Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حرکت شوقیہ کا عقیدہ اور ابن سینا اورفارابی کی ارسطو کے ساتھ موافقت

  امام ابنِ تیمیہؒ

حرکتِ شوقیہ کا عقیدہ اور ابن سینا اورفارابی کی ارسطو کے ساتھ موافقت

اسی طرح ان کے ساتھ ان کے متاخرین نے موافقت کی ہے جیسے کہ فارابی ،ابن سینا اور ان کے امثال ہیں اوریہ سب کے سب اس بات کے قائل ہیں کہ عالم میں حوادث کا سبب بے شک افلا ک کی حرکات ہیں اور افلا ک کی حرکات تصوراتِ حادثہ سے پیدا ہونے والی ہیں اور ایسی ارادات سے جو دھیرے دھیرے وجود میں آتی ہیں اگرچہ وہ ایک کلی تصور اور کلی ارادے کے تابع ہے جیسے کہ وہ آدمی جو کسی خاص شہرکی طرف جانے کا ارادہ کرتا ہے ،جیسے مکہ مثلاً تو یہ کلی ارادہ ہے جو ایک کلی تصور کے تابع ہے پھر ضروری ہے کہ اس کے لیے ایسے تصورات متجدد ہوں جن کے ذریعے وہ مسافات کو قطع کرے اور ایسے ارادات کا پایا جانا ضروری ہے جو ان مسافات کے قطع کرنے سے سابق اور مقدم ہوں اسی طرح ان کے نزدیک حرکتِ فلک ہے لیکن اس کا جو کلی مراد ہے وہ تو اول کے ساتھ تشبہ ہے اسی وجہ سے انہوں نے کہا کہ فلسفہ امکان کے اعتبار سے اول کے ساتھ تشبہ ہے ۔

پس جب صورتِ حال ان کے نزدیک اس طرح ہے تو یہ بات تو معلوم ہے کہ علتِ غائیہ جو معلول سے منفصل اور جدا ہوتی ہے و ہ علت فاعلہ نہیں بن سکتی اور فلک جو ایک ممکن ذات ہے اور اپنے ارادہ اور اختیار سے متحرک ہے تو اس کے لیے کسی ایسے مبدأکا پایا جانا ضروری ہے جس نے اس کو ا س کی ذات صفات اور افعال کے ساتھ وجود دیا ہو جیسے کہ انسان اور ان تصورات ،ارادات اور حرکات ِ حادثہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک ایسے واجب بنفسہ ذات کی طرف منتہی ہوں جو کہ قدیم ہے اور اس سے یہ صادر ہیں خواہ یہ کہا جائے کہ وہ اس سے کسی واسطے سے صادر ہیں یا بغیر کسی واسطے سے اور ان لوگوں نے ان میں سے کسی شے کو بھی ثابت نہیں کیا بلکہ انہوں نے تو صرف اور صرف حرکت کے لیے علتِ غائیہ کو ثابت کیا پس ان کے قول کی حقیقت تو یہ ہے کہ عالمِ بالا اور عالم سفلی میں تمام حوادث کے لیے کوئی ایسا فاعل نہیں جو ان کو وجود دے بلکہ ان حوادث اور عناصر کے ساتھ جو لوازمات ہیں ان کے لیے بھی کوئی فاعل نہیں اور عالم کے اجزاء میں سے تمام کے تمام اجزاء حوادث کو مستلزم ہیں اور عقلی اوّلی (ابتدائی عقل )میں یہ بات معلوم ہے کہ وہ ممکن ذات جو غیر کی طرف محتاج ہو اس کا وجود واجب الوجود کے بغیر ممتنع ہے اور یہ بات بھی کہ حوادث کا وجود بغیر محدث (پیدا کرنے والا )کے ممتنع ہے اور ان کے متاخرین جیسے کہ ابن سینا اور اس کے امثال اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ عالم سارے کا سارا ممکن بنفسہ ہے واجب بنفسہ نہیں جنہوں نے اس امر میں اختلاف کیا ہے تواس کے قول کا فساد کئی اعتبارات سے معلوم ہے :

اس لئے کہ فقر اور حاجت عالم کے اجزاء میں سے ہر ہر جزء کے ساتھ لازم ہے اور عالم کے اجزاء میں سے کوئی جزء بھی وجود میں نہیں آتا مگر کسی ایسے شے کے ذریعے جو ان سے منفصل اور جدا ہوتی ہے اور واجب الوجود تو اپنی ذات کے اعتبار سے مستغنی اور بے نیاز ہے وہ کسی بھی اعتبار سے غیر کی طرف محتاج نہیں اور عالم میں سے کوئی بھی شے ایسا نہیں ہے جو اکیلے دوسرے حوادث میں سے کسی شے کے لیے اکیلے محدث بنے اور افلاک میں سے جتنے بھی ہیں وہ سب کے سب کے لیے ایک ایسی حرکت ثابت ہے جو اس کی ذات کے ساتھ خاص ہے اس کی حرکت اعلیٰ کی حرکت کی وجہ سے نہیں تاکہ یہ کہا جائے کہ اعلیٰ تمام حرکات کو پیدا کرنے والا ہے اور نہ تو وجود میں کوئی ایسی چیز حادث ہے جو کسی معین سبب سے پیدا ہونے والا ہو نہ حرکتِ شمس و قمر سے، نہ افلاک سے ،نہ عقلِ فعال ،اورنہ کسی اور شے سے ،جس کے بارے میں وہ یہ گمان کرتے ہیں بلکہ عالم میں سے کوئی بھی جزء جس کا تو اعتبار کرے تو تو اُس حال میں اُسے پائے گا کہ وہ کسی بھی شے کے احداث کے ساتھ مستقل نہیں اورجب اس کو کسی شے میں اثر حاصل ہوتا ہے جیسا کہ سکونت کہ جو شمس کے لیے ثابت ہے مثلاً تو بعینہ اس صفت میں اس کے ساتھ بہت سے اور مشارکین بھی تو پائے گا جیسے کہ پھل جس کے پکانے میں سورج کو اثر حاصل ہے تو اس کو خشک کرنے میں اور رنگوں کو بدلے میں اور اس کے امثال اور یہ امر حاصل نہیں ہوتا مگر پانی ،ہوا اور مٹی اور اس کے علاوہ دیگر اسباب کے آپس میں مشارکت سے اور پھر اُن اسباب میں سے ہر ایک دوسرے کے اثر سے جدا نہیں ہوتا بلکہ وہ آپس میں لازم و ملزوم ہوتے ہیں پس وہ اگر یہ کہیں کہ فعل کے لیے عقلِ فعال نے اس کی استعداد کے وقت اس کے لیے ایک نئی صورت بنا دی اور صورت سے پہلے امتزاج کے ساتھ جیسے کہ مثلاً مٹی ہے جس میں پانی اور مٹی کے امتزاج سے ایک ایسا اثر پیدا ہوتا ہے جو امتزاج کے ساتھ لازم ہوتا ہے اور ایک وجود دوسرے کے بغیر ممکن نہیں ہوتا یعنی جدا حالت میں ۔ پس جب ان دونوں میں مؤثر وہ دو ذات ہیں تو لازم آیا کہ وہ اآپس میں متلازم ہونگے اس لیے کہ ایک کے اثر کاپایا جانا و ہ دوسرے کے بغیر ممتنع ہے اور دو ایسے متلازمین کا وجود ممتنع ہے جن میں سے ہر ایک واجب الوجود ہو اس لیے کہ واجب الوجود دوسرے کے وجود کے ساتھ مشروط نہیں ہوتا نہ اس کا تاثیر دوسرے کے تاثیر کے ساتھ مشروط ہوتا ہے اس لیے کہ اگر صورتِ حال یہ ہو (یعنی کہ وہ غیر کے ساتھ مشروط ہو یا اس کی تاثیر غیرکی تاثیر کے ساتھ مشروط ہو )تو وہ غیر کی طرف محتاج ہوا اور وہ ایسا واجب بنفسہ نہ ٹھہراجو اپنے تمام ماسوا ء سے مستغنی ہوپس ہر وہ شے جو غیر کی طرف اپنی ذات میں یا اپنی صفات اورافعال میں محتاج ہو وہ اپنی ذات کے اعتبار سے مستغنی نہیں کہلاتا بلکہ وہ اپنے غیر کی طرف محتاج ہوتا ہے اور جو غیر کی طرف محتاج ہو اگرچہ کسی ایک کے اعتبار سے ہو تو اس کی غنا اس کیلئے ذاتی طور پر ثابت نہیں ہوتی اور یہ امر بدیہی طور پر معلوم ہے کہ اس کائنات میں ایسے غنی ذات کا وجود ضروری ہے جو اپنے تمام ماسوا سے اپنی ذات کے اعتبار سے مستغنی ہو اس لیے کہ کوئی بھی موجود دو حال سے خالی نہیں :

۱) یا تو ممکن ہوگا یا واجب ،اور ہرممکن کے لیے کسی واجب کا ہونا ضروری ہے پس دونوں تقدیروں پر واجب کا وجود ثابت ہوا ۔

۲) اسی طرح یہ کہا جائے گا کہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وجود یا تو محدث ہوگا یا قدیم اور حادث کے لیے کسی قدیم کا ہونا ضروری ہے پس ہرتقدیرپر قدیم کا وجود ثابت ہوا ۔

۳) اسی طرح یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہرموجود یا فقیر ہو گا یا مستغنی اور فقیر کے لیے کسی غنی کا ہونا ضروری ہے ،پس ہر تقدیر پر غنی کا وجود ثابت ہوا۔

۴) اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہرموجود یا تو قیوم ہوگا یعنی دوسرے کو تھامنے والا ہوگا یا تھامنے والا نہیں ہوگا اور جو غیرِ قیوم ہے اس کے لیے کسی دوسرے قیوم ذات کا ہونا ضروری ہے پس ہرتقدیرپر قیوم کا وجود ثابت ہوا ۔

۵) اس طرح یہ بھی کہا جا سکتاہے کہ ہرموجود یا تو مخلوق ہوگا یا غیر مخلوق اور مخلوق کے لیے کسی خالق کا ہونا ضروری ہے جو کہ مخلوق کا غیر ہو پس ایسے موجود کا وجود ثابت ہوا جو مخلوق نہیں ہے دونوں تقدیروں پر اور وہ موجود جو واجب بنفسہ ہے واجب ہے ،قدیم ہے اپنی ذات کے اعتبار سے اور قیوم ہے اور خالق ہے جو کہ مخلوق نہیں ہے تو اس کے بارے میں یہ بات ممتنع ہے کہ وہ غیر کی طرف کسی بھی اعتبار سے محتاج ہو اس لیے کہ وہ اپنے مفعول کی طرف محتاج ہوا اور اس کا مفعول خود اس کی طرف محتاج تو پھر مؤثرات میں دور لازم آئے گا اور اگر غیر کی طرف محتاج ہوا اور وہ وہ غیر دوسرے غیر کی طرف محتاج ہو تو مؤثرات کے اندر تسلسل لازم آئے گا اور ان دونوں میں سے ہر ایک معلوم البطلان ہے صریح عقل اور اتفاق عقلاء کے ساتھ ۔

پس اگر یہ بات ممتنع ہے کہ وہ ذات فاعلِ بنفسہ بن جائے تو پھر یہ بطریقِ اولیٰ ممتنع ہے کہ وہ کسی ایسے فاعل کے لیے فاعل بنے جو بنفسہ فاعل ہو خواہ اسے لفظِ ’’فاعل‘‘کے ساتھ تعبیر کیا جائے یا ’’صانع ،خالق ،علت ،مبدأ اورمؤثرکے الفاظ سے ،ان تمام عبارات کے ذریعے دلیل صحیح بنتی ہے ۔

اسی طرح ایسے مفعولات کو فرض کرنا بھی ممتنع ہے کہ جس میں فاعل نہ ہو اور یہ تو ایسے آثار کو فرض کرنا ہے جن میں مؤثر نہ ہو اور ایسے ممکنات کو فرض کرنا ہے جن میں کوئی واجب بنفسہ ذات نہ ہو اس لیے کہ ان (اثر اور ممکن )میں سے ہر امر فقیر اور محتاج ہے اور ان کا مجموعہ ان کے آحاد کی طرف محتاج ہے پس یہ بھی ایک محتاج اور ممکن ہوا اور جتنا یہ سلسلہ بڑھتا جائے گا تو فقر اور احتیاج بڑھتا جائے گا اور یہ درحقیقت ایسے معدومات کو فرض کرنا ہے جو غیر متناہی ہیں اس لیے کہ ان کی کثرت اُن کو معدوم ہونے کی حیثیت سے نہیں نکالتے پس یہ امر ممتنع ہوا کہ ان میں سے کوئی موجود ہو اور یہ سب اپنے مقام پر بیان ہو چکا ہے ۔

مقصود تو یہاں یہ ہے کہ ایک ایسے موجود کا پایا جانا ضروری ہے جو مستغنی ہو ،قدیم ہو اور واجب بنفسہ ہو اور اپنے تمام ماسوا سے مستغنی ہو اس طور پر کہ وہ اپنے غیر کی طرف کسی بھی صورت میں محتاج نہ ہو اور عالم میں جو کچھ بھی ہے وہ اپنے غیر کی طرف محتاج ہے اور جو شخص غور کرے تو عالم کے ہر ہر جز میں فقر بالکل ظاہر ہے ،عالم میں سے کوئی شے بھی اللہ کے ماسوا بذاتِ خود نہیں پیدا ہوتا بلکہ وہ مستغنی اور بے نیاز نہیں ہوتا یعنی محتاج ہوتا ہے پس یہ امرممتنع ہوا کہ اللہ کے ماسوا عالم میں کوئی شے واجب الوجود بنے لہٰذاضروری ہے کہ ایک ایسا واجب ذات ہو جو ان تمام عالم کے اشیاء کو تھامنے والا ہو ،مستغنی ہو اور عالم کے مبائن (یعنی عالم کا غیر )ہو اور یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے لیے ہر کمال ثابت ہو ،اس کی ذات میں کوئی نقص نہ ہو اس لیے کہ اگر وہ ان صفات کے ساتھ متصف نہیں ہوگا تو پھر کمال اس کی ذات کے حق میں ممتنع ہوگا اور یہ محال ہے اس لیے کہ مفروض تو یہ ہے کہ وہ ممکن الوجود ہے

اس وجہ سے بھی کہ بہت سے ممکنات بھی تو بڑی بڑی صفاتِ کمال کے ساتھ متصف ہیں تو ذاتِ خالق تو مخلوق کی بہ نسبت صفاتِ کمال کے ساتھ متصف ہونے کے زیادہ احق ہے اور قدیم ذات حادث کی بہ نسبت اس اتصاف کا زیادہ احق ہے اور ممکن کی بہ نسبت واجب اس اتصاف کا زیادہ احق ہے اس لیے کہ وہ اس کے وجود کے اعتبار سے اکمل ہے اور غیرِ اکمل کی بہ نسبت اکمل ذات کمال کے زیادہ احق ہوتی ہے ۔ اس لیے بھی کہ مخلوق کا کمال خالق سے مستفاد ہے پس کمال کا خالق خود کمال کے زیادہ احق ہوا اور وہ یہ کہتے ہیں کہ معلول کا کمال علت کے کمال سے مستفاد ہے اور جب اس کی ذات کے ساتھ کمال ممتنع نہ ہوا تو ضروری ہے کہ اس کے لیے صفتِ کمال واجب ہو اس لیے کہ اگر وہ ایسا ممکن ہو جو واجب بھی نہ ہو اور ممتنع بھی نہ ہو تو پھر وہ اپنے ثبوت میں اپنے غیر کی طرف محتاج ٹھہرے گا اور جو ذات اس طرح ہو تو واجب ا لوجود بنفسہ نہیں ہوتے پس اس کے لیے جو بھی صفتِ کمال ممکن ہوگا تو وہ اس کی ذات کے لیے واجب ہوگا۔