تمام ازمنہ میں انواع حوادث کے بارے میں اقوالِ ثلاثہ
امام ابنِ تیمیہؒتمام ازمنہ میں انواع حوادث کے بارے میں اقوالِ ثلاثہ
یقیناً نزاع اور اختلاف تو نوعِ حوادث میں ہے کی آیا زمانہ مستقبل اور ماضی میں ان کا دوام ممکن ہے یا فقط مستقبل میں یا دونوں زمانوں میں سے کسی میں بھی ان کا دوام ممکن نہیں ہے جیسے کہ مسلمانوں اور غیر مسلم اہلِ نظر کے نزدیک تین اقوال معروف ہیں ان میں ضعیف ترین قول ان لوگوں کا ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ انواعِ حوادث کو دوام حاصل نہیں ہے اور نہ ان کا دوام ممکن ہے ،ماضی میں بھی اور مستقبل میں بھی جیسے کہ جہم بن صفوان اور ابو الہذیل ہلاَّف کا قول ہے اور دوسرا قول ان لوگوں کا ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ انواعِ حوادث کا زمانہ مستقبل میں تو دوام ممکن ہے ماضی میں نہیں جیسے کہ جہمیہ اور معتزلہ میں سے اکثر اہلِ کلام کا یہ قول ہے اور بعض کرامیہ ،اشعریہ اور شیعوں کا بھی ، اور بعض فقہا کا بھی یہ قول ہے۔تیسر اقول: ان کا قول ہے جوکہتے ہیں : انواعِ حوادث کا دوام زمانہ ماضی و مستقبل دونوں میں ممکن ہے جیسے کہ آئمہ محدثین اور بعض آئمہ فلاسفہ اس کے قائل ہیں لیکن وہ لوگ جو افلاک کے قدم کے قائل ہیں جیسے ارسطو اور اس کی جماعت ۔وہ اس بات کے قائل ہیں کہ فلک کے حوادث کو دوام حاصل ہے۔ اور اس بات کے بھی وہ قائل ہیں کہ فلک کی حرکت میں سے ہر دور ( چکَّر)ایک دوسرے دَور کے ساتھ مسبوق ہے (یعنی اس سے پہلے ایک اور دور موجود ہے )لیکن اس طرح مسبوق کہ زمانہ ماضی میں اس کا کوئی اول نہیں یعنی وہ کسی اول پرمنتہی نہیں ہوتا نہ اس کے لیے کوئی مبدأ ثابت ہے اور یقیناً اللہ تعالیٰ نے آسمانوں ،زمینوں اور اس کے درمیان جو کچھ ہے وہ چھ دن میں نہیں پیدا کیا بلکہ اس قول کی حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بھی چیز کی تخلیق نہیں کی جس طرح ایک اور جگہ میں اس بات کو بیان کیا گیا ہے اور یہ تو تمام فرق کے اتفاق کے ساتھ یہ کفرہے جس کے مسلمان بھی قائل ہیں اور یہود و نصاریٰ بھی قائل ہیں ۔
ارسطو اور اس کے اتباع (پیروکار)ممکنات کے لیے حوادث کو ازلی مانتے ہیں اور وہ لوگ جو اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے اس کا رب ہے ،اس کا مالک ہے اور اس کی ذات کے ماسوا تمام موجودات مخلوقِ حادث ہیں اور یہ سب حضرتِ آدم کے بعد وجود میں آئے پس وہ خالقِ واجب اور مخلوقِ ممکن کے درمیان حوادث کے دوام میں فرق کرتے ہیں اور یہی دیگر فرق کے آئمہ کا قول ہے پس یہ لوگ اگرچہ اس بات کے قائل ہیں کہ رب تعالیٰ ازل سے اپنی مشیت کے ساتھ متکلم ہیں اور ازل سے زندہ ہے اور جس چیز کا ارادہ کرلے اس کو (بہر صورت )کرگذرنے والے ہیں یقیناً یہ اس بات کے بھی قائل ہیں کہ بے شک اللہ تعالیٰ کے ماسوا تمام موجودات مخلوقِ حادث ہیں بعد اس کے کہ پہلے معدوم تھے اور یہاں پر تو مقصود یہ ہے کہ وہ فلاسفہ جو عالم کے قدم کے قائل ہیں اگر وہ بغیر کسی سبب ِ حادث کے حوادث کے حدوث کو اور ان کے وجود میں آنے کو جائز اور ممکن سمجھتے ہیں تو عالم کے قدم کے بارے میں ان کی بڑی دلیل اور برھان باطل ہو جائے گی اور اگر وہ اس بات کو ممتنع سمجھیں تو پھر عالم کا حوادث سے خالی ہونا ممتنع ہو جائے گا اور وہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ عالم کسی زمانے میں حوادث سے خالی نہیں تھا ۔
جب ہر وہ معین موجود چیز جس کو اللہ ارادے سے پیدا فرماتے ہیں اللہ کی مراد بن سکتا ہے تو بتحقیق وہ حوادث کے ساتھ بھی مقارن اور اس کو مستلزم ہیں پس یہ ممتنع ہوا کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کا ارادہ کریں (یعنی اس کے احداث کا )اور اس کے اُن لوازم کا ارادہ نہ کریں جو اس موجودِ معین سے کسی بھی حال میں جدا نہیں ہو سکتے اور اللہ تعالی ہر شے کا رب ہے اور اس کے خالق ہیں اس کے علاوہ ان کا کوئی رب نہیں پس یہ بات ممتنع ہے کہ بعض اشیاء کا حدوث اور ان کا وجود تو اُس کے ارادے سے ہو اور بعض حوادث کا وجود اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے ارادے سے ہو بلکہ حوادث اور ان کے تمام لوازم سب کے سب اللہ ہی کے ارادے سے موجود ہوئے ہیں اور جب صورتِ حال یہ ہے تو پس وہ قدیم ازلی ارادہ یا تو اپنی مراد کے ساتھ مقارنت اور اتصال کو مستلزم ہوگا یا ایسا نہیں ہوگا اگر پہلی صورت ہے تویہ بات لازم آئے گی کہ مراد اور اس کے لوازم قدیم اور ازلی ہوں اور ہر اس چیز کے ساتھ اس کے حوادث لازم ہوتے ہیں جس کا کوئی فاعل اور خالق ارادہ کرتا ہے اور جس کو اپنی کاریگری سے وجود دیتا ہے پس یہ اس کو مستلزم ہے کہ وہ (حوادث )اس کی ذات کے مراد ہوں اور اس کو بھی کہ وہ قدم اور ازلی ہوں کیونکہ یہ بات پہلے سے فرض کی گئی ہے کہ جس چیز کا بھی ارادہ کیا جائے تو وہ (مراد)ارادہ کرنے والی ذات کے ارادے کیساتھ مقارن اور متصل ہوتی ہے پس یہ بات لازم آئی کہ تمام کے تمام حوادث جویکے بعد دیگر ے وجود میں آتے ہیں وہ بھی قدیم اور ازلی ہوں اور یہ اپنی ذات کے اعتبار سے ممتنع ہے۔