Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فصل:....امور اختیاریہ پر بحث

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....امور اختیاریہ پر بحث

جو امورِ اختیاریہ کے رب تعالیٰ کے ساتھ قیام کی نفی کرتا ہے اسے متناقض اور فاسد اقوال کرنے ہی پڑتے ہیں ۔

غرض جو رب تعالیٰ کے ساتھ امورِ اختیاریہ کے قیام کی نفی کرتا ہے وہ ضرور متناقض و فاسد اقوال کرے گا تو جب جھمیہ مجبر اور قدریہ معتزلہ اس بات میں مشترک تھے کہ ان میں سے کوئی چیز اس کی ذات کے ساتھ قائم نہیں ہے۔ پھر اس کے بعد ان لوگوں میں اس کے افعال و احکام کی تعلیل میں اختلاف ہو گیا تو دونوں میں سے ہر ایک قول اس امر کو لازم ہوا جو اس کے متناقض و فساد کو ظاہر کرتا ہے۔

سو تعلیل کے اثبات کے قائلین کا قول ہے کہ: جو حکمت کے بغیر کوئی فعل کرتا ہے وہ سفیہ ہے یہ بات اس میں تو ضرور ہے جو ایسی حکمت کے بغیر فعل کرے جو اسی کی طرف لوٹتی ہو۔ ان لوگوں کا گمان ہے کہ رب تعالیٰ اپنی طرف لوٹنے والی حکمت کے بغیر فعل کرتا ہے۔ پھر اگر بغیر حکمت کے فعل کرنے والا سفیہ ہے تو اسے سفاہت لازم آئی اور اگر وہ سفیہ نہیں تو تناقض لازم آیا۔ کیونکہ ان کا فعل کو ایسی حکمت کے ساتھ ثابت کرنا جو فاعل کی طرف نہ لوٹتی ہو، غیر معقول ہے۔ چہ جائیکہ ایسا فاعل حکیم ہو۔

یہ رب تعالیٰ کی صفات اور کلام میں ان کے قول کی نظیر ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں : وہ اپنی مشیئت اور قدرت سے ہی تکلم کرتا ہے، اور قرآن کا قدیم ہونا ممتنع ہے۔ کیونکہ اس میں قدم کے منافی امور ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ متکلم وہ ہی عاقل ہوتا ہے جو اپنی قدرت و مشیئت سے کلام کرتا ہو۔ نا کہ وہ کہ کلام اس کی قدرت کو لازم ہو اور اس کی قدرت و مشیئت سے حاصل نہ ہوتا ہو۔

ان کو یہ جواب دیا جائے گا کہ اسی طرح ایسا ہی متکلم معقول ہے کہ کلام جس کے ساتھ قائم ہو۔ رہا وہ متکلم جس کے ساتھ کلام قائم نہ ہو، یا وہ مرید کہ جس کے ساتھ ارادہ قائم نہ ہو، یا وہ عالم کہ جس کے ساتھ علم قائم نہ ہو تو یہ غیر معقول ہے۔ بلکہ خوفِ معقول ہے۔

بلکہ کلام کی بابت ان کا قول اس بات کو متضمن ہے کہ جس کے ساتھ کلام قائم ہو، وہ متکلم ہی نہ ہو۔ کیونکہ متکلم تو وہ ہوتا ہے جو اپنے غیر میں کلام کو حادث کرے۔ اسی طرح رب تعالیٰ کی محبت و رضا، اور ارادہ و غضب وغیرہ کی بابت کی بھیایسا ہی کلام ہے کہ یہ امور اس کی ذات کے ساتھ قائم نہیں ہیں ۔ بلکہ یہ امور اس کی ذات سے جدا ہیں ۔ سو انہوں نے رب تعالیٰ کو ایسے امور کے ساتھ موصوف ٹھہرایا ہے، جو اس کی ذات کے ساتھ قائم نہیں ، بلکہ اس کی ذات سے منفصل ہیں ۔ یہ خلافِ معقول بھی ہے اور مشتمل بر تناقض بھی ہے کہ اس سے انہیں یہ بات لازم آتی ہے کہ وہ ہر اس شی کے ساتھ موصوف ہے جس کو وہ مخلوقات میں پیدا کرتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ ہر اس کلام سے بھی موصوف ہے جس کو وہ پیدا کرتا ہے اور وہ مخلوق کلام اس کا کلام ہو گا۔ سو جب وہ اپنی مخلوقات کو ناطق بنائے گا تو یہ اس کا اپنا کلام ہو گا نا کہ اس مخلوق کا جسے اس نے ناطق بنایا ہے۔ اس کی تفصیلی اپنی جگہ موجود ہے۔

غرض یہاں یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ ان کا کلام کہ وہ حکمت کی وجہ سے فعل کرتا ہے، اس بات کو مستلزم ہے کہ اس کے نزدیک حکمت کا وجود اس کے عدم سے زیادہ راجح ہو۔ یا یہ کہ وہ حکمت اس کی ذات کے ساتھ قائم ہو، وغیرہ لوازم کہ جو صرف اسی میں معقول ہیں جو ایسی حکمت کے لیے فعل کرے کہ جس کے ساتھ متصف ہو۔ وگرنہ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ جمیع حوادث کی نسبت اس کی طرف یکساں ہے اور ان میں سے بعض کا بعض سے ارجح ہونا اس کے نزدیک ممتنع ہو، تو یہ بات بھی ممتنع ٹھہری کہ وہ بعض حوادث کو دوسرے بعض کی وجہ سے کرے۔

پھر جب ان مجبرہ جمیہ نے قدریہ کے اس عقیدہ کے فاسد ہونے کو دیکھا، حالانکہ وہ اس اصل میں ان کے شریک بھی تھے، تو کہنے لگے: یہ بات سرے سے ممتنع ہے کہ وہ ایک چیزکو دوسرے چیز کے لیے بجا لائے اور یہ بات بھی ممتنع ہے کہ اسے ایک چیز دوسری سے زیادہ محبوب ہو، اور یہ بھی ممتنع ہے کہ اسے ایک مخلوق محبوب ہو اور دوسری نہ ہو، یا اس سے ایک بات کا تو ارادہ کرے دوسری کا نہ کرے۔ بلکہ جو بھی حادث ہوتا ہے، وہ اس کی مراد ہے اوراسے محبوب اور پسند ہے ۔ چاہے وہ کفر ہو یا ایمان، اچھائی ہو یا برائی، نبی ہو یا شیطان، اور جو بھی حادث نہیں ہوا، نہ وہ اسے محبوب ہے، نہ پسند اور نہ مراد ہی ہے۔ جیسا کہ اس نے اس غیر حادث کو چاہا ہی نہیں ۔ ان کے نزدیک اللہ نے جو چاہا وہ ہوا، اور وہ اسے محبوب ، پسند اور اس کی مراد بھی ہے اور جو نہ چاہا وہ نہ ہوا اور نہ وہ اسے محبوب اور پسند ہے اور نہ اس کی مراد ہی ہے۔

قدریہ کہتے ہیں : اس نے جس چیز کا بھی امر کیا ہے، وہ اس کی مراد بھی ہے اور اس نے اسے چاہا بھی ہے۔ جیسا کہ وہ اسے محبوب اور پسند بھی ہے اور جس چیز کا اس نے امر نہیں کیا، نہ اسے چاہا اور نہ وہ اس کی مراد ہے۔ جیسا کہ وہ اسے محبوب اور پسند بھی نہیں ۔ بلکہ اس کی ملک میں وہ بھی ہے جسے اس نے نہیں چاہا، اور اس چیز کو بھی چاہا جو نہیں ہے۔

پھر ان جھمیہ مجبرہ پر جب یہ آیت تلاوت کی جاتی ہے:

﴿وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ﴾ (البقرۃ: ۲۰۵)

’’اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

اور فرمایا:

﴿وَلَا یَرْضَی لِعِبَادِہٖ الْکُفْرَ﴾ (الزمر: ۷)’’اور وہ اپنے بندوں کے لیے ناشکری پسند نہیں کرتا۔‘‘

تو کہتے ہیں کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ نہ تو اسے کفر و مفاد محبوب ہے، نہ اس نے ان کو چاہا ہے اور نہ ان کا ارادہ کیا ہے، اس سے کہ جس سے یہ پائے نہیں گئے یا یہ معنی ہے کہ اسے بطور دین کے کفر و فساد محبوب نہیں اور نہ اس نے ان کو اس اعتبار سے چاہا اور نہ ان کا ارادہ کیا۔ بایں معنی کہ وہ کفر و فساد والے کو ثواب نہیں دینا چاہتا۔

رہا واقع ہونے والا کفر، فسق اور عصیان تو ان کے نزدیک اسے وہ محبوب اور پسند ہے جیسا کہ اس نے ان کو چاہا ہے البتہ اسے کفر و عصیان والے کو ثواب نہیں دینا محبوب نہیں جیسا کہ اس نے کفر و عصیان والے کو ثواب دینا نہیں چاہا۔ ان کے نزدیک رب تعالیٰ کا کسی قوم کو تعذیب یا کسی کو انعام دینا کسی حکمت و سبب کے نہیں اور نہ بعض مخلوقات کے وہ قویٰ و طبائع ہیں جن کے ذریعے وہ حادث ہوا ہے اور نہ وہ کسی حکمت کی بنا پر حادث ہی ہوا ہے اور نہ اس کا امر و نہی کسی معنی کے لیے ہے اور نہ اس نے نبیوں اور فرشتوں کو ان میں پائے جانے والے کسی معنی کی وجہ سے ہی چنا ہے۔ نہ اس نے کسی معنی کی بنا پر طیبات کو حلال اور خبائث کو حرام ٹھہرایا ہے۔ جو معنی کہ حلال کو طیب اور حرام کو خبیث ٹھہراتا ہے اور نہ اس نے لوگوں کے اموال کی حفاظت کی خاطر چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ہے اور نہ اس نے حد سے اعتداء کرنے والے ڈاکوؤں کو اس لیے سزا دینے کا حکم دیا ہے کہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ظلم سے بچایا جائے اور نہ بارش اس لیے برسائی ہے کہ حیوانات پانی پئیں اور نباتات پانی سینچیں ۔

ان دونوں اقوال میں وہ تناقض ہے جو حد شمار سے باہر ہے۔ لیکن اس امامی نے جب اہل سنت کے اقوال کا مطلق تناقض ذکر کیا تو اس پر یہ واضح ہوا کہ جملہ قدریہ اپنے مقابل مجبرہ پر حجت قائم کرنے سے عاجز ہیں ، جیسا کہ روافض اپنے مقابل خوارج و تواصب پر اقامت حجت سے قاصر ہیں چہ جائیکہ کتاب و سنت کے متبعین، اہل استقامت و اعتدال پر حجت قائم کر سکیں ۔

اسی لیے ہم نے اس ان گنت فساد و تناقض کے بعض پہلوؤں پر تنبیہ کی ہے۔ ان اشعریہ وغیرہ اہل اثبات نے اپنے اصول میں ان کے تناقض کے بیان کو مشروع کیا اور ان کے اقوال کے تناقض کا استیعاب کیا۔

اشعری کی جبائی کے ساتھ تین بھائیوں کے بارے میں حکایت مشہور ہے کہ وہ رب تعالیٰ پر اس بات کو واجب ٹھہراتے تھے کہ وہ ہر بندے کے ساتھ وہی کرے جو اس کے دین کے لیے زیادہ مناسب ہے۔ وہی دنیا تو بغدادی معتزلہ اس کو بھی واجب کرتے ہیں ۔ البتہ بصری معتزلہ اسے واجب نہیں کرتے۔

چنانچہ اشعری نے جبائی سے کہا: فرض کرو کہ اللہ نے تین بھائی پیدا کیے۔ ان میں سے ایک تو نابالغی کی عمر میں ہی فوت ہو گیا۔ جبکہ دوسرے دو بلوغت کو پہنچ گئے۔ پھر ان میں سے ایک کافر بن گیا اور دوسرا ایمان لے آیا، سو کافر دوزخ میں اور مومن جنت میں جا پہنچا۔ لیکن اللہ نے اس بالغ بھائی کا درجہ نابالغ جنتی بھائی سے بلند کیا۔ تب اس نابالغ نے کہا: اے میرے رب! میرا درجہ بھی میرے بھائی جتنا کر دے ۔ رب تعالیٰ نے فرمایا: تم اس جیسے نہیں ہو، اس نے تو ایمان لا کرنیک اعمال بھی کیے تھے۔ جبکہ تو نے نابالغی کی وجہ سے نیک اعمال نہ کیے۔ اس نابالغ نے کہا: اے میرے رب! مجھے کم سنی میں موت تو نے دی۔ اگر تو مجھے زندہ رکھتا تو میں بھی اس جیسے نیک عمل کرتا۔ رب تعالیٰ نے فرمایا: میں نے تیری مصلحت کو پیش نظر رکھا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ اگر تو بلوغت کو پہنچتا تو کفر کرتا۔ اسی لیے میں نے تمہیں کم سنی میں ہی موت دے دی۔ اس پر وہ تیسرا دوزخ میں سے چلایا: اے اللہ! تو نے میرے ساتھ ایسا کویں نہ کیا جیسا کہ تو نے میرے اس کم سن بھائی کے ساتھ کیا؟ کہ بات تو میرے حق میں بھی مصلحت تھی؟

چنانچہ جب اشعری نے جبائی پر یہ اعتراض کیا تو وہ لا جواب ہو گیا۔ وہ اس لیے کہ یہ لوگ دو متماثلین میں رب تعالیٰ پر عدل کرنے کو واجب قرار دیتے ہیں اور یہ کہ وہ دونوں میں سے ہر ایک کے ساتھ وہ کرے جو اس کے لیے زیادہ مناسب ہو۔ جبکہ یہاں اس نے ان لوگوں کے نزدیک ایک کے ساتھ دوسرے سے زیادہ مناسب معاملہ کیا ہے۔ غرض یہ مقام اس کی تفصیل کا نہیں ۔

جب بات یہ ہے تو ان کا رب تعالیٰ کو مخلوق کے ساتھ تشبیہ دینا باطل ٹھہرا اور اِن کو اُن لوگوں نے یہ کہا: ہم اور تم اس بات پر تو متفق ہیں کہ رب تعالیٰ کے فعل کو اس کی مخلوق کے فعل پر قیاس نہ کیا جائے گا۔ اور ہم اور تم اس فاعل کو ثابت کرتے ہیں جو ایسا فعل کرتا ہے جو اس کی ذات سے منفصل ہوتا ہے، بغیر کسی ایسی شی کے جو اس کی ذات میں حادث ہیں ۔ حالانکہ مشاہدہ میں یہ بات غیر معقول ہے اور ہم ایسا فاعل ثابت کرتے ہیں جو ہمیشہ سے غیر فاعل ہو۔ یہاں تک کہ وہ کسی شی کے تجدد کے بغیر فعل کرتا ہے۔ حالانکہ مشاہدہ میں یہ بات بھی غیر معقول ہے۔

تم وہ غرض ثابت کرتے ہوجوایسے فاعل کو ثابت کرتی ہے جو ہمیشہ سے غیر فاعل ہو۔حتی کہ وہ کسی چیزکے تجدد کے بغیر فعل کرتا ہو۔ یہ بات بھی مشاہدہ میں غیر معقول ہے اور تم وہ غرض ثابت کرتے ہو جو مشاہدہ میں غیر معقول ہے۔ اور اس پر مستزاد اس بات کے بھی مدعی ہو کہ تم رب تعالیٰ کی ذات سے سفاہت کی نفی کرتے ہو اور اسے حکیم بھی ٹھہراتے ہو۔ حالانکہ جو تم ثابت کرتے ہو وہی تو رفاہت ہے جو کتاب و سنت اور حکمت کے مخالف اور مشاہدہ میں معقول ہے۔

تو جب بات یہ ہے تو تمہارا یہ قول کہ ہر وہ عاقل جو ایسی بات کا حکم دے جس کا اس نے ارادہ نہیں کیا اور ایسی بات سے روکے جس کا اس نے ارادہ کیا ہے کہ اس کی سفاہت کی طرف نسبت کی جائے گی، حالانکہ رب تعالیٰ اس بات سے منزہ اور پاک ہے۔

تو تمہیں یہ جواب دیا جائے گا کہ اگر تو یہ فاعل کوئی مخلوق ہے تو تم یہ کیوں کہتے ہو کہ خالق بھی اسی طرح ہے۔ حالانکہ ہم اس بات پر متفق ہیں کہ خالق اور مخلوق میں فرق ہے؟ اور مخلوق جلب منفعت اور دفع مضرت کی محتاج ہے۔ حالانکہ اللہ اس بات سے منزہ ہے اور بندہ مامور بھی ہے اور منہی بھی ہے۔

سو اگر تو تم لوگوں نے یہ قضیہ کلیہ کر کے لیا تو اس میں خالق بھی داخل ہو جائے گا۔ جبکہ عقلاء کا ماثور و منقول اجماع ہمیں اس بات سے روکتا ہے اور اگر تم یہ قضیہ مخلوق میں لیا تاکہ اس پر خالق کو قیاس کریں ، تو قیاسِ فاسد ہے۔ تمہیں یہقیاس کرنا صحیح نہیں نا اس لیے کہ یہ قیاسِ مشمول ہے یا اس لیے کہ یہ قیاسِ تمثیل ہے۔

اشعری نے ان لوگوں کو ایک اور یہ جواب دیا ہے کہ ہم اس بات کو ہی تسلیم نہیں کرتے کہ آدمی کا مطلق ایسی بات کا حکم دینا سفاہت ہے جس کا اس نے ارادہ نہیں کیا بلکہ بسا اوقات یہ حکمت بھی ہوتا ہے جب اس کا مقصود مامور کا امتحان لینا ہو تاکہ لوگوں کے سامنے اس کا عذر آ جائے اور اسے سزا نہ ملے۔ جیسے وہ آدمی جو اپنے غلام کو اس کی نا فرمانی پر سزا دے اور ملامت کرے۔ پھر وہ اپنا یہ عذر پیش کرے کہ یہ میرا نا فرمان ہے۔ پھر اس سے اس کی تحقیق کا مطالبہ کیا جائے اور وہ امتحان لینے کا حکم دے۔ اب اس وقت اس کا یہ ارادہ نہیں کہ وہ مامور بہ کو بجا لائے۔ بلکہ وہ چاہتا ہے کہ یہ نا فرمانی کر کے دکھائے تاکہ اس کا عذر مقبول ہو سکے۔

اس طرح سے اس نے اس نفس کلام کو ثابت کیا جسے وہ ثابت کرتا ہے اور یہ کہ نفس کے ساتھ قائم طلب نہ تو ارادہ ہے اور ارادہ کو مستلزم ہے۔ جیسا کہ اس نے خبر کے معنی کو ثابت کیا ہے کہ وہ اخبارِ کاذب کا علم نہیں ۔ سو اس نے ممتحنین کے امر اور کاذب کی خبر اعتماد کیا ہے۔

لیکن جمہور اہل سنت اس جواب سے مطمئن نہیں ۔ کیونکہ در حقیقت یہ امر نہیں ہے بلکہ اظہارِ امر ہے۔ اس طرح خبر کاذب کہ اس نے زبان سے وہ کہا ہے جو اس کے دل میں نہیں ۔ سو کاذب کی خبر اس کے دل کی خبر نہیں ۔ بلکہ یہ جی کی بات کا اظہار ہے۔ سو ممتحن کا امر اس مذاق کرنے والے کے امر کی طرح کا ہے کہ جس کے مذاق کو مامور نہیں جانتا۔

اسی لیے مامور نے امر ممتحن کو جان لیا تاکہ وہ اسے سزا دے اور یہ اس کی مراد نہیں ۔ مگر جبکہ وہ نا فرمانی کرے کہ اس حال میں وہ اس کی اطاعت کرے گا۔

پھر ممتحن کی بھی دو قسمیں ہیں : ایک وہ کہ جس کا قصد ہی یہ ہے کہ مامور اس کی نا فرمانی کرے تاکہ وہ اسے سزا دے۔ جیسے اوپر کی مثال میں ذکر ہوا اور دوسرا وہ کہ جس کی مراد مامور کی طاعت اور اس کا امتثالِ امر ہے۔ نا کہ نفس فعل ماموریہ۔ جیسے رب تعالیٰ کا حضرت خلیل کو اپنا بیٹا ذبح کرنے کا حکم دینا کہ یہاں مراد جنابِ ابراہیم علیہ السلام کی طاعت اور امتثالِ امر اور طاعت الٰہی میں اپنے بیٹے کو ذبح کر دینے کی پوری کوشش کرنا تھی اور یہ کہ رب تعالیٰ کی طاعت و محبت اور اس کی مراد انہیں اپنے بیٹے سے بھی زیادہ محبوب ہو۔ سو جب یہ مراد حاصل ہو گئی تو رب تعالیٰ نے فدیہ میں قربانی کا ایک عظیم جانور بھیجا۔ جیسا کہ ارشاد ہے:

﴿فَلَمَّا اَسْلَمَا وَتَلَّہُ لِلْجَبِیْنِo وَنَادَیْنَاہُ اَنْ یَّااِِبْرٰہِیْمُo قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا اِِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَo اِِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الْبَلَائُ الْمُبِیْنُo وَفَدَیْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍo﴾ (الصافات: ۱۰۳۔ ۱۰۷)

’’تو جب دونوں نے حکم مان لیا اور اسے پیشانی کے بل لیٹادیا ۔ اور ہم نے اسے آواز دی کہ اے ابراہیم! یقیناً تو نے خواب سچا کر دکھایا، بے شک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں ۔ بیشک یہی تو یقیناً کھلی آزمائش ہے ۔ اور ہم نے اس کے فدیے میں ایک بہت بڑا ذبیحہ دیا۔‘‘اس باب میں ان معانی کا جاننا بے حد مفید ہے جن میں شدید اضطراب واقع ہوا ہے۔