Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

کفار کے مذہبی رسومات میں شرکت کرنا


کفار کے مذہبی رسومات میں شرکت کرنا

بلاضرورت کسی کافر کے جنازہ یا تجہیز وتکفین کی رسومات میں از ابتدا تا اختتام شرکت جائز نہیں ہے۔ کیونکہمن تشبه بقوم فهو منهم اور من كثر سواد قوم فهو منھم کا مصداق ہے، اگرچہ خود کوئی فعل انجام نہ دیتا ہو۔ اللہ تعالیٰ جل شانہ کا ارشاد ہے وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓى اَحَدٍ مِّنۡهُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمۡ عَلٰى قَبۡرِهٖ ؕ(سورۃ التوبہ آیت نمبر 84)

علامہ ابنِ کثیرؒ فرماتے ہیں کہ یہ آیت اگرچہ عبداللہ بن ابی بن سلول (رئیس المنافقین) کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے، لیکن سب ہی کفار کو عام ہے، جیسا کہ بخاری شریف کی روایت سے معلوم ہوتا ہے۔ اور اگرچہ یہ آیت صلوٰة جنازہ اور قبر پر دعا کی ممانعت کے لئے ہے لیکن رسوماتِ کفار اور شرکیہ اعمال کی مجلس میں شرکت ایک مستقل گناہ ہے۔

ارشاد ربانی ہیں: "وَاِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰى یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِهٖؕ-وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ وَ مَا عَلَى الَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ وَّ لٰـكِنْ ذِكْرٰى لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ وَ ذَرِ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَهُمْ لَعِبًا وَّ لَهْوًا وَّ غَرَّتْهُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا وَ ذَكِّرْ بِهٖۤ اَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌۢ بِمَا كَسَبَتْ لَیْسَ لَهَا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلِیٌّ وَّ لَا شَفِیْعٌۚ

 (سورۃ الانعام آیت نمبر 68/69/70)

اور (اے مخاطب) جب تو ان لوگوں کو دیکھے جو ہماری آیات (اور احکام) میں عیب جوئی کر رہے ہیں تو ان لوگوں (کے پاس بیٹھنے) سے کنارہ کش ہو جا، یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ جاویں اور اگر تجھ کو شیطان بھلا دے (یعنی ایسی مجلس میں بیٹھنے کی ممانعت یاد نہ رہے ) تو (جب یاد آوے) یاد آنے کے بعد پھر ایسے ظالموں کے پاس مت بیٹھ بلکہ فوراً اٹھ کھڑا ہو) اور (اگر کوئی واقعی دنیوی یا دینی ضرورت ایسی مجلس میں جانے کی ہو تو اس کا حکم یہ ہے کہ) جو لوگ (ممنوعاتِ شرعیہ سے جن میں بلا ضرورت ایسی مجالس میں جانا بھی داخل ہے) احتیاط رکھتے ہیں، اور ان پر ان (طاعنين و مكذبين) کی باز پرس (اور گناہِ طعن) کا کوئی اثر نہ پہنچے گا (یعنی بضرورت وہاں جانے والے گنہگار نہ ہوں گے) لیکن اُن کے ذمہ (بشرطِ قدرت) نصیحت کر دینا ہے شاید وہ (طعنے دینے والے) بھی (ان خرافات سے) احتیاط کرنے لگیں (خواہ قبول اسلام کر کے خواہ ان کے لحاظ سے) اور کچھ مجلس تکذیب کی تخصیص نہیں، بلکہ) ایسے لوگوں سے بالکل کنارہ کش رہ جنہوں نے اپنے (اس) دین کو (جس کا ماننا ان کے ذمہ فرض تھا یعنی اسلام کو لہو و لعب بنا رکھا ہے (کہ اس کے ساتھ تمسخر کرتے ہیں) اور دنیوی زندگی نے ان کو دھوکہ میں ڈال رکھا ہے (کہ اس کی لذات میں مشغول ہیں، اور آخرت کے منکر ہیں، اس لئے اس تمسخر کا انجام نظر نہیں آتا) اور (کنارہ کشی و ترک تعلقات کے ساتھ ایسے لوگوں کو اس قرآن کے ذریعہ سے (جس سے یہ تمسخر کر رہے ہیں) نصیحت بھی کرتا رہتا کہ کوئی شخص اپنے کردار (بد) کے سبب (عذاب میں) اس طرح نہ پھنس جاوے کہ کوئی غیراللہ نہ اس کا مددگار ہواور نہ سفارشی ہو

 الغرض تفریح طبع کیلئے یا صرف خوشامد کیلئے یا کسی دنیوی غرض کیلئے ایسی مذکورہ شرکت جائز نہیں ہے۔

( فتاوىٰ فلاحيه جلد 3، صفحہ 154)