ارسطو اور اس کے پیروکاروں کی گمراہی اور شرک
امام ابنِ تیمیہؒارسطو اور اس کے پیروکاروں کی گمراہی اور شرک
لیکن وہ بات جس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ یہ کہ اس قسم کی تعلیمات کے اصحاب جیسے ارسطواور اس کے متبعین مشرکین تھے اور مخلوقات کی عبادت کرتے تھے اور وہ نبوتوں اور معاد بدنی (جسمانی طور پر قیامت میں اٹھا یا جانا )کو بالکل نہیں مانتے تھے اور یہ کہ یقیناً یہود و نصاریٰ و الٰہیات اور نبوت اور معاد اور بعث بعد الموت کے مسئلے میں ان سے بدرجہا بہتر تھے اور جب یہ بات معلوم ہو گئی کہ ان کا فلسفہ اُن پر اس بات کو لازم کرتا ہے کہ وہ عالم میں سے کسی شے معین کے قدم کے قائل نہ ہوں تو یہ بات معلوم ہو گئی کہ وہ صریحِ معقول کے بھی خلاف ہیں جس طرح وہ صریح منقول کے خلاف ہیں اور یہ کہ وہ قواعدِ صریحہ میں تحریف کرنے میں یہود و نصاریٰ کے مشابہ ہیں جیسے انہوں نے پیغمبروں کی لائی ہوئی تعلیمات میں تحریف کردی یہی تو اس باب میں مقصود ہے ۔
پھر اگر یہ بات فرض کر لی جائے کہ ان کے ہاں معقول میں سے کوئی ایسی شے نہیں جس کے ذریعے وہ احد الطرفین کو پہچان لیں پس اس معاملے میں آسمان و زمین کی تخلیق کے بارے میں اور حدوث عالم کے بارے میں ان کے باتفاق پیغمبروں کا خبر دینا ہی کافی ہے اور فلسفہ صحیحہ تو معقولات محضہ پر مبنی ہے جو ان پران امور میں پیغمبروں کی تصدیق کو واجب کرتا ہے جس کی پیغمبروں نے ان کو خبر دی ہے اور ان کے لیے اس بات کو واضح کرتا ہے کہ انہوں نے اس کو ایک ایسے طریقے سے جانا ہے جس سے وہ عاجز ہیں اور یقیناً وہ امور ِ الٰہیہ اور معاد پر زیادہ اعلم ہیں اور ان امور پر جو نفوس اور انسانوں کو سعید اور شقی (نیک بخت اور بدبخت )بناتے ہیں اور ان کو یہ بات بتلاتے ہیں کہ جس نے رسولوں کی اتباع کی وہ آخرت میں سعید اور نیک بخت ہے اور جس نے ان کی تکذیب کی اور ان کو جھٹلایا وہ آخرت میں شقی اور بد بخت ہے۔نیز بھی کہ اگر انسان طبیعات اور ریاضیات کو جان لے تو قریب نہیں کہ وہ پیغمبروں کے دین سے نکل جائے یعنی کہ وہ (یعنی یہ علوم )اس کو پیغمبروں کے دین سے نکلنے پر آمادنہ نہیں کرے گابلکہ پیغمبروں کے ا دیان تو اس کے موافق ہیں اور یقیناً اس بات کو بھی کہ جس نے اپنی طاقت اور اپنی وسعت کے بقدراللہ اور رسول کی اطاعت کی وہ آخرت میں سعید اور نیک بخت ہوگا اگرچہ طبعیات اور ریاضیات میں سے اس نے کسی شے کو بھی جانا نہ ہو اور اس کی معرفت حاصل نہ کی ہو۔
لیکن ان کے سلف نے ریاضیات اور طعیات میں کثر ت سے کلام کیا کیوں کہ ان کے ہاں تو پیغمبروں کے وہ آثار اور وہ منقولی علوم نہیں تھے جن کے ذریعے وہ اللہ کی توحید کی طرف راستہ پائیں ۔ اور اس کی عبادت کی طرف اور وہ امور جان لیں جو آخرت میں ان کے لیے نافع ہیں اور ان کے سحر اور شیطانی افعال کے سبب ،شرک نے ان کے اوپر تسلط جمایا ہوا تھا اور کواکب کے ترصد اور ان کے حسابات معلوم کرنے میں انہوں نے اپنی عمریں صرف کر دی تھیں تاکہ وہ سحر اور شرک سے مدد حاصل کریں اور یہی حال امورِ طبعیہ کا ہے اور ان کی عقل کی منتہیٰ چند ایسے امور عقلیہ ہیں جو کلی ہیں جیسے کہ وجودِ مطلق کا علم اوروجود کا علت و معلول اور جوہر و عرض کا طرف انقسام کا علم اور جواہر کی تقسیم اور پھر اعراض کی تقسیم اور یہی ان کے ہاں حکمتِ اوّلی اور فلفسہ اولیٰ ہے اور اس کی منتہیٰ(آخری حد) اس وجودِ مطلق کا علم ہے جس کا وجودِ ذہنی کے سوا کوئی وجود ہی نہیں ۔
اسی سبب سے کچھ لوگ ان کی مسلک میں داخل ہو گئے یعنی وہ متصوفہ جو فلاسفہ تھے جیسے ابن عربی اور ابن سبعین اور تلمسانی اور ان کے امثال پس ان کے معرفت کی منتہیٰ وجودِ مطلق تھی ۔اور ان میں سے بعضو ں نے تو یہ گمان کیا کہ یہی وجودِ واجب ہے اور اس بات میں وہ گمراہی پائی جاتی ہے ۔دوسری جگہ پر یہ مسئلہ تفصیل سے بیان کردیا گیا ہے۔
اس مسلک پر بہت سے مسلمان اور یہود و نصاریٰ اور ان کے علاوہ دیگر اہل ملل گامزن رہے ہیں ۔اور انہوں نے اس قول کے فساد کو بیان کیا جس پر عالم کے قدم کے قائلین چلے ہیں اور انہوں نے وہ نقلی دلائل ایک ایک کر کے ذکر کر دئیے جو ارسطواور اس کے دیگر امثال سے منقول تھے اور اس کے فساد کو بیان کیا پھر انہوں نے کہا کہ ہم اس مسئلہ کو نقل سے لیتے ہیں پس پیغمبروں نے تو ایسے امور کی خبر دی ہے جن کے نقیض پر کوئی دلیل عقلی قائم نہیں ہوتی لہٰذا اس کی تصدیق واجب ہے۔
حدوثِ عالم پر ایسے نقلی دلائل جن میں کوئی تاویل ممکن نہیں :
کئی وجوہ سے ان کی کوئی بھی تاویل ممکن نہیں ہے؛ ان میں سے :
پہلی وجہ :.... ایک یہ کہ ان کی مراد اضطراری اور بدیہی طریقے پر معلوم ہے پس اس میں کسی تاویل کی گنجائش نہیں اگر ہو گی بھی توصرف مرسلین کی تکذیب کی صورت میں ہوگی۔
دوسری وجہ :.... اہل ملل کے سلف و خلف کے درمیان یہ امرظاہراً اور باطناً متفق علیہ ہے۔ پس یہ ممتنع ہے کہ رسول اس کے خلاف کوئی بات دل میں پوشیدہ رکھنے والے ہوں ؛ جس طرح کہ باطنیہ فرقہ میں سے بعض نے اس قول کو اختیار کیا ہے بعض لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں ۔
تیسری وجہ :.... ایسی کوئی عقلی دلیل نہیں جو اس کے منافی ہو؛ بلکہ معقولات میں وہ تمام ادلہ جو اس کے منافی ہیں وہ سب کی سب فاسد ہیں اور ان کا فساد صریح عقلی دلائل سے معلوم ہے ۔
چوتھی وجہ :.... عقلی دلائل میں سے کچھ اس کی تصدیق کرتے ہیں ۔ پھر ان میں سے ہر ایک اس باب میں اس راستے پرچلا ہے جو اسے عقلیات میں سے آسان نظر آیا ۔
پانچویں وجہ :.... انسان کی فطرت اور بداہت سے یہ امرمعلوم ہے کہ حوادث کے لیے کسی محدث (پیدا کرنے والا )کا ہونا ضروری ہے اور مصنوعات کے لیے کسی صانع اور فاعل کا ہونا ضروری ہے۔ اور یہ کہ مفعول کی اپنے فاعل کے ساتھ مقارنت ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی۔ یہ امرعقول کی فطرت میں ممتنع ہے۔ اوریہ وہ دلائل ہیں جن سے یہ اپنے مخالفین پراستدلال کرتے ہیں ۔یہ مسئلہ اپنے مقام پرتفصیلاً بیان ہوچکا ہے۔
اس لیے کہ جب ان کے سامنے ان کے بھائیوں کے قول کا فساد بیان کیا جائے؛ اور ان پر یہ واضح ہو جائے کہ فاعل کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کے ساتھ ایسے احوال قائم ہوں جن کی بنیاد پر وہ فاعل بنتا ہے تو (اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے )یہ ممتنع ہے کہ اس کا مفعولِ معین اس کے ساتھ مقارن ہو ازلاً و ابداً اس لیے کہ یہ تو اس کو مفعولیت سے نکالنے کے مترادف ہوا ۔
چھٹی وجہ :.... ان دونوں فریقین سے یہ کہا جائے گا کہ جس بات پر تم قائم ہو اس کی بنیاد کیا ہے ؟وجود کی طرف رجوع کرنا ہے؟ اور فلسفہ تو اس کے موجودہ حال پر وجود کی معرفت ہے۔حقیقی فلسفہ میں تو امورِ وجودیہ ہیں جن کی وجہ سے وجود کو پہچانا جاتا ہے۔ اور تم تو اکثر و بیشتر قیاس کے بغیر کسی شے کو نہیں ثابت کرتے؛ خواہ وہ قیاسی شمولی ہو یا عام ہو یا تمثیلی ہو۔ کیا تمہارے علم میں کوئی ایسافاعل ہے جس کا مفعول وقت میں اس کے ساتھ لازم یا مقارن ہو اور وہ دھیرے دھیرے حادث نہ ہوتا ہو خواہ وہ فاعل بالارادہ ہو یا بالتبع۔
کیا تم نے کسی ایسے فاعل کو پایا ہے جو ازل سے اپنے مفعول کے لئے موجب ہواور ابد تک ہو ؟اور ازل سے اس کا مفعول خود اس کا معلول بنے یہ ایک ایسی شے ہے جو تمہارے اور تمہارے غیر دوسری جماعتوں کے عقل میں بھی نہیں آتی پس تم کیسے ایسی چیز ثابت کرتے ہو جو بالکل معقول ہی نہیں چہ جائے کہ وہ مطلقا تمام اشیاء اور حوادث کے بارے میں معقول بنے۔ اور مطلق تو مقید کی شرح ہے پس جب ایک موجود معین معقول نہیں بنے گا تو مطلق کیسے معقول بن سکتا ہے؟ لیکن ذہن کے اندرتو صرف اس کا ایک فرض اور تقدیر ہو سکتی ہے جس طرح کہ دوسرے ممتنعات کا بھی فرض اور تقدیر ہو سکتی ہے۔ اور اس کی وضاحت یہ ہے کہ کسی شے کا خارج میں ممکن ہونے کا علم اس کے وجود کا علم ہوتا ہے یا اس شے کا وجود ہوتا ہے جس کی بہ نسبت یہ وجود سے زیادہ اولویت اور زیادہ مناسبت رکھتا ہے جس طرح کہ اللہ نے اپنی کتاب میں معاد اور بعث بعد الموت کے امکان کے بحث میں فرمایا ہے لہٰذا ارشاد ہے:
﴿ لَخَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ﴾
(غافر: ۵۷)
’’یقیناً آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا لوگوں کے پیدا کرنے سے زیادہ بڑا (کام) ہے اورلیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
﴿ وَہُوَ الَّذِیْ یَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہُ وَہُوَ أَہْوَنُ عَلَیْہِ ﴾ (روم :۲۷)
’’اور وہی جو خلق کو پہلی بار پیدا کرتا ہے پھراسے دوبارہ پیدا کرے گا اور وہ اس پر زیادہ آسان ہے‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
﴿ أَلَمْ یَکُ نُطْفَۃً مِّن مَّنِیٍّ یُمْنَی o ثُمَّ کَانَ عَلَقَۃً فَخَلَقَ فَسَوَّی oفَجَعَلَ مِنْہُ الزَّوْجَیْْنِ الذَّکَرَ وَالْأُنثَی oأَلَیْْسَ ذَلِکَ بِقَادِرٍ عَلَی أَن یُحْیِیَ الْمَوْتَی ﴾( قیامۃ۳۷ تا ۴۰)
’’کیا انسان گمان کرتا کہ اسے بغیر پوچھے ہی چھوڑ دیا جائے گا؟کیا وہ منی کا ایک قطرہ نہیں تھا جو گرایا جاتا ہے۔ پھر وہ جما ہوا خون بنا، پھر اس نے پیدا کیا، پس درست بنا دیا۔پھر اس نے اس سے دو قسمیں نر اور مادہ بنائیں ۔کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ مردوں کو زندہ کردے؟۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
﴿ أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّ اللَّہَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِہِنَّ بِقَادِرٍ عَلَی أَنْ یُحْیِیَ الْمَوْتَی بَلَی إِنَّہُ عَلَی کُلِّ شَیْْئٍ قَدِیْرٌ ﴾(احقاف:۳۳ )
’’اور کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ بے شک وہ اللہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور وہ ان کے پیدا کرنے سے نہیں تھکا، وہ اس بات پر قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کر دے؟ کیوں نہیں ! یقیناً وہ ہر چیز پر خوب قادر ہے۔‘‘
اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
﴿ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلاً وَنَسِیَ خَلْقَہُ قَالَ مَنْ یُحْیِیْ الْعِظَامَ وَہِیَ رَمِیْمٌ (78) قُلْ یُحْیِیْہَا الَّذِیْ أَنشَأَہَا أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَہُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیْمٌ (79) الَّذِیْ جَعَلَ لَکُم مِّنَ الشَّجَرِ الْأَخْضَرِ نَاراً فَإِذَا أَنتُم مِّنْہُ تُوقِدُونَ(80) أَوَلَیْْسَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَی أَنْ یَخْلُقَ مِثْلَہُم بَلَی وَہُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِیْمُ ﴾ ( یس :۷۸۔۸۰)
’’اور اس نے ہمارے لیے ایک مثال بیان کی اور اپنی پیدائش کو بھول گیا، اس نے کہا کون ہڈیوں کو زندہ کرے گا، جب کہ وہ بوسیدہ ہوں گی؟ کہہ دے انھیں وہ زندہ کرے گا جس نے انھیں پہلی مرتبہ پیدا کیا اور وہ ہر طرح کا پیدا کرنا خوب جاننے والا ہے۔ وہ جس نے تمھارے لیے سبز درخت سے آگ پیدا کر دی، پھر یکایک تم اس سے آگ جلا لیتے ہو۔ اور کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پید اکیا اس پر قادر نہیں کہ ان جیسے اور پیدا کر دے؟ کیوں نہیں اور وہی سب کچھ پیدا کرنے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘
اس کے امثال دیگر وہ آیات جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ مخلوق کو دوبارہ پیدا کرنا اس کے پیدا کرنے کی بہ نسبت اولیٰ بالامکان ہے اور صغیر کو پیدا کرنا بڑی جسامت کے پیدا کرنے کی بہ نسبت اولیٰ بالامکان ہے اور رہا وہ شے جس کے بارے میں یہ بات معلوم نہ ہو کہ وہ ممکن ہے تو جب اسے عقل پر پیش کیا جائے اور اس کی امتناع معلوم نہ ہو تو اس کا صرف امکانِ ذہنی ہوتا ہے اس معنی پر کہ امتناع کا علم نہیں ا ور اس کا امکان خارجی نہیں ہوتا خارج میں علم بالامکان کے معنی پر ،اسی وجہ سے تو اہل نظر میں سے ایک گروہ اس بات کو ذکر کرتی ہے جیسے علامہ آمدی اور اس کے علاوہ دیگر یعنی کہ جب وہ اس بات کا ارادہ کرے کہ کسی شے کے امکان کو اس طور پر پکا کر دے کہ جب اس کے وجود کو فرض کر لیا جائے تو اس سے محال لازم نہ آئے ،یہ ایک محض دعویٰ ہے اور اس کی منتہیٰ(آخری حد) اس پر ہے کہ وہ یہ کہیں کہ ہم اس بات کو نہیں جانتے کہ اس سے محال لازم آتا ہے اور عدمِ علم تو علم بالعدم نہیں اور یہ جب ان لوگوں نے اس بات کا ارادہ کیا کہ وہ مفعول کا اپنے فاعل کے ساتھ لزوم کے امکان کو ثابت کریں تو ضروری ہے کہ وہ اس بات کو جان لیں کہ وہ خارج اس شے کا ثبوت ہے جو اس کی بہ نسبت اولیٰ بالامکان ہے اور یہ دونوں باتیں منتفی ہیں پس صرف اور صرف وہی فاعل معلوم اور موجود قرار پائے گا جو اپنے فعل یا مفعول کو وجود دے اور جس کا مفعول معین اس کے ساتھ مقارن اور لازم نہیں ہوتا بلکہ یہ تو فاعل قادر ہونے کی بہ نسبت اس کے فاعلیت کی نفی اور لازم کی نفی سے عجز کی طرف زیادہ اقرب ہے۔
پس بتحقیق انہوں نے اللہ کے لیے ایک بری مثال پیش کی ہے اور یہ انتہائی درجے کی باطل بات ہے اور ادلِہ الٰہیہ میں تو واجب یہ ہے کہ اس بات کو جانا جائے کہ ہر وہ کمال جو مخلوق کے لیے ثابت ہے تو خالق ذات اس کا زیادہ احق ہے اس لیے کہ مخلوق کا کمال خالق کے کمال سے ہی مستفاد ہے اور ان کی اصطلاح کے مطابق تو معلول کا کمال علت کے کمال سے مستفاد ہے اس لیے کہ واجب تعالیٰ ممکن کی بہ نسبت زیادہ اکمل ہے پس وہ ہر اُس کمال کے ساتھ ممکن سے زیادہ احق ہے جس میں کوئی نقص نہ ہو ۔
یہ بات بھی معلوم ہے کہ ہر وہ نقص جس سے مخلوق منزہ اور پاک ہو تو خالق اس نقص سے پاکی کے ساتھ زیادہ احق ہے اس لیے کہ نقص کمال کے مناقض اور ضد ہے پس جب وہ کمال کے ثبوت کے ساتھ زیادہ احق ہے تو وہ نقص کی نفی کے ساتھ بھی زیادہ احق ہوگا اور یہی قضیہ برہانیہ ہے جو کہ بالکل یقینی اور قطعی ہے اور وہ اس بات کو تسلیم بھی کرتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ فعل (احداث )صفتِ کمال ہے اور اہل کلام میں سے ان لوگوں پر رد کرتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ یہ صفتِ کمال نہیں اور نقص ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ اَفَمَنْ یَّخْلُقُ کَمَنْ لَّا یَخْلُقُ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ﴾( نحل: ۱۷)
’’تو کیا وہ جو پیدا کرتا ہے، اس کی طرح ہے جو پیدا نہیں کرتا؟ پھر کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے۔‘‘
جب حال یہ ہے تو یہ بات عقلی ہے کہ وہ فاعل جو اپنی قدرت اور مشیت سے فعل کرتا ہے وہ اس کی بہ نسبت اکمل ہے جس کا کوئی قدرت اور اراد ہ نہیں ہوتا۔ اور فاعل قادرِ مختار جو کہ کسی شے کوآہستہ آہستہ وجود دیتا ہے۔ یہ اس کی بہ نسبت اکمل ہے جس کے ساتھ اس کا مفعول لازم ہوتا ہے۔ اور وہ کسی شے کے احداث پر قادر ہوتا ہے اور وہ کسی شے کے احداث پر قادر نہیں ہوتا اور نہ ایک حال سے دوسرے حال کی طرف تغییر پر، اس لیے کہ وہ ذات جو اس بات پر قادر ہو کہ وہ مفعولات ِ متعددہ کو پیدا کرے اور ان کو ایک حال سے دوسرے حال میں تبدیل کرنے پر قادر ہووہ اس ذات کی بہ نسبت زیادہ اکمل ہے جو ان صفات کے ساتھ متصف نہ ہو پس وہ کیسے واجب الوجود ذات کوفعلِ ناقص کے ساتھ متصف کرتے ہیں اور انہوں نے جو بات ذکر کی ہے وہ ایک بالکل ممتنع بات ہے اور ایسے طریقے پر کوئی فاعل معقول نہیں جیسے انہوں نے ذکر کیا ہے بلکہ جس نے بھی اپنے اُس لازم کے لیے کسی شے کو فاعل فرض کیا ہے جو اس سے بالکل کسی بھی حال میں جدا نہیں ہوتا تو یہ لوگوں کے نزدیک صریح معقول کے مخالف ہے اور اس کو یہ کہا جائے گا کہ یہ اس کے لیے ایک صفت ہے یا اس کے ساتھ مشارکِ ہے اس کا مفعول نہیں ۔
اگر جمہورعقلاء جو فطرت سلیمہ رکھتے ہیں ان سے یہ کہا جائے کہ اللہ نے آسمانو ں اور زمینیوں کو پیدا فرمایا اور اس کے باوجود ازل سے اس کے ساتھ ہیں تو وہ جواب میں کہیں گے کہ یہ تو پھر اللہ تعالیٰ کا ان کی تخلیق کے منافی ہوا پس اللہ تعالیٰ کا ان کو پیدا کرنا معقول نہیں ہے مگر صرف اس صورت میں کہ وہ ان کو پیدا کرے بعد اس کے کہ وہ موجود نہیں تھے ۔
رہا یہ کہ اگر کہا جائے کہ ازل سے وہ دونوں موجود تھے تو یہ قول باوجود یکہ ان کا مبتدع اور اپنی طرف سے نکالا ہوا قول ہے تو یہ جمع بین النقیضین بھی ہے یعنی مخلوق ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا ازلی ہونا تو یہ لوگوں کی اُن فطرتوں اور عقلوں میں جمع بین المتناقضین ہے جو اپنی اصل فطرت سے متغیر اور تبدیل نہیں ہوئے اسی وجہ سے تو پیغمبروں کا محض یہ خبر دینا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمینوں اور ان کے امثال کو پیدا کر دیا یہ ان کے حدوث کی خبر دینے کے طور پر کافی ہے اور اس کے ان کو اس بات کی ضرورت نہیں کہ وہ یہ کہیں کہ اللہ نے ان کو پیدا کیا عدم کے بعد بلکہ انہوں نے تو ان کے تخلیق کے زمانے کی خبر دے دی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ﴾( یونس :۳ )
’’ آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔‘‘
انسان جب کہ اس بات کو جانتا ہے کہ وہ پیدا کردیا گیا بعد اس کے کہ وہ معدوم تھا تو اس کے ذریعے اس کو یہ بات سمجھا دی گئی کہ وہ استدلال کرے اللہ تعالیٰ کی قدرت پر عدد کے تغییر پر اور اسی وجہ سے تو اللہ تعالیٰ نے یحیٰ علیہ السلام کی تخلیق کے بارے میں فرمایا :
﴿ یَا زَکَرِیَّا إِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامٍ اسْمُہُ یَحْیَی لَمْ نَجْعَل لَّہُ مِن قَبْلُ سَمِیّاً(7) قَالَ رَبِّ أَنَّی یَکُونُ لِیْ غُلَامٌ وَکَانَتِ امْرَأَتِیْ عَاقِراً وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْکِبَرِ عِتِیّاً(8) قَالَ کَذَلِکَ قَالَ رَبُّکَ ہُوَ عَلَیَّ ہَیِّنٌ وَقَدْ خَلَقْتُکَ مِن قَبْلُ وَلَمْ تَکُ شَیْْئاً﴾(مریم:۷،۹)
’’اے زکریا! بے شک ہم تجھے ایک لڑکے کی خوش خبری دیتے ہیں ، جس کا نام یحییٰ ہے، اس سے پہلے ہم نے اس کا کوئی ہم نام نہیں بنایا۔کہا اے میرے رب! میرے لیے لڑکا کیسے ہوگا جب کہ میری بیوی شروع سے بانجھ ہے اور میں تو بڑھاپے کی آخری حد کو پہنچ گیا ہوں ۔کہا ایسے ہی ہے، تیرے رب نے فرمایا ہے یہ میرے لیے آسان ہے اور یقیناً میں نے تجھے اس سے پہلے پیدا کیا جب کہ تو کچھ بھی نہ تھا۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
﴿وَیَقُولُ الْإِنسَانُ أَئِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَیّاً(66) أَوَلَا یَذْکُرُ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاہُ مِن قَبْلُ وَلَمْ یَکُ شَیْْئاً﴾ (مریم:۶۶،۶۷)
’’اور انسان کہتا ہے کیا جب میں مرگیا تو کیا واقعی عنقریب مجھے زندہ کر کے نکالا جائے گا؟اور کیا انسان یاد نہیں کرتا کہ بے شک ہم نے ہی اسے اس سے پہلے پیدا کیا، جب کہ وہ کوئی چیز نہ تھا۔‘‘
پس انسان کو اللہ نے ایک ایسی بات کے ساتھ ذکر فرمایا ہے جس کو وہ جانتا ہے یعنی اس نے اس کو پیدا فرمایا اور وہ کچھ بھی نہ تھا تاکہ وہ اس کے ذریعے اللہ کی اس کے مثل کے تخلیق پر قدرت اور استدلال کرے اوران اشیاء کے تخلیق کے قدرت پر جو اس سے زیادہ اھو ن اور آسان ہیں ۔
۷) ساتواں یہ کہ بے شک یہ لوگ جو ایک علت قدیمہ سے قدمِ عالم کے قائل ہیں اس کے باوجود یہ اس کے بھی قائل ہیں کہ وہ اپنی ذات کے اعتبار سے ممکن ہے اور اس کے لیے کوئی فی نفسہ وجود ثا بت نہیں اور اس کا وجود ایک مبدع(ازسر ون پیدا کرنے والا ) ذات کی طرف سے ہے پس انہوں نے اُس موجود کو جو ازل سے موجود تھا اور واجب بغیرہٖ تھا اس کو اس امرسے موصوف کیا کہ وہ ممکن الوجود ہے انہوں نے اس کے ذریعے اسلاف کے طریقے کی مخالفت کی اور اس طریقے کی مخالفت جس کے تمام کے تمام اولادِآدم قائل ہیں یعنی یہ کہ ممکن صرف اور صرف معدوم ہی ہوتا ہے اور جس چیز کا وجود وعدم دونوں ممکن ہوں وہ معدوم ہی ہوگا اور یہ ارسطو اور قدمائے فلاسفہ کا قول ہے لیکن ابن سینا اور اس کے متبعین اس کے مخالف ہیں اور ابن رشد اور اس کے علاوہ دیگر نے اس بات میں ان کا تعاقب کیا ہے اور انھوں نے فرمایا ہے کہ ممکن تو صرف وہی چیز ہو سکتی ہے جس کا وجود اور عدم دونوں ممکن ہوں پس یہ امر جائز ہے کہ وہ موجود ہو اور یہ بھی کہ وہ معدوم ہو یعنی وہ مستمر العدم ہو اس وجہ سے تو انہوں نے کہا کہ ممکن کے لیے کسی محل کا ہونا ضروری ہے جس طرح کہ یہ کہا کہ یہ امر ممکن ہے کہ عورت کو حمل ٹھہر جائے اور زمین کسی شے کو اگائے اور یہ بات کہ بچہ علم حاصل کرے یعنی سیکھے پس ان مثالوں میں امکان کامحل رحم ہے ،زمین ہے ،اور دل ہے لہٰذایہ ممکن ہے کہ ان تمام محلوں میں یعنی ان تمام مواقع میں وہی شے حادث (پیدا)ہو جائے جس کی ان میں قابلیت ہے یعنی کہ حرث ہے ،اسی طرح نسل ہے اور اسی طرح علم ہے ۔
رہا وہ شے جو ازل سے ہے اور ابد(مستقبل میں غیر متناہی حد)تک رہے گا خواہ بذاتِ خود ہو یا غیر کی وجہ سے ہو توکہ اس کے بارے میں کیسے یہ کہا جاتا ہے کہ اس کے حق وجود اور عدم دونوں ممکن ہیں اور اگر کہا جائے کہ وہ اپنی ذات کے اعتبار سے دونوں امرین کو قبول نہیں کرتا یعنی وجود خارجی اس لیے کہ وجود جو واجب بغیرہی ہو وہ عدم کو قبول ہی نہیں کرتا الا یہ کہ وہ یہ مراد لیں کہ وہ وجود کے بعد عدم کو قبول کرتا ہے اور ایسی صورت میں تو وہ واجب بغیرہی نہیں رہے گا صفت دوام کے ساتھ پس جب بھی اس نے مستقبل میں عدم کو قبول کر لیا یا وہ معدوم تھا تو اب وہ صفت دوام کے ساتھ ازلی ،ابدی اور واجب بغیرہ نہ رہا جس طرح کہ یہ لوگ عالم کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر حالتِ واحدہ میں وجود اور عدم دونوں کو قبول کرنا مراد ہے تو یہ بات ممتنع ہے اور اگردو الگ الگ حالتوں میں ان کو قبول کرنا مراد ہے یعنی وہ کبھی تو وجود کو قبول کرتا ہے اور دوسری حالت میں وہ عدم کو قبول کرتا ہے تو یہ بات ممتنع ہے کہ وہ ازلی اور ابدی بنے بوجہ اس کے کہ اس پر وجود اور عدم متعاقب ہیں یعنی یہ دونوں حالتیں یکے بعد دیگرے اس پر آتے ہیں ۔
اگر یہ مراد لیا جائے کہ اس کی وہ ذات جو وجود اور عدم کو قبول کرتی ہے وہ ایک ایسی شے ہے جو وجودِ خارجی کے غیر ہے تو وہ اس کی ذات نہیں اور اگر کہا جائے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ نفس جس چیز کا تصور کرتا ہے اس کے بارے میں یہ بات ممکن ہے کہ وہ خارج میں موجود اور معدوم دونوں ہوں جس طرح کہ انسان اپنی ذات کے بارے میں بہت سے امورِ متضادہ کا تصور کر سکتا ہے ۔
تو جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات بھی تو اس کو واضح کرتی ہے کہ امکان عدم کو مستلزم ہے اس لیے کہ جو بات تم نے ذکر کی ہے وہ ایک ایسی شے کے بارے میں ہے جس کا فاعل اپنی نفس میں تصور کرتا ہے اور اس کے بارے میں یہ بات ممکن ہوتی ہے کہ وہ خارج میں موجود ہو اور یہ بھی کہ وہ معدوم رہے اور یہ ان امور میں معقول ہے جن پر وجود اور عدم دونوں حالتیں آسکتی ہیں لیکن رہی وہ ذات جو ازل سے موجود ہے اور واجب بغیرہ ہے تو اس کے حق میں ان دونوں امور کا امکان بالکل معقول ہی نہیں ۔
اگر کوئی کہنے والا یہ کہے کہ اس کی ذات وجود اور عدم دونوں کو قبول کرتی ہے تو یہ (قائل)ایک ایسی بات کہنے والا ہے جو معقول نہیں اور یہ ایک ایسا مقام ہے جس کو اہل نظر میں سے عقل مند اورہوشیار لوگوں نے بھانپ لیا ہے پس ان لوگوں میں سے بعض وہ ہیں جنہوں نے اس کے بارے میں ابن سینا اور اس کے اتباع (پیروکار )پر نکیر کی ہے جس طرح کہ ابن رشد نے اس کا انکار کیا ہے اور ان میں سے وہ بھی ہیں جس نے ان سوالات کو ممکن پر وارد کر دیا ہے جس طرح کہ امام رازی اور اس کے متبعین نے کیا ہے اور انھوں نے کوئی صحیح جواب نہیں دیا اور اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے اس بات کے جائز قرار دینے میں ابن سینا کی اتباع کی ہے یعنی یہ کہ ایک شے ممکن بنفسہ ہواور اس کے باوجود واجب بغیرہ ، دائم ،ازلی اور ابدی ہو بھی ۔بلکہ یہ تو باطل ہے جس طرح کہ اہل ملل اور فلاسفہ اور تمام جمہور اس پر قائم ہیں اور مسلمان اہل نظر کی بھی رائے ہے اور فلاسفہ کے آئمہ یعنی ارسطو اوراس کے اتباع بھی اس پر قائم ہیں کہ ممکن اُن کے نزدیک صرف وہی ہوتا ہے جو کبھی معدوم اور کبھی موجود ہوتا ہے یعنی یکے بعد دیگرے دونوں الگ الگ حالتوں میں پایا جاتا ہے پس امکان اور عدم یہ دونوں لازم وملزوم ہیں اور جب اللہ کے ماسوا کوئی بھی شے موجود بنفسہ نہیں بلکہ وہ ممکن ہے اور اس کے حق میں یہ امرواجب اور ضروری ہے کہ وہ بعض احوال میں معدوم ہو۔
یہ اس لئے ضروری ہے کہ اس کا امکان کے ساتھ موصوف ہونا درست اور صحیح ہو اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے ماسوا تمام کے تمام موجودات کے حادث ہونے اور موجود بعد العدم ہونے کے بارے میں یہ ایک مستقل برہان ہے اور اور بے شک حق سبحانہ وتعالیٰ ہر شے کووجود دیا بعد اس کے کہ کوئی شے بھی موجود نہیں تھا پس اللہ تعالیٰ کی ذات ہی صفتِ بقا اور قدم کے ساتھ متفرد اور یکتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے ماسوا تمام موجودات کے ساتھ عدم کے بعد حدوث لازم قرار دیا ہے ۔ اس کی توضیح یوں ہے یا تو یہ کہ یہ کہا جائے گا کہ خارج میں ہر شے کا وجود اس کی عینِ ماہیت ہے جس طرح کہ اہلِ سنت میں سے اُن اہلِ نظر کا یہ قول ہے جو یہ کہتے ہیں کہ معدوم خارج میں اصلاً کوئی شے ہی نہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ خارج میں موجودات کے لیے ماہیات ثابت نہیں ہیں سوائے اس کے کہ جو خارج میں موجود ہوں یعنی سوائے موجودِ خارجی کے پس یہ لوگ ان لوگوں کے مخالف ہیں جو اس بات کے قائل ہیں کہ معدوم بھی کوئی شے ہے ۔یہ معتزلہ اور دیگر کا قول ہے ۔
وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ہر شے کا وجود جو کہ خارج میں ثابت ہے وہ اس کی ماہیت اور اس کی حقیقتِ ثابتہ فی الخارج کے مغایر ہوتی ہے جس طرح فلاسفہ میں سے بعض کا قول ہے یا یہ کہ یہ کہا جائے گا کہ خارج میں کسی شے کا وجود اس کی ماہیت کے پر زائد اور اس کے علاوہ ہے ۔
پس اگر پہلاقول اختیار کیا جائے پھر خارج میں عالم کے لیے کوئی ذات ثابت نہیں ہوگا سوائے اس کے وجودِ خارجی کے تاکہ یہ کہا جائے کہ وہ وجود اور عدم دونوں کو قبول کرتا ہے ۔
اگر دووسرا قول اختیار کیا جائے تو اگر یہ بات فرض کر لی جائے کہ وہ ازل سے موجود تھا تو پھر اس کی ذات کے لیے کوئی ایسا حال ثابت نہیں ہوگا جو وجود اور عدم دونوں کو قبول کرتا ہو بلکہ وہ تو ازل سے متصف بالوجود تھا پس کسی قائل کا یہ کہنا کہ ممکن ہی وہ شے ہے جو وجود اور عدم دونو ں کو قبول کرتا ہو اس کے ساتھ وہ اس کابھی قائل ہے کہ وہ ازل سے موجود ہے تو وہ دو منتاقضین کے درمیان جمع کرنے کا مرتکب ہے ۔
اگر یہ کہا جائے کہ وہ اپنی ذات کے اعتبار سے تو ممکن ہے تو تب بھی یہ قول تناقض پر مشتمل ہے خواہ وہ اس کی ذات سے وجودِ خارجی مراد لے یا کوئی ایسی شے مراد جو خارج میں وجو دقبول کرتی ہو اس لیے کہ جب وہ ازل ہی سے موجود ہے اور ا سکا وجود واجب ہے تو وہ اصلاً عدم کو قبول کرنے والا ہی نہیں اور اس کا عدم بالکل ممکن ہی نہیں رہا اور کسی قائل کا یہ کہنا کہ وہ اپنی ذات کے اعتبار سے غیر موجود ہے اس کے ساتھ وہ اس کا بھی قائل ہے کہ وہ ازل سے بھی موجود ہے تو اس کا معنی یہ ہوا کہ اس کی ذات تو ازل سے موجود ہے ،واجب بالغیر ہے اور اس کا عدم ممتنع ہے اور وہ اپنی ذات کے اعتبار سے وجود اور عدم دونوں کو قبول کرتا ہے اور اسمیں یہ دونوں باتیں ممکن ہیں اور ممکن پر کلام کے مقام پراس امرکو پوری تفصیل کے ساتھ تفصیلاً بیان کیا گیا ہے جس طرح کہ انھوں نے بھی اس کو اپنی جگہ تفصیلاً بیان کیا ہے ۔
اس بات کی وضاحت یوں ہے کہ ممکن وہی شے ہوتی ہے جو کہ محتاج ہو اور وہ بذاتِ خود موجود نہ ہو بلکہ کوئی غیر ہی اس کو وجود دیتا ہو پس یہ ضروری ہے کہ وہاں کوئی ایسا شے ہو جس کو فقر یعنی احتیاج اور امکان کے ساتھ موصوف کیا جا سکے اس طرح عدم کی قبولیت کے ساتھ اور اس کے بعد پھر اس کو غنا یعنی بے نیازی اور وجود کے ساتھ موصوف کیا جاسکے ۔رہی وہ ذات جو ازل ہی سے موجود بھی ہے اور غنی یعنی بے نیاز بھی ہے تو اس کو فقر یعنی احتیاج اور امکان کے ساتھ کیسے موصوف کیا جا سکتاہے اس لیے کہ یقیناً اگر اس پراحتیاج اور فقر کا حکم لگایا جائے اور ایک موجود غنی پر عدم کی قبولیت کا حکم لگایا جائے تو یہ اس کی ذات پرممتنع ہو گا جس طرح ماقبل میں گزرا جب کہ وہ عدم کو بالکل قبول ہی نہیں کرتا ۔
اگر فقر اور امکان کا حکم لگایا جائے اور ساتھ ساتھ وجود ذہنی کے اعتبار سے عدم کی قبولیت کا بھی حکم لگایا جائے اس معنی پر کہ وجود خارجی میں تو فاعل کی طرف محتاج ہے تو یہ ہمارے قول کے مغایر ہے یعنی یہ ضروری ہے کہ وہ معدوم ہو اور اس کے بعد وہ موجود بنے اور اگر یہ کہا جائے کہ اس کا فاعل فی نفسہ اس کا تصور کرتا ہے ساتھ اس کے فعل کے دوام کے اور ممکن تو وہی ہے جس کانفس میں تصور ہو سکتا ہے تو کہا جائے گا کہ نفس میں جس شے کا تصور ہوتا ہے وہ تو اس کی وجہ سے واجب ہے اور عدم کو قبول نہیں کرتا اور جو شے خارج میں ہے تو وہ خارج کی وجہ سے واجب ہے اور وہ عدم کو قبول نہیں کرتا پس وجود اور عدم دونوں کوقبول کرنے والا کہاں گیا ۔
اگر کہا جائے کہ نفس میں جس شے کا تصور ہوتا ہے وہ تو وجود اور عدم دونوں کو خارج میں بھی قبول کرتا ہے تو جواب میں کہا جائے گا کہ یہ امرممتنع ہے ساتھ اس کے کہ خارج میں اس کے لیے ایک ایسے وجود کو تسلیم کیا جائے جو واجب بھی ہو اور دائم بھی ہو بلکہ یہ تو اُن اشیاء میں معقول ہے جو کبھی معدوم ہوتے ہیں اور کبھی موجود ۔
پس جب یہ بات مسلم ہے کہ اللہ کے ماسوا تمام موجودات ممکن اور محتاج ہیں تویہ بھی لازم آیا کہ وہ کبھی موجود ہو اور کبھی معدوم ہوں اور یہ دلیل لوگوں کی فطرتوں میں جاگزین ہو چکی ہے پس ہر وہ شخص جو اشیاء میں کسی شے کا تصور کرتا ہے اس حال میں کہ وہ اللہ کی طرف محتاج اور فقر ہو اور وہ موجود بنفسہ نہ ہو بلکہ اس کا وجود اللہ کی وجہ سے ہو تو اسے اس بات کا تصور بھی آتا ہے کہ وہ مخلوق ہے اور موجود ہوا بعد اس کے کہ وہ معدو م تھا ۔
رہا یہ کہ یہ کہا جائے کہ وہ محتاج ہے وہ مصنوع ہے اور وہ دائم ہے اس کی ذات کے ساتھ اور وہ کسی عدم سے حادث نہیں ہوا تو یہ بات بھی معقول نہیں اور اس کا تصور تو صرف اور صرف ممتنعات جیسا ہو سکتا یعنی ذہن میں ایک ایسی بات فرض کر لی جائے جس کا خارج میں کوئی تحقق نہ ہو اس لیے کہ خارج میں تو اس کا تصور ممتنع ہے اور اس وجہ سے اگر یہ کہا جائے کہ مؤثر کی طرف تام بنانے والاوہ صفت امکان ہے اور صفتِ حدوث ہے تو ان دونوں قولین میں کوئی منافات نہیں رہے گا اس لے کہ ہر ممکن حادث ہے اور ہر حادث ممکن ہے پس یہ دونوں آپس میں متلازم ہے اسی وجہ سے تو دونوں قولوں کو اس شخص نے جمع کر دیا جس نے یہ کہا کہ مؤثر کی طرف محتاج بنانے والا امکان اور حدوث دونوں ہیں پس تینوں اقوال نفس الامر میں صحیح ہیں ،اختلاف تو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی اس امرکاگمان کرے کہ کوئی شے غیر حادث کے ہونے کے باجود ممکن بھی ہو سکتا ہے ۔
یہ تفصیل جو کہ عالم کے قدم کے امتناع کے بارے میں اور اس کی ذات کے علتِ قدیمہ ازلیہ ہونے کے امتناع کے بارے میں بیان کی گئی تو یہ بالکل صحیح ہے خواہ یہ کہا جائے کہ وہ ایک ارادہ ازلیہ کے ساتھ ارادہ کرنے والے ہیں جو کہ اپنی مراد کے اتصال کو مستلزم ہے یا یہ کہا جائے کہ وہ بالکل اصلاً ارادہ ہی کرنے والا نہیں خواہ یہ کہا جائے کہ وہ فلک کے لیے بشمول اس کی حرکت کے علت ہے یا وہ بغیر حرکت کے صرف فلک کے لیے علت ہے اور اسی طرح کاقول ہر اس شے میں ہے کہ جو اللہ کی ذات کے ساتھ قدیم فرض کر لی جائے اس لیے کہ یہ بات ضروری ہے کہ وہ حوادث میں سے کسی شے کے ساتھ مقارن ہو یا ممکن ہو اور دونوں تقدیروں پر یہ بات ممتنع ہے کہ وہ اللہ کی ذات کے ساتھ قدیم بنے اس لیے کہ قدیم تو صرف ایک ایسے موجب (بکسر الجیم)تام ذات سے حاصل ہو سکتا ہے جو اپنے موجب (بفتح الجیم ) کو مستلزم ہو اور ازل میں اس کا ثبوت اس امرکا تقاضا کرتا ہے کہ اس سے کوئی بھی شے حادث نہ ہو اور حوادث تو صرف اسی ذات صادر ہوتے پس وہ موجب ازلی نہیں الا یہ کہ اس سے کوئی شے حادث اور پیدا ہو جائے لیکن عالم کے فاعل کے بارے میں یہ امرممتنع ہے کہ اس سے کوئی بھی شے حادث نہ ہو لہٰذایہ بات بھی ممتنع ہوئی کہ وہ ازل میں موجب بالذات ہو ۔