Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

بدعات پھیلانے والے اور اکابر دیوبند کو کافر کہنے والے کی امامت کا حکم


بدعات پھیلانے والے اور اکابر دیوبند کو کافر کہنے والے کی امامت کا حکم

سوال: ہمارے یہاں بڑودہ کی جامع مسجد میں ایک عالم دین، جمعہ اور عیدین کے خطیب و امام ہے، نیز وہ اپنے محلہ کی مسجد میں پنج وقتہ نماز کے بھی امام ہیں، لیکن ان کے عقائد اہلِ سنت والجماعت کے عقائد سے مختلف ہیں۔ 1971 عیسوی میں بڑودہ میں جب پہلی مرتبہ جماعت اسلامی کا جلسہ ہوا تو ان امام صاحب نے اس میں کافی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور مدعوئین میں ان کا نام سر فہرست تھا اور وہ اس میں شریک بھی ہوئے۔ اور نومبر 1983 عیسوی میں جماعت اسلامی نے ایک کانفرنس کی تھی، اس میں بھی ان کو دعوت دی گئی، ان کے محلہ میں جماعت اسلامی کا یہ پروگرام تھا، اس میں تقریر کرنے والوں کی فہرست میں ان کا نام تھا لیکن کسی عذر کی وجہ سے وہ شریک نہیں ہو سکے اور اپنی جگہ اپنے لڑکے کو بھیجا، چنانچہ ان کے لڑکے نے اپنے والد کے بدلہ میں تقریر کی۔ گجرات کے علماء نے جماعت اسلامی کے دینی انحراف اور اعتقادی کجروی کے بارے میں جو متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے، مذکورہ امام اس کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں، علاؤہ ازیں جن چیزوں کو علمائے حق، دلائل کی روشنی میں بدعت کہتے ہیں، ان کو یہ شخص جائز سمجھتے ہیں اور اپنی تقریر میں بھی بہت سی بدعات کو بیان کرکے ان کو پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حضرت گنگوہیؒ، حضرت تھانویؒ اور مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ وغیرہ بزرگان دین کو کھلے عام کافر کہتے ہیں؟ اور ان کے کفر کے متعلق متعدد مرتبہ فتویٰ بھی دے چکے ہیں، جس پر ہمارے پاس گواہ بھی موجود ہیں۔ ان سب کے پیشِ نظر مندرجہ ذیل سوالات کا حل مطلوب ہے

  1. مذکورہ اوصاف کا حامل شخص پنج وقتہ نماز اور جمعہ و عیدین کی امامت کراتا ہو، تو اس کی امامت کے متعلق کیا حکم ہے؟
  2.  اگر کوئی شخص ان سب حالات کی وجہ سے اس کے پیچھے نماز نہ پڑھے اور دوسری مسجد میں کسی صحیح العقیدہ امام کے پیچھے نماز پڑھے تو کیا اس میں کوئی حرج ہے؟
  3. مسئلہ جانے کے بعد بھی اگر کوئی شخص اس کے پیچھے نماز پڑھے تو گنہگار ہو گا یا نہیں؟ اور اس کیلئے نماز کا اعادہ ضروری ہے یا نہیں؟
  4. مقامی علماء اور دیندار طبقہ شخص مذکور کی امامت سے خوش نہیں ہیں، ایسی صورت میں ان کا امام بننا شرعاً کیسا ہے؟
  5.  متقی پرہیزگار اور متبع سنت علماء کو کافر کہنا کیسا ہے؟ اس سلسلہ میں شریعت کی حدود کیا ہیں۔

جواب:جس شخص کا عقیدہ اہلِ سنت والجماعت کے عقیدہ کے خلاف ہو اور ایسی جماعت کا متبع اور حامی ہو، جس کے اصول ما انا علیہ و اصحابی کے خلاف ہوں، اُس جماعت کے اجلاس میں شریک ہو کر تقریر کرتا ہو اور غیر اسلامی احکام کو صحیح جانتا ہو تو وہ فقہ کی اصطلاح میں بدعتی ہے۔

جو بات قرآن کریم، احادیث نبویﷺ اور قرون مشهود لها بالخیر سے ثابت نہ ہو، اس کی ترویج و اشاعت کرنے والا بدعتی ہی ہو سکتا ہے اور بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے، لہٰذا دوسری مسجد میں جا کر جمعہ اور عیدین ادا کرنا چاہئے۔ ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا اور اس کی اقتداء کرنا درحقیقت اس کی عزت کرنا ہے، جبکہ بدعتی کی تعظیم و تکریم ممنوع ہے۔

متبع سنت امام کے پیچھے نماز پڑھنے سے زیادہ ثواب حاصل ہو گا، اس لئے اسی مسجد میں نماز پڑھنی چاہئے جس کا امام صحیح العقیدہ اور متبع سنت ہو۔

 جو نماز کراہت تحریمی کے ساتھ ادا ہوئی ہو، اُسے دوبارہ پڑھنا چاہئے۔ فاسق کے پیچھے ادا کی گئی نماز کا اعادہ واجب ہے، ہاں اگر وقت نکل گیا تو اعادہ کرنا واجب نہیں ہے، اور بدعتی تو فاسق سے بھی زیادہ گنہگار ہے، لہٰذا اس کے پیچھے پڑھی ہوئی نماز کا اگر وقت باقی ہو تو لوٹانا ضروری ہے ۔اگر دوسری مسجد ہے تو وہاں نماز پڑھیں، اگر دوسری کوئی مسجد نہ ہو تو اسی کے پیچھے پڑھ لیں، مقتدیوں کو جماعت کا ثواب مل جائے گا۔ مسجد کے متولیوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ متبع سنت اور صحیح العقیدہ امام کا تقرر کریں اور ایسے امام کو مسجد کی امامت سے علیحدہ کر دیں۔ البتہ اگر اس میں فتنہ کا اندیشہ ہو تو ذمہ داران و متولیان گنہگار نہ ہوں گے، تاہم گھر میں نماز ادا کرنے کی بجائے مسجد میں اس امام کی اقتداء میں نماز ادا کی جائے، تا کہ جماعت کے ثواب سے محرومی نہ ہو۔

 جس امام میں دینی اعتبار سے کوئی خرابی ہو، اور لوگ اس سے ناراض ہوں تو اس کی ذمہ داری ہے کہ منصبِِ امامت سے سبکدوش ہو جائے۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تین شخصوں کی نماز قبول نہیں ہوتی ہے، ایک وہ شخص ہے جو امامت کراتا ہو اور لوگ اس کے کسی دینی امر پر ناراض ہوں۔ دوسری حدیث میں ہے کہ تین شخصوں کی نماز ان کے سر سے اوپر نہیں جاتی ہے، ایک شخص ہے جو امامت کرائے اور لوگ اس کی کسی دینی بات پر ناراض ہو۔ پس ایسے امام کیلئے ضروری ہے کہ امامت سے الگ ہو جائے، اگر وہ خود اِستعفیٰ نہیں دیتا تو متولی اس کو علیحدہ کر دیں، البتہ اس کا خیال رکھے کہ فتنہ و فساد پیدا نہ ہو۔ 

 کسی مسلمان کو کافر کہنا جائز نہیں حرام ہے، جب تک وہ کسی دینی عقیدے یا ضروریاتِ دین میں سے کسی کا انکار نہ کرے، اور متقی و پرہیز گار اور متبع سنت علماء پر جنہوں نے اپنی زندگی دین کی خدمت کیلئے وقف کر دی ہو، ان کی عبارتوں میں تحریف و ترمیم کر کے کفر کا فتویٰ لگانا تو سخت حرام ہے، بلکہ ایسے فتویٰ لگانے والے کے ایمان کا خطرہ ہے۔ حضور اکرمﷺ نے فرمایا جو شخص کسی مسلمان کو کافر کہے تو یہ کفر کا لفظ دونوں میں سے کسی کی طرف لوٹے گا یا تو جس کو کہا گیا اس کی طرف (جبکہ وہ واقعی کافر ہو) اور اگر وہ کافر نہ ہو، تو کہنے والے کی طرف (کہ اس نے ایک مسلمان کو کافر کہا) اس لئے کسی بھی مسلمان پر کفر کا فتویٰ لگانا حرام ہے اور اس میں خود فتویٰ دینے والے کے کفر کا اندیشہ ہے۔ 

علمائے دیوبند، جن کا سوال میں ذکر کیا گیا ہے، رات دن اللہ تعالیٰ جل شانہ کی یاد میں رہتے تھے، اللہ تعالیٰ جل شانہ کے احکام کے پابند اور رسولﷺ کی سنتوں کے متبع اور نوافل و مستحبات کے خوگر تھے حضورﷺ سے والہانہ تعلق اور آپﷺ کے ایک ایک قول و فعل پر اپنی ساری کائنات فدا کر دینے والے تھے، جیسا اس پر اُن حضرات کی لکھی ہوئی قرآن کریم کی تفاسیر، احادیث کی شروحات اور مختلف فنون کی قیمتی تصنیفات شاہد عدل ہیں، ان حضرات کے متعلق کفر کا فتویٰ صادر کرنے والے کے کفر کا اندیشہ ہے۔ لہٰذا مذکورہ بزرگانِ دین کی کتابوں کی عبارتوں کو توڑ مروڑ کر غلط اعتراض کرنا اور ان پر کفر کا فتویٰ لگانا حرام ہے، جو امام ایسا کرے، اس کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔ 

(فتاویٰ فلاحیه جلد 1، صفحہ 282)