Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

کیا اللہ تعالیٰ کے افعال معلَّل بالحِکَم ہیں ؟

  امام ابنِ تیمیہؒ

کیا اللہ تعالیٰ کے افعال معلَّل بالحِکَم ہیں ؟

[اعتراض]:شیعہ کہتے ہیں :’’اہل سنت کہتے ہیں :’’اللہ تعالیٰ کسی غرض کی وجہ سے کوئی کام نہیں کرتا۔بلکہ ان کے یہاں تمام افعال باری تعالیٰ کسی غرض و حکمت پر مبنی نہیں ہوتے؛ اور نہ ہی ان میں سرے سے کوئی حکمت پائی جاتی ہے۔‘‘

[جواب]: اللہ تعالیٰ کے افعال و احکام کے معلَّل بالحکمت ہونے میں اہل سنت کے دو قول ہیں ۔اور مذاہب اربعہ میں سے ہر مذہب میں اس مسئلہ میں نزاع پایا جاتاہے۔ اکثر علماء رحمہم اللہ فقہیات پر تبصرہ کرتے وقت تعلیل احکام کو تسلیم کرتے ہیں ۔جبکہ علماء اصول میں سے بھی بعض بصراحت تعلیل کے معترف ہیں اور بعض اس کا انکار کرتے ہیں ۔ جمہوراہل سنت والجماعت اللہ تعالیٰ کے افعال و احکام میں حکمت اور تعلیل کو ثابت مانتے ہیں ۔ 

رہا لفظ غرض تو معتزلہ اس کی تصریح کرتے ہیں اور وہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کی امامت کے قائل ہیں ۔

رہے فقہاء وغیرہ تو ان کے نزدیک یہ لفظ ایک گونہ نقص کو بتلاتا ہے۔ یا تو ظلم کو یا پھر حاجت کو۔ کیونکہ اکثر لوگ جب یہ کہتے ہیں کہ فلاں کو فلاں سے فلاں غرض ہے یا اس نے فلاں غرض سے یہ کام کیا ہے تو ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اس نے یہ کام اپنی مذموم خواہش و ارادہ سے کیا ہے۔ جبکہ رب تعالیٰ اس سے بری ہے۔ سو اہل سنت نے حکمت، رحمت اور ارادہ وغیرہ کی تعبیر اس لفظ سے کی جو نص میں آتا ہے اور تقدیر کوماننے والے معتزلہ بھی غرض کے لفظ کی تعبیر کرتے ہیں کہ وہ ایک غرض سے یہ کام کرتا ہے۔ جیسا کہ سنت کی منسوب ایک جماعت کے کلام میں بھی یہ بات اور تعبیر پائی جاتی ہے۔

شیعہ کا یہ کہنا کہ:’’ اہل سنت کے نزدیک اللہ ظلم و عبث کا مرتکب ہو سکتا ہے۔‘‘

[اگر اس سے مراد بذات خود[اس فعل کا ]ظلم وعبث ہونا ہے ‘ تو پھر بھلے رافضی نے یہ جملہ بطور الزام کہا ہو؛ یہ فقط بہتان اور من گھڑت ہے] ۔اہل اسلام کوئی بھی ایسا نہیں جو کہتا ہو کہ اللہ تعالیٰ ظلم و عبث کا مرتکب ہو سکتا ہے۔[ ایسی بات کسی مسلمان کے منہ سے نہیں نکل سکتی]۔ تَعَالٰی اللّٰہُ عَنْ ذٰلِکَ عُلُوًّا کَبِیْرًا]

بلکہ اہل سنت اور شیعہ میں سے جو اس بات کے قائل ہیں کہ وہ ہر شے کا خالق ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہی بندوں کے افعال کو پیدا کیا ہے؛ اور جملہ اشیاء اور مخلوقات میں سے بعض ایسی بھی ہیں جو دوسروں کے لیے مضر ہیں انہی میں سے فاعل کا وہ فعل بھی ہے جو ظلم ہے۔ اگرچہ یہ اس فعل کے خالق کی طرف ظلم نہیں ہے۔ جیسا کہ اگر اس نے بندے کے فعل صوم کو پیدا کیا ہے تو اس سے وہ خود صائم نہیں بن جاتا۔ اسی طرح طواف کے فعل کو پیدا کر کے وہ طائف نہیں ۔ رکوع و سجود کو پیدا کر کے وہ راکع اور ساجد نہیں ۔ جوع و عطش[بھوک و پیاس] کو پیدا کر کے وہ بھوکا پیاسا نہیں ۔ پس رب تعالیٰ جب کسی محل میں کوئی صفت یا فعل پیدا فرماتا ہے تو اس سے وہ خود اس صفت یا فعل والا نہیں بن جاتا۔ کیونکہ اگر یہی بات ہوتی تو وہ جملہ اعراض کے ساتھ متصف ہوتا۔

لیکن افسوس کہ یہاں آ کر جہمیہ معتزلہ اور ان کے پیرو کار شیعہ پھسل گئے جو اس قول کے قائل ہیں کہ اللہ کا کلام وہی ہے جسے وہ غیر میں پیدا کرتا ہے۔ اور اس کا فعل وہی ہے جو اس کی ذات سے منفصل ہو۔ ان کے نزدیک قول و فعل میں سے کچھ بھی اس کی ذات کے ساتھ قائم نہیں ہوتا۔ ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کا اپنے فرشتوں سے، اپنے بندوں سے اور جنابِ موسیٰ سے کلام اور اس کا بندوں پر نازل کیا جانے والا کلام یہ غیر میں پیدا کیا ہوا ہے ناکہ اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے۔

ان کی بات کا جواب یہ ہے کہ جب کوئی صفت کسی محل کے ساتھ قائم ہو جاتی ہے تو اب اس کا حکم اسی محل کا ہے ناکہ غیر محل کا ۔پس جب اس نے ایک حرکت کو ایک محل میں پیدا کیا؛ تو اس حرکت کے ساتھ متحرک وہی محل ہو گا؛ نہ کہ اس حرکت کا خالق اس کے ساتھ متحرک ہو گا۔ اسی طرح اگر اس نے کسی محل میں کوئی رنگ، بو، علم یا قدرت پیدا کی ہے تو رنگ و بو والا یا علم و قدرت والا، وہ محل ہو گا نہ کہ ان چیزوں کا خالق۔ اسی طرح اگر اللہ نے ایک محل میں ایک کلام کو پیدا کیا ہے تو اس کلام والا، وہ محل ہو گا ناکہ اس کلام کا خالق متکلم ہو گا۔ لہٰذا اگر شجرہ سے آنے والا یہ کلام کہ ’’اِنَّنِیْ اَنَا اللّٰہُ‘‘ (طہ: ۱۴) 

’’بیشک میں اللہ ہوں ۔‘‘

جسے موسیٰ علیہ السلام نے سنا تھا، اسے اللہ نے اس درخت میں پیدا کیا تھا تو اب متکلم یہ شجرہ ٹھہرا نہ کہ اس کلام کا خالق۔

معتزلہ اور ان کے پیروکار شیعہ حضرات نے اس پر افعال کے ذریعے استدلال کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے: جیسا کہ وہ ذات اپنے عدل و احسان کے ساتھ عادل اور محسن ہے جو غیر کے ساتھ قائم ہے، اسی طرح وہ ایسے کلام کے ساتھ متکلم بھی ہے جو غیر کے ساتھ قائم ہے اور یہ ان کا اس کے خلاف حجت ہے افعال کو مانتا ہے جیسے اشعری وغیرہ۔کیونکہ اس کے نزدیک ایسا کوئی فعل نہیں ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہو۔ بلکہ وہ کہتا ہے: خلق ہی مخلوق ہے جو اس کا غیر نہیں ہے۔ یہ امام مالک، امام احمد اور امام شافعی کے اصحاب میں سے ایک جماعت کا قول ہے اور قاضی ابویعلی کا بھی پہلا قول یہی ہے۔ لیکن جمہور یہ کہتے ہیں کہ خلق یہ مخلوق کا غیر ہے اور یہی حنفیہ کا مذہب ہے۔ بغوی رحمہ اللہ نے اہل سنت سے اسی کو نقل کیا ہے اور اسی کو ابوبکر کلاباذی نے ’’التعرف لمذہب اہل التصوف‘‘ میں صوفیا سے اسی قول کو ذکر کیا ہے۔ امام احمد کے اصحاب میں سے حضرات ائمہ جیسے ابوبکر عبدالعزیز ، ابن حامد اور ابن شاقلا وغیرہ کا بھی یہی قول ہے اور قاضی ابویعلی کا دوسرا قول بھی یہی ہے اور اس کے اکثر اصحاب نے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے جیسے ابی الحسنین وغیرہ۔ جبکہ ان کی ایک جماعت نے دوسرا قول اختیار کیا ہے جن میں ابن عقیل وغیرہ داخل ہیں ۔

جب یہ اشعری وغیرہ کا قول تھا؛ تو وہ بھی سارے اہل سنت کے ساتھ ہے جو یہ کہتے ہیں کہ : ’’اللہ بندوں کے افعال کا خالق ہے۔‘‘ تو اشعری کو پریہ قول بھی لازم آیا کہ ’’بندوں کے افعال خالق کے افعال ہیں ۔‘‘

کیونکہ اشعری کے نزدیک اللہ کا فعل اس کا مفعول ہے۔ پس اشعری نے بندوں کے افعال کو اللہ کے افعال بنا دیا اور وہ یہ نہیں کہتا کہ یہ افعال بندوں کے ہیں ۔ اشعری کا مشہور قول یہی ہے۔ مگر مجاز کے طور پر۔ بلکہ وہ کہتا ہے کہ یہ بندوں کا کسب ہے۔ اور وہ کسب کی تفسیر یہ بیان کرتے ہیں کہ کسب قدرتِ محدثہ کے محل میں حاصل ہونے والی شے کا نام ہے؛ جو اس محل سے ملی ہو اور امام مالک، شافعی اور احمد کے اصحاب کی ایک جماعت نے اس قول میں ان کی موافقت کی ہے۔

جبکہ اکثر لوگوں نے اس کلام پر طعن کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تین کلام بے حد عجیب ہیں :

(۱) طفرۃ النظام

(۲) ابو ہاشم کے احوال

(۳) اور اشعری کا کسب۔ لوگوں نے اس بارے یہ شعر بھی کہا ہے:

’’کہی جانے والی بے حقیقت باتوں میں سے، جو معقول اور افہام کے قریب ہیں ، چند یہ ہیں : اشعری کے نزدیک کسب، بہشمی کے نزدیک حال اور نظام کا طفرہ (چھلانگ)۔‘‘

جبکہ جملہ اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ بندوں کے افعال حقیقت میں ان کے افعال ہیں ۔ یہ اشعری کے دو اقوال میں سے ایک ہے؛ اور ان کے جمہور جو خلق اور مخلوق میں فرق کرتے ہیں ، یہ کہتے ہیں : اللہ کی مخلوق اس کے مفعول ہیں اور یہ اس کا نفس فعل اور اس کا وہ فعل خلق نہیں ہیں جو اس کی ایسی صفت جو اس کے ساتھ قائم ہو۔

یہ ان شنیع اقوال میں سے چند اقوال ہیں جن کی طرف جمہور اہل سنت کے اقوال کی روشنی میں سرے سے التفات کیا ہی نہیں جانا چاہیے اور ان کو اشعری وغیرہ مثبتہ جماعت پر ردّ کر دینا چاہیے۔

ظلم کی تفسیر میں اہل سنت والجماعت کے ہاں اختلاف ہے ‘جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔

اگر اس سے مراد یہ ہے کہ وہ فعل جو بندے کی جانب سے ظلم وعبث ہے ‘تو پھر اس کے اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہونے میں کوئی ایسی ممنوع بات بھی نہیں ۔[[ اہل سنت اللہ تعالیٰ کو افعالِ عباد کا خالق قرار دیتے ہیں ۔ قرآن کریم میں فرمان الٰہی ہے:﴿ہُوَ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ﴾ (الانعام:۱۲۰ ) ’’وہ ہر چیز کا خالق ہے۔‘‘]]

جمہور اہل سنت والجماعت یہ نہیں کہتے کہ : یہ ظلم و عبث اللہ تعالیٰ کا فعل ہے۔ بلکہ وہ کہتے ہیں : یہ بندے کا فعل ہے ‘ مگر تخلیق اللہ تعالیٰ کی ہے۔ جیساکہ انسانی قدرت ‘اس کی سمع و بصارت اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے ‘ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی سمع و بصارت اور قدرت ہر گز نہیں ہے۔[[(منہاج السنہ میں اس کی مزید تفصیل یہ ہے کہ : ظلم کا صدور اس شخص سے ہوتا ہے جو اس کا مرتکب ہوتا ہے۔ ظلم کا پیدا کرنے والا(ذاتِ اللہ تعالیٰ) ظالم نہیں ہو جاتا۔ غور کیجیے کہ عبادات، روزہ اور حج وغیرہ کو بھی اسی نے پیدا کیا ہے، مگر ان کو پیدا کرنے سے وہ عابد، روزہ دار اور حاجی نہیں بن گیا۔اسی طرح بھوک کو بھی اسی نے پیدا کیا، مگر وہ بھوکا نہیں بن گیا۔ تو پھر ظلم کی تخلیق سے وہ ظالم کیوں کر ٹھہرا؟قاعدہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ جب کسی جگہ کسی صفت یا فعل کو پیدا کرتا ہے تو وہ اس فعل یا صفت سے متصف نہیں ہوتا۔اگر ایسا ہوتا تو اسے تمام پیدا کردہ اَعراض(جمع عَرض وہ چیز جو بذاتِ خود قائم نہ ہو بلکہ اس کا وجود کسی چیز کے باعث ہو) کے ساتھ موصوف کردیا جاتا۔[دراوی جی ]