فلاسفہ کا ظہور
امام ابنِ تیمیہؒفلاسفہ کا ظہور
پھر اس کے بعد اسلام میں ملحد فلاسفہ اوران کے علاوہ دیگر پیدا ہوئے اور وہ ان زمانوں کے اختتام کے بعد پھیل گئے اورپیدا ہوئے جن کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر کی گواہی دی تھی اور پھر ہر ایسا زمانہ اور مکان جس میں اسلام کا نور ضعیف ہوتا جاتا تھا تو اس میں ان کو غلبہ حاصل ہوتا اور وہ اس میں ظاہر ہوتے اور ان کے ظہور کے اسباب میں سے یہ ہے کہ انہوں نے یہ گمان کیا کہ دین اسلام تو وہ نہیں جویہ مبتدعین کہتے ہیں اور انہوں نے اس کو عقلی فساد سمجھ لیا پس انہوں نے معروف دینِ اسلام کو عقلی اعتبار سے فاسد اور غلط سمجھ لیا پس ان کی اولاد نے بھر پور طریقے سے زبان اور ہاتھ دونوں کے ذریعے اسلام کے دین میں طعن اور اعراضات کئے جیسے کہ خرمیہ جو کہ بابک الخرمی کے پیروکار ہیں اور بحرین کے قرا مطہ جو ابو سعید جنابی کے پیروکارہیں اور ان کے علاوہ دیگر۔
رہے وہ لوگ جو ان میں سے اعتدال پسند تھے وہ ان کے عقلاء تھے انہوں نے یہ خیال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو خیر اور صلاح لے کر آئے ہیں یہ ایسے امور ہیں کہ ان میں اندر قدح اور اعتراض ممکن نہیں بلکہ ان کے ماہرین اور عقلمندوں نے تو اس بات کا اعتراف کیا جس کا ابن سینا اور ان کے علاوہ دیگر نے بھی اعتراف کیا ہے یعنی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور شخص نے پورے عالم کو نہیں کھٹکایا یعنی اس میں انقلاب نہیں پیدا کیا اور یہ ان کے عقل اور فلسفہ کے بسبب تھا پس بے شک انہوں نے یونان کی بڑی شخصیات میں غور کیا تو انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ وہ دین جس کو موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام لے کر آئے ہیں ان لوگوں کے ادیان اور ان کی دین سے بہت بڑھ کر ہے اور اسی وجہ سے جب عیسیٰ علیہ السلام کا علم روم پہنچا تو وہ یونانی فلسفہ سے دین مسیح کی طرف منتقل ہوئے اور ارسطودین مسیح سے تین سو سال پہلے گزر ا تھا اور وہ اس اسکند بن فیلبس مقدونی کا وزیر تھاجو اہل فارس پر غالب آیا تھا اور یہ وہی ہے جس کی وجہ سے آج رومِ تاریخ (شمسی حساب )سے حساب کیا جاتا ہے اور یہود و نصاریٰ اس سے حساب کرتے ہیں اوریہ وہ اسکندر نہیں ہے جو ذوالقرنین ہے جس کا ذکر قرآن میں ہے جس طرح کہ ایک گروہ کا گمان ہے کیوں کہ وہ تو اس سے مقدم ہے یہ متقدم یعنی سکندر قدیم وہی ہے جس نے یاجوج اور ماجوج کا سد بنایا تھا یعنی اس کی دیوار کو بنایا تھا اور یہ (مقدونی ذوالقرنین)اس سد تک پہنچا نہیں اور یہ تو مسلمان موحد تھا اور مقدونی تو مشرک تھا یہ اور اس کے علاقے کے لوگ یونانیین مشرک تھے جوستاروں اور بتوں کی عبادت کرتے تھے ۔
بتحقیق کہا گیا ہے کہ ان کا آخری بادشاہ بطلیموس جو مجوسی تھا ؛ اس کے بعدلوگوں نے دین مسیح اختیار کرلیا ؛ اس لیے کہ وہ علم جس کے ساتھ مسیح یعنی عیسیٰ علیہ السلام کو مبعوث کیا گیا تھا وہ زیادہ عظیم اور زیادہ جلیل الشان تھا بلکہ نصاریٰ تو دین مسیح کو بدلنے کے باوجود ہدایت اور دین ِ حق کے نسبتاًزیادہ قریب تھے ان فلاسفہ کی بہ نسبت جو مشرکین تھے اور ان لوگوں کا شرک ایسا تھا جس نے دینِ مسیح کو فاسد اور خراب کر دیاتھا جس طرح کہ اہل علم میں سے ایک گروہ نے ذکر کیا ہے انہوں نے کہا کہ وہ لوگ اصنام کی عبادت کرتے تھے ،شمس ،قمر اور کواکب کی عبادت کرتے تھے ،ان کے سامنے سجدہ لگاتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے مسیح کو دینِ اسلام دے کر بھیجا ہے جس طرح کے باقی رسول کو دین اسلام دے کر بھیجا ہے اور وہ اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت ہے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
﴿ واسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ مِن رُّسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِن دُونِ الرَّحْمَنِ آلِہَۃً یُعْبَدُونَ ﴾ (زخرف :۴۵)
’’اور ان سے پوچھ جنھیں ہم نے تجھ سے پہلے اپنے رسولوں میں سے بھیجا، کیاہم نے رحمان کے سوا کوئی معبود بنائے ہیں ، جن کی عبادت کی جائے؟۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِیْ إِلَیْْہِ أَنَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ﴾ (انبیاء :۲۵)
’’اور ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہ وحی کرتے تھے کہ بے شک حقیقت یہ ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ، سو میری عبادت کرو۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللّہَ وَاجْتَنِبُواْ الطَّاغُوتَ فَمِنْہُم مَّنْ ہَدَی اللّہُ وَمِنْہُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْْہِ الضَّلالَۃُ....﴾ [نحل: ۳۶ ]
’’اوریقیناً ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو، پھر ان میں سے کچھ وہ تھے جنھیں اللہ نے ہدایت دی اور ان میں سے کچھ وہ تھے جن پر گمراہی ثابت ہوگئی۔‘‘
بالتحقیق اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح ابرہیم موسیٰ اور عیسیٰ بن مریم علیہم السلام اور ان کے علاوہ دیگر رسولوں اور مومنین کے بارے میں جو کہ حوارین کے زمانے تک گزرے ہیں ان کے بارے میں یہ خبر دی کہ ان کا دین تو اسلام تھا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
﴿[ وَاتْلُ عَلَیْْہِمْ نَبَأَ نُوحٍ إِذْ قَالَ لِقَوْمِہِ یَا قَوْمِ ] إِن کَانَ کَبُرَ عَلَیْْکُم مَّقَامِیْ وَتَذْکِیْرِیْ بِآیَاتِ اللّہِ فَعَلَی اللّہِ تَوَکَّلْتُ فَأَجْمِعُواْ أَمْرَکُمْ وَشُرَکَاء کُمْ ثُمَّ لاَ یَکُنْ أَمْرُکُمْ عَلَیْْکُمْ غُمَّۃً ثُمَّ اقْضُواْ إِلَیَّ وَلاَ تُنظِرُونِ 0فَإِن تَوَلَّیْْتُمْ فَمَا سَأَلْتُکُم مِّنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِیَ إِلاَّ عَلَی اللّہِ وَأُمِرْتُ أَنْ أَکُونَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ﴾( یونس: ۷۱،۷۲)
’’اور ان پر نوح کی خبر پڑھ، جب اس نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم! اگر میرا کھڑا ہونا اور اللہ کی آیات کے ساتھ میرا نصیحت کرنا تم پر بھاری گزرا ہے تو میں نے اللہ ہی پر بھروسا کیا ہے، سو تم اپنا معاملہ اپنے شرکا کے ساتھ مل کر پکا کر لو، پھر تمھارا معاملہ تم پر کسی طرح مخفی نہ رہے، پھر میرے ساتھ کرگزرو اور مجھے مہلت نہ دو۔پھر اگر تم منہ موڑ لو تو میں نے تم سے کوئی مزدوری نہیں مانگی، میری مزدوری نہیں ہے مگر اللہ پر اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں فرماں برداروں سے ہوجاؤں ۔‘‘
اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ وَمَن یَرْغَبُ عَن مِّلَّۃِ إِبْرَاہِیْمَ إِلاَّ مَن سَفِہَ نَفْسَہُ وَلَقَدِ اصْطَفَیْْنَاہُ فِیْ الدُّنْیَا وَإِنَّہُ فِیْ الآخِرَۃِ لَمِنَ الصَّالِحِیْنَ oإِذْ قَالَ لَہُ رَبُّہُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ oوَوَصَّی بِہَا إِبْرَاہِیْمُ بَنِیْہِ وَیَعْقُوبُ یَا بَنِیَّ إِنَّ اللّہَ اصْطَفَی لَکُمُ الدِّیْنَ فَلاَ تَمُوتُنَّ إَلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ oأَمْ کُنتُمْ شُہَدَاء إِذْ حَضَرَ یَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِیْہِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِیْ قَالُواْ نَعْبُدُ إِلَـہَکَ وَإِلَـہَ آبَائِکَ إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ وَإِسْحَاقَ إِلَـہاً وَاحِداً وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ ﴾( البقرہ :۱۳۰۔۱۳۳ )
’’اور ابراہیم کی ملت سے اس کے سوا کون بے رغبتی کرے گا جس نے اپنے آپ کو بے وقوف بنا لیا، اور بے شک ہم نے اسے دنیا میں چن لیا اور بلا شبہ وہ آخرت میں یقیناً صالح لوگوں سے ہے۔جب اس سے اس کے رب نے کہا فرماں بردار ہو جا، اس نے کہا میں جہانوں کے رب کے لیے فرماں بردار ہوگیا۔اور اسی کی وصیت ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو کی اور یعقوب نے بھی۔ اے میرے بیٹو! بے شک اللہ نے تمھارے لیے یہ دین چن لیا ہے، تو تم ہر گز فوت نہ ہونا مگر اس حال میں کہ تم فرماں بردار ہو۔‘‘
اور حضرت موسی کلیم اللہ علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَقَالَ مُوسَی یَا قَوْمِ إِن کُنتُمْ آمَنتُم بِاللّہِ فَعَلَیْْہِ تَوَکَّلُواْ إِن کُنتُم مُّسْلِمِیْنَ﴾( سورۃ یونس :۸۴)
’’اور موسیٰ نے کہا اے میری قوم! اگر تم اللہ پرایمان لائے ہو تو اسی پر بھروسا کرو اگر تم فرمانبردار ہو۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاۃَ فِیْہَا ہُدًی وَنُورٌ یَحْکُمُ بِہَا النَّبِیُّونَ الَّذِیْنَ أَسْلَمُواْ لِلَّذِیْنَ ہَادُوا﴾ ( مائدہ :۴۴)
’’بے شک ہم نے تورات اتاری، جس میں ہدایت اور روشنی تھی، اس کے مطابق فیصلہ کرتے تھے انبیاء جو فرماں بردار تھے، ان لوگوں کے لیے جو یہودی بنے ....۔‘‘
اور بلقیس کے بارے میں فرمایا:
﴿ قَالَتْ رَبِّ إِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْْمَانَ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾(نمل :۴۴)
’’ بولی: اے میرے رب! بے شک میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور میں سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین کے لیے فرماں بردار ہو گئی۔‘‘
اور حوارین سے ان کا قول حکایت کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ وَإِذْ أَوْحَیْْتُ إِلَی الْحَوَارِیِّیْنَ أَنْ آمِنُواْ بِیْ وَبِرَسُولِیْ قَالُوَاْ آمَنَّا وَاشْہَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ ﴾ ( مائدہ: ۱۱۱)
’’اور جب میں نے حواریوں کی طرف وحی کی کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ، انھوں نے کہا ہم ایمان لائے اور گواہ رہ کہ بے شک ہم فرماں بردار ہیں ۔‘‘
چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وہی تعلیمات کو دے کر بھیجے گئے تھے جو دوسرے انبیاء اور رسل کو دیئے گئے تھے ان سے پہلے یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدہ لا شریک کی عبادت اور ان کے لیے ان بعض چیزوں کو اس نے حلال قرار دیا جو ان پر تورات میں پہلے حرام کر دیے گئے تھے اور ان کی ملت ایک مدت تک اس کی اتباع پررہے کہا گیا کہ سو سال سے کم مدت تک پھر ان میں بھی یہود کے ساتھ دشمنی کے سبب بدعتیں پیدا ہو گئیں پس وہ ان کے ساتھ اختلاف کا انہوں نے ارادہ کیا پس مسیح کے بارے میں انہوں نے غلو اور حد سے تجاوزاختیار کیا اور انہو ں نے ان بعض اشیاء کو حلال قرار دیا جو ان پر حرام کر دئے گئے تھے یعنی خنزیر اور اس کے علاوہ دیگر حرام چیزوں کو مباح کر دیا اور ایسے شرکاء کے قائل ہو گئے جو دوسری امم اور دوسری ملتوں میں اللہ سے شریک ٹھہرائے جاتے تھے اس لیے کہ یونان اوروم کے مشرکین شمس اور قمر اور بتوں کے سامنے سجدہ کرتے تھے تو نصاریٰ نے اپنی عبادت کو ان مجسم بتوں کی عبادت سے جن کے لیے سایہ اور ظل ہوتا ہے سے منتقل کر کے ان تماثیل کی عبادت کی طرف لے کر آئے جن کی عبادت خانوں میں تصاویر بنی ہوتی تھیں ۔ اور مشرق کی طرف نماز پڑھنے کی بدعت انھوں نے رائج کی۔ پس انہوں نے اس جہت کی طرف نماز پڑھنی شروع کی جس طرف سے سورج ،چاند اور کواکب ظاہر ہوتے ہیں ۔اور انہوں نے ان مخلوقات کی طرف یعنی شمس و قمر اور کواکب کی طرف نماز پڑھنے کو ان کے لیے نماز پڑھنے اور ان کے لیے سجدہ کرنے کے عوض قرار دیا۔
مقصود ہے کہ نصاریٰ کادین تحریف شدہ ہونے کے باوجود ان لوگوں کے دین سے بہتر تھا جو اہل یونان تھے اور فلاسفہ کی اتباع کرنے والے تھے اسی وجہ سے وہ فلاسفہ جنہوں نے دین اسلام کو دیکھا تھا وہ کہتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین تمام ادیان سے بہتر ہے اور ان کا خیال یہ تھا کہ وہ نصاریٰ اور مجوس اور ا ن کے علاوہ دیگر ادیان سے بھی بہتر ہے پس انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں کوئی طعن واعتراض نہیں کیا جس طرح کہ ان لوگوں نے طعن کیا جو فلاسفہ میں سے زنادقہ ہیں اور ان کا خیال یہ تھا کہ اس دین کے بارے میں متکلمین جواعتراضات کرتے ہیں وہ صریح معقول کے خلاف ہیں پس اس کے بسبب انہوں نے ان پرطعن کیا اور کہنے لگے کہ جوشخص متعصب نہ ہو اور وہ خواہشات کا اتباع کرنے والا نہ ہو تو وہ وہ بات نہیں کہے گا جو یہ لوگ مبدأ اور معاد کے بارے میں کہتے ہیں ۔