Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فصل:....اہل سنت پر اللہ کی طرف سفاہت کے انتساب کا الزام اوراس پر ردّ

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....اہل سنت پر اللہ کی طرف سفاہت کے انتساب کا الزام اوراس پر ردّ

اہل سنت کے قدر کے بارے میں مقابلہ پر رافضی کا یہ قول کہ: ’’رب تعالیٰ کی طرف سفاہت کی نسبت جائز ہے کیونکہ وہ کافروں کو ایمان لانے کا امر تو دیتا ہے پر ان سے ایمان لانے کا ارادہ نہیں کرتا۔‘‘

[شبہ ]رافضی امامی کہتا ہے: اور ایک بات یہ ہے کہ رب تعالیٰ کی طرف سفاہت کی نسبت لازم آتی ہے۔ کیونکہ وہ کافر کو ایمان لانے کا امر دیتا ہے۔ حالانکہ اس سے اس کا ارادہ نہیں کرتا اور اسے معصیت سے روکتا ہے جبکہ اس سے معصیت کے ارتکاب کا ارادہ کرتا ہے اور ہر وہ عاقل جو ایسی بات کا حکم دے جس کا اس نے ارادہ نہ کیا اور ایسی بات سے روکے جس کا اس نے ارادہ کیا ہو کہ اس کی طرف سفاہت کی نسبت جائز ہے۔ حالانکہ رب تعالیٰ سے منزہ و بلند ہے۔

[جواب]: اس رافضی کو یہ جواب دیا جائے گا کہ گزشتہ میں محققین اہل سنت والجماعت کا یہ قول گزر چکا ہے کہ ارادہ کی دو قسمیں ہیں : (۱) ایک ارادۂ خلق (۲) اور دوسری ارادۂ امر۔ سو امر کا ارادہ یہ مامور سے مامور بہ فعل کا ارادہ ہے اور خلق کا ارادہ، یہ ان افعالِ عباد کے پیدا کرنے کا ارادہ ہے جن کو وہ بندے سے پیدا کرتا ہے اور امر یہ پہلے ارادہ کو مستلزم ہے نا کہ دوسرے کو۔

رب تعالیٰ نے کافر کو اس بات کا حکم دیا ہے جس کا اس نے اس سے اس اعتبار سے ارادہ کیا ہے اور وہ اسے محبوب اور پسند ہے اور اسے اس معصیت سے روکتا ہے جس کا اس نے بندے سے ارادہ نہیں کیا۔ یعنی اس اعتبار سے وہ اسے محبوب اور پسندنہیں ؛ یعنی رب تعالیٰ کو بندے سے کفر محبوب اور پسند نہیں اور نہ فساد ہی محبوب ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿اِذْ یُبَیِّتُوْنَ مَا لَا یَرْضٰی مِنَ الْقَوْلِ﴾ (النسآء: ۱۰۸)

’’جب وہ رات کو اس بات کا مشورہ کرتے ہیں جسے وہ پسند نہیں کرتا۔‘‘

ارادۂ خلق یہ وہ مشیئت ہے جو مراد کی وقوع کو مستلزم ہے۔ یہ ہے وہ ارادہ جو وجود سے متعلق ہوتا ہے سو جو رب نے چاہا وہ ہوا اور جو نہ چاہا وہ نہ ہوا اور یہ کہ وہ بندے سے اس بات کا ارادہ کرے کہ وہ خود فعل کرے کہ یہ لا محالہ ہو کر رہے گا کیونکہ وہ اپنی مراد پر قادر ہے۔ سو جب ارادہ اور قدرت دونوں جمع ہو جاتے ہیں تو مراد کا وجود واجب ہو جاتا ہے۔اور یہ بھی واضح کردیا ہے کہ وہ بندے سے اس بات کا ارادہ کرے کہ وہ اپنے لیے کوئی فعل انجام دے ؛ ان دونوں باتوں میں فرق ہے کیونکہ اس دوسرے ارادے میں یہ لازم نہیں کہ وہ بندے کی اس پر اعانت بھی کرے۔

رہی قائلین تقدیر کی ایک جماعت جن کا یہ گمان ہے کہ ارادہ کی صرف ایک قسم ہوتی ہے اور وہ ہے مشیئت۔ سو ان کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کا بھی حکم دیتا ہے جس کا ارادہ نہیں کرتا۔

پھر یہ لوگ دو قسم پر ہیں : ایک وہ لوگ ہیں جن کا عقیدہ ہے کہ وہ اس بات کا حکم دیتا ہے جو اسے محبوب اور پسند ہو،چاہے اس نے اس کا ارادہ نہ بھی کیا ہو، یعنی اس کے وجود کو نہ چاہا ہو۔ یہ جمہور فقہاء کا قول ہے۔

دوسرے وہ لوگ ہیں جن کا قول ہے کہ محبت اور رضا ہی ارادہ ہے اوروہی مشیئت ہے۔ سو وہ ایسی بات کا بھی حکم دیتا ہے جس کا اس نے ارادہ نہیں کیا اور نہ اسے وہ محبوب اور پسند ہے۔ ان کے نزدیک کفر و فسق اور معصیت کا ارتکاب اسے محبوب اور پسند ہے۔ جیساکہ اس نے اس کا ارادہ کیا اور اسے چاہا۔ ان کا کہنا ہے کہ: اللہ تعالیٰ کو کفر باعتبار دین ہونے کے محبوب اور پسند نہیں ۔ جیسا کہ اس نے کفر کے دین ہونے کا نہ ارادہ کیا اور نہ اسے چاہا؛ اور نہ ہی یہ اسے اس سے بڑھ کر محبوب اور پسند ہے؛ جس سے اس کا وقوع نہیں ہوا ۔ جیسا کہ اس سے ارادہ نہیں کیا جس سے اس کا وقوع نہیں ہوا اور نہ اس سے چاہا ہے جس سے اس کا وقوع نہیں ہوا۔ یہ اشعری اور اس کے اکثر اصحاب کا قول ہے۔ جسے خود اشعری نے اہل اثبات کی ایک جماعت سے حکایت کیا ہے اور اشعری سے پہلے قول جیسا قول بھی حکایت کیا گیا ہے۔اس قول والے معتزلہ اور شیعہ وغیرہ قدریہ ہیں ۔ جو رضا اور محبت کو ارادہ کے معنی میں قرار دیتے ہیں ۔ پھر یہ منکرین تقدیر کہتے ہیں : اس بات پر نص اور فقہاء کا اجماع ہے کہ اس نے کفر، فسق اور معاصی کو نہ پسند کیا ہے اور نہ ہی اسے محبوب ہیں ۔ نہ اس نے ان کا ارادہ کیا ہے اور نہ چاہا ہے۔

قائلین تقدیرکہتے ہیں : اس بات پر نص اور جماع ہے کہ اس نے ان کو چاہا ہے۔ لہٰذا یہ اسے محبوب اور پسند ہے اور اس نے اس کا ارادہ کیا ہے۔ البتہ جمہور مشیئت و ارادہ میں اور محبت و رضا میں فرق کرتے ہیں ۔ جیسا کہ خود لوگوں میں ان دونوں باتوں میں فرق پایا جاتا ہے۔ جیسے آدمی بسا اوقات ایسی کڑوی دوا بھی پی جاتا ہے جس کا پینا اسے غیر محبوب اور مبغوض ہوتا ہے اور ان اشیاء کا کھانا اسے محبوب ہوتا ہے جن کی اسے اشتہاء ہوتی ہے۔ جیسے مریض کا ممنوع اشتہاء کے کھانے کی اشتہاء، اور روزہ دار کی بھوک اور پیاس کے وقت ٹھنڈے پانی اور گرم کھانے کی خواہش؛ حالانکہ وہ ایساکرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ سو ظاہر ہو گیا کہ بسا اوقات انسان اس چیز کو محبوب رکھتا جس کا اس نے ارادہ نہیں کیا ہوتا اور ایسی چیز کا ارادہ بھی کرتا ہے جو اسے محبوب نہیں ہوتی۔وہ یہ کہ کبھی مراد دوسرے کے لیے ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ ناگوار اشیاء کا اس لیے ارادہ کرتا ہے کہ ان میں انجام کار اشیاء محبوبہ و مرغوبہ ہوتی ہیں ۔ اور بسا اوقات اپنے محبوب فعل کو بھی نا پسند کرتا ہے کیونکہ اس کا انجام ناگواری پر ہوتا ہے۔

رب تعالیٰ کی اپنی ہر آفرینش میں حکمت ہے۔ وہ متقین، محسنین، توابین سے محبت کرتا ہے، ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے اور بندے کی توبہ پر اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جو ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنے کھانے پینے کے سامنے سے لدے اونٹ کو گم کر بیٹھے؛ اوروہ اب مایوس ہوکر موت کی تیاری میں ہو کہ اچانک اسے وہ گم شدہ اونٹ مل جائے۔ جیسا کہ متعدد صحیح احادیث میں یہ مضمون آیاہے۔فرمان نبوی ہے:

’’ یقیناً اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی ایک کی توبہ پر اس آدمی سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں جس نے صحرا میں اپنی سواری کھودی؛ اس پر اس کا کھانا پینا بھی ہو ۔ وہ اسے تلاش کے باوجو د نہ پائے تو وہ موت کے انتظار

لیٹگیا۔ پس جب وہ بیدار ہوا تو اس کی سواری اس کے پاس کھڑی تھی؛ ور اس پر اس کا کھانا پینا بھی تھا۔پس اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر اس انسان کی سواری مل جانے کی خوشی سے بڑھ کر خوش ہوتے ہیں ۔‘‘[اس کی تخریج گزرچکی ہے]

اب یہ فلاسفہ فرح و محبت کی تعبیر، سرور، لذت اور عشق سے کرتے ہیں ۔ اب اگر یہ بات ہے تو رب تعالیٰ بعض اشیاء کے وجود کو اس لیے چاہتا ہے کہ وہ اس کی محبت و رضا تک پہنچاتی ہیں اور بسا اوقات رب تعالیٰ کسی محبوب کو اس لیے نہیں کرتا کہ وہ کسی مبغوض و مکروہ کے وجود کو مستلزم ہوتی ہے۔ سو رب تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ ہر نطفہ سے مراد پیدا کر لے جو مومن ہو اور اسے اس کا ایمان اور وہ مومن محبوب ہو۔ لیکن وہ کسی حکمت کے تحت ایسا نہیں کرتا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ کسی مبغوض و مکروہ تک لے جائے گا۔

اگر یہ کہا جائے گا کہ پھر وہ یہ کیوں نہیں کرتا اور مبغوض کو روک کیوں نہیں دیتا؟

تو اس کا جواب یہ ہے : متعدد اشیاء ممتنع لذاتہ ہوتی ہیں اور بعض ممتنع لغیرہ ہوتی ہیں ۔ کھانے سے حاصل ہونے والی لذت پینے، سونگھنے اور سننے وغیرہ سے حاصل نہیں ہوتی۔ ان سے حاصل ہونے والی لذت اور ہے۔

پھر منہ میں کھانے کی لذت پینے کی لذت سے جدا ہے۔ پھر ایک آواز کی لذت دوسری آواز کی لذت سے مختلف ہوتی ہے لہٰذا ضروری نہیں کہ بندے کو ہر محبوب اور لذیذ چیز آنِ واحد میں یکجا ہو جائے۔ بلکہ ایک کا حصول تب ہی ہو گا جب اس کی ضد کو فوت کیا جائے گا۔

پھر ہر مخلوق کے لوازم بھی ہیں اور اضداد بھی۔ سو وہ شی تب ہی پائی جائے گی جب اس کے لوازم پائے جائیں اور اضداد غیر موجود ہوں اب اللہ کو بندے سے جہاد بھی محبوب ہے اور حج بھی۔ وہ جو بھی کرے محبوب ہو گا۔ لیکن بندہ بیک وقت مشرق اور مغرب دونوں کا مضر نہیں کر سکتا۔ بلکہ بیک وقت حج اور جہاد دونوں کو نہیں کر سکتا۔ کہ دونوں میں سے ایک دوسرے کے نہ کرنے سے ہی حاصل ہو گا۔ حج فرض اور جہاد نفل ہی ہو۔ تو حج زیادہ محبوب ہو گی اور اگر دونوں نفل دونوں فرض ہوں گے پھر اگر تو اسے جہاد زیادہ محبوب ہو گا۔

اب رب تعالیٰ کو دونوں میں سے ایک محبوب جو دوسرے کو نہ کر کے حاصل ہوا ہے، پسند ہے۔ کیونکہ اگر دوسرے کو فوت کیے بغیر اس کا وجود ممکن ہوتا تو یہ بھی محبوب ہوتا اور اگر اس کا وجود اس دوسرے زیادہ محبوب کو فوت کر کے حاصل ہوتا تو بھی ایک اعتبار محبوب ہوتا تو دوسرے اعتبار سے مکروہ ہوتا۔

اب رب تعالیٰ نے جو بعض لوگوں میں طاعت کو مقدر نہیں کیا تو اس میں اس کی حکمت ہے۔ جیسا کہ جب اس نے دو میں ادنیٰ محبوب کا حکم نہیں دیا تو اس میں بھی اس کی حکمت ہے اور وہ ہر بات پر قادر ہے۔لیکن اجتماعِ ضدین عمومِ اشیاء میں داخل نہیں ۔ کیونکہ یہ بالذات محال ہے۔ یہ ایسا کہنے کے بمنزلہ ہے: بھلا رب تعالیٰ نے بندے کو اس بات پر قادر کیوں نہ بنایا کہ وہ آنِ واحد میں مشرق کو حج کے لیے اور مغرب کو جہاد کے لیے جا سکتا۔اس کا جواب یہ ہے کہ جسم واحد کا دو جگہوں میں ہونا بالذات محال ہے۔ لہٰذا یہ دونوں آنِ واحد میں ہونے ممکن نہیں ۔ اور یہ کوئی چیز نہیں ہے کہ یہ کہا جائے: کہ یہ مقدر ہے بلکہ یہ ایک بے حقیقت بات ہے اور کچھ بھی نہیں ۔ بلکہ یہ ایک ایسی بات ہے جس کا ذہن تصور کرتا ہے جیسے کہ ذہن رب تعالیٰ کی نظیر کے خارج میں پائے جانے کا تصور کرتا ہے تاکہ خارج میں اس کے امتناع کا حکم لگائے۔ وگرنہ ممکن نہیں کہ ذہن خارج میں اس کی نظیر کا تصور کرے۔ لیکن ذہن محل واحد میں لون اور طعم کے اجتماع کا تصور کرتا ہے، جیسے سفید حلوہ اور سفید رنگ وغیرہ۔ پھر ہی ذہن اس بات کا بھی تصور کرتا ہے کہ کیا سفیدی اور سیاہی محل واحد میں جمع ہو سکتی ہے۔ جیسے کہ لون اور طعم ایک محل میں جمع ہو جاتے ہیں ۔ تو وہ جان لیتا ہے کہ یہ اجتماع خارج میں ممتنع ہے اور جان لیتا ہے کہ یہ بات تو ممکن ہے کہ زید مشرق میں اور عمرو مغرب میں ہو۔ پھر وہ ذہن میں یہ سوچتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ زید فی نفسہ دو مکانوں میں بیک وقت موجود ہو۔ جیسا کہ وہ اور عمرو دو جگہوں میں تھے؟ تو وہ جان لیتا ہے کہ یہ ممتنع ہے۔

یہ اس شخص کا کلام ہے جو ارادہ کو دو قسمیں قرار دیتا ہے اور وہ دونوں میں سے ایک نوع میں اور محبت و رضا میں فرق کرتا ہے۔ البتہ جو اس سب کو ایک نوع قرار دیتا ہے وہ دو باتوں کے بیچ میں ہوتا ہے۔

٭ اگر تو وہ محبت و رضا کو اس نوع میں سے قرار دیتا ہے تو اسے مذکورہ شنیع محظورات لازم آتے ہیں ۔

٭ اگر وہ محبت و رضا کو وہ نوع قرار دیتا ہے ؛جو ارادہ کو مستلزم نہیں ہوتی اور کہتا ہے کہ کبھی وہ اس چیز کو بھی پسند کرتا ہے جس کا وہ کسی صورت بھی ارادہ نہیں کرتا اور اس وقت اس کا ’’لا یریدہ‘‘ کے قول سے مقصود یہ ہوتا کہ اس نے اس کے کون وجود کا ارادہ نہیں کیا۔ وگرنہ وہ اس کے نزدیک محبوب اور پسندیدہ ہے۔

سو اس نے ارادہ کو ہی خلق کی مشیئت قرار دیا ہے اور یہ اگرچہ سنت کی طرف منسوب ایک جماعت کا قول ہے جو امام مالک امام شافعی اور امام احمد کے اصحاب فقہاء میں سے ہیں ۔ لیکن یہ کتاب و سنت کے استعمال کے خلاف ہے۔ تب پھر اس کے ساتھ تراع لفظی ہو گا اور لفظی تراعات میں دوستی کا زیادہ مستحق وہ ہے جس کا لفظ قرآن و سنت کے موافق ہو۔

یہ بات واضح ہو چکی ہے قرآن نے اس نوع کو مراد قرار دیا ہے۔ لہٰذا اس بات پر اطلاق کی حاجت نہیں کہ اللہ اس بات کا حکم دیتا ہے جس کا ارادہ نہیں کرتا۔ پھر یہ بھی واضح ہو گیا کہ ارادہ کی دو قسمیں ہیں اور یہ کہ وہ اس بات کا بھی امر دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور اس بات کا بھی امر دیتا ہے جسے پیدا کرنے کا وہ ارادہ نہیں کرتا اور اس بات کا حکم دیتا ہے جس کی بابت وہ پسند کرتا ہے اور اسے محبوب ہے کہ اس کے بندے وہ کام کریں ۔

اگر ایک آدمی کہتا ہے: ’’اللہ کی قسم! میں وہ کروں گا جو اللہ مجھ پر واجب کرے گا یا وہ اسے میرے لیے پسند کرتا ہے ان شاء اللہ‘‘ تو فقہاء کا اتفاق ہے کہ وہ حانث نہ ہو گا اور اگر اس نے یہ کہا: ’’اللہ کی قسم! میں وہ کروں گا جو اللہ مجھ پر واجب کرے گا۔ اگر اللہ کو وہ محبوب یا پسند ہو گا۔‘‘ تو وہ نہ کرنے کی صورت میں بالا تراع حانث ہو جائے گا۔ یہیں سے مکذبین قدر کی دلیل کا بطلان ظاہر ہو گیا۔ کیونکہ جب وہ یہ کہتا ہے کہ ہر عاقل جو اس بات کا امر کرے جو وہ چاہتا نہیں اور اس باتسے روکے جو وہ چاہتا ہے، اسے سفاہت کی طرف منسوب کیا جائے گا۔ تو اسے جواب دیا جائے گا کہ جب وہ خود غیر کو ایسی بات کا حکم دیتا ہے جو وہ نہیں چاہتا تو کیا ایسا کر کے وہ بھی سفیہ بنتا ہے یا نہیں ؟ حالانکہ اس صورت میں امر کرنے والے اور اس امر پر اعانت نہ کرنے والے کا غیر سفیہ ہونا سب عقلاء کے نزدیک مسلم ہے۔ بلکہ حکماء و عقلاء کے سب او امر اسی باب سے ہیں ۔

اگر ایک طبیب ایک دوا تجویز کرتا ہے تو اس کے ذمہ نہیں کہ وہ دوا پینے پر بھی اس کی معاونت کرے۔ اسی طرح فتویٰ دینے والے مفتی پر مفتیٰ بہ پر معاونت اور نکاح تجارت وغیرہ کا مشورہ دینے والے پر مشورہ میں اعانت لازمی نہیں ۔ لہٰذا دوسرے کو محبوب شی کا امر دینے کے بعد کسی مفسدہ کی بنا پر اس میں معاونت نہ کرنا سفاہت نہیں ۔

پس قدریہ اور ان جیسے دوسرے لوگوں کی دلیل کا بطلان ظاہر ہو گیا۔ اسی طرح جو غیر کو اس بات سے روکتا ہے جس کی بابت اس کا ارادہ ہے کہ وہ اسے کرے کہ ایسا کرنے والا سفیہ نہیں ۔ کیونکہ بسا اوقات اس میں روکنے والے کی مصلحت ہوتی ہے۔ لہٰذا مسہلات پینے والا مریض اگر اپنے بچے کو ان کے پینے سے روکے تو سفیہ نہ ٹھہرے گا اور تیرنے والا اگر اناڑی کو تیرنے سے روکے تو سفیہ نہ ہو گا۔ غرض اس کی مثالیں بے شمار ہیں ۔

اگر روکنے والا کسی کو اس کی خیر خواہی کے لیے کسی مضر شی سے روکے اور خود ناہی کی مصلحت اس کے کرنے میں ہو تو وہ اس فعل پر محمود ٹھہرے گا جیسا کہ بہت سارے لوگ کئی کاموں سے روکتے ہیں بسا اوقات انہی کی مصلحت کے لیے اس فعل کو طلب کرتے ہیں ۔

البتہ مخلوق میں ایسی کوئی مثال ممکن نہیں جو ہر اعتبار سے رب تعالیٰ کے فعل کے مطابق ہو۔ کیونکہ اس جیسی کوئی شی نہیں نہ ذات ہیں ، نہ صفات اور نہ افعال میں ۔ غرض مقصود یہ ہے کہ مخلوق میں یہ ممکن ہے کہ انسان ایک بات کا امر کرے پر اس پر اعانت کا ارادہ نہ ہو اور روکنے والے یسی بات سے روکے کہ خود اس کے کرنے میں اس کی مصلحت میں ۔ تو معلوم ہوا کہ اس قدری وغیرہ نے لفظ مجمل کے ساتھ کلام کیا ہے۔ لہٰذا جب انہوں نے یہ کہا کہ جس نے ایسی بات کا امر دیا جو وہ چاہتا نہیں تو وہ سفیہ ہے، تو انہوں نے لوگوں کو اس بات کا وہم ڈالا کہ اللہ نے اس بات کا امر دیا جس کی بابت اس نے یہ ارادہ نہیں کیا کہ بندہ وہ کام کرے اور اللہ نے بندے کو ایسا حکم نہیں دیا کہ جس کے نہ کرنے پر وہ راضی ہو اور اس کے کرنے پر راضی نہ ہو۔ اللہ نے اس معنی میں ان سے فعل کے کرنے کا ارادہ نہیں کیا۔ اس نے بعض کو ایسی بات کا حکم دیا ہے کہ اس نے اس بات کا ارادہ نہیں کیا کہ وہ اپنی مشیئت سے اسے پیدا کرے اور اس نے بندوں کو ان کا فاعل نہیں بنایا اور یہ بات معلوم ہے کہ آمر کے ذمہ نہیں کہ وہ فعل مامور بہ پر مامور کی مدد کرے۔ بلکہ قدریہ کے نزدیک یہ ممتنع ہے اور دوسروں کے نزدیک وہ اس پر قادر ہے لیکن اس کو اس بات کا اختیار ہے کہ چاہے تو کرے اور چاہے نہ کرے۔

اب جو تو مشیئت کو حکمت غائیہ کے بغیر ثابت کرتا ہے اس کا قول ہے کہ: یہ دیگر ممکنات کی طرح ہے، چاہے تو چاہے اور چاہے تو نہ کرے اور جو حکمت کو ثابت کرتا ہے، اس کا قول ہے کہ اسے اس بات کا اختیار ہے کہ وہ اس کو حکمت کی بنا پرحادث نہ کرے۔ جیسا کہ دیگر وہ تمام امور جن کو اس نے حادث نہیں کیا اور کبھی اس کے راحداث میں اس مامور کے علاوہ کے لیے ایک عظیم مفسدہ ہوتا ہے جو حاصل ہونے والی حکمت سے بھی بڑا ہوتا ہے اور کبھی اس فعل مامور میں مصلحت حاصلہ سے بھی بڑی مصلحت کی تفویت ہوتی ہے اور حکم وہ ہوتا ہے جو دو میں سے بڑی مصلحت کو کو مقدم کرتا ہے اور دو میں سے بڑے مفسدہ کو دفع کرتا ہے۔ اللہ کی حکمتوں کی تفصیل جاننا یہ مخلوق کے ذمے نہیں ۔ بلکہ ان کے حق میں علم عام اور ایمان تام ہی کافی ہے۔

اب جس نے ارادہ کو ایک نوع قرار دیا ہے، اگرچہ اس کا قول مرجوح ہے، پر وہ ان قدرِ کے قول سے بہتر ہے جو ارادہ، محبت اور مشیئت سب کو ایک شی قرار دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بھی ہو سکتا ہے جو اس نے نہیں چاہا اور جو چاہتا، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ نہ ہو۔ کیونکہ اس کا قول ہے کہ سفہ اس پر جائز ہے جس پر اعتراض جائز نہ ہوں اور اعتراض غیر کی طرف حاجت کو اور حاجت کے بغیر نقض کو مستلزم ہوتی ہیں اور یہ اللہ پر ممتنع ہے اور اللہ کے حق میں یہ تسلسل اور اس کے ساتھ حوادث کے قیام کو مستلزم ہے اور اس خصم کے نزدیک یہ ممتنع ہے۔

سو جب معتزلہ اور ان کے ہم نوا شیعہ نے ان اصول کو تسلیم کر لیا تو ان کی دلیل منقطع ہو گئی۔ وہ یوں کہ جب انہوں نے یہ قول کیا کہ وہ کسی غرض سے فعل کرتا ہے۔ تو انہیں یہ جواب دیا جائے گا کہ اللہ کی طرف غرض کے وجود اور اس کے عدم کی نسبت برابر ہے۔ یا غرض کا وجود اس کے زیادہ سزا وار ہے۔ پھر اگر تو یہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ دونوں پہلو یکساں ہیں تو اس کے ساتھ یہ بات ممتنع ٹھہری کہ وہ ایسا فعل کرے جس کے عدم اور وجود کی اس کی طرف نسبت یکساں ہو اور یہ ہم میں سفیہ گنا جائے گا اور یہ ہم میں عبث ہو گا۔

اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ اس نے بندوں کے نفع کے لیے کیا ہے۔ تو یہ جواب دیا جائے گا کہ ایک انسان بھی اپنی دینی یا دنیاوی مصلحت کے لیے دوسرے کے نفع کا کوئی کام کر دیتا ہے۔ رہا دوسرے پر احسان کر کے لذت اندوز ہونا جیسے کہ نفوسِ کریمہ دوسروں پر احسان کر کے لطف اندوز اور خوش ہوتے ہیں اور یہ ان نفوس کی مصلحت و منفعت ہے۔

رہا نفس سے رقت کے الم کو دور کرنا۔ تو جب ایک آدمی دوسرے کو بھوک کی کلفت میں دیکھتا ہے تو اسے کھانا دے دیتا ہے جس سے اس کی کلفت جاتی رہتی ہے اور زوالِ کلفت بھی ایک منفعت و مصلحت ہے۔ اس کے علاوہ باتوں کو تو جانے دیجیے جیسے تعریف کی امید، یا بدلہ کی امید یا اللہ سے اجر کی امید کہ یہ علیحدہ مطالب و مقاصد ہیں ۔ لیکن نفس فاعل میں یہ دونوں امر موجود ہیں ۔ سو جس نے دوسرے کو نفع دیا اور نفع کا عدم و وجود اس کی طرف نسبت کے اعتبار سے ہمہ پہلو یکساں ہو تو یہ بے وقوف ترین ہو گا اگر پایا جائے۔ تو جب یہ ممتنع ہو گا تو پھر؟....کیونکہ یہ بات ممتنع ہے کہ ایک مختار کو کام کرے یہاں تک کہ وہ اس کے نزدیک راجح نہ ہو جائے۔ تب پھر اس کے نزدیک اس کا کرنا اس کے نہ کرنے سے زیادہ محبوب ہو گا اور احب کی ترجیح بھی ایک لذت اور منفعت ہے۔

اب یہ قدریہ جو غرض کی تعلیل کے قائل ہیں ، یہ اس شی کو ذکر کرتے ہیں جس کا غرض ہونا ممتنع ہوتا ہے۔ وہ یا تو ممتنعہوتا ہے یا سفاہت ہوتی ہے اور اگر یہ ایسی غرض کو ثابت کریں جو اس کے ساتھ قائم ہو تو اس کا محل حوادث ہونا لازمی آتا ہے اور وہ اس کا حیلہ کرتے ہیں ۔

پھر اگر ایک غرض دوسرے غرض کے لیے ہو تو تسلسل لازم آئے گا۔ وہ اس کو ماضی کی طرف لے جاتے ہیں اور مستقبل کے بارے میں ان کے دو اقوال ہیں اور اگر وہ دوسری غرض کے لیے نہ ہو تو اس کا کسی غرض کے بغیر حدوث جائز ہو گا۔ سو یہ وہ اصول ہیں جن پر قدریہ اور یہ متفق ہیں یہ اُں کی اِن پر حجت ہے۔