Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فلاسفہ کا عقیدہ : فعل کا عدم کے بعد وجود میں آنا

  امام ابنِ تیمیہؒ

فلاسفہ کا عقیدہ : فعل کا عدم کے بعد وجود میں آنا 

اکثر فلاسفہ اس بات کے قائل ہیں کہ فعل وہ صرف اور صرف عدم کے بعد ہی وجود میں آتا ہے کیونکہ کسی بھی مفعول کا وجود اس کے عدم کے بعد ہی معقول ہے ظاہری نظر میں تو فلاسفہ کسی فعل کے علل میں سے منجملہ عمل کو بھی ایک علت قرار دیتے ہیں اور وہ عدم کومنجملہ مبادی کے قرار دیتے ہیں اور ان کے نزدیک اعراض کے اجناسِ عالیہ میں سے منجملہ فعل اور انفعال ہے یعنی اثر کرنا اور دوسرے کا اثر قبول کرنا ۔

پس اگر یہ کہا جائے کہ باری تعالیٰ نے عالم میں سے کوئی فعل صادر کر لیا تو یہ لازم آئے گا کہ فعل اس کی ذات کے ساتھ فعل قائم ہو اور اس کے ساتھ ایسی صفات قائم ہونگی جن کو اعراض کی صفات کہا ہے اور یہ بات بھی لازم آئے گی کہ فعل ایک ایسے عدم کے بعد ہی وجود میں آتا ہے جومفعول کے وجود کے ساتھ قدیمِ ازلی نہیں بن سکتا۔

انہوں نے یہ کہاہے کہ چونکہ حرکت ،تغیر اورفعل سب کے سب عدم کی طرف محتاج ہیں اور عدم توان کی طرف محتاج نہیں لہٰذا عدم ہی اس اعتبار سے مبدأ ٹھہرا اور ان کی مراد یہ ہے کہ وہ اس میں شرط ہے اس لیے کہ اس کے بغیر کوئی بھی حرکت اور فعل اور اس کے امثال وجود میں نہیں آتے مگر عدم کے بعد ۔اور رہا اس چیز کا عدم جو موجود ہے اور یا عدمِ مستمرجیسے کہ کسی مستکمل کا عدم۔ جو کہ اس سے پہلے معدوم تھا پھر اس کے لیے حاصل ہوا پس یہ متغیر ،مستکمل ،متحرک اور مفعول یہ سب کے سب عدم کی طرف محتاج ہوئے اور عدم تو ان کی طرف محتاج نہیں پس عدم اس اعتبار سے مبدأ ٹھہرا اور اسی وجہ سے فعل اور وہ انفعال جو عالم میں معروف ہیں وہ امر ہے جو فاعل اور فعل کی تاثیر سے حادث ہوتے ہیں اور وجو د میں آتے ہیں ،کوئی بھی فعل اور کوئی بھی انفعال بغیر کسی سبب کے حدوث کے معقول نہیں ۔

اس بات پر ابن سینا اور دیگر فلاسفہ کے دلائل کہ فعل میں عدم کا تقدم ضروری نہیں
پہلی دلیل اور اس پر رد 

متاخرین فلاسفہ میں سے یہ چھوٹی سی جماعت جن کا عقیدہ ہے کہ فعل کے اندر عدم کا تقدم شرط نہیں انہوں نے اس کے لیے ایسے دلائل ذکر کیے ہیں جن کو ابن سینا اور دیگر متاخرینِ فلاسفہ نے ذکر کر دیا ہے اور امام رازی نے اپنے مباحثِ مشرقیہ میں ان کو تفصیل سے ذکر کیا ہے اور اس میں اس نے وہ باتیں بھی ذکر کی ہیں جس کو دس براہین کا نام دیا ہے وہ سب کے سب باطل ہیں پس اس نے کہا کہ :

۱۔ پہلی دلیل یہ ہے کہ عدمِ سابق کی طرف جو چیز محتاج ہوتی ہے یا تو وہ فعل کا وجود ہے یا اس کے اندرفاعل کی تاثیر ہے ۔یہ بات تومحال ہے کہ عدمِ سابق کی طرف فعل کا وجود محتاج ہو اس لیے کہ فعل اپنے وجود میں عدم کی طرف محتاج ہو جائے تو عدم اس کے مقارن ہوگا۔

ایسا عدم جو فعل کے ساتھ مقارن اور متصل ہو وہ اس کے وجود کے منافی ہے اور یہ بات محال ہے کہ محتاج علیہ فاعل کی تاثیر بنے اس لیے کہ فاعل کی تاثیر کیلئے ضروری ہے کہ وہ اصل کے ساتھ مقارن اور متصل ہو اور اصل کا پایا جانا اس کے عدم کے منافی ہے۔ اور ایسی شے کا منافی ہے کہ جس کا مقارن ہونا ضروری ہے۔ تو اس کا منافی ہونا بھی واجب ہے اور منافی کبھی بھی شرط نہیں بن سکتا ۔ پس نہ تو فعل اپنے وجود میں موجود اور حاصل ہوا اور نہ فاعل اپنے موثر ہونے میں عدمِ منافی کی طرف محتاج ہوا۔ پس جواب میں کہا جائے گا کہ مفعول یا فاعل کے فعل کا عدم کی طرف محتاج ہونے سے یہ مراد نہیں ہے کہ عدم اس میں موثر ہے تاکہ اس پر تفریع کرتے ہوئے اس بات کو ثابت کیا جائے کہ اس کا اس کے ساتھ مقارنت ضروری ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ عدم کے بعد ہی وجود میں آتا ہے جس طرح کہ انہوں نے کہا ہے کہ عدم منجملہ مبادی کے ہے چاہے اسے مطلقِ فعل یا حرکتِ تغیر یا استکمال کے لیے مبدا قرار دیا جائے پس مقصود تو یہ ہے کہ انہوں نے اس کو اس معنی پر عدم کی طرف محتاج قرار دیا کہ وہ کسی شے کے عدم کے بعد ہی وجود میں آتا ہے ،اس معنی پر نہیں کہ عدم اس کے ساتھ مقارن ہے ۔

یہ بات تو معلوم ہے کہ جب یہ کہا جائے کہ حرکت ہمیشہ دھیرے دھیرے وجود میں آتی ہے مگر آواز کا بھی تویہی حال ہے لہٰذا اس میں سے جو بھی جزء حادث ہوگا یعنی وجود میں آئے گا وہ اپنے ماقبل کے وجود پر موقوف ہوگا اگرچہ اس کے ساتھ مقارن نہ ہو اور یہ بات بھی (مسلم ہے )کہ معدوم شے جب اپنے وجود کے بعد دوبارہ معدوم ہو جائے تو یہ عدمِ حادث بھی تو اس وجودِ سابق کی طرف محتاج ہے حالانکہ اس کے مقارن نہیں یعنی مقارن ہونا ضروری نہیں اور نیز یہ جو بات انہوں نے کہی ہے اس کے ذریعے ان پر ہر حادث میں اس بات کا الزام آئیگا اس لیے کہ ہر شے جو حادث ہوتی ہے وہ عدم کے بعد ہی حادث ہوتی ہے پس اس کا حدوث موقوف ہوا اپنے اس  عدمِ سابق پر جو اس کے وجود سے پہلے ہے باوجود یہ کہ وہ عدم اس کے ساتھ مقارن نہیں ۔

اگر یہ اپنی حجت کو عام کردیں تو ان پر اس بات کا الزام آئے گا کہ کوئی بھی حادث وجود میں نہ آئے اور یہ تو مکابرہ ہوا اور قد معالم سے متعلق اکثر دلائل میں ان کا یہی حال ہے ۔ اس لیے کہ ان کا مقتضیٰ تو یہ ہے کہ کوئی شے بھی وجود میں نہ آئے حالانکہ عالم میں حوادث کا حدوث معاین اور ایک امر مشاہدہے یعنی دیکھا جاتا ہے پس ا ن کے دلائل کا حال وہی ہے جو سفسطائی دلائل کا ہے ۔

ازل میں مؤثر تام ہونے سے ان کی طرف سے پیش کی جانے والی ادلہ میں سے بڑی دلیل جس سے یہ اس بات پر استدلا ل کرتے ہیں کہ ہر مؤثر تام اپنے اثر کو مستلزم ہوتاہے ہیں یقیناً اس کامقتضیٰ یہ ہے کہ کوئی بھی شے حادث نہ ہو اور یہ واضح گمراہی ہے کیونکہ انہوں نے موثرِمطلق اور صرف ممکنا ت میں موثر کے درمیان فرق نہیں کیا پھر جب انھو ں نے کہا کہ اس کا موثر ہونا یا تو اس کی ذاتِ مخصوصہ کی وجہ سے ہے یا اس کے ساتھ کسی امر لازم کی وجہ سے ہے یا امرِ منفصل کی وجہ سے ہے اور ثالث تو ممتنع ہے کیونکہ وہ منفصل تو اس کے منجملہ آثار میں سے ہے لہٰذایہ بات ممتنع ہوئی کہ وہ اس پر موثر قرار پائے کیونکہ علل میں دور ممتنع ہے اور اول اور ثانی تقدیر پر تو اس کے موثر ہونے کا دوام لازم آئے گا ۔

تو ان کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ اس کے ممکن ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ ہر اس شے کے وجود میں موثر ہے جو اس سے صادر ہوتی ہے اور اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ وہ عالم میں کسی شے معین میں موثر ہے اور اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ وہ فی الجملہ موثر ہے مثال کے طور پر وہ ایک شے کے بعد دوسرے میں موثر بنتے ہیں ۔ اول اور ثانی توازل میں ممتنع ہیں خاص طور پر اول ،اس لیے کہ اس کا کوئی بھی عاقل قائل نہیں (اول سے مراد ہے اس کی ذات مخصوصہ کی وجہ سے موثر بننا ) اورازل میں ہر شے میں اس کی تاثیر پر کوئی حجت دلالت نہیں کرتی اور نہ ہی ازل میں کسی شے معین کے اندر تاثیر پر دلالت کرتی ہے ،رہی تیسری بات تو یہ ان کے اندر قول کے منافی اور ضد ہے ،ان کے موافق نہیں بلکہ یہ تو اس کے ماسوا ہر شے کے حدوث کا تقاضا کرتی ہے اس لیے کہ جب اس ذات کی تاثیر اس کی ذات کے لواز م میں سے ہے حالانکہ عالم میں حوادث نظر آرہے ہیں یعنی تواتر سے ثابت ہیں اور روزمرہ دیکھے جاتے ہیں بلکہ صفتِ احداث ہی کے ساتھ تاثیر معقول ہے لہٰذا احداثِ ثانی اول کے سابقیت کے ساتھ مشروط ہوا یعنی اول سابق بنے تو تب دوسرااحداث وجود میں آئے گا اور اسی طرح اس کے انقضا ء (اختتام)کے ساتھ مشروط ہوا اوریہ شیئاً فشیئا ًاس کے ذات کے لوازم میں سے ہے پس اس دلیل میں ایسی کوئی بات نہیں جو ان کے قول پر دلیل بنے اور نہ اُس امر پر جو اس بات کے مناقض اور ضد ہو جس کی رسولوں نے خبر دی ہے اگرچہ جہمیہ اور قدریہ کے اہلِ کلام میں سے ایک گروہ کے قول پر دلالت کرتا ہے جو کہ دینِ اسلام میں ایک محدث اور بدعت ہے ،اسی طرح وہ بات جس سے یہ احداث ،تاثیر اور اس طرح کے دیگر ان شبہات کے بطلان پر استدلال کرتے ہیں جو نفیِ تاثیر کا تقاضا کرتے ہیں اور ممکن کے وجود کو عدم پر ترجیح کی نفی کا تقاضا کرتے ہیں اسی طرح بوجہ کسی حکمت کے اس کے فاعل ہونے کی نفی پر یا بلا کسی حکمت کے فاعلیت کی نفی پر دلالت کرتے ہیں اور اس کے علاوہ وہ امور جو اس باب میں ذکر کیے جائیں گے بے شک وہ تمام کے تمام اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ عالم میں کوئی شے بھی حادث نہ ہو اور یہ تو مشاہدہ اور حس کے خلاف ہے اور ہر ایسی حجت جو مشاہدہ اور حس کے خلاف ہو تو وہ سفسطی دلائل کے ذیل میں آتے ہیں اور یہ تمام کے تمام اس بات پر متفق ہیں کہ منجملہ علل میں سے ایک عدم بھی ہے اور یہ ارسطو سے منقول ہے ،ارسطو نے مقالہ’’ لام ‘‘میں جو کہ اس کے فلسفہ کی منتہا ہے اس میں کہا ہے اور وہ مابعد الطبیعہ کا علم ہے چنانچہ اس کا کہنا یہ ہے:

’’اور رہا مناسبت کے طریقے پر تو مناسب ہے۔۔بشرطیکہ ہم اس بات کی کلی اتباع کرنے والے ہوں جو ہم نے بیان کی ۔۔ تو مناسب ہے کہ ہم اس بات کو بیان کرلیں کہ تمام اشیاء کے مبادیٔ تین چیزیں ہیں :

ایک عنصر دوسری صورت تیسرا عدم جو امرمحسوس اور مشاہد ہے اس کی مثال یہ کہ گرمی صورت کی نظیر ہے ،سردی عدم کی نظیر اور عنصر وہ چیز ہے جس کو سردی اور گرمی بالقوۃ لاحق ہوتے ہیں اور کیف کے باب میں اس کی مثال یہ ہے کہ بیاض صورت کی نظیر ہے ،کالا رنگ عدم کی نظیر ہے اور وہ چیز جو ان دونوں کیلئے وضع ہے یعنی وہ سطح جو عنصر کے بمنزلہ ہے اور ضوء یعنی روشنی یہ صورت کی نظیر ،اندھیرا عدم کی مثال ہے اور وہ جسم جو روشنی کو قبول کرنے والا ہے وہ ان دونوں یعنی روشنی اور اندھیرے کیلئے موضوع ہے پس علی الاطلاق یہ بات ممکن نہیں کہ تو ایسے عناصر کوباعیانہا پالے جو اپنی ذات کے اعتبار سے تمام اشیاء کیلئے عناصر اور مادہ ہوں اور ہمارا مطلوب اس وقت اشیائے موجودہ کے عنصر کا طلب کرنا نہیں بلکہ ہماارا مقصود تو اس کے مبدأ کو طلب کرنا ہے اور وہ دونوں اسکے لئے سبب ہیں تاہم مبدأ کے بارے میں یہ بات ممکن ہے وہ کسی چیز کی حقیقت سے خارج پایا جائے جیسے کہ سببِ محرک ہوتا ہے رہے عناصرتو ان کے بارے میں یہ ممکن نہیں کہ وہ ان اشیاء کی حقیقت سے خارج میں پائے جائیں جن کیلئے وہ جسم اور جوہر ہیں اور جو بھی چیز عنصر اور جسم ہو تو اس بات سے کوئی مانع کہ اس کیلئے کسی چیز کو مبدأ قرار دیا جائے اور جو چیز مبدأ ہو تو اس کیلئے عنصر نہیں ہوتا لامحالہ اور یہ اس لئے کہ وہ مبدأ جو کہ محرک ہے اس کے بارے یہ ممکن ہے کہ وہ محرک سے خارج ہو لیکن اشیائے طبعیہ کامحرکِ قریب صورت کے مثل ہے اور یہ اس لئے کہ ایک انسا ن دوسرے انسان سے پیدا ہوتا ہے ،رہے اشیائے وہمیہ تو صورت یا عدم اس کی مثال طب اور اس سے ناواقفیت ہے اور بنا یعنی عمارت اور اس سے جہل ہے اور ایسے امور میں سبب محرک صورت ہوتی ہے اسی وجہ سے تو طب ایک اعتبار سے صحت ہے اس لئے کہ وہی محرک ہے اور بیت کی صورت من وجہ بنا بھی ہے اور انسان انسا ن ہی سے پیدا ہوتا ہے اور ہمارا مقصود محرک قریب کوطلب کرنانہیں بلکہ ہمارا مقصود تو اس محرک کو طلب کرنا ہے جس سے تمام اشیاء کو حرکت حاصل ہوتی ہے پس معاملہ اس میں واضح ہے یعنی یہ کہ وہ جوہر ہے اور یہ بات ممکن نہیں کہ جواہر کی مبدأ جوہر کے علاوہ کوئی اور چیز ہواور مبدأجواہر بھی جوہر ہی ہو تاہے نیزتما م موجود اشیاء کیلئے بھی جوہر مبدأ ہے اور ما قبل میں اس بات کی تصریح کرنا غلط ثابت ہوا اس لئے کہ باقی تمام اشیاء تو حوادث اور جوہر کیلئے حالات اور عوارض ہیں اور اس کیلئے حرکات ہیں اور یہ بات بھی مناسب ہے کہ ہم اس جوہر سے بحث کریں جو پورے جسم کو حرکت دیتا ہے کہ وہ کیا ہے ؟

کیا یہ ضروری کہ ہم یہ بات طے کریں کہ جوہر وہ نفس یا وہ عقل یا ان دونوں کے علاوہ کوئی غیر ہے بعد اس کے کہ ہم اس بات سے بچیں کہ ہم اس مبدأ اول پر اُن اَعراض میں سے کسی چیز کا حکم لگائیں جو اشیائے موجودہ کے اواخر کو لازم ہوتے ہیں لیکن اشیائے موجودہ کے اواخر میں کبھی ایسی چیز بھی پائی جاتی ہے جو بالقوۃ ہوتی ہے یا یہ کہ وہ چیز مختلف اوقات میں مختلف حالات پر ہوتی ہے اور یہ بھی کہ وہ حالت واحدہ پر دائم نہیں رہتی اور وہ اشیاء جو کون اور فساد کو قبول کرتے ہیں یہ وہی ہیں جو اسی حال میں پائے جاتے ہیں اس لئے توُ کبھی کسی معین چیز کو ایک بار بالقوۃپاتا ہے اور ایک بار بالفعل اس کی مثال یہ ہے کہ خمربعد اس کے کہ انگور کے پانی کو جوش آکر اس میں نشہ آجائے تو خمر بالفعل موجود ہوااور کبھی دوسرے وقت وہ بالقوۃ موجود ہوتا ہے جبکہ وہ رطوبت جس سے وہ متولد ہوتی ہے وہ انگور میں ہوگویا کبھی وہ بالفعل موجود ہوتا ہے اور کبھی ان عناصر میں بالقوۃ پایا جاتاہے جن سے وہ پیدا ہوتا ہے ۔

جب ہم کہتے ہیں کہ بالقوۃ یا بالفعل؛ تو اس سے ہماری مراد صورت اور عنصر کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ۔ اور صورت سے ہماری مراد وہ ہے جس کا صورت اور عنصر کے مجموعے سے جدا ہونا ممکن ہو۔صورت منفردہ کی مثال جیسے کہ روشنی اور اندھیرا جبکہ ان کا وجود ہوا اور فضا سے منفرد اورجداہو اور ان دونوں سے مرکب جیسے بدن صحیح اور بدن سقیم اور عنصر سے ہماری مراد وہ چیز جس میں دونوں حالتوں کا احتمال ہو جیسے کہ بدن کہ کبھی وہ صحیح ہوتا ہے۔

کبھی مریض پس یہ چیز جو کبھی بالفعل اور کبھی بالقوۃ موجود ہوتی ہے یہ اشیائے مرکبہ میں موجود عناصر میں مختلف ہوتا رہتا ہے میری مراد ہے صورت اور عنصر۔لیکن ان اشیاء میں بھی جوا شیائے مرکبہ کی حقیقت سے خارج ہوتے ہیں یعنی وہ اشیاء جن کا عنصر ان اشیاء کے عنصر کے غیر ہوتا ہے جن سے وہ مرکب ہوتی ہیں اور نہ اُس کی صورت اُن کی صورت کے موافق ہوتی ہے بلکہ ان کے غیر ہوتی ہے پس جب تو سبب اول کے بارے میں بحث کا ارادہ کرے تو مناسب ہے کہ تیرے ذہن میں یہ بات ملحوظ رہے کہ بعض علل محرکہ اس چیز کیساتھ صورت میں موافق ہوتی ہیں جو متحرک ہوتا ہے اور اس کے قریب ہوتی ہیں اور بعض سے ابعد ہوتی ہیں رہا علت قریبہ تو اس کی مثال جیسے کہ اب ہے اور شمس علت ابعد ہے اور شمس سے بھی ابعدفلک مائل ہے اور یہ چیز حادث کے لئے عنصر کے طریقے پر علل نہیں اور نہ عدم کے طریقے پر علل ہیں اور رہا صورت کے طریقے پرلیکن یہ محرک ہیں اور یہ محرک اس طور پر نہیں کہ وہ صورت میں موافق ہیں اور قریب ہیں مثل اب کے بلکہ وہ تاثیر کے اعتبار سے ابعد اور اقویٰ ہیں کیونکہ یہی علل قریبہ کی ابتدا ہے اور اس میں کچھ اور کلام بھی ذکر کیا ہے جس کو تفصیل سے بیان کیا جس کو تفصیل سے بیان کرنے کا یہ مقام نہیں ۔

دوسری دلیل اور اس پر رد

یہ کہ کوئی بھی فعل ازل میں تین وجوہات کی بنا پر ممکن الوجود ہوتا ہے :

(۱) اگر وہ اس طرح نہ ہو تو پھر وہ اولاممتنع ہوگا اور پھر ممکن ہوا ہوگا بالفاظ دیگر یوں کہئے کہ وہ ممتنع لذاتہ تھا اور پھر ممکن لذاتہ بن گیا اوراس بات امکان قضایا عقلیہ سے اعتماد اور حفاظت کو اٹھا لیتا ہے ۔

(۲) وہ ازل میں ممکن تھاپس اس کا امکان لذاتہ ہے یا وہ علت دائمہ ہے تو امکان کا دوام لازم آئیگا اوراگر وہ کسی علت حادثہ کی وجہ سے ہے تو وہ باطل ہوگا اس لئے کہ اس علت کے حدوث کے امکان میں کلام بعینہ اسی طرح ہے جو اس کے غیر کے حدوث کے امکان میں کلام ہے پس فعل کے امکان کا دوام لازم آئیگا ۔

(۳) فعل کی امتناع اس کے ذات کی وجہ سے ہے یا کسی سبب واجب لذاتہ کی وجہ سے تو امتناع کا دوام لازم آئیگا اور وہ مشاہدہ ،بداہت اور عقلاء کے اتفاق تینوں وجوہات کی وجہ سے باطل ہے کیونکہ ممکنات مشاہدہ میں نظر آتے ہیں اور موجود ہیں ۔

اگر کسی ایسی سبب کی وجہ سے ہے جو واجب نہیں تو پھر اس ذات کا قدیم ہونا ممتنع ہوجائیگا کیونکہ جس کا قدم واجب ہو تو اس کا عدم ممتنع ہوتا ہے ۔پھر اس میں کلام اسی طرح ہے جو پہلے میں تھا پس ازل میں کسی علتِ حادثہ کی وجہ سے اس کا ممتنع ہونا ظاہر البطلان ہے اس لئے کہ قدیم کسی علتِ حادثہ کا معلول نہیں بنتا پس ثابت ہوا کہ ازل میں ممکنات کے حصول کے ممتنع ہونے کا دعوی ممکن نہیں اور یہ کہنا بھی ممکن نہیں کہ مؤثر وہی ہوتا ہے جس کے بارے میں یہ ممکن ہو کہ وہ اس میں اثر کرے اور پھر وہ ممکن بنے اس لئے کہ تاثیر کے امتناع اور اس کے امکان کا قول بالکل اس قول کی طرح ہے جو اثر کے وجود اور اس کے امکان کے امتناع کا ہے پس ثابت ہوا کہ ممکنات کا کسی مؤثر کی طرف استناد اور نسبت اس کے اوپر عدم کے تقدم کا تقاضا نہیں کرتا (یعنی کہ وہ مسبو ق بالعدم ہوں )۔

اشکال:....کہتے ہیں : اس طریقے پر ایک اشکال ہے ؛وہ یہ کہ جب ہم یہ کہیں کہ اگر ہم حادث کا اس حیثیت سے اعتبار کریں کہ وہ مسبوق بالعدم ہے تو اس شرط کیساتھ یہ بات ممکن نہیں کہ یہ کہا جائے کہ اس کا امکان ایک خاص وقت کیساتھ خاص ہے (دوسرے کو چھوڑ کر )بوجہ ان دلائل کے جو تم نے ذکر کئے ہیں پس اس کا امکان صفت دوام کیساتھ ثابت ہوا اور پھر اس کے امکان کے دوام سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ حدوث سے خارج ہو گئے اس لئے کہ جب ہم نے اسے اس حیثیت سے لیا ہے کہ وہ مسبوق بالعدم ہے تو عدم کے ساتھ مسبوقیت اس کیلئے ایک جزء ذاتی ہے اور جز ء ذاتی مرفوع اور ختم نہیں ہوتا اور جب حادث کے حدو ث کے امکان سے( اس حیثیت سے کہ وہ حادث ہے )اس کا حدوث سے خروج لازم نہیں آتا تو یہ حجت بھی باطل ہو گئی ۔ یہ ایسا شک ہے کہ اس کا حل کرنا ضروری ہے ۔

جواب:....میں کہتا ہوں کہ یہ شک وہی معارضہ ہے جس پر کتب کلامیہ میں اعتماد کیا گیا ہے جیسے کہ ’’اربعین ‘‘اور اس کے دیگر کتابیں اور اسی پر آمدی نے ’’دقائق الحقائق ‘‘ میں اور اس کے علاوہ دیگر کتب میں بھی اعتماد کیا ہے اور یہ دو وجہ سے باطل ہے :

(۱) یہ کہ اس میں ان کے حجت کا کوئی جواب مذکور نہیں بلکہ یہ تو ایک محض ایک اعتراض ہے ۔

(۲) اس کے جواب میں یہ کہا جائیگاکہ :’’یہ کہنا کہ حادث کا جب ہم اس حیثیت سے اعتبار کریں تو کیا اس سے تیری مراد یہ ہے کہ جب اس بات کو فرض کر لیا جائے کہ سارے کے سارے حوادث کیلئے کوئی اول ہے پس جب اس کے ساتھ اس کے امکان کا اعتبار بھی کیا جائے تو پھر تو ان کا کوئی اول نہ ہوا یا تمہاری مراد یہ ہے کہ ہر حادث جس کا تو اعتبار کرتا ہے جب اس کے امکان کا اعتبار کیا جائے ؟

اگر تمہاری مرادپہلی بات ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم اس تقدیر اور فرض کے امکان کو تسلیم نہیں کرتے اس لئے کہ تم نے پہلے یہ بات مان لی کہ ہر حادث کیلئے کسی اول کا ہونا ضروری ہے اور تما م کے تما م حوادث مسبوق بالعدم ہیں اور یہ بات بھی (مان لی )کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ فاعل نے کسی چیز کو پیدا کردیا ہو اور پھر خود اس فاعل کا احداث کیا گیا ہواس کو بھی تم نے تسلیم کرلیا کہ ایسا نہیں ہو سکتا اور ان دونو ں باتوں کو تسلیم کرنے کے باوجود تم نے اس بات کو فرض کرلیا کہ اس کا احداث ازل سے ممکن ہے اور ہم تو ان دو باتوں کے درمیان جمع کے امکان کو تسلیم نہیں کرتے ۔تم نے تو ازل میں اس کے حدوث کے دوام کو اس وجہ سے ممنوع قرار دیا کہ ایسے حوادث ممتنع ہیں جن کیلئے کوئی اول نہ ہو اور اس امتناع کے باوجود یہ بات محال ہے کہ ازل سے احداث ممکن ہو پس تم نے حوادث کے دوام کے امکان کو فرض کرلیا باوجودیکہ ان کا دوام ممتنع ہے اور یہ تو اجتماع نقیضین کو فرض کرنا ہے ۔

اور اگر تمہاری مرادیہ کہ کسی حادثِ معین کا حدوث مراد ہے ۔تو ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ اس کا امکان ازلی ہے بلکہ یہ ممکن ہے کہ ہر حادثِ معین کا حدوث ایسی شروط کیساتھ مشروط ہو جو اس کی ازلیت کے منافی ہو اور یہی نفس الامر میں بھی واقع ہے جس طرح کہ بہت سے حوادث میں یہ بات معلوم ہے اس لیے کہ جو کسی مادہ سے مخلوق اور پیدا ہو اس کا حدوث اس مادہ کے وجود سے پہلے ممتنع ہے لیکن اس حجت کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ یہ کسی معین چیز کے قدم کا تقاضا نہیں کرتا جس طرح کہ ایک اور مقام پر اس کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے پس اس سے ممکنات میں کسی چیز معین کا قدم لازم نہیں آتا ۔ 

تیسری دلیل اور اس پر رد

امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’تیسری دلیل یہ ہے کہ: حوادث جب موجود ہو جاتے ہیں اور ان کو استمرار حاصل ہوجاتا ہے تووہ اپنے استمرار کی حالت میں کسی مؤثر کے محتاج ہوتے ہیں ۔ اس لئے کہ وہ اپنی بقا کی حالت میں بھی اسی طرح ممکن ہیں جس طرح کہ حالت حدوث اور ابتدائے وجود میں ممکن تھے۔ اور ممکن ضرورکسی مؤثر کی طرف محتاج ہوتا ہے۔ پس کہا جائیگا کہ یہ حجت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ممکناتِ حادثہ اپنی بقا کی حالت میں کسی مؤثر کی طرف محتاج ہوتے ہیں اور ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں جس طرح کہ مسلمان اور غیر مسلم تمام اہل نظر نے اس کو تسلیم کرلیا ہے اور معتزلہ کے متکلمین میں سے ایک جماعت نے اس میں اختلاف کیا ہے اور ان کے علاوہ بعض لوگوں نے بھی ، لیکن یہ اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ ممکن کا اپنے فاعل کیساتھ ازلاً وابداً مقارنت بھی ممکن ہے الا یہ کہ اس کے ازلی اور ابدی ہونے کے امکان کو بیان کردیا جائے ساتھ اس کے کہ اس کا وجود اور عدم بھی ممکن ہواور یہی بات تو محل نزاع ہے اور کیسے کہا جاسکتا ہے کہ حالانکہ جمہور عقلاء کہتے ہیں کہ یہ بات معقول نہیں کہ جس چیز کے بارے میں عدم اور وجود دونوں کا امکان ہو تو اس کے بارے میں حدوث کے علاوہ اور کوئی امرممکن ہی نہیں ،رہا قدیم ازلی واجب بنفسہ اور بغیرہ تو اس میں یہ بات معقول نہیں کہ اس کاوجود اور عدم دونوں ممکن ہوں اس لئے کہ اس کا عدم تو ممتنع ہی ہے ۔

اور اگر کہا جائے کہ وہ اپنی ذات کے اعتبار سے دونوں امر کو قبول کرتا ہے۔

تو اسکاجواب دوطرح سے دیا جائیگا :

۱) یہ اس بات پر مبنی ہے کہ خارج میں اس کی کوئی ایسی حقیقت پائی جائے جو اس کی وجود ِخارجی کے علاوہ ہواور یہ بات تو باطل ہے ۔

۲) دوسری بات یہ ہے کہ اگر فرض کرلیا جائے کہ حقیقت ِ حال اسی طرح ہے تو اس موجب ازلی کے واجب الوجود ہونے کے ساتھ وہ واجب اور ازلی ابدی بن جائے گا۔لہٰذا اس کا عدم ممتنع ہو جائے گا۔ جس طرح اہل سنت والجماعت اللہ تعالیٰ کی صفات میں کہتے ہیں اور یہ بات تو معقول نہیں کہ اس کا وجود اور عدم ممکن ہو ں اور یہ بھی ممکن نہیں کہ اس کیلئے کوئی ایسا فاعل ہو جو اسے وجود دیتا ہو جس طرح کہ یہ بات اللہ تعالیٰ کی ان صفات لازمہ کے بارے میں معقول نہیں جو اس کی قدیم ذات کیساتھ لازم ہیں ۔

چوتھی دلیل اور اس پر رد

امام رازیؒ نے فرمایا : چوتھی دلیل یہ ہے کہ اثر کا کسی مؤثر کی طرف افتقار اور احتیاج یا تو اس وجہ سے ہے کہ وہ فی الحال موجود ہے یا اس وجہ سے کہ وہ پہلے معدوم تھا یااس وجہ سے کہ اس سے پہلے عدم تھا اور یہ بات محال ہے کہ عدمِ سابق وجود کا مقتضی ہو اس لئے کہ عدم تو نفی محض ہے لہٰذا اس کیلئے مؤثر کی طرف کوئی حاجت ہی نہیں اور یہ بھی محال ہے کہ وہ اس کا مسبوق بالعدم ہونا ہواس لئے وجود کا مسبوق بالعدم ہونا ایک ایسی کیفیت ہے جو وجود کو ضرور بالضرورپیش آتی ہے ۔

اس لئے اس کا مسبوقیت بالعدم کی صفت پر وقوع ایک ایسی کیفیت ہے جو وقوع کے بعد لازم ہو جاتی ہے اوریہ بات محال ہے کہ وہ اس حالت کے بغیر واقع ہوجائے اور واجب تو مؤثر سے غنی اورمستغنی ہے پس مفتقر اور محتاج وجودہی ہوا اور وجود تو ماہیت کیلئے عارض ہے لہٰذا فاعل کی طرف محتاج ہونے میں عدم کے تقدم کا اعتبار نہیں کیاجائیگا ۔

جواب: یہ کہا جائے کہ مؤثر کی طرف محتاج ہونا خواہ کسی بھی وجہ سے ہواگر اس سے اس کی مراد اس سبب کا اثبات ہے جس کی وجہ سے مؤثر کی طرف وہ محتاج ہوا ہے یا یہ اس سے اس کا ارادہ ایسی دلیل کو ثابت کرنا ہے جو مؤثر کی طرف محتاج ہونے پر دلالت کرتا ہے تو جو چیز تعلیل کے طریقے پر حرف لام کیساتھ مقرون ہوتا ہے وہ کبھی وجود خارجی کیلئے علت بنتا ہے اورکبھی وجود ذہنی کیلئے اور اس کو دلیل اور برہان کہتے ہیں اور قیاس الدلالۃ اور برہان الدلالۃ کہتے ہیں اور پہلے کے ذریعے استدلال کیا جائے تو اسے قیاس العلۃ اور برہان العلۃ کہتے ہیں اور برہان لمی کہتے ہیں اس لئے کہ وہ خارج میں اثر کی علت کا فائدہ دیتا ہے اور ذہن میں بھی پس کسی قائل کا یہ کہنا کہ مؤثر کی طرف افتقار اور احتیاج یا توبوجہ حدوث یا بوجہ امکان کے ہوگا یا ان دونوں کے مجموعے کی وجہ سے ہوگا اور متاخرین میں ایک جماعت جو اقوال ثلاثہ ذکر کرتی ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ کیا تم نفس الامر میں موجود علتِ موجبہ سے بحث کرتے ہو اس افتقار کی وجہ سے یا اس افتقار اور احتیاج پر دلالت کرنے والی دلیل سے بحث کرتے ہو ؟

اگر تمہاری مراد پہلی بات ہے تو تمہیں کہا جائیگا کہ یہ بات تو فاعل کی طرف مفعول کے احتیاج کے ثبوت کی فرع ہے اور مبحوث عنہا تو ایک دوسری علت ہے جسے تم نے ثابت نہیں کیا بلکہ کسی قائل کیلئے یہ بھی گنجائش ہے کہ وہ یہ کہے کہ اللہ کے علاوہ تمام موجودات اپنی ذات کے اعتبار سے اس کی طرف فقیر اور محتاج ہیں اور اس کی حقیقت (وجود)کسی علت کی وجہ سے نہیں جس نے اس کی ذات کو موجود کردیا اور اس کی حقیقت اللہ کی طرف محتاج ہے اور یہ بات تو معلوم ہے کہ ہر ایسا حکم اور ہر ایسی صفت جس سے ذوات کو موصوف کردیا جاتا ہے اس میں یہ واجب نہیں کہ وہ کسی علت کی وجہ سے ثابت ہو اس لئے کہ یہ تو تسلسلِ ممتنع کو مستلزم ہے کیونکہ اللہ کے ماسوا تمام کااس کی طرف احتیاج اورافتقار ایک ایسا حکم اور صفت ہے جو ماسوی اللہ کیلئے ثابت ہے پس جو بھی اس کے ماسوی ہے خواہ اسے محدث کہا جائے یا ممکن یا مخلوق کہا جائے یا ا ن کے علاوہ کوئی اور نام دیا جائے وہ اللہ کی طرف محتاج ہے اور کسی بھی طور پراور کسی بھی حال میں اللہ سے اس کی استغنا ء ممکن نہیں بلکہ جس اللہ تعالیٰ کی استغنا ء اور بے نیازی اس کی ذاتی ہے ایسے ہی تمام ممکنات کا احتیاج اور افتقار ان کے ذوات کے لوازمات میں سے ہے اور اس کی کوئی خارجی حقیقت نہیں الا یہ کہ جب وہ موجود ہو جائیں کیونکہ معدوم تو کوئی چیز ہی نہیں پس جو اللہ کے ماسوی ہیں وہ اس کی طرف صفت دوام کیساتھ محتاج ہیں اپنے حدوث (ابتدائے وجود )اور بقا ء دونوں حالتوں میں ۔

اگر فاعل کی طرف احتیاج سے مراد یہ ہے کہ اس سے افتقار اور احتیاج پر استدلال کیا جاتا ہے تو جواب میں کہا جائیگا کہ عدم کے بعد کسی چیز کا حادث ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ کسی ایسے محدث اور موجدکی طرف محتاج ہے جو اس کو وجود دے اور اس کا ایسا ممکن ہونا کہ اس کے وجود کو عدم پرترجیح صرف اور صرف کسی مرجح تام کی وجہ سے حاصل ہو یہ اس بات پر دلیل ہے کہ وہ ایک ایسے واجب کی طرف محتاج ہے جو اس کو از سرنو وجود دیتا ہے اور اس کا ممکن اور محدث (بالفتح)ہونا ایک دوسری دلیل ہے تو یہ دو دلیلیں ہو گئیں کیونکہ ان دونوں میں سے ہر ایک اس کے افتقار اور احتیاج پر دلیل ہے اور یہ صفات اور اس کے علاوہ دیگر صفات جیسے کہ اس کا حادث ہونا ، محتاج ہونا ،مخلوق ہونا اور اس کے امثال ،یہ خالق کی طرف اس کے احتیاج پر دلیل ہیں پس خالق کی طرف احتیاج پر ادلہ بہت زیادہ ہیں اور وہ اپنے ذات کی وجہ سے محتاج الیہ ہے نہ کہ کسی سبب آخر کی وجہ سے اور جب صورتحال اس طرح ہے تو ممکن ہے کہ کہ یہ کہا جائے کہ خود اس کا وجودخالق کی طرف اس کے احتیاج پردلیل ہے اور اس کا عدمِ سابق اس کے خالق کی طرف اس کے افتقارپر دلیل ہے اور اس کا موجود ہونا عدم کے بعد،یہ بھی خالق کی طرف اس کے افتقار پر دلیل ہے پس ان تمام اقسام میں کوئی منافات نہیں اور اس بنا پر یہ کہنا صحیح نہیں کہ عدم تو ایک نفی محض ہے لہٰذا اس کیلئے کسی مؤثر کی طرف اصلا کوئی حاجت نہیں اور یہ اس لئے کہ جب ہم نے اس کے عدم کو اس بات پر دلیل قرار دیا کہ وہ عدم کے بعد تب ہی موجود ہوسکتا ہے جب کوئی ایسا فاعل پایا جائے جو اس کے عدم کو مؤثر کی طرف محتاج بنا دے بلکہ مسلمان اہل نظر تو یہ کہتے ہیں کہ ممکن صرف اپنے وجود میں مؤثر کی طرف محتاج ہوتا ہے اور رہا اس کا عدم جو کہ مستمر ہوتا ہے تو اس میں وہ کسی مؤثر کی طرف محتاج نہیں ہوتا اور یہ جو فلاسفہ ہیں ابن سینا اور اس کے متبعین جیسے امام رازی وغیرہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ممکن کے دو طرفین (وجود وعدم )میں ایک کے راجح ہونے کیلئے کسی مرجح کا ہونا ضروری ہے لہٰذا عدم کے وجود پر راجح ہونے کیلئے بھی کوئی مرجح ضروری ہے جیسے کہ وجود کے راجح ہونے کیلئے کسی مرجح کا ہونا ضروری ہے اور پھر انہوں نے یہ بھی کہا کہ عدم کا مرجح عدم المرجح (یعنی وجود کا مرجح نہ پایا جانا )ہے پس اس کے معدوم ہونے کی علت اس کے وجود کی علت کا نہ پایا جانا ہے اور مسلمان اہل نظر اس بات پر نہایت سختی سے نکیر اور رد کرتے ہیں جس طرح کہ قاضی ابو بکر ،قاضی ابو یعلی اور ان کے علاوہ مسلمان اہل نظر نے ذکر کیا ہے اور یہی بات درست ہے ۔

ان لوگوں کا یہ کہنا کہ اس کی علت (یعنی وجود کی علت )کا نہ پایا جانا ہی اس کے عدم کی علت ہے تو ان کے جواب میں کہا جائیگا کہ کیا تمہاری مراد یہ ہے کہ اس کی علت کا نہ ہونا مستلزم ہے اس کے عدم کو اوروہ دلیل ہے اس کے عدم پریا مراد یہ ہے کہ اس کی علت کا عدم ہی وہ چیز ہے جس نے اس کو خارج میں معدوم بنا دیا پس پہلی مراد تو صحیح ہے لیکن اس کے تو تم قائل نہیں اور دوسری بات درست نہیں اس لئے کہ وہ عدم جو صفت استمرار کیساتھ ثابت ہے اس کا علت کی طرف احتیاج اسی طرح ہے جس طرح عدم العلۃ کا علت کی طرف اور یہ بداہۃ ثابت ہے کہ جب کہا جائے کہ علت کے معدوم ہونے کی وجہ سے فلان چیز معدوم ہوا تو کہا جائیگا کہ وہ عدم بھی تو اس کے علت کے عدم کی وجہ سے ہے اور یہ امر علل اور معلولات میں تسلسل کا تقاضا کرتی ہے اور وہ صریح عقل کی بنا پر باطل ہے لہٰذا اس کا بطلان تو ظاہر ہے لیکن مقصود تو ان مخالفین یعنی ملحد فلاسفہ کے بعض تناقضات کو بیان کرنا ہے جو کہ صریح معقول اور صحیح منقول کے ساتھ معارض ہیں ۔

اسی طرح اس کا یہ کہنا کہ اس کا مسبوق بالعدم ہونا ایک کیفیت ہے جو وجود کو اس کے حصول (یعنی وجود میں آنے کے بعد)کے بعد پیش آتی ہے اور وہ اس کیساتھ لازم ہے لیکن علت نہیں تو اسے کہا جائیگا یہ کوئی صفت ثبوتیہ تو نہیں بلکہ یہ تو ایک صفت اضافیہ ہے جس کا معنی یہ ہے کہ وہ موجود ہوا بعد اس کے کہ وہ معدوم تھا پھر اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ وہ اس کیلئے صفت لازمہ ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ وہ مؤثر کی طرف احتیاج پر ایک دلیل ہے اور یہ بھی ملحوظ رہے کہ تم نے اِس کو اُس کے احتیاج کی علت فرض کرلیا ہے اور احتیاج کا معلول فرض نہیں کیا پس اس کا غنی ہونا اس کی علت بننے سے مانع نہیں ہے بلکہ اس کے معلول ہونے سے مانع ہے ۔

اگر وہ یہ کہے کہ یہ تو اس کے احتیاج اور افتقار سے مؤخر ہے اور متاخر متقدم کیلئے علت نہیں بنتا۔

تو جواب میں کہا جائیگا کہ : یہ بات میں نے اس مقام کے علاوہ اور کئی مقامات پر ذکرکر دی ہے اور اس کا جواب یہ ہے کہ وہ افتقار اور احتیاج پر دلیل تو ہے لیکن اس کیلئے موجب نہیں ۔ اورباتفاق عقلاء دلیل اپنے مدلول سے مؤخر ہوتی ہے۔

اگر کہا جائے کہ اگر حدوث مؤثر کی طرف افتقار اور احتیاج پر دلیل ہے۔ تو یہ بات لازم نہیں آتی کہ ہر مؤثر کی طرف محتاج حادث ہی بنے۔ اس لئے کہ دلیل میں اس کا عموم واجب ہے ،اس کا عکس واجب نہیں ۔

تو جواب میں کہا جائیگا کہ :ہاں اس اعتبار سے دلالت کی انتفاء دوسرے وجوہ سے دلالت کی نفی نہیں کرتی ۔ مثال کے طورپر یہ کہا جائے کہ فاعل کی طرف اس کے احتیاج کی شرط اس کا محدث اور حادث ہونا ہے اور شرط تومشروط کیساتھ مقارن ہوتا ہے اور یہ بھی ان امور میں سے ہے جن کے ذریعے اتصال واقتران کو بیان کیا جاتا ہے پس کہا جائیگا کہ احتیاج کی علت جو کہ افتقار واحتیاج کے شرط کے معنی پر ہے وہ اس کا حادث یا ممکن ہونا یا دونوں کا مجموعہ ہے اور یہ سب کے سب حق ہیں اور مثال کے طور پر یوں کہا جائے کہ وہ علت جو فاعل کی طرف احتیاج کا تقاضا کرتی ہو اگر اس سے اس کا حدوث مراد ہے یعنی مسبوق بالعدم ہونا ہے اس لئے کہ یقیناً وہ تما م اشیاء جو مسبوق بالعدم تھیں وہ فاعل کی طرف احتیاج کے حال میں ثابت اور موجود ہوتے ہیں اس لئے فاعل کی طرف ان کااحتیاج ان کے حدوث کی حالت ہے اور اس حال میں وہ مسبوق بالعدم ہوتے ہیں اس لئے کہ یقیناوہ تما م چیزیں جو مسبوق بالعدم ہوں وہ عدم کے بعد موجود ہوجاتی ہیں اور یہی معنی تو فاعل کی طرف افتقار کو ثابت کرتا ہے ۔

پانچویں دلیل اور اس پر رد

امام رازی فرماتے ہیں :پانچویں دلیل یہ ہے کہ[ تین احوال میں سے کوئی ایک حال ضرور ہوگا :]یا تو ممکنات کا مؤثر کی طرف افتقارکی جہت حدوث پرموقوف ہوگا یا مؤثر کی تاثیرکا حدوث پر توقف ہوگا یا بالکل توقف نہیں ہوگا ۔

پہلی صورت کا بطلان توہم نے قدم اور حدوث کے باب میں ثابت کردیا۔ پس یہ بات ثابت ہوئی کہ افتقار کی جہت میں حدوث معتبر نہیں ہوگا۔

لہٰذایہ کہا جائے گاکہ: تم نے جو کچھ یہاں ذکر کیا ہے اس کا ابطال بھی ہم نے بیان کردیا گیا ہے۔ اور یقیناوہ تمام اشیاء جو فاعل کی طرف محتاج ہوتے ہیں وہ حادث ہی ہوتے ہیں ۔ رہا قدیم ازلی تو یہ بات ممتنع ہے کہ وہ مفعول بنے۔ اور جوکچھ میں نے’’ حدوث اور قدم‘‘ کی کتاب میں مباحث مشرقیہ میں ذکر کر دیا ہے۔ یہ وہی ہے جس کے ذکر پر آپ کی عادت جاری ہے محصل اور اس کے علاوہ دیگرکتب میں ۔یعنی کہ یقیناحدوث کا وجود مسبوق بالعدم ؛اوربالغیر ہونے سے عبارت ہے ۔پس یہ وجود کیلئے ایک صفت ہے ۔لہٰذا اس سے متاخر ہی ہوگی اور وہ مؤثر کی تاثیر سے متاخر ہوگی وہ مؤثر جو اس کے احتیاج سے متاخر ہے اور وہ احتیاج جو حاجت کی علت سے متاخرہے پس اگر حدوث خود حدوث کی طرف حاجت کی علت قرار دی جائے یا اس کی شرط قرار دی جائے تو کسی چیز کا چار مراتب اور چار درجات کیساتھ اپنی ذات سے مؤخر ہونالازم آئیگا ۔

جواب : یہ کوئی صفت وجوبیہ نہیں جو اس کی ذات کیساتھ قائم ہے تاکہ وہ اس کے وجودسے متاخر ہو جائے بلکہ اس کا معنیٰ یہ ہے کہ وہ موجود ہوا بعد اس کے کہ نہیں تھا اور وہ اس حال میں مؤثر کی طرف محتاج ہوتا ہے اور مسبوق بالعدم بھی ہوتا ہے اور جو تاخرات ذکر ذکرکردئے گئے وہ تو اعتبارات عقلیہ ہیں جو تاخرات زمانیہ نہیں اور یہاں پر علت سے مراد یہ نہیں ہے کہ وہ مفعول کے اوپر زمان کے اعتبار متقدم فاعل سے عبارت ہے اور لازم وملزوم دونوں کا زمانہ کبھی اکھٹا ہوتا ہے جیسے کہ اہل نظر کہتے ہیں کہ صفت موصوف کی طرف محتاج ہوتی ہے اور عرض جوہر معروض کی طرف محتاج ہوتا ہے اگرچہ وجود کے اعتبار سے دونوں کا زمانہ ایک ہوتا ہے ۔

اسی طرح وہ یہ کہتے ہیں کہ عرض اپنے موصوف کی طرف محتاج ہوتا ہے اس وجہ سے کہ وہ ایک ایسامعنی ہے جو غیر کے ساتھ قائم ہے اور یہی معنیٰ موصوف کی طرف احتیاج کیساتھ مقارن ہے۔

چھٹی دلیل اور اس پر رد

اما م رزای رحمہ اللہ فرماتے ہیں :چھٹی دلیل : ممکن چیز جب موجود نہ ہوتو اس کا عدم یا تو کسی امر کی وجہ سے ہوگا یا کسی امراور مؤثر کی وجہ سے نہیں ہوگا۔ یہ تو محال ہے کہ وہ کسی امر کی وجہ سے نہ ہو۔ یعنی بلا کسی خارجی امر کے وہ معدوم ہو۔ اس لئے کہ ایسی صورت میں اپنی ذات کے اعتبار سے وہ معدوم ہو جائیگا یعنی اپنی حیثیت کے اعتبار سے وہ معدوم ہوا۔ اور وہ تمام چیزیں جن کی ماہیت ان کے معدوم ہونے میں کافی ہوتی ہیں وہ ممتنع الوجود کہلاتا ہے لہٰذاممکن چیز ممتنع الوجود ثابت ہوا اور یہی دلیل خلف ہے۔ پس یہ بات واضح ہو گئی کہ ممکن کا عدم کسی امر یا مؤثر کی وجہ سے ہوگا۔ پھر وہ امر جو مؤثر ہے وہ دوحال سے خالی نہیں ۔ یا تو اس کی تاثیر میں تجدد شرط ہوگی یا نہیں ہوگی ۔ یہ محال ہے کہ اس کی تاثیر میں تجددشرط قرار دی جائے۔ اس لئے کہ ہماراکلام اس عدم سابق کی صورت میں مفروض ہے جو اس کے وجود پر مقدم ہے۔ اور وہ عدم جو متجددہے یعنی دھیرے دھیرے وجود میں آتا ہے وہ وہ عدم ہے جو وجود کے بعد ہوتا ہے لہٰذاممکنات کے عدم میں کسی ایسے چیز کی طرف استناد کی شرط نہیں ہوگی جو اس کے عدم کا تقاضا کرتے ہوں اور نہ اس کے تجدد کی شرط ہوگی اور عدم چونکہ ممکن ہے لہٰذاوہ بغیر شرطِ تجدد کے کسی مؤثر کی طرف مستند اور منسوب ہوتا ہے تو ہم نے جان لیا کہ حاجت اور افتقار تجدد پر موقوف نہیں اور یہی تو ہمارا مطلوب ہے ۔

جواب:.... یہ بات عجائب میں سے بلکہ بہت بڑے مصائب میں سے ہے کہ اس جیسے ہذیان اور بکواس کو اس مذہب میں برہان قرار دیا جائے وہ مذہب جس کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کو پیدا نہیں کیا بلکہ حوادث خود بخود بغیر کسی خالق کے حادث ہوتے ہیں اور اہل ملل کے ادیان کے ابطال میں اور اگلے پچھلے سارے عقلاء کے ادیان کے ابطال میں یہ حجج باطلہ اور اس کے امثال بہت سے افاضل اور بہت سے عقل مند اور اہل علم لوگوں کو اس حق صریح سے روکنے والے بنتے ہیں جو کہ صریح عقل اورصحیح نقل کے موافق ہوتا ہے بلکہ یہ اس کے قائلین کو عقل سے خارج کردیتے ہیں اور دین سے بھی ایسے نکال لیتے ہیں جیسے کہ کوئی بال گوندھے ہوئے آٹے سے نکالا جاتا ہے کبھی تو جحودوانکار کے ذریعے اور کبھی شکوک وشبہات اور تردد کے ذریعے لہٰذا ہم اس بات کی طرف محتاج ہوئے کہ ہم اس مذہب کے بطلان کو بیان کریں کیونکہ یہ ظاہر الفساد عقلاونقلااور اس میں عقول اور تمام ادیان کو ضرر بھی لاحق ہے ایسا ضرر کہ جس کا احاطہ اور سد باب صرف اور صرف رحمان کی ذات ہی کرسکتا ہے اور جواب کئی وجوہ سے ہے ۔

پہلی وجہ:....تمہارا یہ قول چند سطر پہلے گذر چکا ہے کہ عدم نفی محض کو کہتے ہیں لہٰذااس میں کسی مؤثر کی طرف اصلا کوئی حاجت ہی نہیں اور تم نے اس کو اس حجت میں مقدم قراردیاکہ جو اس سے پہلے بیان ہوا تو تم چند سطر بعد یہ کیسے کہتے ہو کہ معدومِ ممکن کا عدم صرف اور صرف کسی موجب کی وجہ سے ہوتا ہے اور یہ بات بھی ہم نے پہلے بیان کردی ہے کہ مسلمان اور غیر مسلم جمہور اہل نظر یہ کہتے ہیں کہ عدم کسی علت کی طرف محتاج نہیں ہوتا اور میں نے اہل نظر میں سے کسی کو بھی نہیں پایا جس نے ممکن کے عدم کو کسی علت کی طرف محتاج قراردیا ہو سوائے اس گروہ قلیلہ کے جو کہ متاخرین فلاسفہ میں سے ہیں جیسے ابن سینااور اس کے اتباع ورنہ تو یہ قدمائے فلاسفہ کا بھی قول نہیں نہ ارسطو اور نہ اس کے اصحاب کا جیسے برکلس اور اسکندرافرودیسی جو کہ اس کی کتب کا شارح ہے اسی طرح سامسوطوس اور اس کے علاوہ جوفلاسفہ ہیں اور نہ یہ اہل نظر میں سے کسی کا قول ہے جیسے کہ معتزلہ ،اشعریہ اور کرامیہ وغیرہ پس یہ اہل نظر جماعتوں میں سے کسی کا قول نہیں ہے نہ متکلمین کا ،نہ فلاسفہ اورنہ ان کے علاوہ کسی اور کا ۔

دوسری وجہ :.... یہ کہنا محال بات ہے کہ وہ کسی امر خارجی کے بغیر معدوم ہو تویقیناایسی صورت میں وہ اپنی ذات کی وجہ سے یعنی من حیث ہوہومعدوم ہوااور جس چیز کی ماہیت اس کے عدم میں کافی ہو تو وہ ممتنع الوجود ہوتا ہے پس اس کے جواب میں کہا جائیگا کہ یہ ایک باطل تلازم ہے اس لئے کہ جب وہ چیز کسی امر کے بغیر معدوم ہے تو وہ معدوم نہیں ہوا(نہ اپنی ذات کی وجہ سے اور نہ کسی غیر کی وجہ سے )پس تمہارا یہ کہنا کہ ایسی صورت میں وہ اپنی ذات کی وجہ سے معدوم ہوگا ،باطل ہے اس لئے کہ یہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنی ذات کی وجہ سے معدوم ہے حالانکہ اس کی ذات تو اس کے معدوم ہونے میں علت ہے جیسے کہ ممتنع لذاتہ ہوتا ہے اور یہ ہمارے اس قول کے منافی ہے کہ وہ چیز کسی امراور سبب کے بغیرمعدوم ہے پس کیسے کسی چیز کی نفی اس کے ثبوت کو لازم ہوگی ؟

اگر کہا جائے کہ اس کی مرادیا تو یہ ہوگی کہ اس کا عدم کسی امر کی وجہ سے ہے یا کسی امر خارجی کی وجہ سے نہیں ۔ تو جواب یہ ہے کہ یہ تقسیم پوری طرح حصر کرنے والی نہیں اور وہ یہ ہے کہ کوئی چیز کسی علت کے بغیر معدوم ہو۔

تیسری وجہ :.... ان دو اقوال کے درمیان فرق واضح اور معلوم ہے ایک قول یہ کہ اس کی ذات اس کے وجود اور عدم کا تقاضا نہیں کرتی یا اس کے وجود اور عدم کو مستلزم نہیں یا یہ کہ وجود اور عدم کو ثابت نہیں کرتی اور دوسرا قول یہ ہے کہ ہمارا یہ کہنا کہ اس کی ذات اس کے وجود یا عدم کا تقاضا کرتی ہے یا اس کو مستلزم ہے یا اس کیلئے موجب ہے اس لئے کہ جو چیز ایسی ہو کہ اس کی ذات اس کے وجود کو مستلزم ہو تو وہ واجب بنفسہ ہوتا ہے اور جو اس کے عدم کو مستلزم ہو وہ ممتنع ہوتا ہے اورجو چیز ایسی ہو کہ اس کی ذات ان دونوں میں سے کسی کو بھی مستلزم نہ ہو تو وہ نہ واجب نہ ممتنع بلکہ وہ ممکن ہی ہوتا ہے ۔

اگر کہا جائے کہ وہ کسی امر کے بغیر معدوم ہے تو اس میں ثابت نہیں کیا گیا ہے کہ وہاں کوئی ایک ایساامر پایا جاتاہے جو اس کے عدم کو مستلزم ہو بلکہ وہ تو تقاضا کرتا ہے اس بات کا کہ وہاں کوئی ایسا امر نہ ہو جو اس کے وجود کو مستلزم ہو اور یہ بات تو معلوم ہے کہ اس تقدیر پروہ ممتنع الوجود نہیں ہوگا اسی وجہ سے تو مسلمان کہتے ہیں کہ ماشآء اللّٰہ کان ومالم یشأ لم یکن پس اس کی مشیئت اس کے مراد کے وجود کو مستلزم ہے اور جس کو وہ نہیں چاہتے وہ موجود نہیں پس اس کی مشیئت کا عدم اس چیز کے عدم کومستلزم ہوتا ہے ،یہ نہیں کہ عدم نے کسی چیز کو وجود دیا بلکہ وہ تو اس کا ملزوم ہے اور جب تو علت کی تفسیر یہاں ملزوم سے کرلے تو نزاع لفظی ٹھہرے گا اوران کے کیلئے کوئی حجت باقی نہیں رہیگی ۔

ہمارا یہ کہنا کہ اس کی ذات اس کے وجود کو مستلزم ہے یا اس کے عدم کو مستلزم ہے تو مناسب نہیں کہ اس سے یہ بات سمجھی جائے کہ خارج میں کوئی چیز ہے جو غیر کا ملزوم ہے اس لئے کہ تما م عقلاء کے باتفاق ممتنع خارج میں اصلاکوئی چیز ہے ہی نہیں لیکن حقیقت حال تو یہ ہے کہ اس کی ذات ہی لازم ہے اور ملزوم یا تو وجود ہے یا عدم پس ممتنع کا عدم اس کے عدم کا ملزوم ہے اور واجب اس کے وجوب کا ملزوم ہے رہا ممکن تو اس کیلئے خود اس کی ذات میں سے نہ کوئی وجود ہے نہ کوئی عدم جو کہ اس کے وجود کا ملزوم ہو بلکہ اگر کوئی ایسی چیز وجود میں آئی جو اس کے وجود کیلئے موجب ہو تب تو وہ وجود پائے گا ورنہ تو وہ معدوم رہیگا ۔

چوتھی وجہ :....جب ہر ممکن معدوم نہیں ہوتا مگر کسی ایسی علت کی وجہ سے جو معدوم ہواور وہ اس کے عدم میں مؤثر ہو تو پس اگرعلت معدومہ کا عدم واجب ہے توپھر اس کاوجوب ممتنع ہوگا کیونکہ یہ معلوم ہے کہ وہ اپنے علت کے وجوب کیساتھ واجب ٹھہرتا ہے اور اس کے امتناع کیساتھ ممتنع ٹھہرتا ہے اور ایسی صورت میں ممکن کے عدم کی علت واجب ٹھہرے گی اور اس کا وجوب ممتنع قرار پائے گا کیونکہ یہ بات یقیناً معلوم ہے کہ وہ اپنے علت کے وجوب کیساتھ واجب کہلاتا ہے اورا س کے امتناع کی وجہ سے ممتنع ہو جاتا ہے اور ایسی صورت میں ہر ممکن جس کا امکان فرض کرلیاگیا ہو یقیناوہ ممتنع ہوگا اور یہ ایسی بات ہے کہ جس میں جمع بین النقیضین لازم آتا ہے جو کہ کیفیت اور کمیت دونوں اعتبار سے انتہائی درجے کی ایک محال بات ہے ۔

اگر کہا جائے کہ اس کی علت کا معدوم ہونا ایک ایسے عدم کی طرف محتاج ہے جو اس کے وجود میں مؤثر ہے اور اس مؤثر کا عدم بوجہ مؤثر کے نہ پائے جانے کی وجہ سے ہے اور اس طرح چلتے جایئے تو یہ اس تسلسل کو مستلزم ہے جو کہ باطل ہے اور صرف باطل ہی نہیں بلکہ مؤثرات وجودیہ کے تسلسل سے زیادہ باطل ہے۔

پانچویں وجہ :....یہ کہا جائے گاکہ اگر یہ بات فرض کرلی جائے کہ وہ عدم جو کہ مستمر ہے اس کیلئے کوئی علتِ قدیمہ ہے اور یہ بات کہ معلول جب عدم مستمر ہو (یعنی جاری رہنے والا ہو )تو اس کی وہ علت جو عدم مستمر ہے وہ علت ازلیہ ہوگی تو ا س سے لازم نہیں آتاکہ وہ موجود معین جس کے بارے میں وجود وعدم دونوں کا امکان ہے وہ قدیم ازلی بنے اور اس کا فاعل ازل سے اس کا فعل بنے اس طور پر کہ موجود ات کے فاعل نے کسی چیز کو بھی حادث نہیں کیا ۔اس لئے کہ اس موجود کا عدم پرقیاس کرنا جو کہ واجب قدیم ہے ،ازلی اور خالق ہے اور تمام موجوداتِ مخلوقہ کا فاعل ہے جو صفت استمرار کیساتھ ہے اور مستلزم دوسرے عدم کو جو کہ مستمر ہے تو یہ بہت ہی بڑا فاسد قیاس ہے اور یہ ایک قیاس محض ہے پس کیسے اس تشبیہ فاسد کے ذریعے اس جیسے اصل عظیم میں احتجاج اور استدلال جائز ہے جس کے نتیجے میں رب العالمین کا اپنی مخلوقات کی پیدائش کو عدم کے معدوم کی علت بننے کے مثل قرار دیا جاتا ہے اور یہ تو ان لوگوں کے قول سے بھی زیادہ فساد پر مشتمل ہے جن کے بارے میں اللہ نے یہ فرمایاہے کہ:

﴿ فَکُبْکِبُوْا فِیْہَا ہُمْ وَالْغَاوُونَ (94) وَجُنُوْدُ اِِبْلِیسَ اَجْمَعُوْنَ (95) قَالُوْا وَہُمْ فِیْہَا یَخْتَصِمُوْنَ (96) تَاللّٰہِ اِِنْ کُنَّا لَفِیْ ضَلاَلٍ مُّبِیْنٍ (97) اِِذْ نُسَوِّیکُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (98) ﴾(شعراء :۹۴تا ۹۸ )

’’پھر وہ اور تمام گمراہ لوگ اس میں اوندھے منہ پھینک دیے جائیں گے۔اور ابلیس کے تمام لشکر بھی۔وہ کہیں گے جب کہ وہ اس میں جھگڑ رہے ہوں گے۔اللہ کی قسم! بے شک ہم یقیناً کھلی گمراہی میں تھے۔جب ہم تمھیں جہانوں کے رب کے برابر ٹھہراتے تھے۔‘‘

پس جب یہ اس شخص کا حال ہے جس نے اس کے اور بعض موجودات کے تسویہ اور برابری کردی ہے تو اس کا کیا حال ہوگا جس نے اس کے اور عدم محض کے درمیان برابری اورتسویہ کردیا ۔

ساتویں دلیل اور اس پررد:

امام رازی فرماتے ہیں : ساتویں دلیل جو ذات واجب الوجود لذاتہ ہو اس کا ایک سے زیادہ ہونا یہ ممتنع ہے۔پس درایں صورت واجب الوجودکی صفات جو کہ حکماء کی رائے پر امور اضافیہ اور سلبیہ ہیں اور متکلمین کی مختلف آراء کے اعتبار سے صفات ،احوال اور احکام ہیں ؛ تو ان میں سے کوئی بھی چیز اپنے عین کے اعتبار سے واجب الثبوت نہیں ٹھہرے گی۔ بلکہ وہ تمام مشتملات کیساتھ ممکن الثبوت فی ذاتہ ہوں گے۔ اور واجب الوجود کی ذات کے اعتبار سے واجب الثبوت ہوں گے۔ پس یہ ثابت ہوا کہ عدم کی سابقیت اور اس کے تقدم پر تاثیر موقوف نہیں ۔

اگر وہ کہیں کہ: صفات اور احکام افعال کے قبیل سے نہیں ؛اور ہم تو افعال میں عدم کی سابقیت کو ثابت کرتے ہیں اور اسے واجب اور ضروری سمجھتے ہیں تو ہم جواب میں کہیں گے کہ اس جیسے مسائل عظیمہ میں محض الفاظ پر اعتماد کرنا ممکن نہیں اور فرض کرلیں کہ جس چیز پر عدم سابق نہ ہوتو ا سے فعل نہیں کہا جاتا لیکن یہ تو ثابت ہے کہ جوچیز اپنی ذات کے اعتبار سے ممکن الثبوت ہوتو اس کی کسی ایسے مؤثر کی طرف استناد اور نسبت جائز ہے جو اثر کیساتھ دائم الثبوت ہو۔ اور جب یہ معقول بات ہے تو اس لیے بعض مواضع میں امتناع کا دعوی کرنا ممکن نہیں ؛ الا یہ کہ لفظِ ’’فعل‘‘ کے اطلاق کو اس کا صاحب ممنوع قرار دے۔ یعنی لفظ فعل کا اطلاق اس پر نہ کرے؛مگرا س بات کا کوئی بڑا فائدہ نہیں جس کی طرف رجوع کیا جائے۔

اس حجت سے کئی طرح پر جواب دیا جاسکتا ہے :

۱) معترض کا یہ کہنا کہ: ’’واجب الوجود لذاتہ ایک سے زیادہ ہونا ممتنع ہے۔‘‘ اگر اس سے اس کی مراد یہ ہو کہ : الٰہ ایک سے زیادہ ہونا؛ یا ایک رب سے زیادہ ہونا؛ یا ایک خالق کے علاوہ خالق کا ہونا؛ یا ایک معبود واحد کے علاوہ ہوں ؛ یا ایک حی سے زیادہ حی[زندہ] ہوں ؛ یا ایک قیوم یا ایک صمد یا ایک قائم بنفسہ ذات سے زیادہ ہونا ممتنع ہے تو اِس مراد اور معنیٰ کے اعتبار سے یہ قول صحیح ہے۔

لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کی ایسی صفات ہوں جو اس کے ذات کے لوازم میں سے ہوں اور ان صفات کے بغیر اس کے ذات کا تحقق ممتنع ہو۔ اور اس طرح یہ بات بھی ضروری نہیں کہ وہ واجب الوجود وہی ذات ہو جو ان صفات کو مستلزم ہے۔ اور اس کے واجب الوجود ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے ذات کی وجہ سے موجود ہے اور اس کے پر عدم طاری ہونا بالکل ممتنع ہے۔ اوراس کیلئے نہ کوئی فاعل ہے؛ اورنہ ہی کوئی ایسی چیز ہیجسے علت فاعلہکہا جائے۔ پس بنا پر اس کی صفات اس کے اسم کے مسمیٰ میں داخل ہیں اور ممکن الثبوت نہیں ؛ اس لئے کہ وہ ذات ممکن الثبوت نہیں ؛کہ وہ کبھی موجودہو اور کبھی معدوم۔ اور نہ ہی وہ فاعل کا محتاج ہے؛ اور نہ ہی علت فاعلہ کا۔بلکہ وہ تو اس ذات کے لوازم میں سے ہے جو اپنی صفات لازمہ کیساتھ واجب الوجود ہے پس مدعی کا یہ دعوی کرنا کہ صفات لازمہ ممکن الثبوت ہیں ؛ اور وہ وجودو عدم کو قبول کرتے ہیں یہ ا س دعوی کی مانندہے کہ وہ ذات ملزومہ وجود وعدم دونوں کو قبول کرتے ہیں ۔

اگر اس قول کہ ’’واجب الوجود ایک ہے ‘‘سے مراد یہ ہے کہ واجب الوجود ذات وہ ایک ایسی ذات ہے کہ جو صفات سے خالی ہے؛ تو اس اعتبار سے قول ممنوع ہے؛ نیز اس قائل نے اس پر کوئی دلیل بھی نہیں ذکرکی ۔

وجہ ثانی :.... مدعی کا یہ دعوی کرنا کہ:’’ واجب الوجود صفات سے خالی صرف ذات ہے‘‘ اوراس کی صفات تو ممکن الوجود ہیں ۔ اگر ا واجب الوجود سے اسکی مراد یہ ہے کہ کہ ا سکا عدم بغیر کسی فاعل کے فعل کے ممتنع ہے۔تو ان دونوں چیزوں کا معدوم ہوناکسی فاعل کے فعل کے بغیر ممتنع ہے۔

اگر واجب الوجود سے ا س کی مراد وہ ذات ہے جو قائم بنفسہ ہے؛ اورکسی جگہ کی محتاج نہیں ؛ تو اس کی حقیقت یہ ہوگی کہ صفات کیلئے کسی ایسے محل کا ہونا ضروری ہے جس کیساتھ وہ قائم ہو ں بخلاف ذات کے۔ لیکن یہ تو اس بات کا تقاضا نہیں کرتا کہ ممکن الثبوت کسی فاعل کا محتاج ہو۔ اور اگر ا سکی مراد واجب الوجود سے ایسی ذات ہے جس کا عدم ممکن نہ ہو۔

ممکن الوجود سے اس کی مراد وہ ہے جس کا وجود اور عدم دونوں ممکن ہوں ؛ تو یہ بات معلوم شدہ ہے کہ جیسے ذات کا معدوم ہونا ممکن نہیں ؛ ایسے ہی صفات کا معدوم ہونا ممکن نہیں ۔ (جس کو آج کل کے فلسفے میں کہتے ہیں کہ مادہ فنا نہیں ہوتا )۔پس وجود کا واجب ہونا ان دونوں کو شامل ہے۔ اور اگر واجب الوجود سے اس کی مراد وہ چیز ہے کہ جس کا کوئی لازم نہ ہوتو پھر وجود میں کوئی ایسی چیز باقی نہیں رہیگی جو واجب الوجود ہو خاص طور پر ان کے قول پر یعنی کہ وہ اپنے مفعولات کو لازم ہے پس وہ و اجب الوجود نہیں ٹھہرے گا اور ان لوگوں کے تناقضات اور ان کے متبعین کے تناقضات جیسے کہ کتاب:’’ المضنون الکبیر‘‘ کے مصنف ؛وہ واجب الوجود کی تفسیر یہ کرتے ہیں کہ وہ ایک ایسی ذات ہے جو غیر کیساتھ لازم نہیں اس سے مقصود ان کا یہ ہے کہ اس کے ذریعے وہ اللہ تعالی کی صفات لازمہ کا نفی کرتے ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے یہ کہا کہ اس کی صفات اس کی ذات کیساتھ لازم ہیں تو پھر واجب الوجود نہیں رہیگا اور پھر وہ افلاک اور اس کے علاوہ دیگر اجرام کو اس کیلئے ازلا وابداًلازم قرار دیتے ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ اس کے واجب الوجود ہونے کے منافی نہیں پس ا س بات سے اور بہت بڑا تناقض کون سا ہوگا ؟

تیسری وجہ :.... یہ ایسی واحد ذات جو تما م صفات سے محروم ا ور خالی ہو وہ ممتنع الوجود ہوتی ہے۔یہ مسئلہ کئی مقامات پر تفصیل سے بیان کردیا گیاہے۔ اور یہ بھی بتایاگیا ہے کہ ایسے معانی کا ثبوت ضروری ہے جو ثبوتی ہوں ؛ جیسے اس کا حی ہونا ،عالم ہونا ،قادر ہونا۔ اور یہ بات بھی ممتنع ہے کہ وہ معانی عینِ ذات ہوں ۔کیونکہ جو چیز ممتنع الوجود ہو تو اس کا واجب الوجود ہونا بھی ممتنع ہوتا ہے۔ پس انہوں نے جو اس کے واجب الووجودہونے کا گمان کیا ہے تو یہ ٍممتنع ہے۔ چہ جائیکہ یہ کہا جائے کہ وہ تو اپنے صفات کا فاعل ہے جیسے وہ اپنے مخلوقات کیلئے فاعل ہے۔ اور جس طرح وہ اپنے مخلوقات کیلئے فاعل اور مؤثر ہے؛ اس طرح وہ اپنی صفات کا متقاضی اور ان کو مستلزم اور ان میں مؤثر ہے ۔

چوتھی وجہ یہ کہنا کہ:’’حکماء کے نزدیک وہ امور اضافیہ اور سلبیہ ہیں ‘‘ تویہ ان منکرین ِصفات کی رائے پر ہیں ؛ جو ان میں سے صفات کی نفی کرنے والے ہیں جیسے ارسطو اور اس کے متبعین۔ البتہ بڑے بڑے فلاسفہ صفات کو ثابت مانتے ہیں ۔جیسا کہ کئی مقامات پر ہم اس کا ذکر کرتے آئے ہیں ۔ اور اسی طرح ان کے بہت سے متاخرین ائمہ جیسے ابوالبرکات اور اس کے امثال کا حال بھی ہے۔

یہ بھی (یاد رہے )کہ منکرین صفات جیسے کہ ابن سینا اور اس کےہمنوا؛ان کے اقوال میں تناقض پایا جاتا ہے اور وہ صفات کی نفی اور اثبات کو جمع کرتے ہیں ۔ ایک اور مقام پراس پر تفصیلی کلام ہوچکا ہے۔ پس اگر وہ صفات کو ثابت ماننے والے ہیں تو وہ باقی مثبتین کی طرح ہیں ۔ اور اگران کے منکر ہیں تو ان کو جواب میں کہا جائیگاکہ : ’’ سلب تو عدم محض ہے۔ اور امور اضافیہ جیسے کہ اس کا فاعل ہونا ،مبدأ ہونا تو یاتو وہ وجود اور عدم سے عبارت ہیں ۔ کیونکہ وہ مقولہ فعل وانفعال سے ہیں اور یہ مقولہ من جملہ ان اجناس عالیہ کے ہے جو مناطقہ کے نزدیک دس اجناس ہیں ۔ اور جو موجودات کی اقسام ہیں تووہ اضافت جس سے وجود کو موصوف کیا جاتا ہے اس کی صفات اضافیہ وجود ی قرار پائیں گی جو اس کی ذات کیساتھ قائم ہوں گی اور اگر اضافت عبارت ہے عدم محض سے تو سلب میں داخل ہے پس اضافت کو ایساقسم ثالث بنا لینا جو نہ تو وجود سے عبارت ہو نہ عدم سے ،یہ خطا ہے ۔

ایسی صورتحال میں جب انہوں نے واجب الوجود کیلئے کسی صفت وجودی کو ثابت نہیں کیا تو پھر اس کی ذات سوائے امر عدمی کے صفات میں سے کسی بھی صفت کو مستلزم نہ رہی، رہے مخلوقات تو وہ تو موجودات ہیں جن میں سے بعض جواہر اور اعراض ہیں اور یہ تو بداہۃ ًمعلوم ہے کہ واجب اور غیر واجب کا عدمِ محض کا تقاضا کرنا اس کے وجود کے تقاضا کرنے کی طرح نہیں چاہے اس کو استلزام کانا م دیا جائے یا ایجاب نام دیا جائے یا فعل یا اس کے علاوہ کوئی اور نام ،اس لئے کہ کسی چیز کا وجود اس کے ضد کے عدم کو مستلزم ہوتا ہے اور کوئی بھی عاقل اس کا قائل نہیں کہ وہ اپنے ضد کے عدم کی وجہ سے فاعل ہے اور کسی چیز کا وجود اس کے ذات کے عدم کے مناقض ہے اور کوئی بھی عاقل اس کا قائل نہیں کہ اس کا وجود ہی فاعل ہے بوجہ اس کے عدم کے نہ پائے جانے کے کیونکہ اس کے عدم کا معدوم ہونا ہی تو اس کا وجود ہے اور اس کا وجود تو واجب ہے جوکہ نہ مفعول بنتا ہے اور نہ معلول اور یہ بھی (مسلم ہے )کہ عدم محض کیلئے یا تو بالکل کوئی علت ہی نہیں ہوتا جیسے کہ جمہور عقلاء کی رائے ہے یا یہ کہ کہا جائے کہ اس کی علت اس کے وجود کی علت کا نہ پایا جاناہے پس عدم کی علت خود عدم ہی ٹھہری اور عدمِ ممکن کیلئے کوئی علتِ وجودی ثابت نہ ہوئی پس عدمِ واجب بطریقہ اولی کسی علتِ وجودی کی طرف محتاج نہ ہوگی اس لئے کہ عدمِ واجب جو کہ اس کی ذات کے لئے لازم ہے وہ ایک ایساعدم ہے جو واجب ہے پس و ہ کسی علتِ وجودی کی طرف محتاج نہیں کیونکہ عدمِ واجب کے ساتھ تو ممتنع ہی متصف ہوتا ہے اور وہ ممتنع جس کا وجود ممتنع ہو وہ کسی علتِ وجودی کا محتاج نہیں ہوتی اور رب تعالیٰ کے وجود کا عدم اپنی ذات کے اعتبار سے ممتنع ہے جس طرح کہ رب تعالیٰ کا وجود اپنی ذات کے اعتبار سے واجب ہے ۔ پس وہ اس کیلئے علت نہیں بنے گا۔

پانچویں وجہ :....اس کا یہ کہناکہ’’ صفات، احوال اور احکام متکلمین کی مختلف آراء کے اعتبار سے۔‘‘

جواب: ....اللہ تعالیٰ کیلئے صفات کو ثابت ماننا جمہورِ امت کا مذہب ہے سلفاً وخلفاً اور یہی صحابہ اور تابعین کا اور مسلمانوں کے ائمہ کا بھی مذہب ہے۔ اور تمام اہل سنت والجمات اور متکلمین کے دیگر طوائف اور جماعتوں کا بھی جیسے کہ ہشامیہ ،کرامیہ ،کلابیہ ،اشعریہ اورا ن کے علاوہ اور اس میں صرف جہمیہ نے اختلاف کیا ہے اور وہ امت کے سلف اور ائمہ کے نزدیک اور ان کی تمام جماعتوں کے نزدیک اللہ اور اس کے اصول پر ایمان سے بہت زیادہ دور ہیں اور معتزلہ اور ان کے امثال نے ان کیساتھ موافقت کی ہے یعنی ان میں سے وہ جو امت کے نزدیک بدعت میں مشہور ہیں ،رہے احکام تو وہ اللہ پر اس بات کا حکم لگانا ہے کہ وہ زندہ ،عالم اور قادر ہے۔ اور یہی اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں برحق خبر ہے اور اس کو معتزلہ بھی ثابت کرتے ہیں (یعنی مانتے ہیں )۔ لیکن غالی جہمیہ اللہ تعالی سے اسماء کی نفی کرتے ہیں اور ان کو مجاز قرارر دیتے ہیں ۔ پس وہ اللہ کے بارے میں خبر کو مجاز کہتے ہیں ۔ اور یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی صفات کے منکر ہیں ۔ اور ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کسی بھی چیز کا تقاضا نہیں کرتی۔ اس لئے کہ مخبرین کا کلا م اور ان کا حکم ایک ایساامر ہے جو ان کے ساتھ قائم ہے وہ اللہ کی ذات کیساتھ قائم نہیں ۔

رہے و لوگ جنہوں نے احکام کو ثابت نہیں مانا؛ جیسے کہ ابوھاشم اور اس کے اتباع؛ تو وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ نہ تو موجود ہیں اور نہ معدوم پس اس کو موجودات کی طرح نہیں قرار دیا جا سکتا ۔رہا صفات کے ان مثبتین پر کلام جو یہ کہتے ہیں کہ اس کی صفات موجود ہیں اور اس کی ذات کیساتھ قائم ہیں اور اس کی مخلوقات ایسی اشیائے موجودہ ہیں جو اس کی ذات سے مبائن اور جدا ہیں تو ان لوگوں کے نزدیک اللہ تعالی کی صفات واجب الثبوت ہیں ،ان کے اوپر عدم (فنا)ممتنع ہے ۔یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان بارے میں وجود اور عدم دونوں ممکن ہیں جیسے ان ممکنات کے بارے میں یہ دونوں احتمال ثابت ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے وجود دیا ہے ۔ صفات کیلئے ایسی ذوات ہیں جو ان کے وجود کے علاوہ ثابت ہیں ۔ اور وہ ذوات وجود اور عدم دوونوں کو قبول کرتی ہیں جیسے کہ یہی بات بعض لوگ ممکناتِ مفعولہ کے بارے میں کرتے ہیں پس یہ بات واضح ہوئی کہ اللہ تعالی کی صفات کو اس کی مخلوقات کیساتھ مثال دینا اور اس کے مشابہہ قرار دینا تما م جماعتوں اور طوائف کے نزدیک انتہائی درجے کی فاسد تمثیل ہے ۔

چھٹی وجہ :....اس کا یہ کہنا کہ:’’ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے کوئی بھی چیز اپنی ذات کے اعتبار سے واجب الثبوت نہیں بلکہ وہ ممکنۃ الثبوت ہیں اور اللہ تعالی کی واجب الوجود ذات کے اعتبار سے واجب الثبوت ہیں ۔‘‘ تو یہ ایک ممنوع ااور باطل کلام ہے۔ بلکہ صفات تو اس کی ذات کیساتھ لازم ہیں اور ذات کا وجود ان صفات لازمہ کے بغیر ممکن ہی نہیں اور نہ صفاتِ لازمہ کا وجود بغیر ذات کے ممکن ہے اور ان دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کیساتھ لازم اور دوسرا اس کیلئے ملزوم ہے۔ اور مدعی کا یہ دعوی کرنا کہ ذات تو واجب الوجود ہے نہ کہ صفات تو یہ بھی باطل ہے اور یہ اُس قائل کے قول کے بمنزلہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ صفات واجب الوجود ہیں ذات نہیں ،خواہ وہ واجب الوجود کی تفسیر ’’بذات خود موجود ‘‘سے کرے یا کسی ایسی ذات سے جو عدم کو قبول نہ کرتا ہو یا اس کیساتھ جس کیلئے نہ کوئی فاعل ہو اور نہ کوئی علتِ فاعلہ ہو اور دونوں (واجب اور ممکن)اس صورت میں جدا ہوتے ہیں ۔ جب واجب کی تفسیر قائم بنفسہ کیساتھ اور ممکن کی قائم بالغیر کیساتھ کی جائے اور یہ بات بھی معلوم ہے کہ اس کی یہ تفسیر باطل ہے اور ایک محض اختراع ہے اور اس کا نتیجہ ایک لفظی جھگڑے کی طرف نکلتا ہے جس کا کوئی کوئی فائدہ نہیں ۔

ساتویں وجہ :....اس کا یہ کہنا کہ یہ بات ثابت ہوگئی کہ عدم کی سابقیت پر تاثیر موقوف نہیں پس اس کے جواب میں کہا جائیگا کہ یہ تو اس وقت صحیح ہے کہ جب وہ ذات جو اپنی صفات کو مستلزم ہے ،وہی صفا ت میں بھی مؤثر ہو اور ایسی صورت میں تاثیر کے لفظ سے اگر استلزام مراد ہو تو دونوں ایک دوسرے میں مؤثر ہیں کیونکہ وہ اس کیلئے مستلزم ہے ،اس سے یہ بات لازم آئی کہ ان میں سے ہر ایک واجب بنفسہ ہے نہ کہ ممکن اور یہ باطل ہے۔ اور اگر تاثیر کے لفظ سے یہ مراد ہے کہ ان میں سے ایک نے دوسرے کو وجود دیا یا اس کافعل اس سے صادر ہوا؛ یا اس نے اس کو موجود بنایا؛ یا اس کے امثال (دیگر تعبیرات)جو مصنوعات کے پیدا کرنے میں ایک معقول تعبیر ہے تو یہ بھی باطل ہے اس لئے کہ کوئی بھی عاقل اس امرکا قائل نہیں کہ موصوف نے اپنی صفات لازمہ کوخود وجوددیا ،نہ یہ کہ ان کو پیدا کیا ،نہ یہ کہ انکا وہ فاعل ہے اور نہ یہ کہ اس نے ان کو موجودبنایا نہ اس کے مثل اور کوئی بات جو اس پر دلالت کرتی ہو بلکہ ہر زندہ میں جو اعراض اور صفات اس کی اختیار کے بغیر پیدا ہوتی ہیں جیسے کہ صحت ومرض ہے کبر ہے تو کوئی بھی عاقل اس بات کا قائل نہیں کہ اس نے ان کو وجود دیا ہے یا وہ ان کا فاعل ہے پس اس ذات کا کیا حال ہو گاجس کیساتھ اس کی صفات لازم ہوں جیسے کہ اس کی زندگی اور دیگر لوازم ہیں ۔

اسی طرح کوئی بھی عاقل اس بات کا قائل نہیں کہ جمادات اور نباتات اورجاندار کے علاوہ دیگر اجسام میں ان کی جسامت اور مقدار جو ان کیلئے لازم کی طرح ہے ،ان بے جان اجسام نے ان کوخود وجود دیا ہے ؛اور اس کے انتخاب کا وہ فاعل ہے۔ یعنی مثلاًاس مادے کو پتھرکاشکل دے دیا، تودوسرے کونبات کا اور اسکے علاوہ دوسرے صفات لازمہ (کا بھی یہی حال ہے ) بلکہ تمام عقلاء بالاتفاق افعال طبعیہ اور ارادیہ کو ثابت کرتے ہیں (یعنی مانتے ہیں )۔اور جو افعال ارادیہ کوثابت نہیں کرتے تو ان میں کوئی بھی ایسا نہیں جو ذات کے لوازامات کواس کی صفات میں سے قرار دے اور ان کے لئے مفعول قرار دے نہ ارادۃ ومستقلاًاور نہ بالطبع بلکہ وہ ان سے صادر ہونے والے افعال اورمفعولات اور صفاتِ لازمہ اور غیر لازمہ کے درمیان فرق کے قائل ہیں (الحاصل وہ افعال اور صفات میں فرق کرتے ہیں ) اور کبھی تو ذات کیلئے بعض صفاتِ عارضہ کے حصول میں تاثیر ثابت ہوتی ہے پس اس کی نسبت اس کے فعل کی طرف کی جاتی ہے کیونکہ وہ اسی کے ذریعے حاصل ہوتی ہیں جیسے کہ علم باعتبار نظر اور استدلال کے اور اسی طرح شکم سیری کا حصول اکل وشرب کے ذریعے بخلاف صفات لازمہ کے اور وہ جو اس کی قدرت ،فعل اور اختیار کے بغیر حاصل ہوتے ہیں تو کوئی بھی عاقل اس کا قائل نہیں کہ وہ سب مؤثر ہیں یا یہ کہ سب اس کے اثر میں سے ہیں بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ وہ ا سکے لئے لازم ہے ا ور اس کی صفت ہے اور وہ اس کیلئے مستلزم اور اس کا موصوف ہے ۔

بسا اوقات وہ یہ کہتا ہے کہ وہ اس کی ذات کیلئے مقوم اور متمم ہے اور اس کے امثال دیگر تعبیرات اور وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ کسی چیز (کی ذات)کا فاعل (محدث اور موجد)ہی اس کے صفاتِ لازمہ کا بھی فاعل ہے کیوں کہ کسی چیز کا فعل (احداث)اس کے صفاتِ لازمہ کے بغیر ممتنع ہے اور یہ بھی کہ صفات سے مجرد اور خالی ہونے کی حالت میں کسی ذات کا دوسری چیز میں مؤثر ہونا ممتنع ہے چہ جائیکہ وہ خود اپنی صفات کے بغیر مؤثر ہو اس لئے کہ اس کے مؤثر ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ زندہ ہو ،عالم اور قادر ہو اور اگر ا سکے زندہ ہونے ،عالم اور قادر ہونے میں وہ خود ،مؤثر ہوتو وہ ان اوصاف کیساتھ اتصاف کے بغیر مؤثر قرار پائے گا اور یہ بات بدیہی اور واضح طور پر ممتنع ہے بلکہ اس کی صفاتِ لازمہ تمام موجودات سے اکمل ہیں پس جب کسی موجودِ حادث کے بارے میں یہ امرممتنع ہے کہ وہ اپنی صفات سے مجرد ہو کر کسی چیز میں اثر کرے توان صفات میں محض اپنی ذات کے ذریعے کیسے مؤثر ہوگا پس یہ بات معلوم ہو گئی کہ یہاں اس کی صفات نے کسی طور پر بھی تاثیر نہیں کی الا یہ کہ اس مسمی اور ذات کو استلزام اور تاثیر کہا جائے جیسے کہ ماقبل میں گذرا اور ایسی صورت میں یہ کہا جائیگا کہ اس جیسے مسائل عظیمہ ٰمیں محض الفاظ پر اعتماد کرنا ممکن نہیں اس لئے کہ صفات لازمہ کیساتھ متصف ذات کے استلزام کی وجہ سے تمہارااس کو تاثیر کا نام دینااس بات کو ثابت نہیں کرتا کہ اس (تاثیر)کو مخلوقات کے ابداع کے بمنزلہ قرار دیا جائے ، فرض کرلیں کہ تم نے ہر استلزام کو تاثیر کہہ دیا لیکن تمہارا دعوی بعد اس کے کہ مخلوقِ مفعول اپنے خالق اور فاعل کیساتھ ملازم ہے تو ایک ایسی بات ہے کہ اس کا فساد بداہۃ واضح اور ثابت ہے جس طرح اس پر اگلے پچھلے تما م عقلاء متفق ہیں اور تو موجودات میں کسی بھی چیز میں اس کامشاہدہ نہیں کر پاتا اور کوئی بھی چیز ایسی معلوم نہیں کہ اس نے دوسری چیز کواس حال میں پیدا کیا ہو کہ وہ حالتِ ابداع میں اس کیساتھ ا س طور پر مقارن ہو کہ وہ دونوں ایک ہی زمان میں وجود میں آئے ہوں اور کوئی بھی دوسرے سے سابق نہ ہو بلکہ یہ بات بداہۃً معلوم ہے کہ وہ تاثیر جوکسی چیز کی ابداع اورا س کا خلق (کی صورت میں ہوتا)ہے اور اس کا موجود بنا دینا ہے (ایسی تاثیر )اس کے عدم کے بعد ہی موجودہوتی ہے ورنہ تو وہ موجودِ ازلی جو ازل سے موجود ہے کبھی بھی کسی ایسے مبدع کی طرف محتاج نہیں ہے جو خالق ہو اور اس کو وجود دے اور نہ وہ ایسا ممکن بنتا ہے جو وجود اور عدم دونوں کو قبول کرتا ہو بلکہ جس ذات کا قدم واجب ہو اس کا عدم ممتنع ہوتاہے لہٰذایہ بات ممکن نہیں کہ وہ عدم کو قبول کرے ۔

آٹھویں وجہ :.... اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوقات میں تاثیر کوفعل ،صنع ،ابداع اور خلق کانام دے دینا اور اس کے امثال دیگر عبارات ایسی عبارات ہیں جو انبیائے کرام علیہم السلام سے متواتر ہیں بلکہ جس کو جمہور عقلاء بھی مانتے ہیں اور یہ اُن عبارات میں سے ہے کہ جو خاص اور عام سب کی زبان پر جاری ہیں اور اس جیسی عبارات کے بارے میں یہ جائز نہیں کہ ان کامعنیٰ مراد ایک ایسا امر ہوجس کو صرف خاص لوگ سمجھتے ہوں اس لئے کہ یہ تو اس بات کو مستلزم ہے کہ عام لوگ آپس میں ایسے کلام کیساتھ متکلم ہوں جس سے بعض مراد سمجھ میں آتا ہو اور بعض نہیں اور یہ بات تو بداہۃ ًمعلوم ہے کہ کلام سے مقصود افہام ہے لہٰذا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ان کے مفاہیم ایسے ہوں جن کو صرف خاص لوگ سمجھتے ہوں اور یہ بھی (واضح ہے )کہ اگر اس کی مراد وہ نہیں جو اُن سے سمجھ میں آتی ہے تو پھر انبیائے کرام کا لوگوں کیساتھ یا اللہ کا تعالیٰ کا اپنے انبیائے کو خطاب تلبیس ، تدلیس اور اضلال قرار پائے نیز اگر یہ بات فرض کرلی جائے کہ ان کی مراد اس سے اس معنی کے علاوہ کوئی اور معنیٰ ہے جو اس سے سمجھ میں آتا ہے تو یہ ایک ایسی بات ہوگی جو ان کے خواص پہچانتے ہوں گے اور لازمی طور پر یہ بات معلوم ہے کہ کہ خاص اور عام سب صحابہ اس بات کا اقرار کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کے خالق اور مالک ہیں اور اس نے آسمان اورزمینوں کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور ان کے مابین تمام مخلوق کو پیدا کیا پس یہ مخلوقات پیدا ہوئیں بعد اس کے کہ یہ موجود نہیں تھیں ؛ اور اسی وجہ سے تو انبیائے کرام اور تمام عقلاء کی مراد پر ان عبارات کے ذریعے ہمیں علم حاصل ہوجاتا ہے اور ہم اس کے ذریعے اس بات کا استفادہ کرلیتے ہیں کہ جس نے بھی ان کے مراد اورمعنیٰ کے علاوہ کوئی اور معنی مراد لیا تو وہ ان کیساتھ مراد میں موافق نہیں ہوگا اور اگر وہ دعوی کرے کہ ان کی مراد وہی ہے جو اس مدعی کی ہے یعنی کہ اللہ تعالی کی صفات اس کی ذات کیساتھ لازم ہیں ازلا ًوابداًتویہ معلوم ہوا کہ وہ (قائلین)انبیائے کرام اور جمہورعقلاء پر صریح جھوٹ بولنے والاہے جس طرح کہ ان لوگوں نے لفظ ’’احداث ‘‘میں ایسا کیا ہے کیونکہ یقینالفظ ’’احداث ‘‘کامعنی تو ہرخاص وعام کے نزدیک معقول ومعلوم ہے اور یہ وہ معنی ہے جو تمام لغات میں بھی تواتر کیساتھ نقل ہوتا چلا آرہا ہے اور ان لوگوں نے اس کیلئے ایک نیا اور انوکھا معنی بیان کیا ہے پس انہوں نے کہا کہ حدوث دو معانی پر بولا جاتا ہے :

۱) حدوث ِزمانی اور اس کا معنی ہے کہ کسی چیز کا موجود ہونا بعد اس کے کہ اس کا زمان سابق میں وجود نہیں تھا۔

۲) دوسرا یہ کہ کوئی چیز اپنی ذات کی طرف مستند نہ ہو بلکہ غیر کی طرف ہو خواہ یہ استناد اور نسبت کسی زمانِ معین کیساتھ خاص ہو یا وہ تمام زمانوں میں مستمراور جاری ہو اور انہو ں نے کہا ہے کہ یہی حدوث ذاتی ہے اور اسی طرح ’’قِدم ‘‘کی تفسیر بھی انہوں نے ان دومعانی کیساتھ کی ہے اور انہوں نے قدم کو اپنے دو معانی میں سے ایک معنٰی کیساتھ وجوب کا مرادف قرار دیا۔ اور انہوں نے کہا کہ حدوثِ ذاتی کے اثبات پر دلیل یہ ہے کہ ہر ممکن لذاتہٖ اپنے ذات کی وجہ سے عدم کا مستحق ہے اور غیر کی وجہ سے وجود کا ،اور جو چیز ذات کی وجہ سے ہو (ذاتیات میں سے ہو)وہ اس چیز سے اقدم اور اسبق ہوتی ہے جو غیر کی وجہ سے ہو (یعنی ذات سے خارج ہو )پس اس ممکن کے حق میں وجوب کی بہ نسبت عدم زیادہ اقدم ہے تقدم ذاتی کیساتھ پس وہ حادث ہوگا حدوث ذاتی کیساتھ ۔ان پر امام رازی رحمہ اللہ نے ایک سوال واردکیا ہے کہ یہ بات جائز نہیں کہ یہ کہا جائے کہ ممکن اپنی ذات کی وجہ سے عدم کا مستحق ہے اس لئے کہ اگر وہ اپنی ذات کے اعتبار سے عدم کا مستحق ہو تو وہ ممتنع بنے گا نہ کہ ممکن بلکہ ممکن پر تویہ بات صادق آتی ہے کہ وہ اپنی ذات کی وجہ سے موجود نہیں ہوتایعنی من حیث ہوہواور اس پر یہ صادق نہیں آتا کہ وہ من حیث الذات موجود نہیں اور دونو ں اعتبارین کے درمیان فرق معروف ہے اس طرح کہ ممکن اپنے علت کے وجود کی وجہ سے وجود کا مستحق ہے پس بے شک وہ اپنے علت کے عدم کے وجہ سے عدم کا بھی مستحق ہے اور جب عدم اور وجود دونوں کا استحقاق غیر کی وجہ سے ہے اور ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی ماہیت کے مقتضیات میں سے نہیں تو پس کسی ایک کو دوسرے پر تقدم بھی حاصل نہیں لہٰذاایسی صورت میں اس کے وجود پر اس کے عدم کیلئے کوئی تقدم ِذاتی ثابت نہیں گا اور اس نے کہا کہ شاید اس حجت سے مراد یہ ہے کہ ممکن اپنی ذات کے اعتبار سے مستحق ہے نہ کہ اس کا عدمِ وجود کی استحقاقیت اور یہ استحقاقیت ایک وصفِ عدمی ہے جو کہ استحقاق پر سابق ہے پس اس اعتبار سے حدوث ِذاتی ثابت ہوئی ۔

اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ سوال تو ایک صحیح سوال ہے جو انکے قول کو باطل کردیتا ہے باوجودیکہ اس نے ان کے اُس باطل کو بھی تسلیم کرلیا اس لئے کہ یہ کلام اس امرپر مبنی ہے کہ خارج میں ایک چیز معین یعنی ایک ایسی ذات ہے جو (وجود خارجی کے علاوہ )وجود اور عدم دونوں کو قبول کرتی ہے اور یہ باطل ہے اور یہ اس پر مبنی ہے کہ ممکن کا عدم اس کی علت کے عدم کیساتھ معلل ہے اور یہ بھی باطل ہے رہا اس بات کا اعتذار کہ مردا یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کے اعتبار سے وجود اور عدم دونوں کا مستحق ہے تو اس کے جواب میں کہا جائیگا کہ جب یہ بات فرض کرلی جائے کہ یہی مراد ہے تو پھر وہ کسی بھی حال میں عدم کا مستحق نہیں بنے گا اس لئے کہ اس کی ذات تو وجود اور عدم دونوں میں سے کسی ایک کا تقاضا نہیں کرتی البتہ اس کا غیر اس کے وجود کا مقتضی ہے اس کے عدم کا نہیں ،پس عدم ایسے حال میں باقی رہیگا کہ وہ بذاتِ خود حاصل نہیں ہوتا اور نہ کسی دوسرے موجودسے حاصل ہوتا ہے بخلاف وجود کے پس اس کا عدم اس کے وجود پر کسی بھی حال میں سابق نہیں ہوگا ۔

اس کا یہ کہنا کہ لااستحقاقیت ایک وصفِ عدمی ہے اس کا جواب یہ ہے کہ یہ چیز عدمی تودونوں نقیضین یعنی وجود اور عدم کا بوقت واحد عدم سے عبارت ہے اور یہ وہ عدم نہیں جو صرف عدم الوجود سے عبارت ہے اور (یہ بداہۃ معلوم ہے کہ ) نقیضین دونوں مرتفع بھی نہیں ہوتے جسطرح کہ دونوں مجتمع بھی نہیں ہوتے پس یہ کہنا ممتنع ہوا کہ آن واحد میں ارتفاع نقیضین سابق ہے بوجہ اس کے وجود کے اور اگر یہ مراد لیا جائے کہ دونقیضین میں سے کوئی ایک بھی اس میں سے نہیں تو یہ بات حق ہے اور ان میں کسی ایک کی دوسرے پر سابقیت بھی نہیں ہے ۔

ان کا یہ کہنا کہ اس کا عدم اس کے وجود پر سابق ہے باوجود یکہ وہ دوام کیساتھ موجود ہے تو تم نے یہ باتجان لی ہے کہ وہ اپنے اس قول کے باوجود کہ ممکن قدیمِ ازلی ہے تو یہ ممتنع ہے کہ وہاں پر کوئی ایسا عدم ہو جو کسی بھی طور پراس کے وجود پرسابق ہو اور بے شک ان کا کلام اس جیسے محل پردونقضین کو جمع کرتا ہے اور یہ اس لئے کہ ایسا تناقض ان کے کلام میں بہت زیادہ پایا جاتا ہے لیکن وہ امکا ن جس کو جمہور عقلاء نے ثابت کیا ہے اور ان میں سے قدماء بھی اس کے قائل ہیں جیسے کہ ارسطو اور اس کے متبعین اور وہ یہ کہ یہ ممکن ہے کہ کوئی چیز موجود ہو جائے اور پھر معدوم ہو اور یہ امکان سابقیتِ حقیقی کے ساتھ عدم پر مسبوق ہے اس لئے کہ ہر ممکن محدث وجود میں آنے والاہے بعد اس کے وہ نہیں تھا اور یہ ان امور کو تفصیل کیساتھ بیان کرنے کا موقع نہیں ،اپنے مقام پر ان کو تفصیلاً بیان کیا جائے گا اور مقصود تو یہاں یہ ہے کہ انہوں نے عقلی دلائل کو فاسد کردیا بسبب اس کے کہ انہوں نے کلام کو اپنے حقیقی اور اصل مراد سے محرّف کرکے دوسرے معانی پر محمول کرلیا جیسے کہ انہوں ادلہ عقلیہ کو بسبب اس سفسطہ کے اور قلبِ حقائقِ معقولہ کے فاسدکردیا ہے اور اس فطرت سے انکار کے بسبب جس پر اللہ تعالی نے مخلوق کو پیدا کیاہے اور اسی غرض سے یہ لوگ ایسے مجمل اور ذووجہین الفاظ استعمال کرتے ہیں جن سے ان کا مقصد یعنی تلبیس اور تحریف پورا ہوتا ہے جیسے کہ لفظ ’’تاثیر ‘‘اور ’’استناد‘‘تاکہ وہ یہ کہیں کہ یہ بات ثابت ہو گئی وہ اپنی ذات کے اعتبار سے ممکن الثبوت ہے اور اس کی استناد مؤثر کی طرف جائز اور ممکن ہے اور وہ اپنی اصل کے اعتبار سے دائم الثبوت ہے اور وہ اصل جس پر انہوں نے اپنے اس قول کو قیاس کیا ہے :’’کہ وہ ایک ایسا عدم ہے جو فرع میں اسکے وجود کولازم ہے ‘‘:اس سے مراد یہ ہے کہ وہ کسی مبدع ذات (از سر نو بلا سابق نمونے کے پیدا کرنے والا )کا پیدا کردہ ہے اور خالق کیلئے مخلوق ہے پس یہ استناد اور وہ استناد کہاں برابر ہے اور اس تاثیر اور اُ س تاثیر میں کتنا بڑا فرق ہے ؟

نویں وجہ :....’’ اس حجت کی حقیقت ایک قیاس مجرد ہے جو ایک ایسی تمثیل پر مشتمل ہے جو وصف جامع سے خالی ہے‘‘

کیونکہ مدعی یہ دعوی کرتا ہے کہ رب تعالیٰ کے فعل میں یہ شرط نہیں کہ وہ عدم کے بعد ہوجس طرح کہ اس کی صفات اس کی ذات کیساتھ لازم ہیں بلا سابقیتِ عدم کے اور یہ ایک قیاس کی وجہ سے جائز ہوا کہ تاثیر میں سابقیتِ عدم ضروری نہیں ۔

ان کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ دونوں باتوں کے درمیان ایک قدر مشترک ہے بلکہ قدر مشترک تو وہ ہے جو ہر لازم کو شامل ہے پس یہ بات لازم آئیگی کہ ہر لازم اپنے ملزوم کا مفعول بنے اور اگر ان کے درمیان قدر مشترک کو تسلیم بھی کرلیں تو ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ وہ اصل میں حکم کا مدار ہے تاکہ اس (میں اشتراک )کی بنا پر فرع کو بھی اس کیساتھ ملحق کیا جائے ۔ اگر وہ کلی طور پر اس بات کا دعوی کریں اور قیاس کی وجہ سے اسے جائز سمجھیں تو اسے کہا جائیگا کہ کلی دعوی مثالِ جزئی سے ثابت نہیں ہوتا ،فرض کرلیں کہ تم نے جو قاعدہ بیان کیاہے اس کے افراد میں سے کوئی ایک فرد بھی قضیہ کلیہ ہے تو تم نے یہ کیوں کہا کہ باقی افراد بھی اس کی طرح ہیں زیادہ سے زیادہ بات یہ ہے کہ تو قیاس تمثیل کی طرف رجوع کرتا ہے جبکہ ہم ایسے فروق ذکرکرتے ہیں جو تعداد میں بہت ہیں اور مؤثر بھی ہیں اور یہی وجہ کئی اعتبارات سے جواب کو متضمن ہے ۔

آٹھویں دلیل اور اس پر رد

امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : آٹھویں دلیل:’’ ماہیت کے لوازم اس کے معلولات ہیں اور وہ زمان کے اعتبار سے اس سے متاخر نہیں ہوتے؛ اس لئے کہ مثلاً مثلث کا متساوی الاضلاع ہونا صرف اور صرف اس لئے ہے کہ وہ مثلث ہے۔ اور یہ مثلث کے لوازمات میں سے ہے۔ اور ہم ایک قدم آگے بڑھا کر یہ بھی کہتے ہیں کہ اسباب کا اپنے مسببات کے ساتھ اتصال ہوتا ہے۔ جیسے کہ آگ یعنی جلانے کا جلنے کیساتھ یا درد کا اتصال مزاج یااخلاط کی خرابی اور بے اعتدالی کیساتھ۔ بلکہ ہم ایک ایسی چیز ذکر کرتے ہیں جس میں ان کا نزاع نہیں ہے اور وہ علم کا عا لمیت کیلئے علت بننا اور قدرت کاقادریت کیلئے علت بننا ان لوگوں کے نزدیک جو اس کے قائل ہیں ،یہ تمام باتیں اپنی آثار کیساتھ مقارن اور متصل پائی جاتی ہیں اور اس پر مقدم نہیں ہوتیں ،اسی سے ہم نے یہ جان لیا کہ اثر ومؤثر کازمان کے اعتبار سے مقارنت استناد اور حاجت کی جہت کو باطل نہیں کرتا ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ماہیت سے مراد وہ شی ہے جو خارج میں موجود ہو جیسے کہ مثلثاتِ موجودہ توان ماہیتوں کی صفات اس سے صادر نہیں ہیں بلکہ ملزوم کا فاعل تو وہی فاعل ہے جو صفتِ لازمہ کا فاعل ہے اور ان میں سے کسی ایک کو دوسرے کے بغیر وجود دینا ممتنع ہے اور جس نے کہا کہ موصوف اپنے لازم کیلئے علت ہے ،اگر علت سے اس کی مراد یہ کہ وہ ملزوم ہے تو اس میں اس کیلئے کوئی حجت اور دلیل نہیں اور اگر اس کی مراد یہ ہے کہ وہ فاعل یا مبدع اور پیدا کرنے والا ہے ؛یا علت فاعلہ ہے۔ تو بدیہی عقل اس کا انکار کرتا ہے اس لئے کہ وہ صفات جو موصوف کیساتھ قائم ہیں اور اس کیلئے لازم ہیں ان کو وہی ذات وجود دیتا ہے جس نے ان کے موصوف کو پیداکیا اس لئے کہ موصوف کو اس کی صفتِ لازمہ کے بغیر وجوددینا ممتنع ہے اور اگر ماہیت ذہنیہ مراد ہے تو اس میں کلام وہی ہے جو ماہیتِ خارجیہ میں ہے پس موصوف کا فاعل صفاتِ لازمہ کا بھی فاعل ہے اور ملزوم لازم کیلئے علتِ فاعلہ نہیں بنتی ۔

ان کا یہ کہنا کہ یہ اقتضاء مثلث کے لوازم میں سے ہے اگر ان کی مراد اقتضا اور تعلیل سے استلزام ہے تو یہ برحق ہے لیکن اس میں ان کیلئے کوئی حجت ہی نہیں اور اگر ان کی مراد یہ ہے کہ وہ علتِ فاعلہ ہے تو یہ معلوم الفساد ہے ،رہے وہ اسباب اور مسببات جو خارج میں موجود ہیں جیسے درد اور مزاج کی خرابی تو کون ہے جو اس بات کو تسلیم کرے کہ دونوں کا زمان ایک ہے ؟اور استدلال کرنے والے بھی خوداس کے قائل نہیں ،انہوں تو دلیل میں یہ کہا کہ در دکا وجود مزاج کی خرابی کے بعد ہوتا ہے اور جو چیز دوسرے کے بعد موجود ہوتا ہے وہ اس کے ساتھ کیسے مقارن ہو سکتا ہے زیادہ سے زیادہ بات یہ ہے کہ وہ بلا فصل ہو لیکن وہ زمان میں مقارن نہیں ہوتااس لئے کہ جو چیز کسی دوسری شی کیساتھ زمان کے اعتبار سے بالکل مقارن ،متصل اور معیت کی صفت کیساتھ موجود ہو وہ اس کے بعد کبھی نہیں ہو سکتا اسی طرح کا قول تمام اسباب میں بھی ہے ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ اسباب کے موجود ہونے کا زمانہ ان کے مسببات کے موجود ہونے کا زمانہ ہے بلکہ تقدمِ زمانی کا پایاجانا ضروری ہے اسی طرح توڑنا اورٹوٹنا ،جلانا اور جلنا ہے ،اس لئے کہ توڑنا وہ حرکت ہے جو توڑنے والے کیساتھ قائم ہے اور انکسار یعنی اجزاء کا تفرق تو وہ ایسی حرکت اور اثر ہے جو ٹوٹنے و الے جسم کیساتھ قائم ہے اور ظاہر کہ دونوں حرکتوں کازمانہ یکے بعد دیگرے ہے نہ کہ متصل اور یہ بات بدیہی ہے کہ وہ دواشیاء جن کازمان ایک ہو، اُن سے مختلف ہیں جن کا زمان یکے بعد دیگرے ہو اور بعض اسباب وہ ہیں جن کا مسبب دھیرے دھیرے وجود میں آتا ہے اور سبب ہی اس کا تقاضا کرتا ہے اور جب سبب مکمل ہو جاتا ہے تو مسبب بھی مکمل ہوجاتا ہے جیسے کھانا کھانا اور شکم سیری کہ جیسے جیسے انسان کھاتا جاتا ہے شکم سیری رفتہ رفتہ حاصل ہوتی جاتی ہے یہی حال پانی سے سیرابی حاصل ہونے کا بھی ہے اور ظاہر ہے کہ مسبب یہاں حاصل نہیں ہوتا مگر سبب کے حصول کے بعد نہ کہ اس کے ساتھ اور یہی اہل کلام اور فقہاء اور فلاسفہ میں سے جمہور کا قول ہے ۔یہ سب کے سب اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ مسبب کا وجود سبب کے بعد ہوتا ہے اور اسی پر متفرع ہو کر فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ جب کوئی شخص اپنی لونڈی کو یوں کہے کہ جب میرا والد مر جائے تو توآزاد ہے یا بیوی سے کہے کہ جب میرا والد مرجائے توتجھے طلاق ہے لہٰذا دونوں صورتوں میں طلاق اور آزادی مسبب یعنی والد کی موت کے بعد واقع ہوگی نہ کہ اس کیساتھ اور بعض متاخرین نے شذوذ اختیار کرکے یہ کہا ہے کہ مسبب کا وجود سبب کے زمان کے مقارن ہوتا ہے جیسے کہ معلول کا اپنی کیساتھ اتصال ہوتا ہے اور علت کا لفظ تو مجمل ہے اس سے وہ چیز بھی مراد ہوتی ہو جو وجود میں مؤثر ہو اور اس سے ملزوم بھی مراد ہوتی ہے پس اگر اس دوسرے معنی کے اعتبار سے اقتران مسلم ہے تو اول میں تو نہیں لہٰذا وجود میں ایسا کوئی مؤثر نہیں پایا جاتا جو من کل وجہ زمان میں مقارن ہو لہٰذاضروری ہے کہ وہ (مؤثر)اس پر زمان کے اعتبار سے مقدم ہو اور یہ بھی ضروری ہے کہ اس کاوجود عدم کے بعد حاصل ہو اسی وجہ سے تو فلاسفہ نے عدم کو من جملہ مبادی کے قرار دیا ہے جیسے کہ ہم نے ان کی یہ بات پہلے ذکر کردی ہے اور وہ جو مثال پیش کرتے ہیں یعنی کھریدنے کی آواز کا حصول کھریدنے کی حرکت کیساتھ کہ یہاں مسبب کا وجود سبب کیساتھ زمانا مقارن ہے تو یہ مثال بھی ممنوع اور غلط ہے کیونکہ وہ حرکت جو آواز کا سبب ہے وہ آواز پر مقدم ہے اگر چہ زمان کے اعتبار سے متصل ہے لیکن حرکت کا پہلا زمان آواز کا پہلا زمان نہیں ہو سکتا بلکہ ضروری ہے کہ حرکت اور آواز دونوں ایک دوسرے کے بعد ہوں اسی لئے تو مسبب کو اس حرف ’’فاء‘‘کیساتھ سبب کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے جو تعقیب کیلئے استعمال ہوتا ہے لہٰذا کہا جاتاہی کہ کسرتہ فانکسر ،قطعتہ فانقطع ،ضربتہ بالسیف فمات یعنی میں نے توڑا تو وہ ٹوٹ گیا ،میں نے کاٹا تو وہ کٹ گیا ،میں نے تلوار سے مارا تو وہ مرگیا اسی اس نے کھا لیا تو سیر ہوا ،پی لیا تو سیراب ہوا پس ان تما م مثالوں میں اسباب یعنی توڑنا ،کاٹنا اور مارنا ان کے فاعل کیساتھ قائم ہیں اور ظاہر ہے کہ ان کا اول زمان ان کے مسببات یعنی ٹوٹنے ،کٹنے اور مرجانے کے اول زمان کیساتھ مقارن نہیں بلکہ ان کے بعد ہیں ایسے ہی ان اسباب کا آخری زمانہ بھی ان کے مسببات کے آخری زمان کیساتھ مقارن نہیں ہوتا بلکہ اس سے متاخر ہوتا ہے اسی لئے لوگوں نے اس مسبب میں اختلاف کیا جو انسان کے فعل سے پیدا ہو پس ایک جماعت نے کہا کہ وہ اس کا فعل ہے اور ایک نے یہ کہا کہ وہ اللہ کا فعل ہے ۔ اور ایک جماعت نے کہا کہ انسان اس کیساتھ فعل میں شریک ہے اور وہ اس کے فعل اور ایک دوسرے سبب کے مجموعے سے حاصل ہوتا ہے جیسے کہ تیر کا کمان سے نکلنا اور شکم سیری کا اکل وشرب سے حاصل ہونا اور اگر سبب کا مسبب پر تقدم نہ ہوتا تو یہ نزاع بھی نہ ہوتا اس لئے کہ سبب تو بندے کے حق میں محل قدرت میں حاصل ہوتا ہے اور مسبب اس کے سبب یعنی قدرت کے علاوہ محل کسی اور جگہ پر حاصل ہے اور اسی قبیل سے ہے ۔آستین کی حرکت کا اتصال ہاتھ کی حرکت کیساتھ اور رسی کے آخری سرے کی حرکت کا اتصال پہلے سرے کیساتھ اور اس کے نظائر بہت ہیں پس معلوم ہو اکہ انہوں نے وجود میں کسی ایسے مفعول کو نہیں پایا جس کا زمان اپنے فاعل کے زمان کیساتھ بغیر کسی تاخر کے متصل اور مقارن ہو جیسے کہ اللہ کے فعل میں اس کا دعوی کرتے ہیں کہ وہ تمام اشیاء کا خالق ومالک ہے اس معنی پر کہ تمام آسمانوں کی تخلیق کا زمانہ اللہ تعالی کے وجود کیساتھ مقارن ہے (معاذاللہ)اور یہ کہ یہ ممکن نہیں کہ ان مخلوقات میں سے کسی کی تخلیق پر اللہ کی ذات کا وجود متقدم ہو رہا وہ جو انہوں نے یہ کہا ہے کہ علم عا لمیت کیلئے علت ہے۔

تو اولا اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ان لوگوں کاقول جو احوال کو ثابت کرتے ہیں جیسے کہ قاضی ابوبکر ،قاضی ابو یعلی ،اور ان سے پہلے ابو ہاشم اور جمہور اہل نظر وہ یہ کہتے ہیں کہ علم تو عا لمیت ہی ہے اور یہی درست ہے اور ان لوگوں کے قول پر یہ توبات نہیں کہی جاسکتی کہ علم یہاں علتِ فاعلہ ہے بغیر کسی ارادے اور بغیر کسی ذات کے یا انکے علاوہ کسی اورچیز کی وجہ سے پس معلول ان کے نزدیک وجود کیساتھ موصوف نہیں ہوتااور علت کا معنی کے نزدیک استلزام ہے اور اس میں تو کسی کا اختلاف نہیں ۔

نوویں دلیل اور اس پر رد :

امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’نوویں دلیل : کوئی بھی چیز اپنے وجود کے اعتبار کی حالت میں موجود ہے ،واجب الوجودہے کیونکہ اس کے وجود کیساتھ اس کا عدم ممتنع ہے اور وہ اپنے عدم ہونے کی حالت میں ممتنع ہے کیونکہ اس کا موجودِ معدوم ہونا ممتنع ہے اور حدوث ان دونوں حالتوں کے تردد سے عبارت ہے (یعنی کبھی موجود اور کبھی معدوم ) پس جب دونوں حالتوں میں دونوں صفتوں پر ماہیت واجب ہے تو ماہیت من حیث الذات واجب ہے اور کسی مؤثر کی طرف محتاج نہیں اس لئے کہ واجب اپنی ذات کے اعتبار سے واجب ہے اور اس کااستناد کسی مؤثرکی طرف ممتنع ہے پھر تو حدوث اپنی ذات کے اعتبار سے ایسا حدوث ہوا جو احتیاج سے مانع ہے پس اگر ماہیت کا من حیث الذات اعتبار نہ کیا جائے تو پھر وجوب مرتفع نہیں ہوگا یعنی اس کے وجود کا وجوب ایک زمانے میں اور عدم کا وجود اپنے زمانے میں اور وہ اس اعتبار سے کسی مؤثر کا محتاج نہیں پس ہم نے جان لیا کہ حدوث من حیث الذات حاجت سے مانع ہے اور اس کو کسی مؤثر کی طرف محتاج بنانے والا تو امکان ہے۔

جواب اس کا یہ ہے کہ اس حجت میں کئی مغالطات ہیں اور ان کا جواب کئی طرح پر ہے ۔

۱) حادث اپنے وجود کی حالت میں اگرچہ واجب الوجود ہے لیکن واجب الوجود لغیرہ ہے اورایسا وجوب فاعل کی طرف احتیاج سے مانع نہیں نیز فاعل کا مفعول بننے کے بھی منافی نہیں اور مسبوق بالعدم ہونے کے بھی منافی نہیں یعنی پہلے معدوم تھا پھر موجود ہوا ۔پس جب یہ وجوب اس امرسے مانع نہ ہو ا جو فاعل کی طرف اس کے احتیاج کو مستلزم ہے تو اس وجود کیساتھ ساتھ فاعل کی طرف اس کا احتیاج بھی ممتنع نہ ہوا ۔

۲) اس کا یہ کہنا کہ حدوث ان دو حالتوں کے تردد سے عبارت ہے تو اس سے کہا جائے گا کہ حدوث تو ان دو حالتوں کو متضمن ہے اور یہ اس بات کو متضمن ہے کہ وہ فاعل کی وجہ سے موجود ہواجس نے اس کو وجود دیا اور وہ اس کی طرف اس کی ذات کے بغیر محتاج ہے اور وہ معدوم ہونے کے بعد موجو دنہیں ہوتا پس حدوث اس معنی کو متضمن یا مستلزم ہے ۔

اور جب حدوث فاعل کی طرف حاجت کومتضمن یا اس کی حاجت کو مستلزم ہوا تو یہ کہنا ممکن ہی نہ رہا کہ وہ حاجت سے مانع ہے اس لئے کہ کوئی چیز اپنے لازم کیلئے مانع نہیں بنتی اور اس کے ضد کیلئے مانع بنتی ہے ۔

۳) اس کا یہ کہنا کہ واجب من حیث الذات یعنی من حیث ہو ہوواجب ہے اور مؤثر کی طرف اس کی استنادممتنع ہے ،یہ بات بھی ممنوع ہے بلکہ واجب بنفسہ وہی ذات ہے جس کا کسی مؤثر کی طرف استناد ممتنع ہے رہا واجب بغیرہ اس کا استناد ممتنع نہیں بلکہ یہ بذات خود اس کا واجب بغیرہ ہونا ہی مؤثر کی طرف اس کے استناد کو متضمن اور مستلزم ہے پس کیسے یہ کہا جائے کہ وجوب بالغیر غیر کی طرف استناد سے مانع ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ میری مرادواجب من حیث ہو ہوہے یعنی قطع نظر واجب بنفسہ یا بغیرہ ہونے کے تو اس سے کہا جائے گا کہ خارج میں تو صرف یہی دو قسم کے واجب پائے جاتے ہیں بنفسہ اور بغیرہ اور اگر ان دونوں قیدوں سے مطلق کرکے مراد لیتا ہے تو یہ ایک ایسا معنی ہے جو ذہن میں تو فرض کرلیا جاتا ہے لیکن علانیہ اور خارج میں اس کوئی وجود نہیں تو حاصل یہ ہے کہ یہ کہا جائے گا کہ ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ واجب کو مطلقا لیا جائے تو اس کا مؤثر کی طرف استناد ممتنع ہے بلکہ واجب اگر مطلقا بھی لے لیا جائے تو مؤثر کو مستلز م نہیں اور نہ اس کی نفی کرتا ہے کیونکہ یقیناً واجب میں وہ بھی ہے جو مؤثر کو مستلزم ہے جو کہ واجب بغیرہ ہے اور وہ بھی ہے جو مؤثر کی نفی کرتا ہے جو کہ واجب بنفسہ ہے لہٰذا یہ لون کی طرح ہوا کہ اگر اسے مطلقا اور مجرداً لیا جائے تو یہ سواد اور بیاض کی نہ تو نفی کرتا ہے اورنہ اثباتاسی طرح حیوان کو اگر نطق اور دم کی قید سے مطلقا اور مجردا لیا جائے تو یہ یہ نہ نطق کااثبات کرتا ہے اور نہ نفی اسی طرح ان تما م عام معانی کا ہے جو اجناس کے بمنزلہ ہیں جن کے تحت انواع ہیں اگر ان کو ان انواع سے قطع نظر کرکے لیا جائے تو وہ ان انواع کی نہ نفی کرتے ہیں اور نہ اثبات۔

۴) اس قائل کایہ کہنا کہ حدوث من حیث الذات احتیاج سے مانع ہے۔ تو یہ ایک ایسی بات ہے جس کا فساد بدیہی اور سرسری عقل سے معلوم ہے اور اس بات کے فساد پر علم ان لوگوں کے قول کے فساد پر علم سے زیادہ واضح ہے جو یہ کہتے ہیں انسان من حیث الذات مؤثر کی طرف سے حاجت سے مانع ہے اس لئے کہ لوگوں کا اس بات پر علم کہ حادث کے وجود میں آنے کیلئے محدث اور موجدکا ہونا ضرروی ہے ،وہ اس بات پر علم سے زیادہ واضح اور اظہر ہے کہ وجود اور عدم سے پہلے حادث کیلئے ان دوجہتین میں سے کسی ایک کا مرجح ہونا ضروری ہے پس جب اس بات کی نفی کرنے والی حجت سوفسطائیہ ہوئی تو وہ بطریقہ اولی سوفسطائیہ ہوگی یعنی جب پہلی بات کی نفی کرنے والی حجت سوفسطائی دلیل کہلائے گی تو دوسری بات اس سے زیادہ بدیہی اور لوگو ں کے علم میں زیادہ اظہر اور واضح ہے تو وہ بطریقہ اولی سوفسطائی[دھوکہ بازی ] حجت ہوگی۔

۵) یہ حجت اس بات پر مبنی ہے کہ خارج میں کوئی ایسی ماہیت پائی جاتی ہے جو اس وجود کے غیر ہے جو خارج میں حاصل ہے اور یہ کہ اس کے اوپر وجود اور عدم متعاقبا طاری ہوتے ہیں اور یہ بات بالکل ممنوع اور باطل ہے ۔

۶) اگر اس بات کو تسلیم کرلیا جائے کہ ماہیت اپنی ذات کے اعتبار سے نہ وجود کی مستحق ہے اور نہ عدم کے اور نہ کسی فاعل کی طرف محتاج ہے اس لئے کہ یقیناً کوئی شخص یہ کہتا ہے تو وہ یہ کہے گا کہ ماہیات کو وجود نہیں دیا گیا اور یہ کہ جس چیز کو وجو دیا گیا وہ تو اس کا وجود کیساتھ اتصاف ہے اور وہ فاعل کی طرف محتاج ہوتی ہے کہ جب وہ موجود ہوتی ہیں پس جب وہ موجود قرار پائیں تو ان کا وجود واجب ہوا پس معلوم ہوا کہ اس کا فاعل کی طرف احتیاج اس کے غیر کے ذریعے وجود کے وجوب کی حالت میں ہے نہ کہ اس حال میں کہ جس میں وہ نہ وجود کے مستحق ہیں اور نہ عدم کے۔

۷) اگر اس بات کو تسلیم کیا جائے کہ ماہیت خارج میں ثابت ہے اور وہ اپنے ذات کے اعتبار سے مؤثر کی طرف محتاج ہے تو ا سمیں کوئی ایسی بات نہیں جو اس کے ازلی ہونے کے وجوب پر دلالت کرے بلکہ اس کے امکان پر بھی اور جب اس میں کوئی ایسا امر نہیں جو اس بات پر دلالت کرے تو یہ ممتنع نہ ہوا کہ افتقار اور احتیاج اس کیلئے صرف اور صرف حالت حدوث میں ثابت ہو اور یہ کہ حدوث اس افتقار کی حالت میں اس کیلئے شرط ہے ۔

۸) جب یہ ہم نے بات تسلیم کرلی کہ فاعل کی طرف احتیاج کی حالت ہی امکان ہے تو وہ امکان کہ جس کو جمہور عقلاء سمجھتے ہیں وہ اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ کوئی چیز موجود ہوجائے اور اس کا کہ وہ معدوم بھی ہوجائے اور یہ امکان تو حدوث کیساتھ لازم ہے پس کسی چیز کے امکان کے بارے میں یہ بات معقول نہیں کہ وہ قدیم اور ازلی بنے اور واجب لغیرہ بنے اور وہ اس کے باوجود فاعل کی طرف محتاج بھی ہو اور یہ وہی بات ہے ہے کہ جس کا یہ دعوی کرتے ہیں ۔

۹) انہوں نے جب واجب الوجود لغیرہ کاغیر کی طرف استناد ممنوع قرار دیا تو واجب الوجوب لذاتہ کا تو بطریقہ اولی غیر کی طرف استناد ممنوع ہوگا اور افلاک تو ان کے نزدیک واجب الوجود ازلا وابدا ہیں اور ان کا وجوب غیر کی وجہ سے ہے پس جب یہ ماہیت کو لازم ہے اور غیر کی طرف احتیاج سے مانع ہے تو پس وہ ماہیت کیلئے لازم ٹھہرے گی اور احتیاج سے مانع قرار پائے گی پس ماہیت قدیمہ غیر کی طرف افتقار سے ممنوع ہوگی پس لازم آیا کہ وہ غیر کی طرف ابدا ً محتاج نہ ہو اور یہی وہ بات ہے کہ جس کے جمہور عقلا ء قائل ہیں اور جو ذات قدیم ہو تو اس کے بارے میں یہ بات ممتنع ہے کہ وہ مفعول بنے ۔

۱۰) اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ امکان ہی تو غیر کی طرف محتاج بنانے والا ہے جو کہ مؤثر ہے تو پس تاثیر تو کسی چیز کو موجود بنادینا ہے اور اس کے وجود کو ازسر نو پیدا کرنا ہے اور ایسی چیز کو وجود دیناہے جس کا عدم ممکن ہو تو یہ بات تو معقول نہیں ہے مگر ایک ایسے وجود کے احداث کیساتھ جو عدم کے بعد ہو ورنہ تو جس چیز کاوجود واجب ازلی اس کا عدم تو ممتنع ہے تو اس کا ایک ایسی ذات کی طرف حاجت معقول نہیں جو اس کو موجود بنادے جبکہ انہو نے یہ کہا کہ وہ ازلاً وابداً واجب الوجود ہے تو پھر اس کا عدم ممتنع ہوا پھر اس کے باوجود انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس کا غیر بھی وہ ہے جس نے اس کو وجود دیا ہے اور اس کو موجود بنایا ہے اور یہ کہ یقینااس کا وجود اور عدم دونوں ممکن ہے پس تحقیق انہوں نے اپنے کلام میں نقیضین کو جمع کیا جو کہ اس تناقض بڑھ کر ہے جو وہ غیر کے اوپر بطور تنقید ذکر کرتے ہیں ۔ ۱۱) اگر محض امکان ہی فاعل کی طر ف احتیاج کو مستلزم ہوتا تو پھر ہر ممکن ہوتا جیسے کہ ہم نے یہ کہا جب ہم یہ کہتے ہیں کہ حدوث ہی تو مؤثرکی طرف محتاج بنانے والا ہے تو پھر ہر محدث موجود ہوگا اس لئے کہ فاعل کی طرف احتیاج تو اس وقت پیش آتی ہے جب فاعل اس کو کرتا ہے ورنہ تو فاعل کا اسے نہ کرنے کی تقدیر اور فرض کرلینے کی صورت تو اس کی طرف کوئی حاجت ہی نہیں اور جب فاعل اس کو کرلیتا ہے تو پھر اس کو وجود لازم ہوجاتا ہے پس ہر ممکن کا وجود لازم ہے اور یہ بات تو بدیہی عقل کی رو سے معلوم الفساد ہے اگر یہ کہا جائے کہ مراد یہ ہے کہ ممکن موجود نہیں ہوتا مگر فاعل کے ذریعے تو جواب میں کہا جائے گا امکان وجودکیساتھ حاجت الی الفاعل کو مستلزم ہے اور ایسی صورت میں تو یہ اس بات کے بیان کی طرف محتاج ہے کہ یہ کہیں کہ ممکن وجود کا ازلی ہونا بھی ممکن ہے اور یہ کہ فاعل کے حق میں یہ ممکن ہے کہ اس کا مفعول معین ازلی بنے (یعنی کوئی خاص مفعول ازلی بنے )اور جب اس بات کو تم ثابت کرتے ہو تو تم پھر اس بات کی طرف محتاج نہیں جو تم نے ماقبل میں ذکر کی ہے اس لئے کہ فا عل کی طر ف کسی ممکن کی حاجت صرف اور صرف وجود کی حالت میں ہوتی ہے پس یہ بات معلوم ہوئی کہ محض امکان کے ذریعے استدلال باطل ہوا ۔

دسویں دلیل اور اس پر در:

امام رازی رحمہ اللہ نے فرمایا :دسویں دلیل: ’’ احتیاج کی جانب کے بارے میں یہ بات ضروری ہے کہ وہ مؤثر کے ہوتے ہوئے باقی نہ رہے جس طرح کہ بغیر مؤثر کے (باقی نہیں رہتا )ورنہ تو ایک مؤثر کے ہوتے ہوئے دوسرے مؤثر کی طرف حاجت باقی رہے گی پس اگر ہم نے ایک مؤثر کے ساتھ حدوث کو اس حدوث کی طرح ٹھہرا دیا جو بغیر مؤثر کے ہو کیونکہ حدوث تو وجود بعد العدم سے عبارت ہے خواہ وہ فاعل کے سبب ہو یا بغیر کسی فاعل کے پس وہ وجود بعد العدم ہی ہے خواہ اسے حالت حدوث میں لیا جائے یا حالت بقا ء میں لیا جائے وہ ان دونو ں حالتوں میں وجود بعد العدم ہے پس ایسی صورتحال میں وہ مؤثر کے ساتھ اسی طرح ہے جیسے کہ بغیر مؤثر کے لہٰذا لازم آیا وہی محال جس کا ذکر پہلے کردیا گیا رہ ایہ کہ اگر ہم امکان کو احتیاج کی جہت قرا ر دیں تو وہ مؤثر کیساتھ باقی نہیں رہتا جس طرح کہ عدم مؤثر کی حالت میں تھا اس لئے کہ کوئی ماہیت مؤثر کیساتھ ممکن باقی نہیں رہتی لامحالہ پس معلوم ہوا کہ حدوث احتیاج کی جہت بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا پس کہا جائے گا کہ یہ بھی اسی بات کی جنس میں سے ہے جو پہلے گذر گئی اور اس سے جواب کئی وجوہ پر ہے:

۱) ماہیت کا مؤثر کیساتھ ممکن نہ رہنا ایک ایسا وصف ہے جو اس کیلئے حدوث کیساتھ بھی ثابت ہے بلکہ اس کا تو صرف اور صرف علم ہی حدوث کیساتھ ہوتا ہے کیونکہ وہ ممکن جس کے بارے یہ بات معلوم ہے کہ وہ فاعل کی وجہ سے بنتا ہے ایسا فاعل جو کہ محدث ہے رہا قدیم ازلی تو وہ محل نزاع ہے۔

جمہور عقلاء تو یہ کہتے ہیں کہ ہم بدیہی عقل کے ذریعے اس بات کو جانتے ہیں کہ اس کیلئے کوئی فاعل نہیں ہوتا اور اس تقدیر پر کہ مثلا نظری ہے تو نزاع کرنے والے اور اختلاف کرنے والے تو اس پر کوئی دلیل قائم نہیں کی اس لئے کہ کوئی ایسی دلیل نہیں پائی جاتی جو عالم میں سے کسی خاص چیز کے قدم پر دلالت کرتی ہو اور صحیح دلائل کی انتہاء اسی پر ہے کہ وہ فاعلیت کے دوام پردلالت کرتے ہیں ۔ اور وہ کسی شے کو دوسری شے کے بعد پیدا کرنے اور اس کے احداث سے حاصل ہوتا ہے۔ اور بہر حال اس میں کوئی شک نہیں کہ ممکنِ حادث اپنے فاعل کی وجہ سے واجب ہے۔

جب صورتحال یہ ہے تو جائے گا کہ عدم کے بعد حدوثِ جب کسی فاعل کے سبب ہو تو وہ محدَث کے وجود کا تقاضہ کرتا ہے ۔رہی وہ صورت کہ وہ (عدم کے بعد حدوث )فاعل کی وجہ سے نہ تو پھر تو حدوثِ متمنع ہوا لہٰذا عدم بعد حدوث جوکسی مؤثر کے ساتھ ہو یہ اس طرح کا حدوث نہ ہوا جو بغیر مؤثر کے ہو اس لیے کہ وہ اس حال میں واجب ہے اور اس دوسرے حال میں متمنع ہے جس طرح کہ ممکن کسی مؤثر کے ساتھ واجب ہے اور کسی مؤثر کے بغیر ممتنع ہو جاتا ہے اور جب یہ مؤثر کے ساتھ واجب ہے باوجود اس کے حادث ہونے کے تو وہ محتاج نہیں کسی دوسرے مؤثر کی طرف ۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ کہا جائے کہ کوئی ماہیت کسی مؤثر کے ساتھ ممکن باقی نہیں رہتی کسی حال میں ،اگر اس سے اس کی مراد یہ ہے کہ وہ مؤثر کی طرف محتاج نہیں یا یہ کہ اس کے احتیاج کی علت باقی نہیں رہتی جو کہ امکان ہے تو یہ کلام بھی باطل ہے اور یہ اُس بات کے خلاف ہے جس کو یہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ اگر اس سے اس کی مراد یہ ہے کہ وہ ممکنۃ العدم باقی نہیں رہتی باوجود اس کے کہ اس کا وجود غیر کے بسبب ہے تو یہ اس بات کے مخالف اور مناقض ہے جو وہ یہ کہتے ہیں کہ اپنے ذات کے اعتبار سے اس کا وجود اور عدم دونوں ممکن ہیں ساتھ اس کے کہ وہ واجب بالغیر ہے اور اس صورت میں ان کا یہ قول باطل ہوا کہ قدیمِ ازلی ممکن ہوتا ہے لہٰذا قدیم اول میں کوئی شے بھی ممکن نہ رہا اور یہ نقیض کے انعکاس کے ساتھ منعکس ہے ۔لہٰذا اس ممکن میں سے کوئی شے بھی قدیمِ ازلی نہ ہوا ،اس بحث سے یہ ثابت ہو اکہ ہر ممکن نہیں موجود جاتا مگر اس کے عدم کے بعد اور یہی تو مطلوب ہے ۔

جب یہ مذہب باطل ہوا تو اس کے سبب ِ ادلہ بھی باطل ہو گئے اس لیے کہ کوئی قول اپنے ادلہ کی وجہ سے لازم ہو جاتا ہے پس جب لازم متنفی ہوا تو اس کے تمام ملزومات بھی متنفی ہو گئے ۔

تیسرا جواب یہ ہے کہ احتیاج کی جہت کے لے ضروری ہے کہ وہ مؤثر کے ساتھ اس طرح باقی نہ رہے جس طرح کے عدمِ مؤثر کی حالت میں تھا ۔آیا اس سے تمہاری مرادیہ ہے کہ مؤثر کی طرف عدم احتیاج عدمِ مؤثر کے ساتھ نہیں ہوتا جس طرح کہ مؤثر کے ساتھ تھا یا تمہاری مرادیہ ہے کہ اس کی احتیاج کی علت یا احتیاج کی شرط یا اس کے احتیاج کی دلیل ان دونوں حالتوں میں مختلف ہوتی ہے ۔

اگر تمہاری مراد پہلی بات ہے تو یہ تو صحیح ہے اس لیے کہ عدم کے بعد جو شی حادث ہو وہ مؤثر کے ساتھ اُس طرح نہیں ہوتا جس طرح کہ عدمِ مؤثرکی حالت میں تھا اس لیے کہ وہ اپنے مؤثر کے ساتھ معدوم ہوتا ہے بلکہ واجب العدم ہوتا ہے اور اس کے وجود کے ساتھ موجود ہوتا ہے بلکہ واجب الوجود ہوتا ہے ۔

اس کا یہ کہنا کہ حدوث تو واجب العدم ہی ہوتاہے خواہ وہ وجودِ فاعل کے سبب ہو یا بغیر فاعل کے تو یہ ایک ایسی صورت کو فرض کرنا ہے جو متمنع ہے اس لیے کہ بغیر فاعل کے یہ ہونا ممتنع ہے پس عدم کے بعد حدوث بغیر فاعل کے نہ رہا تاکہ اس کو اس حال میں اور اس کے حالتِ عدم کو برابر کیا جائے بلکہ یہ تو اس بات کے مثل ہے کہ یہ کہا جائے کہ اس کے وجود کا رجحان عدم پر ہر حال میں برابر ہے خواہ وہ فاعل کے سبب ہو یا بغیر فاعل کے ہو ۔

اگر تم نے اس سے یہ مراد لیا ہے کہ جو شے ایک حال میں علت یا دلیل یا شرط بنے تو وہ دوسرے حالت میں اُس حیثیت پر نہیں ہوتا یعنی علت ، دلیل یا شرط نہیں بنتا تو یہ بات بھی باطل ہے اس لیے کہ کسی اثر کا مؤثر کی طرف احتیاج کی علت خواہ اس کا امکان ہو یا حدوث ہو یا ان دونوں کا مجموعہ ہو تو وہ اسی طرح ہی ہے مطلقاً اس لیے کہ یہ بات معلوم ہے کہ کوئی حادث شے حادث نہیں ٹھہرتا مگر کسی فاعل کے سبب خواہ وہ حادث ہو یا نہ ہو۔

ممکن کے وجود کو تو ترجیح حاصل نہیں ہوتی مگر کسی مرجح کے ذریعے خواہ وہ ترجیح اسے (بالفعل )حاصل ہو یا نہ ہو لیکن اس احتیاج کو تو حالت ِ وجود میں ثابت کہا جاتا ہے اور جب تک وہ معدوم رہے تواس کے لیے کوئی فاعل نہیں ہوتا ۔

تمہار ایہ کہنا کہ ’’ورنہ ایک مؤثر کے ہوتے ہوئے دوسرے مؤثر کی طرف حاجت باقی رہے گی ‘‘یہ قول ایک ایسے معنی پر دلالت کرتا ہے جو مسلم نہ کہ ممنوع اس لیے کہ یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اثر کا وجود مؤثر ہی کے ذریعے حاصل ہوتا ہے اور وہ مؤثر کے ہوتے ہوئے کسی دوسری شی کی طرف محتاج نہیں ہوتا تو یہ اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ مؤثر کے ہوتے ہوئے اسکے حاجت کی علت یا اس کی دلیل یا اس کی شرط وہ حدوث یا امکان یا دونوں کا مجموعہ نہیں بنتی بلکہ یہ معنی تو اس کے حالتِ وجود میں ثابت ہے یہ اس حالت سے زیادہ اظہر ہے جو حالتِ عدم میں ہے اس لیے کہ وہ اس کی طرف حالت ِ وجود میں محتاج ہے نہ کہ حالتِ عدم میں ۔

اس صورت میں اگر ہم کہیں کہ یہ مؤثر کی طرف محتاج ہے بوجہ اس کے حادث بعدالعدم ہونے کے اور یہ وصف حالتِ وجود میں ثابت ہے تو ہم نے اس کے لیے حاجت کی علت کو ثابت کر دیا اس کے وجود کے وقت اور علت بھی موجود اور حاصل ہے اور جب ہم یہ کہیں کہ علت تو امکان ہی ہے اور ہم دعویٰ کریں اس کے وجود کی حالت میں اسکے انتفاء کا تو تحقیقا ہم نے اس کے مؤثر کی طرف احتیاج کو اس کے وجود کے وقت کے بعد علت متنفیہ (علت معدومہ )کے ساتھ معلل کر دیا اس کے وجود کے وقت میں اور یہ تو اُس بات پر دلالت کرتا ہے جو اس نے ذکر کی ہے اور یہ توان کے خلاف حجت ہے نہ کہ ان کے حق میں اور یہ بات اس شخص کے لیے واضح ہے جو اس میں تھوڑا غور اور تدبر کرے ۔

یہ امر اور اس کے علاوہ دوسرے امور اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ اس گمراہ قوم نے اللہ تعالیٰ کی اس فطرت کو تبدیل کر دیا جس پر اس نے اپنے بندوں کو پیدا فرمایا تھا پس یہ صریح معقول اور صحیح منقول سے نکل گئے ہیں اور اُس الحاد میں پڑگئے جو بہت بڑا کفر اور عناد ہے اور ان کے اقوال میں وہ تناقض اور فساد داخل ہوا جس کا علم صرف اور صرف رب العالمین کو ہے باوجود اس کے وہ کہ اس بات کا دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ہم عقلی دلائل اور معارفِ حکمیہ رکھتے ہیں اور یہ کہ حقیقی علوم تو اُس کلام میں مضمر ہیں جو ہم کہتے ہیں ،ان تعلیمات میں نہیں جو اللہ اور اس کے رسول لے کر آئے ہیں جو حقیقتاً تمام عالم میں اعلیٰ ،افضل اور اعلم ہیں اور یہ ملحدین گمراہ کن کلام کے ذریعے نقلی دلائل اور معقولات کا مقابلہ کرتے ہیں اس لیے کہ یہ بات واضح ہے کہ ُاس خالق کی طرف محتاج مخلوق حالت ِ وجود میں اس کی طرف محتاج ہے ۔

رہی یہ بات کہ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ وہ عدم پر باقی ہے تو اس حال میں اس کا عدم اس کے وجود کے لئے کسی خالق کی طرف محتاج نہیں ہوتا بلکہ اس کے عدم کا کوئی فاعل ہی نہیں ہوتا ،اگرچہ ان لوگوں نے یہ کہا کہ اس کا عدم کسی مرجح کی طرف محتاج ہے پس اس کے نزدیک مرجح عدمِ علت ہے اور تمام کے تمام ہی عدم ہیں ۔انہوں نے یہ نہیں کہا کہ عدم کسی موجود کی طرف محتاج ہے اگرچہ یہ ایک بین اور واضح بات ہے پس احتیاج کے جہت کے بارے میں ان کا یہ کہنا ’’کہ یہ بات ضروری ہے کہ وہ مؤثر کے ہوتے ہوئے اس طرح باقی نہ رہے جس طرح کہ مؤثر کی غیر موجودگی میں تھا ‘‘ایک ایسا کلام ہے جس میں تلبیس اور خلط ملط پایا جاتا ہے اس لیے کہ احتیاج تو اُس حال میں ہوتا ہے جس میں مؤثر تاثیر کررہا ہو پس مؤثر کی طرف احتیاج اس حال میں کیسے ختم ہو جائے گی جس میں وہ مؤثر کی طرف محتاج ہے اور کیسے وہ کسی مؤثر کی طرف محتاج ہو گا جبکہ وہ اس حال میں اثر ہی نہیں کرتا اور وہ معدوم ہے وہ تو اصلاً کسی مؤثر کی طرف محتاج ہی نہیں اور وہ احتیاج ہی کی حالت میں محتاج نہیں بنتا ؟

اگر وہ یہ کہے کہ ان کا وجود عدم کی حالت میں ممکن نہیں مگر کسی مؤثر کے ذریعے تو ہم یہ کہیں گے کہ یہ اس کلام کا بعض ہے جو ہم نے ذکر کر دیا اس لیے کہ ان کا مؤثر کے بغیر موجود نہ ہونا ایک امر لازم ہے اور یہ نہیں کہا جائے گا کہ یہ تو اس کے لیے حالتِ عدم میں ثابت ہے ،حالتِ وجود میں نہیں اور جب یہ بات واضح ہوگئی کہ فعل مفعول کے حدوث کومستلزم ہے اور یہ بات بھی کہ فاعل کا کسی فعل کا ارادہ کرنا مراد کے حدوث کو مستلزم ہے تو یہ اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ ہر مفعول اور ہر وہ چیز جس کے فعل کا ارادہ کیا جائے وہ حادث ہی ہوتا ہے بعد اس کے کہ وہ موجود نہیں تھا اور اس کے ذریعے یہ بات بھی معلوم ہو گئی کہ یہ امرممتنع ہے کہ وہاں پر ممکنات میں سے کسی شے کو وجود دینے کاایک ایسا ارادہ ازلیہ موجودہو جس کے ساتھ اس کی مراد مقارن ہو ازلا اور ابداً۔ خواہ ان تمام افعال کو وہ عام ہو جو ان سے صادر ہوں یا بعض مفعولات کے ساتھ خاص ہو ۔

اس(ارادے ) کا تمام مفعولات کو عام ہونے کا امتناع تو ظاہر ہے اور عقلاء کے درمیان متفق علیہ ہے اس لیے کہ یہ اس بات کو مستلزم ہے کہ ہر وہ فعل جو اس سے صادر ہو بالواسطہ یا بلا واسطہ ،قدیمِ ازلی ہو پس یہ بات لازم آئے گی کہ عالم میں کوئی بھی شے حادث نہ ہو اور یہ تواس مشاہدے کے خلاف ہو جو مخلوق کرتی ہے یعنی تمام آسمانوں اور زمینوں کا حدوث ،ان کے درمیان مخلوقات کا حدوث ،اس طرح اجسام اور اعراض کی حرکات جیسے شمس و قمر کی حرکت اور اسی طرح ستاروں ،ہواؤں ،بادل اور بارش کی حرکت اور اس طرح جو پیدا ہوتا ہے مخلوقات میں سے نباتات ،حیوانات اور زمین کے اندر موجود معادن ۔

رہا کسی متعین کا ارادہ کرنا تو اس میں وہی کلام ہے جو ماقبل میں گزرا اور اس صورت میں یا تو یہ کہا جائے گا کہ اس ذات کے لیے صرف اور صرف وہی ایک ارادہ ازلیہ ثابت ہے یا یہ کہا جائے گا کہ اس ذات کے لیے ایک ایسا ارادہ ثابت ہے جوشیئا فشیئا وجود میں آتا ہے ۔

اگر پہلا معنی مرادلیا جائے تو اس تقدیر پرلازم آئیگا کہ ایک مریدِ ازلی ذات ازل میں اپنے مرادِ ازلی کے ساتھ مقارن ہے پس وہ حوادث سے کسی بھی شی کا کسی حال میں ارادہ بھی نہیں کریں گے نہ ارادہ قدیمہ نہ ارادہ متجددہ (یعنی دھیرے دھیرے وجود میں آنے والا)اس لیے کہ اگر یہ بات فرض کر لی جائے کہ ارادہ کرنے والی ازلی ذات کی مراد اس کے ارادے کیساتھ مقارن ہوتی ہے تو یہ حادث بھی حادث ہی ہوگا۔

اس کا حدوث دو حال سے خالی نہیں ہوگا یا تو ارادہ ازلیہ کے ساتھ ہوگا پس ارادہ کرنے والی ذات اپنے مراد کے ساتھ مقارن نہیں ہوگی یا حادث ہوگا کسی ایسے ارادے کے ساتھ کہ وہ بھی حادث ہو اور اس کے ساتھ مقارن ہو اوریہ تو دو وجہ سے باطل ہے :

ایک تو اس لئے کہ یہ بات تو پہلے سے فرض کی جا چکی ہے کہ اس ذات کے لیے صر ف اور صرف ایک ہی ارادہ ازلیہ ہے اور دوسرے یہ کہ اس ارادے کا حدوث کسی سببِ حادث کی طرف محتاج ہو۔اور اس سببِ حاد ث میں کلام اسی طرح ہے جو اس کے غیر میں ہے اوریہ بات ممتنع ہے کہ وہ ارادہ ازلیہ کے ذریعے حادث ہو جائے جوکہ مستلزم ہے اپنے مراد کی مقارنت اور اتصال کو اور یہ بات بھی ممتنع ہے کہ وہ بغیر کسی ارادے کے حادث ہو جائے بوجہ اس کے کہ حادث کا پیدا ہونا بغیر ارادے کے ممتنع ہے۔

پس اس تقدیر پریہ بات واجب ہے کہ حادثِ معین کا ارادہ مشروط ہو اس کے ارادے کے ساتھ اور اس حادث کے ارادے کے ساتھ جو اس سے پہلے ہے اور یہ بھی واجب ہے کہ فاعل مبدِع ازل سے ان تمام اشیاء کا ارادہ کرنے والا ہے جو حوادث میں سے وجود میں آنے والی ہیں ۔

یہی وہ تقدیر ثانی ہے یعنی کہ وہ اس بات کا ارادہ کرے کہ ایک شے کو دوسری شے کے بعد موجود کرے تو اس کا مراد حادث ہوگا بعد اس کے کہ وہ معدوم تھا اور وہ ذات اکیلے منفرد ہے صفت قدم اور ازلیت کے ساتھ اور اس کے ماسوا جتنے بھی مخلوق ہیں وہ سب حادث ہیں اور عدم کے بعد وجود میں آنے والے ہیں اور اس تقدیر پر توصرف اور صرف حوادث کا دوام اور تسلسل ثابت ہوگا اور یہ وہی تقدیر ہے جس پر ہم نے پہلے کلام کیا ہے اور اس سے یہ بات لازم آتی ہے کہ فاعل کے ذات کے ساتھ وہ شے قائم ہو جس کا وہ ارادہ کرتا ہے ااور اس پر وہ قادر ہے اور یہی آئمہ محدثین کا قول ہے اور اہل کلام اور فلاسفہ میں سے بہت سے لوگوں لوگوں کا قول ہے اور متقدمین و متاخرین میں سے ان کے کبار کا قول ہے۔

پس یہ بات واضح ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ کے ماسوا تمام کے تمام مخلوقات کے حدوث کا قول واجب اور ضروری ہے خواہ ان کو جسم کہا جائے یاعقل کہا جائے یا نفس کہا جائے (یا کوئی اور تعبیر اختیار کی جائے )اور یہ بات ممتنع ہے کہ ان میں سے کوئی شے قدیم بنے خواہ حوادث کے دوام کے ممکن ہونے اور ان میں تسلسل کا قول اختیار کیا جائے یا یہ کہ ان کے لیے کوئی اول نہیں یااس کے امتناع کا قول اختیار کیا جائے اور خواہ یہ کہا جائے کہ حادث کے لیے سببِ حادث کا ہونا ضروری ہے یا یہ کہ یہ امرممتنع ہے اور یہ کہ عالم کے قدم کے قائلین جیسے کہ افلاک اور عقول اور نفوس ہیں ،اس صریح عقل کی وجہ سے اس کا یہ قول باطل ہے جس نے کبھی کسی بھی تقدیر پرجھوٹ نہیں بولا اور یہی تو مطلوب ہے۔

استطراد :

اللہ تعالیٰ کے افعال اور اس کے کلام کے حدوث اور قدم کے بارے میں مختلف فکر کی جماعتوں کے آئمہ کے درمیان اختلاف واقع ہوا ہے اور اس سے متعلق تفصیلی کلام کو یہاں اس مقام کے علاوہ ایک اور مقام پر ذکر کیا گیا ہے اس لیے کہ یہ اصل یہ وہی اصل ہے جس میں فلسفہ ،کلام اور حدیث کے آئمہ کے درمیان تصادم اور ٹکراو واقع ہوا اور وہ اللہ کے افعال ،کلام کے قدم اور حدوث کے بارے میں کلام ہے اور اس کے ذیل میں عالم کے حدوث کے بارے میں کلام اور اللہ کے کلام اور اس کے افعال کے بارے میں کلام بھی داخل ہوتا ہے اور ان دونوں امور کے بارے میں کلام کرنا عقلوں کے حیرت کا مقام ہے پس فلاسفہ جو کہ عالم کے قدیم ہونے کے قائل ہیں وہ اُس حق موقف سے انتہائی دور ہیں جس کو اللہ تعالیٰ کے رسول لے کے آئے جو کہ صریح معقول اور صحیح منقول کے موافق ہے لیکن انھوں نے اُن اہل کلام کوان کے قول کے لوازم سے الزام دیاجنہوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات کیساتھ اس کے افعال اورصفات کے قیام کی نفی میں ان کی موافقت کی ہے پس اس کے ذریعے اہل کلام کا تناقض ظاہر ہوا جس کے سبب ان کے اوپر ان ملحدین نے زبان درازی کی اور اس کی وجہ سے علمائے مسلمین نے ان کی مذمت کی سلف میں سے اور آئمہ اور ان کے اتباع میں سے اور ان کا کلام ایسا تھا جس کی وجہ سے ان کی مذمت کی سلف نے کیوں کہ اس کے اندر خطا اور وہ گمراہی تھی جس کے ذریعے انہوں نے حق کی مخالفت کی اپنے مسائل اور دلائل میں پس وہ تزبزب کا شکار رہے اور ان کے کلا م میں تناقض رہا اور انہوں نے اس چیز کی تصدیق نہیں کی جس کو اللہ کے رسول اس کے صحیح طریقے پرلے کر آئے ہیں اور نہ وہ ملتِ اسلام کے دشمنوں پر اس حق صریح کے ساتھ غالب آئے جو معقول کے موافق ہے اوراس کا سبب یہ ہوا کہ انہوں نے تعلیمات کو بنظر غور نہیں دیکھا جن کی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے اور اس کا علم حاصل نہیں کیا اور اس پر ایمان نہیں لایا اور نہ وہ عقلِ سلیم کے تقاضوں پر چلے پس وہ نقلی اور عقلی دلائل کی وجہ سے اپنے علم میں نقصان کا شکار رہے اگرچہ ان کو ان دونوں سے بہت بڑا حصہ حاصل ہوا پس وہ اپنے بعض اقوال میں ان کفار کے ساتھ موافق ہوئے؛[فرمان الٰہی ہے]

﴿ وَقَالُوا لَوْ کُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا کُنَّا فِیْ أَصْحَابِ السَّعِیْر﴾[الملک: ۱۰)

’’وہ بولے: اگر ہم سن لیتے ؛ یا سمجھ لیتے تو ہم ہر گز جہنمی نہ ہوتے ‘ۃ۔

انہوں نے اللہ کی صفات اور اس کے افعال میں ایسی تفصیلات بیان کیں جو شریعت کے مخالف اور بدعت تھے اور ہر بدعت ضلالت اور گمراہی ہے اور ہر گمراہی عقل کے بھی مخالف ہے جس طرح کہ وہ شرح کے خلاف ہے اور وہ بات جس پر ہم نے یہاں تنبیہ بیان کی ہے ،اس کے ذریعے عقل صریح کا اس چیز پر دلالت کرنا معلوم ہو جاتا ہے جس کو اللہ کے رسول لے کر آئے اور اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ مسلمانوں کی بہت سے جماعتیں اس کے دلائل اور مسائل میں بہت زیادہ خطا میں پڑ گئے ہیں پس یہ ممکن نہیں کہ اس کے قول کی مطلقاً حمایت کی جائے بلکہ واجب یہ ہے کہ صرف اور صرف حق کی بات کی جائے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿أَلَمْ یُؤْخَذْ عَلَیْْہِم مِّیْثَاقُ الْکِتَابِ أَن لاَّ یِقُولُواْ عَلَی اللّہِ إِلاَّ الْحَقَّ ﴾ (اعراف ۱۶۹)

’’ کیا ان پر کتاب کا عہد نہیں لیا گیا کہ اللہ پر حق کے سوا کچھ نہ کہیں گے‘‘؟

جب مقصود حق بات کی حمایت ہے تو ایسی حق بات جس پر سب اہل ملل متفق ہیں یا اس باطل کا رد ہے جس کے باطل ہونے پر سب متفق ہیں تو اس کی حمایت ایسے طریقے سے کی جائے گی جو اس (حق بات کی حمایت )کا فائدہ دے اگر اس کا دلیل وہ اہل قبلہ کی جماعتوں میں سے کسی جماعت کے طریقے پر منطبق نہ ہوتا ہو تو کیسے اس کا اثبات ایک ایسے طریقے پر ممکن ہے جو اس کے اور ایک دوسرے گروہ کے قول سے مرکب ہو اس لیے کہ اس 

گروہ کے حق میں یہ بات کہ وہ مسلمانوں کی جماعتوں میں کسی ایک جماعت کی موافقت کرے یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ دین اسلام ہی سے نکل جائے ۔

اسی طرح اس کے حق میں معقولِ صریح کی مخالفت کرنے سے یہ بہتر ہے کہ وہ معقول ہی سے بالکل نکل جائے اور جو قول شریعت میں فساد پر مشتمل ہو یعنی شرعی اعتبار سے فاسد ہو تو وہ عقلی اعتبار سے بھی فاسد ہوتا ہے۔

اس لیے کہ حق میں تناقض نہیں ہوتا اور رسولوں نے تو حق ہی کی خبر دی ہے اوراللہ نے اپنے بندوں کی حق کی معرفت اور حق کی پہچان پر تخلیق فرمائی ہے اور رسول فطرت کی تکمیل کے لیے بھیجے گئے ہیں نہ کی فطرت کو بدلنے کے لیے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿سَنُرِیْہِمْ آیَاتِنَا فِیْ الْآفَاقِ وَفِیْ أَنفُسِہِمْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ ﴾(فصلت : ۵۳ )

’’عنقریب ہم انھیں اپنی نشانیاں دنیا کے کناروں میں اور ان کے نفسوں میں دکھلائیں گے، یہاں تک کہ ان کے لیے واضح ہو جائے کہ یقیناً یہی حق ہے۔‘‘

یعنی وہ ان کو دکھائے گا وہ نشانیاں جو آفاق میں پائی جاتی ہیں اور وہ نشانیاں بھی جو ان کی اپنی نفوس میں پائی جاتی ہیں جویہ کو بیان کرتی ہیں کہ وہ قرآن جس کے ذریعے اس نے اپنے بندوں کو خبر دی ہے وہ حق ہے۔‘‘

پس قرآنی دلائل اور مشاہدے کے دلائل دونوں آپس میں مطابق اور موافق ہیں اور شریعت کا حکم جو منقول ہے اور اسی طرح وہ نظر اور غور و فکر جو معقول ہے یہ دونوں ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں نہ کہ تردید ،لیکن وہ اہل کلام جن کی سلف نے اور ائمہ نے مذمت کی ہے جوجہمیہ اور معتزلہ میں سے ہیں اور ان لوگوں میں سے جنہوں نے ان کی اتباع کی ہے یعنی وہ لوگ جو اہل سنت کی طرف منسوب ہیں اورمتاخرین میں سے ہیں انہوں نے اپنے دین کے اصول میں ایک نیا حکم اور دلیل نکالااور انہوں نے اہل ملل کے قول کو ایسی عبارت سے کیا جو کتاب و سنت میں مذکور نہیں اور انہوں نے اس پر ایسے طریقے سے استدلال کیا جس کا قرآن و سنت میں کوئی اصل اور بنیاد نہیں پس وہ قول جس کو انہوں نے اصل اور بنیادبنایا اور اس کو اہل ملل کی طرف منسوب کیا اور اس پر دی جانے والی دلیل دونوں شریعت میں بدعت ہیں ان میں سے کسی کے لیے بھی کتاب و سنت میں سے کوئی اصل اور بنیاد نہیں ملتی باوجود یکہ ان کے اتباع اور پیروکاریہ کہتے ہیں کہ یہی تو مسلمانوں کا اصل دین ہے پس وہ صریح معقول کی مخالفت میں بالکل اُسی طرح ہے جیسے کہ منقول کی مخالفت میں اور ملحد فلاسفہ نے انہوں نے ان کا مقابلہ کیا ہے جو کہ صحیح منقول اور صریح منقول کے بھی زیادہ شدید مخالف ہیں اور یہاں پر جو ہم نے بات ذکر کی ہے وہ ایسی بات ہے جس کے ذریعے اللہ کے ماسوا تمام عالم کا حدوث ظاہر ہوتا ہے اوراللہ کی قدم کے ساتھ عالم میں کسی بھی شے کے قدم کا امتناع معلوم ہوتا ہے ۔ تو یہ ہر تقدیر پرمطلوب کا فائدہ دیتی ہے اور اس کی مختلف عبارات کے ساتھ تعبیر ممکن ہے اور مختلف تراکیب کے ساتھ اس کی تالیف اور ترکیب ممکن ہے اس لیے کہ مادہ جب صحیح مادہ ہو تو اس کو مختلف شکلیں دینا ممکن ہوتا ہے بخلاف ان دلائل کے جو کسی مغالطہ پر مشتمل ہوتے ہیں جن کی کسی خاص طریقے سے خاص الفاظ کے ساتھ ترکیب کی گئی ہو پس جب اس اس کے الفاظ کی ترتیب کو تھوڑاتبدیلی کر دیا جائے اور ایک صورت سے دوسری صورت کی طرف منتقل کر دیا جائے تو تو فوراً اس کی خطا ظاہر ہو جاتی ہے پس پہلے کی مثال تومذہبِ صحیح کی ہے جب اسے ایک صورت سے دوسری صورت کی طرف منتقل کر دیا جاتا ہے تو اس کا جوہر اور مادہ متغیر نہیں ہوتا بلکہ یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ سونا ہی ہے اور جس سونے میں ملاوٹ ہوتی ہے بے شک اسے جب ایک صورت سے دوسرے صورت کی طرف تبدیل کیا جاتا ہے تو یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ وہ مغشوش ہے یعنی اس میں ملاوٹ ہے ۔

یہ مذکور دلائل اللہ کے ماسوا تمام اشیاء کے حدوث پر دلالت کرتے ہیں اور اس پربھی کہ اللہ کے ماسوا تمام کے تمام اشیاء حادث ہیں اور وہ عدم کے بعد موجود ہوجاتے ہیں خواہ فعل کے نوع کے دوام کا قول اختیار کیا جائے جیسے ائمہ اہل حدیث اور ائمہ فلاسفہ اس کے قائل ہیں یا یہ قول اختیار نہ کیا جائے اور جس نے یہ قول اختیار نہیں کیا تو اس کے اور اہل ملل کے جماعتوں کے درمیان ایک نزاع اور خصومت ظاہر ہوتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو بچایا ہے جس نے اللہ کے ساتھ اس میں شرک کو ثابت نہیں کیا یا اس کے ہاں یہ ادلہ آپس میں مساوی ہیں اور وہ حیرت ،شک اور اضطراب کے انواع میں مختلف اقسام میں باقی رہتا ہے ،بتحقیق اللہ نے اس سے اس شخص کو عافیت عطا فرمائی ہے جس کو اللہ نے ہدایت دی ہواورسیدھی راہ دکھائی ہو اور اس کے لیے حق کو واضح کر دیا ہو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :

﴿کَانَ النَّاسُ أُمَّۃً وَاحِدَۃً فَبَعَثَ اللّہُ النَّبِیِّیْنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنذِرِیْنَ وَأَنزَلَ مَعَہُمُ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُواْ فِیْہِ وَمَا اخْتَلَفَ فِیْہِ إِلاَّ الَّذِیْنَ أُوتُوہُ مِن بَعْدِ مَا جَاء تْہُمُ الْبَیِّنَاتُ بَغْیْاً بَیْْنَہُمْ فَہَدَی اللّہُ الَّذِیْنَ آمَنُواْ لِمَا اخْتَلَفُواْ فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِہِ وَاللّہُ یَہْدِیْ مَن یَشَاء ُ إِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾[بقرہ ۲۱۳ ]

’’لوگ ایک ہی امت تھے، پھر اللہ نے نبی بھیجے خوشخبری دینے اور ڈرانے والے، اور ان کے ہمراہ حق کے ساتھ کتاب اتاری، تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے جن میں انھوں نے اختلاف کیا تھا اور اس میں اختلاف انھی لوگوں نے کیا جنھیں وہ دی گئی تھی، اس کے بعد کہ ان کے پاس واضح دلیلیں آ چکیں ، آپس کی ضد کی وجہ سے، پھر جو لوگ ایمان لائے اللہ نے انھیں اپنے حکم سے حق میں سے اس بات کی ہدایت دی جس میں انھوں نے اختلاف کیا تھا اور اللہ جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتا ہے۔‘‘

پس اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے بارے میں یہ بات ممکن ہے کہ قدم کی صفت میں اس کے ساتھ عالم میں کوئی بھی شے مقارن اور متصل ہو کوئی بھی شے ہو چاہے یہ کہا جائے کہ وہ اپنی مشیت اور قدرت سے تخلیق فرماتے ہیں جیسا کہ مسلمان کہتے ہیں یا یہ کہا جائے کہ وہ موجب بالذات ہیں یا اس کی ذات ایک ایسی علت ہے جو معلول کو مستلزم ہے یا اس کو مؤثر کانام دیا جائے کیوں کہ لفظ تاثیر ان تمام انواع کو شامل ہے پس اس میں اپنے اختیار کے ساتھ فعل کرنے والا فاعل بھی داخل ہے اور اس میں بذاتہ کا لفظ بھی داخل ہے اور اس کے علاوہ بھی بلکہ اللہ تعالیٰ تو وہی ذات ہے جو اس قدم کے ساتھ مختص ہے جس کا وہ مستحق ہے اور اس کے ماسوا تمام اشیاء مسبوق بالعدم ہیں ۔

لیکن اس بات جہمیہ اور معتزلہ کے طریقے پر استدلال أعراض ،حرکت اور سکون کا طریقہ ہے وہ طریقہ جس کی بنیاداس بات پر ہے کہ اجسام حادث ہیں کیوں کہ وہ حوادث سے خالی نہیں ہوتے اور ایسے حواد ث کے وجود کا امتناع جن کا کوئی اول نہ ہو ،شریعت میں ایک انوکھا اور مبتدع طریقہ ہے اس پر اہل علم کااتفاق اور یہ ایک خطرناک راستہ ہے جو عقلاً بھی خوفناک ہے بلکہ بہت سی جماعتوں کے نزدیک یہ ایک مذموم راستہ ہے اگرچہ اس کا بطلان معلوم نہیں کیوں کہ اس کے کثیر مقدمات ہیں ۔ اس کی خفا اور اس میں بہت سے اہل نظر کے نزدیک نزاع کی وجہ سے ،جیسے کہ امام اشعری نے اہل ِ ثغر کی طرف اپنے رسالے اس کا ذکر فرمایا ہے۔ اور وہ لوگ جو اس معاملے میں ان کی راہ پر چلے ہیں جیسے کہ خطابی اور ابوعمر طلمنکی اور ان کے علاوہ دیگر ،اور یہ ان ائمہ کے نزدیک شرعاً اور عقلاً باطل طریقہ ہے۔ اور جو علماء عقلی اور نقلی حقائق سے واقف ہیں وہ بھی اس کے بطلان کو جانتے ہیں ۔

اس طریقے کے ذریعے استدلال نے اللہ تعالیٰ کی ان صفات کی نفی کو ثابت کر دیا جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہیں اور اسی طرح اُن افعال کی نفی کو جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہیں اور(اس طریقے کے ذریعے استدلال نے ) جہمیہ کے ان بدعات کو بھی ثابت کر دیا جو آئمہ سلف کے نزدیک معروف ہیں اور اس کے ذریعے دہریہ کو ان امور میں قدح اور اعتراض پر قدرت دے دی گئی جن کو اللہ کی طرف اس کے رسل لے کر آئے ہیں پس یہ گروہ دین کے تقویت اور دین کو مضبوط کرنے پر بھی قائم نہ ہوا اور نہ اس نے دین کے ملحد دشمنوں کا قلع قمع کیا اور یہ وہی ہے جس نے اپنے متبعین پر اس عقیدے کو واجب کر دیا تھا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے کبھی کلام نہیں کیا ہے بلکہ اس کا کلام تو مخلوق ہے ‘‘اسی لیے کہ بے شک یہ قول اپنے صحت کی تقدیر پر باطل کو مستلزم ہے ۔

اور رہی وہ بات جو ابن کلاب اور اس کے متبعین نے کہی ہے یعنی عالم میں سے کسی شے معین کے قدم کا قول خواہ وہ کوئی ایک ہی معنی ہو یا حروف سے عبارت ہو یا حروف و اصوات دونوں سے مرکب ہو یاایسے اصواط جو کہ معین ہیں اور بعض بعض کے ساتھ ازلاً ابداً مقرون اور متصل ہیں تو خلقِ قرآن کے قول کے پیدا ہونے کے بعد یہ محدث اور بدعت پر مشتمل اقوال ہیں اور ااس میں شرعاً اور عقلاً ایسا فساد پایا جاتا ہے جس کا بیان بہت طویل الذیل ہے لیکن اس قول کے قائلین نے ان لوگوں کے قول کے فساد کو واضح کر دیا ہے جنہوں نے یہ کہا ہے کہ وہ مخلوق ہے یعنی جہمیہ میں سے اور معتزلہ میں سے پس ا ن طوائف میں سے ہر گروہ کے کلام میں ایک ایسا کلام پایا جاتا ہے جو دوسرے گروہ کے قول کے فساد پر مشتمل ہوتا ہے کیوں کہ جتنے اقوال حق کے مخالف ہیں وہ سب کے سب باطل ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت تو لوگ بہت بڑی گمراہی میں مبتلا تھے جیسے کہ صحیح مسلم میں روایت ہے عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ کی روایت ہے :

’’جب اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا تو لوگ بہت بڑی گمراہی کا شکار تھے۔‘‘[ صحیح مسلم ]۔

حضرت عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اپنے خطبہ میں فرمایا :

’’ أَلَا إِنَّ رَبِّی أَمَرَنِی أَنْ أُعَلِّمَکُمْ مَا جَہِلْتُمْ، مِمَّا عَلَّمَنِی یَوْمِی ہَذَا، کُلُّ مَالٍ نَحَلْتُہُ عَبْدًا حَلَالٌ، وَإِنِّی خَلَقْتُ عِبَادِی حُنَفَاء َ کُلَّہُمْ، وَإِنَّہُمْ أَتَتْہُمُ الشَّیَاطِینُ فَاجْتَالَتْہُمْ عَنْ دِینِہِمْ، وَحَرَّمَتْ عَلَیْہِمْ مَا أَحْلَلْتُ لَہُمْ، وَأَمَرَتْہُمْ أَنْ یُشْرِکُوا بِی مَا لَمْ أُنْزِلْ بِہِ سُلْطَانًا‘‘ [اس حدیث کا باقی حصہ یوں ہے:]وَإِنَّ اللہَ نَظَرَ إِلَی أَہْلِ الْأَرْضِ، فَمَقَتَہُمْ عَرَبَہُمْ وَعَجَمَہُمْ، إِلَّا بَقَایَا مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ، وَقَالَ: إِنَّمَا بَعَثْتُکَ لِأَبْتَلِیَکَ وَأَبْتَلِیَ بِکَ، وَأَنْزَلْتُ عَلَیْکَ کِتَابًا لَا یَغْسِلُہُ الْمَاء ُ، تَقْرَؤُہُ نَائِمًا وَیَقْظَانَ، وَإِنَّ اللہَ أَمَرَنِی أَنْ أُحَرِّقَ قُرَیْشًا، فَقُلْتُ: رَبِّ إِذًا یَثْلَغُوا رَأْسِی فَیَدَعُوہُ خُبْزَۃً، قَالَ: اسْتَخْرِجْہُمْ کَمَا اسْتَخْرَجُوکَ، وَاغْزُہُمْ نُغْزِکَ، وَأَنْفِقْ فَسَنُنْفِقَ عَلَیْکَ، وَابْعَثْ جَیْشًا نَبْعَثْ خَمْسَۃً مِثْلَہُ، وَقَاتِلْ بِمَنْ أَطَاعَکَ مَنْ عَصَاکَ، قَالَ: وَأَہْلُ الْجَنَّۃِ ثَلَاثَۃٌ ذُو سُلْطَانٍ مُقْسِطٌ مُتَصَدِّقٌ مُوَفَّقٌ، وَرَجُلٌ رَحِیمٌ رَقِیقُ الْقَلْبِ لِکُلِّ ذِی قُرْبَی وَمُسْلِمٍ، وَعَفِیفٌ مُتَعَفِّفٌ ذُو عِیَالٍ، قَالَ: وَأَہْلُ النَّارِ خَمْسَۃٌ: الضَّعِیفُ الَّذِی لَا زَبْرَ لَہُ، الَّذِینَ ہُمْ فِیکُمْ تَبَعًا لَا یَبْتَغُونَ أَہْلًا وَلَا مَالًا، وَالْخَائِنُ الَّذِی لَا یَخْفَی لَہُ طَمَعٌ، وَإِنْ دَقَّ إِلَّا خَانَہُ، وَرَجُلٌ لَا یُصْبِحُ وَلَا یُمْسِی إِلَّا وَہُوَ یُخَادِعُکَ عَنْ أَہْلِکَ وَمَالِکَ‘‘اور بے شک اللہ تعالی نے زمین والوں کی طرف نظر فرمائی اور عرب عجم سے نفرت فرمائی سوائے اہل کتاب میں سے کچھ باقی لوگوں کے۔ اور اللہ تعالی نے فرمایا میں نے تمہیں اس لئے بھیجا ہے تاکہ میں تم کو آزماؤں اور ان کو بھی آزماؤں کہ جن کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ہے۔ اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک ایسی کتاب نازل کی ہے کہ جسے پانی نہیں دھو سکے گا اور تم اس کتاب کو سونے اور بیداری کی حالت میں بھی پڑھو گے اور بلاشبہ اللہ نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ میں قریش کو جلا ڈالوں ۔ تو میں نے عرض کیا :اے پروردگار !وہ لوگ تو میرا سر پھاڑ ڈالیں گے۔ اللہ نے فرمایا: تم ان کو نکال دینا جس طرح کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکالا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی خرچہ کیا جائے گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم لشکر روانہ فرمائیں میں اس کے پانچ گنا لشکر بھیجوں گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تابعداروں کو لے کر ان سے لڑیں کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نا فرمان ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جنتی لوگ تین قسم کے ہیں حکومت کے ساتھ انصاف کرنے والے؛ صدقہ و خیرات کرنے والے؛ توفیق عطا کئے ہوئے ؛وہ آدمی کہ جو اپنے تمام رشتہ داروں اور مسلمانوں کے لئے نرم دل ہو وہ آدمی کہ جو پاکدامن پاکیزہ خلق والا ہو اور عیالدار بھی ہو لیکن کسی کے سامنے اپنا ہاتھ نہ پھیلاتا ہو۔‘‘ آپ نے فرمایا :’’دوزخی پانچ طرح کے ہیں وہ کمزور آدمی کہ جس کے پاس مال نہ ہو اور دوسروں کا تابع ہو اہل و مال کا طلبگار نہ ہو خیانت کرنے والا آدمی کہ جس کی حرص چھپی نہیں رہ سکتی ؛اگرچہ اسے تھوڑی سی چیز ملے اور اس میں بھی خیانت کرے؛ وہ آدمی جو صبح شام تم کو تمہارے گھر اور مال کے بارے میں دھوکہ دیتا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بخیل یا جھوٹے اور بدخو اور بیہودہ گالیاں بکنے والے آدمی کا بھی ذکر فرمایا اور ابوغسان نے اپنی روایت میں یہ ذکر نہیں کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی خرچ کیا جائے گا۔اور فرمایا: ’’ میں نے اپنے بندوں کو یکسو موحد پیدا کیا تھا۔ پس شیطان نے لوگوں کو گمراہ کیا ؛ اوران پر کچھ چیزیں حلال کیں ‘اور کچھ حرام کیں ‘ اور میں نے انہیں حکم دیا کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں ؛ جس کی میں نے کوئی دلیل نازل نہیں کی ۔‘‘ [صحیح مسلم:جلد سوم:ح2708 ۔] یہ حدیث کافی لمبی ہے۔]

’’ میرے رب نے مجھے یہ حکم دیاہے کہ میں تم لوگوں کو وہ باتیں سکھا دوں کہ جن باتوں سے تم لا علم ہو۔ میرے رب نے آج کے دن مجھے وہ باتیں سکھا دی ہیں ۔ میں نے اپنے بندے کو جو مال دے دیا ہے وہ اس کیلئے حلال ہے اور میں نے اپنے سب بندوں کو حق کی طرف رجوع کرنے والا پیدا کیا ہے؛ لیکن شیطان میرے بندوں کے پاس آکر انہیں ان کے دین سے بہکاتے ہیں ۔ اور میں نے اپنے بندوں کے لئے جن چیزوں کو حلال کیا ہے وہ ان کے لئے حرام قرار دیتے ہیں اور وہ ان کو ایسی چیزوں کو میرے ساتھ شریک کرنے کا حکم دیتے ہیں کہ جس کی کوئی دلیل میں نے نازل نہیں کی۔‘‘