ابن سینا اورجمہورِ فلاسفہ اور ارسطو کا اختلاف
امام ابنِ تیمیہؒابن سینا اورجمہورِ فلاسفہ اور ارسطو کا اختلاف
اکثر عقلاء کے نزدیک بدیہی طور پر یہ بات معلوم اور متفق علیہ ہے ،خواہ وہ مسلمان اہل نظر ہیں یا غیر مسلم اور متقدمین ومتاخرین اورجمہورِ فلاسفہ سب کے نزدیک حتی کہ ارسطو اور اس کے پیروکاروں کے نزدیک اور اس میں تو کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا سوائے فلاسفہ کے ایک چھوٹے سے گروہ کے جن میں سے بعض نے اس امر کو جائز اور ممکن کہا ہے کہ فاعل کوئی خاص مفعول ممکن ہو اور اس کے ساتھ وہ قدیم اور ازلی بھی ہو جیسے کہ ابن سینا اور اس کے امثال اور بعضوں نے یہ بات جائز قرار دی ہے کہ وہ مراد بھی بنا رہے جمہورِ عقلا تو یہ کہتے ہیں کہ ان دونوں قولین کا فساد بدیہی عقل کے ذریعے معلوم ہے حتی کے وہ لوگ جو ارسطو اور اس کے متبعین کا دفاع کرنے والے ہیں جیسے کہ علامہ ابن رشد حفید اور ان کے علاوہ دیگر ،انہوں نے بھی ممکن کے بارے میں اس بات کا انکار کیا ہے کہ وہ قدیمِ ازلی بنے باوجود یکہ وہ ابن سینا کے ہم خیال ہیں اور انہوں نے یہ بات واضح کر دی کہ انہوں نے ارسطو اور اس کے اتباع کے اس قول میں مخالفت کی ہے اور یہ قول ایسا ہی ہے جیسے کہ انہوں نے کہا اور ارسطو کا کلام اس امر میں بالکل واضح ہے جو اس نے مقالہ ’’لام ‘‘میں ذکر کیا ہے جو کہ علم مابعد الطبیعہ پر کلام کے آخر میں مذکور ہے۔
ارسطو اور اس کے قدیم اصحاب مع باقی عقلاء کے یہ کہتے ہیں کہ وہ ممکن جس کا وجود اور عدم دونوں ممکن ہوں وہ صرف اور صرف حادث ہی بن سکتا ہے یعنی کہ وہ وجود میں آیا بعد اس کے کہ معدوم تھا اور کوئی بھی مفعول بہر حال حادث ہی ہوتا ہے اور ان لوگوں نے جب افلاک کے قدم کا قول اختیار کیا تو انہوں نے یہ نہیں کہا کہ وہ ممکن ہے یا مفعول ہے یا وہ مخلوق ہے بلکہ ان کا خیال یہ ہے کہ وہ علت ِ اولیٰ کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے متحرک ہے اور یہ (افلاک)اس علتِ اولیٰ کی طرف محتاج ہیں جس کو ابن سینا اور اسکے امثال ’’واجب الوجود ‘‘کہتے ہیں اس اعتبار سے کہ ان کی حرکت میں اس (واجب الوجود )کے ساتھ مشابہت ضروری ہے گویا کہ ارسطو اور اس کے اتباع کے نزدیک واجب الوجود کی ذات افلاک کے لیے علتِ غائیہ کی جنس میں سے ہے یہ نہیں کہ وہ اس کے لیے علتِ فاعلیہ ہے اور یہ قول اگرچہ کفر اور گمراہی اور جمہور کی مخالفت کے اعتبار سے سب سے زیادہ شنیع قول ہے اور اسی وجہ سے متاخرینِ فلاسفہ نے اس سے پہلو تہی کی ہے اور انہوں نے دعویٰ کیا مُوجِب اور مُوجَب کا جیسے کہ ابن سینا اور اس کے امثال کا خیال ہے اور فلاسفہ کے ان بڑے بڑے اکابر کا جو ارسطو سے پہلے گذرے ہیں وہ قدمِ عالم کے قائل نہیں تھے بلکہ وہ اس بات کا اقرار کرنے والے تھے کہ افلاک حادث ہیں ،وجود میں آئے ہیں بعد ا س کے کہ نہیں تھے۔
ساتھ ایک ایسی نزاع کے کہ جو ان کے درمیان مادے کے بارے میں منتشر اور معروف ہے پس مقصود تو یہاں یہ ہے کہ یہ لوگ باوجود اس گمراہی کے جس میں یہ پڑے ہوئے ہیں ،اپنے حق میں اس بات پر راضی نہیں کہ اس ممکن کو جس کا وجود اور عدم دونوں ممکن ہیں اس کو قدیم اور ازلی قرار دیں بلکہ انہوں نے کہا کہ وہ صرف اور صرف حادث ہی بن سکتا ہے اور یہ اپنے حق میں اس بات پر بھی راضی نہیں کہ یہ کہیں کہ وہ مفعول جو مصنوع ہے اور اس کو از سرِ نو(بغیر کسی سابق نمونے کے ) پیدا کیا گیاہے وہ قدیمِ ازلی بنے اور نہ اس بات پر راضی ہیں کہ وہ مراد جس کا باری تعالیٰ نے ارادہ کیا یعنی اس کے فعل کا ،وہ قدیم اور ازلی بنے اس لیے کہ ان اقوال کا فسادبالکل عقلِ اولی میں واضح اور ظاہر ہے اور بے شک جو لوگ متاخرینِ فلاسفہ میں اس قول کے قائل ہیں تو اس کی طرف ان کو اس امر نے مجبور کیا کہ وہ اقوال ِ متناقضہ کے قائل ہوئے (جس سے فرار کے لیے وہ اس عظیم فساد کے قائل ہو گئے )جس طرح کہ اہلِ کلام میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کو ان کے اصولوں نے ایسے اقوال اختیار کرنے کی طرف مجبور کر دیا جن کا فساد بدیہی عقل سے معلوم ہے مثال کے طور پر بغیر کسی محل کے ارادہ اور کلام کا اثبات ،اسی طرح کسی شے واحد معین کے بارے میں اس بات کو ماننا کہ وہ مختلف حقائق پر مشتمل ہو سکتا ہے ،اسی طرح ایک ایسے امر کا اقرار کرنا جس کا بعض بعض سے سابق ہو اور وہ قدیم الاعیان ہو اور ازل سے ہو اور ان میں سے ہر ایک قدیمِ ازلی ہو اور اس کے امثال ۔اور امام رازی اور اس کے امثال نے اس مسئلہ اور اس کے علاوہ میں جو بات ذکر کی ہے یعنی حکما ء کا اجماع یہ جیسے کہ اس بات پر اجماع کا دعویٰ کرنا کہ علتِ افتقار امکان ہی ہے اور یہ کہ ممکنِ معلول قدیمِ ازلی ہوتا ہے تو بے شک وہ اس چیز کو ذکر کرتے ہیں جس کو اس نے ابن سینا کے کتب میں پایا ہے اور وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ یہ فلاسفہ کا اجماع ہے۔