Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

اللہ تعالیٰ کے ارادے کے بارے میں مختلف اقوال

  امام ابنِ تیمیہؒ

اللہ تعالیٰ کے ارادے کے بارے میں مختلف اقوال

جب یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ ایک ارادۂ ازلیہ کے ساتھ ارادہ کرنے والے ہیں جو اس مراد کے ساتھ مقارن اور متصل ہے جس کو عالم کہا جاتا ہے یا اپنی اُس مراد سے متاخر ہے جو حوادث ہیں ۔ تو یہ قول بھی ایسے ہی ہوا اس لیے کہ جب اس کے لیے صرف ارادۂ ازلیہ جو کہ مراد کے متصل ہے وہ ثابت ہے؛ تو یہ ممتنع ہوا کہ اس سے حوادث پیدا ہوں ۔لیکن یہ امرممتنع ہے کہ اس سے حوادث پیدا نہ ہوں ۔ پس یہ ممتنع ہوا کہ اس کے لیے صرف اور صرف ایک ارادہ ازلیہ ہو جو کہ مراد کے متصل ہو ساتھ اس کے کہ ایسے مفعولات کا ارادہ کرنا جو فاعل کے ساتھ لازم ہوں ، یہ غیر معقول امرہے بلکہ فاعل جواپنے ارادے کے ساتھ فاعل ہوتا ہے اس کے حق میں تو یہ امرمعقول ہے کہ وہ ایک شے کو دوسرے کے بعد وجود دے ،اسی وجہ سے کوئی بھی اس امرکا قائل نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی مشیت اور قدرت سے متکلم ہیں اور یہ کہ وہ کلام جو اس کا مقدورِ معین ہے وہ قدیم ہے اور اس کی ذات کیساتھ لازم ہے پس جب اس مقدور میں یہ امرمعقول نہیں جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے تو پھر ایسی چیز کے بارے میں کیسے یہ معقول ہوگا جو اس کی ذات سے مبائن اور منفصل ہے ۔

اگر کہا جائے کہ اس کے لیے ایساارادۂ ازلیہ ثابت ہے جو اس کی مراد کے مقارن ہے اور ایک دوسرا ارادہ بھی ثابت ہے جو حوادث کے ساتھ حادث ہے ؟

تو جواب میں کہا جائے گا کہ اگر اس ارادہ حادثہ کا وجود اُس رادہ ازلیہ کی وجہ سے ہے جس کا مراد کے ساتھ مقارنت اور اتصال ضروری ہے تو یہ امربھی ممتع ہے اس لیے کہ جب ارادۂ ثانیہ تو حادث ہے تو ممتنع ہے کہ وہ اس ارادہ قدیمہ کے مقارن ہو جو اپنی مراد کے متصل ہے اور اگر وہ اس ارادے کے بغیر ہو تو پھر حوادث کا حدوث بغیر ارادے کے لازم آئے گا اور یہ تو اس کے ارداے کے بغیر حوادث کے حدوث اور پیدا ہونے کا تقاضا کرتا ہے پس وہ فاعل مختار نہیں بنے گا کیونکہ ارادہ حادثہ اگر اس کا فعل ہے تو بتحقیق وہ بغیر ارادے کے حادث ہوا ہے اور اگر وہ اس کا فعل نہیں اور پھر بھی وہ پیدا ہوا ہے تو حادث ہے بغیر اس کے فعل کے اور یہ ممتنع ہے اور یہ ایک ایسی بات ہے کہ اس کے بارے میں تمام لوگوں نے جمہور نے معتزلہ بصرئین اور معتزلہ پر نکیر کی ہے پس ان کے اس قول میں کہ اللہ کا ارادہ حادث ہے بغیر ایک دوسرے ارادے کے اور یہ کہ اللہ کا ارادہ بغیر کسی محل کے قائم ہے ۔

اگر کہا جائے کہ بلکہ ازل سے اس کی ذات کے ساتھ حوادث کو وجود دینے والے ارادے قائم ہیں جس طرح کہ یہ بات وہ لوگ کرتے ہیں جو محدثین میں سے ہیں اور وہ فلاسفہ جو یہ کہتے ہیں کہ وہ ازل سے متکلم ہیں جب چاہیں اور وہ ازل ہی سے ان تمام اشیاء کوپیدا کرنے والے ہیں جن کے وجود کو وہ چاہیں تو کہا جائے گا کہ اس تقدیر پر تو پھرکسی مفعولِ قدیم کے لیے کوئی ایسا ارادہ قدیمہ نہیں پایا گیا اور اگر کہا جائے کہ اس میں یہ بات اور یہ دوسری بات یہ دونوں جمع ہیں تو کہا جائے گا کہ یہ تو ممتنع ہے کیونکہ فاعل کے کسی مفعولِ معین کا بالخصوص فاعل مختار کا اس کے ساتھ ملازم ہونا یہ ممتنع ہے اور مفعول بالارادہ ہونے کی جہت سے تو ضروری ہے کہ وہ ارادہ اس پر مقدم ہو اور یہ کہ وہ ثابت ہو یہاں تک کہ وہ وجود میں آجائے یعنی اس کے مفعول کے وجود تک وہ ارادہ ثابت رہے بلکہ ایسا تو ہر مفعول میں مسلم ہے اور اس جہت سے کہ اس کی ذات کے ساتھ جو یکے بعد دیگر ارادے قائم ہیں تو ان کے مرادات بھی یکے بعد دیگرے وجود میں آنے والے ہیں اور اسی طرح اس کے وہ تمام افعال جو اس کی ذات کیساتھ قائم ہیں اور وہ سارے کے سارے ارادات اس کی ذات کے لوازم میں سے ہیں تو پھر یہ ممکن نہیں کہ وہ ایک ارادہ قدیمہ کے مراد کے لے مرید بنے کیونکہ اگر وہ اپنے مراد کے لیے ملزوم ہیں تو یہ اس کو مستلزم ہے کہ ازل میں کوئی حادث معین پایا جائے اور اس کا مراد اس سے متاخر ہو تو پھران مراد کے حصول میں وہ ارادہ ہی کافی ہے جو متاخر ہے پس وہاں پرکوئی ایسا مقتضی نہیں پایا گیا جو اس کے وجود کو چاہتا ہو پس وہ موجود نہیں ہونگے کیونکہ حادث تو تب موجود ہوتا ہے جب اس کا کوئی مقتضی تام پایاجائے ۔

لہٰذا یہ فرض کر لیا جائے کہ فاعل دھیرے دھیرے ارادہ کرتا ہے اور وہ فعل کو بھی یکے بعد دیگر وجود دیتا ہے تو یہ بات لازم آئی کہ یہ اس کے ذات کے لوازم میں سے ہو پس اس کی ذات ہی شیئاً فشیئاًافعال کے حدوث کا تقاضا کرنے والی ہو پس اس کی مفعولات بھی بطریق اولیٰ دھیرے دھیرے وجود میں آئیں گے اور جب صورتِ حال اس طرح ہے تو اس کی ذات ہی ان تمام افعال اور مفعولات کے حدوث کا تقاضا کرنے والی ٹھہری اور جب اس کی ذات ہی اس کا تقاضا کرنے والی ہے تو اس کو تسلیم کرنے کے ساتھ یہ امرممتنع ہے کہ وہ کسی فعل یا مفعول کے قدم کا تقاضا کرتی ہو باجود یکہ ان دونوں کا ایک ارادہ اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور وہ ان دونوں کو مستلزم بھی ہے اس لیے کہ اس کی ذات تو دو امرین متناقضین کا مقتضی ہوئی کیونکہ فعل اور مفعول کے افراد کے حدوث کا تقاضا کرنا اور اس کی نوع کا قدم کا تقاضا کرنا یہ دونوں مناقض ہیں بوجہ اس کے کہ وہ عین فعل اور مفعول کے قدم کا تقاضا کرتے ہیں ۔

اگر یہ بات فرض کر لی جائے کہ یہ مفعول ان مفعولات کے غیر ہیں یعنی اس کے مغایر ہیں پس یقیناً یہ اس کے لیے ملزوم ہے اور اس کے بغیر وہ وجود میں نہیں آتا اور وہ نہیں موجود ہوتا مگر اس کی وجہ سے پس یہ دونوں آپس میں لازم و ملزوم ہیں اب اگر مفعولات آپس میں متلازم ہیں توان کے افعال اور ارادے بھی بطریق اولیٰ متلازم ہیں پس قدمائے ثلاثہ یعنی ارادہ معینہ ، اس کا فعل اور اس کے مفعولات یہ تینوں حوادث کے لیے ملزوم بنیں ۔ ایسے کہ اس کے لیے کوئی انتہاء ہی نہیں اور ایسی صورت میں تو اس کی ذات کسی مفعولِ معین کے فعل میں علت تامہ ازلیہ اور موجب بن گئی اور باقی حوادث میں وہ علتِ ازلیہ نہیں جو کہ اس کی فاعلیت کو پیدا کرتی ہے اور دھیرے دھیرے اس کے وجود کو اس کی تمام تک پہنچاتی ہے اور اس کی ذات تو انتہائی درجے کے کمال کے ساتھ موصوف ہے پس اگر اس طرح ہے اگر اس کا کمال اِ س بات میں ہے کہ جو شے اس کے اندر بالقوۃ ہے وہ بالفعل بھی ہو بغیر اس بات کے امکان کے اعتبار کرنے کے اور نہ اس بات کے کہ حوادث کا دوام اس کے بالکل حادث نہ ہونے سے اکمل ہے جس طرح کہ یہ فلاسفہ کہتے ہیں تو یہ بات ضروری ہے کہ اس سے پھر کوئی شے حادث نہ ہو اور وجود میں بھی کوئی شے حادث نہ ہو ۔

اگر اس کا کمال اس میں ہے کہ وہ کسی شے کو بھی پیدا نہ کرے دوسری شے کے بعد اس لیے کہ یہ اس بات سے اکمل ہے کہ اس کے لیے اشیاء کا یکے بعد دیگرے احداث ممکن نہ رہے اس لیے کہ فعل صفت کمال ہے اور فعل تو صرف اسی طریقے پر معقول ہے یعنی دھیرے دھیرے وجود میں آتا ہے اس لیے کہ حوادث کا حدوث تو دائما وہ اکمل ہوتا ہے اس بات سے کہ وہ حادث نہ ہوں اور دوسری بات یہ ہے کہ بے شک جو شے بالقوۃ ہے وہ جنسِ فعل ہے اور یہ تو دائماًبالفعل ہے اور رہا تمام مفعولات کا یا مفعولات میں سے کسی شے معین کا ازلی ہونا تو بالقوۃ نہیں پس یہ بات بھی ممتنع ہوا کہ وہ بالفعل ہو۔ پس کسی مفعولِ معین کا اس کی ذات کے ساتھ مقارنت اور اتصال میں کوئی کمال نہ ٹھہرا خواہ وہ ممتنع ہو یا وہ ایسا نقص سمجھا جائے جو اس کی اس کمال کے منافی ہو جو اس کے ساتھ واجب ہے خاص طور پر اس وجہ سے بھی کہ یہ بات معلوم ہے کہ مفعولات میں سے کسی نوع کا دھیرے دھیرے پیدا ہونا اس بات سے زیادہ اکمل ہے کہ وہ فاعل کے ساتھ ازل سے ملی ہوئی ہو۔ پس دونوں صورتوں میں اس کی ذات سے اس کی نفی واجب ٹھہری پس اس کی ذات کے ساتھ کوئی بھی مفعول مقارن ثابت نہ ہوا لہٰذا عالم میں کوئی بھی شے قدیم ثابت نہیں ہوئی اور یہی تو مطلوب ہے ۔

یہ ایک مستقل برہان ہے جو اس قاعدے سے لیا گیا ہے جس کی بنیاد اس پر ہے کہ اللہ کی ذات کے لیے صفتِ کمال واجب ہے اور صفتِ نقص اور عیب سے اللہ کا تنزہ اور تقدیس بھی واجب ہے اور اس کی مزید وضاحت یہ ہے کہ یہ امربداہۃً معلوم ہے کہ ایک مفعول کو دوسرے مفعول کے بعد پیدا کرنا جب کہ یہ سلسلہ غیر متناہی حد تک جاری رہے ،اِس کی بہ نسبت زیادہ اکمل ہے کہ وہ کسی ایسے مفعول کو وجود دے جو اس کی ذات کے ساتھ لازم ہو بشرطیکہ اس کو ممکن فرض کر لیا جائے اور جب یہ بات اکمل ٹھہری تو پس وہ ممکن ہی ٹھہرا کیونکہ مفروض تویہ ہے کہ اس کی ذات کے لیے یہ بات ممکن ہے کہ وہ دھیرے دھیرے افعال کو وجود دے بلکہ یہ اس کی ذات کے لیے واجب ہے اور جب یہ ممکن ہے بلکہ اس کے لیے واجب ہے تو اس کا اس کے ساتھ اتصال واجب ہوا نہ کہ اس کے اس نقیض کا جو اس سے زیادہ انقص ہے ۔

اس میں کسی فعل سے یعنی احداث سے تعطیل ثابت نہیں ہوتا بلکہ یہ تو اکمل طریقے پرفعل کے ساتھ اتصال ہے اور اس کا بیان یہ ہے کہ فعلِ معین اور مفعولِ معین جو اس کی ذات کے ساتھ ازلاً و ابداً مقارن ہے ،وہ دوحال سے خالی نہیں (۱)یا تو وہ ممکن ہوگا (۲)یا وہ ممتنع ہوگا

اگر وہ ممتنع ہے تو پھر تو عالم میں سے کسی بھی شے کا قدم ممتنع ہوا اور یہی ہمارا مطلوب ہے اور اگر اسے ممکن فرض کر لیا جائے تو وہ پھر دو حال سے خالی نہیں یا تو یہ کہ وہ اکمل ہوگا یا نہیں ہوگا اگر وہی اکمل ہے تو یہ بات ضروری ہوئی کہ کوئی بھی شے حادث نہ ہو اور ایسے وقت میں اس کا احداث اکمل سے عدول ہوگا اور یہ محال ہے اور اگر وہ اکمل نہیں ہے تو پھر اس کی نقیض اکمل ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک شے کو دوسرے شے کے بعد پیدا کرنا پس افعال میں سے کوئی شے بھی قدیم نہیں ٹھہرے گی ۔

اس پر صرف ایک ایسا سوال وارد ہوتا ہے جو کہ معلوم الفساد ہے اور وہ یہ کہ فلک کے بارے میں تویہ بات ممکن نہیں کہ اس کا وجود متاخر ہو اور نہ حوادث کے بارے میں یہ بات ممکن ہے کہ ان میں سے کوئی شے قدیم ٹھہرے ،اگر تمہاری مراد یہ ہے کہ یہ اپنی ذات کے اعتبار سے ممتنع ہے تو یہ تو مکابرہ ہے اس لیے کہ حال یہ ہے کہ اگر فلک سے پہلے کوئی اور فلک فرض کر لیا جائے اور اس سے پہلے بھی کوئی اورفلک فرض کر لیا جائے تو اس کا امتناع فلک کے دوام کے امتناع سے زیادہ بڑا نہیں بلکہ جب نوع میں کوئی فردِ واحد کا دوام ممکن ہوتا ہے تونوع کا بطریقِ اولیٰ ممکن ہوتا ہے اسی وجہ سے یہ بات معقول نہیں کہ بشر میں سے کوئی ایک فرد تو قدیمِ ازلی ہو؛ ساتھ اس نوع کے قدم کے ۔

اگر تم نے یہ بات فرض کر لی ہے کہ یہ ایک ایسے امر کی وجہ سے ممتنع ہے جو اس کی ذات کے علاوہ کسی غیر کی طرف راجع ہے اس وجہ سے کہ اس کا ضد اور اس کا مناقض پایا جاتا ہے یا یہ کہ فاعل کی حکمت کے انتفاء کی وجہ سے یا اس کے مثل کوئی اور وجہ تو ہر ایسا امر جو مفعول کے نوع کے قدم کے منافی ہو وہ اس کے عین کے قدم کے بطریقِ اشد اور اولیٰ منافی ہے اور جب اس کے عین کا قدم جائز اور ممکن ہے تو افرادکے حدوث کی بہ نسبت نوع کا قدم نسبتاً زیادہ ممکن ہے ۔

اگر یہ دوسرا ممتنع ہے تو پہلا امتناع کے اعتبار سے زیادہ اشد اور اولیٰ ہے اور ہر ایسی شے جو مفعولات کے بعض ایسے افراد کے حدوث کو ثا بت کرے جن کا قدم ممکن ہے تو وہ بھی اس کے نظیر کے حدوث کے لیے موجب ہے اور فرض کر لیں کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ حرکت اپنی ذات کے اعتبار سے بقا ء کو قبول نہیں کرتی لیکن حوادث تو بہت سے جواہرِکثیرہ ہیں جو دھیرے دھیرے وجود میں آنے والے ہیں پس عناصرِ اربعہ کے بارے میں اگر یہ بات ممکن ہے کہ وہ اعیان اپنی ذات کے اعتبار سے قدیم ہوں تو پھر ان کی صورت کو قدیم ماننا بھی ممکن ہوا پس اس کا ایک حال سے دوسرے حال کی طرف بدلنا بھی جائز نہیں ٹھہرے گا حالانکہ یہ مشاہدہ کے خلاف ہے یعنی ہم دیکھتے ہیں کہ اعیان (اجسام )ایک صورت سے دوسری صورت کی طرف منتقل ہوتے جیسے بچے کی صورت شیخ (بوڑھے) کی صورت کے خلاف ہوتی ہے اور اگر ان کے اعیان کا قدم ممکن نہیں تو پھر مطلوب حاصل ہوا ۔

اگر یہ کہا جائے کہ ان کے استحالہ کا یعنی ایک شکل سے دوسرے شکل کی طرف تبدیل ہونے کی طرف موجب تو افلا ک کی حرکت ہے تو جوا ب میں کہا جائے گا کہ یہ بات تو اضطراری اور بدیہی طور پر معلوم ہے کہ افلاک کے تحرک کا امکان عناصر کا ایک شکل کا دوسرے شکل کی طرف تبدیل ہونے سے کم درجے کا ہے جس طرح کہ فلک ِ اعلیٰ کا تحرک نسبتا زیادہ ممکن ہے دوسرے کے استحالہ کی بہ نسبت اور فلکِ ثانی کے استحالے کو فرض کرنا اور ثالث کے استحالے کو فرض کرنا اور ان دونوں کے بقا کو فرض کرنا عناصر کے ایک شکل سے دوسرے شکل کی طرف استحالہ اور ان کے بقا ء کو فرض کرنے کی طرح ہے ۔

یہ ممکن نہیں کہ یہ کہا جائے کہ یہ اپنی ذات کے اعتبار سے ممکن ہے نہ کہ دوسرا، پس معلوم ہو گیا کہ یہ ایک ایسے امر خارج کی طرف راجع ہے جو ان مفعولات کے ساتھ متعلق ہیں جو فاعل کی مشیت اور حکمت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور اس بات میں کوئی شک نہیں اس لیے کہ یقیناً ہم اس بات میں کوئی نزاع اور اختلاف نہیں کرتے کہ کسی شے کا فعل اس کے لوازم کے فعل کو ثابت کرتا ہے اور اس کے اضداد کے وجود کے منافی ہوتا ہے اور یہ بات بھی کہ کسی شے کے فعل سے حکمت مطلوبہ کئی امور ہو سکتے ہیں :کبھی اس کے دواعی اورکبھی اس کے موانع ہوتے ہیں ،کبھی اس کے کچھ شروط ہوتے ہیں پس وہ خالق ذات جس کی حکمت نے حیوانات اور نباتات اور معادن کے انواع کے احداث کا تقاضا اور ارادہ کیا تو اس نے اس بات کا بھی ارادہ کیا کہ ان کے مواد کو ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منقل کیا جائے لیکن مقصود تو یہ ہے کہ دونوں جسموں میں سے کسی ایک جسم کے لیے بھی ایسی حقیقت ثابت نہیں جو اپنی ذات کے اعتبا رسے قدم کے ساتھ اس کے اختصاص کا تقاضا کرے( دو سرے کو چھوڑ کر یعنی اس پر ترجیح کی کوئی وجہ نہیں )

خاص طور پر اس وجہ سے بھی کہ خارج میں تو صرف کسی موجودِ ثابت کی حقیقت مسلّم ہوتی پس اس کی حقیقت کی وجود سے پہلے اس کی حقیقت (وجود نفس الامری )کے لیے کوئی داعی اور موجب ثابت نہ ہوا لیکن باری تعالیٰ تو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان امور کوجن کے فعل کا وہ ارادہ کرتے ہیں پس اس کا فعل اور اس کا ارادہ وہی امر ہے جو اختصاص کو ثابت کرتا ہے پس بتحقیق یہ بات اچھی طرح واضح ہو گئی کہ جب فاعل کے ساتھ کسی مفعولِ معین کی مقارنت ازلاً یا ابداً ممتنع ٹھہرے یا یہ نقص ٹھہرا پس عالم میں سے کسی شے کا قدم بھی ممتنع ہوا ،لہٰذاکیا حال ہوگا جب ان دونوں میں سے ہر ایک ثابت ہو حالانکہ وہ ممتنع ہو اور اس کے امکان کے فرض کرنے کی صورت میں اس کے ذات میں نقص لازم آتا ہے ؟ ،اس لیے کہ اس کی نوع کا قدم اس کے عین کے قدم سے زیادہ اکمل ہے اور وہ امکان کا زیادہ احتمال رکھتا ہے یعنی امکان کے ساتھ اس کی زیادہ اولویت اور اختصاص ہے پس جب صفت امکان کے ساتھ اولیٰ چیز جو کہ اکمل ہے اس کے بارے میں یہ بات ممتنع ہے کہ اس کی نقیض ممکن بنے اور جب یہ بات ممتنع ہوئی تو عالم میں سے کسی شے کا قدم بھی ممتنع ٹھہرا اور اس تقدیر پر وہ تما م امور جو وہ ذکر کرتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی فاعلیت کا دوام ان کے اوپر حجت ہیں اس لیے کہ نوع کی فاعلیت شخص کی فاعلیت سے نسبتاً زیادہ اکمل ہے اور یہ وہی بات ہے جو حس اور مشاہدہ کے ذریعے قطعیت کے ساتھ ثابت ہے اس لیے کہ ہم آہستہ آہستہ نوع کی فاعلیت کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔ پس جب فاعلیت کا دوام ممکن ہوا تو یہ ممکن ہوا اس کے وجود کی وجہ سے اور ہم توکسی شے معین کے فاعلیت کے دوام کو نہیں جانتے (یعنی اگر کسی معین کیلئے فاعلیت کا دوام ثابت ہوتا تو ہمیں معلوم ہوتا لیکن ایسا موجودنہیں ہے )پس فاعلیت کے دوام پر ہمارے علم سے کسی شے معین کا دوام لازم نہیں آتا ۔

نوع کا دوام اس کے افراد کے حدوث کا تقاضا کرتا ہے پس جو بھی اللہ کی ذات کے علاوہ ہے وہ سب کے سب حادث ہیں بعداس کے کہ موجود نہیں تھے اور یہی ہمارا مطلوب ہے پس یہ بات اچھے طریقے سے واضح ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ اس کی مقارنت کا قول اصل میں ممتنع ہے اور یہ اس کی ذات سے حوادث کے صدور کے لیے بھی مانع ہے اور اس میں اس بات کی کوئی حاجت نہیں کی کہ یہ کہا جائے کہ ارادہ حادثہ کے ساتھ اس کا مراد مقارن نہیں ہوتا بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ یوں کہا جائے کہ ارادہ حادثہ کے ساتھ اس کی مراد مقارن ہوتی ہے جس طرح کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ قدرتِ حادثہ کے ساتھ اس کا مقدور مقارن ہوتا ہے اگرچہ لوگوں میں سے بعض وہ بھی ہیں جو اس میں اختلاف رکھتے ہیں ۔