Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

ابن ملکا کا عقیدہ اور اس پر رد

  امام ابنِ تیمیہؒ

ابن ملکا کا عقیدہ اور اس پر رد 

وہ لوگ جنہوں نے اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ ایسے ارادوں کے قیام کا قول اختیارکیا ہے جو یکے بعد دیگرے وجود میں آتے ہیں جیسے ابو البرکات اور اس کے امثال ان لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ افلا ک کے لیے تو موجب بالذات ہی ہیں ا ور اللہ تعالیٰ اپنے ان ارادوں کے ذریعے حوادث کو پیدا کرتے ہیں جو ارادے اس کی ذات کے ساتھ قائم ہیں اور یکے بعد دیگرے وجود میں آتے ہیں پس ان لوگوں سے اولاً تو یہی بات کہی جائے گی جو ان کے ہم نواؤں سے کہی گئی اور ان کی طرف حجت بہ نسبت ان کے زیادہ قریب ہے اس لیے کہ وہ ان کی بہ نسبت حق کے اقرب ہیں اور ان سے کہا جائے گا کہ جب یہ بات ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات حوادث کو دھیرے دھیرے وجود دے دیں باوجود ان ارادوں کے جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہیں اور وہ ارادے بھی دھیرے دھیرے وجود میں آتے ہیں تو پھر یہ بات کیوں جائز نہیں کہ افلاک بھی حادث ہوں بعد اس کے کہ وہ موجود نہیں تھے بوجہ ان ارادوں کے جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہیں اور متعاقب ہیں اور بتحقیق اہلِ نظر میں سے حذاق کی ایک جماعت نے اس بات کو بھانپ لیا ہے جیسے کہ اثیر الازھری چنانچہ اس نے کہا کہ یہ بات تو ممکن ہے کہ وہ ان تمام حوادث کو پیدا کرے بوجہ اس ارادے کے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اگرچہ وہ ایک غیر متناہی حد تک مسبوق بارادۃ اخری ہے یعنی اس کے لیے کوئی ابتداء نہیں یعنی ہر ارادے سے پہلے ایک دوسرا ارادہ سابق ہے ۔

ان سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ بات کیوں ممکن نہیں کہ تمام آسمان اور زمین غیر متناہی حد تک بذاتِ خود ایک ایسے مادے کے ساتھ مسبوق ہوں جس سے پہلے ایک اور مادہ تھا یعنی ہر مادہ سے پہلے کوئی اور مادہ تھا اور اللہ تعالیٰ کے ماسوا جتنے بھی مخلوق ہیں وہ سب کے سب حادث ہیں اور وہ عدم کے بعدوجود میں آنے والے ہیں اگرچہ ہر حادث سے پہلے کوئی ایک اورحادث ہے جس طرح کے وہ لوگ اس کے قائل ہیں جو ان امور میں جو اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے ارادوں سے قائم ہیں کیونکہ حوادث کا تسلسل اور ان کا دوام اگر ممکن ہے تو یہ بھی ممکن ہے اور اگر وہ ممتنع ہے تو پھر فلک کا قدم بھی ممتنع ہوا پس دونوں تقدیروں پر یعنی دونوں صورتوں پر فلک کا قدم لازم نہیں آئے گا اور ان کے لیے اس کے قدم کے اوپر کوئی حجت باقی نہیں رہتی باوجود یکہ انبیاء علیہم السلام نے اس بات کی خبر دی ہے کہ وہ مخلوق ہیں پس وہ کونسی بات ہے جس نے ان کو اُس بات کی مخالفت پر آمادہ کیا جس پر تمام رسول متفق ہیں اسی طرح تمام اہلِ ملل اور قدیم فلاسفہ کے سرکردہ لوگ بھی ،بغیر اس کے کہ اس کے مخالفت پر کوئی دلیلِ عقلی بالکل قائم نہیں کیونکہ جو بات یہ کہتے ہیں وہ تو نوعِ فعل کے قدم کا اثبات ہے نہ کہ عین فعل کا ،اس لیے کہ وہ تمام باتیں جن کے ذریعے عالم کے قدم کے قائلین استدلال کرتے ہیں تو وہ عالم میں سے کسی شے معین کے قدم پر دلالت نہیں کرتے بلکہ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ فعل کے اسباب (فاعل ،مادہ ،غایت اور صورت)کا اعتبار کرنا فعل کے قدم پردلالت کرتا ہے ۔

پس بے شک اگر وہ دلالت کرتا ہے اس بات پر تو یقیناً وہ فعل کے نوع کے قدم پر دلالت کرتا ہے نہ کہ اس کے عین کے قدم پر اور اس کے نوع کا قدم تو ممکن ہے باوجود یکہ یہ بھی کہا جائے کہ باقی ادلہ عقلیہ اس امرپر دلالت کرتے ہیں کہ فعل صرف اور صرف حادث ہی ہوتا ہے تو اس کے قائل ہونے کے باوجود بھی اس کے نوع کا قدم ممکن ہے اگر چہ وہ دھیرے دھیرے حادث ہو اور یقیناً فاعل خواہ مطلقاً ہو یا فاعل فاعلِ مختار ہو اس کا فعل صر ف اور صر ف حادث ہی بن سکتا ہے اگرچہ وہ شیئاً فشیئاًوجود میں آئے اور یقیناً حوادث کا دوام اسی مخلوقِ معین ازلی کے لیے ممکن ہے اسی طرح مفعولِ معین جو اپنے فاعل کے ساتھ مقارن ہو اور ازل سے اس کے ساتھ ہو تو یہ بھی ممتنع ہے باوجود یکہ انبیاء علیہم السلام نے اس بات کی خبر دی کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کے خالق ہیں اور اللہ تعالی نے آسمانوں اور زمینوں کوچھ دن میں پیدا کیا پس کیسے تم نے ایک صحیح نقلی اور صریح عقلی بات سے ایک ایسی بات کی طرف روگردانی کر لی جو اس کی ضد ہے بلکہ تم نے تو ایک ایسی شے کا قدم ثابت کیا کہ کوئی بھی دلیل اس کے قدم پر دلالت نہیں کرتی ہے بلکہ اس کے حدوث پر دال ہے۔

پھر ان لوگوں سے یہ بھی کہا جائے گا کہ جب رب تعالیٰ اپنے ارادوں کے ساتھ فاعل ہے جیسے کہ تم نے کہا ہے اور جیسے کہ اس پر دوسرے ادلہ بھی دلالت کرتے ہیں اور تم اور تمہارے ان بھائیوں نے بھی تسلیم کر لیا ہے جو کہ عالم کے قدم کے قائل ہیں تو کسی بھی مفعول کا ایسا فاعل عقلاً سمجھ میں نہیں آتا جو اس کے ساتھ مقارن ہو اور اس کے اوپر کسی بھی زمان کے ایک لمحے کے ساتھ متقدم نہ ہو بلکہ اس شے کو فرض کرنا عقل میں ایک ایسے فاعل کو فرض کرنا ہے جوایک فرضی اور غیر معقول بات ہے لیکن خارج میں اس کا کوئی وجود نہیں ۔

تم نے تو اپنے مخالفین سے بھی زیادہ ایک شنیع بات کہہ دی کیونکہ انہوں نے تو بغیر کسی زمان کے حدوث کو ثابت کر دیا تھا اور تم نے تو وہ بات کہہ دی جو بالکل عقلاً ہی سمجھ میں نہیں آتی پس تمہیں یہ کہا جائے گا کہ یہ بات تو معقول نہیں کہ کوئی فعل نفس الامر میں واقع ہو اور وہ کسی غیر ِ زمان میں ہو اسی طرح کسی ایسے مفعول کا وجود بھی معقول نہیں جو اپنے فاعل کے ساتھ مقارن ہو اور وہ اس سے بالکل زمان کے کسی (معمولی )لمحے کے ساتھ بھی متقدم اور اس سے پہلے نہ ہو۔

تقدم اور تاخر کی طرف رجوع 

تقدم اور تاخر کے بارے میں فلاسفہ کی رائے کے ساتھ مناقشہ کی طرف رجوع :

جو بات تم نے ذکر کی ہے یعنی کہ تقدم بالذات ایک امر معقول ہے اور وہ علت کا معلول پرتقدم ہے تو یہ ایک ایسا امر ہے جس کو تم نے صرف ذہنوں میں تو فرض کر لیا ہے اعیان میں اس کا کوئی وجود نہیں پس خارج میں کوئی ایسا فاعل معقول نہیں جس کے ساتھ اس کا مفعول مقارن اورمتصل ہو خواہ تم اسے علتِ تامہ کا نام دو یا نہ دو اور جو تم نے بات ذکر کی ہے کہ شمس اپنی شعاعوں کے لیے علت ِ فاعلیہ ہیں اور وہ اس کے ساتھ زمان میں مقارن ہے تو یہ دو مقدموں پر مبنی ہے :

۱۔ ایک تو اس بات پر کہ محض شمس ہی علت ِ فاعلہ ہے ۔

۲۔ دوسرایہ کہ وہ اس کے ساتھ زمان کے اعتبار سے مقارن اور متصل ہے۔ اور یہ دونوں مقدمے باطل ہیں ۔ پس یہ بات تو معلوم ہے کہ شعاع کے حدوث میں محض سورج کا وجود کافی نہیں ۔ بلکہ ایک ایسے جسم کا حدوث بھی ضروری ہے کہ وہ اس شعاع کو قبول کرنے والا ہو اور اس کے ساتھ ساتھ موانع کا زوال بھی ضروری ہے اور یہ بات بھی ہم تسلیم نہیں کرتے کہ سورج کی شعاع اس کے ساتھ زمان کے اعتبار سے مقارن ہے بلکہ بسا اوقات کہا جاتا ہے کہ وہ تو اس سے متاخر ہے اگرچہ زمان کے کسی جزء یسیر (معمولی لمحہ) کے ساتھ ہو ۔

اسی طرح تم نے جو یہ مثال پیش کی ہے کہ کسی کہنے والے کا یہ کہنا کہ میں نے اپنی ہاتھ کو حرکت دی تو چابی متحرک ہوئی یا میں نے اپنے ہاتھ کو حرکت دی تو میرا آستین متحرک ہوا یہ بھی اُن دونوں مقدمات پر مبنی ہے جو کہ باطل ہیں ؛پس کون ہے وہ شخص جو اس بات کو تسلم کرے کہ ہاتھ کی حرکت آستین اورچابی کی حرکت کے لیے علتِ تامہ ہے؟ بلکہ دونوں حرکتوں کا فاعل تو ایک ہی ہے لیکن اس کا دوسرے کو حرکت دینا اول کو حرکت دینے کے ساتھ مشروط ہے پس پہلی حرکت دوسرے کیلئے شرط نہ کہ اس کے لیے فاعل اور شرط میں یہ بات جائز ہوتی ہے کہ وہ مشروط کے ساتھ مقارن ہو اور جب فرض کر لیا گیا کہ ان میں سے کوئی ایک دوسرے کے لیے فاعل ہے تو یہ بات مسلَّم نہیں کہ وہ اس کے ساتھ زمان کے اعتبار سے مقارن ہے بلکہ یہ بات معقول ہے کہ انسان اس چیز کو جو اس کے قریب ہے ،پہلے حرکت دے پھر اس چیز کو حرکت دے جو اس سے دورہے پس اس کا اپنے چمڑے کے ایک بال کو حرکت دینا مقدم ہے اس کے اپنے باطن ثوب (کپڑوں کا اندرون )کو حرکت دینے پر اور اس کے اپنے باطن ثوب کو حرکت دینا مقدم ہے اس کے ظاہر ثوب یعنی کپڑوں کے باہر والے حصے کو حرکت دینے پر اور اس کا اپنے قدم کو حرکت دینا اپنے نعل اور جوتے کو حرکت دینے پرمقدم ہے اور اس کا اپنے ہاتھ کو حرکت دینا اپنے آستین کو حرکت دینے پرمقدم ہے ۔

مقارنت سے دو باتیں مراد ہوتی ہیں ایک اتصال جیسے کہ اجزائے زمان کا اتصال اور اس حرکت کے اجزاء کا اتصال جو شیئا ًفشیئا ًحادث (پیدا)ہوتا ہے پس ان دونوں میں سے ہرایک دوسرے کے ساتھ متصل ہوتا ہے تو کہا جائے گا کہ یہ تو اس کے ساتھ مقارن ہے بوجہ اس کے ساتھ اتصال کے اگرچہ وہ اس کے بعد ہے۔

یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس شے کیساتھ مقارن ہے جو اس کے ساتھ قائم ہے بغیر کسی تقدمِ زمانی کے اور یہ بات بدیہی طور پر ً معلوم ہے کہ وہ اجسام جن کا بعض بعض کے ساتھ متصل ہوجبکہ حرکت کی مبدا کسی ایک طرف سے ہو تو بتحقیق ان میں حرکت شیئا ًفشیئا حاصل ہوتی ہے پس وہ اول اعتبار سے متصل اور مقارن ہوتی ہیں اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ دوسرے معنیٰ پر زمانا ً مقارن اور متصل ہیں اور اس شے کی مبدا جس کو انسان حرکت دیتا ہے پس جب وہ اپنے ہاتھ کو حرکت دیتا ہے تو اس کا وہ آستین جو اس کے ساتھ متصل ہے وہ بھی متحرک ہو جاتا ہے اوروہ بھی جو اس آستین کے ساتھ متصل ہے لیکن ہاتھ کی حرکت آستین کی حرکت سے پہلے اس کے اتصال کی وجہ سے ہے اور اسی طرح اس کے تمام نظائر کا حال ہے اور انسان جب کسی ایک رسی کو تیزی کے ساتھ حرکت دیتا ہے تویقیناً یہ حرکت بعض بعض کے ساتھ متصل ہوتی ہے اور ساتھ اس بات پرعلم کے کہ وہ طرف جو حرکت دینے والے کے ہاتھ کے ساتھ متصل اور قریب ہے وہ اس طرف سے پہلے متحرک ہوتی ہے اور یہی بات معقول ہے کہ افعال میں سے جب بھی کوئی فعل پایا جا رہا ہے تووہدھیرے دھیرے حادث ہوتاہے اور ایسا کوئی فعل معقول نہیں ہے کہ جو فاعل کے ساتھ زمان کے اعتبار سے(ابتدا اور انتہا دونوں میں ) مقارن ہو ۔

اگر کہا جائے کہ فاعل تو اگرچہ فاعل ہے پس عقلاً اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ ازل ہی سے صفتِ احداث کے ساتھ متصف تھا یعنی دھیرے دھیرے معدوم اشیا ء کو وجود دیتا رہا تو یہ بات عقلاً سمجھ میں نہیں آتی کہ ازل سے اس کا مفعولِ معین اس کی ذات کے ساتھ مقارن تھا اور کسی بھی زمانِ یسیر (معمولی سا وقت )کے ساتھ اس پر متقدم نہیں تھا اور یہ بھی کہ رب تعالیٰ جب کسی بھی شے کو پیدا نہیں کیا مگر اپنی قدرت اور مشیت کے ذریعے پس جس کو اس نے چاہا وہ وجود میں آیا اور جس کو نہیں چاہا تو وہ وجو دمیں نہیں آیا چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿ إِنَّمَا أَمْرُہُ إِذَا أَرَادَ شَیْئًا أَنْ یَقُولَ لَہُ کُنْ فَیَکُونُ ﴾( یاسین: ۲۳) 

’’بیشک اس کا حکم ؛ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کریں تو اس سے کہتے ہیں : ہو جا؛ تو وہ ہوجاتی ہے۔‘‘

پس یہ بات بھی ضروری ہے کہ وہ فعل کرنے سے پہلے فعل کا ارادہ کرے اور یہ بات بھی ضروری ہے کہ فعل کا وجود مفعول سے قبل ہو اگرچہ ارادہ اور فعل دونوں مفعول کے وجود کے وقت موجود ہوتے ہیں جس طرح اہلِ سنت اس کے قائل ہیں کہ یقیناً قدرت کے لیے ضروری ہے کہ وہ فعل کے ساتھ متصل ہو لیکن (اس کے برعکس )جب یہ کہا جائے کہ مفعول تو فاعل کے ساتھ ازل سے لازم ہے تو پھر اس صفت کے درمیان کہ جو ذات کے ساتھ قائم ہے اور مفعولِ مخلوق کے درمیان تو کوئی فرق نہ رہا۔پس اس کی حیات اور اس کی مخلوق کے اور خالق و مخلوق کے درمیان کوئی فرق نہ رہا (حالانکہ اس کا پایا جانا بدیہی عقل کے تقاضے سے ضروری ہے )اور عقلا ء تو اس بات کو جانتے ہیں کہ فاعل جس چیز کو وجود دیتا ہے خاص طور پر وہ کام جس کو وہ اپنے اختیار سے وجود دیتا ہے اور وہ سے جو اس کی ذات کیلئے بطورِ لوازمِ ذات کے ہے اور اس کی صفت ہے ،اِن کے درمیان فرق پایا جاتاہے اور اس کو بھی وہ جانتے ہیں کہ انسان کا رنگ اور اس کا طول و عرض یہ اس کی مراد نہیں بن سکتا (یعنی وہ اس کا ارادہ نہیں کرسکتا کیونکہ وہ اس کے اختیار سے باہر ہے )اور نہ مقدور و مفعول ہے اس لیے کہ یہ تو اس کے لوازمات ذات میں سے ہے اور یہ قدرت اور اس کی مشیئت کے تحت داخل نہیں اور رہے اس کے وہ افعال جو اس کی قدرت اور مشیئت کے تحت داخل ہیں تو وہ تو اس کے افعال اور اس کے مقدور ومراد ہیں پس جب یہ بات فرض کی جائے کہ یہ تو اس کی ذات کے ساتھ لازم ہیں جیسے کہ رنگ اور مقدار تو پھر یہ بات غیر معقول ہوئی بلکہ یہ تو ایک ایسی بات ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس کے افعال نہیں اورنہ اس کے مفعولات ہیں بلکہ یہ اس کی صفات ہیں ۔

نیز جب عالم نوعِ حوادث سے خالی نہیں جیسا کہ تم نے تسلیم کر لیا اور جیسا کہ اس پر دلیل بھی قائم ہو جائے گی بلکہ جمہورِ عقلاء کے اتفاق سے یہی بات مسلم ہے تو عالم کا فعل (ایجاد)بغیر حوادث کے ممکن نہ رہا کیونکہ ملزوم کا وجود بدونِ لازم کے ممتنع ہے اور یہ بات بھی ممکن نہ رہی کہ حوادث کا وہ ملزوم قدیم ذات ہو جو خود مصنوع اور مفعول ہے اور اجزائِ عالم میں سے ہر ہر جز کے بارے میں یہ بات ممتنع ہے کہ وہ حوادث سے خالی ہو اور یہ فلاسفہ اس بات کادعویٰ کرتے ہیں کہ عقول حوادث سے خالی ہیں تو انتہائی درجے کا باطل کلام ہے اگر عقول کے لیے خارج میں کوئی وجود ہے تو وہ کیسا ہے اور خارج میں تو اس کی کوئی حقیقت نہیں پائی جاتی اور یہ اس لیے کہ انکے نزدیک عقول کا جو معلول ہے وہ نفوسِ فلکیہ ہیں یا افلا ک ہیں یا اس کے علاوہ عالم میں سے کوئی اور شے ہے تو یہ حوادث کو مستلزم ہیں اس لیے کہ نفوس اور افلاک کا حوادث سے خالی ہوناان کے نزدیک بھی ممکن نہیں ۔

اگر ان کو حوادث سے خالی مانا جائے تو پھر یہ نفوس نہ رہیں گے بلکہ عقول بن جائیں گے اور ایسی صورت میں جب معلول حوادث سے خالی نہیں ہوتا تو یہ بات لازم آئی کہ اس کی علت بھی حوادث سے خالی نہیں ورنہ تو لازم آئے گا کہ معلول میں حوادث کا حدوث بغیر کسی علت کے ہے اور یہ ممتنع ہے کیونکہ حوادث کے لیے کسی ایسے سبب کا پایا جانا ضروری ہے جو اس کے ساتھ حادث ہو پس اگر نفوس کی علت اور افلاک کی علت میں ایسی کوئی صفت نہ ہو جو اس امرکا تقاضا کرے تو پھر یہ بات باطل ہوئی کہ اس کے لیے کوئی علت بھی ہو کیونکہ ایک ہی حال میں کسی علتِ بسیطہ سے حوادثِ مختلفہ کا صدور ممتنع ہے ؛اور یہ ایسی بات ہے جس سے ان کے ائمہ نے استدلال کیا ہے۔ اور ان کے علاوہ دیگر اُن لوگوں نے بھی جو اس بات کے قائل ہیں کہ رب تعالیٰ کی ذات کے ساتھ امورِ اختیاریہ قائم ہیں ۔ اور ن کا کہنا ہے کہ :یہ اس لئے ہے کہ مفعولات میں ایساتنوع اور حدوث پایا جاتا ہے جو اس بات کا سبب ہے کہ وہ کسی فاعل کے سبب ہوں ورنہ تو بغیر کسی محدث اور موجد کے حوادث کا حدوث لازم آئے گا اور جب اجزائِ عالم میں ہر ہر جز حوادثِ کے لیے ملزوم ہے اور وہ مصنوع ہے تو اس کا ااحداث بدوں حوادث کے ممتنع ہوا اور حوادث کا دھیرے دھیرے ابداع اور احداث باوجود یکہ اس کا محل ِ معلول قدیم ہو تو یہ ایک امرممتنع ہے کیونکہ وہ قدیم ذات جو موجب لذاتہ ہو اس کو وجود نہیں دیتا مگر حوادث کے ساتھ ہی وجود دیتا ہے پس وہ ان کے لیے بالکل موجب (پیدا کرنے والا)نہیں بن سکتا مگرایک ایسے فعل کے ساتھ جواس کی ذات کے ساتھ قائم ہو اور حادث ہو اور جب (یہ ثابت ہوا کہ )وہ فعل نہیں کرتا مگر کسی فعلِ حادث ہی کے ذریعے تو پھر یہ بات ممتنع ہوئی کہ اس کا کوئی مفعول قدیم بنے کیونکہ مفعول کا قدم تو بدیہی طور پر فعل کے قدم کا تقاضا کرتا ہے ۔

جب یہ کہا جائے کہ مفعول کا فعل (احداث)تو قدیم ہے اور حوادث کا فعل تو شیئا ًفشیئا ًحادث ہوتا ہے تو یہ بات لازم آئی کہ فاعل کی ذات کے ساتھ دو قسم کے فعل قائم ہوں پہلا ذاتِ قدیمہ کا فعل اور وہ تو اس کے قدم کے ساتھ قدیم ہوا اور اور اسکے دوام کے ساتھ دائم ہے اور دوسرا اس کے حوادث کے افعال اور وہ بھی شیئا ًفشیئا ً حادث ہیں پس ذاتِ فاعل ملزوم کے لیے فاعل بن گئی اور کسی دوسرے فعلِ کے ذریعے لازم کے لیے فاعل بن گئی یا اس کا ملزوم کو وجود دینا (فعل )لازم کو وجود دینے کے کا سبب ہے کیوں کہ ملزوم کا لازم سے انتفاء نہیں ہو سکتا ہے اور اس کا ملزوم کا ارادہ کرنا اس کے لازم کے ارادے کومستلزم ہے اس لیے کہ ملزوم کا ارادہ کرنے والی ایسی ذات جس کو اس کا علم ہو کہ یہ اس کا لازم ہے اگر وہ لازم کو چھوڑ کر صرف ملزو م کا ارادہ کرے (یعنی لازم کے احداث کا ارادہ نہ کرے )تو پھر یہ صورتِ حال دو حال سے خالی نہیں یا تو یہ کہ وہ ملزوم کے فعل (احداث )کا بالکل ارادہ نہیں رکھتایا پھر وہ ملزوم (کے وجود )پر عالم نہیں ہوگا اور اللہ تعالیٰ تو ملزوم کا ارادہ کرنے والے ہیں اور ملزوم پر عالم بھی ہیں پس یہ بات ممتنع ہوئی کہ وہ ملزوم کا ارادہ کرے بغیر لازم کے کرے ۔

جس چیز کے احداث کا وہ ارادہ کرے اگرچہ اس میں یہ بات ضروری ہے اور اس شے میں بھی جس کے بارے میں وہ یہ ارادہ کرے کہ اس کے لیے ایسے حوادث پیدا کرے جو یکے بعد دیگرے وجود میں آنے والے ہیں جیسے کہ انسان کو وجود دیتے ہیں اور اس کے لیے ایسے احوال پیدا کرتے ہیں جو شیئا ًفشیئا ًوجود میں آتے ہیں اور افلاک کو وجود یتے ہیں اور ان کے حوادث کو بھی یکے بعد دیگرے پیدا کرتے ہیں لیکن جب یہ بات فرض کر لی جائے کہ ملزوم اس کی پیدا کردہ نہیں ہے تو پھر اس کا مفعول ہونا بھی معقول نہیں اور یہ بات بھی معقول نہیں کہ وہ اس ذاتِ قدیمہ کے لیے معلول بنے اور اس کے قدم کے ساتھ قدیم ہو اس لیے کہ اس ذاتِ قدیمہ کا معلول تو ایسی صفات اور مقادیر ہیں جو اس کی ذات کے ساتھ مختص ہیں اور ایسی علت جو احوالِ اختیاریہ سے مجرد ہو تو وہ اپنے لوازم کو مستلزم ہوتی ہے اور اس کے لوازم میں سے وہ اشیاء بنتے ہیں جو اس کے ساتھ اس طرح مناسبت رکھتے ہوں جو معلول کا اپنے علت کے ساتھ ہوتا ہے اور معلول کیلئے تو ایسے مقادیر ،اعداد اور صفاتِ مختلفہ ثابت ہوتی ہیں جو اس کیساتھ خاص ہیں اور ان کی طرح امور علت میں پایا جاناممتنع ہوتاہے پس مناسبت ممتنع ہوئی اور جب مناسبت ممتنع ہوئی تو ا سکا علت بننابھی ممتنع ہو گیا ۔

نیزکہ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ وہ اپنے معلولِ ازلی کے لیے موجب ازلی ہیں تو اس (معلول )کاایجاب (احداث دو حال سے خالی نہیں )یا تو ایسی ذات کے ذریعے ہوگا جو احوال متعاقبہ (یکے بعد دیگرے وجود میں آنے والے )سے مجرد ہوگا یا ان احوال سمیت ،اول صورت تو ممتنع ہے اس لیے کہ کسی ذات کا اپنے لوازم سے مجرد ہونا ممتنع ہے اور دوسری بات بھی ممتنع ہے اس لیے کہ وہ ذات جو اپنے صفات اور احوال کو مستلزم ہو وہ اپنی صفات اور احوال کے ذریعے فاعل بنتی ہیں اور احوالِ متعاقبہ کے بارے میں یہ بات ممتنع ہے کہ اس کے لیے کوئی ایسا معلولِ معین ہو جو قدیم اور ازلی ہو اور یہ بھی ممتنع ہے کہ وہ معلولِ ازلی میں شرط ہو اس لیے کہ معلولِ ازلی کے بارے میں یہ بات ضروری ہے کہ وہ کسی علتِ ازلیہ کا مجموعہ ہو اور احوالِ متعاقبہ مجموعہ نہیں ہوتے اور نہ ان میں سے کوئی شے ازلی بنتا ہے ازلی تو ایک ایسا نوع ہے جو قدیم ہے اور وہ شیئا ًفشیئا ًوجود یتا ہے اور یہ بات ممتنع ہے کہ وہ ازل میں شرط ہو اور یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کہ اگر کہا جائے کہ دوام کے ساتھ حرکت کرنے والا فلک ایک ایسی ذات کے لیے موجب ہے جو ازلی ہے اور متحرک ہے یا وہ متحرک نہیں پس یہ بات ان کے نزدیک ممتنع ہے اور ان کے علاوہ دیگر کے نزدیک بھی اس لیے کہ جس شے کا فعل حرکت کے ساتھ مشروط ہو اس کے بارے میں یہ ممتنع ہے کہ اس کا کوئی مفعولِ معین (کوئی خاص مفعول )قدیم بنے ۔

اگر یہ بات فرض کر لی جائے کہ متحرک ازلی ایک ایسے متحرک کے لیے موجب ہے جو ازلی ہے تو وہ اس کیلئے موجب بنتا جو اس کے مناسب ہو اور وہ متحرکات جو اپنی مقدار اور صفات اور حرکات میں مختلف ہیں تو ان کے بارے میں یہ ممتنع ہے کہ ان کا صدور ایک ایسے متحرک سے ہوجس کی حرکات متشابہ ہوں یعنی ایک جیسی ہوں تو یہ بات کہ مفعولِ مخلوق تو تمام اعتبارات سے کسی فاعل کی طرف محتاج ہوتا ہے اور اس کے لیے کوئی بھی شے (تبدیلی )ثابت نہیں ہوتا مگر صرف اور صرف فاعل کی طرف سے اور فاعلِ خالق تو تمام اعتبارات سے غنی ہے اور ان دونوں کا ازلاً اور ابداً اقتران اس بات سے مانع ہے کہ ان میں سے کوئی ایک فاعلِ غنی بنے اور دوسرا مفعولِ فقیر (محتاج )بنے بلکہ یہ بھی ممتنع ہے کہ وہ اس سے متولد (پیدا)ہو اور یہ اس بات کو بھی ثابت کرتی ہے کہ وہ اس کے لیے صفت بنے اس لیے کہ ولد اگرچہ والد سے پیدا ہوا ہے بغیر اس کے قدرت اور ارادہ اور اختیار اور مشیت کے لیکن اس سب کچھ کے باوجود وہ(ولد ) حادث (کہلاتا)ہے ۔

رہا یہ کہ کسی شے سے متولد اس ذات کے لیے لازم ہوتا ہے جس سے وہ پیدا ہو اور اس کا وجود بھی اس کے مقارن ہوتا ہے تو یہ بات بھی معقول نہیں ،اسی وجہ سے تو مشرکین عرب میں سے ان لوگوں کاشرک ،کفر اور جہل کہلاتاہے جو یہ کہتے ہیں کہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں پس ان لوگوں کا قول اُن سے برتر کفر ہے اس لیے کہ وہ لوگ تو یہ کہتے تھے کہ ملائکہ حادث ہیں اور عدم کے بعدوجود میں آنے والے ہیں اور وہ یہ بھی کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا اور وہ پہلے موجود نہ تھے اور وہ ہر گز اس بات کے قائل نہیں تھے کہ عالم قدیم ہے اور رہے یہ لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ عقول اور نفوس اور وہ نفوس جن کو ملائکہ اور سماوات کہا جاتاہے یہ اللہ تعالیٰ کے قدم کے ساتھ خاص ہیں اور اللہ تعالیٰ ازل سے ان کوپیدا کرنے والے ہیں اور والد ہیں ۔

پس یہ لوگ اپنے اس قول کے باوجود کہ اللہ تعالیٰ نے ان (فرشتوں )کو جنا ہے ،یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ ازل سے ان کے ساتھ ہیں اور یہ ایک ایسا امر ہے جو معقول نہیں نہ ولد میں نہ فعل میں ،پس ان کا یہ قول تمام اعتبارات سے معقول کے مخالف ہوا اور راز کی بات یہ ہے کہ انہوں نے جمع بین النقیضین کا ارتکاب کر لیا پس انہوں نے بغیر کسی فعل ،صنع اور بغیر کسی ابداع کے فعل ،صنع (کاریگری )اور ابداع کو ثابت کیا (یعنی فعل اور حدوث بغیر فاعل کے فعل اور تصرف کے وجود میں آیا )اور اللہ تعالیٰ کے فعل کے بارے میں ان کا قول انہیں کے قول کی طرح ہے جو انہوں نے اس کی ذات اور صفات کے بارے میں اختیار کیا ہے پس انھوں نے واجب الوجود کو ثابت کیا اور اس کو ایسی صفات کے ساتھ متصف کیا جو اس کو مستلزم ہے کہ وہ واجب الوجود ہو اور اس کی صفات کو بھی ثابت کیا اور پھر اس کی صفات کے بارے میں ایسے اقوال اورایسی باتیں کہیں جو اس کی صفات کی نفی کرتی ہیں ،اپنے اقوال میں جمع بین النقیضین کے مرتکب ہوتے ہیں اور یہ اس لیے کہ اصل میں یہ لوگ معطِّلہ محضہ ہیں لیکن انہوں نے ایک اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے لیے صفات کا اثبات کیا اور یہ بھی چاہا کہ یہ لوگ (صفات کے)اثبات اور (ان کی )تعطیل (نفی )کوجمع کر دیں جس کے نتیجے میں ان پر تناقض کا الزام آیا ۔

اس کی وجہ سے یہ لوگ اس بات سے بچتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو (صفات کی )نفی اور اثبات کے ساتھ موصوف کیا جائے پس (تناقض سے بچنے کیلئے )ان میں سے بعض تو وہ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ یہ نہیں کہا جائے گا کہ یہ موجود اور معدوم ہے اور نہ یہ کہا جائے گا کہ زندہ ہے اور مردہ ہے اور بسا اوقات یہ کہتے ہیں کہ یہ نہیں کہا جائے گا کہ وہ ذات موجود ہے اور نہ یہ کہ موجود نہیں نہ یہ کہ وہ حی (زندہ )اور نہ یہ کہ وہ حی نہیں پس یہ ارتفاع نقیضین کے بھی مرتکب ہیں یا وہ احد النقیضین کے اثبات سے بچتے ہیں اور رفع نقیضین بھی اسی طرح ممتنع ہے جس طرح جمع نقیضین ممتنع ہے اور احد النقیضین کے اثبات سے امتناع نفی اور اثبات سے امساک ہے اور حق اور باطل سے امساک ہے اور حق کو پہچاننے اور حق بات کرنے سے امتناع ہے اور انکے باطل مذہب کا پورا دارومدار اس پر ہے کہ اللہ تعالیٰ کو نہ پہچانا جا سکتاہے نہ اس کا ذکر کیا جا سکتا ہے نہ اس کو یاد کیا جا سکتا ہے نہ ا سکی بزرگی بیان کی جا سکتی ہے اور نہ عبادت اور یہ سفسطہ کی اقسام میں سے ہے اس لئے کہ سفسطہ میں سے ایک یہ بھی ہے کہ حق کی نفی کی جائے اور ان میں سے وہ باتیں بھی ہیں جو علم کی بھی نفی ہے اور اس میں سے بعض باتیں بھی ہیں جو اس پر علم کی بھی نفی ہے اور اس میں سے بعض وہ باتیں بھی ہیں جو تجاول ہیں اور اثبات سے امتناع ہے اور نفی سے بھی امتناع ہے اور ان قول کے قائلین کو لا ادریہ کہا جاتا ہے بوجہ اس کے کہ وہ ہر بات کے جواب میں ’’لاندری‘‘ کہتے ہیں ۔

جس طرح کہ فرعون نے کہا تھا کہ وَما رَبُّ الْعالَمِیْنَ (سورۃ شعراء :۲۳) اپنے آپ کو اس بات سے جاہل بناتے ہوئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو نہیں پہچانتا اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی منکر (غیر معروف)ہے کہ اس کی تعریف ممکن نہیں تو موسیٰ علیہ السلام نے ایسے الفاظ سے اس کو جواب دیاکہ جس نے اس کے لیے اس بات کو واضح کر دیا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات تو اتنے معروف اور مشہور ہیں کہ اسے منکر سمجھنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذات کا وجود اتنامسلم ہے کہ اس سے انکار کا کوئی جواز ہی نہیں پس جواب میں انہوں نے یہ کہا کہ:

﴿قَالَ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا إِنْ کُنْتُمْ مُوقِنِینَ قَالَ لِمَنْ حَوْلَہُ أَلَا تَسْتَمِعُونَ 25) قَالَ رَبُّکُمْ وَرَبُّ آَبَائِکُمُ الْأَوَّلِینَ ﴾( شعراء: ۲۴ تا۲۶)

’’ کہا جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے اور اس کا بھی جو ان دونوں کے درمیان ہے، اگر تم یقین کرنے والے ہو۔ اس نے ان لوگوں سے کہا جو اس کے ارد گر د تھے، کیا تم سنتے نہیں ؟کہا جو تمھارا رب اور تمھارے پہلے باپ دادا کا رب ہے۔‘‘

اسی طرح انبیاء علیہم السلام نے اپنی قوم کے ان لوگوں کے جواب میں کہا ؛جنہوں نے یہ کہا تھا کہ:

﴿ وَقَالُوا إِنَّا کَفَرْنَا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِہِ وَإِنَّا لَفِی شَکٍّ مِمَّاتَدْعُونَنَا إِلَیْہِ مُرِیبٍo

قَالَتْ رُسُلُہُمْ أَفِی اللَّہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یَدْعُوکُمْ لِیَغْفِرَ لَکُمْ مِنْ ذُنُوبِکُمْ ﴾( ابراہیم ۹ ،۱۰)  

’’وہ کہنے لگے:بے شک ہم تو اس چیز کے بارے میں جس کی طرف تم ہمیں دعوت دیتے ہو، ایک بے چین رکھنے والے شک میں مبتلا ہیں ۔ ان کے رسولوں نے کہا کیا اللہ کے بارے میں کوئی شک ہے، جو آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے؟ تمھیں اس لیے بلاتا ہے کہ تمھارے لیے تمھارے کچھ گناہ بخش دے....۔‘‘

اور اس کے امثال دیگر آیات بھی اور یہ بات اپنی جگہ پر بالتفصیل بیان ہو چکی ہے لیکن ہم نے یہاں اس پرمناسبت کی وجہ سے تنبیہ کر دی اور یہاں تو مقصود یہ ہے کہ جب ہم نے حوادث کا بغیر کسی سببِ حادث کے حدوث کو ممکن قرار دیا تو عالم کا قدم ممتنع ہوا جیسے کہ ہم اس امتناع کو ثابت کریں گے پس اس کے قدم کا امتناع دونوں نقیضین کی تقدیر پر لازم آیااور یہی ہمارا مطلوب ہے ۔