Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فصل:....راضی بہ رضا رہنے پر رافضی کا اعتراض اور اس کا جواب

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....راضی بہ رضا رہنے پر رافضی کا اعتراض اور اس کا جواب 

’’رب تعالیٰ کی قضا و قدر پر راضی رہنے‘‘ پر رافضی کا کلام اور اس کا ردّ۔

[شبہ ]یہ امامی قدری کہتا ہے: اور ایک بات یہ ہے کہ ’’اس سے رب تعالیٰ کی قضا پر ناراض ہونا لازم آتا ہے حالانکہ قضائے الٰہی پر راضی رہنا واجب ہے۔ لہٰذا اگر تو کفر رب کی قضاء و قدر سے ہے تو ہم پر واجب ہے کہ اس پر راضی رہیں ۔لیکن کفر پر رضا جائز نہیں ۔‘‘

[جواب ]: اس کے متعدد جوابات ہیں :

اوّل یہ کہ بے شمار اہل اثبات کا جواب یہ ہے کہ ہم یہ تسلیم ہی نہیں کرتے کہ رب تعالیٰ کی جملہ مقتضیات پر راضی رہنا واجب ہے کیونکہ اس کے وجوب پر کوئی دلیل نہیں ۔

علما کا مرض، فقر، اور ذلت پر راضی رہنے میں اختلا ہے کہ آیا یہ مستحب ہے یا واجب؟ امام احمد وغیرہ کے اس بارے دو اقوال ہیں ۔ جبکہ اکثر علماء کا قول ہے کہ مرض وغیرہ پر راضی رہنا مستحب ہے نا کہ واجب۔ کیونکہ رب تعالیٰ نے اہل رضا کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا ہے:

﴿رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ﴾ (البینۃ: ۸)

’’اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے۔‘‘

ہاں ! اللہ نے جو واجب کیا ہے، وہ صبر ہے۔ جس کا رب تعالیٰ نے متعدد آیات میں حکم دیا ہے۔ جبکہ مقدور پر راضی رہنے کا حکم نہیں دیا۔ ہاں مشروع رضا کا حکم دیا ہے۔

سو مامور بہ پر رضا واجب ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے:

﴿وَ لَوْ اَنَّہُمْ رَضُوْا مَآ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ وَ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ سَیُؤْتِیْنَا اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ وَ رَسُوْلُہٗٓ اِنَّآ اِلَی اللّٰہِ رٰغِبُوْنَ﴾ (التوبۃ: ۵۹)

’’اور کاش کہ واقعی وہ اس پر راضی ہو جاتے جو انھیں اللہ اور اس کے رسول نے دیا اور کہتے ہمیں اللہ کافی ہے، جلد ہی اللہ ہمیں اپنے فضل سے دے گا اور اس کا رسول بھی۔ بے شک ہم اللہ ہی کی طرف رغبت رکھنے والے ہیں ۔‘‘

جبکہ دوسرا قول رضا کے وجوب کا ہے کیونکہ یہ رب تعالیٰ کے رب ہونے پر راضی ہونا؛ اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہونے کی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہونے کی تمامیت میں سے ہے، کیونکہ ایک روایت میں آتا ہے: ’’جو میری قضاء پر راضی نہ ہو، اور میری آزمائش پر صبر نہ کرے تو میرے سوا کسی اور کورب بنا لے۔‘‘لیکن اس سے بھی حجت قائم نہیں ہوتی، کیونکہ رب تعالیٰ سے اس کا ثبوت معروف نہیں ۔

رہا اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر راضی ہونا اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہونا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہونا۔ تو یہ واجب ہے اور یہ وہ رضا ہے جس پر کتاب و سنت کی دلالت ہے۔

رہا رب تعالیٰ کی جملہ مخلوقات اور تقدیر پر راضی رہنا تو کتاب و سنت کی اس پر کوئی دلالت نہیں اور نہ اسلاف میں سے کسی کا بہ قول ہے۔ بلکہ اللہ نے اس بات کی خبر دی ہے کہ وہ متعدد امور پر راضی نہیں حالانکہ وہ امور اسی کے پیدا کیے ہوئے ہیں ۔ جیسا کہ ارشاد ہے:

﴿وَلَا یَرْضَی لِعِبَادِہٖ الْکُفْرَ﴾ (الزمر: ۷)

’’اور وہ اپنے بندوں کے لیے ناشکری پسند نہیں کرتا۔‘‘

اور فرمایا:

﴿اِذْ یُبَیِّتُوْنَ مَا لَا یَرْضٰی مِنَ الْقَوْلِ﴾ (النسآء: ۱۰۸)

’’جب وہ رات کو اس بات کا مشورہ کرتے ہیں جسے وہ پسند نہیں کرتا۔‘‘

ہم نے ایک مستقل کتاب میں رضا بالقضا کی بابت مفصل کلام کیا ہے اور بتلایا ہے کہ اس باب میں لوگ کیونکر مختلف فرقوں میں بٹ گے۔ سو ایک فرقہ یہ گمان کرنے لگا کہ وہ رب تعالیٰ کی حام کردہ باتوں پر اس لیے راضی ہیں کیونکہ یہ اللہ کی قضا ہے اور ایک فرقہ رب تعالیٰ کی قضاء و قدر کا اس لیے منکر ہو گیا کیونکہ اس سے اس پر راضی ہونا لازم آتا ہے اور ان فرقوں کی بنا اس بات پر تھی کہ رب تعالیٰ کی جملہ مخلوقات پر رضا مامور بہ ہے۔ حالانکہ بات یوں نہیں ۔ بلکہ رب تعالیٰ بے شمار حوادث سے محبت یا بغض یا ناراضی رکھتا ہے اور ہم کو بھی اللہ نے ان امور سے بغض و ناگواری رکھنے کا حکم دیا ہے۔

دوم : یہ کہا جائے کہ رب تعالیٰ جن باتوں پر خود راضی ہے ان سے راضی ہونا مشروع ہے۔ اب اللہ نے اس بات کی خبر دی ہے کہ وہ فساد اور کفر کو پسند نہیں کرتا اور اسی طرح راتوں کی خفیہ سازشانہ سرگوشیوں کو بھی پسند نہیں فرماتا اور یہ بات بندوں کے اقوال میں بھی موجود ہے اور اللہ نے بھی خبر دی ہے کہ وہ ان باتوں کو پسند نہیں فرماتا تو جب ایک بات سے وہ خود راضی نہیں ، اس سے راضی رہنے کا حکم وہ اپنے بندوں کو کیونکر دے سکتا ہے؟ بلکہ یہ بات واجب ہے کہ جن باتوں سے اللہ ناراض ہے اور انہیں ناپسند فرماتا ہے، بندے بھی ان باتوں سے ناراض ہوں اور انہیں ناپسند کریں اور جن باتوں پر اللہ راضی ہے بندے بھی ان باتوں پر راضی ہوں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ اتَّبَعُوْا مَا اَسْخَطَ اللّٰہَ وَکَرِہُوا رِضْوَانَہٗ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَہُمْ﴾ (محمد: ۲۸)

’’یہ اس لیے کہ بے شک انھوں نے اس چیز کی پیروی کی جس نے اللہ کو ناراض کر دیا اور اس کی خوشنودی کو برا جانا تو اس نے ان کے اعمال ضائع کر دیے۔‘‘

سو رب تعالیٰ نے اس آیت میں ان لوگوں کی مذمت بیان کی ہے جو اس کی ناراضیوں پر چلتے ہیں اور اس کی رضاسے کتراتے ہیں اور ان کی مذمت بیان نہیں کی جو اس کی ناراضیوں کو ناپسند کرتے ہیں اور اس کی رضا پر چلتے ہیں ۔

جب یہ کہا جائے گا کہ بھلا رب تعالیٰ اپنی قدر و قضا پر کیونکر ناراض ہو سکتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں وہ ایسا کر سکتا ہے جیسا کہ گزشتہ میں بیان ہوا۔جبکہ اکثر کے طریق پر اس لیے کہ مقضی ایسی شی ہے جو اس نے بنائی ہے اور ان کے نزدیک بغض یہ ارادہ کے مغایر ہے۔

رہا اقل کا طریق تو وہ یہ کہتے ہیں کہ: رب تعالیٰ کی ناراضی اور بغض یہ اس کا فاعل کے عقوبت کا ارادہ کرنا ہے اور رہے ہم تو ہم اس بات کے مامور ہیں کہ ہم منہی عنہ سے کراہت کریں ۔ لیکن اس قول پر جواب پہلے جواب کی طرف لوٹتا ہے۔ کیونکہ ان کے نزدیک رب تعالیٰ کا کسی شی کا نفس ارادہ کرنا اور اسے پسند کرنا اور اسے محبوب رکھنا کہ اللہ نے بندے کو اس بات کا حکم دیا ہے کہ وہ اسے ناپسند کرے، اس سے بغض رکھے اور اس پر ناراض ہو۔ سو یہ لوگ کہتے ہیں ہر مقدورِ مقضی ضروری نہیں کہ وہ ایسا مامور بھی ہو کہ جس پر راضی ہوتا ہے۔

سوم : یہ کہا جائے کہ گزشتہ میں یہ بات گزر چکی ہے کہ رب تعالیٰ جو کرتا ہے وہ کسی حکمت کے تحت ہوتا ہے۔ اور جو معاصی اور عقوبات بندوں کو ضرر پہنچاتے ہیں ان کے پیدا کرنے میں بھی حکمت ہوتی ہے اور انسان کبھی ناگوار فعل بھی کر جاتا ہے جیسے کڑوی دوا پینا۔ کیونکہ اس میں وہ حکمت ہوتی ہے جو چاہتا ہے۔ جیسے صحت اور عافیت، سو یہ دوا پینا ایک اعتبار سے اگر محبوب ہے تو دوسرے اعتبار سے مکروہ ہے۔ پس بندہ رب تعالیٰ کی اس امر میں موافقت کرتا ہے کہ وہ گناہوں کو برا جانتا ہے اور ان سے بغض رکھتا ہے۔ کیونکہ گناہ رب تعالیٰ کو مبغوض و مکروہ ہوتے ہیں اور وہ اس حکمت پر راضی رہتا ہے جس کی بنا پر رب تعالیٰ نے ان کو پیدا کیا ہوتا ہے۔ لہٰذا بندے کے فعل کے اعتبار سے یہ مکروہ اور مسخوط ہے جبکہ رب تعالیٰ کے پیدا کرنے کے اعتبار سے یہ محبوب و پسندیدہ ہے۔ کیونکہ رب تعالیٰ نے اسے ایک حکمت کے تحت پیدا کیا ہے اور بندہ اسے کرتا ہے حالانکہ وہ اس کے لیے مضر ہوتا ہے اور موجب عذاب ہوتا ہے۔ سو ہم ان کا انکار کرتے ہیں ، ان کو ناپسند کرتے ہیں اور ان سے روکتے ہیں ۔ جیسا کہ اللہ نے ہمیں ان کا حکم دیا ہوتا ہے۔ کیونکہ خود اللہ بھی ان سے ناراضی اور بغض رکھتا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ اللہ نے ان کو ایک حکمت کے تحت پیدا کیا ہے۔ سو ہم اس کی قضاء و قدر پر راضی ہوتے ہیں ۔

سو جب ہم اس پہلو کو ملحوظ رکھتے ہیں کہ یہ اللہ کی قضا و قدر ہے تو ہم اللہ پر راضی ہو کر اس کے حکم کو تسلیم کر لیتے ہیں ۔ رہا یہ پہلو کہ ان کو بندہ کرتا ہے تو ہم ضرور اسے ناپسند کریں گے، اسے روکیں گے اور حتی الامکان اسے دور کریں گے۔ کہ اللہ کو ہم سے یہ بات محبوب ہے اور اللہ جب کافروں کو ہم پر مسلط کرتا ہے تو اسے اللہ کی قضاء جانتے ہوئے اس پر راضی رہیں گے اور ان بھگانے میں اور ان سے لڑنے میں پوری کوشش کریں گے اور دونوں میں سے کوئی ایک امر دوسرے کے منافی نہیں ۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے چوہا، سانپ اور کٹ کھنا کتا پیدا کیا ہے اور پھر ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ان کو مار ڈالیں ۔ جب اللہ نے ان کو پیدا کیا تو ہم اس پر راضی ہیں اور جانتے ہیں کہ اس میں اس کی کوئی حکمت ہو گی اور اس کے حکم پر انہیں قتل بھی کریں گے۔ کیونکہ اللہ کو یہ بات محبوب اور پسندہے۔بعض نے ایک اور جواب بھی دیا ہے، وہ یہ کہ: ہم قضاء پر تو راضی ہیں البتہ مقضی پر نہیں اور ایک جواب یہ بھی دیا گیا ہے کہ ہم ان باتوں پر رب تعالیٰ کی مخلوق ہونے کے اعتبار سے تو راضی ہیں البتہ ان کے کسب ہونے کے اعتبار سے ان پر ناراض ہیں ۔

لیکن یہ جواب تیسرے جواب کی طرف لوٹتا ہے البتہ کسب کا اثبات اس وقت ہے جب اس نے بندے کو فاعل نہ بنایا ہو۔ اس پر ایک دوسرے مقام میں مفصل گفتگو کی جا چکی ہے۔

سو جن لوگوں نے بندے کو کاسب بنایا ہے ناکہ فاعل۔ جیسے جھم صفوان، حسین نجار، ابو الحسن اشعری اور ان کے پیروکار کہ ان کا کلام متناقض ہے۔ اسی لیے یہ لوگ اس کسب پر اور کسب اور فعل کے درمیان فرق پر کوئی معقول گفتگو نہیں کر سکتے۔ سو کبھی تو یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ وہ قدرتِ حادثہ کے ساتھ مقدور ہے اور کبھی یہ کہتے ہیں کہ وہ محل قدرت یا قدرتِ حادثہ کے محل کے ساتھ قائم ہے۔

جب ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ قدرتِ حادثہ کیا ہے؟ تو کہتے ہیں کہ جو محل کسب کے ساتھ قائم ہو۔ وغیرہ وغیرہ کہ یہ عبادات اور جوابات دور کو مستلزم ہیں ۔

پھر ان لوگوں کا یہ قول بھی ہے کہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ مختار کی حرکت اور رعشہ زدہ کی حرکت میں فرق ہے۔ بے شک یہ بات درست ہے لیکن یہ بات خود ان کے خلاف حجت ہے کیونکہ یہ فرق اس بات سے روکتا ہے کہ دونوں میں سے ایک دوسرے کو چھوڑ کر مراد ہو۔ کیونکہ یہ بات ممکن ہے کہ انسان دوسرے کے فعل کا ارادہ کرے۔ سو یہ فرق اس بات کی طرف لوٹے گا کہ بندے کی دونوں میں سے ایک پر قدرت ہے جس کے ذریعے فعل حاصل ہوتا ہے نا کہ دوسرا۔ اور فعل کسب ہے اور ایک ہی محل میں ایسی دو چیزیں معقول نہیں کہ دونوں میں سے ایک فعل ہو اور دوسری کسب۔

اہل سنت کا تقدیر پراور شیطان سے پناہ جوئی:

[اعتراض]: [شیعہ مضمون نگار مزید لکھتا ہے]:اہل سنت کے بقول یہ لازم آتا ہے کہ ہم اللہ کی گرفت سے ڈر کر ابلیس لعین کی پناہ میں آئیں ، جبکہ یہ آیت قرآنی:﴿فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ﴾ (النحل: ۹۸)’’پس تم شیطان مردودسے اللہ کی پناہ مانگو‘‘کے صریح منافی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل سنت کفار و ابلیس کو گناہوں سے منزہ قرار دے کر انہیں اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ، بنا بریں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حق میں ابلیس سے بھی بدتر ہے۔تعالیٰ اللّٰہ عن ذلک۔‘‘ [انتہیٰ کلام الرافضی]

[جواب]: جواباً عرض ہے کہ یہ کلام کئی وجوہات کی بنا پر ساقط عن الاحتجاج ہے:

پہلی وجہ :....چونکہ اس کی دو ہی صورتیں ممکن ہیں :

۱۔ پہلی صورت یہ ہے کہ ابلیس نے کچھ افعال انجام دیے ہوں گے۔

۲۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس نے کوئی کام نہ کیا ہو۔بصورت ثانی اس کی پناہ حاصل نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے کہ جب ابلیس سرے سے کوئی کام ہی انجام نہیں دیتا تو وہ کسی کو پناہ بھی نہیں دے سکتا اور اگر بصورت اول وہ بعض افعال کا مرتکب ہوچکا ہے، تو وہ گناہوں سے منزہ نہیں ہو سکتا، لہٰذا اعتراض دونوں صورتوں میں باطل ہے خواہ تقدیر کا اثبات کیا جائے یا نفی۔ پس معلوم ہوا کہ یہ ایسے انسان کا اعتراض ہے جو دونوں اقوال سے غافل ہے۔ اسی طرح ابلیس کا فعل نہ ہونے کی تقدیر پر ہے کہ اب اس کا کوئی شر نہ ہو گا کہ یہ کہا جائے کہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا اس سے زیادہ شریر ہے چہ جائیکہ یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ ابلیس سے زیادہ شر والا ہے۔

لہٰذا اس بات کا دعویٰ کہ:’’ انہیں یہ بات لازم آتی ہے کہ اللہ ان پر ابلیس سے زیادہ شر والا ہو‘‘ ایک باطل دعویٰ ہے کیونکہ زیادہ سے زیادہ یہ جبر محض کاعقیدہ ہے جیسا کہ جھم اور اس کے شیعہ کے بارے میں حکایت نقل کیجاتی ہے ۔اور اس قول کی غایت یہی ہے کہ ابلیس وغیرہ کی کوئی قدرت و مشیئت اور فعل نہیں ہے۔ بلکہ ابلیس کی حرکت ہوا کی حرکت کی طرح ہے۔ اس تقدیر کی بنا پر ابلیس میں نہ خیر ہے اور نہ شر؛ اور اس سب کا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔ سو اس تقدیر کی بنا پر یہ کیونکر کہا جا سکتا ہے کہ رب تعالیٰ کی بعض مخلوق اس سے زیادہ شر والی ہے۔

دوسری وجہ:....یہ ہے کہ ابلیس سے پناہ جوئی اس صورت میں مستحسن ہے جب وہ پناہ دینے پر قادر ہو، خواہ اللہ تعالیٰ کو افعال العباد کا خالق قرار دیا جائے یا نہیں ۔

یہ امر قابل غور ہے کہ اس کتاب کا شیعہ مصنف اور اس کے ہم نوا منکرین تقدیر یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ:

٭ ابلیس وہ کام انجام دیتا ہے، جو اللہ تعالیٰ نے اس کی تقدیر میں نہیں لکھے۔

٭ نیز یہ کہ ابلیس بلا ارادہ الٰہی بھی بعض افعال کا مرتکب ہوتا ہے۔

٭ اور رب تعالیٰ کی بادشاہی میں وہ بھی ہوتا ہے جو اس نے نہیں چاہا۔

٭ اور یہ کہ رب تعالیٰ ابلیس اور دوسرے زندوں کوحرکت دینے پر قادر نہیں ۔

٭ وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو نیک عمل سے ہٹا کر برے کام پر نہیں لگا سکتا اور نہ یہ قدرت رکھتا ہے کہ افعال قبیحہ سے ہٹا کر نیک اعمال پر لگا دے۔

ان سب اقوال کے باوجود جو یہ لوگ ابلیس کے لیے ثابت کرتے ہیں نا کہ اللہ تعالیٰ کے لیے۔ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ابلیس اللہ کے مقابلے میں کسی کو پناہ دینے کی اور کسی کو بچانے کی قدرت نہیں رکھتا۔ اس بنا پر ابلیس سے استعاذہ ممتنع ٹھہرا اور اگر، معاذ اللہ! اس بات کو فرض کر لیا جائے کہ یہ لوگ جو لازم کرتے ہیں کہ مخلوق پر کوئی ابلیس سے بھی زیادہ شر ہو سکتا ہے اور وہ اس کے باوجود رب تعالیٰ کی قضا و قدر کو ہٹا دینے سے عاجز ہے تو پھر شیطان سے بلکہ کسی بھی مخلوق سے پناہ مانگنے والا بے یار و مددگار رہ جائے گا۔ جیسا کہ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا اٰخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُوْمًا مَّخْذُوْلًاo﴾ (الاسراء: ۲۲)

’’اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود مت بنا، ورنہ مذمت کیا ہوا، بے یارومددگار ہوکر بیٹھا رہے گا۔‘‘اور فرمایا:

﴿قُلْ مَنْ بِیَدِہِ مَلَکُوتُ کُلِّ شَیْئٍ وَّہُوَ یُجِیرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْہِ اِِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo سَیَقُوْلُوْنَ لِلَّہِ قُلْ فَاَنَّا تُسْحَرُوْنَo﴾ (المومنون: ۸۸۔ ۸۹)

’’کہہ کون ہے وہ کہ صرف اس کے ہاتھ میں ہر چیز کی مکمل بادشاہی ہے اور وہ پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں پناہ نہیں دی جاتی، اگر تم جانتے ہو؟ ضرور کہیں گے اللہ کے لیے ہے۔ کہہ پھر تم کہاں سے جادو کیے جاتے ہو؟‘‘

اور فرمایا:

﴿مَثَلُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْلِیَآئَ کَمَثَلِ العنکبوت اِتَّخَذَتْ بَیْتًا وَ اِنَّ اَوْہَنَ الْبُیُوْتِ لَبَیْتُ العنکبوت لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَo﴾ (العنکبوت: ۳۱)

’’ان لوگوں کی مثال جنھوں نے اللہ کے سوا اور مددگار بنا رکھے ہیں مکڑی کی مثال جیسی ہے، جس نے ایک گھر بنایا، حالانکہ بے شک سب گھروں سے کمزور تو مکڑی کا گھر ہے، اگر وہ جانتے ہوتے۔‘‘

تیسری وجہ: صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سجدوں میں یہ دعا مانگا کرتے تھے:

((اَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوْبَتِکَ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ لا أحصی ثنائً علیک ؛ أنت کما أثنیت علی نفسک ۔ )) [صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب ما یقال فی الرکوع والسجود، (حدیث:۴۸۶)]

’’اے اللہ! میں تیرے رضا کے طفیل تیری ناراضی سے (پناہ مانگتا ہوں ) اور تیری معافی کے طفیل تیری عقوبت سے اور تیرے طفیل تجھ سے پناہ مانگتا ہوں ۔ میں تیری ثناء شمار نہیں کر سکتا تو ویسا ہی ہے جیسا کہ تو نے خود اپنی تعریف بیان کی ہے۔‘‘

ایک روایت میں یہ بھی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا وتروں میں پڑھا کرتے تھے۔ اس حدیث سے مستفاد ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی بعض صفات و افعال کے ساتھ اس کی بعض دوسری صفات اور افعال سے پناہ طلب کیا کرتے تھے۔ گویا اللہ تعالیٰ کے عقاب و عتاب سے خود اسی کی پناہ طلب کرتے تھے، پھر یہ کیونکر منع ہوا کہ اس کی بعض مخلوقات کی ایذا سے اس کی پناہ طلب کی جائے۔

چوتھی وجہ:....یہ کہا جائے گاکہ: اہل سنت کے ہاں اس بات میں کوئی قباحت نہیں پائی جاتی کہ بندہ اپنے رب کی پناہ طلب کرکے اور اسے پکار کر اپنی حاجات و ضروریات مطلوبہ کے پانے یا مرہوب کے دفع کرنے کا سبب بنے جیسے وہ اعمال صالحہ جن کا حکم وارد ہوا ہے۔ سو اہل سنت جب رب تعالیٰ سے شیطان مردود سے پناہ مانگتے ہیں تو ان کا نفس استعاذہ اس بات کا سبب ہوتا ہے کہ رب انہیں شیطان سے پناہ دے دیتا ہے۔٭ ہم نے بعض ظلم و ستم پر قادر لوگوں کو دیکھا ہے کہ جب وہ ظلم و عدوان سے کسی کے ضرر کا حکم دیتے ہیں اور تب ان سے کوئی پناہ مانگ لے اور ان کے آگے عاجزی و زاری کرنے لگے تو اس پر ہونے والے ظلم کو روک دینے کا حکم دے دیتا ہے۔ پھر رب تعالیٰ کے لیے تو اونچی مثال ہے۔ وہ تو ظلم و ستم سے منزہ ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے کہیں زیادہ مہربان ہے جتنی والدہ اپنی اولاد پرمہربان ہوتی ہے، لہٰذا اسباب شر سے اس کی پناہ طلب کرنا عین قرین ِعقل و دانش ہے۔

دوسرا طریق:....ارباب ِعلت و حکمت کا قول ہے کہ:’’اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو اسی طرح پیدا کیا جس طرح سانپوں ، بچھوؤں اور آگ جیسی موذی اشیاء کو۔ کیونکہ ان کی تخلیق گہری حکمت و مصلحت پر مبنی ہے۔ اس کے پہلو بہ پہلو اس نے حکم دیا ہے کہ ہم امکانی حد تک اپنے سے ضررو ایذا کو دور کریں جس کا سب سے بڑا ذریعہ یہ ہے کہ اس کے دامن حکمت و رحمت میں پناہ لی جائے۔‘‘

[اہل سنت پر شیعہ مصنف کا افتراء]:

[اشکال ]: چھٹی وجہ: شیعہ مضمون نگار کا کہنا ہے کہ:’’ اہل سنت کے یہاں کافر و ابلیس گناہوں سے پاک ہیں ، اور ان کو اللہ کی طرف منسوب کر دیا ہے وغیرہ وغیرہ۔‘‘

[جواب]: یہ صریح قسم کا بہتان ہے۔ بخلاف ازیں اہل سنت بالاتفاق یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ معصیت کا ارتکاب کرنے والا عاصی اور قابل مذمت ہے۔ نیز یہ کہ افعال کے ساتھ اس شخص کو موصوف کر سکتے ہیں جو ان کو انجام دیتا ہو، پیدا کرنے والے کو نہیں ۔ تو جب ان باتوں کا ارادہ سے تعلق بھی نہ تھا۔ جیسے ذائقے اور رنگ کہ ان سے متصف ان کے محل ہوتے ہیں نا کہ ان کا خالق تو پھر افعالِ اختیاریہ کا کیا حال ہو گا؟

رب تعالیٰ نے جب ان فواسق کو پیدا فرمایا: جیسے سانپ، بچھو، پاگل کتے وغیرہ، اور ان کو فواسق قرار دیا تو کیا رب تعالیٰ ان سے موصوف بھی کہلائے گا؟ اور جب اس نے خبیث چیزوں کو پیدا کیا جیسے نجاستیں ، گندیاں ، خون اور شراب وغیرہ اور ان اشیاء کو خبیث کو ٹھہرایا تو کیا وہ ان اشیاء سے متصف بھی ٹھہرے گا؟ بھلا کہاں اس صفت کی اس موصوف کی طرف نسبت جو اس موصوف کے ساتھ قائم ہے اور کہاں اس مخلوق کی اپنے خالق کی طرف نسبت؟ جوان دونوں فرقوں کو نہ سمجھے تو سمجھ لو کہ اس سے انسانیت مسلوب ہو چکی ہے۔

ساتویں وجہ:....یہ کہ رب تعالیٰ نے ہمیں عذابِ قبر اور عذابِ جھنم وغیرہ سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے جن کے مخلوق ہونے پر سب مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ تو معلوم ہوا کہ رب تعالیٰ کے پیدا کردہ شر سے پناہ مانگنے میں کوئی امتناع نہیں ۔ جیسا کہ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الفلقo مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَo﴾ (الفلق: ۱۔ ۲)

’’تو کہہ میں مخلوق کے رب کی پناہ پکڑتا ہوں ۔ اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی۔‘‘

اور اس باب میں ابلیس اور دوسری مخلوقات میں کوئی فرق نہیں ۔