قدمِ عالم کے قول کے بطلان پر ایک دوسری دلیل
امام ابنِ تیمیہؒقدمِ عالم کے قول کے بطلان پر ایک دوسری دلیل
لیکن باوجودیکہ ہمارے علم کے مطابق عقلاء میں سے کوئی ایسا نہیں جس نے یہ بات کہی ہواور اس پر مستزاد یہ ہے کہ اس کی نقیض بھی سمع سے معلوم ہے ہم اس کے فساد پر عقلی دلیل بھی ذکر کرتے ہیں پس ہم کہتے ہیں کہ جس طرح یہ امر مسلم ہے کہ جس کا قدم ثابت ہواس کا عدم ممتنع ہوتا ہے ایسا ہی یہ بھی مسلم ہے کہ جس چیز کا عدم ممکن ہو اس کا قدم ممتنع ہوتاہے اس لیے کہ اگر وہ قدیم ہوتا تو اس کا عدم ممتنع ہوتا اور پہلے سے تو یہ بات مفروض ہے کہ اس کا عدم ممکن اور جائز ہے پس اس کا قدم بھی ممتنع ہے اور جس چیز کا حدوث جائز اور ممکن ہو تو اس کاعدم ممتنع نہیں ہوتا بلکہ اس کا عدم جائز اور ممکن ہوتا ہے اور یہ بات ماقبل میں گزری ہے کہ جس چیز کا عدم جائز اور ممکن ہو تو اس کا قدم ممتنع ہوتا ہے اس لیے کہ اگر وہ قدیم ہوتا تو اس کا عدم جائز نہ ہوتا بلکہ ا س کا عدم ممتنع ہوتا اور وہ مقدمہ متکلمین اور فلاسفہ کے اہل نظر اور عقلاء کے درمیان متفق علیہ ہے اور اس کی صحت کابیان یہ ہے کہ جس چیز کا قدم ثابت ہو۔تو (وہ دو حال سے خالی نہیں )یا تو وہ قدیم بنفسہ (بذاتِ خود قدیم )ہوگا یا قدیم بغیرہ( کسی غیر کے سبب قدیم )اور قدیم بنفسہ واجب بنفسہ ہوتا ہے اور قدیم بغیرہ واجب لغیرہ ہوتا ہے اسی وجہ سے ہر وہ شخص جس نے یہ کہا کہ عالم پورے کا پورا یا اس میں کوئی خاص شے قدیم ہے تو اس کے لیے (دو باتوں میں ایک کا قائل ہونا )ضروری ہے (یعنی کہ ) وہ واجب بنفسہ ہے یا لغیرہ اور اس کے لئے یہ بات ناممکن ہے کہ وہ (دونوں صورتوں کا انکار کرتے ہوئے )یہ کہے کہ وہ نہ تو واجب نفسہ ہے اورنہ لغیرہ، اس لیے کہ قدیم بنفسہ اگر واجب بنفسہ نہ ہو تو وہ ممکن (حادث )ہوگا اور غیر کی طرف محتاج ہوگا پس اگر وہ حادث ہوتو قدیم نہیں ہوگا اور اگر قدیم بغیرہ ہو تو قدیم بنفسہ نہیں ہوسکتاحالانکہ یہ بات تو پہلے سے مفروض ہے کہ وہ قدیم بنفسہ ہے پس یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ قدیم بنفسہ ہو لہٰذاواجب بنفسہ ہو۔اور رہا قدیم لغیرہ؛ تو اکثر عقلاء یہ کہتے ہیں کہ یہ بات ممتنع ہے کہ کوئی شے کسی فاعل کے سبب قدیم ہو جائے اور جس نے یہ بات ممکن قرار دی ہے تو وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے اس مُوجِب کے قدم کی وجہ سے قدیم ہے جو خود واجب نفسہ ہے پس اس کے فاعل کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ اس کو وجود دے پس وہ علتِ موجبہ ازلیہ ہوئی اس لیے کہ اگر وہ اس کے لیے مُوجِب نہ بنے بلکہ اس کا وجود اور عدم دونوں جائز ہوں اور دونوں باتیں یعنی وجود اور عدم ممکن ہونا تو منتفی (ناپید)ہے اس کے حق میں تو عدم ہی متعین ہے لہٰذا اس کا عدم واجب ہوا اور عدم کے وجود کے ساتھ اس کا وجود ممتنع ہوا چہ جائیکہ وہ قدیم بنے پس جو چیز موجود بنفسہ نہ ہو اور نہ قدیم بنفسہ ہو جب ازل میں اس کے لیے ایسا سبب نہیں ہے جو اس کے وجود کے لیے مُوجِب ہو تو اس کا عدم ہی لازم ہوا اس لیے کہ مؤثِّر تام جب حاصل اور موجود ہوتا ہے تو اثر (وجود میں آنا )بھی اس کے ساتھ لازم ہوتا ہے ۔
اگر یہ کہا جائے کہ اس کی شان کے زیادہ مناسب موثر سمجھنا ہے بہ نسبت عدمِ تاثیر کے (اگر چہ وہ بھی ممکن ہے )تو جواب میں کہا جائے گا کہ یہ ایک باطل مقدمہ ہے جیسے ماقبل میں گزرا اور تم تو اس کی صحت کو تسلیم کرتے ہو اور وہ لوگ جنھوں نے اس کی صحت کا دعویٰ کیا ہے وہ بھی تمہارے باطل قول کے قائل نہیں پس کسی نے بھی ان دو نوں باطل اقوال جمع نہیں کیا ۔
ہم تواستدلال کے مقام میں ہیں پس اگر تم کہو کہ ہم یہ بات علی طریق الالزام اس شخص کو کہتے ہیں جو اس کا قائل ہو مثلاً جبریہ ، قدریہ اور قدریہ میں سے وہ لوگ جو قادرِ مختار کا بغیر کسی مرجح تام کے فعل کے وجود کو ترجیح دینے کے قائل ہیں تو ہم ان کو (جواب میں ) یوں کہیں گے کہ تم نے یہ کیوں کہا کہ اللہ تعالی فاعل ِ مختار ہے اور وہ اس کے باوجوداس کا فعل اس کے لیے لازم ہے تو تمہیں یہ جواب دیا جائے گا کہ یہ لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ فعل قدیم تو ممتنع لذاتہ ہوتا ہے اگر چہ یہ بات فرض کر لی جائے کہ فاعل غیر مختار ہے توکیاحال ہوگا اس صورت میں جب کہ فاعل مختار ہو (یعنی بطریق اولی فعل کا قدیم ہونا ممتنع لذاتہ ہونا ثابت ہوگا)تو تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ قادرِ مختار کا فعل اس کی ذات کے مقارن ہونا ممتنع ہے اور یہ کہتے ہیں کہ ترجیح تو صرف حدوث کے ساتھ ہی سمجھ میں آتی ہے اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ممکن کے وجود کا عدم پرراجح ہونامعقول نہیں سوائے اس کے حادث ہونے کے وقت ،رہا وہ ممکن جو مجرد ہو بغیر حوادث کے تو ا س کا مفعول ہونا سمجھ نہیں آتا معقول نہیں بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ توضرورت یعنی بدیہی طور پر معلوم ہے اور وہ کیا ہے کہ وہ ممکن کا اس طور پر ہونا کہ اس کا وجود ممکن ہو اس کے عدم کے بدلے میں اور اس کا عدم ممکن ہو اس کے وجود کے بدلے میں اور یہ ان ممکن میں ہو سکتا ہے کہ جس کے بارے میں یہ بات فرض کرنا ممکن ہو کہ وہ موجود بھی ہو سکتا ہے اور معدوم بھی لیکن وہ ذات جس کا قدم بذاتِ خود یا بغیرہ واجب ہے تو اسکے بارے میں یہ فرض کرنا کہ وہ معدوم ہے یا ممتنع ہے پس یہ بات بھی ممتنع ہوئی کہ ممکن بنے۔
انہوں نے کہا اور یہ وہی بات ہے جس پر جمہورِ عقلاء متفق ہیں یہاں تک کہ ارسطوا اور اس کے متقدمین اتباع بھی یہ کہتے ہیں کہ بے شک ممکن وہ صرف اور صرف محدث ہی ہوتا ہے اسی طرح ابن اردس اور اکیل اور اس کے علاوہ دیگر متاثرین کی بھی یہی رائے ہے اور بے شک اس نے یہ کہا کہ ممکن قدیم ہوتا ہے یہ ان میں سے ایک گروہ نے کہا ہے جیسا کہ ہ ابن سینا اور ان کے امثال اور اس بات پر اس کی اتباع امام رازی اور ان کے علاوہ دیگر لوگوں نے کی ہے اورکہ جن کا ان کے پاس کوئی صحیح جواب نہیں جس طرح کے ان میں بعض امام رازی رحمہ اللہ نے اپنی محصل میں ذکر کیے ہیں اور ان کے محققین اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ فاعل کی طرف محتاج محض حدوث ہیں تاکہ وہ اس بات کے قائل ہو جائیں کہ محدث چیز اپنی بقا کی حالت میں فاعل سے مستغنی ہے بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ فاعل کی طرف حالتِ حدوث اور حالتِ بقا دونوں میں محتاج ہیں اور یقیناً ممکن وہ پیدا ہی نہیں ہو سکتا اور نہ پھر پیدا ہونے کے بعد باقی رہ سکتا ہے مگر کسی موثر کی وجہ سے پس یہ وہ بات ہے کہ جس پر مسلمانوں کے جمہورِ علماء اس کے قائل ہیں بلکہ اس پر جمہورِ عقلاء بھی اس کے قائل ہیں اور وہ بھی یہ نہیں کہتے کہ عالم میں سے کوئی شے ایسی بھی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے غنی ہے اپنی حالتِ بقا میں ، بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ جب یہ بات فرض کر دی گئی کہ کوئی بھی حادث ایسا نہیں ہے بلکہ یہ بات فرض کر دی گئی کہ وہ حادث نہیں ہیں تو یہ بات ممتنع ہوئی کہ وہ مفعول بنے اور کسی موثری کی طرف محتاج بنیں پس ان کے نزدیک بھی قدم وہ فاعل کی طرف محتاج ہونے کے منافی ہے اور اس طرح اس کا مفعول ہونے کے منافی ہے پس ان کے نزدیک یہ حدوث یہ کسی شے کے مفعول بننے کے لواز م میں سے ہے پس ان کے نزدیک یہ بات ممتنع ہوئی کہ وہ مفعول بنے ،مفعولِ قدیم بنے اور یہ خبریہ اور جبریہ صرف جبریہ وغیرہ کا قول نہیں بلکہ جمہورِ عقلاء کا قول ہے اور یہی جمہورِ عقلاءِ فلاسفہ کا قول بھی ہے۔
رہا فلک کا مفعولِ قدیم بنانا تو یہ فلاسفہ میں سے چھوٹی سی جماعت کا قول ہے اور جمہورِ عقلاء کے نزدیک یہ اس کا فساد بالکل واضح ہے اور بدیہی طور پر معلوم ہے اسی وجہ سے عقلاء میں سے جس نے اس بات کا تصور کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا ہے تو اس کا یہ تصور بھی پیدا ہوا کہ یہ آسمان و زمین یہ وجود میں آئے بعد اس کے کہ معدوم تھے اور جس نے بھی اس بات کا تصور کیا کہ موجودات میں سے کوئی شے ایسی بھی ہے کہ جو مصنوع ہے یعنی اسکو پیدا کیا گیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ مفعول ہے تو ا س کا یہ تصور بھی اس کے ساتھ ہوا کہ یہ چیز حادث ہوگی اور رہا اس بات کا تصور کہ وہ مفعول ہے اور وہ قدیم ہے تو یہ باتیں عقل میں آتی ہیں بطورِ فرض کے جس طرح کہ جمع بین النقیضین کو صرف فرض ہی کیا جا سکتا ہے یعنی خارج میں اس کا کوئی وجو دنہیں اور جو لوگ یہ بات کرتے ہیں تو وہ اس بات کو ممکن فرض کرنے میں انتہائی تاب اور مشقت اٹھاتے ہیں جس طرح کے دوسرے ممتنع اقوال کے قائلین بھی بہت ہی مشقت میں پڑے ہوئے ہیں اور پھر اس کے ساتھ ساتھ فطرتِ سلیمہ بھی اس بات کو رد کرتی ہے اور اس کودفع کرتی ہے اور ہر گز اس کو قبول نہیں کرتی اور اس سے زیادہ تعجب کی بات تو ان لوگوں کا عالم کا محدث نام رکھنا ہے اور وہ اس سے مراد لیتے ہیں کہ وہ علتِ قدیمہ کا معلول ہے اور جب ان سے پوچھا جائے کہ کیا عالم حادث ہے یا قدیم تو جواب میں کہتے ہیں کہ وہ حادث اور قدیم دونوں ہیں اور اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ فلک وہ بذاتِ خود قدیم ہے اور ازل سے ہے اور یہ بات بھی کہ حادث ہے تو اس بات سے کہ وہ حادث ہے ان کی مراد اس کے حادث ہونے سے یہ ہے کہ وہ معلول ہے کسی علتِ قدیمہ کا۔
ان لوگوں کے استدلال کا بطلان جو امکان اور حرکت پر لفظ افول سے استدلال کرتے ہیں جو ابراہیم علیہ السلام کے قول میں مذکور ہے :
اور یہ ابن سینا اور باطنیہ میں سے ان کے امثال لوگوں کی عبارت ہے اس لیے کہ وہ مسلمانوں کی عبارات لیتے ہیں اور ان کو اپنے من مانی معانی پر محمول کرتے ہیں جس طرح کہ انہوں نے لفظ ’’افول ‘‘میں بھی کہا ہے کیوں کہ یقیناً اس نئے کلام کے قائلین جب کہ انہوں نے افعال کے حدوث پر استدلال کیا ۔اس جملے کو اس طرح لکھا جائے اس لیے کہ یقیناً اس نئے کلام کے قائلین نے جب افعال کے حدوث کے ذریعے اس فاعل کے حدوث کے پر استدلال کہ جس کے ساتھ افعال قائم ہوتے ہیں اور انہوں نے یہ خیال کیا کہ ابراہیم علیہ السلام نے بھی اس سے استدلال کیا ہے اور یقیناً افول سے ان کے قول میں افول سے مراد حرکت اور اتصال ہے اور یہ کہ یقیناً اس نے اس بات کے ذریعے یعنی لفظِ افول کے ذریعے استدلال کیا ہے متحرک اور منقل کے حدوث پر ابن سینا نے اس مادے کو اس کے اصل کی طرف منتقل کر دیا ہے اور اس نے اپنی اشارات نامی کتا ب میں اس بات کو ذکر کیا ہے پس اس نے اس لفظ افول کو امکان سے عبارت قرار دیا ہے یعنی یہ امکان کے معنی میں ہے اور اس نے کہا کہ جو چیز امکان کے حضیراہ میں یعنی امکان کے حوض میں گر پڑا تو وہ گویا وہ حرکت کے تالاب میں جھنڈ میں گر پڑا اور اس کا لفظ یہ ہے ابن سینا کا لفظ یہ ہے یقیناً ہوا جو ہے حضیرت الامکان میں وہ افول ہی ہے اور انہوں نے یہ بات اس لیے کہ کہ اس کا ارادہ یہ ہے کہ وہ اپنے سے گذشتہ فلاسفہ کے قول کے مطابق جو ہے بات کریں باوجود یہ کہ وہ اس کے بھی قائل ہیں کہ جو متکلمین کے طریقے کے مشابہ ہے اور متکلمین نے تو جسم کے حدوث پر ترکیب کے طریقے پر استدلال کیا ہے پس اس نے اس ترکیب کو امکان پر دلیل قرار دیا اور متکلمین نے اپنی دلیل کو وہی دلیل قرار دی جو ابراہیم علیہ السلام کی دلیل ہے اپنے اس قو ل کے ذریعے:
﴿لَا أُحِبُّ الْآَفِلِینَ ﴾ (انعام:۷۶)
’’میں ڈوبنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
اس کی تفسیر یوں کی ہے کہ اس میں آیت اُفُوْل حرکت ہے۔ پس ابن سینا نے کہہ دیا کہ ایک قوم اس بات کی قائل ہے کہ یہ شے محصوص موجود لذاتہ ہے اور واجب بنفسہ ہے لیکن جب تو یاد کرے گا وہ بات جو واجب الاوجود بننے کے لیے شرط ہے تو پھر تم اس محصوص کو واجب نہیں سمجھو گے اور تو اللہ تعالی کے اس قول ’’لَا أُحِبُّ الْآَفِلِینَ‘‘ (انعام:۷۶)کی اطلاع کرو گے اس لیے کہ امکان کے حوض میں جو ہے گرجانا یہی افول ہے۔ اور شر سے اس کی مراد یہ ہے کہ وہ ذات مرکب نہیں اور جو چیز مرکب ہو تو وہ ممکن ہوتی ہے واجب نہیں ہوتی اور ممکن ہی عاقل ہے یعنی غروب ہونے والا ہے یا متحرک ہے۔ اس لیے کہ امکان ہی تو افول ہے اور ان کے نزدیک آخر یہ وہی ذات ہے جو موجود بغیریہی ہو یعنی اس کا وجود کسی غیر کے سبب ہو اور وہ اس بات کے قائل ہیں کہ ہم ممکنات کے امکان کے ذریعے واجب پر استدلال کرتے ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ عالم قدیم ہے ،ازل سے ہے اور ہمیشہ کے لیے رہے گا اور اہم اللہ تعالی کے اس قول ’’لَا أُحِبُّ الْآَفِلِینَ کا معنی یہ بتلاتے ہیں کہ ’’میں ممکن کو پسند نہیں کرتا ہوں ‘‘اگرچہ ممکن واجب الاوجود لغیریہی ہے قدیم اور ازلی ہے اور ازل سے ہے اور ہمیشہ رہے اور اور یہ بات تو معلوم ہے کہ دونوں باتوں میں سے ہر ایک تحریف کے قبیل سے ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے کلمات کو اپنے اصل مراد سے ہٹا دینا ہے اور افول تو افک میں غائب ہونا ہے پردہ کے پیچھے چلے جانا ہے نہ کہ امکان کے معنی میں ہے اور نہ حصر کے معنی میں ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اس قول کے ذریعے حدوث ِ کواکب پر استدلال نہیں کیا اور نہ سامنے کی اس بات پر؛ بلکہ اس نے اس لفظ افو ل کے ذریعے استدلال کیا ان کی عبادت کے بطلان پر؛ اس لیے کہ یہ عقیدہ مشرکین کا تھا جو کواکب کی عبادت کرتے تھے اور اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکارتے تھے۔
وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ یہی کواکب جو ہیں انہوں نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اس لیے کہ اس کا تو کوئی بھی عاقل عقلمند قائل نہیں اسی وجہ سے انہوں نے یہ کہا
﴿یَا قَوْمِ إِنِّی بَرِیء ٌ مِمَّا تُشْرِکُونَ ﴾( انعام: ۷۸)
’’ اے میری قوم ! میں تمہارے ان شرکیہ اعمال سے بری ہوں ۔‘‘
اور یہ بھی کہا:
﴿ أَفَرَأَیْتُمْ مَا کُنْتُمْ تَعْبُدُونَ ۰أَنْتُمْ وَآَبَاؤُکُمُ الْأَقْدَمُونَ ۰ فَإِنَّہُمْ عَدُوٌّ لِی إِلَّا رَبَّ الْعَالَمِینَ ﴾( شعراء : ۷۵ )
’’کہا تو کیا تم نے دیکھا کہ جن کو تم پوجتے رہے۔ تم اور تمھارے پہلے باپ دادا۔سو بلاشبہ وہ میرے دشمن ہیں ، سوائے رب العالمین کے۔‘‘
اور اس بات پر کلام اس کے علاوہ کئی جگہ تفصیل سے گزر چکا ہے۔
مقصود تویہاں پر یہ ہے کہ یہ قوم ان مسلمانوں کی عبارات لیتے ہیں جنھوں نے ان عبارات سے کوئی ایک معنی مراد لیا ہے تو یہ ان الفاظ سے ایک دوسرا معنی مراد لیتے ہیں جو مسلمانوں کے دین کے منافذ اور الٹ ہوتا ہے تاکہ اس کے ذریعے یہ بات ظاہر ہو جائے کہ یہ مسلمانوں کے موافق ہیں ان کے اقوال میں اور یہ کہ وہ اس بات کے بھی قائل ہیں کہ عالم حادث ہے اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ جتنے بھی ماسوا ہیں تو وہ ہمارے نزدیک بھی عافل ہیں اور محدث ہیں اس معنی پر کہ وہ اس کے لیے معلول ہیں اگرچہ وہ خود قدیم اور ازلی ہیں اس کی ذات کے ساتھ اور واجب ہیں اس کی وجہ سے یعنی واجب لغیریہی اور ازل سے ہیں اور ہمیشہ کے لیے رہیں گے اور جب جمہورِ عقلاء اس بات کے قائل ہیں کہ مفعول صرف اور صرف حادث ہی بن سکتا ہے خاص طور پر۔
پس ان کے[قدم کے قائلین] قول سے یہ بات لازم آتی ہے کہ حوادث کا حدوث بغیر کسی سبب کے ممکن ہے۔ اور یہ بات بھی کہ اصل موثر تام کی طرف محتاج نہیں ہے؛جو اپنے وجود میں بلکہ قادر ذات اپنے دو مقدورین میں سے کسی ایک کو بغیر کسی مرجع کے ترجیح دیتا ہے اور عالم کے حدوث کے قائلین کا قول اس بات کو مستلزم ہے کہ مفعول مطلق یا مفعول جو کہ قدرت اور ارادے اور اختیار سے وجود میں آتا ہے وہ ازل سے قدیم اور ازلی ہے۔ اپنے فاعل کے ساتھ اور اس فعل کے ساتھ مقارن ہے پس ان دونوں گروہوں کے قول پر جو دو باتیں لازم آتی ہیں ؛ ان میں سے ایک تو بات لازم آگئی کہ کوئی فاعل قادرِ مختار ہو اور بغیر کسی مرجح کے اپنے دو مقدورین میں سے ایک کو ترجیح دے اور اس کے باوجود اس کا مفعول قدیم اور ازلی بھی ہو؛ لیکن عقلاء میں سے ہمارے علم کے مطابق کسی نے بھی ان دو لازم آنے والی باتوں کا التزا م نہیں کیا ہے یعنی اس کا کوئی قائل نہیں ۔
اگر یہ بات فرض کر لی جائے کہ اس کا کوئی قائل ہے تو تحقیق اس نے دو ایسے ملزومین کا اقرار کر لیا کہ جو دونوں باطل ہیں اور ان میں سے ہر ایک برہان اور دلیل کے ساتھ باطل ہے اور عقلاء میں سے کوئی بھی ایسے دو باطل ملزومین کے درمیان جمع (کرنے کے جواز )کا قائل نہیں ہے۔ اور تمام کے تمام عقلاء اس بات پر برہانِ قاطع کے ساتھ رد کرتے ہیں لیکن دو گروہوں میں سے ہر ایک گروہ کے کلام کامعارضہ اور مقابلہ دوسرے گروہ کے کلام کے ساتھ کرتے ہیں ۔ اور اس کا زیادہ سے زیادہ نتیجہ یہ نکلتاہے کہ ایک گروہ کے عقیدہ کا کچھ حصہ فاسد ہو جاتا ہے اور دوسرے گروہ کے عقیدہ کاکچھ حصہ بھی فاسد ہو جاتا ہے۔ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ دونوں قولین میں سے ہر ایک کے فساد کو وہ جمع کرے اور نہ ان دونوں قسم کے تصادم کے ساتھ جمع عطاء ہے بلکہ یہ تو اس کے قول کے رد کرنے پر بہت زیادہ ابلغ ہے۔
یہ بھی (ملحوظ رہے )کہ ان دو طائفتین میں سے ہر ایک دو فسادوں میں سے ایک فساد سے فرار اختیار کرتی ہے اور دوسرے امر کو فاسد نہیں سمجھتی اور اس نے من کل الوجوہ الصحیح کو جمع کرنے اورمن کل الوجوہ فاسد سے سلامتی کی طرف سیدھی راہ نہیں پائی پس اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اس گروہ پر اس چیز کا الزام لگائے جس کے فساد کو وہ جانتا ہے ساتھ ان امور کے جن کے فساد کا اسے علم نہیں ،پس وہ اُس کو اس قول کا الزام دے جو من کل الوجوہ فاسد ہے اور اس قول سے اسے نکال لے جو پورا کا پورا صحیح ہے اس لیے کہ اس طائفے کے قول کی مثال اس رنگ برنگ چیز کی ہے جس میں سفید وسیاہ دونوں ہوں اور ظاہر ہے کہ ایسا چت کبرا خالص کالے سے بہتر ہے۔
کیونکہ وہ گروہ جس نے یہ کہا کہ قادر ذات کے لیے اپنے دو مقدورین میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح دینا بغیر کسی مرجح کے ممکن ہے تو اس نے یہ بات اس لیے کہی ہے کہ وہ یہ بات جانتا ہے کہ فاعلِ قادر کے لیے ضروری ہے کہ اس کا فعل حادث ہوا ور اس کا فاعل ہونا باوجود فعل کے قدیم ہونے کے یہ جمع بین النقیضین ہے۔ اور انہوں نے فعل کے نوع اور فعل کے عین کے درمیان فرق کی طرف سیدھی راہ نہیں پائی یعنی اس کو وہ نہیں سمجھے بلکہ ان کا اعقاد یہ بھی ہے کہ یہ بات ممتنع ہے کہ حوادث کے لیے کوئی اول نہ ہو یعنی حوادث کا ازلی ہونا ممتنع ہے پس اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ وہ اس کا بھی قائل ہو گا کہ فعل کا دوام بھی ممتنع ہے لہٰذا لازم آئے گا کہ وہ ذات فاعل تھا بعد اس کے کہ وہ فاعل نہیں تھالہٰذاقادر کا اپنے دو مقدورین میں ایک کا دوسرے پر بلا مرجح کے ترجیح دینا لازم آئے گا ،کیونکہ قادریت یعنی کسی فعل پر قادر ہونا ،یہ خاص نہیں ہے اور ازل سے نہیں ہے ۔
اگر اس کے اختصاص کا یا اس کے حدوث کا قول اختیار کیا جائے تو صفتِ قدرت کا حدوث لازم آئے گا بغیر کسی محدث کے یعنی بغیر کسی موجب کے اور اس کا تخصیص بلا کسی مخصص کے لازم آئے گا اور یہ بات بھی (لازم آئیگی )کہ وہ بغیر کسی سبب کے قادر بنا بعد اس کے کہ وہ قادر نہیں تھا اور امتناع کی صفت سے امکان کی طرف فعل منتقل ہوا بغیر کسی ایسے سبب کے جو اس انتقال کا موجب ہواور تقاضا کرتا ہو اور جب یہ بات ممکن ہوئی تو اس کا اپنے دو مقدورین میں سے کسی ایک کے لیے مرجح ہونے کا امکان تو بطریقِ اولیٰ ثابت ہو جائے گا اور یہ جو لوازم ہم نے ذکر کر لیے اگرچہ جمہور ان کے بطلان کے قائل ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمیں ان لوازم کی طرف ان ملزومات نے مجبور کردیا جو ہم نے پیچھے ذکر کر دیئے یعنی ان کا یہ گمان کر نا کہ نوعِ حوادث اور عینِ حوادث کے درمیان کوئی فرق نہیں اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ان لوازم کے ساتھ ان ملزومات کے انتفاء کے بھی قائل ہو جاؤ تو وہ کہتے ہیں کہ قادر اپنے دو مقدورین میں سے ایک کو بغیر کسی مرجح کے ترجیح دیتا ہے اور حوادث کو بغیر کسی سبب کے پیدا کرتا ہے باوجود یہ کہ فاعلِ قادر کے ساتھ اس کا ساتھ مفعولِ متعین مقارن اور متصل ہوتا ہے ۔
یہ بات بھی کہ عینِ فعل اور عینِ مفعول کے لیے کوئی اول ثابت نہیں یعنی وہ ازلی ہیں پس ان کے ذہن میں یہ بات لازم آتی ہے کہ وہ ایسے لوازم کے قائل ہو جائیں کہ جن کا بطلان ان کے اُن ملزومات کی نفی کے ساتھ ظاہر ہے جو ان کے اس نظر سے ثابت ہوتے ہیں اور واضح طور پر باطل ہیں اورا س میں بھی جس کا بطلان مخفی ہے پس تحقیق ان پر اس بات کا الزام آتا ہے کہ وہ ایسے لازمِ باطل کے قائل ہو گئے ہیں جس کی طلب کوئی حاجت ہی نہیں اور ساتھ ساتھ اس چیز کی نفی کے جس چیز نے ان کو ان کی طرف محتاج کر دیا باوجود اس میں کچھ حق تھا اور باطل بھی تھا اوراسی طرح وہ گروہ جو عالم کے قدم کے قائل ہیں ۔
انہوں نے جب اس بات کا اعتقاد کر لیا کہ فاعل کافاعل بننا بعد اس کے کہ وہ فاعل نہیں تھا یہ بات ممتنع ہے اور یہ بھی (ممتنع ہے )کہ وہ کسی حادث کو وجود دے لیکن وہ (وجود دینا )کسی خاص وقت میں نہ ہو اور عدمِ محض میں وقت کا پایا جاناممتنع ہے تو وہ بھی دوامِ نوع اور دوامِ عین کے درمیان فرق کی طرف راہ نہ پا سکے ۔ اور انہوں نے یہ گمان کیا کہ یہ عین ِ مفعول کے قدم کو مستلزم ہے پس ان کے قول پر ایک ایسے مفعولِ قدیم کا وجود لازم آتا ہے کہ جو ازلی ہو اور فاعل کے ساتھ مقارن ہو
پھر ان میں سے بعضوں نے یہ کہا کہ کسی فاعل کا اپنے اختیار کے ساتھ اس طور پر فاعل ہونامعقول نہیں کہ اس کے ساتھ اس کا مفعول قدیم اسکے ساتھ مقارن ہو (پس اس سے فرار کیلئے )انہوں نے کہا کہ وہ تو موجب بالذات ہیں ،اختیار کے ساتھ فاعل نہیں ہیں اور انہوں نے التزام کیا ایک ایسے لازم کا جو جمہورِ عقلاء کے نزدیک معلوم الفساد ہے یعنی ایک ایسے مفعولِ معین کا وجود جو اپنے فاعل کے ساتھ مقارن ہو ازلاً و ابداً اور وہ (اس محذور کے اثبات سے بچنے کیلئے )اس کے قائل ہوئے کہ اس کافاعل ہونا ثابت ہوگا بعد اس کے کہ وہ فاعل نہیں تھا ۔
جب ان سے کہا جائے کہ تم اپنے اس قول کے قائل بن جاؤ ساتھ تمہارے اس قول کے بھی کہ یہ بات ممکن ہے کہ وہ ذات فاعل بن جائے بعداس کے کہ وہ فاعل نہیں تھا اور پھر وہ اپنے دو مقدورین میں سے ایک کو بلا کسی مرجح کے ترجیح دیتا ہے تو تحقیق ان کے ذمے یہ بات لازم آتی ہے کہ وہ ایک ایسے امر کے قائل ہو جائیں جو پورا کا پورا باطل ہے اور یہ بھی (لازم آئیگا)کہ وہ قائل ہو جائیں ایک ایسے لازم کا جس کا (کلی طور پر)بطلان ظاہر ہے بغیر اس ملزوم کے جس میں کچھ حق اور کچھ باطل ہے جس نے ان کو اس لازم کی طرف مجبور کر دیا اور یہ بھی (لازم آئیگا)کہ اس تقدیر پر جس طرح ابھی ہم بات کر رہے ہیں اور وہ یہ (تقدیر )ہے کہ کوئی ازلی ان حوادث کو مستلزم نہیں ہوتا بلکہ وہ حادث موجود ہوتے ہیں بعد اس کے کہ وہ معدوم تھے تو اس تقدیر پر لازم آئے گا کہ یہ عالم تمام کسی زمانے حوادث سے میں خالی تھا اور اس کے بعد اس میں بلا کسی سببِ حادث کے یہ حوادث موجود ہوئے اور یہ تو ان حرَّانیین کے قول کی طرح ہے جو کہ پانچ اشیاء کے قدیم ہونے کے قائل ہیں اور ان کو واجب بنفسہ مانتے ہیں ۔ایک واجب بنفسہ ،دوسرا مادہ ،تیسرا مدت ،چوتھا نفس اور پانچواں ھیولیٰ ،جس طرح کہ دیموقراطیس ،ابن زکریا طبیب اور جو ان دونوں کے موافقین ہیں ،اس کے قائل ہیں یا اس قول کے مشابہ ہے جو بعض قدماء سے منقول ہے اور وہ یہ ہے کہ عالم کے جواہر (اجسام)ازلیہ ہیں (اور یہی تو قدم ِ مادہ کا قول ہے)اور (یہ ازلی اجسام ) بغیر کسی نظم و ضبط کے متحرک تھے پھر اتفاقاً (بغیر کسی سبب موجب کے )یہ آپس میں ایک خاص ترتیب سے ملے جس سے یہ عالم وجود میں آیا۔