اکثر فلاسفہ کا قول:عالم کا مادہ اس کی صورت پر متقدم ہے
امام ابنِ تیمیہؒاکثر فلاسفہ کا قول:عالم کا مادہ اس کی صورت پر متقدم ہے
حدوثِ عالم کا یہ قول فلاسفہ کے اُن آئمہ کا قول ہے جو ارسطوسے پہلے گزرے ہیں بلکہ وہ تو اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ ارسطوہی وہ پہلا شخص ہے جس نے قدمِ افلاک کا قول اختیار کیا ہے اور یہ کہ اس سے پہلے جو فلاسفہ کے آئمہ متقدمین گزرے ہیں وہ تو یہ کہتے تھے کہ عالم محدث (عدم کے بعد وجود میں آنے والا )ہے یا تو فقط اپنی صورت کے اعتبار سے یا اپنی مادہ اور صورت دونوں کے اعتبار سے ،اور اکثر تو اس کے قائل تھے کہ اس کا مادہ اس کی صورت پر متقدم ہے۔
اس عقیدہ کی کتاب و سنت سے موافقت :
یہ بات اس بات کے موافق ہے جس کی پیغمبروں نے خبر دی ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی خبر دی ہے کہ اس نے آسمانوں اور زمینوں کو چھ دنوں میں پیدا فرمایا۔ اس حال میں کہ اس کا عرش پانی پر متمکن تھا :
﴿ وَہُوَ الَّذِیْ خَلَق السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ أَیَّامٍ وَکَانَ عَرْشُہُ عَلَی الْمَائِ﴾
(ھود ۷)
’’اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا۔‘‘
اور اس بات کی خبر دی ہے:
﴿ ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَاء وَہِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَلِلْأَرْضِ اِئْتِیَا طَوْعاً أَوْ کَرْہاً قَالَتَا أَتَیْْنَا طَائِعِیْنَ ﴾(حم فصلت۱۱)
’’پھر وہ آسمان پر مستوی ہو ا اور وہ ایک دھواں تھا تو اس نے اس سے اور زمین سے کہاکہ آؤ خوشی سے یا ناخوشی سے۔ دونوں نے کہا ہم خوشی سے آگئے‘‘ ۔
اور صحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عمر بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت مبنی ہے کہ:
(( کَتَبَ اللہُ مَقَادِیرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ أَنْ یَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِخَمْسِینَ أَلْفَ سَنَۃٍ، قَالَ: وَعَرْشُہُ عَلَی الْمَائِ۔)) [مسلِم 4؍44؛ کتاب القدرِ، باب حِجاجِ آدم وموس علیہِما السلام ؛ سنن التِرمِذِی ط. المدِینۃ ِ المنور3؍311 ؛ کتاب القدرِ، باب ما جا فِی الرِضاء بِالقضائِ .]
’’اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کی مقادیر اور ان کا قدر اور ان کا اندازہ آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کرنے سے پہلے پچاس ہزار سال پہلے کر لیا تھا اور اس حال میں کہ اس کا عرش پانی پر تھا۔‘‘
صحیح بخاری اور دیگر کتب میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے؛ فرمایا :
(( کان اللہ ولم یکن شئی قبلہ وکان عرشہ علی الماء وکتب فی الذکر کل شئی وخلق السماوات والارض۔))[البخاری 9؍124؛ کتاب التوحِیدِ، باب وکان عرشہ علی المائِ ....،4؍105 ؛ کتاب بدئِ الخلقِ، باب ما جاء فِی قولِ اللّٰہِ تعال وہو الذِی یبدء الخلق ثم یعِیدہ ؛ سننِ التِرمِذِیِ[مختصر] 5؍389 کِتاب المناقِبِ، باب فِی مناقِبِ ثقِیف وبنِی حنِیفۃ۔]
’’ اللہ تعالیٰ تو اس سے پہلے کوئی شے نہیں تھی اور اس کا عرش پانی پر متمکن تھا اور اس نے جو لوح محفوظ میں ہر شے کو لکھ دیا اور آسمانوں اور زمینوں کو پیدا فرما دیا۔‘‘
ایک روایت میں ہے کہ پھر آسمانوں اور زمینوں کو پیدا فرما دیا ۔
صحابہ اور تابعین سے ایسے آثار تواتر سے منقول ہیں جو قرآن و سنت کے موافق ہیں یعنی اس بات میں کہ اللہ نے آسمانوں کوایک ایسے پانی کے بخار ات سے پیدا کیا ہے جس کو اللہ نے ’’دخان ‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے اور صحابہ تابعین اور ان کے ما بعد میں سے علماء مسلمین نے ان مخلوقات کے اول میں کلام کیا ہے کہ وہ اول شے کیا تھی ؟ اس میں ان کے دو قول تھے؛ جن کو حافظ ابو الاعلا ھمدانی اور ان کے علاوہ دیگر نے نقل کیا ہے :
ایک عرش ہے ،دوسرا قلم ہے۔
انہوں نے قولِ اول کو ترجیح کی ہے۔کیونکہ قرآن و سنت میں اس کی دلیل موجود ہے۔کہ اللہ نے جب تمام مخلوقات کے مقادیر کو اس قلم سے لکھا؛ جس کو اس نے حکم دیا تھا کہ وہ لوح میں لکھے؛ اور اس کا عرش پانی پر متمکن تھا ؛ توعرش کو قلم سے پہلے پیدا کیا گیا تھا۔ اور انہوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس معاملہ میں جو آثار منقول ہیں کہ اللہ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا ۔ اس کا معنی یہ ہے کہ اس عالم میں سے اور بالتحقیق اس بات کی خبر دی ہے کہ اس نے اس کو چھ دنوں میں پیدا فرمایا۔ پس جس وقت نے اللہ تعالیٰ نے اس کو پیدا فرمایا وہ ایک زمان تھا ۔ جس کے ذریعے اس کا اندازہ اور اس کی مقدار معلوم ہو سکتی ہے۔ اور اس نے اس کو اس حال میں پیدا فرمایا کہ وہ ۔ ایام کی طرف الگ الگ وجو د میں آرہا تھا پس معلوم ہوا کہ شمس اور قمر کی پیدائش سے پہلے زمانہ بھی موجود تھا اور اس عالم میں اللہ نے لیل و نہار کو پہلے سے پیدا فرمایا تھا۔ اور صحیحین میں روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ انہوں نے حج الوداع کے خطبہ میں یہ ارشاد فرمایا :
(( إن الزَّمَانُ قَدْ اسْتَدَارَ کَہَیْئَتِہِ یَوْمَ خَلَقَ اللَّہُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ، السَّنَۃُ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا، مِنْہَا أَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ، ثَلاَثَۃٌ مُتَوَالِیَاتٌ: ذُو القَعْدَۃِ وَذُو الحِجَّۃِ وَالمُحَرَّمُ، وَرَجَبُ مُضَرَ، الَّذِی بَیْنَ جُمَادَی وَشَعْبَانَ ۔))[البخارِیِ9؍133 ِ؛ کتاب التوحِیدِ، باب قولِ اللّٰہِ تعالی: ﴿وجوہ یومئِذ ناضِرۃ﴾ 4؍107؛ کتاب بدئِ الخلقِ، باب ما جا فِی سبعِ أرضِین؛ وأول الحدِیثِ فِیہِ:الزمان قدِ استدار....؛ مسلِم 3؍1305 ۔ 1306 ِکتاب القسامۃِ، باب تغلِیظِ تحرِیمِ الدِمائِ....؛ سننِ بِی داود 2؍265 کتاب المناسکِِ، باب الشہرِ الحرمِ۔]
’’بالتحقیق زمانہ وہ واپس مڑ کر آگیا ہے اپنی اس ہیئت کی طرف جو اللہ نے اس کی پیدا فرمائی تھی آسمانوں اور تخلیق کے دن اور سال بارہ مہینے ہیں جن میں سے چار اشہرحرم ہیں :ذو القعدہ،ذی الحجۃ ،محرم اور وہ رجب جو شعبان اور رمضان کے درمیان ہے۔‘‘
اور صحیح میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے :
(( خطبنارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبۃ فذکر بدء الخلق حتی دخل اہل الجنۃ منازلہم ودخل اہل النار منازلہم ۔))[البخاری 4؍106کتاب بدئِ الخلقِ، الباب الأول]
’’ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لمبا خطبہ دیا جس میں آپ نے ابتدائے تخلیق کا ذکر کیا۔ یہاں تک لمبا خطبہ دیا اہل جنت کا اپنے جنت میں دخول کا ذکر فرمایا اور اہل نار کا نار کا جہنم کے اندر دخول کا ذکر فرمایا۔‘‘
اسی طرح تورات میں بھی اس باب میں قرآن کی خبر کے موافق باتیں ہے اور یہ بات کہ زمین پانی کے ساتھ معمور تھی اور ہوا پانی کے اوپر ہوا چلتی تھی اور یہ بات کہ اولِ امر میں اللہ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدافرمایا او ریہ کہ اللہ نے اس کو ایام میں پیدا فرمایا ہے اسی وجہ سے علمائے اہل کتاب میں سے وہ بھی ہیں جو اس بات کے قائل ہیں جس کو اللہ نے تورات میں ذکر کیا ہے اور وہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اس نے اس عالم کو ایک اور مادے سے پیدا فرمایا ہے ۔
یہ کہ اس نے اس کو ایک ایسے زمانے میں پیدا فرمایا ہے جو کہ شمس و قمر کی پیدائش کے زمانے سے پہلے تھا اور اللہ تعالیٰ نے قرآن اور اس کے علاوہ دیگر کتابوں میں آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق سے متعلق جو باتیں ذکر فرمائیں اس میں یہ مذکور نہیں ہے کہ اس نے آسمانوں اور زمنیوں کو بغیر کسی مادے کے پیدا فرمایا اور یہ بھی نہیں کہ اللہ نے انسانوں اور ملائکہ کو ایک مادے سے پیدا فرمایا بلکہ اللہ تعالیٰ خبر دیتے ہیں کہ ان کو ایک مادے سے پیدا فرمایا اگرچہ وہ مادہ ایک اور مادے سے مخلوق تھا جیسے کہ انسان کو آدم سے پیدا فرمایا اور آدم کو مٹی کے گارے اور صحیح مسلم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا :
((خلقت الملائکۃ من نور وخلقت الجان من مارج من نار وخلق آدمم مماوصف لکم۔)) [مسلِم 4؍2294کِتاب الزہدِ والرقائِقِ،؛ المسند 6؍153، 168.]]
’’میں نے ملائکہ کو نور سے پیدا فرمایا؛ اور جنات کو آگ کے شرارے سے اور آدم کو اس چیز سے پیدا فرمایا ہے جو تمہارے سامنے بیان کر دیا گیا ہے۔‘‘
یہاں تو مقصود یہ ہے کہ فلاسفہ قدماء کے آئمہ سے جو بات منقول ہے وہ اُن باتوں کے مخالف نہیں جو انبیاء کرام نے بیان کر دی ہیں یعنی اس عالم کوکسی مادے سے پیدا فرمانا بلکہ ان سے جو منقول ہے وہ یہ ہے کہ یہ عالم تو حادث ہے اورعدم کے بعد موجود ہوا ۔
رہا ان کا مادے کے بارے میں قول کہ وہ قدیم الاعیان ہیں ،حادث ہیں بعد اس کے کہ معدوم تھے یا وہ حادث ہیں کسی اور مادے سے ایک دوسرے مادے کے بعد تو اس باب میں ان سے منقول اقوال مضطرب ہیں اور اللہ تعالیٰ کو تو ان لوگوں میں سے ہر ایک کے قول کی حقیقت کا زیادہ علم ہے اس لیے کہ یہ تو ایک ایسی جماعت ہے کہ جن کی اصل کتابوں کو ایک زبان سے دوسری زبان میں تبدیل کر دیا گیاہے اور ایسی حالت میں بسا اوقات ایسا جھوٹ اور غلطیان پیدا ہوجاتی ہیں جن کی حقیقت کا کچھ پتہ نہیں چلتا یعنی یہ نہیں معلوم ہوتا کہ کتنا اس میں تحریف کیا گیا ہے اور کتنا اس میں صحیح بلفظہ ترجمہ کیا گیا ہے لیکن ان سے جو نقول اور عبارات تواتر کے سااتھ منقول ہیں وہ مثل متواتر کے ہیں اور ان میں سے ہرطائفہ کے قول کے جاننے سے ہمارا کوئی خاص غرض وابستہ نہیں بلکہ ہم تو ان کے بارے میں یہی کہہ کر بات ختم کرتے ہیں :
﴿ تِلْکَ أُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ لَہَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُم مَّا کَسَبْتُمْ وَلاَ تُسْأَلُونَ عَمَّا کَانُوا یَعْمَلُونَ ﴾ ( البقرہ ۱۳۴)
’’یہ ایک امت تھی جو گزر چکی، اس کے لیے وہ ہے جو اس نے کمایا اور تمھارے لیے وہ جو تم نے کمایا اور تم سے اس کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘