جوہر فرداور معتزلہ اور اشاعرہ کے عقیدہ کا بطلان
امام ابنِ تیمیہؒجوہرِ فرداور معتزلہ اور اشاعرہ کے عقیدہ کا بطلان
وہ متکلمین جو جوہرِ فرد کو ثابت کرتے ہیں یا یہ کہتے ہیں کہ حرکت اور سکون دو امر ِ وجوبی ہیں ؛ جیسے کہ جمہورِ معتزلہ ،اشعریہ اور ان کے علاوہ دیگر لوگ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ عالم کبھی بھی حرکت و سکون سے خالی نہیں ہوتا۔ اسی طرح اجتماع او ر افتراق سے اور یہ حادث ہیں ۔ پس یہ عالم حوادث کو مستلزم ہے اور یہ مسئلہ ہم اپنے مقام پر تفصیل کے ساتھ بیان کر چکے ہیں ۔ اور اس میں اہل نظر کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے اور اس کے مقدمات میں بہت طول اور تفصیل ہے اوراس میں بہت سے امور مختلف فیہ ہیں ۔اور ان میں سے بعض وہ بھی ہیں جو کسی نتیجے تک نہیں پہنچتے ۔لہٰذا ہم انھیں تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کرتے کیونکہ یہاں اس کی ضرورت نہیں ہے ۔
یہ ایک مذموم (ناپسندیدہ)کلام ہے کیونکہ بہت سے اہلِ نظر اس کے قائل ہیں کہ سکونِ امر عدمی ہے اور ہم تو کہتے ہیں کہ: جو ہرِ فرد کا اثبات ایک باطل چیز ہے اور اجسام جوہرِ فردسے مرکب نہیں ہے اور نہ ہیولیٰ اور صورت سے (مرکب ہیں )؛بلکہ جسم تو بذاتِ خود ایک واحد چیز ہے رہا اجسام کا تفریق کو قبول کرنا یا نہ کرنا تو یہ مقام اس کے تفصیل سے بیان کرنے کانہیں ۔ اور اس تقدیر پر کہ وہ اجسام تفریق کو قبول کرتے ہیں تو ضروری نہیں کہ وہ اجسام لامتناہی حدتک تفریق کو قبول کریں ۔ بلکہ ایک خاص حد تک وہ تفریق اور تقسیم کو قبول کرتے ہیں ۔ اور اس کے بعد جسم اتنا چھوٹا اور معمولی ہو جاتا ہے کہ وہ فعلی اور حسی تقسیم کو قبول نہیں کرتا۔ بلکہ وہ ایک اور جسم کی طرف منتقل ہو جاتا ہے یعنی ایک دوسری شکل اختیار کر لیتا ہے جس طرح کے پانی کے اجزاء میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ جب وہ بہت چھوٹے ہو جاتے ہیں تو وہ ہوا میں تبدیل ہو جاتے ہیں ۔ باوجود اس کے کہ دونوں جانب میں سے ایک دوسرے سے متمیز ہوتے ہیں ۔ لہٰذا وہاں ایک ایسے جزء کے اثبات کی کوئی حاجت نہیں جس کا ایک جانب دوسرے جانب سے متمیز نہ ہو اور جدا نہ ہو؛ اور نہ کسی ایسے تجزیہ اور تفریق کے اثبات کی حاجت ہوتی ہے جو غیر متناعی حد تک ہو بلکہ اجسام چھوٹے سے چھوٹے ہو جاتے ہیں ۔ اور اس کے بعد پھر جب بہت زیادہ چھوٹی شکل اختیار کر لیتے ہیں تو وہ ایک اور چیز کی طرف تبدیل ہو جاتے ہیں یعنی کوئی اور شکل اختیار کرلیتے ہیں ۔
پس یہ قول دوسرے اقوال کی بہ نسبت عقل کے زیادہ قریب ہے۔
پس چونکہ ان لوگوں کی دلیل ان دو مقدمتین میں سے کسی ایک پر مبنی ہے یعنی جواہرِ فردہ کا اثبات اور یہ کہ اجسام اس سے مرکب ہیں یا اس بات کا اثبات کہ سکون ایک امر وجودی ہے (اوراس میں اختلاف ایک مشہور بات ہے )۔غور اور تحقیق کرنے کے بعد دلیل صرف اور صرف اس کے نقیض پر قائم ہوتی ہے (یعنی یہ کہ جواہر فردہ کی نفی ،اور اجسام کا ان سے عدم ترکیب اور سکون کا امر ووجودی ہونا)۔اس لئے ان کے بیان کرنے میں کلام تفصیل سے ذکر نہیں کیا گیا۔
اللہ تعالیٰ کے انبیاء جو کچھ انسانیت کی طرف لے کر آئے ان میں سے کسی شے کے اثبات کے لیے بھی ان باطل طریقوں کی طرف حاجت نہیں ہے۔ وہ لوگ جو اس جھنجھٹ میں پڑ گئے وہ علم اور عقل والے تھے یعنی مخالفین خودساختہ فلاسفہ اور عقل کے اعتبار سے صریح اور نقل کے اعتبار سے صریح تھے؛ لیکن عقل اور مشاہدے کے اعتبار سے وہ بات غلط ہے جو ان سے صادر ہوئی اور ان میں ان کے ساتھ اہل باطل فلاسفہ بھی شریک ہوگئے۔اور انہوں نے ان کے کلام کے ساتھ کچھ اور امور بھی اپنی طرف سے ملا دیئے جو عقل اور شرع کے اعتبا رسے بہت باریک تھے۔ اور وہ ان متکلمین کے خلاف استدلال کرنے لگے جو عقل اور شرع کے زیادہ اقرب تھے ان کے بہ نسبت اس قول کے بطلان پر جس میں وہ ان کے مخالف تھے اور اس میں انہوں نے حق کے ساتھ مخالفت کی تھی اور وہ اس کو حق کی مخالفت پرحجت قرار دینے لگے، اور وہ یہ فرض کرنے لگے کہ رسولوں کے پاس کوئی حق نہیں ہے اور ان کے اطباء کے پاس بھی سوائے ان باتوں کے جن کے متکلمین قائل ہیں اور یہ لوگ بمنزلہ ان لوگوں کے ہوئے جنھوں نے بعض جاہل مسلمانوں ، مشرکوں اور اہلِ کتاب کے فساق کے پاس وقت گزارا ہو تو وہ ان لوگوں کے جبر و ظلم پر مشتمل بعض اشکالات کو ذکر کرنے لگے اور اس کو مسلمانوں کے دین کے بطلان کے خلاف یہ فرض کرتے ہوئے حجت قرار دینے لگے کہ مسلمانوں کا دین ہی وہ واحدہے جس پر وہ بھی قائم ہیں باوجود یکہ وہ خود ان کی بہ نسبت زیادہ جہل اور ظلم میں پڑا ہوا ہے جس طرح کہ اہلِ کتاب میں سے ایک گروہ یعنی یہود و نصاریٰ میں سے ایک گروہ مسلمانوں کے دین میں اعتراض کرنے کے لیے ان چیزوں سے سہارا پکڑتا ہے جو وہ اپنے بعض افراد میں پاتے ہیں یعنی وہ فواحش جو نکاحِ تحلیل کے ذریعے ہوتے ہیں یا اس کے علاوہ کسی اور طریقے سے ۔
پس جب انصاف کیساتھ ان کاتقابل کیا جائے تو ان میں موجود فواحش ،ظلم ،جھوٹ اور شرک اس سے کئی گنا زیادہ ہے جو جو دین ِ اسلام کی طرف منسوب فساق میں پایا جاتا ہے اور جب ان کے لیے حقیقتِ اسلام کو بیان کر دیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان فواحش ،ظلم ،جھوٹ اور شرک میں سے کچھ بھی نہیں ہے اس لیے کہ ہرملت کے بعض افراد میں کچھ نہ کچھ شر داخل ہوتا ہے لیکن وہ شر جو غیر ِ مسلمین میں داخل ہے ۔یہ اس شر کی بہ نسبت زیادہ ہے جو مسلمان فساق میں موجود ہے اور جو شر مسلمانوں میں پایا جاتا ہے وہ کئی گنا زیادہ ہے اس کی بہ نسبت جو غیر میں پایا جاتا ہے اسی طرح اسلام میں اہلِ سنت کی جماعت میں خیر اکثر ہے بہ نسبت اس جماعت کے افراد کے جن میں بدعات پائی جاتی ہیں اور وہ شر جو اہلِ بدعت میں موجود ہے یہ اس شر سے اکثر ہے کہ جو اہل سنت میں موجود ہے ۔
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ:آپ کی بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ عالم کا حوادث سے خالی ہونا ممتنع ہے ۔ اور پھر اس کے بعد اس میں حوادث موجود ہوتے ہیں ؟
لیکن ہم یہ کہتے ہیں : یہ عالم ازل سے حوادث پر مشتمل رہا اور قدیم تو عالم کا اصل ہے جیسے کہ افلاک اور نوعِ حوادث جیسے کہ افلاک کی جنس حرکت ہے ،رہا حوادث کے اشخاص کا معاملہ تو وہ باتفاق حوادث ہیں یعنی معین اشیاء اور ایسی صورت میں ازلی ذات نوعِ حوادث کو مستلزم ہے کسی حادثِ معین کونہیں ،پس تمام حوادث کا قدم لازم نہیں آئے گا نہ تمام کا حدوث بلکہ اس کے ایک نوع کا قدم لازم آئے گا اور ان کے اعیان (یعنی خاص خاص حوادث) کا حدوث جس طرح تم میں سے اہلِ سنت کے علماء اس کے قائل تھے اور ان کا قول یہ ہے کہ رب تعالیٰ ازل سے متکلم ہیں جب چاہیں اور جیسے چاہیں ۔
وہ یہ کہتے ہیں کہ فعل ،حیات کے لواز م میں سے ہے اور رب تعالیٰ ازل سے حی ہے اور زندہ ہے پس وہ ازل سے ہی فعال ہے یعنی افعال صادر کرنے والا ہے اور یہ تو تمہارے ائمہ کا معروف قول ہے جیسے کہ امام احمدبن حنبل ،امام بخاری جو صاحب صحیح ہیں ؛ اور نعیم بن حماد الخزاعی ،عثمان ابن سید الدارمی رحمہم اللہ اور ان کے علاوہ اور لوگ؛ جیسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور امام جعفر صادق رحمہ اللہ اور ان کے علاوہ دیگر؛ اور بعض وہ علماء جو ان کے بعد آئے ہیں ۔وہ یہ بات اہل سنت کے آئمہ سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: جس نے بھی اس عقیدہ کی مخالفت کی وہ بدعتی اور گمراہ ہے۔ اور یہ لوگ اور ان لوگوں کے امثال تمہارے ہاں آئمہ اہلِ سنت اور آئمہ حدیث ہیں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ اور تابعین کے قول کو سب سے زیادہ اچھی طرح جاننے والے ہیں ۔اور یہ لوگ اور ان کے علاوہ دیگر جیسے سفیان ابن عیینہ رحمہ اللہ نے اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ کا کلام مخلوق نہیں ہے۔ اس طرح استدلال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی بھی شے پیدا نہیں کی مگر لفظ ’’کن ‘‘کے ذریعے ۔پس اگر لفظِ ’’کن ‘‘بھی مخلوق ہے تو پھر وہ تسلسل لازم آئے گا جو خلق سے مانع ہے۔ پس اگر لفظِ ’’کن ‘‘مخلوق ہوا تو اُس ذات کے اصل خالق ہونے اور فاعل ہونے میں تسلسل لازم آئے گا۔ پس یہ اصل تاثیر میں تسلسل ہے اور وہ باتفاقِ عقلاء ممتنع ہے بخلاف اس تسلسل کے جو معین آثار میں ہوتا ہے۔ اس لیے کہ یقیناً جب وہ ذات صرف اور صرف اپنے لفظِ ’’کن ‘‘کے ذریعے خالق ہے تو یہ بات ممتنع ہوئی کہ اس کا قول مخلوق بنے۔ اور اس کی مثال یہ ہے کہ جیسے یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات صرف اس کے علم اور قدرت ہی کی وجہ سے خالق بنتی ہے تو یہ ممتنع ہے کہ علم اور قدرت یہ بھی مخلوق ہوں اس لیے کہ ایسی صورت میں تو لازم آئے گا کہ اس مخلوق کا وجود ممتنع ہو مگر بعد اس کے وجود کے، اس لیے کہ وہ ذات انہیں صفات کے ذریعے خالق بن رہا ہے تو ضروری ہے کہ اس کا تمام مخلوق پر مقدم ہونا پس اگر وہ خود بھی مخلوق ہے تو اس کا اپنے نفس پر تقدم لازم آئے گا اور یہ ایک ایسی حجت ہے جو عقل اور شرع دونوں اعتبار سے صریح ہے بخلاف اس کے کہ اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ لفظِ ’’کن ‘‘سے پیدا کرتے ہیں اور اس دوسری چیزکو ایک دوسرے لفظِ ’’کن ‘‘سے پیدا کرتے ہیں تو یہ قول اس بات کو مستلزم ہے کہ ایک اثر کا وجود دوسرے اثر کے بعد ہو اور اس کے جواز میں تو عقلاء اور آئمہ اہلِ سنت کے درمیان نزاع اور اختلاف پایا جاتا ہے ۔
پھر فلاسفہ اور بہت سے اہلِ کلام بھی اس کو جائز اور ممکن سمجھتے ہیں اور مقصود یہ ہے کہ جب تم نے ایک قدیم اور ازلی ذات سے اس امرکو ممکن سمجھا کہ وہ ایک حوادث کو یکے بعد دیگرے وجود دے تو اسی طرح یہ لوگ بھی عالم کے اندر ایسے حوادث کے قائل ہیں کہ جو فلک میں دھیرے دھیرے وجود میں آتے ہیں ۔ ا ن کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ تو قیاسِ باطل ہے اور تشریع فاسد ہے اور یہ اس لیے کہ یہ لوگ جب یہ کہتے ہیں کہ رب تعالیٰ بذاتِ خود حوادث کو یکے بعد دیگرے وجود دیتے ہیں یعنی ایک کام دوسرے کے بعد کرتے ہیں یا یہ کہ وہ کسی شے پر کلام کرتے ہیں تو یہ بات ممتنع نہیں بلکہ صریح عقل کے مطابق جائز ہے اس لیے کہ اس سے زیادہ یہ بات ثابت ہو جاتی ہے اس کے نتیجے میں اول حادث کا وجود اور اس کی انتہاء دوسرے کے وجود کے لیے شرط ہو جس طرح کہ والد کا وجود ولد (بیٹے ) کے وجود کیلئے شرط ہے ۔
یہ بات کہ دوسرے (حادث)کی فاعلیت کا تمام پہلے حادث کے عدم کے بعدحاصل ہوتا ہے اور اول کا عدم ثانی میں شرط قرار دیا تو یہ احد الضدین کے عدم کودوسرے ضد کے وجود کیلئے اشتراط کے بمنزلہ ہواباوجود یکہ اس ضد حادث کا فاعل اول کا عدم نہیں پس کیسے وہ اول کے لیے معدم(فنا کرنے والا) بنے گا ۔
اگر یہ کہا جائے کہ دوسرے فعل کو وجود دینا اول کے عدم کے ساتھ مشروط ہے یعنی کہ پہلا منتہی (ختم )ہو اور انتہاء تک پہنچ جائے اور یہ ایک ضد کے وجود کے لیے دوسرے ضد کے اشتراط کی طرح ہوا اور اگر شرط اول کا اعدام اور ختم کر دینا ہے تو اس کا فعل اس کے دوسرے فعل کے ساتھ مشروط ہو جائے گا اور اعدام ایک امرِ وجودی ہے اور یہ بھی کہ ضد ِ مانع (جو کہ دوسرے کے وجود سے مانع ہے )کے عدم کے وقت فاعل کا مرید اور قادر ہونا تام ہو جاتا ہے یعنی ایک ضد اپنی انتہاء کو پہنچا توتب دوسرے کا ارادہ اور قدرت تام ہو جاتا ہے اور وہ تو امورِ وجودیہ ہیں اور وہی اس کا تقاضہ کرنے والی ہے یا بذاتِ خود یا اس صفت کے ساتھ جو اس سے صادر ہو پس کوئی بھی موجود شے حاصل نہیں ہوتا (وجود میں نہیں آتا)مگر اللہ تعالیٰ ہی کی ذات سے اور وہی اس کا منشا ہے ۔
یہ لوگ تو اس بات کے قائل ہیں کہ فاعلِ اول کے ساتھ کوئی صفت اور فعل قائم نہیں بلکہ وہ تو ایک ذاتِ مجردہ اور بسیطہ ہے، اور حوادثِ مختلفہ اس کی ذات سے صفتِ دوام کے ساتھ حادث (پیدا)ہو رہی ہیں بغیر کسی ایسے امر کے جو اس سے حادث (پیدا)ہو اور یہ صریح عقل کی مخالفت ہے چاہے وہ اُسے مُوجِب بالذات کہیں یا فاعلِ مختار کہیں اس لیے کہ معلولات کا تغیر اور ان کا اختلاف بغیر تغیرِ علت کے اور بغیر اختلافِ علت کے ایک ایسا امر ہے جو صریح عقل کے خلاف ہے اور فاعلِ مختار کا فعل یعنی فاعلِ مختار کا مختلف حوادث کو بغیر کسی ایسے سبب کے وجود دینا جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہو یعنی ارادہ بلکہ مختلف الانواع ارادوں کے بغیر تو یہ بات صریح عقل کے خلاف ہے۔
یہ لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ تمام کے تمام حوادث کی مبدا فلک کی حرکت ہے اور اس کے اوپر کوئی ایسے امورِ حادثہ نہیں جو اس کی حرکت کے لیے مُوجِب (تقاضا کرنے والی )اور سبب ہوں باوجود یکہ فلک کی حرکات تو رفتہ رفتہ حادث ہوتی ہیں (شیئا ًفشیئاً)اور ان کے لیے ایسے اسباب نہیں پائے جاتے جو ان کو وجود یتے ہیں اور افلاک کی حرکات ہی تمام حوادث کے لیے اسباب ہیں پس جب ان کے لیے کوئی محدث اور پیدا کرنے والا نہیں تو ان کے قول کی حقیقت یہی ہوئی کہ حوادث میں سے کسی بھی شے کے لیے کوئی محدث نہیں ہے اور اگر ان کے نزدیک فلک نفسِ ناطقہ کا نام ہے تو تمام حوادث میں ان کا قول قدریہ کے قول کی طرح ہوا، جو کہ فعلِ حیوان میں ان کا قول ہے ،اسی وجہ سے اس جگہ میں اس مقام پر ابن سینا اس بات کی طرف مجبور ہوا کہ وہ حرکت کو ایک ایسی شے مان لیں کہ وہ ایک امر واحد ہے اور ازل سے موجود ہے نہ کہ کوئی ایسی شے ہے جودھیرے دھیرے رفتہ رفتہ وجو دمیں آتی ہے جس طرح کہ ہم نے ان کے الفاظ ذکر کر دیئے ہیں اور اس کے فساد کو بھی بیان کر دیا ہے اور یقیناً اس نے یہ بات اس لیے کہی تاکہ اس کے اوپر اس بات کا الزام نہ آئے کہ علتِ تامہ سے تو تمام حوادث کا حدوث دفعتاً واحدتاً (یکبارگی )نہیں ہوتا بلکہ ایک حادث کے بعد دوسرا یکے بعد دیگرے وجود میں آتا ہے پس اس نے حرکت کے شیئا ًفشیئا ًحدوث میں صریح عقل اور اسی طرح صریح مشاہدہ کی مخالفت کی تاکہ اس کے لیے وہ بات (معارضہ سے )محفوظ رہے جس کا اس نے دعویٰ کیا ہے یعنی کہ رب العالمین نے کسی شے کو وجود نہیں دیا یعنی اس نے کسی شے کو حادث نہیں کیا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ان کے نزدیک علتِ تامہ ہیں اور ان کے ماہرین نے ان کے قول کے فساد کا اعتراف کر لیا ہے۔