ہیں ۔
جمہور آئمہ اہلِ سنت کا قول ہے کہ اللہ ان سب کا خالق ہے، اور ان کے نزدیک خلق یہ مخلوق نہیں ہے۔ لہٰذا وہ اس بات میں کہ بندوں کے افعال رب کی مخلوق اور مفعول ہیں ، اور اس بات میں فرق کرتے ہیں کہ: بندے کا وہ نفسِ فعل جو وہ کرتا ہے اور وہ فعل کا مصدر ہے جو فعل بجا لاتا ہے کہ وہ مصدر کے معنی میں بندے کا فعل ہے۔ ناکہ اس اعتبار سے رب کا فعل ہے۔ بلکہ وہ رب کے حق میں مفعول ہے، اور رب تعالیٰ کو اس کے مفعولات کے ساتھ متصف نہیں کیا جاتا۔
شیعہ مصنف نے جن اعتراضات کا ذکر کیا ہے، یہ اس شخص پر وارد ہوتے ہیں ، جو رب کے فعل اور مفعول کے مابین فرق و امتیاز نہیں کرتا ؛یا افعال العباد کو افعال الٰہی قرار دیتا ہے، جیسا کہ جہم بن صفوان اور اس کے ہم نواؤں کاعقیدہ ہے؛ اور اشعری اور اس پیروکار آئمہ کہتے ہیں ۔ اسی لیے یہ مقام اس بحث کے لیے نا کافی اور تنگ دامن ہے۔ اس کی تفصیل دوسرے موقع پر ہو چکی ہے۔
اسی طرح یہ قباحت و شناعت اسے بھی لازم آتی ہے جو کہتا ہے کہ مخلوقات میں قوی و طبائع سرے سے موجود ہی نہیں ، اور کہتا ہے کہ اللہ ان کے ہوتے ہوئے فعل کرتا ہے ناکہ ان کے ذریعے۔ اس شخص کو یہ لازم آتا ہے کہ قادر اور عاجز میں کوئی فرق نہ ہو چاہے وہ قدرت کو ثابت بھی کرتا ہو، اور کہے کہ قدرت کسب سے ملی ہوئی ہے۔ اس کو یہ جواب دیا جائے گا کہ تو جس کسب کو ثابت کیا اور جس فعل کی نفی کی ہے، ان دونوں میں کوئی اور قادر اور عاجز میں کوئی معقول فرق ثابت نہیں کیا۔ جب کہ افتران محض کو قدرت کے ساتھ اختصاص حصال نہ ہو۔ کیونکہ بندے کا فعل اس کی حیات، علم اور ارادۂ وغیرہ کے ساتھ ملا ہوتا ہے۔ تو جب قدرت کو صرف افتران کی تاثیر ہی حاصل ہوگی تو پھر قدرت اور غیر قدرت میں کوئی فرق نہ رہا۔
اسی طرح جو یہ کہتا ہے کہ قدرت صفتِ فعل میں موثر ہے ناکہ اصلِ فعل میں ۔ جیسا کہ قاضی ابو بکر اور ان کے ہم نواؤں کا قول ہے۔ کیونکہ اگر وہ رب تعالیٰ کے پیدا کرنے کے بغیر تاثیر کو ثابت کرتا ہے تو اسے لازم آئے گا کہ بعض حوادث کا خالق رب تعالیٰ نہیں ۔ چاہے اس نے ان حوادث کو رب تعالیٰ کی تخلیق پر معلق بھی کیا ہو۔ تب بھی اصل اور صفت میں کوئی فرق نہ ہوگا۔
عقیدہ اہل سنت اور مسئلہ متنازعہ پر قرآنی آیات سے استشہاد
رہے جمہور آئمہ اہلِ سنت تو ان کا وہ قول ہے جس پر عقل و شرع دونوں سے ان کی شہادت ملتی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ سُقْنَاہُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَنْزَلْنَا بِہٖ الْمَآئَ فَاَخْرَجْنَا بِہٖ مِنْ کُلِّ الثَّمَرَاتِ﴾ (الاعراف: ۵۷)’’ہم اسے مردہ شہر کی طرف ہانک لے جاتے ہیں اوراس کے ساتھ بارش اتارتے اور بارش سے ہر طرح کے پھل پیدا کرتے ہیں ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآئِ مِنْ مَّآئٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا﴾ (البقرۃ: ۱۶۳)
’’اور اس پانی میں جو اللہ نے آسمان سے اتارا، پھر اس کے ساتھ زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کر دیا۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿یَّہْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلٰمِ﴾ (المائدۃ: ۱۶)
’’جس کے ساتھ اللہ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے پیچھے چلیں ،راہ سلامتی کی ہدایت دیتا ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا وَّ یَہْدیْ بِہٖ کَثِیْرًا﴾ (البقرۃ: ۲۶)
’’اس (قرآن) کے ساتھ بہت سے لوگوں کو گمراہ کرتا اور بہت سے لوگوں کو ہدایت عطا کرتا ہے۔‘‘
کتاب و سنت میں اس کی متعدد مثالیں ہیں جن میں رب تعالیٰ اس بات کی خبر دے رہے ہیں کہ وہ حوادث کو اسباب کے ذریعے پیدا کرتا ہے، اور کتاب و سنت ان قوی اور طبائع کے اثبات پر بھی دلالت کرتے ہیں جن کو رب تعالیٰ نے حیوان وغیرہ میں پیدا کیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے:
﴿فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾ (التغابن: ۱۶)
’’سو اللہ سے ڈرو جتنی طاقت رکھو۔‘‘
اور فرمایا:
﴿اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیْ خَلَقَہُمْ ہُوَ اَشَدُّ مِنْہُمْ قُوَّۃً﴾ (فصلت: ۱۵)
’’اور کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ بے شک وہ اللہ جس نے انھیں پیدا کیا، قوت میں ان سے کہیں زیادہ سخت ہے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّن ضُعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ ضُعْفٍ قُوَّۃً ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ ضُعْفًا وَّ شَیْبَۃً یَخْلُقُ مَا یَشَآئُ﴾ (الروم: ۵۳)
’’اللہ وہ ہے جس نے تمھیں کمزوری سے پیدا کیا، پھر کمزوری کے بعد قوت بنائی، پھر قوت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا بنا دیا، وہ پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے۔‘‘
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اشج بن عبدالقیس رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا تھا:’’تم میں دو عادتیں ایسی ہیں جو اللہ کو محبوب ہیں : بردباری اور متانت۔‘‘ انہوں نے عرض کی: کیا میں نے دو خصلتوں کو اپنے اندر پیدا کیا ہے، یا میں ان دونوں خصلتوں پر پیدا کیا گیا ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں بلکہ تم ان دونوں خصلتوں پر پیدا کیے گئے ہو۔‘‘ اس پر انہوں نے عرض کیا: سب تعریف اس اللہ کی ہے جس نے مجھے دو ایسی خصلتوں پر پیدا کیا ہے جو اسے محبوب ہیں ۔‘‘ [صحیح مسلم ۔ کتاب الایمان باب الامر بالایمان باللّٰہ تعالیٰ و رسولہ (حدیث: ۲۵؍۱۷،۱۸)۔]
یہ حضرات بندے کے لیے قدرت کو ثابت کرتے ہیں اور کہتے ہیں : قدرت کی مقدور میں تاثیر ایسے ہی ہے جیسے جملہ اسباب کی مسببات میں تاثیر ہے، اور سبب مسبب میں مستقل نہیں پایا جاتا۔ بلکہ وہ اپنے معاون کا محتاج ہوتا ہے۔ اس طرح بندے کی قدرت ہے کہ وہ مقدور میں مستقل نہیں ، اور یہ کہ اس کا سبب اسے روکتا اور اس کی راہ میں رکاوٹ بھی بنتا ہے۔ اسی طرح بندے کی قدرت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا سبب کا خالق ہے، اور اس کا بھی جو سبب میں معاون ہو یا اس میں روکاوٹ ہو۔ اسی طرح بندے کی قدرت ہے۔
اسی طرح اس امامی نے جو ہمارے مقاصد و دواعی کے اعتبار سے واقع ہونے والے افعالِ اختیاریہ میں اور افعالِ اضطراریہ میں ، جیسے نبض کی حرکت وغیرہ۔ جو ضروری فرق بیان کیا ہے، وہ برحق ہے اور اہلِ سنت والجماعت اور ان کے پیروکاروں کا قول ہے، اور اس میں امتِ مسلمہ کے کسی ایک فرد نے بھی، جسے امت میں لسانِ صدق حاصل ہے۔ جیسے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعینِ عظام رحمہم اللہ وغیرہ، اختلاف نہیں کیا، اور مالک، ابو حنیفہ، ثوری، اوزاعی، لبث، شافعی، احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ جیسے مجتہدین اور خلفاء نے اختلاف کیا ہے۔
تو جب مثبتین قدر میں ایسے لوگ ہیں جنہیں بطلانِ فرق لازم آتاہے تو ان کا قول باطل ہوگا۔ لیکن بہرحال منکرین تقدیر کایہ قول اس سے بھی زیادہ باطل ہے۔ سو اس قدری نے ایک باطل کا رد اس سے بھی زیادہ بڑے باطل کے ساتھ کیا ہے، اور اہل سنت ان دونوں امور میں اس کے موافق نہیں ۔یقیناً وہ صرف حق کہتے اور جانتے ہیں ۔ اس قدری امامی کا قول زیادہ باطل ہے۔
مندرجہ بالا بیان اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ بندوں کے افعال حادث ہیں ؛ اور معدوم ہونے کے بعد عالم وجود میں آئے ہیں ، لہٰذا ان کا حکم بھی وہی ہے جو باقی حوادث کاہے اور یہ بھی دیگر ممکنات کے زمرہ میں داخل ہیں ۔ بنا بریں جس دلیل سے بھی حوادث و ممکنات کے مخلوق ہونے پر استدلال کیا جائے گا اس سے یہ بھی عیاں ہوگا کہ افعال العباد اللہ کے پیدا کردہ ہیں ۔
یہ حقیقت محتاج بیان نہیں کہ ہر محدث (حادث شدہ چیز) اپنے وجود میں محدث (وجود میں لانے والے) کی محتاج ہے۔ یہ مقدمہ جمہور کے نزدیک ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ بعینہ اسی طرح ہر ممکن مرجّح تام کا محتاج ہے، جب بندے کے افعال حادث ہیں تو ان کے لیے ایک محدث کا وجود ناگزیر ہے، جب بندے کو اپنے افعال کا موجد قرار دیا جائے تو یہ تسلیمکرنا پڑے گا کہ بندہ آغاز کار میں موجد نہ تھا، یہ منصب اسے بعد میں ملا ہے۔ لہٰذا یہ ایک امر حادث ہے اور اسے بھی کسی محدث کی ضرورت ہوگی، اس لیے کہ اگر بندہ شروع ہی سے محدث ہوتا تو یہ فعل حادث بھی دائمی ہوتا[ اس سے فعل حادث کا دوام لازم آئے گا]۔اور جب بندے کا محدث ہونا حادث ہے تو اس کے لیے کسی اور محدث کی ضرورت ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ بندے کا ارادہ محدث ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ: بنا بریں ارادہ حادث ہے اور اس کے لیے کسی اور محدث کا وجود ناگزیر ہے۔ اور اگر کہا جائے کہ یہ ارادہ بندے کے ارادہ سے عالم وجود میں آیا تو کہا جائے گا کہ اس ارادہ کیلئے بھی محدث کی ضرورت ہے۔
خلاصہ کلام! بندے میں جس کو آپ محدث فرض کریں گے؛ تو اس کے ساتھ اسی قسم کی گفتگو کی جاسکتی ہے، جیسے حادث اول میں بیان ہوئی۔ اگر بندہ کے افعال کو قدیم اور ازلی قرار دو گے تو یہ محال ہے۔ اس لیے کہ جو فعل بندہ سے وابستہ ہو وہ قدیم نہیں ہو سکتا، اور اگر کہو کہ فعل بندے کا وصف ہے اور اس کی قدرت اس میں پیدا کی گئی ہے اور اس میں اسی طرح گفتگو کا امکان ہے جس طرح ارادہ میں تو اس صورت میں بھی مرجّح تام کا وجود ضروری ہے۔ لیکن تمہاری یہ دلیل بھی تمہارے کام نہ آئے گی۔ جس کی یہ وجوہات ہیں :
اوّل یہ کہ کہا جائے کہ جب اس میں پیدا کی گئی یہ قدرت اس میں فعل کے حدوث سے پہلے اور حدوث کے وقت پیدا کی گئی ہے تو ایک اور سببِ حادث کا ہونا لازم ہے جو اسے منضم ہو۔ وگرنہ دو مثلین میں سے ایک کا دوسرے پر بلا مرجع کے راجح ہونا لازم آئے گا۔ اسی طرح حوادث کا بلا سبب حادث کے حلاوث لازم آئے گا۔ وگرنہ اگر بندے کا حال فعل سے قبل اور فعل کے وقت یکساں ہو تو ایک حال کی دوسرے حال پر کوئی برتری اور فوقیت نہ ہوگی، اور اس حال کی کہ بندہ اس میں فاعل ہے، دوسرے حال کی بہ نسبت کوئی تخصیص باقی نہ رہے گی، اور اس میں دو متماثلین میں سے ایک کی دوسری پر بلا مرجیح لازم آئے گی۔
اسی طرح جب یہ کہا جائے کہ بندے کے فعل کا ہونا اور نہ ہونا دونوں ممکن ہیں ، اور اس کا وجود عدم پر کسی مرجح تام کے ساتھ راجح ہوگا۔
پھر یہ مرجح تام اگر تو بندے سے ہے تو اسی میں وہی قول ہے جو فعل میں ہے۔ تب پھر لازم ہوا کہ یہ مرجح تام اللہ کی طرف سے ہو، اور یہ کہ اس کا وجود فعل کے وجود کو مستلزم ہو۔ وگرنہ وہ مرجح تام نہ ہوگا۔
اسی لیے قدر کے مثبتین جمہور اہلِ سنت کا اس پر اتفاق ہے کہ رب تعالیٰ نے نعمتوں کے ساتھ اہلِ ایمان کو خاص کیا ہے۔ ناکہ کافروں کو۔ وہ یوں کے اس نے اہلِ ایمان کو ہدایت سے نوازا ہے۔ اگر اللہ کی مومنوں پر نعمت کافروں پر نعمت کے جیسے ہوتی تو مومن مومن نہ ہوتا۔ جیسا کہ ارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِِلَیْکُمُ الْاِِیْمَانَ وَلَکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِِلَیْکُمُ الْاِِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّہَ اِِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْیَانَ اُوْلٰٓئِکَ ہُمْ الرَّاشِدُوْنَo﴾ (الحجرات: ۷) ’’اور لیکن اللہ نے تمھارے لیے ایمان کو محبوب بنا دیا اور اسے تمھارے دلوں میں مزین کر دیا اور اس نے کفر اور گناہ اور نافرمانی کو تمھارے لیے ناپسندیدہ بنا دیا، یہی لوگ ہدایت والے ہیں ۔‘‘
اور فرمایا:
﴿یَمُنُّونَ عَلَیْکَ اَنْ اَسْلَمُوْا قُلْ لَا تَمُنُّوا عَلَیَّ اِِسْلَامَکُمْ بَلْ اللّٰہُ یَمُنُّ عَلَیْکُمْ اَنْ ہَدَاکُمْ لِلْاِِیْمَانِ اِِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَo﴾ (الحجرات: ۱۷)
’’وہ تجھ پر احسان رکھتے ہیں کہ وہ اسلام لے آئے، کہہ دے مجھ پر اپنے اسلام کا احسان نہ رکھو، بلکہ اللہ تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمھیں ایمان کے لیے ہدایت دی، اگر تم سچے ہو۔‘‘
اور فرمایا:
﴿فَہَدَی اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِہِ وَ اللّٰہُ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍo﴾ (البقرۃ: ۲۱۳)
’’پھر جو لوگ ایمان لائے اللہ نے انھیں اپنے حکم سے حق میں سے اس بات کی ہدایت دی جس میں انھوں نے اختلاف کیا تھا اور اللہ جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتا ہے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿اُوْلٰٓئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْاِِیْمَانَ وَاَیَّدَہُمْ بِرُوحٍ مِّنْہُ﴾ (المجادلہ: ۲۲)
’’یہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اس نے ایمان لکھ دیا ہے اور انھیں اپنی طرف سے ایک روح کے ساتھ قوت بخشی ہے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّہْدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ وَمَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہٗ یَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَیِّقًا حَرَجًا کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآئِ﴾ (الانعام: ۱۲۵)
’’تو جسے اللہ ہدایت دینا چاہتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہ کرنا چاہتا ہے اس کا سینہ تنگ، نہایت گھٹا ہوا کر دیتا ہے، گویا وہ مشکل سے آسمان میں چڑھ رہا ہے۔‘‘
ان قدریہ نے نعمتِ دینیہ کو مومن و کافر دونوں پر یکساں قرار دیا ہے، اور کہتے ہیں کہ اللہ نے بندے کو ایسی قدرت دی ہے جو کفر و ایمان دونوں کے مناسب ہے۔ پھر اس سے دونوں میں سے ایک کا صدور ایسے کسی سببِ حادث کے بغیر ہوتا ہے جو ترجیح کے مناسب ہو، اور ان کا یہ گمان ہے کہ قادرِ مختار اپنے مقدور کی دو طرفوں میں سے ایک کو دوسرے پر بلا مرجح کے ترجیح دیتا ہے۔ ان لوگوں نے اس بات کا دعویٰ بندے اور رب دونوں کی قدرت میں کیا ہے۔
رب کی قدرت کے باب میں اس بات پر بے شمار مثبتین تقدیر نے ان کی موافقت کی ہے۔ اور رازی اور ان جیسےعلماء جنہوں نے اس بات سے قدریہ کے خلاف حجت پکڑی ہے، اس باب میں تناقض کا شکار ہوئے ہیں ۔ لہٰذا جب ان علماء نے خلقِ افعال کے مسئلہ میں قدریہ سے مناظرہ کیا ہے تو ان کے خلاف اسے دلیل بنایا ہے، اور کہا ہے کہ ممکن کے وجود کی اس کے عدم پر ترجیح مرجح تام سے ہی ہوگی۔ چاہے اس کا صدور قادر مختار ہو یا غیر قادر سے ہو۔ ان لوگوں نے حدوث عالم کے مسئلہ میں تکلم کیا ہے۔ جب ان سے یہ کہا جاتا ہے کہ حادث کے لیے سببِ حادث کا ہونا لازم ہے تو یہ لوگ قدریہ جیسا جواب دیتے ہیں ، اور کہتے ہیں کہ قادرِ مختار اپنے مقدور کی دو طرفوں میں سے ایک کو بلا مرجح کے ترجیح دیتا ہے۔ ان لوگوں نے قادر اور غیر قادر میں فرق کیا ہے۔ جیسا کہ قدریہ کا قول ہے۔ اور کبھی یہ بندے اور رب کے فعل میں یہ کہہ کر فرق کرتے ہیں کہ رب تعالیٰ اپنی اس مشیئتِ قدیمہ کے ذریعہ ترجیح دیتا ہے جو اس کی ذات کے لوازم میں سے ہے۔ بخلاف عبد کے کہ اس کا ارادہ غیر سے حادث ہوتا ہے۔
لیکن اکثر لوگوں کا قول ہے کہ جو لوگ ازلی اور قدیم ارادہ کو تجدد شئے بغیر مرجح کے قرار دیتے ہیں ، اِن کا قول اُن کے قول کی جنس سے ہے۔ کیونکہ ارادہ کی جملہ وقتی مقدرات کی طرف نسبت ایک ہی ہے، اور جملہ ممکنات کی طرف نسبت بھی ایک ہی ہے، لہٰذا دو متماثلین میں سے ایک کی دوسرے پر ترجیح بلا مرجح ٹھہری۔ لہٰذا جب فاعل کی فعل سے قبل اور فعل کے وقت کی حالت یکساں ہوئی، پھر فعل کی وجہ سے دو میں سے ایک حال کے ساتھ اختصاص کو قرض کیا تو اس سے ترجیح بلا مرجح لازم آئی۔ ان فرقوں کا منتہائے نظر یہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جو لوگ ان کے کلام کو نہیں جانتے۔ جیسے رازی وغیرہ اور وہ دہریوں کی علت، قدریوں کے قادر اور کلابیوں کے مرید کے درمیان متردد ہیں ۔ وہ رب تعالیٰ کو اپنی مشیئت و قدرت کے ساتھ ازل میں فعل اور کلام پر قادر نہیں مانتے۔ پھر ان دہریہ فلسفیوں نے جیسے ابنِ سینا وغیرہ، اس دلیل کو عالم کے حدوث کے ممتنع ہونے پر اور اس کے قدیم ہونے کے واجب ہونے کو، اپنی سب سے عمدہ دلیل قرار دیا ہے۔ لیکن ان کی مذہب کی یہاں کوئی دلیل نہیں ۔ کیونکہ اس دلیل کی غایت یہ ہے کہ یہ رب تعالیٰ کی فاعلیت کے دوام کو مستلزم ہے، اور یہ فلک وغیرہ اعیانِ عالم کے قدم پر کوئی دلالت نہیں کرتی۔
لیکن ان لوگوں کا قول ہے کہ یہ دلیل تسلسل کو لازم ہے، اور تسلسل محال ہے۔ اب تسلسل سے ان کی مراد تمام تاثیر میں تسلسل ہے، جیسا کہ پہلے گزرچکا۔ رہا آثار میں تسلسل تو اس کے وہ بھی قائل ہیں ۔
ہم بیان کر چکے ہیں کہ ممتنع تسلسل وہ ہے جو دورِ ممتنع کی جنس میں سے ہو۔ کیونکہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ بندہ یہ فعلِ حادث تب کرے گا جب تک کہ وہ اس فعل کو حادث نہ کرے گا کہ جس سے وہ اس کا فاعل ہو جائے۔ لہٰذا وہ اس کے حادث ہونے کے ساتھ حادث ہوگا۔ اسی طرح دوسرا ہے، اور یہ تمام تاثیر میں تسلسل ہوگا۔
جب یہ کہا جائے کہ بندہ ایک شے کو اس وقت حادث نہ کرے گاحتی کہ دوسری شے کو حادث کرلے ؛ تو یہ دورِ ممتنع ہوگا، اور یہی تسلسل ہے۔ جبکہ حوادث میں کلام مطلق ہو، اور حادث معین ہو تو یہ دورکی بات ہے۔جہمیہ اور قدریہ پر یہ متکلمین کی حجتِ الزامیہ ہے۔ جبکہ اشعریہ، کرامیہ، اور معتزلہ اور ان کے موافق فقہاء وغیرہ کی بھی یہی دلیل ہے، اور اس کا دوام ان کے نزدیک ہے۔ جس نے اُسے یعنی رب تعالیٰ کو یہ ٹھہرایا ہے کہ اسے اپنی قدرت اور مشیئت کے ساتھ تکلم اور فعل ممکن نہ تھا، پھر اس لیے ممکن ہو گیا تو یہ ترجیح بلا مرجع کو اور اس تسلسل اور دور کو مستلزم ہے جس کے امتناع پر اتفاق ہے، اور ممتنع تسلسل موثرات اور تمام تاثیر میں ہے۔ البتہ رہا آثار میں تسلسل تو یہی موردِ نزاع ہے۔
یہ لوگ ان دو قسموں کو باطل قرار دیتے ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ جو چیز غیر متناہی ہو اس میں تفاوت ممتنع ہے، اور جمہور فلاسفہ، آئمہ اہلِ ملل کے ساتھ ہیں ؛ وہ دوسری قسم کا انکار نہیں کرتے۔
اس صورت میں ان فلسفیوں کو یہ کہا جائے گا کہ اگر تو آثار میں تسلسل ممتنع ہے تو تمہار اقول باطل ٹھہرا، اور قول کے باطل ہونے کے ساتھ ہی تمہاری دلیل بھی باطل ٹھہری۔ کیونکہ قول باطل پر حجت صحیحہ قائم نہیں کی جا سکتی۔
اگر تسلسل فی الآثار ممکن ہے تو تمہاری دلیل باطل ٹھہری۔ کیونکہ ممکن ہے کہ اس کے کلمات غیر متناہی ہوں ، اور یہ کہ وہ ازل سے اپنی مشیئت کے ساتھ متکلم بھی ہے اور فعال بھی ہے، اور وہ ایک کے بعد ایک فعل کرتا ہے جس میں افعال اور مفعولات میں سے کوئی معین شے قدیم نہیں ہوتی۔ تب پھر دلیل دونوں صورتوں میں باطل ٹھہری۔ کیونکہ جب تسلسلِ آثار ممکن ہوا تو افلاک کا حدوث اسے قبل کے اسبابِ حادثہ کی وجہ سے ممکن ہوا۔
جملہ انبیاء کرام علیہم السلام اس بات کی خبر دی ہے کہ رب تعالیٰ ہے زمینوں اور آسمانوں کو اور ان کے درمیان کی چیزوں کو چھ دن میں پیدا کیا ہے۔ جبکہ اس کا عرش ان کے پیدا کیے جانے سے قبل پانی پر تھا۔ یہ بات ضرورت اور جملہ رسولوں کے دین میں نقل متوار سے منقول ہوتی چلی آ رہی ہے۔ جبکہ تمہاری کوئی دلیل ان کے قدم کو لازم قرار نہیں دیتی۔ لہٰذا تمام افلاک کے قدم کا قول کرنا۔ اس میں کوئی حجتِ عقلیہ نہیں ، اور یہ بلا سبب پیغمبروں کی تکذیب ہے۔
پھر عقلِ صریح بھی تمہارا قول باطل قرار دیتی ہے۔ کیونکہ افلاک وغیرہ عالم مستلزم حوادث ہیں ۔ اگر یہ قدیم ہوتے تو لازم آتا ہے کہ یہ حوادث اپنے ایسے موجب سے صادر ہوئے ہیں جو قدیم ہے۔ تب پھر موجب اپنے ایسے موجب و مقتضی کو مستلزم ہوتا جو اس سے متاخر نہیں ہے۔ کیونکہ اگر اس کے موجب کا اس سے تاخر جائز ہوتا تو یہ علتِ تامہ نہ ہوتا۔ کیونکہ علتِ تامہ معلول کو مستلزم ہوتی ہے۔ تو جب یہ علتِ تامہ ہی نہ ٹھہری تو اس کے موجب کا اس کے ساتھ اقتران ممتنع ٹھہرا۔ کیونکہ بدون علتِ تامہ کے معلول کا قدم ممتنع ہے۔
پھر یہ کہ اگر اس کے موجب کا تاخر جائز ہوتا۔ جبکہ ازل میں اس کے ساتھ اس کا اقتران بھی جائز ہو تو اس کی دو میں سے ایک کے ساتھ تخصیص ایسے مرجح کی محتاج ہوتی جو موجب بالذات نہ ہوتی، اور یہاں اس کے سوا او رکوئی مرجح ہے نہیں ۔ سو افلاک وغیرہ کا وجود ممتنع ٹھہرا، اور یہ باطل ہے کیونکہ افلاک موجود بھی ہیں اور عیاناً مشہود بھی ہیں ، او ریہ انہیں بھی تسلیم ہے، اور وہ کہتے ہیں کہ افلاک علتِ قدیمہ کے ساتھ معلول ہیں ، اور وہ موجب بالذات ہے اور اس کا موجب اس سے متاخر نہیں ہوتا۔جب یہ عقلِ صریح کے ذریعے معلوم ہے اور وہ اس کے موافق بھی ہیں ، بلکہ یہ ان کے قول کی اصل ہے۔ انہیں یہ کہا جائے گا کہ جو حوادث کو مستلزم ہو اس کا موجب بالذات سے صدور ممتنع ہے۔ کیونکہ حوادث رفتہ رفتہ وجود میں آتے ہیں ، اور جو رفتہ رفتہ وجود میں آتا ہو۔ اس کے اجزاء ازلیہ اور قدیمہ نہیں ہوتے، اور نہ موجب بالذات سے ان کا صدور ہوتا ہے۔ لہٰذا حواد کا موجب بالذات سے صدور ممتنع ٹھہرا، اور عالم کی کسی شے کا صدور حوادثِ لازمہ کے بغیر ممتنع ممتنع ہوا۔ کیونکہ لازم کے بغیر ملزوم کا وجود ممتنع ہے۔ لہٰذا ظاہر ہوا کہ فلک کا ازلی و قدیم ہونا ممتنع ہے، اور یہ کہنا ممکن نہیں کہ ازل میں یہ حوادث سے خالی تھا، حوادث اس میں بعد میں پید اہوئے ہیں ۔ کیونکہ تب یہ کہا جائے گا کہ ان حوادث کا سبب ہونا بھی لازم ہے۔ لہٰذا ان میں بھی وہی قول ہے جو جو دوسرے حوادث میں ہے۔ پس اگر تو یہ جائز ہے کہ وہ سببِ حادث کے بغیر ہیں تو یہ فلک میں ممکن ہوا، اور ان کی حجت باطل ٹھہری، اور اس سے دو متماثلین میں سے ایک کو دوسرے پر بلا مرجح کے ترجیں دینا لازم آیا، اور اگر حوادث کے لیے سبب لازم ہے تو حوادث کا تسلسل و دوام لازم آیا، اور یہ کہ فلک اور رب تعالیٰ کے سوا جملہ اشیاء ہمیشہ سے حوادث کے مقارن رہی ہیں ، اور ہر ممکن جو حوادث کے مقارن ہو اس کا موجب بالذات سے صدور ممکن نہیں ۔ لہٰذا خود اس حادث کا بھی قدیم ہونا ممتنع ٹھہرا۔
حوادث کو مستلزم کے بارے میں لوگوں کا اختلاف ہے، اور یہ وہ ہے جو حوادث سے خالی نہ رہتا ہو، اور جسے اقترانِ حوادث لازم ہو۔ کیا اس کا حادث ہونا واجب ہے یا اس کے حدوث غیر واجب اور اس کا قدم جائز ہے۔ چاہے وہ واجب ما سوا سے غنی ہو، یا ممکن ہو، یا واجب بنفسہ اور ماسوا سے غنی کے درمیان اور ممکن، اور محتاج الی الغیر میں فرق کیا جائے گا۔ اس بارے تین اقوال ہیں :
۱۔ پہلا قول: یہ اُن اہلِ نظر و کلام کا قول ہے، جو فاعلیت ِ رب کے دوام کے امتناع کے، اور ازل میں رب تعالیٰ کے اپنی مشیئت و قدرت کے ساتھ فعل و تکلم کے امتناع کے قائل ہیں اور یہ کہ یہ ممکن نہیں ۔ ان لوگوں کے مستقبل میں رب تعالیٰ کی فاعلیت کے امکان کی بابت دو اقوال ہیں ۔
۲۔ دوسرا قول: یہ ان فلاسفہ کا قول ہے جو ما سوی اللہ کے قدم کے قائل ہیں ۔ جیسے افلاک یا عقول یا دوسری اشیاء وغیرہ۔ یہ رب تعالیٰ کو موجب بالذات قرار دیتے ہیں ۔ جیسے عالم کی کسی شے کی تغییر یا اس کا اِحداث ممکن نہیں ۔ بلکہ ان کے قول کی حقیقت یہ ہے کہ حوادث اس سے صادر ہی نہیں ہوئے۔ بلکہ ان کا حدوث و صدور کسی محدث کے بغیر ہے۔
۳۔ تیسرا قول: یہ ان آئمہ اہلِ ملل کا قول ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ رب تعالیٰ ہر شے کا خالق ہے، اور رب تعالیٰ کے سوا ہر شے عدم سے وجود میں آئی ہے، اور یہ کہ رب تعالیٰ کی قادریت کو دوام ہے، اور وہ ہمیشہ سے متکلم ہے جب چاہے، اور وہ اپنی ذات کے ساتھ قائم افعال کا فاعلِ ازلی ہے۔
فلاسفہ کے وہ آئمہ اور اساطین جو ارسطو سے پہلے ہو گزرے ہیں ، وہ ان کے اقوال کے موافق ہیں ۔ بخلاف ارسطواور اس کے ان پیروکاروں کے جو افلاک کے قدم کے قائل ہیں ۔ کیونکہ ان کے قول کا فاسد ہونا صحیح منقول اور صریح معقول سے معلوم اور واضح ہے۔
دوسرے یہ کہ معین مفعول کا فعل کو لازم ہونا، اس کے قدیم پر قدیم اور اس کے دوام پر دائم ہونا بالذات ممتنع ہے، اور اگر فرض کیا کہ فاعل غیر مختار ہے تو اس وقت کیا جب یہ ثابت ہو جائے گا کہ وہ اپنی قدرت و مشیئت کے ساتھ فاعل ہے؟
رہی ان کی یہ دلیل کہ علت معلول پر بالذات مقدم ہے۔ بغیر زمان کے، تو یہ غیر معقول اور غیر موجود ہے سوائے اس کے جس میں یہ شرط ہے۔ کیونکہ شرط کبھی مشروط کے مقارن ہوتی ہے۔ رہی وہ علت جو معلول کے لیے فاعل کا فعل ہے تو اس میں علت کی معلول کے ساتھ زمانے میں مقارنت غیر مقول ہے۔ یہ لوگ زمانے کے بغیر علت کے معلول پر بالذات تقدیم کے قائل ہیں ۔ جیسے کہ ہاتھ کی حرکت انگوٹھی کی حرکت پر بالذات متقدم ہے۔ اسی طرح حرکت آواز پر مقدم ہے وغیرہ وغیرہ۔
غرض یہ لوگ جو بھی مثالیں پیش کرتے ہیں یا تو وہ شرط ہیں ناکہ فاعل اور یا پھر متقدم بالزمان ہیں ۔ رہا فاعلِ غیر متقدم تو وہ ہر گز بھی معقول نہیں ۔
غرض یہ مقام ان مقالات کے بیان کا نہیں ۔ یہ روئے زمین کے سب سے گمراہ مقالات ہے۔ ان پر کلام کا محل دوسرا ہے۔ یہاں دراصل ان قدریہ کی اصل پر تنبیہ مقصود ہے کہ ان کے قول کی حقیقت یہ ہے کہ حیوان کے افعال فاعل کے بغیر حادث ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ دہریہ فلاسفہ کے قول کی اصل یہ ہے کہ فلک کی حرکت اور جمیع حوادث کی حرکت سبب حادث کے بغیر ہوتی ہے۔ اسی طرح اہلِ اثبات میں سے جو قدریہ کے اس بات میں موافق ہیں کہ افعال رب تعالیٰ کے ساتھ قائم نہیں ہیں ۔
کہتے ہیں کہ فعل ہی مفعول اور خلق ہی مخلوق ہے۔ جیسا کہ اشعریہ اور ان کے ہم نواؤں کا قول ہے کہ اسے بھی رب کے فعل میں وہ لازم آتا ہے جو قدریہ کو لازم آتا ہے۔
اسی لیے اس رافضی کی شناعات ان لوگوں پر ہیں ، او ریہ خلفائے ثلاثہ کے مثبتین کی جماعتوں میں سے ایک جماعت ہے، اور بسا اوقات بے شمار زیدیہ امامیہ وغیرہ شیعہ اس باب میں ان کی موافقت کرتے ہیں ۔ لیکن بہرحال ان کا قول قدریہ کے قول سے کم خطا پر ہے۔ بلکہ ان کی اصل خطا قدریہ کی بعض خطا میں ان کی موافقت کرنا ہے۔ جبکہ آئمہ اہلِ سنت میں کوئی اس خطا کا قول نہیں کرتا۔ اسی طرح اہلِ حدیث و تفسیر و فقہ و تصوف میں سے جمہور اہلِ سنت خطا کو متضمن ان کے اقوال کے قائل نہیں ۔ بلکہ وہ اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ بندوں کے افعال کا خالق ہے، اور یہ کہ بندہ قادر مختار ہے جو اپنی مشیئت قدرت سے فعل کرتا ہے، اور اللہ ہر چیز کا خالق ہے، اور یہ کہ افعالِ اختیاریہ اور اضطراریہ میں فرق ہے، اور یہ کہ رب تعالیٰ اپنی قدرت و مشیئت کے ساتھ فعل کرتا ہے، او ریہ کہ جو اس نے چاہا وہ ہوا، اور جو نہ چاہا وہ نہ ہوا، اور یہ کہ وہ ہمیشہ سے افعال پر قادر صفاتِ کمال کے ساتھ موصوف اور جب چاہے متکلم ہے، اور وہ ان صفات کے ساتھ موصوف ہےجن کے ساتھ اس نے خود کا متصف ہونا بیان کیا ہے، اور جن صفات کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رب تعالیٰ کا متصف ہونا بیان کیا ہے، اور وہ اس میں کسی قسم کی تحریف، تعطیل، تکییف، اور تمثیل وغیرہ کے قائل نہیں ۔ وہ رب تعالیٰ کے علم محیط قدرتِ کاملہ اس کے ہر چیز کو پیدا کرنے اور اس کی مشیئتِ نافذہ کو ثابت کرتے ہیں ۔
رب تعالیٰ جنہیں اہلِ سنت کے قول کا فہم عطا فرماتا ہے، وہ جانتا ہے کہ انہوں نے محاسنِ اقوال کو جمع کیا ہے، اور انہوں نے رب تعالیٰ کو غایتِ کمال کے ساتھ متصف کیا ہے۔ ان لوگوں صحیح منقول اور صریح معقول کو مضبوطی سے تھام رکھا ہے، اور انہی کا قول صحیح اور تناقض سے محفوظ ہے اور اس کی کے ساتھ اللہ نے اپنے رسولوں کو بھیجا اور اپنی کتابوں کو اتارا ہے۔