Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فصل: اس دلیل کے صحت پرکئی طریقے سے برہا ن کا بیان

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل: اس دلیل کے صحت پرکئی طریقے سے برہا ن کا بیان

پھر اس دلیل کو مختلف طریقے سے بیان کرنا ممکن ہے مثال کے طور پر یہ کہا جائے کہ یقیناً حوادث دو حال سے خالی نہیں یا تو یہ کہ ان کا دوام ممتنع ہوگا یعنی وہ ازلی نہیں ہونگے اور یہ بات ضروری ہے کہ اس کے لیے کوئی ابتداء ہو یا یہ کہ اس کا دوام ممتنع نہیں ہوگا یعنی وہ ازلی ہونگے اور ایسے حوادث کا پایا جانا ممکن ہوگا جن کے لیے کوئی بھی اول نہ ہو۔

اگر پہلی صورت ہے تو لازم آئے گا کہ بغیر کسی شے کے حدوث کے ذاتِ قدیم واجب الوجود سے حوادث کا صدور ہورہا ہے ،جس طرح کہ اہلِ کلام میں سے اکثر اس کے قائل ہیں چاہے وہ اس کو یوں کہیں کہ وہ قادرِ مختار ذات سے صادر ہوتے ہیں اور اس کے لیے ارادہ قدیمہ کو ثابت نہ کریں جس طرح کے معتزلہ اور جہمیہ کا قول ہے یا وہ یہ کہیں کہ وہ قادرِ مختار ذات سے صادر ہوتے ہیں ایسی ذات جو ارادہ قدیمہ ازلیہ کے ساتھ ارادہ کرتا ہے جس طرح کلابیہ ،اشعریہ اور کرامیہ کا قول ہے اور اس قول پر تو عالم میں کسی بھی چیز کا قدیم ہوناممتنع ہو جائے گا کیونکہ عالم میں ہرہر چیز کا حال یہ ہے کہ وہ حوادث کے ساتھ مقرون ہے بایں طور کہ ایک حادث سابق اور دوسرا مسبوق ہے چاہے ان سب کو جسم قرار دیا جائے یا یہ کہا جائے کہ کچھ ایسے اقول اور نفوس ہیں جو اجسام نہیں ہیں پس یقیناً اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہ حوادث کے ساتھ مقارن ہیں کیونکہ وہ فاعل ہیں اور وجود کومستلزم ہیں پس اگر ایسے حوادث کا وجود ممتنع ہوا جن کے لیے کوئی اول نہیں یعنی ازلی ہونا ممتنع ہوا تو یہ بات بھی ممتنع ہوئی کہ حوادث کے لیے کوئی ایسی علت پائی جائے جو اس کے وجود کومستلزم ہو چاہے اس کو ممکن کہا جائے یا واجب،اور اس تقدیر پر ارادہ قدیمہ اپنی مراد کے وجود کو مستلزم نہیں ہوگا لیکن یہ بات ضروری ہوگی کہ مراد ارادے کے بعدمتاخر وقت میں موجود ہو ۔

اگر یہ کہا جائے کہ حوادث کا دوام تو ممکن ہے اور یہ بات بھی کہ اس کے لیے کوئی ابتداء نہ ہو (یعنی ازلی ہوں )

تو جواب یہ ہے کہ: اس تقدیر پر تو یہ بات ممتنع ہو جائے گی کہ عالم میں کوئی شے قدیم اور ازلی بن جائے ۔ اور اس عموم میں افلاک ،عقول ،نفوس ،موادِ اصولیہ ،جوہر مفردہ ،یہ سب کے سب آئیں گے اس لیے کہ جو چیزبھی عالم میں قدیم اور ازلی ہو تو ضروری ہے کہ اس کا فاعل اس کے لیے مُوجِب بالذات ہو چاہے اسے علتِ تامہ کہا جائے یا مرجع تام کہا جائے گا یا اسے قادرِ مختار کہا جائے لیکن مُوجِب بالذات کا وجود ازل میں محال ہے کیونکہ وہ اس بات کومستلزم ہے کہ اس کا مُوجب اس کا مقتضی اور اس کا مراد بھی ازلی ہو اور یہ تو کئی وجوہ سے ممتنع ہے۔

نمبر ۱:.... کسی فاعل کا اپنے مفعولِ معین کے ساتھ زمان کے اعتبار سے مقارن ہونا اور ازل میں اس کے ساتھ موجود ہونا ممتنع ہے۔خاص طور پر کہ جب اسے اپنے ارادے اور اپنی قدرت کے ساتھ فاعل مان لیا جائے اس لیے کہ یقیناً ا سکا جو مقدورِ معین ہے اس کی فاعل کے ساتھ اس طور پرمقارنت کہ وہ اس کے ساتھ ازلی ہو ،یہ بالکل محال ہے بلکہ یہ بات تو محال اور ممتنع ہے ان امور میں بھی جو اس فاعل کی ذات کے ساتھ قائم ہیں کیونکہ بے شک اس کا ازل میں مراد ہونا ممتنع ہے اور جب ایسی چیزکا ازل میں مراد ہونا ممتنع ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے تو پس وہ چیزیں اور مفعولات جو اس کی ذات سے منفصل اور جدا ہیں ان کا ممتنع ہونا تو بطریقِ اولیٰ ثابت ہوا۔

دوسری دلیل :.... اگر یہ بات فرض کر لی جائے کہ اس کی ذات علتِ تامہ اور مفعول کے لیے مُوجِب بالذات ہے تو یہ بات لازم آئے گی کہ وہ اپنے معلول کے ساتھ مطلقاً مقارن ہے پس عالم میں سے ہر شے ازلی بن جائے گی اور یہ تو بالکل محال ہے اور مشاہدہ اور اجماعِ عقلاء کے خلاف ہے۔

عالم میں سے بعض اشیاء کے ازلی ہونے اور بعض کے نہ ہونے کا قول کئی وجوہ سے اِن کے قول کے بطلان کو ثابت کرتا ہے ۔ 

اگر یہ کہا جائے کہ عالم میں سے بعض ازلی ہیں جیسے کہ افلاک اور حرکات کا نوع اور بعض ازلی نہیں ہیں جیسے کہ اشخاص مثلاًانسان کے افراد زید ،عمرو ،ابو بکر وغیرہ تو کہا جائے گا کہ یہ تو کئی وجہ سے ان کے قول کے بطلان کو مستلزم ہے ۔

نمبر۲ :.... جب یہ بات ممکن ہوئی کہ وہ شیئاً فشیئاً(یکے بعد دیگرے )ذات حوادث کا فاعل ہے تو پھر یہ بات بھی ممکن ہوئی کہ اس کی ذات کے ماسوا سب کچھ حاد ث ہو پس عالم میں سے کسی شے معین کے قدم کا نظریہ قول بلا دلیل ہے۔

دوسری وجہ :.... اس ذات کا یکے بعد دیگرے حوادث کو پیدا کرنا بغیر اس کے کہ اس کی ذات کے ساتھ کوئی ایسا سبب قائم ہو جواِس احداث کے لیے مُوجِب ہو تو یہ بات بالکل ممتنع ہے اس لیے (کہ جب پہلے سے یہ بات مسلم ہے کہ )اُس ذات کا حال اُس شے کے احداث سے پہلے ، اس کے بعد اور اس کے احداث کے دوران تینوں اوقات میں ایک طرح اور یکساں ہے تو یہ بات ممتنع ہو ئی کہ ایک خاص وقت اِس شے کے احداث کے ساتھ توخاص ہو اور دوسرا (وقت )نہ ہو بلکہ یہ بات بھی ممتنع ہوئی کہ وہ ذات کسی شے کووجود دے اور اسے پیداکرے۔

تیسری وجہ :....اگر اس بات کو ممکن مانا جائے کہ وہ کسی شے کو پیدا کرتا ہے بغیر کسی ایسے سبب کے پائے جانے کے جو اس کے احداث کا تقاضا کرے تو پھر یہ بات بھی ممکن ہو جائے گی کہ تمام حوادث کے لیے کوئی ابتداء ہو پس عالم میں کوئی بھی شے قدیم نہ ہوگی اور اگر اس کو ممکن نہ کہا جائے تو پھر ان کا یہ قول باطل ہوا کہ یہ حوادث پیدا ہوتے ہیں بغیر کسی ایسے سبب کے جو ان کے ساتھ قائم ہو۔

چوتھی وجہ :.... حوادث کا پیدا کرنا اگر بغیر کسی ایسے سبب کے جو ان کی ذات کے ساتھ قائم ہو،ناممکن قرار دیا جائے تو پھر ان کا قول باطل ہوجائے گا اور اگر وہ کسی ایسے سبب کی طرف محتاج ہوں جو ان کی ذات کے ساتھ قائم ہو تو پھر لازم آئے گا کہ وہ امور اس کے ساتھ دائماً قائم ہوں دھیرے دھیرے اور یکے بعد دیگرے پس وہ کبھی بھی فاعل نہیں بنیں گے مگر صرف اس صور ت میں جب وہ سبب پایا جائے لہٰذایہ ممتنع ہوا کہ اس ذات کے لیے ازل اور ابد میں کوئی مفعولِ معین ہو کیوں کہ ان حوادث کا ایک ایسی ذات سے صدور ممتنع ہے جو اُن کے اسباب پائے جانے کے بعد ان کو وجود دیتا ہے اس لیے کہ جو افعال اس واسطہ سے صادر کیے جاتے ہیں تو وہ صرف اور صرف یکے بعد دیگرے ہی موجودہو سکتے ہیں پس یہ بات ممتنع ہوئی کہ اس ذات کے لیے کوئی ایسا فعلِ معین ہو جو اس کے لیے لازم ہو،تو جب یہ بات ممتنع ہوئی تو یہ بھی ممتنع ہواکہ اس ذات کے لیے کوئی ایسامفعولِ معین ہو جو اس کی ذات کے ساتھ لازم ہو۔

پانچویں وجہ :.... وہ یہ ہے کہ یقیناً جب یہ بات فرض کر لی جائے کہ اس کے معلولات میں سے کوئی ایک معلول ایسا بھی ہے جو اس کی ذات کے ساتھ ازلاً و ابداً لازم ہے تو وہ صرف اور صرف اس وجہ سے ہوگا کہ اُس پیدا کرنے والے کی ذات اُس شے کے لیے علتِ تامہ ہے اور یہ بات بدیہی طور پر معلوم ہے کہ کوئی معین چیزدوسری چیزسے اپنی مقدار ،صفت اور اپنی حال کے اعتبار سے خاص اور ممتازہوتا ہے اور اس کے اندر مذکورہ تینوں اعتبار سے خصوصیت پائی جاتی ہے اوریہ اس بات کومستلزم ہے کہ جو علت اس شے معین کے وجود کا تقاضا کرتی ہے اس میں بھی اختصاص پائی جائے ورنہ تو وہ علت جس میں اس معین چیزکے ساتھ اختصاص کی کوئی بات نہ پائی جائے تو وہ اس چیز کیلئے مُوجِب نہیں بن سکتی جو کسی خاص مقدار ،حال اور صفت کے ساتھ مختص ہے۔

جب یہ بات پہلے سے مسلم ہے کہ فاعل ایسی ذات ہے جو یکے بعد دیگرے وجود میں آنے والے احوال ِ متعاقبہ سے مجر د اور منزہ ہے خواہ یہ کہا جائے کہ اس کی ذات کے ساتھ کوئی بھی حال قائم نہیں یا یہ کہا جائے کہ اس کی ذات کے ساتھ احوال توقائم ہیں ،دونوں صورتوں میں وہ کسی بھی ایسے قدیم شے کے لیے مُوجِب نہیں بن سکتاجو ازلی ہو سوائے اس ذاتِ مجردہ کے جو یکے بعد دیگرے احوال سے خالی ہے کیونکہ وہ احوال جو ایک سے ایک یکے بعد دیگرے وجود میں آتے ہیں تو وہ یقیناً دھیرے دھیرے موجود ہوتے ہیں لہٰذااس کے بعد یہ ممتنع ہے کہ وہ ذات کسی قدیم ازلی شے کے لیے مُوجِب بنے اس لیے کہ وہ ذات جو مُوجِب قدیم ہو ،معین ہو اور ازلی ہو تو وہ خود بطریقِ اولیٰ قدیم ، ازلی اور معین ہونی چاہیے اور جو احوال متعاقبہ ہیں ان میں سے کوئی بھی شے قدیم معین اور ازلی نہیں ہے لہٰذااس کے بعد یہ ممتنع ہواکہ جو چیز مُوجَب ہے یعنی محدث ہے اور اس ذات کے ساتھ مشروط ہے ،وہ قدیم اور ازلی بنے ۔

اگر یہ بات فرض کر لی جائے کہ وہ ذات قدیم اور ازلی ہے تو وہ صرف اور صرف اس تقدیر پر ہو سکتا ہے کہ اس ذاتِ مجردہ ہی کو مُوجِب سمجھا جائے اور ذاتِ مجردہ عن الاحوال میں کوئی ایسا اختصاص نہیں پایا جاتا جو معلول بننے میں فلک کی تخصیص کو ثابت کرتی ہو یعنی اس کے علاوہ دوسرے حوادث کو چھوڑ کر صرف فلک اس کا معلول بنے بخلاف اس کے کہ اگر یہ کہا جائے کہ وہ حادث ہوا یعنی موجود ہوابعد اس کے کہ وہ موجود نہیں تھا بوجہ ان اسباب کے جنہوں نے حدوث کو ثابت کر دیا

اور تخصیص کو ثابت کر دیا تو پھر یہ سوال ختم ہو جاتا ہے اور یہ تو اس سلسلے میں دلیلِ مستقل ہے اور اس کتاب میں اب تک اس سے پہلے اس کا بیان نہیں گزرا۔

چھٹی وجہ :.... جب احوال اس ذات کے لیے لازم ہیں تو ان (مختلف طاری ہونے والے )احوال کے بغیر اس کا فعل کوصادر کرنا ایک ممتنع امرہوگا اور ایسی صورت میں وہ ذات جو احوالِ متعاقبہ کو مستلزمِ ہے ،اُن احوال کے بغیر کچھ بھی نہیں کر سکے گی اور جب (یہ بات مسلم ہے کہ ) کوئی بھی فاعل فعل کو صادر نہیں کرتا مگر ایسے احوال طاری ہونے کے بعد جو یکے بعد دیگرے وجود میں آتے ہیں تو پس اس کے مفعولات میں کسی بھی شے کا قدیم ہونا ممتنع ہوا اس لیے کہ قدیم تو ایک علتِ تامہ ازلیہ کا تقاضہ کرتا ہے اور جو چیز احوالِ متعاقبہ(یکے بعد دیگرے وجود میں آنے والے ) کو مستلز م ہو تو اس کا ازل میں کسی شے(کے احداث ) کا تقاضاکرنا تام اور ازلی نہیں ہو سکتا بلکہ اس شے کے وجود کا تقاضا کرنا انہی احوالِ متعاقبہ اور احوالِ مختلفہ کے (وجود کے وقت ) وجود میں ہوتا ہے جن کی وجہ سے وہ فاعل بنتا ہے۔

ساتویں وجہ :.... جب یہ بات ممکن ہوئی کہ کسی فاعل کے ساتھ احوالِ متعاقبہ (یکے بعد دیگرے وجو دمیں آنے والے احوال )قائم ہوں تو یہ بات بھی جائز بلکہ واجب ہے کہ اس کے ماسوا سب کچھ حادث ہوں اور اگر یہ بات ممکن نہ ہو تو پھر یا تو یہ کہا جائے گا کہ کسی بھی شے کا حدوث ممتنع ہے حالانکہ بداہت کے ساتھ حوادث کا وجود(روزمرہ مشاہدے سے ) معلوم ہے اور یا یہ کہا جائے گا کہ فاعل کے اندر کسی سببِ حادث کے بغیر حوادث وجود میں آتے ہیں اور ایسی صورت میں تو اللہ تعالیٰ کے ماسوا تمام چیزوں کے حدوث کا جواز لازم آئے گا اس لیے کہ یہ بات جب ممکن ہوئی کہ وہ دوام کے ساتھ (ہمیشہ سے )حوادث کو وجود دے بغیر کسی ایسے سبب کے جو ان کے حدوث کا تقاضا کرے تو پس وہ تمام حوادث بغیر کسی سببِ متقاضی کے وجود میں آنا بطریقِ اولیٰ ثابت ہوا اس لیے کہ یہ بات تو امتناع اور محذور وممنوع ہونے کے اعتبار سے پہلی اقل اور کم درجے کی ہے پس جب وہ حدوث ایک محذورِ اعظم کے ساتھ ممکن ہے تو ایک ایسے محذور اور ممنوعِ کے ساتھ تو بطریقِ اولیٰ ممکن ہے جس کا امتناع اور محذور ہونا اخف اور ادنیٰ ہے ۔

پس پہلا فاعل یعنی فاعلِ اول اگر ان حوادث کو مستلزم ہو تو اس کے ماسوا تمام حوادث کا قدیم ہونا ثابت ہوگا حالانکہ یہ ممتنع ہے جیسا کہ پیچھے گزرا اگر وہ ان حوادث کو مستلزم نہ ہوتو پھر یہ وجو دمیں آنے والے ہونگے یعنی حادث ہونگے بعد اس کے کہ وہ معدوم تھے لہٰذا حوادث کا حدوث بغیر کسی سببِ حادث کے لازم آئے گا اور اگر اس کے افراد کو چھوڑ کر صرف حوادث کے نوع کو مستلزم ہو تو اس کا بطلان کئی طریقے سے ثابت ہو چکا ہے اور اگر یہ بات ممکن ہو کہ حوادث بغیر کسی سببِ حادث کے وجود میں آئیں تو پھر تو پورے عالم کا حدوث بھی ممکن ہوا اور جب پورے عالم کا حدوث ممکن ہوا تو قدم ممتنع ہوا کیوں کہ وہ قدیم نہیں بنتا مگر اُس کی اُس علت کے قدم کی وجہ سے جو اس کو وجود دینے والی ہے اور یہ بات پہلے سے فرض کر لی گئی کہ وہاں ایک ایسی علت موجود ہے جو اُس کو وجود دینے والی ہے پس یقیناً اس کا قدیم ہوناثابت اور حدوث ممتنع ہو جائے گا ۔

جب عالم کا حدوث ممکن ہوا تو اس کا قدم ممتنع ہوا ایسا ہی جب اس کی قدم کاممکن ہونا ثابت ہوا تو حدوث ممتنع ہوا اس لیے کہ یہ بات ناممکن ہے کہ وہ اپنے مُوجِب اور علت کی قدم کے بغیر قدیم ہواور اس کے ساتھ اس کا حدوث بھی ممتنع ہے جس طرح کوئی ممکنِ ذہنی جو وجود اور قدم دونوں کو قبول کرتا ہو جس وقت اُس (کے وجود )کا مقتضی تام پایا جائے تو اس کا وجود واجب ہوتا ہے ورنہ پھر اس کا عدم واجب ہوتا ہے پس جس چیز کے وجود کو اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں تو وہ موجود ہوتا ہے اور جس کو نہیں چاہتے وہ موجود نہیں ہوتا اور خارج میں تو صرف اور صرف وہی چیز ہے جس کا وجود واجب ہے خواہ بذاتِ خود ہویا کسی غیر کی وجہ سے یا پھر وہ اشیاء جن کا وجود بذاتِ خود ممتنع ہو یا کسی غیر کی وجہ سے ،اسی طرح ممکن کے قدم اور اس کے حدوث کا حال بھی ہے۔خارج میں تو صرف اور صرف وہی شے ہے جس کا قدم واجب ہے یا اس کا قدم ممتنع ہے پس جب اس کے قدم کا مُوجِب حاصل یعنی موجود ہوا خواہ وہ بذاتِ خود ہو یا اس کے غیر کی وجہ سے ہو تو وہ ممکن ہوگا لامحالۃ ورنہ تو پھر اس کا قدم ممتنع ہوگا اور دو باتوں میں سے کوئی ایک بات ضرور لازم آئے گی :

یا اس کے عدم کا دوام یا اس کا حدوث پس اس کے حدوث کے امکان کے قو ل کے ساتھ یہ بات ممتنع ہوگی کہ علتِ موجبہ کو قدیم مانا جائے پس اس کا قدم بھی ممتنع ہوا پھر اس کے بعد یہ کہنا ممکن نہیں کہ اس کا حدوث ممکن ہے باوجود اس امکان کہ وہ قدیم بھی ہو بلکہ جب اس کے حدوث کا امکان ثابت ہوا تو اس کے قدم کا امکان بھی ثابت ہوا اور اسی وجہ سے وہ تمام لوگ جنہوں نے بغیر کسی سببِ حادث کے حوادث کے حدوث کو ممکن سمجھا ہے وہ اس کے حدوث کے قائل ہیں اور جنہوں نے قدم کا کہا ہے تو ان میں سے کوئی بھی بغیر کسی سببِ حادث کے حوادث کے حدوث کے امکان کو نہیں مانتا اگرچہ یہ قول ایسا ہے کہ دل میں اس کی توجیہہ یوں آتی ہے کہ یہ کہا جائے کہ حوادث کا حدوث بلا کسی سببِ حادث کے ممکن ہے کیونکہ ایسا فاعل جو قادرِ مختار ہے وہ اپنے دو مقدورں میں سے ایک کو دوسرے پربغیر کسی مرجح کے ترجیح دیتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ممکن ہے کہ عالم کو قدیم مانا جائے اس طور پر کہ اس مختار ذات نے بغیر کسی مرجح کے قدم کو ترجیح دی لیکن ہمارے علم کے مطابق یہ قول اپنے بدیہی البطلان ہونے کے ساتھ باتفاق عقلاء متروک ہے اس لیے کہ یہ دو متقدمتین پر مبنی ہے جن میں سے ہر ایک بدیہی طور رپرباطل ہے اگرچہ عقلاء میں سے بعض وہ ہیں جنھوں نے ان میں سے بعض کا التزام کیاہے پس ایسا شخص معلوم نہیں جس نے ان دونوں امورکا التزام کیا ہو،ایک یہ کہ فاعلِ مختار کا اس طرح ہونا کہ وہ اپنے دومقدورین میں سے کسی ایک کو بلا کسی سبب ِ مرجح کے ترجیح دے ،اس لیے کہ اکثر عقلاء یہ کہتے ہیں کہ اس بات کا فساد بدیہی طور پر معلوم ہے یا یہ بات قطعی ہے اور ضروری نہیں ہے اور دوسری بات یہ کہ قادرِ مختار کا اس طور پر ہونا کہ اس کا فعل اس کے ساتھ مقارن ہو اور وہ شیئاً فیشئاً رفتہ رفتہ کسی چیز کو وجود نہ دیتا ہو پس یہ بات یقیناً ایسی ہے کہ جمہورِ عقلاء اس کے قائل ہیں اس لیے کہ اس کا فساد بھی بدیہی طور پر اور قطعا ً معلول ہے بلکہ جمہور علماء یہ کہتے ہیں کہ فاعل کا مفعول اس کے مقارن نہیں ہو سکتا۔