Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متعدد نکاح کیوں فرمائے؟

  جعفر صادق

حضورِ اقدسﷺ نے متعدد نکاح کیوں فرمائے؟
کافی عرصہ کی بات ہے کہ جب میں لیاقت میڈیکل کالج جامشورو میں سروس کررہا تھا تو وہاں لڑکوں نے سیرتِ نبیﷺ کانفرس منعقد کرائی اور تمام اساتذہ کرام کو مدعو کیا۔
چنانچہ میں اس کانفرنس میں شرکت کی۔ اس نشست میں اسلامیات کے ایک لیکچرار نے حضورِ اقدسﷺ کی پرائیویٹ زندگی پر مفصل بیان کیا اور آپ کی ایک ایک شادی کی تفصیل بتائی کہ یہ شادی کیوں کی اور اس سے امت کو کیا فائدہ ہوا۔ یہ بیان اتنا مؤثر تھا کہ حاضرینِ مجلس نے اس کو بہت سراہا۔
کانفرس کے اختتام پر ڈاکٹر عنایت اللہ جوکھیو نے عجیب بات کی اس نے کہا کہ آج رات میں دوبارہ مسلمان ہوا ہوں۔ میں نے تفصیل پوچھی تو اس نے بتایا کہ آٹھ سال قبل جب وہ FRCS کے لیے انگلستان گیا تو کراچی سے انگلستان کا سفر کافی لمبا تھا، ہوائی جہاز میں ایک ائیر ہوسٹس میرے ساتھ آ کر بیٹھ گئی۔ ایک دوسرے کے حالات سے آگاہی کے بعد اس عورت نے مجھ سے پوچھا کہ تمہارا مذہب کیا ہے؟
میں نے بتایا اسلام ہے ہمارے نبیﷺ کا نام پوچھا، میں نے حضرت محمدﷺ بتایا، پھر اس لڑکی نے سوال کیا کہ کیا تم کو معلوم ہے کہ تمہارے نبیﷺ نے گیارہ شادیاں کی تھیں؟
میں نے لاعلمی ظاہر کی تو اس لڑکی نے کہا یہ بات حق اور سچ ہے۔ اس کے بعد اس لڑکی نے حضورِ اکرمﷺ کے بارے (معاذاللہ) نفسانی خواہشات کے غلبے کے علاوہ دو تین دیگر الزامات لگائے، جس کے سننے کے بعد میرے دل میں (نعوذ بااللہ) حضورِ اکرمﷺ کے بارے میں نفرت پیدا ہوگئی اور جب میں لندن کے ہوائی اڈے پر اترا تو میں مسلمان نہیں تھا آٹھ سال انگلستان میں قیام کےدوران میں کسی مسلمان کو نہیں ملتا تھا حتیٰ کہ عید کی نماز تک میں نے ترک کر دی۔ اتوار کو میں گرجوں میں جاتا اور وہاں کے مسلمان مجھے عیسائی کہتے تھے جب میں آٹھ سال بعد واپس پاکستان آیا تو یہاں بھی میری وہی عادت رہی۔ آج رات اس لیکچرار کا بیان سن کر میرا دل صاف ہو گیا اور میں نے پھر سے کلمہ پڑھا ہے۔ غور کیجئے ایک عورت کے چند کلمات نے مسلمان کو کتنا گمراہ کیا اور اگر ڈاکٹر عنایت اللہ یہ بیان نہ سنتا تو پتہ نہیں اس کا کیا بنتا۔
اس کی وجہ ہم مسلمانوں کی کم علمی ہے۔ ہم حضورِ اکرمﷺ کی زندگی کے متعلق نہ پڑھتے ہیں اور نہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسی میٹنگز میں جب کوئی ایسی با ت کرتا ہے تو مسلمان کوئی جواب نہیں دیتے، ٹال دیتے ہیں۔ جس سے اعتراض کرنے والوں کے حوصلے بلند ہو جا تے ہیں۔ اس لیے بہت اہم ہے کہ ہم اس موضوع کا مطالعہ کریں اور موقع پر حقیقت لوگوں کو بتائیں۔
ایک دفعہ بہاولپور سے ملتان بذریعہ بس میں سفر کر رہا تھا کہ ایک آدمی لوگوں کو حضورِ اکرمﷺ کی شادیوں کے بارے میں گمراہ کر رہا تھا۔ میں نے اس سے بات شروع کی تو وہ چپ ہو گیا اور باقی لوگ بھی اِدھر اُدھر ہو گئے۔ لوگوں نے حضورِ اکرمﷺ کی عزت و ناموس کی خاطر جانیں قربان کی ہیں۔ کیا ہمارے پاس اتنا وقت نہیں کہ ہم اس موضوع کے چیدہ چیدہ نکات کو یاد کر لیں اور موقع پر لوگو ں کو بتائیں۔ اس بات کا احساس مجھے ایک دوست ڈاکٹر نے دلایا جو انگلستان میں ہوتے ہیں اور یہاں ایک جماعت کے ساتھ آئے تھے۔ انگلستان میں ڈاکٹر صاحب کے کافی دوست دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے تھے، وہ ان کو اس موضوع پر صحیح معلومات فراہم کرتے رہتے ہیں۔انہوں نے چیدہ چیدہ نکات بتائے، جو میں پیش خدمت کر رہا ہوں۔ اتوار کے دن ڈاکٹر صاحب اپنے دوستوں کے ذریعے ”گرجا گھر" چلے جاتے ہیں، وہاں اپنا تعارف اور نبی کریمﷺ کا تعارف کراتے ہیں۔
عیسائی لوگ خاص کر مستورات آپ کی شادیوں پر اعتراض کرتی ہیں، ڈاکٹر صاحب انکے جو جوابات دیتے وہ مندرجہ ذیل ہیں
میرے پیا رے نبیﷺ نے عالمِ شباب میں (25 سال کی عمر میں) ایک سن رسیدہ بیوہ خاتون سیدہ خدیجہؓ سے شادی کی۔ سیدہ خدیجہؓ کی عمر 40 سال تھی اور جب تک سیدہ خدیجہؓ زندہ رہیں آپ نے دوسری شادی نہیں کی۔
50 سال کی عمر تک آپ نے ایک بیوی پر قناعت کی۔
(اگر کسی شخص میں نفسانی خواہشات کا غلبہ ہو تو وہ عالمِ شباب کے 25 سال ایک بیوہ خاتون کے ساتھ گزارنے پر اکتفا نہیں کرتا) سیدہ خدیجہؓ کی وفات کے بعد مختلف وجوہات کی بناء پر آپﷺ نے متعدد نکاح کئے۔
پھر اسی مجمع سے ڈاکٹر صاحب نے سوال کیا کہ یہاں بہت سے نوجوان بیٹھے ہیں آپ میں سے کون جوان ہے جو 40 سال کی بیوہ سے شادی کرے گا؟ سب خاموش رہے۔
ڈاکٹر صاحب نے ان کو بتایا کہ نبی کریمﷺ نے یہ کیا ہے پھر ڈاکٹر صاحب نے سب کو بتایا کہ جو گیارہ شادیاں آپﷺ نے کی ہیں سوائے ایک کے، باقی سب بیوگان تھیں یہ سن کر سب حیران ہوئے۔
پھر مجمع کو بتایا کہ جنگِ اُحد میں ستر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شہید ہوئے, نصف سے زیادہ گھرانے بے آسرا ہوگئے، بیوگان اور یتیموں کا کوئی سہارا نہ رہا اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے نبی کریمﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بیوگان سے شادی کرنے کو کہا، لوگوں کو ترغیب دینے کے لیے آپﷺ نے سیدہ سودہؓ، سیدہ اُمِ سلمہؓ اور سیدہ زینب بنتِ خزیمہؓ سے مختلف اوقات میں نکاح کیے۔ آپﷺ کو دیکھا دیکھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی بیوگان سے شادیاں کیں جس کی وجہ سے بے آسرا گھرانے آباد ہوگئے۔ عربوں میں کثرتِ ازواج کا رواج تھا۔
دوسرے شادی کے ذریعے قبائل کو قریب لانا اور اسلام کے فروغ کا مقصد آپﷺ کے پیش نظر تھا۔
ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ عربوں میں دستور تھا کہ جو شخص ان کا داماد بن جاتا اس کے خلاف جنگ کرنا اپنی عزت کے خلاف سمجھتے۔
سیدنا ابوسفیانؓ اسلام لانے سے پہلے حضور اکرمﷺ کا شدید ترین مخالف تھا مگر جب ان کی بیٹی اُمِ حبیبہؓ سے حضور نبی کریمﷺ کا نکاح ہوا تو یہ دشمنی کم ہو گئی۔
ہوا یہ کہ سیدہ اُمِ حبیبہؓ شروع میں مسلمان ہو کر اپنے مسلمان شوہر کے ساتھ حبشہ ہجرت کرگئیں، وہاں ان کا خاوند نصرانی ہو گیا۔
سیدہ اُمِ حبیبہؓ نے اس سے علیحدگی اختیار کی اور بہت مشکلات سے گھر پہنچیں۔ حضورِ اکرمﷺ نے ان کی دلجوئی فرمائی اور بادشاہ حبشہ کے ذریعے ان سے نکاح کیا۔
سیدہ جویریہؓ کا والد قبیلہ بنو مصطلق کا سردار تھا۔ یہ قبیلہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان رہتا تھا حضورِ اکرمﷺ نے اس قبیلہ سے جہاد کیا ان کا سردار مارا گیا۔ سیدہ جویریہؓ قید ہو کر ایک صحابیؓ کے حصہ میں آئیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مشورہ کرکے سردار کی بیٹی کا نکاح حضورِ اکرمﷺ سے کر دیا اور اس نکاح کی برکت سے اس قبیلہ کے سو گھرانے آزاد ہوئے اور سب مسلمان ہو گئے۔
خیبر کی لڑائی میں یہودی سردار کی بیٹی سیدہ صفیہؓ قید ہو کر ایک صحابیؓ کے حصہ میں آئیں۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مشورے سے ان کا نکاح حضورِ اکرمﷺ سے کرا دیا۔
اسی طر ح سیدہ میمونہؓ سے نکاح کی وجہ سے نجد کے علاقہ میں اسلام پھیلا۔
ان شادیوں کا مقصد یہ بھی تھا کہ لوگ حضورﷺ کے قریب آ سکیں، اخلاقِ نبی کا مطالعہ کر سکیں تاکہ انہیں راہِ ہدایت نصیب ہو۔
سیدہ ماریہؓ سے نکاح بھی اسی سلسلہ کی کڑی تھا۔ آپ پہلے مسیحی تھیں اور ان کا تعلق ایک شاہی خاندان سے تھا۔ ان کو بازنطینی بادشاہ شاہِ مقوقس نے بطورِ ہدیہ کے آپﷺ کی خدمتِ اقدس میں بھیجا تھا۔
سیدہ زینب بنتِ جحشؓ سے نکاح متنبیٰ کی رسم توڑنے کے لیے کیا۔ سیدنا زیدؓ حضورِ اکرمﷺ کے متنبیٰ کہلاتے تھے، ان کا نکاح سیدہ زینب بنتِ جحشؓ سے ہوا، مناسبت نہ ہونے پر سیدنا زیدؓ نے انہیں طلاق دے دی تو حضورِ اکرمﷺ نے نکاح کر لیا اور ثابت کر دیا کہ متنبیٰ ہرگز حقیقی بیٹے کے ذیل میں نہیں آتا۔
اپنا کلام جاری رکھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ علومِ اسلامیہ کا سر چشمہ قرآنِ پاک اور حضورِ اقدسﷺ کی سیرتِ پاک ہے۔
آپﷺ کی سیرتِ پاک کا ہر ایک پہلو محفوظ کرنے کے لیے مردوں میں خاص کر اصحابِ صفہ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
عورتوں میں اس کام کے لیے ایک جماعت کی ضرورت تھی۔ ایک صحابیہؓ سے کام کرنا مشکل تھا اس کام کی تکمیل کے لیے آپﷺ نے متعدد نکاح کیے۔
آپ نے حکماً ازواجِ مطہراتؓ کو ارشاد فرمایا تھا کہ ہر اس بات کو نوٹ کریں جو رات کے اندھیرے میں دیکھیں۔
سیدہ عائشہؓ جو بہت ذہین، زیرک اور فہیم تھیں، حضور اکرمﷺ نے نسوانی احکام و مسائل کے متعلق آپ کو خاص طور پر تعلیم دی۔
حضورِ اقدسﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد سیدہ عائشہؓ 45 سال تک زندہ رہیں اور 2210 احادیث آپؓ سے مروی ہیں۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین فرماتے ہیں کہ جب کسی مسئلے میں شک ہوتا تو سیدہ عائشہؓ کو اس کا علم ہوتا تھا۔
اسی طرح سیدہ اُمِ سلمہؓ کی روایات کی تعداد 368 ہے۔
ان حالا ت سے ظاہر ہوا کہ ازواجِ مطہراتؓ کے گھر، عورتوں کی دینی درسگاہیں تھیں کیونکہ یہ تعلیم قیامت تک کے لیے تھی اور ساری دنیا کے لیے تھی اور ذرائع ابلاغ محدود تھے، اس لیے کتنا جانفشانی سے یہ کام کیا گیا ہو گا، اس کا اندازہ آج نہیں لگایا جا سکتا۔
آخر میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ یہ مذکورہ بالا بیان میں گرجوں میں لوگوں کو سناتا ہوں اور وہ سنتے ہیں۔
باقی ہدایت دینا تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔
اگر پڑھے لکھے مسلمان ان نکات کو یاد کر لیں اور کوئی بدبخت حضورِ اکرمﷺ کی ذات پر حملہ کرے تو ہم سب اس کا دفاع کریں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے اور عمل کرنے والا بنائے۔ آمین