Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

اللہ تعالیٰ کے اپنے نفس پر واجب یا حرام کرنا اور عقیدہ اہلِ سنت والجماعت

  امام ابنِ تیمیہؒ

اللہ تعالیٰ کے اپنے نفس پر واجب یا حرام کرنا اور عقیدہ اہل سنت والجماعت

دوسرا مسئلہ :....ان کے مابین اس بات میں اختلاف کیا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کو اس بات کے ساتھ موصوف کیا جاسکتا ہے کہ اس نے اپنے آپ پر کسی شے کو واجب کر دیا یا اپنے آپ پر کسی شے کو حرام کر دیا۔ یا وجوب کا معنی صرف یہی ہے کہ وہ اس کے وقوع کی خبر دے اور تحریم کا صرف یہی معنی ہے کہ وہ اس کے عدمِ وقوع کی خبر دے ؟

پس ایک گروہ نے تو دوسرے قول کو اختیار کر لیا اور یہ ان لوگوں کا قول ہے جو اللہ تعالیٰ پر اس امر کا اطلاق کرتے ہیں کہ اس پر کوئی بھی شے واجب نہیں اور نہ اس پر کوئی شے حرام ہے اور دوسرے گروہ نے کہا کہ اللہ نے خود ہی اپنی ذات پر واجب کر دیا یا خود ہی اپنی ذات پر کسی شے کو حرام کر دیا ہے جس طرح قرآن و سنت میں سے کئی آیات اس پر شاید ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :

﴿ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ﴾ (الانعام:۵۴)

’’اس نے رحمت کو اپنی ذات پر لکھ رکھا ہے۔‘‘[واجب کردیا ہے]

نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے :

﴿ وَ کَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾(روم ۴۷)

’’ اور مومنوں کی مدد کرنا ہم پر لازم ہی تھا۔‘‘

اور ایک حدیثِ قدسی میں ہے :

’’اے میرے بندو ! میں نے اپنی ذات پر ظلم کو حرام قرار دیا ہے؛ اور اسے تمہارے درمیان بھی حرام کرتا ہوں ‘ [پس تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرنا]۔‘‘[صحیح مسلم۔ کتاب البروالصلۃ۔ باب تحریم الظلم (حدیث:۲۵۷۷)]

رہا یہ کہ بندے کسی شے کو اُس پر واجب کر دیں یا حرام کر دیں تو اہل سنت کے نزدیک بالاتفاق یہ ممتنع ہے۔ اور جس نے یہ کہا کہ اس نے اپنی ذات پر اس بات کو واجب کر دیا یا اپنی ذات پر اس بات کو حرام کر دیا ہے تو یہ وجوب اور تحریم ان کے نزدیک شریعت سے معلوم ہوئی ۔رہا یہ کہ کیا یہ عقل سے معلوم ہو سکتا ہے؟ تو اہل سنت کے اس میں دونوں قول ہیں ۔

جب یہ سارے کے سارے اقوال اہل سنت کے معروف ہیں بلکہ ان میں سے صرف ایک ہی مذہب والوں کی طرف سے یہ معروف ہے جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ اور ان کے علاوہ دیگر بعض آئمہ کامذہب؛ تو جو اہل سنت میں سے اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ پر کوئی شے واجب نہیں ہو سکتی نہ اس پر کوئی شے حرام ہو سکتی ہے تو ان کے نزدیک یہ بات بھی ممتنع ہے کہ وہ کسی واجب کام میں کوتاہی کرے یا کسی قبیح کام کا ارتکاب کرے۔

جس نے یہ کہا کہ اس نے اپنی ذات پر کسی امر کو واجب کر دیا یا اپنی ذات پر کسی امر کو حرام کر دیا تو وہ سب کے سب اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پر جس امر کو لازم کر دیا اس میں اس کے کرنے میں وہ کوتاہی نہیں فرماتے اور جس کو اپنے آپ پر ممنوع قرار دیا تو وہ کرتے نہیں ہیں ۔

اس سے یہ واضح ہوگیا کہ اہل سنت میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو یہ کہتا ہو کہ اللہ تعالیٰ سے اخلال واجب کا ارتکاب ہوتا ہے ؛ یا وہ کوئی قبیح فعل سر انجام دیتا ہے ۔ لیکن یہ بدعتی [جھوٹ گھڑنے میں ]اپنے اسلاف کے مسلک پر چلا ہے ۔ یہ اہل سنت سے نقل کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے متعلق اخلال بالواجب اور فعل قبیح کے ارتکاب کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔ اور یہ اس نے دو گروہوں میں سے ایک سے ‘ جو یہ کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ پر کچھ بھی واجب نہیں ہوتا ؛اور اسے یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ تمام چیزیں ترک کردے؛ بطور الزام نقل کیا ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ : اہل سنت والجماعت کہتے ہیں کہ: ’’ اس سے کوئی قبیح چیز نہیں ہوتی؛ تو اس نے کہا : یہ اللہ تعالیٰ کے فعل قبیح کو جائز سمجھتے ہیں ۔یعنی اللہ تعالیٰ ایسے افعال کا ارتکاب کرتا ہے جو ان کے نزدیک قبیح ہوتے ہیں ‘ یا وہ فعل جوبندوں کے افعال میں سے قبیح ہوتے ہیں ۔ اس نے یہ بطریق الزام نقل کیا ہے ‘ جس کا عقیدہ وہ خود رکھتا ہے ۔

اہل سنت والجماعت تقدیر پر ایمان رکھتے ہیں ۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے وہ ہوتا ہے ‘ اور جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا ۔ اور ہدایت اس کے فضل سے ملتی ہے ۔ جب کہ قدریہ کہتے ہیں :

’’ اللہ تعالیٰ پر واجب ہے کہ وہ بندوں کے ساتھ ہر وہ کام کرے جس کے متعلق وہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ پر واجب ہے ‘اور اس کے خلاف کرنا اللہ تعالیٰ پر حرام ہے۔‘‘

پس اس طرح وہ اللہ تعالیٰ پر کچھ چیزیں واجب کرتے ہیں ‘ اور کچھ چیزیں حرام ٹھہراتے ہیں ۔ حالانکہ ان چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پر واجب نہیں کیا۔اور نہ ہی از روئے شریعت یاعقل ان کا واجب ہونا معلوم ہوتا ہے۔پھر یہ اپنی طرف سے ان لوگوں پر حکم لگانے لگ جاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ پر کسی چیز کو واجب نہیں ٹھہراتے؛ اور کہتے ہیں :اللہ تعالیٰ اخلال بالواجب کا ارتکاب کرتا ہے؛حالانکہ یہ مذہب کے نقل کرنے میں تلبیس و تحریف والا کام ہے ۔ان لوگوں کے عقیدہ کی بنیاد قدریہ کا عقیدہ ہے جس میں وہ خلق افعال میں اللہ تعالیٰ کو مخلوق سے مشابہ قرار دیتے ہیں ۔ پس پھر اس میں جو چیز اچھی لگے ‘ اسے بندے کا حسن قراردیتے ہیں ‘ اور جو چیز بندے سے قبیح تصور ہو وہ اللہ کے لیے بھی قبیح سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ اس طرح کی مثال بیان کرنا باطل ہے ۔