غیر متناہی حوادث کے امتناع کے قائلین کے دلائل اور ان پر رد
امام ابنِ تیمیہؒغیر متناہی حوادث کے امتناع کے قائلین کے دلائل اور ان پر رد
غیر متناہی حوادث کو ممتنع کہنے والوں کی بڑی دلیلِ دلیلِ تطبیق اور موازنہ ہے جو دو مجموعوں کے درمیان تفاوت کا مقتضی ہے وہ اس کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ غیر متناہی امور میں تفاوت محال ہے اس کی مثال یہ ہے کہ وہ حوادث کے دو مجموعے فرض کرتے ہیں مثلاً ایک مجموعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے زمانہ مستقبل یا ماضی میں غیر متناہی حد تک اور دوسرا مجموعہ ان حوادث کا جو طوفانِ نوح سے غیر متناہی حد تک ہے پھر ان دونوں مجموعوں کا آپس میں تقابل اور موازنہ کرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ یہ دو حال سے خالی نہیں ،یا تو وہ آپس میں برابر ہوں گے یا ایک دوسرے پر زیادہ ہوگا :
اگر پہلی صورت ہے یعنی آپس میں یہ متساوی فرض کر لیے جائیں تو لازم آئے گا کہ زائد مجموعہ ناقص کی طرح ہے اور یہ بات ممتنع ہے اس لیے کہ ان دونوں میں سے ایک دوسرے پر زائد اور بڑھ کر ہے کیونکہ طوفانِ نوح اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے درمیان بہت بڑا فصل پایا جاتا ہے ۔
اگر ان دونوں میں سے ایک کو ایک دوسرے پر زیادہ ہے تو غیر متناہی امور میں تفاضل لازم آئے گا اور یہ ممتنع ہے اور محدثین اور اہل کلام اور فلسفہ میں سے جو لوگ ان کے ساتھ اختلاف کرتے ہیں تو انہوں نے اس مقدمے کو ممنوع قرار دیا اور انہوں نے یہ کہا کہ ہم یہ بات تسلیم نہیں کرتے کہ اس جیسا تفاضل اس میں ممتنع ہے بلکہ ہم تو بالیقین یہ جانتے ہیں کہ زمانۂ مستقبل میں غیر متناہی حد تک طوفانِ نوح سے جو حواث کا مجموعہ ہے وہ اس مجموعہ سے بڑھ کر ہے جو زمانہ مستقبل میں غیر متناہی حد تک ہجرت کے زمانے تک ہے اور اسی طرح ہجرت کے زمانے سے لے کر زمانہ ماضی میں غیر متناہی حدتک جو مجموعہ ہے وہ اس مجموعے سے بڑھ کر ہے جو طوفانِ نوح سے زمانہ ماضی میں غیر متناہی حد تک اس کا مجموعہ ہے اگرچہ ان میں سے ہر ایک کے لیے کوئی ابتداء نہیں ہے اس لیے کہ اِس طرف اور اُس طرف میں جن افراد کے لیے کوئی انتہا نہیں تو وہ کوئی امرِ محصور ،محدود اور موجود فی الخارج نہیں تاکہ یہ کہا جائے کہ یہ مقدار کی نفی میں متماثل ہیں پس دونوں میں سے اکثر کیسے ہوگا بلکہ اس کا غیر متناہی ہونا اس معنی پر ہے کہ وہ دھیرے دھیرے دوام کے ساتھ وجود میں آتا ہے پس وہ کوئی مجتمع اور محصور نہیں ہے ۔
عدمِ تناہی میں اشتر اک مقدار میں تساوی کا تقاضہ نہیں کرتا الا یہ کہ ہر وہ امر جس کو غیر متناہی قرار دیا جاتا ہے وہ ایک محدود مقدار ہو اور یہ بات تو باطل ہے اس لیے کہ جو شے غیر متناہی ہوتی ہے اس کے لیے کوئی محدود حد اور مقدارِ معین نہیں ہوتی بلکہ وہ تو دگنے عدد کے بمنزلہ ہے جس طرح کہ ایک اور دس اور سو اور ہزار ان کا اس تضعیف میں اشتراک جو غیر متناہی ہے ،ان کی مقداروں کی تساوی کا تقاضہ نہیں کرتا ۔
جس طرح کہ یہ واضح ہے کہ ایک اور دس اور سو میں بڑا فرق ہے اسی طرح یہ بات بھی کہ یہ دونوں دو طرفین میں سے ایک طرف سے متناہی ہیں اور دوسرے طرف میں غیر متناہی ہیں جو طرفِ ماضی ہے اور ایسی صورت میں کسی قائل کا یہ کہنا کہ غیر متناہی میں تفاضل لازم آئے گا یہ غلط ہے اس لیے کہ یہ تو مستقبل میں حاصل ہوا اور یہی وہ ہے جو ہمارے قریب ہے اور یہ تو متناہی ہے اور پھر یہ دونوں اُس طرف میں جو ہمارے متصل اور قریب نہیں ،اس میں یہ غیر متناہی ہیں اور وہ ازل ہے اور یہ دونوں متفاضل ہیں اس طرف سے جو ہمارے قریب ہیں جو ابد کا طرف ہے۔
پس یہ کہنا صحیح نہیں کہ غیر متناہی میں تفاوت واقع ہوا اس لیے کہ یہ بات تو اس پر مشعر ہے کہ یہ تفاوت اُس جانب میں حاصل ہوا جس کے لیے کوئی آخر اور انتہاء نہیں حالانکہ صورت اس طرح نہیں بلکہ تفاوت تو اس جانب میں حاصل ہوا جو متناہی ہے ،جس کے لیے کوئی آخر ہے اس لیے کہ وہ تو منقضی (ختم ہونے والا )نہیں ۔
پھر قوم کے ہاں اس کی طرف سے دو جواب ہیں :
۱) ایک یہ کہ کسی قائل کا یہ کہنا ہے کہ جو حوادث گزر گئے ہیں بتحقیق وہ معدوم ہو گئے اور جو ابھی حادث اور پیدا نہیں ہوئے تو وہ موجود نہیں ہے پس ان جیسے امور میں تطبیق یعنی موازنہ صرف ذہن میں فرض کیا جا سکتا ہے خارج میں اس کی کوئی حقیقت نہیں جیسے کہ اعداد کی تضعیف یعنی ان کو دگنا کرنا اس لیے کہ ایک کی تضعیف دس کے دگنے سے کم ہے اور دس کا دگنا سو کے دگنے سے کم ہے اور ان تمام امور میں ان تمام تضعیفات کی کوئی انتہاء نہیں لیکن یہ خارج میں کوئی امر موجود نہیں ہے۔
جو شخص بھی اس کا قائل ہے تو وہ یہ کہتا ہے کہ غیر متناہی امور کا اجتماع ممتنع ہے جبکہ وہ وجود میں مجتمع ہو ں خواہ اس کے اجزاء متصل ہوں جیسے کہ اجسام یا منفصل ہوں جیسے کہ انسانوں کے نفوس اور وہ یہ کہتا ہے کہ جو شے بھی وجود میں مجتمع ہے وہ متناہی ہی ہوتا ہے اور ان میں بعض وہ بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ متناہی تو مجتمع ہے جس کا بعض بعض کے ساتھ متعلق ہے اس طور پر کہ اس کے لیے ایک ترتیبِ وضعی ہوتی ہے جیسے کہ اجسام ،جیسے کہ ترتیبِ طبعی ہوتی ہے ،جیسے کہ علل کے درمیان ۔
رہا وہ جس کا بعض بعض کے ساتھ متعلق نہ ہو جیسے کہ نفوس تو یہ بات اس میں واجب نہیں پس یہ دو قول ہوئے۔ رہے وہ لوگ جو غیر متناہی کے امتناع کے قائل ہیں اگرچہ وہ وجود کے بعد معدوم ہو جائیں تو ان میں سے بعض وہ ہیں جو اس کے زمانۂ ماضی اور مستقبل دونوں میں امتناع کے قائل ہیں جیسے کہ جہم بن صفوان اور ابوالھزیل علاف اور ان میں سے بعض وہ ہیں جنہوں نے ماضی اور مستقبل میں فرق کر دیا اور یہ بہت سے اہل کلام کا قول ہے اور انہوں نے یہ کہا کہ یہ اس لیے کہ جب تو یہ کہے کہ: لا أعطیک درہماالا أعطیک بعدہ درہما تو یہ بات تو ممکن ہے اور اگر تو یہ کہتے لا أعطیک درہماحتیٰ أعطیک قبلہ درہماتو یہ بات ممتنع ہے اور اسی پر ابو المعالی نے اپنے ارشاد میں اور اس کے امثال اہل نظر نے اعتماد کیا ہے ۔
یہ تمثیل اور موازنہ صحیح نہیں بلکہ صحیح موازنہ تو یہ ہے کہ تو یہ کہتا مثال میں ما أعطیتک درہماالا أعطیتک بعدہ درہما پس تو ایک زمانے ماضی کو دوسرے ماضی سے پہلے بنا دیتا جس طرح کہ تم نے ادھر ایک مستقبل کو دوسرے مستقبل کے بعد قرار دیا ۔
رہا کسی کائل کا یہ کہنا: لا أعطیک حتی أعطیک تو یہ مستقبل کی نفی ہے چنانچہ مستقبل میں اس کے ایک مثل حاصل ہوتا ہے اور اس سے پہلے بھی ،پس بتحقیق اس نے مستقبل کی نفی کر دی یہاں تک کہ کوئی مستقبل پایا جائے اور یہ بات ممتنع ہے ،ماضی کی نفی نہیں کی یہاں تک کہ اس سے پہلے کوئی دوسری ماضی پائی جائے اس لیے کہ یہ تو ممکن ہے اور وہ عطا ء جو زمانہ مستقبل میں ہوتی ہے اس کی ابتداء تو معطی سے ہے اور وہ مستقبل جس کے لیے کوئی ابتداء اور انتہاء ہے اس سے پہلے کوئی ایسی شے نہیں پائی جا سکتی جس کی کوئی انتہا نہ ہو اس لیے کہ غیر متناہی شے کا وجودِ متنا ہی ممتنع ہے ،لوگوں کے غیر متناہی کے سلسلے میں یہ چار اقوال ہوئے۔
تسلسل کی اقسام :
تسلسل دو قسم پر ہے :ایک مؤثر ات میں تسلسل ہے جیسے کہ علل اور معلولات کا تسلسل اور یہ فاعلوں اور مفعولات میں تسلسل ہے یہ تو باتفاق عقلاء ممتنع ہے اور اسی باب سے فاعلوں اور اس طرح خالقوں اورمحدثوں یعنی وجود دینے والی ذاتو ں کا تسلسل ہے ،مثال کے طور پر کوئی یہ کہے کہ یہ جو حادث ہے اس کے لیے ایک محدث ہے اور پھر اس محدث کے لیے کوئی اور محدث ہے غیر متناہی حد تک یہ تو ایک ایسی بات ہے کہ میرے علم کے مطابق اس کے امتناع پر عقلاء کا اتفاق ہے اس لیے کہ ہر محدث یعنی پیدا کرنے والی ذات بذاتِ خود پیدا نہیں ہوتی پس وہ اپنی ذات کے اعتبار سے معدوم ہے اور اپنی نفس کے اعتبار سے ممکن ہے لہٰذاجب اس قسم کی ذات میں سے غیر متناہی فرض کر لیا جائے تو مجموعہ موجود اورواجب بنفسہ نہیں رہا اس لیے کہ ایک محدث کا دوسرے محدث کے ساتھ اور ایک معدوم کا دوسرے معدوم کے ساتھ اور ایک ممکن کا دوسرے ممکن کے ساتھ اتصال اس کو فاعل کی طرف محتاج ہونے سے نہیں نکالتا بلکہ اس کی کثرت تو اس کے حاجت اور فاعل کی طرف افتقار کو بڑھا دیتی ہے اور ایسے محدث ذوات کا افتقار جو کہ بذاتِ خود ممکن ہو یہ کسی ایک کے افتقار سے زیادہ ہے جس طرح کہ دو کا عدم ایک کے عدم سے زیادہ اور بڑھ کر ہے پس اس میں تسلسل اور کثرت اس کو افتقار اور حاجت سے نہیں نکالتا بلکہ حاجت اور افتقار کے اعتبا ر سے اس میں اضافہ کرتا ہے پس اگر حوادثِ معدومہ اور ممکنہ کا ایک غیر متناہی سلسلہ فرض کر لیا جائے خواہ بعض کوبعض کے لیے معلول مانا جائے یانہ مانا جائے تو ان میں کوئی شے بھی نہیں پائے جائے گی مگر صرف ایسے فاعل کے ذریعے جو ان کے لیے صانع ہو اور ان کی اُس طبعیت سے خارج ہو جو اُن کے آپس میں مشترک ہے اور افتقار اور احتیاج کو مستلزم ہے پس اس کا فاعل معدوم نہیں ہوگا ،نہ محدث ہوگا اور نہ ایسا ممکن ہوگاجو وجود اور عدم دونوں کو قبول کرے بلکہ وہ تو صرف اور صرف موجود بنفسہ ہوگا واجب الوجود ہوگا اور عدم کو قبول نہیں کرے گا اور قدیم ہوگا نہ کہ حادث اس لیے کہ یقیناً ہر وہ شے اس طرح نہ ہو تو بتحقیق وہ ایسی ذات کی طرف محتاج ہوتی ہے جو اسے پیدا کرے ورنہ وہ موجود ہی نہیں ہوتی۔
رہا آثار میں تسلسل جیسے کہ ایک حادث کا دوسرے حادث کے بعد وجود تو اس میں تین گذشتہ اقوال ہیں :یعنی ماضی اور مستقبل دونوں میں اس کا ممنوع ہونا جیسے جہم اور ابوالہزیل علاف کا قول یا صرف زمانہ ماضی میں اس کا ممنوع ہونا جیسے بہت سے اہل کلام کا قول یا پھر ماضی اور مستقبل دونوں میں اس کا جواز اور امکان۔ جیسے کہ اکثر محدثین اور فلاسفہ کا قول ہے اور یہ اس مقام کے علاوہ ایک اور جگہ تفصیل سے بیان ہوا ہے ۔
دور کی اقسام :
ایک دورِ قبلی کہلاتا ہے اور دوسرا اقترانی پہلے دور کا مطلب یہ ہے کہ یہ امر نہیں پایا جائے گا مگر اِس دوسرے کے بعد اوریہ(دوسرا) نہیں پایا جائے گا مگر پہلے کے بعد اور یہ تو باتفاق عقلاء ممتنع ہے اور رہا دورِ اقترانی جیسے کہ ان متلازمین کے درمیان دور جو زمانۂ واحد میں پائے جاتے ہیں جیسے کہ باپ ہونے اور بیٹے ہونے کی نسبت اور اس طرح دو شیئین میں سے ایک کا دوسرے سے اوپر ہونا اور دوسرے کا نیچے ہونا اور دو شیئین میں ایک کا دائیں طرف اور دوسرے کا بائیں طرف ہونا اور ایسے ہی دیگر امور متلازمہ جو صرف معاً(ایک ہی وقت میں )پائے جاتے ہیں تو یہ دور ممکن ہے اور جب ان میں سے کوئی ایک دوسرے کے لیے فاعل یا فاعل کا تمام نہیں ہوتا بلکہ فاعل ان دونوں کا کوئی غیر ہوتا ہے تو یہ بات جائز اور ممکن ہے ،رہا یہ کہ جب ان میں سے ایک دوسرے کے لیے فاعل ہو یا اس کے فاعلیت کے تمام میں سے ہو یعنی اس کا تتمہ ہو تو پھر یہ دور ممتنع ہو جاتا ہے۔
دو خداؤں کے وجود کا امتناع :
اسی طرح دو ایسے رب پایا جانا بھی ممتنع ہے جو مستقل بالذات ہوں یا آپس میں مدد گار ہوں ،رہی پہلی صورت کہ مستقل بالذات ہوں تو اس لیے کہ ایک کا پورے عالم کے نظام کے ساتھ استقلال (یعنی انفردااور اکیلئے ہونا دوسرے کی طرف احتیاج کے بغیر )اس بات کو واجب کر دیتا ہے کہ دوسرا اس کے ساتھ اس میں شریک نہیں پس جب دوسرا مستقل ہے تو یہ بیک دوامور کو مستلزم ہے ایک یہ کہ ان میں سے ہر ایک نے اس پورے عالم کو (دوسرے کے اشتراک کے بغیر )وجود دیا ہے دوسرے یہ کہ ان میں سے ہر ایک پورے عالم کو (دوسرے کی شرکت کے بغیر) وجود نہیں دیا اور یہ جمع بین النقیضین ہے ۔
رہی دوسری صورت کہ وہ آپس میں باہم مدد گار ہوں تو اگر کہا جائے کہ ان میں سے ہر ایک مستقل بذاتہ قدرت رکھتا ہے کہ اس حال میں کہ دوسرا بھی قدرت رکھتا ہے تو قدرت کا دو نقیضین کے اجتماع پر دو نقیضین پر اجتماع لازم آئے گا اور یہ ممتنع ہے اس لیے کہ ایک کا مستقل قدرت کی حالت میں دوسرے کی مستقلاً قدرت ممتنع ہے اور یہ دونوں حالتِ واحدہ میں مستقلاً قادر نہیں ہوسکتے اس لیے کہ یہ تو دو دفعہ حالتِ واحدہ میں اس کے پائے جانے کاتقاضا کرتا ہے لیکن یہ بات ممکن ہے کہ اس کو فرض کر لیا جائے جب کہ دوسرا فاعل نہ ہو اور اس طرح بالعکس یعنی پہلا فاعل ہو دوسرا نہ ہو،دوسرا فاعل ہو پہلا نہ ہو پس اس میں ہر ایک کی قدرت دوسرے کے فعل کے عدم کے ساتھ مشروط ہے پس ان میں سے ہر ایک کے فعل کی حالت میں دوسرے کی قدرت ممتنع ہوئی ۔
اگر کہا جائے کہ دونوں متعاونین یعنی مددگار مستقلاً حالتِ واحدہ میں قادر نہیں ہوتے جس طرح کہ مخلوقات میں سے دو مددگار ہوتے ہیں تو یہ بات بھی باطل ہے جیسے طرح کہ عنقریب آئے گا اور مقصود تو یہ ہے کہ اگر وہ دونوں مستقل بذاتہ قادر ہیں تو یہ بات ممکن ہے کہ یہ ایک ذات اپنے مقدور کو کرے اور یہ دوسرا اپنے مقدور کو نہ کرے پس نقیضین کا اجتماع لازم آئے گا مثلاً ایک بارش برسانا چاہے گا اور وہ اس کو وجود دے گا اور دوسرا اس کے عدم کو وجود دے گا ورنہ تو لازم آئے گا کہ ایک کی قدرت دوسرے سے مشروط ہو اور یہ تو ممتنع ہے اور یہ بات کہ ایک دوسرے کے مراد کی ضد کا ارادہ کرے پس یہ ایک اللہ کسی جسم کی تخلیق کا ارادہ کرے گا اور دوسرا اس کے تسکین کا اور دو ضدین کا اجتماع تو ممکن ہے اور اگر دونوں میں سے کسی ایک کے لیے فعل کا ارادہ دوسرے کی موافقت کے بغیر ممکن نہ ہو تو وہ اکیلے عاجز کہلائے گا اور وہ قادر نہیں ہوگا مگر دوسرے کے موافقت کے ذریعے ۔
اسی طرح اگر یہ بات فرض کر لی جائے کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی مستقلاً قادر نہیں بلکہ وہ صرف دوسرے کی معاونت اور قدر ت کے ذریعے معاون بنتا ہے جیسے کہ مخلوقات میں ہوتا ہے یا یہ کہا جائے کہ ان میں سے ہر ایک مستقلاً فعل کے کرنے پر قادر ہے دوسرے کے تخلیہ کی شرط پر یعنی کہ وہ اس کے اور فعل کے درمیان حائل بننے سے ہٹ جائے ح،ائل نہ بنے اور ان تمام صورتوں میں لازم آئے گا کہ ایک کی قدرت دوسرے کی اقدار یعنی تمکین سے حاصل ہو اور یہ امرممتنع ہے اس لیے کہ یہ بات تو فاعلوں اور مؤثرات میں دور کی جنس میں سے ہوا اس لیے کہ بے شک جس امر کے ذریعے فاعل کی فاعلیت تام ہوتی ہے اس میں دور ممتنع ہوتا ہے جس طرح کہ خود ذاتِ فاعل میں دور ممتنع ہے اور قدرت تو فعل کے اندر شرط ہے پس فاعل صرف قدرت ہی کے ذریعے فاعل بنتا ہے لہٰذا جب اس ایک ذات کی قدرت وہ دوسرے کی قدرت ہی سے حاصل ہوتی ہے اور دوسرے کی قدرت صرف اس کی قدرت کے ذریعے حاصل ہوتی ہے تو یہ دور ممتنع ہوا۔ جس طرح کہ اگر اس ایک کی ذات کا حصول اور وجود دوسرے پر موقوف ہوتا اور دوسرے کی ذات کا حصول اور وجود پہلے کی ذات پر موقوف ہوتا تو یہ بھی ممتنع دور کہلاتا کیونکہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کے لیے فاعل ٹھہرا بخلاف اس صورت کے کہ ایک دوسرے کے لیے لازم ہو یا اس کے لیے شرط ہو اور فاعل ان دونوں کے علاوہ کوئی اور ذات ہو تو بے شک یہ صورت جائز ہے جس طرح کہ باپ اور بیٹا ہونے میں ذکر کر دیا گیا ہے اور ایسے ہی وہ ایک ذات جو دو ضدین میں سے ایک کا ارادہ کرتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ وہ دوسرے ضد کا ارادہ نہ کرے تو بے شک یہ اس کے قادر ہونے میں قادح نہیں ،رہی یہ صورت کہ وہ اس وقت تک قادر ہی نہیں ہوتا جب تک کہ دوسرا اس کی مدد کرے یا یہ کہ اس کے اور مقدور کے درمیان تخلیہ کر دے یعنی حائل نہ بنے اور فعل سے اسے نہ روکے تو بے شک یہ اس کے اکیلے قادر ہونے میں قاطع ہے اوریہ تمام معانی اس مقام کے علاوہ ایک اور جگہ پر تفصیل سے بیان کر دئے گئے ہیں لیکن چونکہ اکثر اس جیسے مشکل مواضع میں دور اور تسلسل کا کلام ذکر کر دیا جاتا ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی صفات اور افعال کے دلائل سے متعلق ہے اور لوگوں میں سے بہت سے بسا اوقات ان فروق کی طرف صحیح اور سیدھی راہ نہیں پاتے جو کہ امورِ متشابہ کے درمیان ثابت ہیں ۔
جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کسی صحیح دلیل کو غلط گمان کیا جاتا ہے یا ایسی شے کو دلیل سمجھا جاتا ہے جو بالکل دلیل ہی نہیں ہوتا یا وہ انسان حیرت میں پڑ جاتا ہے اور توقف اختیار کر لیتا ہے اور حقیقی حال اس پر مشتبہ ہو جاتا ہے یا کسی ایسے طویل اور مشکل کلام کو سنتا ہے جس کے معنی کو وہ نہیں سمجھتا یا وہ ایسے امور میں کلام کرتا ہے جن کی حقیقت ہی متصور نہیں تو ہم نے یہاں پر ایک لطیف طریقے سے اس بات پر تنبیہ کر دی کیونکہ یہ مقام اس کی تفصیل بیان کرنے کا نہیں ۔