بدعتی رشتہ داروں کی خوشی و غم میں شریک ہونا
بدعتی رشتہ داروں کی خوشی و غم میں شریک ہونا
سوال: یہاں لوگ ہمیں وہابی سمجھتے ہیں، ہمارے رشتہ دار شادی یا انتقال وغیرہ کا موقع ہو تو دعوت دیتے ہیں لیکن جب ہم ان کو مدعو کرتے ہیں، تو وہ لوگ آتے نہیں ہیں۔ ہم سے بہت نفرت کرتے ہیں اور ہمارے یہاں جنازہ میں بھی شریک نہیں ہوتے۔ تو ہمیں اُن کی دعوت یا جنازے میں حاضر ہونا چاہئے یا نہیں؟ نیز دوسرے اعتبار سے بھی ہم پر بہت ظلم کرتے ہیں اور ہماری پانچ ہزار کی بستی ہے، اس میں ہم پچاس فیصد ہیں، وہ لوگ ہم کو بعض مساجد سے بھی نکالتے ہیں اور ہماری بے عزتی کرتے ہیں، اسی طرح ہمارے لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ اپنی لڑکیاں و لڑکوں کا رشتہ بھی قبول نہیں کرتے۔ آپ جناب ہمارے مذکور مسائل کا حل مرحمت فرمائیں۔
جواب: حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ میری اُمت میں ایک جماعت ایسی ہو گی جو قیامت تک حق پر رہے گی، اس جماعت کو نہ تو کوئی برباد کر سکے گا اور نہ ہی ذلیل کر سکے گا، یعنی ان کو کوئی بھی دلائل کے ذریعہ پسپا نہیں کر سکے گا۔
یادر ہے آپ حق پر ہیں اور اسی جماعت کے پیرو کار انبیاء کرام علیہم السلام کے وارث ہیں، چھوٹی بڑی تکلیف برداشت کیجئے، حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے اوپر کتنی بڑی بڑی مصیبتیں آئیں لیکن ان کے اخلاق و عفو درگذر کیسے تھے، لہٰذا آپ بھی عفو درگذر سے کام لیں اور ان کے ساتھ لڑائی جھگڑا کرنے سے بچتے رہیں۔ ان کی دعوتوں میں شرکت سے اگر ایمان و اعتقاد کے عدم تحفظ کا اندیشہ ہو تو بالکل ہی نہ جائے، ہاں اگر جانے کے باوجود ایمان و اعتقاد پر کسی قسم کا اندیشہ نہ ہو تو جانا جائز ہے لیکن اس نیت سے جانا چاہئے کہ وہاں جا کر اگر موقع ملا تو
حق بات کہوں گا۔
مذکور رشتے دار یہاں کام نہیں آتے ہیں تو آپ کو فکر کی کوئی ضرورت نہیں، انہیں فکر کرنا چاہئے کہ آخرت کی منزل تو اس سے زیادہ سخت ہے، جہاں حضور اکرمﷺ کے ہاتھوں بدعتی حوضِ کوثر سے محروم رہیں گے اور فرشتے دھکا دے کر اُن کو ہٹا دیں گے۔
فتاویٰ محمودیہ میں ہے کہ اگر بدعتی کے ساتھ میل جول رکھنے اور اس کے یہاں کھانا کھانے سے اس کی اصلاح کی توقع ہو تو میل رکھنا بہتر ہے، اگر اس سے خود بدعات میں مبتلا ہونے یا بدعات کی تائید کا اندیشہ ہو تو میل جول نہیں رکھنا چاہئے۔
(فتاویٰ فلاحیه جلد 1، صفحہ 474)