مفعول کی واجب سے مقارنت کا امتناع
امام ابنِ تیمیہؒمفعول کی واجب سے مقارنت کا امتناع
کئی وجوہ سے یہ بات ممتنع ہے کہ ذات کے ساتھ اس کا مفعول ازلاً مقارن ہو:
۱ ) ایک تو اس لیے کہ اس کا مفعول حوادث کے مستلزم ہے اور وہ اس سے جدا نہیں ہوتا اور جو شے بھی حوادث کو مستلزم ہوتا ہے تو یہ امر ممتنع ہوتا ہے کہ وہ کسی علتِ تامہ ازلیہ کا معلول بنے اس لیے کہ علتِ تامہ ازلیہ کا معلول اس سے بالکل متاخر نہیں ہوتا اور اگر وہ اس سے کچھ متاخر ہو جائے تو پھر وہ علت بالقوۃ کہلاتی ہے نہ کہ بالفعل اور پھر وہ اپنے فاعل ہونے میں ایک ایسی شے کی طرف محتاج ہوتی ہے جو اس کی ذات سے منفصل اور جدا ہو اور یہ امر ممتنع ہے یعنی علت کا معلول کے ساتھ اتصال ہی ضروری ہے اور مفروض بھی یہی ہے ،پس یہ امر واجب ہے کہ وہ اس کے لیے مفعول بنے اور وہ اس سے صادر نہ ہو مگر دھیرے دھیرے اور جو بھی شے اس کے لیے مفعول بنے گی تو وہ حادث ہوگی بعد اس کے کہ وہ معدوم تھی ۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس کے ساتھ اس کے مفعول کا ازل میں مقارن ہونا اس کے لیے اس کے مفعول بننے سے مانع ہے اس لیے کہ کسی شے کا مفعول بننا اور مقارن ہونا ،یہ عقلاً ممتنع ہے اور موجودات میں کسی شے معین کے بارے میں یہ امر معقول نہیں کہ وہ کسی معلولِ مبائن کے لیے علتِ تامہ بنے بلکہ جن امور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ علت ہے تو یا تو اس کی تاثیر غیر پر موقوف ہوتی ہے (ایسی صورت میں )وہ تام نہیں ہوتی یا یہ کہ وہ اس سے مبائن اور جدا نہیں ہوتی اُن لوگوں کی رائے پر جو کہتے ہیں کہ علم عا لمیت کے لیے علت ہے اور ان لوگوں کے نزدیک جو احوال کو ثابت کرتے ہیں ورنہ جمہور تو یہ کہتے ہیں کہ علم ہی عا لمیت ہے ۔
رہا یہ کہ اگر یہ کہا جائے کہ ذات صفات کے لیے موجب ہے یا ان کے لیے علت ہے تو وہ حقیقت میں تو حقیقت میں اس کے لیے کوئی فعل یا تاثیر ثابت نہیں ،رہا یہ کہ اگر کسی ایسی شے کو فرض کر لیا جائے جو غیر میں مؤثر ہو تو یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ وہ دونوں آپس میں مقارن اور متساوی ہیں اور کوئی ایک دوسرے پر زمان کے اعتبار سے سابق نہیں تو یہ بات بالکل معقول نہیں اور یہ بھی کہ اس کا غیر پر من کل وجہ مقدم ہونا ایک صفتِ کمال ہے کیونکہ جو ذات کسی پر من کل وجہ متقدم ہوتا ہے تو وہ اس سے اکمل ہوتا ہے جس پر وہ مقدم ہو ۔ اگر یہ کوئی کہے کہ فعل یا فعل کو فرض کرنا اس کے بارے میں یہ بات ممکن نہیں کہ اس کے لیے کوئی ابتدا ہو یا اس کے علاوہ کوئی اور بات جیسے کہ حرکت اور زمان تو جواب میں کہا جائے گا کہ اگر یہ بات باطل ہے تو یہ تو خود بہ خود ہی دفعہ ہو گیا اور اگر یہ صحیح ہے تو جس بات کو ثابت کیا جاتا ہے وہ تو وہ کمال ہے جو ممکن الوجود ہے اور ایسے حال میں جبکہ نوع کے لیے دوام ثابت ہو تو ممکن اور اکمل ذات ہی تمام افراد میں سے ہر فرد پر متقدم ہوگی اس طور پر کہ عالم کے اجزاء میں سے کوئی شے بھی اس کے ساتھ کسی طور پرمقارن اور متصل نہ ہو اور رہا فعل کا دوام تو وہ بھی صفتِ دوام میں سے ہے اس لیے کہ فعل جب صفتِ کمال ہو تو اس کا دوام بھی کمال کا دوام ہے اور اگر وہ صفتِ کمال نہیں تو پھر اس کادوام بھی واجب نہیں پس دونوں تقدیروں پر عالم میں سے کوئی شے بھی قدیم نہیں ٹھہرے گی اور اس بات پر اس مقام کے علاوہ ایک اور جگہ میں تفصیلی کلام عرض کیا جا چکا ہے۔
قدوم عالم اور حکمت و تعلیل کے مسئلہ میں کلام کے درمیان ارتباط کی وجہ
یہاں تو مقصود اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ مسلمانوں کا ماخذ تعلیل کے مسئلہ میں کیا ہے جو تعلیل کو جائز سمجھتے ہیں ۔
تو وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ امر کہ جس پر شریعت اور عقل دلالت کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کے ماسوا سارے کے سارے اشیاء محدث اور موجود ہیں بعد اس کے کہ معدوم تھے اور اللہ کا ازل سے اس طرح ہونا کہ پہلے فعل سے معطل تھے (یعنی کسی چیز کا احداث نہیں کررہے تھے )۔
پھر آپ کی ذا ت سے افعال صادر ہوئے پھر شرع اور عقل میں کوئی ایسی دلیل نہیں جو اس کو ثابت کرے بلکہ یہ دونوں یعنی عقل اور شرح اس کے نقیض پر دلالت کرتے ہیں یعنی یہ کہ اللہ تعالیٰ کسی بھی وقت فعل سے معطل نہیں ہوئے اور جب کہ نوعِ حوادث اور ان کے اشخاص اور اعیان کے درمیان فرق معروف ہے اور مسلمانوں اور دیگر اہل ملل اور آئمہ فلاسفہ جو کہ عالم میں سے عالمِ بالا اور عالم اسفل میں سے ہر ہر شے کے حدوث کے قائل ہیں جبکہ ان کے اقوال کے درمیان فرق معلوم ہوا اور ایسے ہی ارسطو اور ان کے وہ اتباع جو قدمِ افلاک اور عناصر اربعہ کے قدم کے قائل ہیں ،ان کے اقوال کے درمیان تو اس باب میں غلطی اور صواب اور ٹھیک اور غلط بالکل جدا جدا واضح ہو گئے اور یہ انتہائی اعلیٰ درجہ کے علوم میں سے ہیں اور یہ تعلیل کے قائلین کے خلاف ان لوگوں کے لیے مؤید جواب ہے جو تسلسل فی الآثار کے بطلان سے ان کے خلاف استدلال کرتے ہیں ۔
حجت ِ استکمال
رہا حجت استکمال تو انہوں نے یہ کہا کہ یہ امر ممتنع ہے کہ رب تعالیٰ غیر کی طرف محتاج ہو یا یہ کہ ازل میں اس کی ذات میں کوئی ایسا صفتِ کمال نہ پایا جاتا جس کا ازل میں وجود ممکن ہو جیسے کہ حیات اور علم اور جبکہ اللہ کی ذات ہر شے کے لیے قادر اور فاعل ہے تو وہ کسی بھی طور پر غیر کی طرف محتاج نہ ٹھہری بلکہ عللِ مفعولہ ہی اس کی مقدور اور اس کی مراد ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے دل میں دعا (مانگنے کا داعیہ )ڈالتے ہیں اور ان کی دعا کو قبول کرتے ہیں اور ان کے دل میں توبہ ڈال لیتے ہیں اور ان کی توبہ پر خوش ہوتے ہیں جبکہ وہ توبہ کرتے ہیں اور ان کے دل میں طاعات پر عمل ڈالتے ہیں اور ان کو عمل پر ثواب دیتے ہیں ۔
یہ نہیں کہا جائے گا کہ مخلوق نے خالق کی ذات میں اثر کیا یا یہ کہ بندے نے ا پنی توبہ کے ذریعے خالق کی ذات کو دعا قبول کرنے ،ثواب دینے اور خوش ہونے کے لیے فاعل بنا دیااس لیے کہ حق سبحانہ تعالیٰ ہی تمام امور کا خود خالق ہے ،اس کے لیے سلطنت ہے ،اس کے لیے تمام محامد ثابت ہیں اور ان تمام امور میں سے کسی بھی شے میں اس کے لیے شریک ثابت نہیں اور وہ علم غیب کی طرف محتاج بھی نہیں اور وہ حوادث جن کا وجود صرف اور صرف متعاقب یعنی یکے بعد دیگرے ہے تو ازل میں ان کا عدم (نہ پایا جانا )نقص نہیں ہوتا ۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ قول یہ تو حوادث کے اللہ کی ذات کے ساتھ قیام کو مستلزم ہے اس کے جواب میں یہ کہا جائے گاکہ یہ ان لوگوں کا قول ہے جو معتزلہ اور روافض کے بڑے شیوخ میں سے ہیں جیسے ہشام بن حکم ،ابو الحسین بصری اور ان کے متبعین اور ان کے علاوہ دیگر پر بھی ا سکا الزام آتا ہے اور متاخرین روافض جوبصری معتزلہ کے متبعین ہیں تووہ اس باب میں نفی کرتے ہیں اور وہ معتزلہ بصریین تو کہتے ہیں کہ اس کی ذات مدرک (جس کا ادراک کیا جائے )بنی بعد اس کے کہ نہیں تھی اس لیے کہ ادراک ان کے نزیک موجود کے ساتھ متعلق ہیں جیسے کہ سمع اور بصر ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ ک ذات ارادہ کرنے والی بنی بعد اس کے کہ نہیں تھی رہے بغدادئین تو انہوں نے اگرچہ ادراک اور ارادے کا انکار کیا ہے پس وہ یہ کہتے ہیں کہ اس کی ذات فاعل بنی بعد اس کے کہ نہیں تھی ۔
انہوں نے کہا کہ یہ تو اللہ کی ذات کے لیے احکام اور احوال کے تجدد کا قول ہے اور اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ اس مسئلہ سے باقی جماعتوں پر الزام آتا ہے یہاں تک کہ فلاسفہ بھی اور ان کے متقدمین نے بھی اس قول کو اختیار کیا ہے اور بعض فضلاء متاخرین نے بھی اور کہا جاتا ہے کہ وہ متقدمین جو ارسطو سے پہلے تو وہ اس کے قائل تھے اور ابو البرکات جو صاحب المعتبر ہیں وہ بھی اس کے قائل ہیں اور یہ مرجئہ اور شیعہ کرامیہ میں سے اہل کلام کاقول ہے اور ان کے علاوہ دیگر کا بھی جیسے ابو معاذ التومنی اوردونوں ہشام۔
رہے جمہورِ اہل سنت اور جمہور محدثین تو وہ بعینہ اس بات یا اس کے ہم معنی کے قائل ہیں اور اگرچہ ان میں سے بعض وہ ہیں جو صرف الفاظِ شرعیہ کے اطلاق کو اختیار کرتے ہیں اور بعض ان میں سے وہ ہیں جو شرعی معانی کی تاویل ایسی عبارات کے ساتھ کرتے ہیں جو اس پر دلالت کرتے ہیں جیسے کہ حبِ کرمانی اور یہ بات اور اس نے اس بات کو آئمہ کرام سے نقل کیا ہے ۔
جیسے کہ عثمان بن سعید الدارمی اور اس کو اہل سنت سے نقل کیا ہے جیسے کہ جیسے امام بخاری صاحب الصحٰح اور ابو بکر ابن خزیمہ جس کو امام الآئمہ کہا جاتا ہے جیسے ابو عبد اللہ ابن حامد ابو اسماعیل الانصاری اس کو شیخ الاسلام کا لقب دیا گیا ہے اور ان کے علاوہ بھی بہت سے وہ جن کی صحیح تعداد کو اللہ ہی جانتے ہیں اور معتزلہ اس بات کے منکر تھے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ کوئی صفت یا فعل قائم ہو اور اس بات کو انہوں نے یوں تعبیر کیا کہ ’’اللہ کی ذات سے ساتھ اعراض اور حوادث صادر نہیں ہوتے پس اس کی موافقت کی ابو محمد عبد اللہ ابن سعید بن کلاب نے اللہ کی ذات کے ساتھ مشیت اور قدرت کے تعلق کی نفی پر اور نفی صفات میں ان کی مخالفت کی اور انہوں نے اعراض نہیں کہا اور اس بات پر اس کی موافقت کی حارث بن اسعد بن حارثنی نے جو صوفی کے شیوخ میں سے ہے جو بغداد میں سن ۲۴۳ میں فوت ہو گئے ہیں طبقات شافعیہ میں ان کے احوال مذکور ہیں شجرات الزہب ،طبقات الکبرا میں طبقت صوفیا میں میزان الاعدال وغیرہ میں اور کہا جاتا ہے کہ اس نے اس بات سے رجوع بھی کر لیا اور ابن کلاب کے مذہب کے بسبب اس کو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے چھوڑ دیا اور کہا گیا ہے کہ اس نے اس سے توبہ بھی کر لی ہے پس امام ابو حنیفہ ، امام شافعی ،امام مالک، امام احمد رحمہ اللہ کے اصحاب میں سے کوئی بھی گروہ ایسا نہیں کہ جو ابن کلاب کے قول کا قائل ہو جیسا ابو الحسنی تمیمی ،قاضی ابو بکر ،قاضی اابو اعلی،قاضی ابی المعالی، الجوینی اسی طرح ابن اکیل ،ابن زاغونی اور ان میں سے بعض وہ ہیں جو جمہورِ محدثین کے قول کے قائل ہیں جیسے کے خلال اور اس کے اصحاب ابو بکر عبد العزیز،ابو عبد اللہ ابن الحامد ابو عبد اللہ ابن مندہ ابو اسماعیل بن انصاری ابو نصر السجسی ابو بکر محمد ابن اسحاق اور ابن خذیمہ اور ان کے متبعین اور اس پوری بات کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات جو ہے کیا اس کے ساتھ ایسی شے قائم ہو سکتی ہے کہ جو اس کی مشیت اور قدرت سے متعلق ہو جیسے کہ افعالِ اختیاریہ تو یہاں دو قول ہیں جو لوگ اس کو ثابت کرتے ہیں اور تعلیل کو ثابت کرتے ہیں تو انہوں نے یہ کہا کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ان لوگوں کو جو اس کے منکر ہیں یعنی معتزلہ اور شیعہ کہ تم تو کہتے ہو کہ رب تعالیٰ ازل میں معطل تھا فعل سے نہ وہ متکلم تھا اور نہ وہ فاعل تھا اورا سکے بعد اس نے کلام اور فعل کو پیدا کیا بغیر کسی سببِ حادث کے پس لازم آیا ممکن کے دو طرفین میں سے ایک کو دوسرے پر بلا مرجع ترجیح دینا اسی سبب سے تم پر فلاسفہ نے زبان درزای کی اور آئمہ اہل ملل یعنی دیگر فرق کے آئمہ نے ان کی مخالفت کی اورآئمہ فلاسفہ نے بھی ان کی مخالفت کی اور تم نے یہ گمان کیا کہ تم نے عالم کے حدوث پر دلیل قائم کی ہے چنانچہ تمہارا عقیدہ ہے کہ جو ذات بھی حوادث کے نوع سے خالی نہ ہو تو وہ حادث ہی ہوتا ہے اس لیے کہ ایسے حوادث کا وجود تو ممتنع ہے کہ جس کی کوئی انتہا نہ ہو اور اس اصل پر تمہارے پاس کتاب اور سنت میں سے اور صحابہ اور تابعین کے آثار میں سے کوئی دلیل نہیں بلکہ کتاب و سنت اور صحابہ کے آثار اورجو ہے ان کے متبعین کے جو آثار ہیں وہ اس کے بخلاف ہیں اور نفس اور عقل تو اس بات پر دال ہیں کہ اللہ کے ماسوا جو کچھ بھی ہے وہ مخلوق ہے اور حادث ہے اور موجود ہے بعداس کے کہ معدوم تھا لیکن ہر ہر فرد کے حدوث سے لازم نہیں آتا کہ یوں لکھا جائے۔۔ لیکن حوادث کے یکے بعد دیگرے وجود میں آنے کے ساتھ ہر ہر فرد کے حدوث سے نوع کا حدوث لازم نہیں آتا پس اس سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ وہ فاعل جو ہے وہ ازل میں متکلم تھا اور فعل اور کلام سے معطل تھا اور اس کے بعد پھر یہ جو ہے فعل اور کلام حادث ہوئے بلا سبب کے جس طرح کہ اس طرح زمانہ مستقبل میں لازم نہیں آتا اس لیے کہ وہ مستقبلات یعنی آئندہ زمانے کے لمحات جو منقضی ہیں تو ان میں سے ہرہر فرد جو ہے وہ فنا ہونے والا ہے لیکن اس کا نوع تو فانی نہیں ؛ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ أُکُلُہَا دَآئِمٌ وِظِلُّہَا﴾(سورۃ رعد ۳۵ )
’’ان کا پھل بھی دائمی ہے اور سایہ بھی۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
﴿ إِنَّ ہَذَا لَرِزْقُنَا مَا لَہُ مِن نَّفَادٍ ﴾( ص ۵۴ )
’’بلاشبہ یقیناً یہ ہمارا رزق ہے، جس کے لیے کسی صورت ختم ہونا نہیں ہے۔‘‘
پس یہ دائم ذات جو ختم نہیں ہوتا وہ نوع ہے ورنہ تو اس کے افراد میں سے ہر ہر فرد تو ختم ہونے والا منقضی ہے دائم نہیں اور یہ اس لیے کہ وہ حکم کے جس سے افراد کو موصوف کیا جاتا ہے جب وہ کسی ایسے معنی کی وجہ سے ہو کہ جو جملہ افراد میں ہو تو جیسے کہ ہر ہر فرد میں سے صفتِ وجود میں امکان ہے عدم ہے تو یہ مجموعہ کا ان صفات کے ساتھ اتصاف کو مستلزم ہے یعنی وجود امکان اور عدم کے ساتھ اس لیے کہ مجموعہ کی طبعیت اور ماہیت وہی جو ہے وہ ہر ہر فرد کی طبعیت اور ماہیت ہوتی ہے اور مجموعہ تو نہیں ہے مگر صرف وہ احاد کے جو ممکن ہوتے ہیں یا موجود یا معدوم ہوتے ہیں اور رہا یہ کہ جن صفات سے افراد کو موصوف کیا جاتا ہے تو وہ مجموعہ کی صفت نہیں ہوتا تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ مجموعہ کا حکم افراد کا حکم ہو جس طرح کہ بیت اور انسان اور شجرہ کے اجزاء میں ہے اس لیے کہ ان میں سے ہر ایک بیت اور انسان اورشجرہ نہیں اس طرح طویل اور عریض اور دائم کے اجزء اور ممتت کے اجزاء یہ بات لازم نہیں ہے کہ ان میں سے ہر ایک طویل عریض اور دائم اور ممتد بھی ہو اس طرح جب یکے بعد دیگے وجود میں آنے والے امور میں سے ہر ایک کو صفتِ فنا اور حدوث کے ساتھ موصوف کیا جائے تو لازم نہیں آتا کہ اس کا نوع بھی منقطع اور حادث ہو بعداس کے کہ نہیں تھا۔اس لیے کہ اس کے حدوث کا معنی تو یہ ہے کہ وہ موجود ہوا بعد اس کے کہ نہیں تھا جس طرح کہ اس کی فنا کا معنی یہ ہے کہ وہ معدوم ہوا بعد اس کے وجود کے اور اس کا وجود کے بعد معدوم ہونا یا عدم کے بعد موجود ہونا ایک ایسا امر ہے جو خود اس کی ذات کے وجود اور عدم کی طرف راجع ہے ،اس نفس طبعیت کی طرف نہیں جو مجموعہ کے لیے ثابت ہے جس طرح کہ افرادِ موجودہ یا معدومہ یا ممکنہ میں ہوتا ہے پس جب اس معین فرد کے لیے دوام ثابت نہیں تو لازم آتا ہے کہ اس کا نوع بھی دائم نہ ہو اس لیے کہ دوام تو افراد کے تعاقب سے عبارت ہے (یعنی افرادکا یکے بعد دیگرے وجود میں آنا )اور یہ ایسا امر ہے کہ اس کے ساتھ مجموعہ یعنی کل مختص ہے اور ایک فرد اس کے ساتھ موصوف نہیں ہوسکتا اور جب مجموعہ کے لیے باہم اجتماع (افراد کا اجتماع )کے بسبب کوئی ایسا حکم ثابت ہو جس کے ذریعے وہ افراد کے حکم کے مخالف ہو تو مجموعہ کا اپنے بقیہ ا احکام میں افراد کے ساتھ مساوات واجب نہیں ہوتا اور بالجملہ وہ صفات جس سے افراد کو موصوف کیا جاتا ہے بسا اوقات اس سے مجموعہ بھی موصوف ہوتا ہے اور بسا اوقات موصوف نہیں ہوتا پس فردِ واحد کے حدوث سے نوع کا حدوث لازم نہیں آتا الا یہ کہ اگر یہ بات ثابت ہو جائے کہ یہ مجموعہ بھی ان افراد کی صفت کے ساتھ موصوف ہے ۔
اور اس کا ضابطہ یہ ہے کہ جب اس ایک فرد کو اس دوسرے فرد کے ساتھ ملانے سے وہ حکم جو اس فرد کے لیے تھا اگر وہ متغیر ہوگا تو پھر مجموعہ کا حکم افراد کا نہیں ہوگا اور اگر وہ حکم جو فرد کے لیے تھا وہ انضمام اور اتصال کے وجہ سے متغیر نہیں ہوتا توپھر مجموعہ کا حکم افراد کا حکم ہوگا،اول کی مثال جب ہم اِس جزء کو دوسرے جزء کے ساتھ ملا لیتے ہیں تو مجموعہ اکثر ہو جاتا ہے یا اقل یا ہر ہر فرد کے اکیلے حالت سے اعظم اور بڑا ہو جاتا ہے پس ان جیسے احکام میں مجموعہ کا حکم افراد کا حکم نہیں ہے یعنی کثرت میں ،طول اور عظمت میں اور اگر کہا جائے کہ یہ آج کا دن مثلاً اس کو طویل کی صفت کے ساتھ موصوف کیا جائے تو لازم نہیں آتا کہ اس کا جزء بھی طویل ہو اسی طرح جب یہ کہا جائے کہ یہ شخص یا یہ جسم طویل یا ممتد ہے یا کہا جائے کہ یہ نماز بڑی لمبی ہے یا کہا جائے کہ یہ نعمت اللہ کی دائم ہے تو لازم نہیں آتا کہ اس کا ہر ہر جزء بھی دائم ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ أُکُلُہَا دَآئِمٌ وِظِلُّہَا﴾(سورۃ رعد ۳۵ )
’’ان کا پھل بھی دائمی ہے اور سایہ بھی۔‘‘
اور کھانے کے اجزاء میں سے ہر ہر جزء تو دائمی نہیں ہوتا؛اسی طرح ایک حدیث صحیح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے:
’’ اللہ کے نزدیک محبوب ترین عمل وہ ہے جو زیادہ دوام کے ساتھ ہو۔‘‘[مسلِم1؍540 ؛ کتاب صلاِۃ المسافِرِین وقصرِہا؛ البخاری 1؍13؛ کتاب الإِیمانِ، باب أحب الدِینِ ِإلی اللّٰہِ أدومہ۔ سننِ أبِی داود 2؍65 ؛ کتاب التطوعِ، باب ما یأمر بِہِ مِن القصدِ فِی الصلاِۃ ]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے : ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل دوام کی صفت کے ساتھ ہوتا تھا۔ ‘‘[مسلِم 1؍541؛ کتاب صلاِۃ المسافِرِین، باب فضِیلۃِ العملِ الدائِم؛ سننِ بِی داود 2؍66؛ کتاب التطوعِ، باب ما یأمر بِہِ مِن القصدِ فِی الصلاِۃ۔وأورد البخاری حدِیثینِ عن عائِشۃ۔رضِی اللّٰہ عنہا۔بِمعنی ہذا الحدِیثِ مع اختِلافِ الألفاظِ: الأولِ1؍13(کتاب الِإیمانِ، باب أحب الدِینِ ِإلی اللّٰہِ أدومہ) ولفظہ: وان أحب الدِینِ إِلیہِ ما داوم علیہِ صاحِبہ. والثانِی 3؍38۔39 (کتاب الصومِ، باب صومِ شعبان) ولفظہ: وأحب الصلاِۃ ِ إلی النبِی ۔ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔ ما داوم علیہِ وإن قلت.]
تو پس جب انسان کا عمل دائم ہے تو لازم نہیں آتا کہ اس کا ہر جزء بھی دائم ہو ۔
اسی طرح اگر یہ کہا جائے کہ یہ مجموعہ ایک اوقیہ کا عُشر ہے تو لازم نہیں آتا کہ اس کے اجزاء میں سے ہر ہر جزء ایک وقیہ کا عشر ہو اس لیے کہ مجموعہ تو بعض اجزاء کا بعض دوسروں کے انضمام سے حاصل ہوا ہے اور افراد میں اجتماع موجود نہیں تھا اور یہ بخلاف اس کے ہے کہ یہ کہا جائے کہ اجزاء میں سے ہر ہر جزء یا تو معدوم ہے یا موجود یا ممکن یا واجب یا ممتنع ہے اور مجموعہ کے بارے میں یہ بات ضروری ہے وہ یا تو واجب ہوگایا معدوم یا موجود ہو یا ممکن یا واجب یا ممتنع ۔
اس طرح جب تو کہے کہ زنجی قوم میں سے اسود یعنی کالا ہوتا ہے تو پس بے شک (ان حالا ت سے خالی نہیں ) یاواجب ہوگایا معدوم ہو گایا موجود یاممکن یا واجب یاپھر ممتنع ۔
اسی طرح جب تو یہ کہے کہ زنجی قوم میں سے ہر ہر فرد اسود ہے تو یہ بھی واجب ہے کہ یہ مجموعہ بھی اسود ہو اس لیے کہ موجود کا موجود کے ساتھ اقتران اور اتصال اس کو اس کے موجود ہونے سے نہیں نکالتا اور معدوم کا معدوم کے ساتھ اقتران اس کو صفت عدم سے نہیں نکالتا اور ممکن لذاتہ اور ممتنع لذاتہ کا اقتران اپنے مثل کے ساتھ اس کو ممکن لذاتہ اور ممتنع لذاتہ سے نہیں نکالتا بخلاف اس کے کہ جو ممتنع لذاتہ نہ ہو ،الا یہ کہ وہ منفرد اور اکیلا ہو اور وہ اقتران سے ممکن بنتا ہو جیسے علم ،صفتِ حیات کے ساتھ اس لیے کہ یہ اکیلے تو ممتنع اور حیات کے ساتھ ممکن ہے ،اسی طرح دو ضدین میں سے کوئی ایک کہ وہ اکیلے تو ممکن ہے اور دوسرے کے ساتھ اس کا اجتماع ممتنع ہے ،پس دونوں متلازمین کا انفراد ممتنع ہے(یعنی دونوں میں سے ہر فرد کا دوسرے سے الگ انفرادی طور پر پایا جانا ) اور دونوں متضادین کا اجتماع ممتنع ہے پس اس تقریر کے ذریعے فنا ہونے والی آثارِ حادثہ کے دوام اور اتصال اور غیر متناہی ممکن معلولات اورعلل کے وجود کے درمیان فرق واضح ہوا اس لیے کہ لوگوں میں سے بعض وہ ہیں جو ان دونوں کے درمیان امتناع میں برابری کر دیتے ہیں جس طرح کہ اہل کلام میں سے بہت سے اس کے قائل ہیں او ر لوگوں میں سے بعض وہ ہیں جنہوں نے یہ گمان کیا کہ صفتِ تاثیر امکان اورامتناع دونوں میں برابر ہے اس کے لئے یہ امر واضح نہ ہوا کہ علل اور معلولات کا غیر متناہی حد تک وجود ممتنع ہے اوراس نے یہ گمان کیا کہ یہ ایک ایسا مشکل مقام ہے جس کے امتناع پر کوئی حجت قائم نہیں ہوسکتی اگرچہ وہ کسی کا قول نہ ہو جس طرح کہ آمدی نے ’’رموز الکنوز ‘‘میں اور ابہری نے اور اس کے پیروکاروں نے ذکر کیا ہے اور ان دونوں انواع کے درمیان فرق واضح ہے اس لیے کہ حادثِ معین جب دوسرے حادثِ معین کے ساتھ ملایا جاتا ہے تو دوام اور امتداد سے اور نوع کے بقاء سے وہ صفت حاصل ہو جاتی ہے جو افراد کو حاصل نہیں تھی پس جب مجموعہ طویل ،مدید ،دائم ،کثیر اور عظیم ہوگا یہ بات لازم نہیں آتی کہ ہر ہر فرد بھی طویل ،مدید ،دائم ،کثیر اور عظیم ہو۔
رہے وہ علل اور معلولات جو مسلسل ہیں تو ان میں سے ہر ایک اکیلے ممکن ہوتا ہے اور دوسرے کے ساتھ انضمام کے بعد وہ امکان کی صفت سے نہیں نکلتا اور ان دونوں میں سے ہر ایک معدوم ہوتا ہے اور دوسرے کے ساتھ انضمام کی وجہ سے وہ معدوم ہونے کی صفت سے وہ نہیں نکلتا پس معدوماتِ ممکنہ کا اکھٹا ہونا اُن (معدومات)کو موجود نہیں بنا دیتا بلکہ اجتماع کی حالت میں فاعل کی طرف احتیاج کی صفت اجتماع سے پہلے انفراد کی حالت میں فاعل کی طرف افتقار نسبتاً زیادہ ہے اور اس مقام کے علاوہ ایک اور جگہ پر اس بات پر تفصیل سے کلام کیا گیا ہے ۔