عالم کے قدم اور مسئلہ تقدیر کے درمیان ارتباط
امام ابنِ تیمیہؒعالم کے قدم اور مسئلہ تقدیر کے درمیان ارتباط
پھر بعض اہلِ نظر وہ ہیں جو دومیں سے ایک کے قائل ہیں دوسرے کے نہیں چنانچہ قدریہ اور بعض جہمیہ تو پہلے کے قائل ہیں اور بعض جبریہ صرف رب کے حق میں پہلے مقدمہ کے قائل ہیں بندے کے حق میں نہیں ،اور رہا دوسرا مقدمہ تو اس کے صرف وہ لوگ قائل ہیں جنھوں نے فاعل کو مُرید یعنی ارادہ کرنے والا قرار دیا یا بعضِ عالم کو قدیم قرار دیا جیسے کہ ابو البرکات اور اس کے ہم نوا لوگ ،وہ لوگ جو عالم میں سے کسی شے معین کے قدم کے قائل ہیں تو وہ یہ نہیں کہتے ہیں کہ فاعل ہی ارادہ کرنے والا ہے ،اِن لوگوں کا قول ابو البرکات اور اس کے ہم نواووں کے قول کی بہ نسبت زیادہ فساد پر مشتمل ہے کیوں کہ کسی مفعولِ معین کا اپنے فاعل کے ساتھ ازل سے مقارن ہونا جمہورِ عقلائِ کے نزدیک بدیہی البطلان ہے ۔
اگر اس کیساتھ ساتھ یہ بھی کہا جائے کہ فاعل تو یقیناً ارادہ کرنے والا نہیں تو پھر یہ پہلے کی بہ نسبت زیادہ گمراہی ہو جائے گی اور یہ ایسی بات نہیں جو ان کے قول کو تقویت دے بلکہ نفسِ فاعل کا کسی مفعولِ معین کا فاعل بننا اس کا اپنے مفعول کے ساتھ مقارنت سے مانع ہے اور جو بات انہوں نے ذکر کر دی ہے یعنی انگوٹھی کی حرکت یا اس کے ساتھ اتصال یا مقارنت اور شمس کی شعاؤوں کا شمس کے ساتھ مقارنت اور اس کے دیگر امثال ،ان میں تویہ بات نہیں ہے کہ مفعول اپنے فاعل کے ساتھ مقارن ہے بلکہ وہ تو اس کی شرط کے ساتھ مقارن ہے اور عالم میں کوئی ایسا فاعل نہیں جس کا مفعول اولِ وقت سے (ازل سے )اس کے ساتھ مقارن ہو اور رہے وہ لوگ جوعالم میں کسی شے معین کے قدم کے قائل ہیں تو وہ اس بات کے قائل نہیں کہ فاعل ارادہ کرنے والا ہے پھر ان دو طائفتین میں سے ہرایک قدریہ کے مقدمہ کاشد ومد کیساتھ انکار کرتے ہیں ،اس جملے کو اس طرح تحریر کریں اور وہ یہ ہے کہ فاعلِ مختار بغیر کسی مرجحِ حادث کے ممکن کے دو طرفین میں سے کس ایک کو ترجیح دیتا ہے اور جب انہوں نے اس بات کو جائز اور ممکن سمجھا تو عالم میں سے کسی بھی شے کا قدم کا قول باطل ہو گیا اس لیے کہ اس قول کی بنیاد تو اس پر ہے کہ فاعل بعد اس کے کہ وہ موجود نہیں تھا ،فاعل بن ہی نہیں سکتا اس لیے کہ حوادث کا وجود بغیر کسی سبب کے ممتنع ہے پس یہ بات بھی ممتنع ہوئی کہ وہ پہلے تومعطل ہو(یعنی احداث نہ کررہا ہو )اور پھر فاعل بن جائے بلکہ جب یہ بات ایک فرض کر لی گئی کہ وہ ایک زمانے میں معطل تھا تو یہ اس کی تعطیل کے دوام کو مستلزم ہے اسی طرح جب یہ فرض کر لیا گیا کہ وہ فاعل ہے تو اس سے اس کے فعل کا دوام لازم آیا ۔
اور ان کے نزدیک تو وہ بات ممتنع ہے جو ان متکلمین نے کہی ہے یعنی پہلے اس ذات کیلئے تعطیل ثابت کرنا اور اسکے بعد اسکو فاعل ماننا پس جب انہوں یہ ممکن سمجھا کہ وہ (ایک زمانے میں )معطل ہے اور وہ کوئی کام کرنے والا نہیں تو اب انکے لیے ان لوگوں کے قول کی نفی ممکن نہ رہی اور عالم میں سے کسی شے کے قدم کا قول بھی ممکن نہ رہا لیکن جن لوگوں نے یہ بات (پہلے تعطیل اور اس کے بعد فاعل ماننا )ممکن سمجھی ہے تو اس کی انتہاء اور انجام اس پر ہے کہ وہ شک کرنے والا بنے گا چنانچہ تو وہ یہ کہے گا کہ یہ بھی ممکن ہے اور یہ بھی ممکن ،اور مجھے یہ معلوم نہیں کہ ان دونوں میں سے کونسا واقع ہے اور ایسی صورت میں ممکن ہے کہ وہ کسی ایک کو اپنی سمع کے ذریعے جان لے اور یہ بات بھی معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہوں نے اس بات کی خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پرقادر ہیں اور یہ کہاس نے چھ دن میں آسمانوں ،زمینوں اور ان کے درمیان جوکچھ ہے سب کو پید اکیا پس جس کسی کے بارے میں بھی یہ فرض کیا جائے کہ اس کی عقل دونوں باتوں کو جائز قراردے رہا ہے تو وہ شک ہی میں رہیگا اس کیلئے یہ ممکن ہے کہ دوممکن چیزوں میں ایک کو اپنی سمع کے ذریعے جان لے اور رسول کی سچائی پر یقین کا حاصل ہوناعالم کے حدوث پر علم حاصل ہونے پر موقوف نہیں اور یہی صحیح راستہ ہے کیونکہ ایسے مقدمات جو عقلی ہونے کیساتھ ساتھ باریک (غور طلب )ہوتے ہیں ،ہر کسی کیلئے واضح نہیں ہوتے اور یہ تو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کا راستہ ہر کسی کیلئے کشادہ اور واضح رکھا ہے لہٰذا ہر کوئی اپنا اپنا مطلوب اس کی سمجھ میں آنے والی دلیل سے جانے گا اور جس نے دونوں دلیلوں کی صحت کو جان لیا تو وہ اسے اس کے مطلوب تک پہنچائے گا اور ایک سے زیادہ دلیلوں کا جمع ہونا اس کی علم میں قوۃ اور زیادہ بصیرت کا سبب بنے گا اور جب کبھی ان میں سے کوئی ایک دلیل ذہن سے غائب ہوگا(یعنی مستحضر نہیں رہیگا)تو دوسرا اس کی جگہ کام دے گا ۔