Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

دیموقراطیس اور ابو بکر رازی پر رد

  امام ابنِ تیمیہؒ

دیموقراطیس اور ابو بکر رازی پر رد

یہ دونوں قول انتہائی درجے کے فاسد ہیں بہرحال جو پہلے قول والے ہیں تو وہ یہ کہتے ہیں کہ نفس کو ہیولیٰ سے عشق ہوا اور(العیاذ باللہ ) اللہ تعالیٰ ہیولیٰ سے اسے چھڑانے میں عاجز ہوا یہاں تک کہ وہ ہیولیٰ کے ساتھ ملنے کا وبال چکھ لے اور انہوں نے یہ بات اس امر سے فرار اور بھاگنے کے لیے کہی کہ ان پربغیر کسی سببِ حادث کے ممکن کا حدوث ماننے کا الزام نہ آجائے حالانکہ وہ اس (الزام )بات میں پڑ گئے جس سے اپنے آپ کو بچا رہے تھے اور وہ نفس کا ہیولیٰ کے ساتھ محبت کا حدوث ہے پس ان کو بطورِ الزام کہا جائے گا کہ اس چیز کا موجب کیا ہے ؟پس تحقیق ان پربغیرکسی سبب حادث کے حادث کے حدوث ماننے کا الزام آیا۔

ان کے اوپر اس سے بھی زیادہ شنیع اور قبیح بات لازم آتی ہے؛ یعنی کہ اللہ تعالیٰ سے صدور کے بغیر حوادث کا حدوث اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ دیگر اور بھی قدماء(قدم ذوات) کا قائل ہونا(یعنی ان کو ماننا)،اگر وہ اس کے وجود کے وجوب کے قائل ہیں تو ان کے ذمہ لازم آئے گا کہ واجب الوجوب ایسی ذات ہو جو مستحیل ہو اور ایسی صفت کے ساتھ موصوف ہو جو اس کے حدوث ،اس کے نقصان اور اس کے امکان کو مستلزم ہو اور اگر یہ بذاتِ خود واجب نہیں یعنی واجب بنفسہ نہیں ہے بلکہ کسی غیر کی وجہ سے واجب ہے تو لازم آئے گا کہ ان کے لیے کوئی موجب ہو اور وہ غیر کے لیے موجب نہ ہو اور علتِ قدیمہ اپنے معلول کے ساتھ (وجوداً وعدماًلازم ) ہے۔ پس اس سے اس کے معلول کا تغیراور ایک حال سے دوسرے حال کی طرف بغیر کسی فعل (سبب موجب) کے منتقل ہونا لازم آئے گا اور ایسے معلول کا محال ہونا لازم آئے گا جو اس کے ساتھ علت میں بغیر کسی تغیر کے لازم ہو اور یہ تمام امور محال ہیں ورنہ تو پھر اس کے لیے کوئی معلول ہی نہیں ہوگا ۔

اگر یہ اس بات کو جائز اور ممکن سمجھتے ہیں تو پس عالم کا قدیم ازلی ہونا اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ لازم ہونا اس کو بھی ممکن اور جائز سمجھیں اور عالم باوجود اس کے قدیم اور ازلی ہونے کے اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ لازم ہونے کے اس کے لیے انتقال یعنی اس کے وجود کامنتشر ہو جانا ،بکھر جانا ،آسمانوں کا پھٹ جانا ،آسمانوں کا ٹکڑے ٹکڑے ہونا اور قیامت کا قائم ہونا ،یہ سب کے سب ثابت ہیں اور ظاہر ہے کہ ان کے ذمے ان تمام امور کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی فعل کے بغیر وجود لازم آئے گا بلکہ عالم کے اندر بغیر کسی محدث ذات کے حادث کا وجود ذمے لازم آئے گا ۔

اگر یہ اس کے جواب میں کہیں کہ یہ پورے عالم کا انتقال یعنی ٹکٹرے ٹکڑے ہو جانا اور آسمانوں اور ستاروں اور چاند کا نظام درہم برہم ہو جانا اور قیامت قائم ہونا نفس کو ہیولیٰ سے بغض پیدا ہو جانے کی وجہ سے ہے تو یہ بھی ان کے اسی قول کے ہم جنس ہے کہ جو ماقبل میں گزرا؛ یعنی کہ نفس کا ہیولیٰ کے ساتھ محبت کا حدوث اس کے وجود کا سبب ہو۔ا پس جب یہ بات جائز (ممکن )ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اختیار کے بغیر نفس کے محبت سے اس کو وجود ملے تو یہ بھی تو جائز اور ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اختیار اور ارادے کے بغیر نفس کے بغض کی وجہ سے یہ پورا عالم منتقل یا درہم برہم ہو جائے۔

رہے دوسرے لوگ یعنی دوسرا گروہ تو انہوں نے عالم کے وجود کو تو بے شک ثابت کیاہے۔ اس لیے کہ اگر وہ بالکلیہ صانع کی نفی کر تے ہیں تو(اس قول کے نتیجے میں ) ان کواس بات کا قائل ہونا پڑے گا کہ حوادث کا وجو د بغیر کسی محدث ذات کے ہے اور اگر وہ یہ کہیں کے صانع کی وجہ سے ان کا حدوث ہے تو پس تحقیق انہوں نے اس نظام کے لیے بغیر کسی سببِ حادث کے احداث کو ثابت کر دیا ۔وہ یہ کہیں کہ رب تعالیٰ نے اپنے اس عالم کے انتظام اور (اجسام کا)آپس میں (خاص ترکیب کیساتھ)جڑنے سے پہلے اس نے اس کو حرکت نہیں دی تھی ۔

اور اگر وہ کہیں کہ وہ ان (اجسام )کو (دونوں حالتوں میں )حرکت دیتا تھا یعنی ان کے آپس میں جڑنے سے پہلے اور اس کے بعد بھی تو یہ لوگ صانع کے اثبات کے قائل ہیں اور اس عام کے حدوث کے قائل ہیں اور ان کا یہ قول یہ عالم کے قدم کے قائلین کے قول سے نسبتاً بہتر ہے ۔

پھر ان کے اس قول میں دو باتوں کا امکان ہے۔ایک یہ کہ عالم میں سے کسی شے معین کے قدم کا اثبات پس (اس صورت میں )ان کا قول (پورے )عالم کے قدم کے قائلین کے قول کا بعض ہو جائے گا اور یہ ان لوگوں کے قول کے ہم جنس ہوا جو قدماء خمسہ کے قائل ہیں یعنی اس حیثیت سے کہ انہوں نے افلاک کے علاوہ کسی قدیمِ معین کو ثابت کردیا اور یہ اہلِ افلاک کے قول کے ہم جنس ہے چنانچہ انہوں نے ایسے حوادث کو ثابت کیا جو ازل سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔

یہ اس تقدیر پر ہے کہ وہ اس بات کو مانتے ہوں کہ یہ موادِ خمسہ ازل سے متحرک تھے اور اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ پہلے ساکن تھے اس کے بعد ان میں حرکت پیدا ہوئی تو ان کا یہ قول بھی قدماء خمسہ کے قائلین کے قول کی طرح ہوا پس جو بات ان لوگوں کے قول کے فساد پر دلالت کرتی ہے وہ ان کے قول کے فساد پر بھی دال ہے اور جو ہم نے تقسیم ذکر کر دی یہ ہر قول کے فساد کے اثبات پر منطبق ہوتی ہے اگرچہ ان میں سے (الگ الگ )ہر قولِ باطل کے کچھ خاص دلائل ہیں جو صرف اس کے فساد پر دلالت کرتے ہیں ۔