Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

شیعہ اور معتزلہ کی خطاؤوں کا بیان

  امام ابنِ تیمیہؒ

شیعہ اور معتزلہ کی خطاؤوں کا بیان

ان اخطاء کا بیان جن میں معتزلہ اور شیعہ پڑ گئے ہیں جن کا سبب ان کا یہ گمان ہے کہ تسلسل ایک ہی نوع ہے.

اس وجہ سے بہت سے لوگ بہت سے بہت ساری غلطیوں کا شکار ہوگئے ۔اور جنہو ں نے کہا کہ قرآن مخلوق ہے اور اللہ تعالیٰ آخرت میں نہیں دیکھے جا سکتے جو کہ معتزلہ اور شیعوں کا مسلک ہے ان کو اس مقصد نے اس گمان میں ڈال دیا کہ تسلسل نوعِ واحد ہے پس اس کی وجہ سے انہوں نے یہ بات بھی اپنے ذمے لے لی کہ خالق تعالیٰ متکلم نہیں تھا اور نہ متصرف بالذات تھا یہاں تک کہ اس نے ایسا کلام پیدا فرما دیا جو اس کی ذات سے منفصل اور جدا تھا اور انہوں نے اللہ کے کلام کے خلق کو آسمانوں اور زمینوں کے خلق کی طرح قرار دیا پس جب لوگوں نے ان سے یہ مطالبہ کیا کہ حادث کے لیے تو کسی سببِ حادث کا ہونا ضروری ہے تو پھر یہ مکابرہ (ہٹ دھرمی )میں پڑ گیا اور انہوں نے کہا کہ قادر کے لیے یہ بات ممکن ہے کہ وہ دو مثلین میں سے ایک کو دوسرے پر بغیر کسی مرجح کے ترجیح دے جس طرح کہ اُس شخص کا حال ہے جو بھوکا ہو کہ وہ دو روٹیوں میں سے کسی ایک کو بلا مرجح کے ترجیح دے کر کھا لیتا ہے اسی طرح جو شخص بھاگنے والا ہے وہ دو راستوں میں سے کسی ایک کو بلا مرجح کے ترجیح دیتا ہے اور جمہورِ عقلاء نے توکہا کہ ہم بداہۃ یہ بات جانتے ہیں کہ اگر دو مثلین میں سے کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح دینے کے لیے کوئی مرجحِ تام نہ پایا جائے تو رجحان ممتنع ہوتا ہے ورنہ تو من کل وجہ تصاویر کے ساتھ رجحان ممتنع ہے۔

ترجیح بلا مرجح کا شیعہ اور معتزلہ کا عقیدہ

معتزلہ اور شیعوں کا ترجیح بلا مرجح کو جائز قرار دینے نے فلاسفہ کو عالم کے قدم کے قول پر قدرت دے دی

فلاسفہ نے اس کو عالم کے قدم میں حجت قرار دیا پس انہوں نے کہا کہ بغیر کسی سببِ حادث کے توحدوث ممتنع ہے پس لازم آئے گا کہ وہ قدیم ہو اور کسی موجب بالذات سے صادر ہو اور یہ کئی اعتبارات سے معتزلہ کی بہ نسبت زیادہ گمراہ ہیں ۔ مثال کے طور پر ان کے اس قول کا اس بات کو مستلزم ہونا کہ کوئی بھی شے حادث نہ ہو ۔

اس اعتبار سے کہ ان کا قول یہ اس بات کو متضمن ہے کہ ممکنا ت کے لیے کوئی بھی فاعل نہ ہو اس لیے کہ فعل بغیر احداث کے غیر محدود ہے ۔ اس جہت سے بھی کہ ان کے قول میں اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات میں نقائص کے ساتھ موصوف کرنا لازم آتا ہے ایسے ہی اس کی صفات اور افعال میں جن کو بیان کرنا ایک طویل کلام کا تقاضہ کرتا ہے ۔

اس جہت سے بھی کہ عالم بداہۃً اور ضرورتاً حوادث کو مستلزم ہے اس لیے کہ حوادث عالم میں نظر آتے ہیں مشاہد ہیں ،پس یا تو یہ وہ اس کے لیے لازم ہوں گے یا اس کے اندر حادث ہوں گے یا موجب بالذات جو کہ اپنے معلول کو مستلزم ہے اس سے کوئی بھی شے حادث نہیں ہوتی پس لازم آتا ہے کہ حواث کے لیے کسی بھی حالت میں کوئی فاعل نہ ہو اور یہ ایسے حوادث کو جائز اور ممکن سمجھتے ہیں جو غیر متناہی ہوں جیسے کہ ان کی اس بات میں جمہورِ محدثین نے موافقت کی ہے اور ایسی صورت میں یہ بات ممتنع نہیں کہ عالم میں سے ہر شے حادث بنے اور اللہ تعالیٰ تو ازل سے صفاتِ کلام کے ساتھ موصوف ہیں ،ازل سے متکلم ہیں جب چاہیں فعل پر قادر ہیں فعل اورر مفعول میں سے کوئی بھی شے نہیں ہے مگر وہ حادث ہی ہے اس لیے کہ ہر فعلِ معین کے بارے میں یہ ضروری ہے کہ وہ مسبوق بالعدم ہو ورنہ تو اگر یہ بات فرض کر لی جائے کہ فاعل موجب بالذات ہے تو اس کے ساتھ اس کا مفعول لازم ہے اور اس سے کوئی بھی شے حادث نہیں ہوگی اور یہ حس اور مشاہدہ کے ساتھ مکابرہ ہے۔

اگر اس کو موجب بالذات نہ فرض کیا جائے یعنی یہ کہا جائے کہ وہ موجب بالذات نہیں تو پھر اس کے مفعولات میں سے کوئی بھی شے اس کے ساتھ مقارن نہیں ہوگی اگرچہ وہ دائم الفعل ہے اس لیے کہ نوعِ فعل اس کے ذات کے لوازمات میں سے ہے ،رہے افعال اور مفعولاتِ معینہ تووہ اس کی ذات کے لوازم نہیں بلکہ ان میں سے ہر ایک اپنے ماقبل کے ساتھ معلق اور متصل ہے کیونکہ زمانِ واحد میں حوادث کا اجتماع ممتنع ہے پس وہ فعل جو  صرف حادث ہی بن سکتا ہے اس کے بارے میں یہ امر ممتنع ہے کہ وہ زمانِ واحد میں مجتمع ہو چہ جائے کہ اس کے اجزاء میں سے ہر ہر جزء ازلی بنے بلکہ وہ توشیئاً فشیئاً موجود ہوتا ہے ۔

رہا وہ فعل جو صرف قدیم ہی بنتا ہے تو یہ تو اولاً ممتنع لذاتہ ہے اس لیے کہ فعل اور مفعولِ معین جو کہ فاعل کے ساتھ مقارن ہو وہ ممتنع ہے پس حوادث میں سے کوئی شے بھی حادث نہیں ہوگا کیونکہ اگر فعلِ قدیم کوفعلِ تام فرض کر لیا جائے تو اس کے ساتھ اس کا مفعول لازم ہے اور اس موضوع پرہم نے تفصیلی کلام اس مقام کے علاوہ بیان کر دیا ہے اور ایک ایک کر کے ان میں سے ہر ایک کے اختلاف کو بیان کر دیا ہے اور یہاں تو مقصود تعلیل کے اصل مسئلہ پر بنیادپر تنبیہ کرنا ہے اس لیے کہ اس بدعتی نے اہل سنت کے اوپر تشنیع اور زبان درازی کی ہے پس اس نے ایسے مسائل ذکر کیے ہیں جن کی نہ کوئی حقیقت اس نے ذکر کی ہے اور نہ ادلہ ذکر کیے ہیں اور اس کو ایسے طریقے پر وہ نقل کرتا ہے جو ایک فاسد طریقہ ہے

وہ بات جو وہ اہل سنت سے نقل کرتا ہے وہ خطا اور جھوٹ ہے یا ان کے اوپر بہتان ہے یا ان میں سے اکثر کے اوپر بہتان ہے اور یہ جو بات فرض کی گئی ہے کہ وہ کلام ان میں سے بعض کے اوپر صادق ہے تو اُن کا قول اس مسئلہ میں اُس کے قول سے بہتر ہے اس لیے کہ اس کی اکثر زبان درازی تو اشعریہ اور ان کے موافقین پر ہے اورہر اس شخص کے نزدیک اشعریہ ،معتزلہ اور روافض سے بہتر ہیں جو کچھ دیانت اور عقل رکھتا ہے اور اپنے اقوال میں اللہ سے ڈرتا ہے ۔

اگر کہا جائے کہ ان کے کلام میں اور ان کے موافقین کے کلام میں جو کہ آئمہ اربعہ کے اصحاب میں سے ہیں ،بعض باتیں وہ ہیں جو بہت ضعیف ہیں تو ان ضعیف باتوں میں سے اکثر وہی ہیں جو انہوں نے معتزلہ سے حاصل کی ہیں پس اس باب میں خطاء اور غلطی کی بنیاد وہی ہے اور ان میں سے بعض اخطاء تو وہ ہیں جن میں وہ پڑ گئے اس وجہ سے کہ معتزلہ نے خطاء میں افراط(حد سے تجاوز) اختیار کیا تو انہوں نے اس کے مقابلے میں اُن کے رد کے لیے افراط اختیار کیا جیسے کہ وہ لشکر جو کفار کے ساتھ قتال میں مصروف ہو بسا اوقات اس سے افراط اور حد سے تجاوز پایا جاتا ہے اور وہ ان کفار کے مقابلے کے لیے اور ان کے شان و شوکت کو توڑنے کی غرض سے ہوتا ہے اور یہ امر اپنے مقام پر تفصیل سے بیان ہو چکا ہے ۔