کلابیہ کا عقیدہ
امام ابنِ تیمیہؒکلابیہ کا عقیدہ
اگر کہا جائے کہ حوادث کا دوام تو اس کے لیے لازم ہے پس یہ اس ارادے کے دوام کو مستلزم ہو گاجو ان حوادث کے ساتھ مقارن ہیں تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات تو معلوم ہے کہ اِس حادث (کو پیدا کرنے )کا ارادہ کرنا یہ اس دوسرے حادث (کو پیدا کرنے کا )ارادہ نہیں یعنی دونوں ایک دوسرے کے مغائر ہیں اور اگر وہ اس (یعنی دو الگ الگ حوادث کا ایک ہی ارادے سے وجود میں آنا)بات کو جائز یعنی ممکن سمجھتے ہیں تو ان پر یہ الزام ہوگا کہ وہ ایک ہی قدیم اور ازلی ارادے سے تمام کائنات کے وجود کو جائز اور ممکن سمجھیں جس طرح کے متکلمین میں سے بعض اس کے قائل ہیں جیسا کہ ابن کلاب اور اس کے اتباع اور اس صورت میں ان کا قول باطل ہو جائے گا اور اگرصورتِ حال یہی ہے تو پھر کسی معلول معین قدیم کے بارے میں جب یہ فرض کرلیا جائے کہ وہ ایک قدیم اورازلی ارادے کے ساتھ مراد ہے اور حوادث میں سے کوئی شے بھی اس کے ساتھ مقارن اور متصل نہیں ہے کیونکہ حوادث قدیم نہیں ہوتے اور ارادے اور حوادث کا خواہ کوئی بھی نوع ہو قدیم نہیں تاہم بسا اوقات یہ کہا جا تا ہے کہ اس کے ساتھ ایک دائمی نوع مقارن ہو تا ہے لیکن یہ بات کئی وجوہ سے ممتنع ہے جس کے بعض وجوہ یہاں ذکر کر دیے گئے ہیں ۔
اشعریہ ،کرامیہ اور ان کے موافقین کاعقیدہ:
اگر یہ کہا جائے کہ ایسا ارادہ جو قدیم اور ازلی ہے یہ اپنے مراد کے مقارنت کو مستلزم نہیں لہٰذا واجب نہیں ہے کہ اس کا مراد بھی قدیم اور ازلی بن جائے اور یہ بھی تو ممکن نہیں کہ وہ حادث ہو کیونکہ اس کا حدوث بعد اس کے کہ وہ معدوم تھا، کسی سببِ حادث کی طرف محتاج ہے جیسا کہ ماقبل میں گزرا اور اگر یہ بات ممکن ہو تو یہ کہا جائے کہ حوادث تو ارادہ قدیمہ ازلیہ کی وجہ سے حادث ہوتے ہیں یعنی بغیر کسی امر جدید کے حدوث اور تجدد کے وجود میں آتے ہیں جس طرح کہ اہلِ کلام میں سے بہت سے اس کے قائل ہیں مثلاًاشعریہ ،کرامیہ میں سے اور ان کے علاوہ دیگر جماعتوں میں سے اور ان کے موافقین میں سے جو کہ آئمہ کے اتباع ہیں یعنی امام مالک ،امام شافعی اور امام محمد رحمہ اللہ کے اصحاب اور یہ ان فلاسفہ کے قول کے لیے مبطل ہے جو عالم کے قدم کے قائل ہیں اس لیے کہ ان کی حجت کی بنیاد اس پر ہے کہ حوادث بغیر کسی سببِ حادث کے وجود میں نہیں آتے ہیں پس جب انہوں نے اس کے حدوث کو ایک ایسے قادرِ مختار ذات سے ممکن سمجھا جو بلا سبب اس کو وجود دیتا ہے یا یہ کہ ان کو انہوں نے اس کو ممکن سمجھا ارادہ قدیمہ ازلیہ کی وجہ سے تو ان کی بڑی دلیل باطل ہو گئی حالانکہ وہ لوگ اس کو ممکن اورجائز نہیں سمجھتے ۔
اور اس دلیل کی بنیاد اس پر ہے کہ اگر عالم میں سے کوئی شے قدیم ہوتی تو پھر یہ لازم آتا کہ وہ شے کسی ایسے مؤثر تام سے صادر ہوگی جو واجب الوجود ہے؛ چاہے اسے علت تامہ کہا جائے یعنی مُوجِب بالذات کہا جائے یا یہ کہا جائے کہ وہ قادرِ مختار ہے؛ اور اس کا اختیار کرنا ازلی اور اس کی مراد کے مقارن ہے۔ جبکہ یہ بات ممتنع ہے کہ وہ (مراد)ازل میں ہو اور یہ بات بھی ممتنع ہو کہ وہ ازل میں قادرِ مختار ہو اس طور پر کہ اس کے ساتھ اس کا مراد مقارن ہو چاہے اس کو علتِ تامہ کہا جائے یا نہ کہا جائے اور چاہے اسے مُوجِب بالذات کہا جائے یا نہ کہا جائے۔ بلکہ یہ بات تو ممتنع ہے کہ اس کے معین مفعولاتِ عقلیہ میں سے کوئی شے اپنے فاعلِ ازلی کے ساتھ زمان میں مقارن ہو اور اس امر کا ممتنع ہونا تو اگلے پچھلے سب عقلاء کے نزدیک عقلاً معلوم اور مسلم ہے۔ اور یہ امربھی ممتنع ہے کہ ازل میں وہ علت تامہ ہو یا مُوجِب بالذات ہو چاہے اسے قادر و مختار کہا جائے یا نہ کہا جائے۔
اس بات کی حقیقت اور اس کا راز یہ ہے کہ جو ذات اس طرح ہو (یعنی ازل میں اپنے معلولات کیلئے علۃ تامہ ازلیہ ہو )تو اس کے حق میں یہ بات لازم ہے کہ اس کا اثر اس کے مقارن ہو چاہے اسے معلول کہا جائے یا مراد کہا جائے یا موجَب بالذات کہا جائے یا اس کومبدع(از سرنوبلا سابقہ نمونے کے پیدا کرنے والا) کہا جائے یا اس کے علاوہ دیگر ناموں میں سے کوئی نام دیا جائے لیکن ازل میں اس کے ساتھ اس کی مقارنت اس امرکا تقاضا کرتی ہے کہ اس سے کوئی بھی شے صادر اور حادث نہ ہو بعد اس کے کہ فعل معلول تھا اور اگر یہ نہ مانا جائے تو پھر تو حوادث کے لیے کوئی بھی فاعل نہیں ہوگا بلکہ وہ تو خود اپنے طور پر حادث اور وجود میں آئیں گے اور یہ بات بذاتِ خود ممتنع اور محال ہے۔ پس کسی ایسے موجِب بالذات یا فاعلِ مختار کوثابت کرنا جس کی مراد ازل میں اسکے ساتھ مقارن ہو یہ اس امرکو مستلزم ہے کہ حوادث کے لیے کوئی بھی فاعل نہ ہو اور یہ بات محال ہے۔
ابن سینا کا عقیدہ:
خاص طور پر ان لوگوں کا قول جو یہ کہتے ہیں کہ یہ پورا عالم ایک ایسے ذاتِ بسیطہ سے صادر ہے جس کے ساتھ کوئی صفت قائم ہے نہ کوئی فعل ،جس طرح ابن سینا اور اس کی طرح دیگرفلاسفہ کا خیال ہے کیونکہ یہ لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ امورِ مختلفہ کسی ذاتِ بسیطہ سے صادر ہوسکتے ہیں اور علتِ بسیطہ تامہ ازلیہ مختلف معلولات کو وجود دیتی ہے اور یہ صریح عقل کی نظر میں امتناع کے اعتبار سے بہت اشداور قبیح قول ہے اور وہ اس کو عقول اور دیگر و سائط کے ذریعے جس طرح بھی ثابت کریں تو بے شک یہ ان کواس قولِ باطل سے خلاصی نہیں دیتا اس لیے کہ یہ وسائط مثلاً عقول ، غیر سے صادر اور پیداہوئے ہیں اور ان سے بھی غیر وجود پاتا ہے پس اگر یہ ہر اعتبار سے بسیط مانے جائیں تو ماننا پڑے گا کہ کسی بسیطِ ازلی سے وہ شے پیدا ہوجو حادث ہے ۔
اگر اس کے اندر اختلاف ہے یا اس کی ذات کے ساتھ کوئی حادث قائم ہے تو پس تحقیق ایسی صورت میں بھی مختلف اشیاء اور حوادث ایک بسیط ،تام اورازلی ذات سے صادر ہوئی ہیں اور یہ دو باتیں باطل ہیں پس یہ لوگ باجود یکہ اس کے قائل ہیں کہ عالم کا مُبدِع اور پیدا کرنے والا اس کے لیے علت ہے ،تعلیل کے حکم کی رعایت اور خیال رکھنے سے بہت دور ہیں اور یہ یوں بھی کہتے ہیں کہ اس کی ذات بعض عالم کے لیے علت تامہ ازلیہ ہے جیسے افلاک اور وہ حوادث میں سے کسی شے کے لیے بھی علتِ تامہ ازلیہ نہیں بلکہ وہ توحوادث میں کسی شے کے لیے بھی علتِ تامہ بن ہی نہیں سکتا سوائے اس کے حدوث کے وقت کے کہ اس وقت وہ علت بن جاتا ہے بعد اس کے کہ وہ علت نہیں تھا حالانکہ یہ بات پہلے سے مسلم ہے کہ اس ذات کی حالت حادث کے حدوث سے پہلے ،وقتِ حدوث میں اور اس کے بعد تمام اوقات اور زمانوں میں ایک جیسی تھی پس کسی بھی وقت کواس کے حوادث کے ساتھ خاص کرنا اور اس خاص وقت میں اس کو ان حوادث کے لیے علتِ تامہ ماننا ایک ایسا امر ہے کہ اس کے لئے کسی مخصص کی ضرورت ہے ۔
جبکہ کوئی مخصِّص ثابت نہیں سوائے ذاتِ بسیطہ کے اور اس کی حالت اپنی ذات کے اعتبار سے ازلاً و ابداً ایک ہی طرح اور یکساں ہے تو یہ بات کیسے متصور ہو سکتی ہے کہ بلا کسی مرجح کے اس کے اوقات میں سے بعض اوقات اور زمانے مخصوص حوادث کے ساتھ خاص ہو جائیں باوجود یکہ اس ذات کے تمام احوال اپنی ذات کے اعتبار سے اور اپنی جوہر کے اعتبار سے ایک دوسرے کے متماثل اور ایک جیسے ہوں ۔
بعینہ یہی بات اس قباحت کو مستلزم ہے کہ ایک جیسے احوالِ حادثہ میں سے بعض احوال کو بغیر کسی مخصص کے صفتِ احداث کے ساتھ مختص کیا جائے اور تحقیق یہ لوگ جس قباحت سے بھاگنا چاہتے تھے اس سے کئی گنا زیادہ قبیح میں پڑگئے بلکہ غیر متناہی حد تک ایک قبیح اور عقلی طور پر ممتنع (بات کو ماننے )میں مبتلا ہو گئے ۔
اگر کہا جائے کہ حادثِ اول کے حدوث نے اس ذات کو دوسرے حادث کے احداث کے لیے تیار کر لیا (یعنی اس میں استعداد پیدا ہو گئی )تو انہیں جواب میں کہا جائے گاکہ اس قادرِ مختار کی ذات ہی تو تمام حوادث کی علت ہے اور اس کے صفتِ احداث کی نسبت تمام حوادث کی طرف ایک ہی طرح ہے پس کیا وجہ ہے کہ یہ خاص حادث اس ذات کو دوسرے حوادث کے پیدا کرنے کے لیے تیار کرتا ہے اور اس کا وجود دوسرے حوادث کے احداث کے لیے سبب بنتا ہے باوجود یکہ یہ بات پہلے سے مسلم ہے کہ اس خاص حادث کاجس کو دوسرے حوادث کے احداث کے لیے سبب قرار دیا جا رہاہے ،اُس ذاتِ قادرِ مختار کے ساتھ کوئی اختصاص نہیں ہے ۔
یہ بھی ان سے کہا جائے گا کہ وہ ذات اس حادث کے لیے کیسے فاعل بنے گا بعد اس کے کہ وہ پہلے فاعل نہیں تھا اور یہ بات بھی ان سے پھر پوچھی جائے گی کہ یہ کیسے ہو سکتاہیکہ اس کا معلول اس ذات کو فاعل بنا دے حالانکہ پہلے وہ فاعل نہیں تھا اور یہ سب کچھ بغیر کسی ایسے فعل کے ہوگا جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہو اور اگر وہ یہ کہیں کہ اس ذات کے افعال مختلف ہوتے رہتے ہیں کیونکہ فعل کا اثر قبول کرنے والا محل ایک طرح نہیں ہوتا ،ایسے ہی (اثر انداز ہونے کے )شرائط اور استعداد بھی ایک طرح نہیں ہوتا اور اس حدوث کا سبب حرکاتِ فلکیہ اور اتصالات کوکبیہ ہیں ( ان کے اختلاف کی وجہ سے وہ حادث ہوتے ہیں )تو ان کو(جواب میں )کہا جائے گا کہ اگر یہ امر ممکن ہو اتو وہ اس صورت میں ممکن ہو گا کہ جہاں اعداد کا فاعل امداد کے فاعل کے علاوہ کوئی اورہو جیسے کہ سورج جو اپنے نور کو منتشر کرتا ہے تواس کا نورپورے عالم میں منتشر ہوتا ہے اور ایسے ہی اس کی حرارت اور اس کا فعل مختلف ہے اور اس کی تاثیر(حرارت ) کا کمال اس کے وقت ِ طلوع سے متاخر ہوتا ہے بوجہ اس کے کہ اس کے اثر (حرارت)کے قبول کرنے والی اشیاء مختلف ہیں (کچھ وہ ہیں جو جلدی اس کی حرارت کوجذب کر لیتی ہیں اور بعض وہ ہیں جو سست رفتاری کیساتھ قبول کرتی ہیں )اور اثر کو قبول کرنے والے اشیاء سورج کے فعل سے نہیں ہیں (یعنی وہ اس کے غیر ہیں اور اس کی حرارت سے حاصل شدہ نہیں )۔
اسی طرح یہ جس بات کا دعویٰ کرتے ہیں یعنی وہ عقلِ فعال جس کا فعل اوراس کا اثراس عالم میں اس کے قوابل کے اختلاف کی بنا پرمختلف ہوتا رہتاہے کیونکہ یقیناً اس کے قوابل اس کے حرکاتِ فلکیہ کے ساتھ مختلف ہوتے رہتے ہیں اور تمام افلا ک کی حرکات عقلِ فیاض سے صادر نہیں ہوتیں ،رہی وہ ذات جس سے اعداد (فعل کیلئے اسباب مہیا کرنا ) ہے ،اورامداد ہے یعنی اس سے فیض جاری ہے اور اسی سے قبول کی صفت ہے اور وہی فاعل ہے قابل کا بھی ،مقبول کا بھی ،اور شرط اور مشروط کا بھی تو اس امرکا تصور نہیں کیا جا سکتا کہ یہ کہا جائے کہ قوابل اور شروط کے اختلاف یا ان کے تعاقب (یکے بعد دیگرے ہونے )کی وجہ سے اس کا فعل اور فیض اور ا س کا احداث مختلف اور مؤخر ہو جائیں گے اسی لیے یقیناً یہ کہا جائے گاکہ قوابل اور شروط کے اختلاف اور ان کے تاخر میں جو قول ہے یہ تو بعینہ مقبول ،مشروط اور اختلاف اور اس کے تاخر کے قول کے مشابہ ہے پس وہاں پر کوئی ایسا سببِ وجودی نہیں پایا جاتا جو اس بات کا تقاضا کرے سوائے اس ذاتِ مجردہ کے جو ان کے نزدیک (مسلم )ہے اور وہی تو ان کے نزدیک علتِ تامہ ازلیہ ہے ،پس کیا یہ قول صریح عقل کے تقاضے سے بقیہ تمام اقوال سے نسبتاًزیادہ فاسد ہے یا نہیں ۔
اگر وہ کہتے ہیں کہ اس بات میں سبب صرف اور صرف یہی ہے اور یہ بات کہ ممکنات تو صرف اسی کو قبول کرتے ہیں تو ان کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ ممکنات کے لیے اپنے (نفس الامری)وجود سے پہلے کوئی حقیقتِ موجودہ نہیں ہوتی جس کو اس امر کا سبب قرار دیا جائے کہ احد الوجودین میں سے ایک کا (دوسرے کو چھوڑ کر ) وجود کے ساتھ خصوصیت ہے لیکن اپنے وجود کے بعد یہ بات عقلاً سمجھ میں آتی ہے کہ کوئی ممکن کسی غیر کے لیے شرط بن جائے اور غیر کے لیے مانع بن جائے جیسے احد الضدین کا وجود کیونکہ یقیناً ان میں سے ایک مانع ہوتا ہے دوسرے (کے نفس الامر)وجودسے اور لازم کا وجود وجودِ ملزو م میں شرط ہوتا ہے یعنی اس کے وجود کے ساتھ دوسرے کا وجود ضروری ہوتاہے؛بھلے وہ دونوں معاً وجود میں آئیں یا ایک وجود میں دوسرے سے مقدم ہو۔ اور ممکنات میں کسی شے کا وجود یقیناً فرض کر دیا جاتا ہے تو یہ بات کیسے معقول ہے کہ وہ دو ممکن جو جائز ہیں ؛واجب الوجود نہیں اور جن میں سے کوئی ایک بھی ابھی نہیں پایا گیا (یعنی نفس الامر میں موجود نہیں ہوا)ان میں سے ایک وہی ہے جس نے اس ذاتِ بسیطہ میں اس امرکوواجب کردیاکہ اس خاص چیز کو پیدا کرے اور دوسرے کو نہیں ۔ اور اس نے اس میں یہ قدرت پیدا کر دی کہ وہ اِس ممکن کو پیدا کرے اور دوسرے کو نہیں ؛ اور ایک کو قدیم بنا دے اور دوسرے کو نہیں ۔ باوجود یکہ وہ ذات ایک ہے اور بسیط ہے اور اس کی نسبت تمام ممکنات کی طرف یکساں ہے ۔
اگر کہا جائے کہ ممکن کی خود ماہیت ہی نے اس بات کو وجود دے دیا اس کے وجود نے نہیں تو کہا جائے گا کہ اس کا جواب دوطرح پر ہے ۔
ایک یہ کہ ماہیۃ مجرد ہ عن الوجودکا تصور اور اس کی سمجھ اُس علم میں آتی ہے جس کو وجودِ ذہنی کہا جاتا ہے نہ کہ وجودِ خارجی اور علم تو معلول کے تابع ہوتا ہے پس اگر ذاتِ فاعلہ کی طرف سے کوئی ایسا سبب نہ پایا جائے جو بغیر وجودکے ایک ماہیت کا دوسرے کیساتھ تخصیص کا تقاضا کرتا ہو بلکہ وہ ذات بسیطہ ہو یعنی وہ ذاتِ فاعلہ بسیطہ ہو جس کا ماہیاتِ مختلفہ میں سے کسی بھی چیز کے ساتھ اختصاص نہ ہو تو پھر دو ماہیتوں میں سے ایک کا وجود کے ساتھ اختصاص بغیر دوسرے کے ناقابل فہم ہے اور یہ بات تو بداہۃً معلوم ہے کہ جب فاعل کرنے سے پہلے اس چیز کا تصور کرتا ہے جس کے کرنے کا ارادہ ہو تو یہ ضروری ہے کہ کوئی ایسا سبب پایا جائے جو اس فعل کے ساتھ اس کے ارادے کے تخصیص کو ثابت کرتا ہو اور بندے کے ارادے کے لیے تو ایسے اسبابِ خارجیہ کا پایا جانا ضروری ہے جو کسی فعل کا وجود کے ساتھ تخصیص کو ثابت کرتے ہوں رہا اللہ تعالیٰ کا معاملہ تو ا سکی ذات سے تو صرف اور صرف وہی چیز صادر ہوتی جس کا وہی خود خالق ہے اور وہ اس کا مفعول ہے پس اگر اس فعل کی ذات میں ایسا کوئی امر نہ پایا جائے جو تخصیص کا مُوجِب ہو یعنی اُس (خاص)حادث کے موجود ہونے کاتقاضا کرتا ہودوسرے حوادث کو چھوڑ کر تو پھر تخصیص ممتنع ہو جائے گی اور فعل بھی ممتنع ہوگا۔
دوسری دلیل : وہ یہ ہے کہ کہ فرض کر لیں کہ ممکن کی ماہیت خارج میں ثابت ہے لیکن ایسی ماہیات جو اپنے وجود کو مقارن ہوتی ہیں ، وجود کے ساتھ ان میں بعض کی تخصیص کا قول کرنا دوسرے بعض کو چھوڑ کر یہ اس کے وجود کے تخصیص کے قول کی طرح ہے جس وقت کہ وہ تمام امور پائے جائیں جو اس کے وجود کا تقاضا کرتی ہوں پس اس کی ماہیت اس کے ساتھ بالکل مقارن ہیں ۔
اگر یہ کہا جائے کہ ماہیات تو خارج میں امر محقق ہیں اور یہ کسی بھی فاعل سے مستغنی ہیں تو یہ اس بات کی تصریح ہے کہ وہ ماہیات واجب بانفسہا ہیں اور مبدع (از سرِ نوع ووجود دینے میں )ہونے میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ہیں اور یہ تو واضح طور پر باطل ہے اور یہ اعتراض اس نظریہ پر وارد ہوتاہے جو یہ ہے کہ معدوم کچھ بھی نہیں ہے اور یہی درست بات ہے اور ان لوگوں کے قول پر بھی جو یہ کہتے ہیں کہ معدوم بھی خارج میں ایک شے ہے ۔