فصل: الزام : اللہ تعالیٰ وہ کام نہیں کرتے جو زیادہ مناسب ہو
امام ابنِ تیمیہؒفصل:
الزام : اللہ تعالیٰ وہ کام نہیں کرتے جو زیادہ مناسب ہو
[اعتراض] :شیعہ کہتے ہیں : ’’ اہل سنت کے نزدیک اللہ تعالیٰ وہ کام نہیں کرتا جو بندوں کے لیے اصلح ہو، بلکہ وہ ایسے کام کرتا ہے جو فساد کے موجب ہوں ،مثلاً کفر و عصیان وغیرہ ۔پورے عالم میں ہونے والا ہر قسم کافساد اللہ تعالیٰ کی جانب منسوب کرتے ہیں ۔(تَعَالَی اللّٰہُ عَنْ ذٰلِکَ)۔
[جواب]:ہم کہتے ہیں کہ:’’ بیشک بعض اہل سنت اوربعض شیعہ کا نقطۂ نظر یہی ہے ۔مگران کے جمہور اور ائمہ اہل سنت اس کے خلاف ہیں ۔بلکہ ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جملہ اشیاء کارب اور خالق و مالک ہے۔ اور کوئی بھی چیز اللہ تعالیٰ کی خلقت ‘اس کے ملک اور قدرت سے باہر نہیں ہوسکتی ۔ اس میں تمام حیوانات کے افعال بھی داخل ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ اور مؤمنین [کو بھی پیدا کیا]اور ان کی حرکات، عبادات اور ارادات کو بھی پیدا کیا۔منکرین تقدیر اس چیز کو اللہ تعالیٰ کے اختیار وملکیت سے خارج قرار دیتے ہیں جو خود اس کی ملکیت ہے۔ جیسے :انبیاء، اولیاء ؛ ملائکہ اور مؤمنین کی اطاعت و عبادت ۔ منکرین تقدیر کا عقیدہ یہ ہے کہ باری تعالیٰ نے عبادت کو پیدا نہیں کیا، وہ بندے کو عبادت پر لگا سکتا ہے نہ اس کے ذہن میں عبادت کا خیال القاء کر سکتا ہے وہ کسی کو ہدایت عطا کرنے پر بھی قادر نہیں ۔اور نہ ہی ان امور کے تارک کو ان کے بجالانے پر قادر کرسکتا ہے۔جب کہ قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبانی منقول ہے:
﴿رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَا اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ﴾ (البقرۃ:۱۲۸)
’’اے ہمارے رب! ہم دونوں کو اپنے اطاعت شعار بنا لے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک مسلم جماعت تیار کردے۔‘‘
آپ نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی فرمائی کہ وہ مہربان ذات انہیں مسلمان بنا دے؛اور ان کی اولاد میں سے بھی ایک مسلمان امت پیدافرمائے ۔یہ آیت واضح طور پر بتا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو فاعل بنانے پر قادر ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ﴾ (ابراہیم:۴۰)
’’اے میرے رب مجھے نماز کا پابند بنادے؛ اور میری اولاد کو بھی۔‘‘
اس آیت میں ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے دعا کررہے ہیں کہ وہ مہربان ذات آپ کو نماز کا پابند بنادے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نمازی کو نماز ی بناتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے چمڑے اور اعضاء کے بارے میں خبر دی ہے ؛ [کہ روز قیامت یہ بول پڑیں گے ] اور پھر اس خبر کی تصدیق نقل کی ہے ۔ فرمان الٰہی ہے:
﴿قَالُوْا اَنطَقَنَا اللّٰہُ الَّذِیْ اَنطَقَ کُلَّ شَیْئٍ ﴾ [فصلت۲۱]
’’وہ کہیں گے: ہمیں اس اللہ نے بلوا دیا جس نے ہر چیز کو بلوایا۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو تمام بولنے والوں کو بلواتا ہے ۔
جہاں تک اس مسئلہ کا تعلق ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے وہ کام نہیں کرتا جو ان کے لیے اصلح ہو۔یا بندوں کی مصلحت کا خیال نہیں کرتا۔یہ ایسا مسئلہ ہے جس میں لوگوں کا اختلاف ہے۔ قائلین تقدیر میں سے ایک جماعت یہی عقیدہ رکھتی ہے۔ ان کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ کا خلق و امر اس کی مشیت کے تابع ہے کسی مصلحت پر موقوف نہیں ۔یہ جہمیہ کا عقیدہ ہے۔
اس کے عین برعکس جمہور علماء یہ رائے رکھتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ بندوں کو اسی بات کا حکم دیتا ہے جس میں ان کی فلاح و بہبود مضمر ہوتی ہے، اور اسی چیز سے روکتا ہے جو باعث فساد ہوتی ہے۔اگر ماموربہ فعل کو انجام دیا گیا تو اس سے تمام لوگوں کے لیے مصلحت حاصل ہوتی ہے ۔ انبیاء علیہم السلام کی بعثت بھی مصلحت عامہ کے تحت عمل میں آئی ہے۔ اگر بعض لوگوں کو ان کی معصیت کی وجہ سے نقصان پہنچتا ہو تو بھی یہ مبنی برحکمت ہے۔بیشک اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس عرش کے اوپر ایک کتاب میں لکھ رکھا ہے : ’’میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے ۔‘‘
ایک روایت میں آتا ہے : ’’ میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی ہے ۔‘‘[اس حدیث کی تخریج گزر چکی ہے ]۔
ان کا عقیدہ ہے کہ مامور بہ کا بجالانا اور محذورات کا ترک کرنا اس فاعل اور تارک کے لیے مصلحت ہے۔ جب کہ خود نفس امر ‘اور رسولوں کی بعثت میں تمام لوگوں کے لیے عام مصلحت ہے؛ اگرچہ یہ بعض لوگوں کے لیے شر کو بھی متضمن ہو۔یا پھر ان کے لیے ضرر کا سبب ہو۔جیسا کہ گناہ۔ایسے ہی اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے تمام افعال پر مصلحت ‘ رحمت اور منفعت غالب ہوتی ہے ۔
اکثر محدثین، فقہاء، صوفیاء اور معتزلہ کو چھوڑ کر ؛ اہل کلام یہی عقیدہ رکھتے ہیں ۔ ان کا قول ہے کہ اللہ کی پیدا کردہ اشیاء میں بعض ضرر رساں بھی ہیں مثلاً گناہ۔ تاہم یہ کہنا پڑے گا کہ ان میں کوئی دوسری حکمت و مصلحت ضرور ہے جس کی بناء پر ان کی تخلیق عمل میں آئی۔ اوریہ کہ اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے۔ یہ مسائل دوسرے مقامات پر تفصیل سے بیان کیے جا چکے ہیں ۔
انہوں نے تو صرف اقوال ہی بیان کیے ہیں ۔ ہم نے ان میں غلط اور صحیح اقوال کو واضح کر دیا ہے اور جن اقوال کو یہ نقل کر رہا ہے وہ اس کے رافضی شیوخ کا کلام نہیں ۔ بلکہ یہ معتزلہ کے کلام میں سے ہے۔ جیسے ابو علی، ابو ہاشم اور ابو الحسین بصری وغیرہ کے اصحاب؛ اور دیگر حضرات ۔
ان لوگوں نے بالخصوص اشعریہ کا ردّ کیا ہے۔ کیونکہ اشعریہ اور قدر کو ثابت کرنے والے بعض لوگوں نے جہم بن صفوان کی اصل ’’جبر‘‘ میں ان کی موافقت کی ہے۔ اگرچہ انھوں نے جہم سے قدرے لفظی نزاع بھی کیا ہے اور بڑی غیر معقول باتیں کی ہیں ۔ لیکن انھوں نے نفی صفات میں جہم کی موافقت نہیں کی۔ بلکہ انھوں نے صفات کا اثبات کیا ہے۔ اسی لیے ان لوگوں نے تقدیر کے مسائل میں معتزلہ کی مخالفت میں بے حد مبالغہ کیا ہے۔ یہاں تک کہ انھیں ’’جبریہ‘‘ کہا جانے لگا اور انھوں نے حیوان میں موجود قُویٰ اور طبائع تک کا انکار کر دیا کہ ان کی حوادث میں کوئی تاثیر یا سببیت نہیں ہے اور نہ یہ کہا جائے کہ اس نے اس افعال و حوادث کو کیا ہے اور انھوں نے مخلوقات کے لیے کسی حکمت یا علت کے ہونے کا بھی انکار کر دیا۔
اسی لیے کہا گیا ہے کہ انھوں نے اس بات سے انکار کر دیا کہ اللہ بندوں کی جلبِ منفعت یا دفع مضرت کے لیے کوئی فعل کرتا ہے۔ یہ لوگ اس بات کے بھی قائل نہیں کہ وہ کسی بھی مصلحت کے لیے فعل نہیں کرتا۔ بلاشبہ یہ مکابرہ ہے بلکہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ نہ تو یہ اس پر واجب ہے اور اس سے اس کا وقوع لازم ہے اور کہتے ہیں کہ وہ کسی بات کے لیے یا کسی بات کے ذریعے کچھ نہیں کرتا۔ بلکہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے مل جاتی ہیں کیونکہ اس کا ارادہ دونوں کو ملا ہوتا ہے۔ پس وہ ایک کو اس کے ساتھی کے ساتھ کرتا ہے۔ نہ اس کی خاطر اور نہ اس کے ذریعے اور دونوں میں اقتران یہ عادتِ جاریہ کی بنا پر ہے نہ کہ اس لیے کہ دونوں میں سے ایک دوسرے کا سبب یا اس کی حکمت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ رب تعالیٰ نے قرآن میں جہاں بھی اپنے خلق و امر کو بیان کیا ہے لامِ تعلیل کے بغیر بیان کیا ہے۔ امام احمد، مالک اور شافعی وغیرہ کی ایک جماعت نے اس بات میں ان کی موافقت کی ہے۔ باوجودیکہ یہی فقہاء جو کتب کلام میں اس بابت ان کی موافقت کرتے ہیں ، فقہ، تفسیر، حدیث اور دلائل فقہ کے بیشتر مسائل میں ان کے خلاف قول کرتے ہیں ۔ جبکہ اصول فقہ میں ان کا کلام کبھی معتزلہ کے تو کبھی اہل سنت کے موافق ہوتا ہے۔ لیکن ان جملہ گروہوں میں سے جمہور اہل سنت اور دیگر جماعتیں تقدیر کو ثابت مانتی ہیں اور حکمت اور رحمت کو بھی ثابت کرتی ہیں اور یہ کہ اس کے فعل کی ایک غایت محبوبہ اور عاقبت محمودہ ضرور ہے۔ بے شک یہ مسائل بے حد عظیم ہیں اور دوسرے مواقع پر مفصل مذکور ہیں ۔
خلاصہ یہ ہے کہ معتزلہ اور شیعہ حکمت و رحمت کی کسی نوع کو ثابت نہیں کرتے۔ وگرنہ ائمہ اہل سنت نے اس سے زیادہ کامل اور اس سے زیادہ بزرگ حکمت و رحمت کو ثابت کیا ہے اور وہ رب تعالیٰ کی قدرتِ تامہ، مشیت نافذہ اور خلقت عامہ کو بھی ثابت کرتے ہیں ۔
جبکہ معتزلہ اس کو ثابت نہیں کرتے اور شیعہ کے متقدمین متکلمین جیسے ہشامَین وغیرہما قدر کو دوسروں کی طرح ثابت کیا کرتے تھے۔ جبکہ زیدیہ شیعہ میں سے کوئی تو قدر کے اثبات کا قائل تھا اور کوئی قائل نہیں تھا۔ شیعہ کے قدر کے بارے میں دو اقوال ہیں ۔
پس اہل سنت کے ہاں کوئی ضعیف قول موجود نہیں ۔ البتہ شیعہ میں سے کسی کا قول ضعیف تو کسی کا ضعیف تر ہے۔ اور شیعہ کے ہاں سرے سے کوئی قوی قول نہیں پایا جاتا ہاں اہل سنت میں قوی قول بھی ہے اور قوی تر بھی ہے۔ لہٰذا یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ شیعوں میں کسی نے ایسا قوی قول کیا ہوا جو اہل سنت میں پایا نہ جاتا ہو۔ پس ثابت ہوا کہ اہل سنت ہر خیر کے شیعہ سے زیادہ قریب ہیں جیسا کہ مسلمان ہر خیر کے یہود و نصاری سے زیادہ قریب ہیں ۔