Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فلاسفہ کاعقیدہ : ذات واحدہ سے صرف ایک ہی چیز صادر ہوسکتی ہے پر رد

  امام ابنِ تیمیہؒ

فلاسفہ کاعقیدہ : ذاتِ واحدہ سے صرف ایک ہی چیز صادر ہوسکتی ہے؛پررد:

پس ان کا یہ کہنا کہ ایک ذات سے صرف ایک ہی صادر اور پیدا ہو سکتا ہے یہ ایک قضیہ کلیہ ہے اگر اس میں وہ لوگ اللہ کے ماسوا مخلوقات کو داخل کرتے ہیں تو اللہ کے ماسوا کوئی بھی شے ایسی نہیں کہ اکیلے صرف اسی کے تصرف سے اس سے کوئی شے صادر ہو اور اگر اس سے ان کی مراد صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے تو یہی بات محل نزاع اور محلِ دلیل ہے پس کیسے یہ بعینہ دلیل کامدلول بن جائے گا اور اس واحد کی حقیقت تو یہ خود نہیں جانتے نہ اس سے صدور کی کیفیت کو جانتے ہیں اور یہ بھی کہ جس ایک ذات کو یہ ثابت کرتے ہیں تو وہ ایک ایسا وجود ہے جوبعض کے نزدیک صفاتِ ثبوتیہ سے خالی ہے جیسے ابن سینا اور اس کے متبعین اور بعض دیگر کے نزدیک وہ صفاتِ ثبوتیہ اور سلبیہ دونوں سے مجرد اور خالی ہے اور ایسی شے کا خارج میں کوئی حقیقت نہیں بلکہ خارج میں تو اس کا تحقق ممتنع ہے اور بے شک یہ ایسا امر ہے جس کو صرف ذہنوں میں فرض کیا جا سکتا ہے

جس طرح کہ دیگر ممتنعات کو فرض کیا جاتا ہے اسی وجہ سے اس بات میں ابن سینا نے جو کچھ ذکر کیا ہے اس کے ساتھ ابن رشد اور دیگر فلاسفہ نے اختلاف کیا ہے اور انہوں نے کہا کہ یہ ائمہ فلاسفہ کا قول نہیں اور ابن سینا اور ان کے امثال نے اپنی طرف سے ان کو گھڑا ہے اور اس وجہ سے ابو البرکات جو صاحب المعتبرہیں انہوں نے اس پر اعتبار نہیں کیا حالانکہ وہ اپنی نظر کے اعتبار سے حجتِ صحیحہ کے اتباع کی طرف ان لوگوں کی بہ نسبت زیادہ قریب ہیں اور ان کے اسلاف کی تقلید سے عدول اور روگردانی کے اعتبار سے زیادہ بعید ہیں باجود یہ کہ ان کے حکمت اور فلسفے کی بنیاد اس بات پر ہے کہ عقلیات میں کسی کی تقلید جائز نہیں اور یہ بات بھی کہ جب اس ذات سے صرف ایک ہی صادر اور پیدا ہو سکتا ہے جس طرح کہ یہ لوگ عقلِ اول میں قائل ہیں تو وہ صادرِ اول اگر من کل وجہ ایک ذات ہے تو لازم آئے گا کہ اس سے بھی صرف ایک ہی صادر ہو اور اس طرح یہ سلسلہ چلتا جائے گا اگرچہ اس میں ایک اعتبار سے کثرت بھی پائی جاتی ہے اور کثرت ایک وجودی شے ہے اس طرح کہ اول ایک ذات سے زیادہ افراد صادر (پیدا )ہوں اور اگر وہ عدمی شے ہے تو اس سے وجود صادر نہیں ہو سکتا پس صادرِ اول سے پھر کوئی ایک ذا ت بھی صادر نہیں ہو سکتا۔رہا ان کا اپنے اس دعوے پر اس قول سے دلیل پکڑنا کہ اگر اس سے دو اشیاء صادر ہوں تو اس شے کا مصدر ا س دوسرے کے مصدر کے علاوہ ہو گا یعنی اس کا منشأ اس دوسرے کے منشأ کے علاوہ کوئی اور ہو گا اور ترکیب لازم آئے گی حالانکہ ہم نے اس کو بسیط فرض کر لیا تھا:

تو اولاً اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ سے اشیاء کا صدور نفسِ حرارت کے صدور کی طرح نہیں بلکہ وہ تو مشیت اور اختیار کے ساتھ فاعل ہے اور اگر مصدر کے تعدد کو فرض کر لیا جائے تو یہ امور اضافیہ کا تعدد ہے اور اضافات اور سلبی امور کا تعدد بالاتفاق اس کے لیے ثابت ہے ۔

اگر یہ بات فرض کی جائے کہ یہ صفات کا تعدد ہے تو یہ صفات کے ثبوت کے قول کو مستلزم ہے اور یہ بات حق ہے اور ان کا یہ کہنا کہ پھر تو یہ مرکب بن جائے گا اور ترکیب تو ممتنع ہے تو بہ تحقیق ہم نے اس مقام کے علاوہ دوسری جگہ پر کئی اعتبارات سے اس کے فساد کو بیان کر دیا ہے اور ہم نے یہ بات بیان کر دی ہے کہ ترکیب ، افتقار (احتیاج)، جزء اورغیر کے الفاظ مشترک اور مجمل الفاظ ہیں اور اس معنی پریہ لازم نہیں آتے جس کی نفی پر دلیل دلالت کرتی ہے اور یہ اس معنی پر لازم آتے ہے جس کی دلیل نفی نہیں کرتا بلکہ دلیل اس کو ثابت کرتا ہے یعنی اللہ کے لیے اس معنی پر یہ ثابت ہوتے ہیں جس معنی پر یہ اس کی ذات کے لیے ممتنع نہیں ہے ۔

مقصود تو یہاں یہ ہے کہ موجب بالذات کی اگر اس طرح تفسیر کی جائے تو یہ باطل ہے رہا یہ کہ اگر موجب بالذات کی تفسیر اس طرح کی جائے کہ وہ ایک ایسی ذات ہے جواپنی مشیت اور قدرت کے ساتھ اپنے مفعول کے لیے موجب اور محدث ہے تو یہ معنی اس کے فاعلِ مختار ہونے کے منافی نہیں بلکہ وہ فاعل بالاختیار بھی ہوگا اور موجب بالذات بھی ہوگا اور ا پنے مشیت اور قدرت کے ساتھ بھی موجب ہوگا ۔

جب یہ بات واضح ہوگئی کہ موجب بالذات دونوں معانی کا احتمال رکھتا ہے ،ایک معنی اس امر کے منافی نہیں ہے کہ وہ اپنی مشیت اور قدرت کے ساتھ فاعل بنے اور دوسرا اس کے منافی ہے کہ وہ اپنے مشیت اور قدرت کے ساتھ فاعل بنے تو جوشخص اس بات کا قائل ہوا کہ قادر کوئی بھی فعل صادر نہیں کرتا مگر جواز اور امکان کے طریقے پر جس طرح کہ قدریہ اور جہمیہ میں سے بعض کا یہ قول ہے تو وہ اختیا رکے ساتھ فعل کے صادر ہونے کو ایجاب کے منافی قرار دیتا ہے جو کہ کسی بھی طریقے سے اس کے ساتھ جمع نہیں ہوتا ۔

وہ یہ کہتے ہی کہ کوئی ذات قادرِ مختار صرف اس وقت بنتا ہے جب وہ امکان اور جواز کے طریقے پر فعل صادر کرے نہ کہ وجوب کے طریقے پر اور اہل سنت اور دیگر جمہور اس بات کے قائل ہیں کہ قادر ذات وہی ہے کہ اگر وہ چاہے تو کرے اور اگر چاہے تو نہ کرے لیکن جب وہ اپنی قدرت کے ساتھ فعل کو کرنا چاہے تو اس کے فعل کا وجود لازم ہوتا ہے پس جو اللہ چاہتے ہیں وہ موجود ہوتا جو نہیں چاہتے وہ نہیں موجود ہوتا اس لیے کہ یقیناً وہ ان تمام اشیا پر قادر ہیں جس کو وہ چاہتے ہیں اورقدرتِ تامہ اور مشیتِ لازمہ کے ساتھ فعل کا وجود واجب ہے اسی وجہ سے تو اقوال تین ہوگئے :

پس فلاسفہ جو ہیں ایسے موجب بالذات کے قائل ہیں جو مجردہ عن الصفات ہے۔

یا ایسے موصوف کے قائل ہوئے جس کا موجب معین اس کے ساتھ ازلا ًو ابداً مقارن ہے۔

معتزلہ میں سے قدریہ اور دیگر جہہمیہ میں سے اور جو ان کے موافق ہیں وہ ایسے فاعلِ مختار کے قائل ہیں جو جواز اور امکان کے طریقے پرا فعال صادر کرتا ہے نہ کہ وجود کے طریقے پر پھر ان میں سے بعض وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ فعل صا در کرتا ہے بغیر ارادے کے بلکہ ان کے نزدیک مرید یعنی ارادہ کرنے والا وہ فاعلِ عالم ہے اور ان میں سے بعض وہ ہیں جو ارادے کے حددوث کے قائل ہیں ۔

وہ جس ارادے اور فعل کو پیدا کرتا ہے وہ اپنی قدرتِ محضہ سے پیدا کرتا ہے اس لئے کہ ان کے نزدیک قادر ذات (وجود اور عدم میں سے ایک کو )بلا مرجح کے ترجیح دیتا ہے پھر ان لوگوں میں سے قدریہ کہتے ہیں :کہ وہ ایسے اشیاء کا ارداہ کرتا ہے جو وجود میں نہیں آتے اور ایسے اشیاء وجود میں آسکھتے ہیں جن کا وہ پیدا ہونے کا ارادہ نہیں کرتا اور بسا اوقات اس کی مشیئت ایسی اشیا ء کیساتھ متعلق ہوتی ہے جو موجود نہیں ہوتے اور بسا اوقات ایسے اشیاء وجود میں آجاتے ہیں جن (وجود ) کیساتھ اس کی مشیئت متعلق نہیں ہوتی ۔(بخلاف ان لوگوں کے جو مجبرہ ہیں قدریہ میں سے )۔

اہل سنت والجماعت اور وہ لوگ جو قدر اور دیگر صفات کا اثبات کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ فاعل بالاختیار ہے اور جب بھی کسی چیز (کے وجود )کو چاہتے ہیں تو (موجود )ہو جاتا ہے اور اس کا ارادہ اور اس کی قدرت اس کے لوازِم ذات میں سے ہیں خواہ اسے ایک قدیم ارادہ کہا جائے یا کئی پے در پے وجود میں آنے والے متعددارادے یا ایک ایسا قدیم ارادہ جو دوسرے ارادوں کے پیدا ہونے کو مستلزم ہو پس ان تین اقوال میں سے ہر قول پران کے نزدیک اس کی مراد کا موجود ہونا ضروری ہے اور جب ’’موجب بالذات ‘‘کو اس معنی کیساتھ تعبیر کیا جائے تو نزاع لفظی رہ جاتا ہے کیونکہ وہ دلیل جو انہوں نے ذکر کی ہے وہ ’’موجب بالذات‘‘ کی صورت میں بھی متصور ہے اور لفظ ’’علت ومعلول ‘‘،مؤثر اور اثر اور فاعل مختار کی شکل میں بھی متصور ہے اور وہ ان تما م عبارات کیساتھ عالم میں سے کسی بھی چیز کے قدم کے امتناع اور ماسوی اللہ تما م اشیاء کے حدوث کو ثابت کرتا ہے۔

یہاں ایک اور بات بھی ہے اور وہ یہ کہ لوگوں میں فاعل مختار کے بارے میں یہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ کیا اس کا ارادہ فعل سے پہلے پایا جانا ضروری ہے اور اس کے ارادے کا فعل کیساتھ مقارنت ممتنع ہے ؟یا اس کا اراد جو قصد سے عبارت ہے فعل کیساتھ مقارن ہونا ضروری ہے اور فعل سے پہلے جو پایا جاتا ہے وہ عزم ہے قصد نہیں ؟یا پھر یہ دونوں امر ممکن ہیں ؟گویا تین قول ہوئے ۔اور ہم نے ان تینوں اقوال کے اعتبار سے تما م ماسوی اللہ کے حدوث کا وجوب بیان کردیا ہے یعنی ان کے قول پر جو ارادے کا فعل کیساتھ مقارنت کو واجب کہتے ہیں اور ان کا قول جو مقارنت کو ممتنع کہتے ہیں اور ان کاقول جو دونوں امور کو جائز سمجھتے ہیں ۔

ایسے ہی ان کا قدرت میں بھی اختلاف ہے کہ کیا اس کا مقدور کیساتھ مقارنت ضروری ہے یا مقدور پر تقدم ضروری ہے اور مقارنے ممتنع ہے یادونون امر ممکن ہیں؟

فیصلہ کن بات اس میں یہ ہے قدرت تامہ کیساتھ ارادۂ جازمہ فعل کے وجود اور اس کیساتھ اس کی مقارنت کو مستلزم ہے پس کوئی فعل ایسی قدرت محضہ سے وجود میں نہیں آتا جو فعل کیساتھ مقارن نہ ہو اور نہ ایسے ارادے سے وجود میں آتا ہے جو فعل مقارن نہ ہو بلکہ اثر کا جود میں آنے کیلئے مؤثر تام کا پایا جانا ضروری ہے اور کوئی فعل ایسے فاعل کے ذریعے وجود میں نہیں آتا جو فعل کے موجود ہوتے وقت معدوم ہو اور نہ ایسی قدرت سے (وجود میں آتا ہے )جو فعل کے وجود میں آتے وقت معدوم ہو اور نہ ایسے ارداے سے جو فعل کے وجود میں آتے وقت معدوم ہو اور فعل سے پہلے ارادۂ جازمہ (عزم )اور قدرت تامہ جمع نہیں ہو سکتے ۔اس لئے کہ وہی تو فعل کو مستلزم ہے ۔پس وہ موجود نہیں ہو تا مگر فعل کیساتھ لیکن بسا اوقات فعل موجود ہونے سے پہلے قدرت پائی جاتی ہے جس کیساتھ ارادہ نہیں ہوتا اور بسا اوقات ارادۂ پایا جاتا ہے جبکہ قدرت موجود نہیں ہوتا جس طرح کہ بسا اوقات کوئی کسی فعل کے کرنے کا عزم کرتا ہے اور جب اس کے کرنے کا وقت آتا ہے تو وہ عزم قصد میں بدل جاتا ہے پس فعل کے موجود ہوتے وقت ارادہ اس سے پہلے کی بہ نسبت اقوی ہوتا ہے اسی طرح قدرت بھی فعل کے وجود کے وقت پہلے کی بہ نسبت اقوی ہوتی ہے ۔اور اسی لئے تو بندہ فعل سے پہلے وہ قدرت رکھتا ہے جو شرعاً اس کے قادر ہونے اور غیر عاجز ہونے میں مشروط ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :

﴿ فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُم﴾(تغابن :۱۶)

’’سو اللہ سے ڈرو جتنی طاقت رکھو۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :

﴿وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا﴾(آل عمران :۹۷)

’’اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج (فرض) ہے، جو اس کی طرف راستے کی طاقت رکھے۔‘‘

نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :

﴿،فَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَاِِطْعَامُ سِتِّینَ مِسْکِیْنًا﴾ (مجادلہ:۴)

’’ پھر جو اس کی (بھی) طاقت نہ رکھے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔‘‘

بے شک یہ استطاعت اگر صرف فعل کسیاتھ مقارن اور متصل پائی جاتی تو حج اس شخص پر واجب نہ ہوتا جس نے حج نہ کیا ہو اور نہ اس پر تقویٰ واجب ہوتی جو اللہ سے نہ ڈرتا اور جس نے دو مہینے مسلسل روزے نہ رکھے ہوں وہ روزوں کی استطاعت نہ رکھتا اور یہ تما م (نتائج اور امور )نصوص اور مسلمانوں کی اجماع کے خلاف ہیں پس قدر کے جن مثبتین نے اس قدرت کی نفی کی ہے اور اس کا عقیدہ ہے کہ استطاعت تو فعل کے وجود سے پہلے موجود ہوتی ہے ۔

توبے شک یہ لوگ غلطی میں پڑ گئے کیونکہ انھو ں نے اس بات کا گمان کیا اور کہا کہ وہ تمام امور جن پر بندے کو قدرت حاصل ہوتی ہے یعنی ایمان اور طاعت پر تحقیق اللہ نے اس کے اندر مومن اور کافر دونوں کے درمیان برابری کر دی ہے بلکہ ان دونوں کے درمیان ان تمام امور میں برابری کر دی ہے جن کے ذریعے بندے کے لیے ایمان اور اطاعت ممکن ہو جاتا ہے اور یہ قول تو قطعاً فاسد ہے اس لیے کہ اگر یہ فعل کے تمام اسباب میں دونوں متساوی اور برابر ہوتے تو ان میں سے کسی ایک کا دوسرے کو چھوڑ کر فعل کے ساتھ اختصاص ،دو متماثلین میں سے ایک کا دوسرے پر بغیر مرجح کے ترجیح ہوتا اور یہی تو قدریہ کی اصل اور بنیاد ہے جو یہ کہتے ہیں کہ فاعلِ قادر مقدور کے دو طرفین میں سے ایک کو دوسرے پر بغیر مرجح کے ترجیح دیتا ہے اور یہ باطل ہے اگرچہ اس امر میں ان کے ساتھ بعض ان لوگوں نے موافقت کی ہے جو قدر کے مثبتین ہیں ۔

رہے قدر کے وہ مثبتین جو اس اصل میں اِن کے مخالف ہیں تو ان میں سے ایک گروہ جب مسائلِ قدر میں اور بندوں کے افعال کے خلق میں کلام کرتا ہے تو وہ یہ کہتے ہی کہ قادر اپنے دو مقدورین میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں دیتا لیکن جب وہ اللہ کے افعال اور عالم کے حدوث میں اور موجب اور مختار ذات کے درمیان فرق کرنے میں اور دہریہ کے مناظرہ میں کلام کرتے ہیں تو تو ان میں سے بہت سوں کو توپائے گا کہ وہ ان لوگوں کی طرح ان کے ساتھ مناظرہ کرتے ہیں جو کہ قدریہ اور جہمیہ مجبرہ (یعنی جبر کے قائلین )میں سے ہیں جو اس بات کے قائل ہیں کہ فاعلِ مختار دو مقدورین میں سے ایک کو بغیر مرجح کے ترجیح دیتا ہے (یعنی مناظرہ کرتے وقت اس بات کے قائل ہو جاتے ہیں )اور اسی کے ذریعے ان بڑے بڑے اصولی مسائل میں ان کا اضطراب ظاہر ہو جاتا ہے جن میں وہ قدریہ کے اصول اور جبریہ کے اصول کے درمیان دائر (متردد اور حیران )رہتے ہیں جو کہ تعطیل کے قائل ہیں اور حقیقتِ امر اور حقیقت ِ نہی کی تعطیل کے قائل ہیں ۔ اسی طرح وعد اور وعید اور اللہ تعالیٰ کے صفتِ خلق اور امر میں تعطیل کے قائل ہیں اور اسی طرح یہ لوگ فلاسفہ اور دہریہ کے اصول میں بھی حیران (متردد)اور مضطرب رہتے ہیں ۔